Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Peacemaking (53)    كتاب الصلح

12

Chapter No: 11

باب فَضْلِ الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ وَالْعَدْلِ بَيْنَهُمْ

The superiority of making peace and establishing justice among the people.

باب : لوگوں میں ملاپ کرانے اور انصاف کرنے کی فضیلت۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كُلُّ سُلاَمَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ يَعْدِلُ بَيْنَ النَّاسِ صَدَقَةٌ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "There is a Sadaqa to be given for every joint of the human body; and for every day on which the sun rises there is a reward of a Sadaqa (i.e. charitable gift) for the one who establishes justice among people."

حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: انسان کے بدن کے (تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے ) ہر جوڑ پر ہر دن اس کا صدقہ واجب ہے جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ، اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے ۔

Chapter No: 12

باب إِذَا أَشَارَ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ فَأَبَى حَكَمَ عَلَيْهِ بِالْحُكْمِ الْبَيِّنِ

If the Imam suggests a reconciliation but the defendant refuses it, he is to be judged by the evident valid law.

باب: اگر حاکم صلح کرنے کے لیے اشارہ کرے اور کوئی فریق نہ مانے تو قاعدے کا حکم دے دے ۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ الزُّبَيْرَ، كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي شِرَاجٍ مِنَ الْحَرَّةِ كَانَا يَسْقِيَانِ بِهِ كِلاَهُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِلزُّبَيْرِ ‏"‏ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ ‏"‏‏.‏ فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ آنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ قَالَ ‏"‏ اسْقِ ثُمَّ احْبِسْ حَتَّى يَبْلُغَ الْجَدْرَ ‏"‏‏.‏ فَاسْتَوْعَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَئِذٍ حَقَّهُ لِلزُّبَيْرِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَبْلَ ذَلِكَ أَشَارَ عَلَى الزُّبَيْرِ بِرَأْىٍ سَعَةٍ لَهُ وَلِلأَنْصَارِيِّ، فَلَمَّا أَحْفَظَ الأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اسْتَوْعَى لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ‏.‏ قَالَ عُرْوَةُ قَالَ الزُّبَيْرُ وَاللَّهِ مَا أَحْسِبُ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ إِلاَّ فِي ذَلِكَ ‏{‏فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ‏}‏ الآيَةَ‏.‏

Narrated By Urwa bin Az-Zubair : Az-Zubair told me that he quarrelled with an Ansari man who had participated in (the battle of) Badr in front of Allah's Apostle about a water stream which both of them used for irrigation. Allah's Apostle said to Az-Zubair, "O Zubair! Irrigate (your garden) first, and then let the water flow to your neighbor." The Ansari became angry and said, "O Allah's Apostle! Is it because he is your cousin?" On that the complexion of Allah's Apostle changed (because of anger) and said (to Az-Zubair), "I irrigate (your garden) and then with-hold the water till it reaches the walls (surrounding the palms)." So, Allah's Apostle gave Az-Zubair his full right. Before that Allah's Apostle had given a generous judgment beneficial for Az-Zubair and the Ansari, but when the Ansan irritated Allah's Apostle he gave Az-Zubair his full right according to the evident law. Az-Zubair said, "By Allah ! I think the following Verse was revealed concerning that case: "But no by your Lord They can have No faith Until they make you judge In all disputes between them." (4.65)

عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ان میں اور ایک انصاری صحابی میں جو بدر کی لڑائی میں بھی شریک تھے ، مدینہ کی پتھریلی زمین کی نالی کے بارے میں جھگڑا ہوا ۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہﷺکی خدمت میں لے گئے ۔ دونوں حضرات اس نالے سے (اپنے باغ) سیراب کیا کرتے تھے ۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: اے زبیر! تم پہلے سیراب کرلو ، پھر اپنے پڑوسی کو بھی سیراب کرنے دو، اس پر انصاری کو غصہ آگیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا اس وجہ سے کہ یہ آپ ﷺکی پھوپھی کے لڑکے ہیں ۔ اس پر رسو ل اللہﷺکے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپﷺنے فرمایا: اے زبیر ! تم سیراب کرو اور پانی کو (اپنے باغ میں ) اتنی دیر تک آنے دو کہ دیوار تک چڑھ جائے ۔ اس مرتبہ رسو ل اللہ ﷺنے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق عطا فرمایا، اس سے پہلے آپﷺنے ایسا فیصلہ کیا تھا، جس میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور انصاری صحابی دونوں کی رعایت تھی۔ لیکن جب انصاری نے رسول اللہﷺکو غصہ دلایا تو آپﷺنے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو قانوں کے مطابق پورا حق عطا فرمایا ۔ عروہ نے بیان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، قسم اللہ کی ! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی واقعہ پر نازل ہوئی تھی۔ "پس ہرگز نہیں ! تیرے رب کی قسم ، یہ لوگ اس وقت تک مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کرلیں۔

Chapter No: 13

باب الصُّلْحِ بَيْنَ الْغُرَمَاءِ وَأَصْحَابِ الْمِيرَاثِ وَالْمُجَازَفَةِ فِي ذَلِكَ

Reconciliation between the creditors and between the inheritors and the repayment of debts by giving an amount that is not specified or counted.

باب : میت کے قرض خواہوں اور وارثوں میں صلح کا بیان اور قرض کا انداز سے ادا کرنا ۔

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لاَ بَأْسَ أَنْ يَتَخَارَجَ الشَّرِيكَانِ، فَيَأْخُذَ هَذَا دَيْنًا، وَهَذَا عَيْنًا، فَإِنْ تَوِيَ لأَحَدِهِمَا لَمْ يَرْجِعْ عَلَى صَاحِبِهِ‏.‏

Ibn Abbas said, "There is no harm if two partners agree that one of them takes the debts and the other takes the assets, but if the property of any of them is ruined the loser has no right to claim it from the other partner."

اور ابن عباسؓ نے کہا دو شریک اگر یہ ٹھہرالیں کہ ایک نقد مال لے لے اور دوسرا (اپنے حصے کے بدل) قرضہ وصول کرے تو کچھ قبا حت نہیں پھر اگر ایک کا حصہ تلف ہو جائے ( مثلاً قرضہ ڈوب جائے تو وہ اپنے ساجھی سے کچھ نہیں لے سکتا )۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائِهِ أَنْ يَأْخُذُوا التَّمْرَ بِمَا عَلَيْهِ، فَأَبَوْا وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ فِيهِ وَفَاءً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ ‏"‏ إِذَا جَدَدْتَهُ فَوَضَعْتَهُ فِي الْمِرْبَدِ آذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏‏.‏ فَجَاءَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَجَلَسَ عَلَيْهِ، وَدَعَا بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ ادْعُ غُرَمَاءَكَ، فَأَوْفِهِمْ ‏"‏‏.‏ فَمَا تَرَكْتُ أَحَدًا لَهُ عَلَى أَبِي دَيْنٌ إِلاَّ قَضَيْتُهُ، وَفَضَلَ ثَلاَثَةَ عَشَرَ وَسْقًا سَبْعَةٌ عَجْوَةٌ، وَسِتَّةٌ لَوْنٌ أَوْ سِتَّةٌ عَجْوَةٌ وَسَبْعَةٌ لَوْنٌ، فَوَافَيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَغْرِبَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَضَحِكَ فَقَالَ ‏"‏ ائْتِ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَخْبِرْهُمَا ‏"‏‏.‏ فَقَالاَ لَقَدْ عَلِمْنَا إِذْ صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَا صَنَعَ أَنْ سَيَكُونُ ذَلِكَ‏.‏ وَقَالَ هِشَامٌ عَنْ وَهْبٍ عَنْ جَابِرٍ صَلاَةَ الْعَصْرِ‏.‏ وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا بَكْرٍ وَلاَ ضَحِكَ، وَقَالَ وَتَرَكَ أَبِي عَلَيْهِ ثَلاَثِينَ وَسْقًا دَيْنًا‏.‏ وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنْ وَهْبٍ عَنْ جَابِرٍ صَلاَةَ الظُّهْرِ‏.‏

Narrated By Jabir bin Abdullah : My father died and was in debt. I suggested that his creditors take the fruits (i.e. dates) of my garden in lieu of the debt of my father, but they refused the offer, as they thought that it would not cover the full debt. So, I went to the Prophet and told him about it. He said (to me), "When you pluck the dates and collect them in the Mirbad (i.e. a place where dates are dried), call me (Allah's Apostle)." Finally he came accompanied by Abu Bakr and 'Umar and sat on the dates and invoked Allah to bless them. Then he said, "Call your creditors and give them their full rights." So, I paid all my father's creditors in full and yet thirteen extra Wasqs of dates remained, seven of which were 'Ajwa and six were Laun or six of which were Ajwa and seven were Laun. I met Allah's Apostle at sunset and informed him about it. On that he smiled and said, "Go to Abu Bakr and 'Umar and tell them about it." They said, "We perceived that was going to happen, as Allah's Apostle did what he did."

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے والد جب شہید ہوئے توان پر قرض تھا ۔میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ صورت رکھی کہ قرض کے بدلے میں وہ (اس سال کی کھجور کے ) پھل لے لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا ، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے قرض پورا نہیں ہوسکے گا ، میں نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺسے اس کا ذکر کیا ۔ آپﷺنے فرمایا: کہ جب پھل توڑ کر مربد (وہ جگہ جہاں کھجور خشک کرتے تھے) میں جمع کردو (تو مجھے خبر دو) چنانچہ میں نے آپﷺکو خبر دی ۔ آپ ﷺتشریف لائے ۔ ساتھ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپﷺوہاں کھجور کے ڈھیر پر بیٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی ، پھر فرمایا: کہ اب اپنے قرض خواہوں کو بلالاؤ اور ان کا قرض ادا کردو، چنانچہ کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کا میرے والد پر قرض رہا اور میں نے اسے ادا نہ کردیا ہو۔ پھر بھی تیرہ وسق کھجور باقی بچ گئی ۔ سات وسق عجوہ میں سے اور چھ وسق لون میں سے ، یا چھ وسق عجوہ میں سے ، اور سات وسق لون میں سے ، بعد میں رسول اللہﷺسے مغرب کے وقت جاکر ملا اور آپﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپﷺہنسے اور فرمایا ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے یہاں جاکر انہیں بھی واقعہ بتادو۔چنانچہ میں نے انہیں بتلایا ، تو انہوں نے کہا: کہ رسو ل اللہﷺکو جو کرنا تھا آپﷺنے وہ کیا ۔ ہمیں اسی وقت معلوم ہوگیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا ۔ ہشام نے وہب سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے عصر کے وقت(حضرت جابر کی حاضری کا ) ذکر کیا ہے اور انہوں نے نہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور نہ ہنسنے کا ، یہ بھی بیان کیا کہ (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا) میرے والد اپنے پر تیس وسق قرض چھوڑ گئے تھے ۔ اور ابن اسحاق نے وہب سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ظہر کی نماز کا ذکر کیا ہے۔ (عجوہ مدینہ کی عمدہ اور اعلیٰ کولٹی کی کھجور کو کہتے ہیں ۔ اور لون اس سے کمتر کھجور کو کہتے ہیں)

Chapter No: 14

باب الصُّلْحِ بِالدَّيْنِ وَالْعَيْنِ

Bringing about reconciliation in case of dispute concerning debts.

باب : کچھ نقد دے کر قرض کے بدل صلح کرنا ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ،‏.‏ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْمَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ فِي بَيْتٍ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِمَا حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، فَنَادَى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فَقَالَ ‏"‏ يَا كَعْبُ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَأَشَارَ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ‏.‏ فَقَالَ كَعْبٌ قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قُمْ فَاقْضِهِ ‏"‏‏.

Narrated By Abdullah bin Kab : That Ka'b bin Malik told him that in the lifetime of Allah's Apostle he demanded his debt from Ibn Abu Hadrad in the Mosque. Their voices grew louder till Allah's Apostle heard them while he was in his house. So he lifted the curtain of his room and called Ka'b bin Malik saying, "O Ka'b!" He replied, "Labbaik! O Allah's Apostle!" He beckoned to him with his hand suggesting that he deduct half the debt. Ka'b said, "I agree, O Allah's Apostle!" Allah's Apostle then said (to Ibn Abu Hadrad), "Get up and pay him the rest."

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنا قرض طلب کیا جو ان کے ذمہ تھا ۔ یہ رسو ل اللہ ﷺکے عہد مبارک کا واقعہ ہے ۔ مسجد کے اندر ان دونوں کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺنے بھی سنی ۔ آپﷺاس وقت اپنے حجرے میں تشریف ر کھتے تھے ۔ چنانچہ آپﷺباہر آئے اور اپنے حجرہ کا پردہ اٹھاکر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو آواز دی۔ آپ ﷺنے آواز دی اے کعب ! انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسو لﷺ! میں حاضر ہوں ۔ پھر آپﷺنے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا معاف کردے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے کردیا اے اللہ کے رسول ﷺ!۔ آپﷺنے (ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: کہ اب اٹھو اور قرض ادا کردو۔ (حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے)

12