Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah An-Nisa (65.4)    سورة النساء

123

Chapter No: 11

باب ‏ ‏{‏أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ‏}‏‏‏ذَوِي الأَمْرِ

"Obey Allah and obey the Messenger (s.a.w) and those of you (Muslims) who are in authority ..." (V.4:59)

باب : اللہ کے اس قول اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر۔ کی تفسیر۔

صاحب حکومت کے لوگ مراد ہیں

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ ‏{‏أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ‏}‏‏.‏ قَالَ نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ، إِذْ بَعَثَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي سَرِيَّةٍ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : The Verse: "Obey Allah and Obey the Apostle and those of you (Muslims) who are in authority." (4.59) was revealed in connection with 'Abdullah bin Hudhafa bin Qais bin 'Adi' when the Prophet appointed him as the commander of a Sariyya (army detachment).

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ آیت «أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم‏» اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول ﷺ کی اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو۔ عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺنے انہیں ایک مہم پر بطور افسر کے روانہ کیا تھا۔

Chapter No: 12

باب ‏{‏فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ‏}‏

"But no, by your Lord, they can have no Faith, until they make you (Muhammad (s.a.w)) judge in all disputes between them ..." (V.4:65)

باب: فلا ربک لا یؤمنون حتی یحکّموک فیما شجر بینھم

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ خَاصَمَ الزُّبَيْرُ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ فِي شَرِيجٍ مِنَ الْحَرَّةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ ‏"‏‏.‏ وَاسْتَوْعَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ حِينَ أَحْفَظَهُ الأَنْصَارِيُّ، كَانَ أَشَارَ عَلَيْهِمَا بِأَمْرٍ لَهُمَا فِيهِ سَعَةٌ‏.‏ قَالَ الزُّبَيْرُ فَمَا أَحْسِبُ هَذِهِ الآيَاتِ إِلاَّ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ ‏{‏فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ‏}‏

Narrated By 'Urwa : Az-Zubair quarrelled with a man from the Ansar because of a natural mountainous stream at Al-Harra. The Prophet said "O Zubair! Irrigate (your lands and the let the water flow to your neighbour The Ansar said, "O Allah's Apostle (This is because) he (Zubair) is your cousin?" At that, the Prophet's face became red (with anger) and he said "O Zubair! Irrigate (your land) and then withhold the water till it fills the land up to the walls and then let it flow to your neighbour." So the Prophet enabled Az-Zubair to take his full right after the Ansari provoked his anger. The Prophet had previously given a order that was in favour of both of them Az-Zubair said, "I don't think but the Verse was revealed in this connection: "But no, by your Lord, they can have no faith, until they make you judge in all disputes between them." (4.6)

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک انصاری صحابی سے مقام حرہ کی ایک نالی کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ اس سے کون اپنے باغ کو پہلے سینچنے کا حق رکھتا ہے) نبی ﷺنے فرمایا : اے زبیر! پہلے تم اپنے باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو پانی دے دینا۔ اس پر اس انصاری صحابی نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اس لیے کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ سن کر نبیﷺکے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺنے فرمایا: اے زبیر! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لیے اسے چھوڑو۔ لیکن اس مرتبہ آپ ﷺنے زبیر رضی اللہ عنہ کو صاف طور پر ان کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی۔ جس سے آپ کا غصہ ہونا قدرتی تھا۔ آپ ﷺنے اپنے پہلے فیصلہ میں دونوں کے لیے رعایت رکھی تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے، یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھیں «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏» تیرے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنا لیں اور آپ کے فیصلے کو کھلے دل کے ساتھ برضا و رغبت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔

Chapter No: 13

باب ‏{‏فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ‏}‏

"... Then they will be in the company of those on whom Allah has bestowed His Grace, of the Prophets ..." (V.4:69)

باب : اللہ کے اس قول فاولٰئک الّذین مع الّذین انعم اللہ علیھم الخ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلاَّ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ‏"‏‏.‏ وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ ‏{‏مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ‏}‏ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ‏.‏

Narrated By 'Aisha : I heard Allah's Apostle saying, "No prophet gets sick but he is given the choice to select either this world or the Hereafter." 'Aisha added: During his fatal illness, his voice became very husky and I heard him saying: "In the company of those whom is the Grace of Allah, of the prophets, the Siddiqin (those followers of the prophets who were first and foremost to believe in them), the martyrs and the pious.' (4.69) And from this I came to know that he has been given the option.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا تھا، آپ ﷺنے فرمایا : جو نبی بھی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺکی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ ﷺفرما رہے تھے «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين‏» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ اس لیے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے (اور آپ ﷺنے «اللهم بالرفيق الاعلي» کہہ کر آخرت کو پسند فرمایا)۔

Chapter No: 14

باب قَوْلُهُ ‏{‏وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ‏}‏ إِلَى ‏{‏الظَّالِمِ أَهْلُهَا‏}‏

Allah's Statement, "And what is wrong with you that you fight not in the Cause of Allah ... whose people are oppressors ..." (V.4:75)

باب : اللہ کے اس قول ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ۔ ۔ ۔ الظالم اھلھا۔ کی تفسیر

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي، مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : My mother and I were among the weak and oppressed (Muslims at Mecca).

عبیداللہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا :میں اور میری والدہ «مستضعفين‏» (کمزوروں) میں سے تھے۔


حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، تَلاَ ‏{‏ِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ‏}‏ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ‏.‏ وَيُذْكَرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‏{‏حَصِرَتْ‏}‏ ضَاقَتْ ‏{‏تَلْوُوا‏}‏ أَلْسِنَتَكُمْ بِالشَّهَادَةِ‏.‏ وَقَالَ غَيْرُهُ الْمُرَاغَمُ الْمُهَاجَرُ‏.‏ رَاغَمْتُ هَاجَرْتُ قَوْمِي‏.‏ ‏{‏مَوْقُوتًا‏}‏ مُوَقَّتًا وَقْتَهُ عَلَيْهِمْ‏.‏

Narrated By Ibn Abi Mulaika : Ibn Abbas recited: "Except the weak ones among men women and children," (4.98) and said, "My mother and I were among those whom Allah had excused."

ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «إلا المستضعفين من الرجال والنساء والولدان‏» کی تلاوت کی اور فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا تھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «حصرت‏» معنی میں «ضاقت» کے ہے۔ «تلووا‏» یعنی تمہاری زبانوں سے گواہی ادا ہو گی۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا دوسرے شخص (ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ) نے کہا «مراغم» کا معنی ہجرت کا مقام۔ عرب لوگ کہتے ہیں «راغمت قومي‏.‏» یعنی میں نے اپنی قوم والوں کو جمع کر دیا۔ «موقوتا‏» کے معنی ایک وقت مقررہ پر یعنی جو وقت ان کے لیے مقرر ہو۔

Chapter No: 15

باب ‏{‏فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ‏}‏

"Then what is the matter with you that you are divided into two parties about the hypocrites? Allah has cast them back (to disbelief) because of what they have earned ..." (V.4:88)

باب :فَمَا لَکُمۡ فِی المُنافِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللہُ اَرۡکَسَھُمۡ بِمَا کَسَبُواۡ،ارکسھم کا معنی ان کو توڑ پھوڑ ڈالا (چندی چندی کر دیا) فئۃً کا معنی گروہ۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَدَّدَهُمْ، فِئَةٌ جَمَاعَةٌ

اللہ کے اس قول و اذا جاءھم امر من الامن او الخوف اذاعوبہ۔ کی تفسیر۔ اذاعوا کا معنی مشہور کر دیتے ہیں، یستنبطونہ کا معنی نکال لیتے ہیں، حسیبا کا معنی کافی ہے، الااناثا سے بے جان چیزیں مراد ہیں مثلا پتھر، مٹی وغیرہ، مریدا کا معنی شریر (نماٹا) فلیبتّکن بتّکہ سے نکلا یعنی اس کو کاٹ ڈالا، قیل اور قول دونوں کے ایک معنی ہیں، طبع کا معنی مہر لگا دی۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِت ٍ ـ رضى الله عنه ـ ‏{‏فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ‏}‏ رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْ أُحُدٍ، وَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فِرْقَتَيْنِ فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْهُمْ‏.‏ وَفَرِيقٌ يَقُولُ لاَ فَنَزَلَتْ ‏{‏فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ‏}‏ وَقَالَ ‏"‏ إِنَّهَا طَيْبَةُ تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Zaid bin Thabit : Regarding the Verse: "Then what is the matter with you that you are divided into two parties about the hypocrites?" (4.88) Some of the companions of the Prophet returned from the battle of Uhud (i.e. refused to fight) whereupon the Muslims got divided into two parties; one of them was in favour of their execution and the other was not in favour of it. So there was revealed: "Then what is the matter with you that you are divided into two parties about the hypocrites?" (4.88). Then the Prophet said "It (i.e. Medina) is a Tayyaboh (good), it expels impurities as the fire expels the impurities of silver."

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آیت «فما لكم في المنافقين فئتين‏» ( تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو فریق ہو گئے ہو)۔ کے بارے میں فرمایا :کہ کچھ لوگ منافقین جو نبیﷺکے ساتھ تھے، جنگ احد میں (آپ چھوڑ کر) واپس چلے آئے تو ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو جماعتیں ہو گئیں۔ ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ (یا رسول اللہ!) ان (منافقین) سے قتال کیجئے اور ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ ان سے قتال نہ کیجئے۔ اس پر یہ آیت اتری«فما لكم في المنافقين فئتين‏» کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو۔ اور نبیﷺنے فرمایا کہ یہ مدینہ «طيبة» ہے۔ یہ خباثت کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔

Chapter No: 16

باب ‏{‏وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ‏}‏

"And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell ..." (V.4:93)

باب : اللہ کے اس قول ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جھنم۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ ‏{‏آيَةٌ‏}‏ اخْتَلَفَ فِيهَا أَهْلُ الْكُوفَةِ، فَرَحَلْتُ فِيهَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْهَا فَقَالَ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ‏{‏وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ‏}‏ هِيَ آخِرُ مَا نَزَلَ وَمَا نَسَخَهَا شَىْءٌ‏.‏

Narrated By Said bin Jubair : The people of Kufa disagreed (disputed) about the above Verse. So I went to Ibn Abbas and asked him about it. He said, "This Verse: "And whoever kills a believer intentionally, his recompense is Hell." was revealed last of all (concerning premeditated murder) and nothing abrogated it."

مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ علماء کوفہ کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا۔ چنانچہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں اس کے لیے سفر کر کے گیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم‏» اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے۔ نازل ہوئی اور اس باب کی یہ سب سے آخری آیت ہے اسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔

Chapter No: 17

باب ‏{‏وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا‏}‏

"And say not to anyone who greets you (by embracing Islam), 'You are not a believer' ..." (V.4:94)

باب : اللہ کے اس قول ولا تقولوا لمن القیٰ الیکم السلام لست مؤمنا۔ کی تفسیر

السِّلْمُ وَالسَّلَمُ وَالسَّلاَمُ وَاحِدٌ‏

سلم اور سلَم اور سلام سب کے ایک معنی ہیں۔

حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ ‏{‏وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا‏}‏‏.‏ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَانَ رَجُلٌ فِي غُنَيْمَةٍ لَهُ فَلَحِقَهُ الْمُسْلِمُونَ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقَتَلُوهُ وَأَخَذُوا غُنَيْمَتَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا‏}‏ تِلْكَ الْغُنَيْمَةُ‏.‏ قَالَ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ السَّلاَمَ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Regarding the Verse: "And say not to anyone who offers you peace (by accepting Islam), You are not a believer." There was a man amidst his sheep. The Muslims pursued him, and he said (to them) "Peace be on you." But they killed him and took over his sheep. Thereupon Allah revealed in that concern, the above Verse up to: "...seeking the perishable good of this life." (4.94) i.e. those sheep.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے آیت «ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا‏» (اگر کوئی آدمی تمہیں سلام کہے تو اسے یہ نہ کہا کرو کہ تو مسلمان نہیں )کے بارے میں فرمایا : ایک آدمی اپنی بکریاں چرا رہا تھا ،کہ ایک مہم پر جاتے ہوئے کچھ مسلمان انہیں ملے تو اس نے کہا :السلام علیکم لیکن مسلمانوں نےاسے بہانہ خور جان کر قتل کر دیا اور ان کی بکریوں پر قبضہ کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تھی آخر آیت «عرض الحياة الدنيا‏» اس سے اشارہ انہیں بکریوں کی طرف تھا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «السلام‏» قرآت کی ہے، مشہور قرآت بھی یہی ہے۔

Chapter No: 18

باب {لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ }الآية

"Not equal are those of the believers who sit (at home ) ..." (V.4:95)

باب : اللہ کے اس قول لا یستوی القاعدون من المؤمنین۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ، أَنَّهُ رَأَى مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمْلَى عَلَيْهِ لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهْوَ يُمِلُّهَا عَلَىَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ ـ وَكَانَ أَعْمَى ـ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، فَثَقُلَتْ عَلَىَّ حَتَّى خِفْتُ أَنْ تُرَضَّ فَخِذِي، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏غَيْرَ أُولِي الضَّرَرِ‏}‏

Narrated By Zaid bin Thabit : That the Prophet dictated to him: "Not equal are those of the believers who sit (at home) and those who strive and fight in the Cause of Allah." Zaid added: Ibn Um Maktum came while the Prophet was dictating to me and said, "O Allah's Apostle! By Allah, if I had the power to fight (in Allah's Cause), I would," and he was a blind man. So Allah revealed to his Apostle while his thigh was on my thigh, and his thigh became so heavy that I was afraid it might fracture my thigh. Then that state of the Prophet passed and Allah revealed: "Except those who are disabled (by injury or are blind or lame etc)."

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے مروان بن حکم کو مسجد میں دیکھا (بیان کیا کہ) پھر میں ان کے پاس آیا اور ان کے پہلو میں بیٹھ گیا، انہوں نے مجھے خبر دی اور انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ ﷺنے ان سے یہ آیت لکھوائی «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» مسلمانوں میں سے (گھر) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ ابھی آپ یہ آیت لکھوا ہی رہے تھے کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم !اگر میں جہاد میں شرکت کر سکتا تو یقیناً جہاد کرتا۔ وہ نابینا تھے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر وحی اتاری۔ آپ کی ران میری ران پر تھی (شدت وحی کی وجہ سے) اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہو گیا۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے «غير أولي الضرر‏» کے الفاظ اور نازل کئے۔


حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ‏}‏ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَيْدًا فَكَتَبَهَا، فَجَاءَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَشَكَا ضَرَارَتَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏غَيْرَ أُولِي الضَّرَرِ‏}‏

Narrated By Al-Bara : When the Verse: "Not equal are those of the believers who sit (at home)" (4.95) was revealed, Allah Apostle called for Zaid who wrote it. In the meantime Ibn Um Maktum came and complained of his blindness, so Allah revealed: "Except those who are disabled (by injury or are blind or lame..." etc.) (4.95)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين‏» نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے وہ آیت لکھ دی۔ پھر عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا، تو اللہ تعالیٰ نے «غير أولي الضرر‏» کے الفاظ اور نازل کئے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ‏}‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ادْعُوا فُلاَنًا ‏"‏‏.‏ فَجَاءَهُ وَمَعَهُ الدَّوَاةُ وَاللَّوْحُ أَوِ الْكَتِفُ فَقَالَ ‏"‏ اكْتُبْ لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‏"‏‏.‏ وَخَلْفَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا ضَرِيرٌ‏.‏ فَنَزَلَتْ مَكَانَهَا ‏{‏لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‏}‏

Narrated By Al-Bara : When the Verse: "Not equal are those of the believers who sit (at home)," (4.95) was revealed, the Prophet said, "Call so-and-so." That person came to him with an ink-pot and a wooden board or a shoulder scapula bone. The Prophet said (to him), "Write: 'Not equal are those believers who sit (at home) and those who strive and fight in the Cause of Allah." Ibn Um Maktum who was sitting behind the Prophet then said, "O Allah's Apostle! I am a blind man." So there was revealed in the place of that Verse, the Verse: "Not equal are those of the believers who sit (at home) except those who are disabled (by injury, or are blind or lame etc.) and those who strive and fight in the Cause of Allah." (4.95)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين‏» نازل ہوئی تو نبی ﷺنے فرمایا کہ فلاں (یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ۔ وہ اپنے ساتھ دوات اور تختی یا شانہ کی ہڈی لے کر حاضر ہوئے تو نبی ﷺنے فرمایا لکھو «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» ۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے جو نبی ﷺکے پیچھے موجود تھے، عرض کی: یا رسول اللہ! میں نابینا ہوں۔ چنانچہ وہیں بیٹھے بیٹھے یہ آیت نازل ہوئی «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر والمجاهدون في سبيل الله» ۔


حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ ح، وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، أَنَّ مِقْسَمًا، مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ ‏{‏لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ‏}‏ عَنْ بَدْرٍ وَالْخَارِجُونَ إِلَى بَدْرٍ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Not equal are those believers who sat (at home) and did not join the the Badr battle and those who joined the Badr battle.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ «لا يستوي القاعدون من المؤمنين‏» میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے بغیر کسی عذر کے جنگ بدر میں شرکت نہیں کی تھی ، اور جو لوگ اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔

Chapter No: 19

باب ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ ‏}‏ الآيَةَ‏

"Verily! As for those whom the angels take (in death) while they are wronging themselves, they (angels) say (to them), 'In what (condition) were you?' ..." (V.4:97)

باب : اللہ کے اس قول ان الذین توفاھم الملائکۃ ظالمی النفسھم۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَغَيْرُهُ، قَالاَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو الأَسْوَدِ، قَالَ قُطِعَ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَعْثٌ فَاكْتُتِبْتُ فِيهِ، فَلَقِيتُ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرْتُهُ، فَنَهَانِي عَنْ ذَلِكَ أَشَدَّ النَّهْىِ، ثُمَّ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ نَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا مَعَ الْمُشْرِكِينَ يُكَثِّرُونَ سَوَادَ الْمُشْرِكِينَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَأْتِي السَّهْمُ فَيُرْمَى بِهِ، فَيُصِيبُ أَحَدَهُمْ فَيَقْتُلُهُ أَوْ يُضْرَبُ فَيُقْتَلُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلاَئِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ‏}‏ الآيَةَ‏.‏ رَوَاهُ اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ‏.‏

Narrated By Muhammad bin Abdur-Rahman Abu Al-Aswad : The people of Medina were forced to prepare an army (to fight against the people of Sham during the caliphate of 'Abdullah bin Az-Zubair at Mecca), and I was enlisted in it; Then I met 'Ikrima, the freed slave of Ibn 'Abbas, and informed him (about it), and he forbade me strongly to do so (i.e. to enlist in that army), and then said, "Ibn 'Abbas informed me that some Muslim people were with the pagans, increasing the number of the pagans against Allah's Apostle. An arrow used to be shot which would hit one of them (the Muslims in the company of the pagans) and kill him, or he would be struck and killed (with a sword)." Then Allah revealed: "Verily! as for those whom the angels take (in death) while they are wronging themselves (by staying among the disbelievers)" (4.97)

ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن سے مروی ہے انہوں نے کہا: اہل مدینہ پر ایک لشکر کی تیاری ضروری قرار دی گئی (حضرت عبد اللہ بن زبیر کی امارت میں )تو اس میں میرا نام بھی لکھا گیا تھا ۔ اس دوران میری ملاقت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عکرمہ سےہوئی تو میں نے انہیں اس معاملے سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے مجھے بڑی سختی سے روکا اور فرمایا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ مسلمانوں میں سے چند لوگ مشرکین کے ساتھ رہتے تھے اور وہ آپﷺکے خلاف مشرکین کی جماعت میں اضافے کا سبب بنتے تھے ۔ پھر جب کوئی تیر آتا اور ان میں سے کسی کو لگتا تو اسے قتل کردیتا یا اسے تلوار ماری جاتی تو وہ قتل ہوجاتا۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔«إن الذين توفاهم الملائكة ظالمي أنفسهم‏» ترجمہ: بے شک وہ لوگ جن کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ۔ آخر تک ۔اس روایت کو لیث بن سعد نے بھی ابوالاسود سے نقل کیا ہے۔

Chapter No: 20

باب ‏{‏إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ}‏

"Except the weak ones among men, women ..." (V.4:98)

باب: مردوں اور عورتوں میں سے معذور لوگوں کے سوا۔

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ ‏{‏إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ‏}‏ قَالَ كَانَتْ أُمِّي مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : '"Except the weak ones" (4.98) and added: My mother was one of those whom Allah excused'.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «إلا المستضعفين‏» کے متعلق فرمایا : میری ماں بھی ان ہی لوگوں میں تھیں جنہیں اللہ نے معذور رکھا تھا۔

123