Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Imran (65.3)     سورة آل عمران

12

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔

تُقَاةٌ وَتَقِيَّةٌ وَاحِدَةٌ ‏{‏صِرٌّ‏}‏ بَرْدٌ ‏{‏شَفَا حُفْرَةٍ‏}‏ مِثْلُ شَفَا الرَّكِيَّةِ، وَهْوَ حَرْفُهَا ‏{‏تُبَوِّئُ‏}‏ تَتَّخِذُ مُعَسْكَرًا، الْمُسَوَّمُ الَّذِي لَهُ سِيمَاءٌ بِعَلاَمَةٍ أَوْ بِصُوفَةٍ أَوْ بِمَا كَانَ ‏{‏رِبِّيُّونَ‏}‏ الْجَمِيعُ، وَالْوَاحِدُ رِبِّيٌّ ‏{‏تَحُسُّونَهُمْ‏}‏ تَسْتَأْصِلُونَهُمْ قَتْلاً‏.‏ ‏{‏غُزًّا‏}‏ وَاحِدُهَا غَازٍ ‏{‏سَنَكْتُبُ‏}‏ سَنَحْفَظُ ‏{‏نُزُلاً‏}‏ ثَوَابًا، وَيَجُوزُ وَمُنْزَلٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ كَقَوْلِكَ أَنْزَلْتُهُ‏.‏ وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏:‏ وَالْخَيْلُ الْمُسَوَّمَةُ الْمُطَهَّمَةُ الْحِسَانُ‏.‏ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى الرَّاعِيَةُ الْمُسَوَّمَةُ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ ‏{‏وَحَصُورًا‏}‏ لاَ يَأْتِي النِّسَاءَ‏.‏ وَقَالَ عِكْرِمَةُ ‏{‏مِنْ فَوْرِهِمْ‏}‏ مِنْ غَضَبِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ‏.‏ وَقَالَ مُجَاهِدٌ ‏{‏يُخْرِجُ الْحَىَّ‏}‏ النُّطْفَةُ تَخْرُجُ مَيِّتَةً وَيُخْرِجُ مِنْهَا الْحَىَّ‏.‏ الإِبْكَارُ أَوَّلُ الْفَجْرِ، وَالْعَشِيُّ مَيْلُ الشَّمْسِ ـ أُرَاهُ ـ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ‏.‏

تقاۃٌ و تقیّۃٌ دونوں کا معنی ایک ہے یعنی بچاؤ کرنا صرٌ کا معنی سردی (پالا) شفا حُفرۃٍ گڑھے کا کنارہ جیسے کچّے کنویں کا کنارہ ہوتا ہے ۔تبوّی یعنے لشکر کے مقامات تجویز کرتا ہے (مورچے) ربّیون جمع اس کا مفرد ربّی ہے(نعنی اللہ والا ) تحسُّنھم ان کو قتل کر کے جڑ پیڑ سے اکھاڑتے ہو ۔غزّا جمع ہے غازی کی (یعنی جہاد کرنے والا) سنکتُبُ کا معنے ہم کو یاد رہے گا۔نُزّلاً کا معنے ثواب اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نزل اسم مفعول کے معنوں میں یعنی اللہ کی طرف سے اتارا گیا۔جیسے کہتے ہیں اَنزَلتہ معنی میں نے اس کو اتارا ۔الخیل المسومۃ میں مسوّم اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی نشانی مثلاً پشم یا اور کوئی نشانی اور مجاہدؒ نے کہا الخیل المسومہ کا معنی موٹے موٹے اچھے گھوڑے اور سعید بن جبیرؒ اور عبداللہ بن ابزی نے کہا کہ الواعیۃ معنی مسومہ ہے(یعنی نشان زدہ) اور سعید بن جبیر نے کہا حصور اس شخص کو کہتے ہیں جو عورتوں کی طرف مائل نہ ہو اور عکرمہ نے کہا من فورھم کا معنی بدر کے دن غصّے اور جوش سے اور مجاہد نے کہا یخرج الحیّ من المیّت یعنی نطفہ بے جان ہوتا ہے اس سے جاندار پیدا ہوتا ہے ابکار صبح سویرے عشیّ سورج ڈھلنے سے سورج ڈوبےتک جو وقت ہوتا ہے ۔

 

Chapter No: 1

باب ‏{‏مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ‏}‏

"In it are Verses that are entirely clear." (V.3:7)

باب : منہ آیات محکمات ھنّ امّ الکتاب و أخر متشابھات۔

وَقَالَ مُجَاهِدٌ الْحَلاَلُ وَالْحَرَامُ ‏{‏وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ‏}‏ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، كَقَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ‏}‏ وَكَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ ‏{‏وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ‏}‏ وَكَقَوْلِهِ ‏{‏وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى‏}‏ ‏{‏زَيْغٌ‏}‏ شَكٌّ ‏{‏ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ‏}‏ الْمُشْتَبِهَاتِ ‏{‏وَالرَّاسِخُونَ‏}‏ يَعْلَمُونَ ‏{‏يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ ‏}‏الآية

مجاہد نے کہا محکمات سے حلال اور حرام مراد ہے وَ اُخَرُ مُتَشَابِھَاتُ کا مطلب ہے کہ دوسری آیتیں جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ایک کی ایک تصدیق کرتی ہے جیسے یہ آیتیں ہیں وما یضل بہ الا الفاسقین ویجعل الرجس علی الذین لا یعقلون والذین اھتدوا زادھم ھدی واٰتاھم تقواھم ان تینوں آیتوں میں کسی حلال و حرام کا بیان نہیں ہے تو متشابہ ٹھہریں زیغُ شک،ابتغاء الفتنۃ میں فتنہ سے مراد متشابھات کی پیروی کرنا انکے مطلب کا کھوج کرنا اور جو لوگ راسخین فی العلم یعنے پکّے علم والے ہیں وہ ان متشابھات کے معنی جانتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ان پر ایمان لائے یہ سب آیتیں (محکم ہو یا متشابہ) ہمارے پروردگار کی طرف سے اُتری ہے(ہمارا کام مان لینا ہے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ تَلاَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هَذِهِ الآيَةَ ‏{‏هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏أُولُو الأَلْبَابِ‏}‏ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ، فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ، فَاحْذَرُوهُمْ ‏"‏‏.‏

Narrated By 'Aisha : Allah's Apostle recited the Verse: "It is He who has sent down to you the Book. In it are Verses that are entirely clear, they are the foundation of the Book, others not entirely clear. So as for those in whose hearts there is a deviation (from the Truth). follow thereof that is not entirely clear seeking affliction and searching for its hidden meanings; but no one knows its hidden meanings but Allah. And those who are firmly grounded in knowledge say: "We believe in it (i.e. in the Qur'an) the whole of it (i.e. its clear and unclear Verses) are from our Lord. And none receive admonition except men of understanding." (3.7) Then Allah's Apostle said, "If you see those who follow thereof that is not entirely clear, then they are those whom Allah has named [as having deviation (from the Truth)] 'So beware of them."

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے اس آیت کی تلاوت کی «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله‏» یعنی وہ وہی اللہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری ہے، اس میں محکم آیتیں ہیں اور وہی کتاب کی اصل بنیاد ہے اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ سو وہ لوگ جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے۔ وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے لگ جاتے ہیں جو متشابہ ہیں، فتنے کی تلاش میں اور اس کی غلط تاویل کی تلاش میں۔ آخر آیت «أولو الألباب‏» تک۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی ﷺنے فرمایا : جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوں تو یاد رکھو کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے اصحاب زیغ رکھا ہے ۔ ایسے لوگوں سے اجتناب کرو۔

Chapter No: 2

باب ‏{‏وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ‏}‏

"... And I seek refuge with You (Allah) for her and her offspring from Shaitan (Satan), the outcast." (V.3:36)

باب : اللہ کے اس قول وَاِنِّی اُعِیذُ ھَا بِکَ وَ ذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ ۔ کی تفسیر۔

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلاَّ وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ إِيَّاهُ، إِلاَّ مَرْيَمَ وَابْنَهَا ‏"‏‏.‏ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ ‏{‏وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ‏}‏

Narrated By Said bin Al-Musaiyab : Abu Huraira said, "The Prophet said, 'No child is born but that, Satan touches it when it is born where upon it starts crying loudly because of being touched by Satan, except Mary and her Son." Abu Huraira then said, "Recite, it you wish: "And I seek Refuge with You (Allah) for her and her offspring from Satan, the outcast." (3.36)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا ئے مریم اور ان کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم» یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔

Chapter No: 3

‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ‏}‏ لاَ خَيْرَ {وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ }

"Verily, those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths, they shall have no portion in the Hereafter ... and they shall have a painful torment." (V.3:77)

باب : اللہ کے اس قول اِنَّ الَّذِینَ یَشتَرُونَ بَعَھدِ اللہِ وَ اَیمَانِھِم ثَمَنًا قَلِیلًا أُولًٰئکَ لَا خَلَاقَ لَھُم فِی الاًخرَۃِ وَ لَھُم عَذَابٌ ألِیمٌ ۔ کی تفسیر۔

مُؤْلِمٌ مُوجِعٌ مِنَ الأَلَمِ، وَهْوَ فِي مَوْضِعِ مُفْعِلٍ‏

لا خلاق لھم کا معنی یعنی ان کو آخرت میں بھلائی نہ ہو گی اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا۔ الیم دکھ دینے والا جیسے مولم یہ فعیل ہے بمعنی مفعل ہے(جو کلام عرب میں کم آیا ہے)

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ يَمِينَ صَبْرٍ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ‏"‏‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ‏.‏ ـ قَالَ فَدَخَلَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ وَقَالَ مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قُلْنَا كَذَا وَكَذَا‏.‏ قَالَ فِيَّ أُنْزِلَتْ كَانَتْ لِي بِئْرٌ فِي أَرْضِ ابْنِ عَمٍّ لِي قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بَيِّنَتُكَ أَوْ يَمِينُهُ ‏"‏ فَقُلْتُ إِذًا يَحْلِفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانٌ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Wail : 'Abdullah bin Masud said, "Allah's Apostle said, 'Whoever takes an oath when asked to do so, in which he may deprive a Muslim of his property unlawfully, will meet Allah Who will be angry with him.' So Allah revealed in confirmation of this statement: "Verily! Those who Purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and oaths, they shall have no portion in the Hereafter..." (3.77) Then entered Al-Ash'ath bin Qais and said, "What is Abu 'Abdur-Rahman narrating to you?" We replied, 'So-and-so." Al-Ash'ath said, "This Verse was revealed in my connection. I had a well in the land of my cousin (and he denied my, possessing it). On that the Prophet said to me, 'Either you bring forward a proof or he (i.e. your cousin) takes an oath (to confirm his claim)' I said, 'I am sure he would take a (false) oath, O Allah's Apostle.' He said, 'If somebody takes an oath when asked to do so through which he may deprive a Muslim of his property (unlawfully) and he is a liar in his oath, he will meet Allah Who will be angry with him.'"

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنے کےلیے جھوٹی قسم اٹھائے ، تو جب وہ اللہ تعالیٰ سےملاقات کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضبناک ہوں گے۔پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة» بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ آخر آیت تک۔ ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا: ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا :کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبیﷺکی خدمت میں پیش ہوا تو) آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہﷺ! وہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنے کی نیت سے جھوٹی قسم اٹھائے ، تو جب وہ اللہ تعالیٰ سےملاقات کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضبناک ہوں گے۔


حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ يَمِينَ صَبْرٍ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ‏"‏‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ‏.‏ قَالَ فَدَخَلَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ وَقَالَ مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قُلْنَا كَذَا وَكَذَا‏.‏ قَالَ فِيَّ أُنْزِلَتْ كَانَتْ لِي بِئْرٌ فِي أَرْضِ ابْنِ عَمٍّ لِي قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بَيِّنَتُكَ أَوْ يَمِينُهُ ‏"‏ فَقُلْتُ إِذًا يَحْلِفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانٌ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Wail : 'Abdullah bin Masud said, "Allah's Apostle said, 'Whoever takes an oath when asked to do so, in which he may deprive a Muslim of his property unlawfully, will meet Allah Who will be angry with him.' So Allah revealed in confirmation of this statement: "Verily! Those who Purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and oaths, they shall have no portion in the Hereafter..." (3.77) Then entered Al-Ash'ath bin Qais and said, "What is Abu 'Abdur-Rahman narrating to you?" We replied, 'So-and-so." Al-Ash'ath said, "This Verse was revealed in my connection. I had a well in the land of my cousin (and he denied my, possessing it). On that the Prophet said to me, 'Either you bring forward a proof or he (i.e. your cousin) takes an oath (to confirm his claim)' I said, 'I am sure he would take a (false) oath, O Allah's Apostle.' He said, 'If somebody takes an oath when asked to do so through which he may deprive a Muslim of his property (unlawfully) and he is a liar in his oath, he will meet Allah Who will be angry with him.'"

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنے کےلیے جھوٹی قسم اٹھائے ، تو جب وہ اللہ تعالیٰ سےملاقات کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضبناک ہوں گے۔پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة» بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ آخر آیت تک۔ ابووائل نے بیان کیا کہ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا: ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا :کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا (ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا اور مقدمہ نبیﷺکی خدمت میں پیش ہوا تو) آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہﷺ! وہ (جھوٹی) قسم کھا لے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرنے کی نیت سے جھوٹی قسم اٹھائے ، تو جب وہ اللہ تعالیٰ سےملاقات کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضبناک ہوں گے۔


حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ـ هُوَ ابْنُ أَبِي هَاشِمٍ ـ سَمِعَ هُشَيْمًا، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَجُلاً، أَقَامَ سِلْعَةً فِي السُّوقِ فَحَلَفَ فِيهَا لَقَدْ أَعْطَى بِهَا مَا لَمْ يُعْطَهُ‏.‏ لِيُوقِعَ فِيهَا رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَنَزَلَتْ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ‏.

Narrated By 'Abdullah bin Abu Aufa : A man displayed some merchandise in the market and took an oath that he had been offered a certain price for it while in fact he had not, in order to cheat a man from the Muslims. So then was revealed: "Verily! Those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths..."(3.77)

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا ایک شخص نے بازار میں (بیچنے کےلیے ) سامان لگایا، پھر قسم اٹھائی کہ اسے اس سامان کے اتنے دام مل رہے تھے ، حالانکہ اس شخص کو وہ قیمت نہیں دی گئی تھی۔ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو اپنے جال میں پھنسائے (اور اسے ٹھگ لے) اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏» بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت خریدتے ہیں ۔


حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ، كَانَتَا تَخْرِزَانِ فِي بَيْتٍ ـ أَوْ فِي الْحُجْرَةِ ـ فَخَرَجَتْ إِحْدَاهُمَا وَقَدْ أُنْفِذَ بِإِشْفًى فِي كَفِّهَا، فَادَّعَتْ عَلَى الأُخْرَى، فَرُفِعَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لَذَهَبَ دِمَاءُ قَوْمٍ وَأَمْوَالُهُمْ ‏"‏‏.‏ ذَكِّرُوهَا بِاللَّهِ وَاقْرَءُوا عَلَيْهَا ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ‏}‏‏.‏ فَذَكَّرُوهَا فَاعْتَرَفَتْ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Ibn Abu Mulaika : Two women were stitching shoes in a house or a room. Then one of them came out with an awl driven into her hand, and she sued the other for it. The case was brought before Ibn 'Abbas, Ibn 'Abbas said, "Allah's Apostle said, 'If people were to be given what they claim (without proving their claim) the life and property of the nation would be lost.' Will you remind her (i.e. the defendant), of Allah and recite before her: "Verily! Those who purchase a small gain at the cost of Allah's Covenant and their oaths..."(3.77) So they reminded her and she confessed. Ibn 'Abbas then said, "The Prophet said, 'The oath is to be taken by the defendant (in the absence of any proof against him)."

ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا: کہ دو عورتیں کسی گھر یا حجرہ میں بیٹھ کر موزے بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی اس کے ہاتھ میں موزے سینے کا سوا چبھو دیا گیا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا۔ یہ مقدمہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا کہ اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے تو بہت ساروں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا۔ جب گواہ نہیں ہے تو دوسری عورت کو جس پر یہ الزام ہے، اللہ سے ڈراؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو «إن الذين يشترون بعهد الله‏» چنانچہ جب لوگوں نے اسے اللہ سے ڈرایا تو اس نے اقرار کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی ﷺنے فرمایا ہے، قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو اس کو اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو آیت میں بیان کی گئی ہے۔

Chapter No: 4

باب ‏{‏قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ‏}‏

"Say (O Muhammad (s.a.w)), 'O people of the Scripture! Come to a word that is just between us and you, that we worship none but Allah ...'" (V.3:64)

باب : اللہ کے اس قول قُل یا أھل الکِتابِ تَعَالَوا أِلَی کَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَینَنَا وَ بَینَکُم أن لَا نَعبُدَ أِلَّا اللہَ ۔ کی تفسیر۔

سَوَاءٌ قَصْدٌ‏

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مَعْمَرٍ،‏.‏ وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ، مِنْ فِيهِ إِلَى فِيَّ قَالَ انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ قَالَ ـ فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى هِرَقْلَ قَالَ وَكَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى ـ هِرَقْلَ ـ قَالَ فَقَالَ هِرَقْلُ هَلْ هَا هُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالُوا نَعَمْ‏.‏ قَالَ فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ، فَأُجْلِسْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا‏.‏ فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي، ثُمَّ دَعَا بِتُرْجُمَانِهِ فَقَالَ قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ‏.‏ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَايْمُ اللَّهِ، لَوْلاَ أَنْ يُؤْثِرُوا عَلَىَّ الْكَذِبَ لَكَذَبْتُ‏.‏ ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ قَالَ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ‏.‏ قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ أَيَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ‏.‏ قَالَ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ قَالَ قُلْتُ لاَ بَلْ يَزِيدُونَ‏.‏ قَالَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ، بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ، سَخْطَةً لَهُ قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ‏.‏ قَالَ فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ قَالَ قُلْتُ تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالاً، يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ‏.‏ قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قَالَ قُلْتُ لاَ وَنَحْنُ مِنْهُ فِي هَذِهِ الْمُدَّةِ لاَ نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا‏.‏ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ‏.‏ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ لاَ‏.‏ ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ فَقُلْتَ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالاً، يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى، ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لاَ يَغْدِرُ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ‏.‏ قَالَ ثُمَّ قَالَ بِمَ يَأْمُرُكُمْ قَالَ قُلْتُ يَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ‏.‏ قَالَ إِنْ يَكُ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَمْ أَكُ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَىَّ‏.‏ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ ‏"‏ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ، إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ، وَ‏{‏يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ‏}‏‏"‏‏.‏ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ عِنْدَهُ، وَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا قَالَ فَقُلْتُ لأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، أَنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَىَّ الإِسْلاَمَ‏.‏ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَدَعَا هِرَقْلُ عُظَمَاءَ الرُّومِ فَجَمَعَهُمْ فِي دَارٍ لَهُ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الرُّومِ، هَلْ لَكُمْ فِي الْفَلاَحِ وَالرَّشَدِ آخِرَ الأَبَدِ، وَأَنْ يَثْبُتَ لَكُمْ مُلْكُكُمْ قَالَ فَحَاصُوا حَيْصَةَ حُمُرِ الْوَحْشِ إِلَى الأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِقَتْ، فَقَالَ عَلَىَّ بِهِمْ‏.‏ فَدَعَا بِهِمْ فَقَالَ إِنِّي إِنَّمَا اخْتَبَرْتُ شِدَّتَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكُمُ الَّذِي أَحْبَبْتُ‏.‏ فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Abu Sufyan narrated to me personally, saying, "I set out during the Truce that had been concluded between me and Allah's Apostle. While I was in Sham, a letter sent by the Prophet was brought to Heraclius. Dihya Al-Kalbi had brought and given it to the governor of Busra, and the latter forwarded it to Heraclius. Heraclius said, 'Is there anyone from the people of this man who claims to be a prophet?' The people replied, 'Yes.' So I along with some of Quraishi men were called and we entered upon Heraclius, and we were seated in front of him. Then he said, 'Who amongst you is the nearest relative to the man who claims to be a prophet?' So they made me sit in front of him and made my companions sit behind me. Then he called upon his translator and said (to him). 'Tell them (i.e. Abu Sufyan's companions) that I am going to ask him (i.e. Abu Sufyan) regarding that man who claims to be a prophet. So, if he tell me a lie, they should contradict him (instantly).' By Allah, had I not been afraid that my companions would consider me a liar, I would have told lies. Heraclius then said to his translator, 'Ask him: What is his (i.e. the Prophet's) family status amongst you? I said, 'He belongs to a noble family amongst us." Heraclius said, 'Was any of his ancestors a king?' I said, 'No.' He said, 'Did you ever accuse him of telling lies before his saying what he has said?' I said, 'No.' He said, 'Do the nobles follow him or the poor people?' I said, 'It is the poor who followed him.' He said, 'Is the number of his follower increasing or decreasing?' I said, 'The are increasing.' He said, 'Does anyone renounce his religion (i.e. Islam) after embracing it, being displeased with it?' I said, 'No.' He said, 'Did you fight with him?' I replied, 'Yes.' He said, 'How was your fighting with him?' I said, 'The fighting between us was undecided and victory was shared by him and us by turns. He inflicts casualties upon us and we inflict casualties upon him.' He said, 'Did he ever betray?' I said, 'No, but now we are away from him in this truce and we do not know what he will do in it" Abu Sufyan added, "By Allah, I was not able to insert in my speech a word (against him) except that. Heraclius said, 'Did anybody else (amongst you) ever claimed the same (i.e. Islam) before him? I said, 'No.' Then Heraclius told his translator to tell me (i.e. Abu Sufyan), 'I asked you about his family status amongst you, and you told me that he comes from a noble family amongst you Verily, all Apostles come from the noblest family among their people. Then I asked you whether any of his ancestors was a king, and you denied that. Thereupon I thought that had one of his fore-fathers been a king, I would have said that he (i.e. Muhammad) was seeking to rule the kingdom of his fore-fathers. Then I asked you regarding his followers, whether they were the noble or the poor among the people, and you said that they were only the poor (who follow him). In fact, such are the followers of the Apostles. Then I asked you whether you have ever accused him of telling lies before saying what he said, and your reply was in the negative. Therefore, I took for granted that a man who did not tell a lie about others, could ever tell a lie about Allah. Then I asked you whether anyone of his followers had renounced his religion (i.e. Islam) after embracing it, being displeased with it, and you denied that. And such is Faith when it mixes with the cheerfulness of the hearts. Then I asked you whether his followers were increasing or decreasing You claimed that they were increasing. That is the way of true faith till it is complete. Then I asked you whether you had ever fought with him, and you claimed that you had fought with him and the battle between you and him was undecided and the victory was shared by you and him in turns; he inflicted casual ties upon you and you inflicted casualties upon them. Such is the case with the Apostles; they are out to test and the final victory is for them. Then I asked you whether he had ever betrayed; you claimed that he had never betrayed. I need, Apostles never betray. Then I asked you whether anyone had said this statement before him; and you denied that. Thereupon I thought if somebody had said that statement before him, then I would have said that he was but a man copying some sayings said before him." Abu Safyan said, "Heraclius then asked me, 'What does he order you to do?' I said, 'He orders us (to offer) prayers and (to pay) Zakat and to keep good relationship with the Kith and kin and to be chaste.' Then Heraclius said, 'If whatever you have said, is true, he is really a prophet, and I knew that he (i.e. the Prophet) was going to appear, but I never thought that he would be from amongst you. If I were certain that I can reach him, I would like to meet him and if I were with him, I would wash his feet; and his kingdom will expand (surely to what is under my feet.' Then Heraclius asked for the letter of Allah's Apostle and read it wherein was written: "In the Name of Allah, the Most Beneficent, the Most Merciful. This letter is) from Muhammad, Apostle of Allah, to Heraclius, the sovereign of Byzantine... Peace be upon him who follows the Right Path. Now then, I call you to embrace Islam. Embrace Islam and you will be saved (from Allah's Punishment); embrace Islam, and Allah will give you a double reward, but if you reject this, you will be responsible for the sins of all the people of your kingdom (Allah's Statement): "O the people of the Scripture (Jews and Christians)! Come to a word common to you and us that we worship None but Allah... bear witness that we are Muslims.' (3.64) When he finished reading the letter, voices grew louder near him and there was a great hue and cry, and we were ordered to go out." Abu Sufyan added, "While coming out, I said to my companions, 'The situation of Ibn Abu Kabsha (i.e. Muhammad) has become strong; even the king of Banu Al-Asfar is afraid of him.' So I continued to believe that Allah's Apostle would be victorious, till Allah made me embrace Islam." Az-Zuhri said, "Heraclius then invited all the chiefs of the Byzantines and had them assembled in his house and said, 'O group of Byzantines! Do you wish to have a permanent success and guidance and that your kingdom should remain with you?' (Immediately after hearing that), they rushed towards the gate like onagers, but they found them closed. Heraclius then said, 'Bring them back to me.' So he called them and said, 'I just wanted to test the strength of your adherence to your religion. Now I have observed of you that which I like.' Then the people fell in prostration before him and became pleased with him."

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: ابو سفیان بن حرب نے میرے سامنے یہ بیان دیا کہ جس مدت کے دروان میں میرے اور رسول اللہ ﷺکے درمیان (صلح حدیبیہ کا ) معاہدہ ہوا تھا ۔ میں ان دنوں ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوا۔ جب میں ملک شام میں تھا تو نبی ﷺکا ایک نامہ مباکر ہرقل کے پاس لایا گیا۔حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ اسے لیکر آئےتھے ۔ انہوں نے لاکر عظیم بصریٰ کے حوالے کردیا تھا اور عظیم بصریٰ نے وہ خط ہرقل کو پہنچایا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ ہرقل نے دریافت کیا: ہماری حدود سلطنت میں اسی مدعی نبوت کی قوم کا کوئی آدمی موجود ہے ؟ درباریوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے لوگوں کی معیت میں بلایا گیا ۔ جب ہم ہرقل کے دربار میں حاضرہوئے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھالیا اور پوچھنے لگا: یہ شخص جو خود کو نبی کہتا ہے تم میں سے کون اس کا قریبی رشتہ دار ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں اس کا قریبی رشتہ دار ہوں ، چنانچہ درباریوں نے مجھے اس کے بالکل سامنے اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھادیا ۔ اس کے ہرقل نے ترجمان کو بلایا اور اسے کہا: ان سے کہو کہ میں اس شخص سے اس مدعی نبوت کے متعلق کچھ سولات کروں گا۔ اگر یہ غلط بیانی کرے تو تم لوگوں نے اسے جھٹلا دینا ہے ۔ ابو سفیان کہتے ہیں : اللہ کی قسم! اگر غلط بیانی کرنے کی بدنامی کا مجھے ڈر نہ ہوتا تو میں آپ کے متعلق ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے ؟ میں نے کہا: وہ اونچے نسب والا ہے ۔ اس نے کہا: اس کے آباء و اجداد میں سے کوئی بادشاہ تھا ؟ میں نے کہا: نہیں ۔ اس نے کہا: تو کیا تم اس کے دعوائے نبوت سے پہلے اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے ؟ میں نے کہا: نہیں ۔ کہنے لگا: اچھا یہ بتاؤ کہ مال دار لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا غریبوں نے ؟ میں نے کہا: بلکہ اس کے پیرو کار غریب و نادار ہیں ۔وہ کہنے لگا: کیا اس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا ان کی تعداد کم ہورہی ہے؟ میں نے کہا: بلکہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ وہ کہنے لگا: کیا اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے متنفر ہوکر مرتد بھی ہوا ہے ؟ میں نے کہا: کبھی نہیں ۔ اس نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے اس سے کوئی جنگ لڑی ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں ۔ وہ کہنے لگا: پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟ میں نے کہا: جنگ ہمارے اور اس کے درمیان برابر کی چوٹ ہے ۔کبھی وہ ہمیں زک پہنچا دیتا ہے اور کبھی ہم اسے نقصان سے دوچار کردیتے ہیں ۔ وہ کہنے لگا : کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟ میں نے کہا: نہیں ، البتہ اس وقت ہم نے اس کے ساتھ صلح کا معاہدہ کررکھا ہے ، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرکے گا؟ ابو سفیان کہتے ہیں : مجھے اس جملے کے علاوہ اپنی طرف سے کوئی اور بات داخل کرنے کا موقع نہ ملا۔ ہرقل کہنے لگا: کیا یہ بات (دعوائے نبوت) اس سے پہلے بھی کسی نے کہی تھی ؟ میں نے جواب دیا: نہیں ۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: کہ تم اس شخص سے کہو: میں نے تم سے اس شخص کا نسب پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ اونچے نسب کا حامل ہے ۔ واقعی دستور بھی یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ اپنی قوم کے اونچے نسب ہی سے بھیجے جاتے ہیں ۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ آیا اس کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ تو تم نے اس بات کا انکار کیا ۔ میں کہتا ہوں اگر اس کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنی خاندانی سلطنت کا طلب گار ہے ۔ پھر میں نے تم سے اس کے پیروکاروں کی نسبت سوال کیا کہ وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا معزز حضرات؟ تمہارا جواب تھا کہ اس کی پیروی کرنے والے کمزور و ناتواں ہیں ۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پیغمبروں کے پیروکار اکثر ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ پھر میرا سوال تھا کہ تم نے کبھی اس پر دعوائے نبوت سے پہلے جھوٹ کا شبہ کیا ہے تو تمہارا جواب نفی میں تھا۔ تب میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ وہ لوگوں پر کذب بیانی سے اجتناب کرے لیکن اللہ پر جھوٹ باندھتا پھرے ۔ اور میں نے تم سے یہ بھی دریافت کیا کہ کبھی کوئی شخص اس کے دین میں داخل ہوکر نفرت کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے تو تمہارا جواب نفی میں تھا۔ بہرحال ایمان چیز ہی ایسی ہے جب اس کی چاشنی دل کے نہاں خانے میں اترجاتی ہے تو نکلتی نہیں ۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا روبہ انحطاط ہیں ؟ تو تم نے جواب دیا کہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ واقعی ایمان کا معاملہ ایسا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے ۔ میں نے تم سے یہ بھی پوچھا کہ کبھی تمہاری اس سے جنگ ہوئی ہے ؟ تم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا: کہ لڑائی تمہارے اور اس کے درمیان برابر کی چوٹ ہے ۔ کبھی وہ تمہیں نقصان سے دوچار کردیتے ہیں اور کبھی تم انہیں زک پہنچادیتے ہو۔ اسی طرح رسولوں کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے لیکن آخر کار انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے ۔ میں نے تم سے پوچھا :کیا اس نے کبھی بد عہدی کی ہے ؟ تم نے اس کا انکار کیا ہے ۔ حقیقت بھی ہی ہے کہ پیغمبر عہد شکنی نہیں کیا کرتے ۔ میرا سوال تھا آیا اس سے قبل بھی کسی نے ایسی بات کہیں تھی ۔ تم نے بتایا کہ نہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کررہا ہے جو اس سے قبل کہی جاچکی ہے ۔ ابو سفیان نے کہا: بعد ازاں اس نے دریافت کیا : وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ میں نے جواب دیا : وہ ہمیں نماز ، زکاۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ تب ہرقل نے کہا: جو کچھ تم نے اس کے متعلق بتایا ہے اگر وہ برحق ہے تو وہ یقینا نبی ہے ۔ مجھے اس بات کا علم تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے ۔ لیکن میرا یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے یقین ہو کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو ضرور اس سے ملاقات کو اپنے لیے سعادت خیال کرتا۔ اگر میں اس کے پاس حاضر ہوسکوں تو ضرور اس کے پاؤں دھوکر اس کی خدمت بجالاؤں ، نیز عنقریب اس شخص کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کررہے گی ۔ اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہ ﷺکا نامہ مبارک منگوایا ، اسے پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا: شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان ، نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد ﷺکی طرف سے روم کے بادشاہ ہر قل کے نام: اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے ۔ اما بعد! میں تجھے کلمہ اسلام (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی دعوت دیتا ہوں ۔ مسلمان ہوجاؤ تو محفوظ رہوگے ۔ اللہ تعالیٰ تجھے دو مرتبہ اجر دے گا۔اگر تم یہ بات نہیں مانوگے تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ اور اے اہل کتاب ! ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان یکساں مسلم ہے ۔ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں ۔ گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہیں ۔ جب ہرقل پڑھ چکا تو دربار میں آوازیں بلند ہونے لگیں اور بہت شورو غل اٹھا اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ میں نے باہر آکر اپنے ساتھیوں سے کہا: ابو کبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بڑا زور پکڑ گیا ہے ۔ اس سے تو روم کا بادشاہ بھی خوفزدہ ہے ۔ اس روز کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہ ﷺضرور غالب آکر رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل کیا۔ امام زہری کہتے ہیں پھر ہرقل نے روم کے بڑے بڑے سرداروں کو دعوت دی او رانہیں اپنے ایک خاص محل میں اکٹھا کیا ، پھر ان سے کہا: کیا تم اپنی کامیابی ، بھلائی اور ہمیشہ کےلیے اپنی بادشاہت پر قائم رہنا چاہتے ہو؟ (تو اسلام قبول کرلو) راوی کہتا ہے : یہ اعلان حق سنتے ہی وہ لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بدکتے ہوئے دروازوں کی طرف دوڑے ۔ دیکھا تو وہ بند تھے ۔ اس کے بعد ہرقل نے حکم دیا کہ انہیں میرے پاس واپس لاؤ۔ پھر اس نے ان سب کو بلاکر کہا: میں تمہارا امتحان لینا چاہتا تھا کہ اپنے دین پر کس قدر مضبوط ہو سو وہ میں دیکھ چکا ہوں۔ تمہاری یہ پختگی مجھے بہت پسند آئی۔ اس پر سب حاضرین خوش ہوگئے اور اسے سجدہ کیا۔

Chapter No: 5

باب ‏{‏لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‏}‏ الآية

"By no means shall you attain Al-Birr (righteousness) unless you spend (in Allah's Cause) of that which you love ..." (V.3:92)

باب : اللہ کے اس قول لَن تَنَالُو البِرَّ حَتَّی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۔الایہ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ نَخْلاً، وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءٍ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ ‏{‏لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‏}‏ قَامَ أَبُو طَلْحَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ ‏{‏لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ‏}‏ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَىَّ بَيْرُحَاءٍ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ بَخْ، ذَلِكَ مَالٌ رَايِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَايِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ‏.‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ‏"‏ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ‏"‏‏.‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ‏"‏ مَالٌ رَايِحٌ ‏"‏‏.

Narrated By Anas bin Malik : Out of all the Ansar, living in Medina, Abu Talha had the largest number of (date palm trees) gardens, and the most beloved of his property to him was Bairuha garden which was standing opposite the Mosque (of the Prophet). Allah's Apostle used to enter it and drink of its good water. When the Verse: "By no means shall you attain righteousness unless you spend (in charity) of that which you love." (3.92) Abu Talha got up and said, "O Allah's Apostle, Allah says: "By no means shall you attain righteousness unless you spend (in charity) of that which you love." (3.92) and the most beloved of my property to me is the Bairuha garden, so I give it (as a charitable gift) in Allah's Cause and hope to receive good out of it, and to have it stored for me with Allah. So, O Allah's Apostle! Dispose it of (i.e. utilize it) in the way Allah orders you (to dispose it of)." Allah's Apostle said, "Bravo! That is a fruitful property! That is a fruitful property! I have heard what you have said and I think that you should distribute that (garden) amongst your relatives." The Abu Talha distributed that garden amongst his relatives and his cousins. Narrated By Yahya bin Yahya : I learnt from Malik, "...a fruitful property."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مدینہ میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا اور نبی ﷺبھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے، پھر جب آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے۔ نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کی: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب و اجر کی توقع رکھتا ہوں، پس یا رسول اللہ! جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔ نبی ﷺنے فرمایا : بہت خوب یہ مال او ردولت فنا ہونے والا ہے ۔ میں نے تمہاری بات سن لی میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔حضرت ابو طلحہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! میں ایسا ہی کردوں گا ۔چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ایک روایت میں ہے کہ آپﷺنے فرمایا: یہ مال تو بہت ہی نفع بخش بن گیا ہے ۔راوی یحییٰ بن یحییٰ بھی امام مالک سے " مال رایع " کے الفاظ ذکر کرتے ہیں ۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ فَجَعَلَهَا لِحَسَّانَ وَأُبِيٍّ، وَأَنَا أَقْرَبُ إِلَيْهِ، وَلَمْ يَجْعَلْ لِي مِنْهَا شَيْئًا‏.‏

Narrated By Anas : Abu Talha distributed the garden between Hassan and Ubai, but he did not give me anything thereof although I was a nearer relative to him.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ حضرت حسان اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کو دے دیا تھا۔ جبکہ میں ان کا زیادہ قریبی تھا لیکن انہوں نے مجھے اس میں سے کچھ بھی نہ دیا۔

Chapter No: 6

باب ‏{‏قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ‏}‏

"Say (O Muhammad (s.a.w)), 'Bring here the Taurat (Torah) and recite it if you are truthful." (V.3:93)

باب : اللہ کے اس قول قُل فَاۡ تُوا بِالتَّورَاۃِ فاتۡلُوھا اِنۡ کُنۡتُمۡ صادِقِینَ ۔ کی تفسیر۔

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ الْيَهُودَ، جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ ‏"‏ كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ‏"‏‏.‏ قَالُوا نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ لاَ تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا لاَ نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا‏.‏ فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ كَذَبْتُمْ ‏{‏فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ‏}‏ فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا، وَلاَ يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ فَقَالَ مَا هَذِهِ فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ قَالُوا هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ‏.‏ فَأَمَرَ بِهِمَا فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَجْنَأُ عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ‏.‏

Narrated By 'Abdullah bin Umar : The Jews brought to the Prophet a man and a woman from among them who had committed illegal sexual intercourse. The Prophet said to them, "How do you usually punish the one amongst you who has committed illegal sexual intercourse?" They replied, "We blacken their faces with coal and beat them," He said, "Don't you find the order of Ar-Rajm (i.e. stoning to death) in the Torah?" They replied, "We do not find anything in it." 'Abdullah bin Salam (after hearing this conversation) said to them. "You have told a lie! Bring here the Torah and recite it if you are truthful." (So the Jews brought the Torah). And the religious teacher who was teaching it to them, put his hand over the Verse of Ar-Rajm and started reading what was written above and below the place hidden with his hand, but he did not read the Verse of Ar-Rajm. 'Abdullah bin Salam removed his (i.e. the teacher's) hand from the Verse of Ar-Rajm and said, "What is this?" So when the Jews saw that Verse, they said, "This is the Verse of Ar-Rajm." So the Prophet ordered the two adulterers to be stoned to death, and they were stoned to death near the place where biers used to be placed near the Mosque. I saw her companion (i.e. the adulterer) bowing over her so as to protect her from the stones.

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا چند یہودی نبی ﷺکے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺنے ان سے پوچھا اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم اس کا منہ کالا کر تے ہیں اوراسے مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: کیا تورات میں رجم کا حکم نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : ہمیں تورات میں رجم کا حکم نہیں ملا۔حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، تورات لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔ (جب تورات لائی گئی) تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے جو انہیں تورات کا درس دیا کرتا تھا، آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے۔ پھر نبی ﷺنے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لاکر رکھے جاتے تھے، رجم کر دیا گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دیکھا کہ اس عورت کا ساتھی اس کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پر جھکا جا رہا تھا۔

Chapter No: 7

باب ‏{‏كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‏}‏

"You (True Muslims) are the best of peoples ever raised up for mankind ..." (V.3:110)

باب : اللہ کے اس قول کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ۔ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة َ ـ رضى الله عنه ـ ‏{‏كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‏}‏ قَالَ خَيْرَ النَّاسِ لِلنَّاسِ، تَأْتُونَ بِهِمْ فِي السَّلاَسِلِ فِي أَعْنَاقِهِمْ حَتَّى يَدْخُلُوا فِي الإِسْلاَمِ‏.‏

Narrated By Abu Huraira : The Verse: "You (true Muslims) are the best of peoples ever raised up for mankind." means, the best of peoples for the people, as you bring them with chains on their necks till they embrace Islam.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے آیت کریمہ "کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس" کی تفسیر میں فرمایا: تم سب لوگوں میں سے تمام لوگوں کےلیے بہتر ہو کیونکہ تم انہیں ، ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لے آتے ہو جس کی وجہ سے وہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔

Chapter No: 8

باب ‏{‏إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ‏}‏

"When two parties from among you were about to lose heart ..." (V.3:122)

باب : اللہ کے اس قول اِذۡ ھَمَّتۡ طائِفَتانِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا۔الایہ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّه ِ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ فِينَا نَزَلَتْ ‏{‏إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا‏}‏ قَالَ نَحْنُ الطَّائِفَتَانِ بَنُو حَارِثَةَ وَبَنُو سَلِمَةَ، وَمَا نُحِبُّ ـ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً وَمَا يَسُرُّنِي ـ أَنَّهَا لَمْ تُنْزَلْ لِقَوْلِ اللَّهِ ‏{‏وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا‏}‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : The Verse: "When two parties from among you were about to lose heart, but Allah was their Protector," (3.122) was revealed concerning us, and we were the two parties, i.e. Banu Haritha and Banu Salama, and we do not wish (that it had not been revealed) or I would not have been pleased (if it had not been revealed), for Allah says: "...Allah was their Protector."

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے ہی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: " إذ ھمت طائفتان منکم أن تفشلا واللہ ولیہما"دو گروہوں سے مراد ہم ، یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ ہیں ، تاہم ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ ان دونوں گروہوں کا سرپرست ہے ۔

Chapter No: 9

باب ‏{‏لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ‏}‏

"Not for you (Muhammad (s.a.w)) is the decision ..." (V.3:128)

باب : اللہ کے اس قول لَیسَ لَکَ مِنَ الأمۡرِ شَیۡءٌ۔الایہ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنَ الْفَجْرِ يَقُولُ ‏"‏ اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا ‏"‏‏.‏ بَعْدَ مَا يَقُولُ ‏"‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ‏"‏‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ‏}‏‏.‏ رَوَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ‏.‏

Narrated By Salim's father : That he heard Allah's Apostle on raising his head from the bowing in the last Rak'a in the Fajr prayer, saying, "O Allah, curse such-and-such person and such-and-such person, and such-and-such person," after saying, "Allah hears him who sends his praises to Him, O our Lord, all praise is for you." So Allah revealed: "Not for you (O Muhammad) (but for Allah) is the decision, verily they are indeed wrongdoers." (3.128)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہﷺسے سنا، آپﷺ نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھا کر یہ بددعا کی۔ اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر۔ یہ بددعا آپﷺ نے «سمع الله لمن حمده» اور «ربنا ولك الحمد» کے بعد کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ليس لك من الأمر شىء‏» آپ کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ آخر آیت «فإنهم ظالمون‏» تک۔ اس روایت کو اسحاق بن راشد نے زہری سے نقل کیا ہے۔


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي، سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ عَلَى أَحَدٍ أَوْ يَدْعُوَ لأَحَدٍ قَنَتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَرُبَّمَا قَالَ إِذَا قَالَ ‏"‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ ‏"‏‏.‏ يَجْهَرُ بِذَلِكَ وَكَانَ يَقُولُ فِي بَعْضِ صَلاَتِهِ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ ‏"‏ اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا ‏"‏‏.‏ لأَحْيَاءٍ مِنَ الْعَرَبِ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ‏}‏ الآيَةَ‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Whenever Allah's Apostle intended to invoke evil upon somebody or invoke good upon somebody, he used to invoke (Allah after bowing (in the prayer). Sometimes after saying, "Allah hears him who sends his praises to Him, all praise is for You, O our Lord," he would say, "O Allah. Save Al-Walid bin Al-Walid and Salama bin Hisham, and 'Aiyash bin Abu Rabi'a. O Allah! Inflict Your Severe Torture on Mudar (tribe) and strike them with (famine) years like the years of Joseph." The Prophet used to say in a loud voice, and he also used to say in some of his Fajr prayers, "O Allah! Curse so-and-so and so-and-so." naming some of the Arab tribes till Allah revealed: "Not for you (O Muhammad) (but for Allah) is the decision." (3.128)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺجب کسی پر بددعا کرنا چاہتے یا کسی کے لیے دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد قنوت کیا کرتے ۔ متعدد مرتبہ آپ ﷺ نے « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کے بعد یہ دعا کی :‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَاجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ» اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! مضر والوں کو سختی کے ساتھ پکڑ لے اور ان میں ایسی قحط سالی سے دو چار کردے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی تھی۔آپ ﷺبلند آواز سے یہ دعا کرتے اور نماز فجر کی بعض رکعات میں آپﷺ یہ دعا کرتے تھے ۔"اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا "، اے اللہ، فلاں اور فلاں پر لعنت کر، (آپ )عرب کے چند خاص قبائل کے بارے میں یہ بددعا دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی «ليس لك من الأمر شىء‏» کہ آپ کو اس امر میں کوئی دخل نہیں۔

Chapter No: 10

باب قَوْلِهِ ‏{‏وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ‏}‏

The Statement of Allah, "... And the Messenger (s.a.w) was in your rear calling you back ..." (V.3:153)

باب : اللہ کے اس قول وَ الرَّسُولُ یَدۡعُوۡکُمۡ فِی اُخۡرَاکُمۡ۔ کی تفسیر۔

وَهْوَ تَأْنِيثُ آخِرِكُمْ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ‏}‏ فَتْحًا أَوْ شَهَادَةً‏

اخرٰی مونث ہے آخر کی۔ابن عباسؓ نے کہا اِحۡدَی الحُسۡنَیَیۡنِ سے مراد فتح ہے یا شہادت

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، وَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم غَيْرُ اثْنَىْ عَشَرَ رَجُلاً‏.‏

Narrated By Al-Bara bin Azib : The Prophet appointed 'Abdullah bin Jubair as the commander of the infantry during the battle of Uhud. They returned defeated, and that is what is meant by: "And the Apostle was calling them back in the rear. None remained with the Prophet then, but twelve men."

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺنے (تیر اندازوں کے) پیدل دستے پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا، پھر بہت سے مسلمانوں نے پیٹھ پھیر لی، یہ آیت کریمہ اسی کے متعلق نازل ہوئی «فذاك إذ يدعوهم الرسول في أخراهم» اور رسول تم کو پکار رہے تھے تمہارے پیچھے سے۔ اس وقت نبی ﷺکے ساتھ صرف بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باقی رہ گئے تھے۔

12