Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Maidah (65.5)    سورة المائدة

12

Chapter No: 11

باب ‏{‏لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا‏}‏

"Those who believe and do righteous good deeds, there is no sin on them for what they ate (in the past ) ..." (V.5:93)

باب : اللہ کے اس قول لیس علی الّذین آمنوا و عملوا الصّالحات جناح فیما طعموا ۔الایہ کی تفسیر

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ الْخَمْرَ، الَّتِي أُهْرِيقَتِ الْفَضِيخُ‏.‏ وَزَادَنِي مُحَمَّدٌ عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ قَالَ كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ فَنَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ، فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى‏.‏ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ اخْرُجْ فَانْظُرْ مَا هَذَا الصَّوْتُ قَالَ فَخَرَجْتُ فَقُلْتُ هَذَا مُنَادٍ يُنَادِي أَلاَ إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ‏.‏ فَقَالَ لِي اذْهَبْ فَأَهْرِقْهَا‏.‏ قَالَ فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ‏.‏ قَالَ وَكَانَتْ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ قُتِلَ قَوْمٌ وَهْىَ فِي بُطُونِهِمْ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا‏}‏‏.‏

Narrated By Anas : The alcoholic drink which was spilled was Al-Fadikh. I used to offer alcoholic drinks to the people at the residence of Abu Talha. Then the order of prohibiting Alcoholic drinks was revealed, and the Prophet ordered somebody to announce that: Abu Talha said to me, "Go out and see what this voice (this announcement) is." I went out and (on coming back) said, "This is somebody announcing that alcoholic beverages have been prohibited." Abu Talha said to me, "Go and spill it (i.e. the wine)," Then it (alcoholic drinks) was seen flowing through the streets of Medina. At that time the wine was Al-Fadikh. The people said, "Some people (Muslims) were killed (during the battle of Uhud) while wine was in their stomachs." So Allah revealed: "On those who believe and do good deeds there is no blame for what they ate (in the past)." (5.93)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (حرمت نزول کے وقت) جو شراب بہائی گئی تھی وہ «فضيخ‏.‏» تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد نے ابوالنعمان سے اس اضافےکے ساتھ بیان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر صحابہ کی ایک جماعت کو شراب پلارہا تھاکہ شراب کی حرمت نازل ہوئی۔ نبی ﷺنے منادی کو حکم دیا اور انہوں نے اعلان کرنا شروع کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: باہر جا کے دیکھو یہ آواز کیسی ہے۔میں باہر آیا ، میں نے کہا: ایک اعلان کرنے والا کہہ رہا ہے کہ خبردار ! شراب حرام ہوگئی ہے ۔ یہ سنتے ہی انہوں نے مجھ کو کہا : جاؤ اور شراب بہا دو۔ راوی نے بیان کیا، مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دنوں «فضيخ‏.‏» شراب استعمال ہوتی تھی۔ بعض لوگوں نے شراب کو جو اس طرح بہتے دیکھا تو کہنے لگے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے شراب سے اپنا پیٹ بھر رکھا تھا اور اسی حالت میں انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ليس على الذين آمنوا وعملوا الصالحات جناح فيما طعموا‏» جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور نیک کام کرتے رہتے ہیں، ان پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو انہوں نے کھا لیا۔

Chapter No: 12

باب قَوْلِهِ ‏{‏لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ، إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ‏}‏

Allah's Statement, "... Ask not about things which, if made plain to you, may cause you trouble ..." (V.5:101)

باب : اللہ کے اس قول لا تسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم تسؤکم ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا مُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَارُودِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خُطْبَةً مَا سَمِعْتُ مِثْلَهَا قَطُّ، قَالَ ‏"‏ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا ‏"‏‏.‏ قَالَ فَغَطَّى أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وُجُوهَهُمْ لَهُمْ خَنِينٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مَنْ أَبِي قَالَ فُلاَنٌ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ‏{‏لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ‏}‏‏.‏ رَوَاهُ النَّضْرُ وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ شُعْبَةَ‏.

Narrated By Anas : The Prophet delivered a sermon the like of which I had never heard before. He said, "If you but knew what I know then you would have laughed little and wept much." On hearing that, the companions of the Prophet covered their faces and the sound of their weeping was heard. A man said, "Who is my father?" The Prophet said, "So-and-so." So this Verse was revealed: "Ask not about things which, if made plain to you, may cause you trouble." (5.101)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺنے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا :جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ بیان کیا کہ پھر نبی ﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لیے، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ نبی ﷺنے فرمایا کہ فلاں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏» کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ اس کی روایت نضر اور روح بن عبادہ نے شعبہ سے کی ہے۔


حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ قَوْمٌ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اسْتِهْزَاءً، فَيَقُولُ الرَّجُلُ مَنْ أَبِي وَيَقُولُ الرَّجُلُ تَضِلُّ نَاقَتُهُ أَيْنَ نَاقَتِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِمْ هَذِهِ الآيَةَ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ‏}‏ حَتَّى فَرَغَ مِنَ الآيَةِ كُلِّهَا‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Some people were asking Allah's Apostle questions mockingly. A man would say, "Who is my father?" Another man whose she-camel had gone astray would say, "Where is my she-camel? "So Allah revealed this Verse in this connection: "O you who believe! Ask not about things which, if made plain to you, may cause you trouble." (5.101)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ بعض لوگ رسول اللہ ﷺسے مذاقاً سوالات کیا کرتے تھے۔ کوئی شخص یوں پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے؟ کسی کی اگر اونٹنی گم ہو جاتی تو وہ پوچھتا میری اونٹنی کہاں ہو گی؟ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏» کہ اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزرے۔ یہاں تک کہ پوری آیت پڑھ کر سنائی۔

Chapter No: 13

باب ‏{‏مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ‏}‏

"Allah has not instituted things like Bahirah or a Saibah, or a Wasilah or a Ham ..." (V.5:103)

باب : اللہ کے اس قول ما جعل اللہ من بحیرۃ و لا سائبۃ و لا وصیلۃ و لا حام ۔ کی تفسیر

‏{‏وَإِذْ قَالَ اللَّهُ‏}‏ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ‏.‏ وَإِذْ هَا هُنَا صِلَةٌ، الْمَائِدَةُ أَصْلُهَا مَفْعُولَةٌ كَعِيشَةٍ رَاضِيَةٍ وَتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ وَالْمَعْنَى مِيدَ بِهَا صَاحِبُهَا مِنْ خَيْرٍ، يُقَالُ مَادَنِي يَمِيدُنِي‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏مُتَوَفِّيكَ‏}‏ مُمِيتُكَ‏

واذا قال اللہ یّعیسی ابن مریم میں قال (جو ماضی کا صیغہ ہے) یقول (مستقبل) کے معنوں میں ہے اور اذ زائد ہے مائدۃ اصل میں مفعول کے معنوں میں ہے (گو صیغہ فاعل کا ہے) جیسے راضیۃ، عیشۃ راضیۃ میں رضیّۃ کے معنوں میں ہے اور تطلیقہ بائنہ میں تو مائدہ کا معنی (ممیدہ) یعنی خیر اور بھلائی جو کسی کو دی گئی۔ اسی سے ہے مادنی یمیدنی۔ ابن عباسؓ نے کہا متوفّیک کا معنی تجھ کو مار ڈالنے والا ہوں۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ الْبَحِيرَةُ الَّتِي يُمْنَعُ دَرُّهَا لِلطَّوَاغِيتِ فَلاَ يَحْلُبُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ‏.‏ وَالسَّائِبَةُ كَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لآلِهَتِهِمْ لاَ يُحْمَلُ عَلَيْهَا شَىْءٌ‏.‏ قَالَ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ ‏"‏‏.‏ وَالْوَصِيلَةُ النَّاقَةُ الْبِكْرُ تُبَكِّرُ فِي أَوَّلِ نِتَاجِ الإِبِلِ، ثُمَّ تُثَنِّي بَعْدُ بِأُنْثَى‏.‏ وَكَانُوا يُسَيِّبُونَهُمْ لِطَوَاغِيتِهِمْ إِنْ وَصَلَتْ إِحْدَاهُمَا بِالأُخْرَى لَيْسَ بَيْنَهُمَا ذَكَرٌ‏.‏ وَالْحَامِ فَحْلُ الإِبِلِ يَضْرِبُ الضِّرَابَ الْمَعْدُودَ، فَإِذَا قَضَى ضِرَابَهُ وَدَعُوهُ لِلطَّوَاغِيتِ وَأَعْفَوْهُ مِنَ الْحَمْلِ فَلَمْ يُحْمَلْ عَلَيْهِ شَىْءٌ وَسَمَّوْهُ الْحَامِيَ‏.‏ وَقَالَ أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، سَمِعْتُ سَعِيدًا، قَالَ يُخْبِرُهُ بِهَذَا قَالَ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ‏.‏ وَرَوَاهُ ابْنُ الْهَادِ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

Narrated By Said bin Al-Musaiyab : Bahira is a she-camel whose milk is kept for the idols and nobody is allowed to milk it; Sa'iba was the she-camel which they used to set free for their gods and nothing was allowed to be carried on it. Abu Huraira said: Allah's Apostle said, "I saw 'Amr bin 'Amir Al-Khuzai (in a dream) dragging his intestines in the Fire, and he was the first person to establish the tradition of setting free the animals (for the sake of their deities)," Wasila is the she-camel which gives birth to a she-camel as its first delivery, and then gives birth to another she-camel as its second delivery. People (in the Pre-Islamic periods of ignorance) used to let that she camel loose for their idols if it gave birth to two she-camels successively without giving birth to a male camel in between. 'Ham' was the male camel which was used for copulation. When it had finished the number of copulations assigned for it, they would let it loose for their idols and excuse it from burdens so that nothing would be carried on it, and they called it the 'Hami.' Abu Huraira said, "I heard the Prophet saying so."

حضرت سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ «بحيرة» اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ بتوں کے لیے روک دیا جاتا اور کوئی شخص اس کے دودھ کو دوہنے کا مجاز نہ سمجھا جاتا اور «سائبة» اس اونٹنی کو کہتے تھے جسے وہ اپنے دیوتاؤں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے باربرداری و سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔ سعید راوی نے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو جہنم میں گھسیٹ رہا تھا، اس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ اور «وصيلة» اس جوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور پھر دوسری مرتبہ بھی مادہ ہی جنتی، اسے بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے لیکن اسی صورت میں جبکہ وہ برابر دو مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور اس درمیان میں کوئی نر بچہ نہ ہوتا۔ اور«حام» وہ نر اونٹ جو مادہ پر شمار سے کئی دفعہ چڑھتا (اس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے) جب وہ اتنی صحبتیں کر چکتا تو اس کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور بوجھ لادنے سے معاف کر دیتے (نہ سواری کرتے) اس کا نام «حام» رکھتے۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْكَرْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، رضى الله عنها قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَرَأَيْتُ عَمْرًا يَجُرُّ قُصْبَهُ، وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ ‏"‏‏.‏

Narrated By 'Aisha : Allah's Apostle said, "I saw Hell and its different portions were consuming each other and saw 'Amr dragging his intestines (in it), and he was the first person to establish the tradition of letting animals loose (for the idols)."

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کے بعض حصے بعض دوسرے حصوں کو کھائے جا رہے ہیں اور میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں اس میں گھسیٹا پھر رہا تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔

Chapter No: 14

باب ‏{‏وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ‏}‏

"And I was a witness over them while I dwelt amongst them, but when You took me up, You were the Watcher over them and you are a Witness to all things." (V.5:117)

باب : اللہ کے اس قول و کنت علیھم شھیدا مّادمت فیھم فلمّا توفّیتنی کنت انت الرّقیب علیھم و انت علیٰ کلّ شیء شھید ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً ـ ثُمَّ قَالَ ـ ‏{‏كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ ـ ثُمَّ قَالَ ـ أَلاَ وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلاَئِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ، أَلاَ وَإِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُصَيْحَابِي‏.‏ فَيُقَالُ إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ‏.‏ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ‏{‏وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ‏}‏ فَيُقَالُ إِنَّ هَؤُلاَءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ ‏"‏‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Allah's Apostle delivered a sermon and said, "O people! You will be gathered before Allah bare-footed, naked and not circumcised." Then (quoting Qur'an) he said: "As We began the first creation, We shall repeat it. A promise We have undertaken: Truly we shall do it..." (21.104) The Prophet then said, "The first of the human beings to be dressed on the Day of Resurrection, will be Abraham. Lo! Some men from my followers will be brought and then (the angels) will drive them to the left side (Hell-Fire). I will say. 'O my Lord! (They are) my companions!' Then a reply will come (from Almighty), 'You do not know what they did after you.' I will say as the pious slave (the Prophet Jesus) said: And I was a witness over them while I dwelt amongst them. When You took me up. You were the Watcher over them and You are a Witness to all things.' (5.117) Then it will be said, "These people have continued to be apostates since you left them."

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے، ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے، پھر آپ ﷺنے یہ آیت پڑھی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين‏» جس طرح ہم نے پہلی بار پیدا کرنے کے وقت ابتداء کی تھی، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، ہمارے ذمہ وعدہ ہے، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے۔ آخر آیت تک۔ پھر فرمایا :قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ ہاں اور میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ میں عرض کروں گا، اے میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں؟ مجھ سے کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہو گا «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم‏» کہ میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگراں ہے۔ مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے۔

Chapter No: 15

باب قَوْلِهِ ‏{‏إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ }‏ الآية

Allah's Statement, "If You punish them, they are Your slaves." (V.5:118)

باب : اللہ کے اس قول ان تعذّبھم فانّھم عبادک ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ، وَإِنَّ نَاسًا يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ‏{‏وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‏}‏‏"‏

Narrated By Ibn Abbas : The Prophet said, "You will be gathered (on the Day of Resurrection) and some people will be driven (by the angels) to the left side (and taken to Hell) whereupon I will say as the pious slave (Jesus) said: "And I was a witness over them while I dwelt amongst them... the ALMIGHTY, the All Wise." (5.117-118)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن جمع کیا جائے گا اور کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو نیک بندے نے کہا ہو گا «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم‏» میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا آخر آیت «العزيز الحكيم‏» تک۔

12