Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Al-Jizya (58)    كتاب الجزية والموادعة

123

Chapter No: 1

باب الْجِزْيَةِ وَالْمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الذِمّة الْحَرْبِ

Al-Jizya (tax taken from all non-Muslims men living under the protection of the Islamic State) taken from the Dhimmi, and the stoppage of war for a while with the enemies.

باب : جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا ( ان کو چھوڑ دینے کا ) بیان

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏قَاتِلُوا الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ‏}‏ أَذِلاَّءُ‏.‏ وَمَا جَاءَ فِي أَخْذِ الْجِزْيَةِ مِنَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ وَالْعَجَمِ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ قُلْتُ لِمُجَاهِدٍ مَا شَأْنُ أَهْلِ الشَّأْمِ، عَلَيْهِمْ أَرْبَعَةُ دَنَانِيرَ وَأَهْلُ الْيَمَنِ عَلَيْهِمْ دِينَارٌ قَالَ جُعِلَ ذَلِكَ مِنْ قِبَلِ الْيَسَارِ‏

And the Statement of Allah, "Fight against those who believe not in Allah, nor in the Last day, nor forbid that which has been forbidden by Allah and his Messenger (s.a.w) and those who acknowledge not the religion of truth (Islam) among the people of the Scripture, until they pay the Jizya with willing submission, and feel themselves subdued." (V.9:29). And what has been said regarding the taking of Jizya from the Jews, Christians, Magians and non-Arab infidels. Narrated by Ibn Abi Najih, "I asked Mujahid, 'Why are the Syrians charged four Dinars as Jizya while the Yemenites are charged one Dinar only?' Mujahid replied, 'This (Jizya) has been fixed on the basis of the degree of prosperity.'"

اور اللہ تعالیٰ نے ( سورت براۃ میں ) فرمایا اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) لوگوں میں ان سے لڑو جو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور اللہ اور رسول نے جس چیز کو حرام کیا اس کو حرام نہیں جانتے اور سچّا دین ( اسلام ) قبول نہیں کرتے ۔آیت میں صاغرون کے معنے ذلیل ہیں اور یہود اور نصاریٰ اور پارسی اور ( عرب کے سوا ) ہر ملک والیوں سے جزیہ لینے کا بیان اور سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی نجیح سے روایت کی ، انہوں نے کہا میں نے مجاہد سے پوچھا شام کے کافروں سے تو ( سال میں ) چار اشرفیاں جزیہ لی جاتی تھیں اور یمن کے کافروں سے ایک ہی اشرفی لی جاتی ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں ۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ سَمِعْتُ عَمْرًا، قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَعَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، فَحَدَّثَهُمَا بَجَالَةُ، سَنَةَ سَبْعِينَ ـ عَامَ حَجَّ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ بِأَهْلِ الْبَصْرَةِ ـ عِنْدَ دَرَجِ زَمْزَمَ قَالَ كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الأَحْنَفِ، فَأَتَانَا كِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ فَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوسِ‏.‏ وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ‏

Narrated By 'Umar bin Dinar : I was sitting with Jabir bin Zaid and 'Amr bin Aus, and Bjalla was narrating to them in 70 A.H. the year when Musab bin Az-Zubair was the leader of the pilgrims of Basra. We were sitting at the steps of Zam-zam well and Bajala said, "I was the clerk of Juz bin Muawiya, Al-Ahnaf's paternal uncle. A letter came from 'Umar bin Al-Khattab one year before his death; and it was read: "Cancel every marriage contracted among the Magians between relatives of close kinship (marriages that are regarded illegal in Islam: a relative of this sort being called Dhu-Mahram.)" 'Umar did not take the Jizya from the Magian infidels

عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ میں جابر بن زید اور عمرو بن اوس کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ان دونوں بزرگوں سے بجالہ (تابعی) نے بیان کیا کہ 70 ہجری میں جس سال حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بصرہ والوں کے ساتھ حج کیا تھا ۔ زمزم کی سیڑھیوں کے پاس انہوں نے بیان کیا تھا کہ میں احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا ۔ تو وفات سے ایک سال پہلے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک مکتوب ہمارے پاس آیا کہ جس پارسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایاہو تو ان کو جدا کردو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پارسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا۔


حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرٍ‏

Till 'Abdur-Rahman bin 'Auf testified that Allah's Apostle had taken the Jizya from the Magians of Hajar.

حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہﷺنے ہجر کے پارسیوں سے جزیہ لیا تھا ۔ (تو وہ بھی لینے لگے تھے)


حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ الأَنْصَارِيَّ وَهْوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَىٍّ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمُ الْعَلاَءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَسَمِعَتِ الأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَتْ صَلاَةَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَلَمَّا صَلَّى بِهِمِ الْفَجْرَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ رَآهُمْ وَقَالَ ‏"‏ أَظُنُّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدْ جَاءَ بِشَىْءٍ ‏"‏‏.‏ قَالُوا أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ لاَ الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ ‏"‏‏

Narrated By 'Amr bin 'Auf Al-Ansari : (Who was an ally of Bam 'Amr bin Lu'ai and one of those who had taken part in (the Ghazwa of) Badr): Allah's Apostle sent Abu 'Ubaida bin Al-Jarreh to Bahrain to collect the Jizya. Allah's Apostle had established peace with the people of Bahrain and appointed Al-'Ala' bin Al-Hadrami as their governor. When Abu 'Ubaida came from Bahrain with the money, the Ansar heard of Abu 'Ubaida's arrival which coincided with the time of the morning prayer with the Prophet. When Allah's Apostle led them in the morning prayer and finished, the Ansar approached him, and he looked at them and smiled on seeing them and said, "I feel that you have heard that Abu. 'Ubaida has brought something?" They said, "Yes, O Allah's Apostle' He said, "Rejoice and hope for what will please you! By Allah, I am not afraid of your poverty but I am afraid that you will lead a life of luxury as past nations did, whereupon you will compete with each other for it, as they competed for it, and it will destroy you as it destroyed them."

حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ نے خبر دی ، وہ بنی عامر بن لوی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں شریک تھے ۔ انہوں نے ان کو خبر دی کہ رسول اللہﷺنے ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین جزیہ وصول کرنے کےلیے بھیجا تھا۔ آپﷺنے بحرین کے لوگوں سے صلح کی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو حاکم بنایا تھا۔ جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین کا مال لے کر آئے تو انصار کو معلوم ہوگیا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ آگئے ہیں ۔ چنانچہ فجر کی نماز سب لوگوں نے نبیﷺکے ساتھ پڑھی ۔ جب آپﷺنماز پڑھا چکے تو لوگ آپﷺکے سامنے آئے ۔ آپﷺانہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تم نے سن لیا ہے کہ ابو عبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں ؟ انصار رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : جی ہاں، اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ﷺنے فرمایا: تمہیں خوش خبری ہو، اور ا س چیز کےلیے تم پر امید رہو۔ جس سے تمہیں خوشی ہوگی ، لیکن اللہ کی قسم ! میں تمہارے بارے میں محتاجی اور فقر سے نہیں ڈرتا ۔ مجھے اگر خوف ہے تو اس بات کاہے کہ تم پر دنیا کے دروازے اس طرح کھول دئیے جائیں گے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دئیے گئے تھے ، تو انہوں نے اس میں رغبت کی اور ایک دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جس طرح تم کررہے ہو ۔ تو یہ تنافس (competition) اور دوڑ تم کو اسی طرح تباہ کردے گا جیسے پہلے لوگوں کو کیا تھا۔


حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، وَزِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، قَالَ بَعَثَ عُمَرُ النَّاسَ فِي أَفْنَاءِ الأَمْصَارِ يُقَاتِلُونَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَسْلَمَ الْهُرْمُزَانُ فَقَالَ إِنِّي مُسْتَشِيرُكَ فِي مَغَازِيَّ هَذِهِ‏.‏ قَالَ نَعَمْ، مَثَلُهَا وَمَثَلُ مَنْ فِيهَا مِنَ النَّاسِ مِنْ عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ مَثَلُ طَائِرٍ لَهُ رَأْسٌ وَلَهُ جَنَاحَانِ وَلَهُ رِجْلاَنِ، فَإِنْ كُسِرَ أَحَدُ الْجَنَاحَيْنِ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ بِجَنَاحٍ وَالرَّأْسُ، فَإِنْ كُسِرَ الْجَنَاحُ الآخَرُ نَهَضَتِ الرِّجْلاَنِ وَالرَّأْسُ، وَإِنْ شُدِخَ الرَّأْسُ ذَهَبَتِ الرِّجْلاَنِ وَالْجَنَاحَانِ وَالرَّأْسُ، فَالرَّأْسُ كِسْرَى، وَالْجَنَاحُ قَيْصَرُ، وَالْجَنَاحُ الآخَرُ فَارِسُ، فَمُرِ الْمُسْلِمِينَ فَلْيَنْفِرُوا إِلَى كِسْرَى‏.‏ وَقَالَ بَكْرٌ وَزِيَادٌ جَمِيعًا عَنْ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ قَالَ فَنَدَبَنَا عُمَرُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْنَا النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَرْضِ الْعَدُوِّ، وَخَرَجَ عَلَيْنَا عَامِلُ كِسْرَى فِي أَرْبَعِينَ أَلْفًا، فَقَامَ تُرْجُمَانٌ فَقَالَ لِيُكَلِّمْنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ‏.‏ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ سَلْ عَمَّا شِئْتَ‏.‏ قَالَ مَا أَنْتُمْ قَالَ نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ كُنَّا فِي شَقَاءٍ شَدِيدٍ وَبَلاَءٍ شَدِيدٍ، نَمَصُّ الْجِلْدَ وَالنَّوَى مِنَ الْجُوعِ، وَنَلْبَسُ الْوَبَرَ وَالشَّعَرَ، وَنَعْبُدُ الشَّجَرَ وَالْحَجَرَ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ، إِذْ بَعَثَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرَضِينَ تَعَالَى ذِكْرُهُ وَجَلَّتْ عَظَمَتُهُ إِلَيْنَا نَبِيًّا مِنْ أَنْفُسِنَا، نَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، فَأَمَرَنَا نَبِيُّنَا رَسُولُ رَبِّنَا صلى الله عليه وسلم أَنْ نَقَاتِلَكُمْ حَتَّى تَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ أَوْ تُؤَدُّوا الْجِزْيَةَ، وَأَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا صلى الله عليه وسلم عَنْ رِسَالَةِ رَبِّنَا أَنَّهُ مَنْ قُتِلَ مِنَّا صَارَ إِلَى الْجَنَّةِ فِي نَعِيمٍ لَمْ يَرَ مِثْلَهَا قَطُّ، وَمَنْ بَقِيَ مِنَّا مَلَكَ رِقَابَكُمْ‏

Narrated By Jubair bin Haiya : 'Umar sent the Muslims to the great countries to fight the pagans. When Al-Hurmuzan embraced Islam, 'Umar said to him. "I would like to consult you regarding these countries which I intend to invade." Al-Hurmuzan said, "Yes, the example of these countries and their inhabitants who are the enemies. of the Muslims, is like a bird with a head, two wings and two legs; If one of its wings got broken, it would get up over its two legs, with one wing and the head; and if the other wing got broken, it would get up with two legs and a head, but if its head got destroyed, then the two legs, two wings and the head would become useless. The head stands for Khosrau, and one wing stands for Caesar and the other wing stands for Faris. So, order the Muslims to go towards Khosrau." So, 'Umar sent us (to Khosrau) appointing An-Numan bin Muqrin as our commander. When we reached the land of the enemy, the representative of Khosrau came out with forty-thousand warriors, and an interpreter got up saying, "Let one of you talk to me!" Al-Mughira replied, "Ask whatever you wish." The other asked, "Who are you?" Al-Mughira replied, "We are some people from the Arabs; we led a hard, miserable, disastrous life: we used to suck the hides and the date stones from hunger; we used to wear clothes made up of fur of camels and hair of goats, and to worship trees and stones. While we were in this state, the Lord of the Heavens and the Earths, Elevated is His Remembrance and Majestic is His Highness, sent to us from among ourselves a Prophet whose father and mother are known to us. Our Prophet, the Messenger of our Lord, has ordered us to fight you till you worship Allah Alone or give Jizya (i.e. tribute); and our Prophet has informed us that our Lord says: "Whoever amongst us is killed (i.e. martyred), shall go to Paradise to lead such a luxurious life as he has never seen, and whoever amongst us remain alive, shall become your master."

بکر بن عبد اللہ مزنی اور زیاد بن جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ کفار سے جنگ کےلیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوجوں کو بڑے بڑے شہروں کی طرف بھیجا تھا ۔(جب لشکر قادسیہ پہنچا اور لڑائی کا نتیجہ مسلمانوں کے حق میں نکلا) تو ہرمزان اسلام لے آیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: میں تم سے ان (ممالک فارس وغیرہ)پر فوج بھیجنےکے سلسلے میں مشورہ چاہتا ہوں (کہ پہلے ان تین مقاموں فارس ،اصفہان اور آذربائیجان میں کہاں سے لڑائی شروع کی جائے ) اس نے کہا: جی ہاں! اس ملک کی مثال اور اس میں رہنے والے اسلام دشمن باشندوں کی مثال ایک پرندے جیسی ہے جس کا سر ہے ، دو بازو ہیں ۔ اگر اس کا ایک بازو توڑ دیا جائے تو وہ اپنے دونوں پاؤں پر ایک بازو اور ایک سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ اگر دو سرا بازو بھی توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں اور سر کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔لیکن اگر سر توڑ دیا جائے تو دونوں پاؤں دونوں بازو اور سر سب بے کار رہ جاتا ہے۔ پس سر تو کسریٰ ہے ، ایک بازو قیصر ہے اور دوسرا فارس!اس لیے آپ مسلمانوں کو حکم دے دیں کہ پہلے وہ کسریٰ پر حملہ کریں ، اور بکر بن عبد اللہ اور زیاد بن جبیر دونوں نے بیان کیا کہ ان سے جبیر بن حیہ نے بیان کیا کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جہاد کےلیے ) بلایا اور حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہماراامیر مقررکیا ۔ جب ہم دشمن کی سر زمین (نہاوند) کے قریب پہنچے تو کسریٰ کا ایک افسر چالیس ہزار کا لشکر ساتھ لئے ہوئے ہمارے مقابلہ کےلیے بڑھا۔ پھر ایک ترجمان نے آکر کہا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص گفتگو کرے ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو تمہارے مطالبات ہوں ، انہیں بیان کرو، اس نے پوچھا آخر تم لوگ ہو کون؟ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم عرب کے رہنے والے ہیں ، ہم انتہائی بدبختیوں اور مصیبتوں میں مبتلا تے ۔ بھوک کی شدت میں ہم چمڑے ، اور گٹھلیاں چوسا کرتے تھے۔ اورن اور بال ہماری پوشاک تھی اور پتھروں اور درختوں کی ہم عبادت کیا کرتے تھے ۔ ہماری مصیبتیں اسی طرح قائم تھیں کہ آسمان اور زمین کے رب نے ، جس کا ذکر اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بلند ہے ۔ ہماری طرف ہماری ہی طرح (کے انسانی عادات و خصائص رکھنے والا) ایک نبی بھیجا۔ ہم اس کے باپ اور ماں کو جانتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺنے ہمیں حکم دیا کہ ہم تم سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں جب تک کہ تم صرف اللہ اکیلے کی عبادت نہ کرنے لگو۔ یا پھر اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیہ دینا قبول کرلو، اور ہمارے نبی ﷺنے ہمیں اپنے رب کا یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ جہاد میں ہمارا جو آدمی بھی قتل کیا جائے گا وہ ایسی جنت میں جائے گا ، جو اس نے کبھی نہیں دیکھی اور جو لوگ ہم میں سے زندہ باقی رہ جائیں گے وہ(فتح حاصل کرکے) تم پر حاکم بن سکیں گے۔ (مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ گفتگو تمام کرکےنعمان رضی اللہ عنہ سے کہا لڑائی شروع کرو)


فَقَالَ النُّعْمَانُ رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَلَمْ يُنَدِّمْكَ وَلَمْ يُخْزِكَ، وَلَكِنِّي شَهِدْتُ الْقِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ‏

Narrated By Abu Humaid As-Saidi : We accompanied the Prophet in the Ghazwa of Tabuk and the king of 'Aila presented a white mule and a cloak as a gift to the Prophet. And the Prophet wrote to him a peace treaty allowing him to keep authority over his country.

نعمان نے کہا تم کو تو اللہ ایسی کئی لڑائیوں میں نبیﷺ کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے اور اس نے تم کو (لڑائی میں دیر کرنے پر) نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل (یانہ رنجیدہ)اور میں تو رسول اللہﷺ کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا۔آپؐ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرےلڑائی شروع نہ کرتے (اور دن چڑھ جاتا) تو پھر اس وقت تک ٹھہر ےرہتے(کہ سورج ڈھل جائے)ہوائیں چلنے لگیں ،نمازوں کا وقت آن پہنچے۔

Chapter No: 2

باب إِذَا وَادَعَ الإِمَامُ مَلِكَ الْقَرْيَةِ هَلْ يَكُونُ ذَلِكَ لِبَقِيَّتِهِمْ

If the Imam concludes a truce with the king of a country, will peace be observed in regard to all the people of that country?

باب : اگر بستی کے حاکم سے صلح ہو تو بستی والوں سے بھی صلح سمجھی جائے گی ۔

حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم تَبُوكَ، وَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بَغْلَةً بَيْضَاءَ، وَكَسَاهُ بُرْدًا، وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ‏

Narrated By Abu Humaid As-Saidi : We accompanied the Prophet in the Ghazwa of Tabuk and the king of 'Aila presented a white mule and a cloak as a gift to the Prophet. And the Prophet wrote to him a peace treaty allowing him to keep authority over his country.

حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہﷺکے ساتھ ہم غزوۂ تبوک میں شریک تھے ۔ ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے آپﷺکو ایک سفید خچر بھیجا اور آپﷺنے اسے ایک چادر بطور خلعت کے او رایک تحریر کے ذریعہ اس کے ملک پر اسے ہی حاکم باقی رکھا۔

Chapter No: 3

باب الْوَصَايَا بِأَهْلِ ذِمَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم

The advice to take care of non-Muslims who have a covenant of Allah's Messenger (s.a.w).

باب : رسول اللہﷺ نے جن کافروں کو امان دی ( اپنے ذمّہ میں لیا ) ان کے امان قائم رکھنے کی وصیت کرنا ۔

وَالذِّمَّةُ الْعَهْدُ، وَالإِلُّ الْقَرَابَةُ

ذمہ کہتے ہیں عہد اور اقرار کو اور اٍلّ کا لفظ جو قرآن میں آیا ہے اس کے معنی رشتہ داری کے ہیں ۔

حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ جُوَيْرِيَةَ بْنَ قُدَامَةَ التَّمِيمِيَّ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ قُلْنَا أَوْصِنَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ‏.‏ قَالَ أُوصِيكُمْ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ ذِمَّةُ نَبِيِّكُمْ، وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ‏.

Narrated By Juwairiya bin Qudama At-Tamimi : We said to 'Umar bin Al-Khattab, Jo Chief of the believers! Advise us." He said, "I advise you to fulfil Allah's Convention (made with the Dhimmis) as it is the convention of your Prophet and the source of the livelihood of your dependents (i.e. the taxes from the Dhimmis.) "

جویریہ بن قدامہ تمیمی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا تھا کہ (جب وہ زخمی ہوئے) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے ! تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی (جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں (کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا) کیونکہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ ہے اور تمہارے گھر والوں کی روزی ہے (کہ جزیہ کے روپیہ سے تمہارے بال بچوں کی گزران ہوتی ہے)

Chapter No: 4

باب مَا أَقْطَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْبَحْرَيْنِ وَمَا وَعَدَ مِنْ مَالِ الْبَحْرَيْنِ وَالْجِزْيَةِ، وَلِمَنْ يُقْسَمُ الْفَىْءُ وَالْجِزْيَةُ ؟

What grants the Prophet (s.a.w) gave from the land of Bahrain, and what he promised to give from Bahrain money resources and from Al-Jizya. And to whom should the Fai and the Jizya be distributed?

باب : نبیﷺ کا بحرین میں سے معاشین دینا اور بحرین کی آمدنی اور جزیہ میں سے کسی کو کچھ دینے کا وعدہ کرنا اس کا بیان اور اس کا کہ جو مال کافروں سے بٍن لڑے ہاتھ آئے یا جزیہ وہ کن لوگوں کو تقسیم کیا جائے ۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ قَالَ دَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الأَنْصَارَ لِيَكْتُبَ لَهُمْ بِالْبَحْرَيْنِ فَقَالُوا لاَ وَاللَّهِ حَتَّى تَكْتُبَ لإِخْوَانِنَا مِنْ قُرَيْشٍ بِمِثْلِهَا‏.‏ فَقَالَ ذَاكَ لَهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ عَلَى ذَلِكَ يَقُولُونَ لَهُ قَالَ ‏"‏ فَإِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُثْرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الحَوضِ‏"‏‏

Narrated By Yahya bin Said : Once the Prophet called the Ansar in order to grant them part of the land of Bahrain. On that they said, "No! By Allah, we will not accept it unless you grant a similar thing to our Quarries brothers as well." He said, "That will be theirs if Allah wishes." But when the Ansar persisted in their request, he said, "After me you will see others given preference over you in this respect (in which case) you should be patient till you meet me at the Tank (of Al-Kauthar)."

حضرت یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے انصار کو بلایا ، تاکہ بحرین میں ان کےلیے کچھ زمین لکھ دیں۔ لیکن انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ! اللہ کی قسم! (ہمیں اسی وقت وہاں زمین عنایت فرمائیے)جب اتنی زمین ہمارے بھائی قریش (مہاجرین) کےلیے بھی آپ لکھیں ۔ آپﷺنے فرمایا: جب تک اللہ کو منظور ہے یہ معاش ان کو بھی ( یعنی قریش والوں کو) ملتی رہے گی ۔ لیکن انصار یہی اصرار کرتے رہے کہ قریش والوں کےلیے بھی سندیں لکھ دیجئے۔ جب آپﷺنے انصار سے فرمایا: کہ میرے بعد تم یہ دیکھو گے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی ، لیکن تم صبر سے کام لینا ، تاآنکہ تم آخر میں مجھ سے آکر ملو۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ أَخْبَرَنِي رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِي ‏"‏ لَوْ قَدْ جَاءَنَا مَالُ الْبَحْرَيْنِ قَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَجَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ مَنْ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِدَةٌ فَلْيَأْتِنِي‏.‏ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ كَانَ قَالَ لِي ‏"‏ لَوْ قَدْ جَاءَنَا مَالُ الْبَحْرَيْنِ لأَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا ‏"‏‏.‏ فَقَالَ لِي احْثُهْ‏.‏ فَحَثَوْتُ حَثْيَةً فَقَالَ لِي عُدَّهَا‏.‏ فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُمِائَةٍ، فَأَعْطَانِي أَلْفًا وَخَمْسَمِائَةٍ‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : Allah's Apostle once said to me, "If the revenue of Bahrain came, I would give you this much and this much." When Allah's Apostle had died, the revenue of Bahrain came, and Abu Bakr announced, " Let whoever was promised something by Allah's Apostle come to me." So, I went to Abu Bakr and said, "Allah's Apostle said to me, 'If the revenue of Bahrain came, I would give you this much and this. much." On that Abu Bakr said to me, "Scoop (money) with both your hands." I scooped money with both my hands and Abu Bakr asked me to count it. I counted it and it was five-hundred (gold pieces). The total amount he gave me was one thousand and five hundred (gold pieces.)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے مجھ سے فرمایا تھاکہ اگر ہمارے پاس بحرین سے مال آجائے تو میں تمہیں اتنا اتنا ، اتنا (تین لپ)دوں گا۔پھر جب آپﷺکی وفات ہوگئی او راس کے بعد بحرین کا مال آیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺنے اگر کسی سے کوئی دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپﷺنے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال ہمارے یہاں آیا تو میں تمہیں اتنا ، اتنا اور اتنا دوں گا ۔ اس پر انہوں نے فرمایا : کہ اچھا ایک لپ بھرو، میں نے ایک لپ بھری ، تو انہوں نے فرمایا: اسے شمار کرو، میں نے شمار کیا تو پانچ سو تھا ، پھر انہوں نے مجھے ڈیڑھ ہزار عنایت فرمایا۔


وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، أُتِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ فَقَالَ ‏"‏ انْثُرُوهُ فِي الْمَسْجِدِ ‏"‏ فَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذْ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي إِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلاً‏.‏ قَالَ ‏"‏ خُذْ ‏"‏‏.‏ فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ‏.‏ فَقَالَ أْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَىَّ‏.‏ قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَىَّ‏.‏ قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَرْفَعْهُ‏.‏ فَقَالَ أْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَىَّ‏.‏ قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَىَّ‏.‏ قَالَ ‏"‏ لاَ ‏"‏‏.‏ فَنَثَرَ ثُمَّ احْتَمَلَهُ عَلَى كَاهِلِهِ ثُمَّ انْطَلَقَ، فَمَا زَالَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ، فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ‏

arrated Anas: Money from Bahrain was brought to the Prophet. He said, "Spread it in the Mosque." It was the biggest amount that had ever been brought to Allah's Apostle. In the meantime Al-'Abbas came to him and said, "O Allah's Apostle! Give me, for I gave the ransom of myself and Aqil." The Prophet said (to him), "Take." He scooped money with both hands and poured it in his garment and tried to lift it, but he could not and appealed to the Prophet, "Will you order someone to help me in lifting it?" The Prophet said, "No." Then Al-'Abbas said, "Then will you yourself help me carry it?" The Prophet said, "No." Then Al 'Abbas threw away some of the money, but even then he was not able to lift it, and so he gain requested the Prophet "Will you order someone to help me carry it?" The Prophet said, "No." Then Al-'Abbas said, "Then will you yourself yelp me carry it?" The Prophet said, 'No." So, Al-'Abbas threw away some more money and lifted it on his shoulder and went away. The Prophet kept on looking at him with astonishment at his greediness till he went out of our sight. Allah's Apostle did not get up from there till not a single Dirham remained from that money.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺکے یہاں بحرین سے خراج کا مال آیا تو آپﷺنے فرمایا: اسے مسجد میں پھیلادو ، بحرین کا وہ مال ان تمام اموال میں سب سے زیادہ تھا جو اب تک رسول اللہﷺکے یہاں آچکے تھے ۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بھی عنایت فرمائیےکیونکہ میں نے (بدر کے موقع پر) اپنا بھی فدیہ ادا کیا تھا اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی ! آپﷺنے فرمایا: اچھا لے لیجئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کپڑے میں مال بھر لیا ، (لیکن اٹھ نہ سکا) تو اس میں سے کم کرنے لگے ۔ لیکن کم کرنے کے بعد بھی نہ اٹھ سکا تو عرض کیا کہ آپﷺ کسی کوحکم دیں کہ اٹھانے میں میری مدد کرے، آپﷺنے فرمایا: ایسا نہیں ہوسکتا، انہوں نے کہا:پھر آپ خود ہی اٹھوادیں ۔ فرمایا: یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ کم کیا ، لیکن اس پر بھی نہ اٹھاسکے تو کہا کہ کسی کو حکم دیجئے کہ وہ اٹھادے ، فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، انہوں نے کہا پھر آپ ہی اٹھادیں ، آپﷺنے فرمایا: یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ آخر اس میں سے انہیں پھر کم کرنا پڑا اور تب کہیں جاکے اسے اپنے کاندھے پر اٹھاسکے اور لے جانے لگے ۔ آپﷺاس وقت تک انہیں برابر دیکھتے رہے ، جب تک وہ ہماری نظروں سے اوجل نہ ہوگئے ۔ ان کے حرص پر آپﷺنے تعجب فرمایا، اور آپﷺاس وقت تک وہاں سے نہ اٹھے جب تک وہاں ایک درہم بھی باقی رہا۔

Chapter No: 5

باب إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ

The sin of one who kills an innocent person having a treaty with the Muslims.

باب : کسی ذمّی کافر کو ناحق مار ڈالنا کیسا گناہ ہے ؟

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا ‏"‏‏

Narrated By 'Abdullah bin 'Amr : The Prophet said, "Whoever killed a person having a treaty with the Muslims, shall not smell the smell of Paradise though its smell is perceived from a distance of forty years."

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺنے فرمایا: جس نے کسی ذمی کو (ناحق)قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جاسکتی ہے۔

Chapter No: 6

باب إِخْرَاجِ الْيَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

The expelling of the Jews from the Arabian Peninsula.

باب : یہودیوں کو عرب کے ملک سے نکال باہر کرنا ،

وَقَالَ عُمَرُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ بِهِ ‏"

Narrated by Umar that the Prophet (s.a.w) said (to the Jews), "We shall keep you here as long as Allah keeps you here."

اور حضرت عمرؓ نے ( خیبر کے یہودیوں سے ) فرمایا میں تم کو یہاں جب تک رہنے دیتا ہوں جب تک اللہ تم کو یہاں رکھے ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ ‏"‏‏.‏ فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ فَقَالَ ‏"‏ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَرْضِ، فَمَنْ يَجِدْ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلاَّ فَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ‏"

Narrated By Abu Huraira : While we were in the Mosque, the Prophet came out and said, "Let us go to the Jews" We went out till we reached Bait-ul-Midras. He said to them, "If you embrace Islam, you will be safe. You should know that the earth belongs to Allah and His Apostle, and I want to expel you from this land. So, if anyone amongst you owns some property, he is permitted to sell it, otherwise you should know that the Earth belongs to Allah and His Apostle."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ابھی مسجد نبوی میں موجود تھے کہ نبیﷺتشریف لائے ، اور فرمایا: یہودیوں کی طرف چلو، چنانچہ ہم روانہ ہوئے اور جب بیت المدارس (یہودیوں کا مدرسہ) پہنچے تو آپﷺنے ان سے فرمایا کہ اسلام لاؤ تو سلامتی کے ساتھ رہوگے اور سمجھ لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول ﷺکی ہے ،اور میرا ارادہ ہے کہ تمہیں اس ملک سے نکال دوں ، پھر تم میں سے اگر کسی کی جائداد کی قیمت آئے تو اسے بیچ ڈالے ۔ اگر تم اس پر تیار نہیں ہو ، تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زمین اللہ اور اس کے رسول ﷺہی کی ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى‏.‏ قُلْتُ يَا أَبَا عَبَّاسٍ، مَا يَوْمُ الْخَمِيسِ قَالَ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَجَعُهُ فَقَالَ ‏"‏ ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا ‏"‏‏.‏ فَتَنَازَعُوا وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا مَا لَهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ ذَرُونِي، فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ ـ فَأَمَرَهُمْ بِثَلاَثٍ قَالَ ـ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ ‏"‏‏.‏ وَالثَّالِثَةُ خَيْرٌ، إِمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا، وَإِمَّا أَنْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ هَذَا مِنْ قَوْلِ سُلَيْمَانَ‏

Narrated By Said bin Jubair : That he heard Ibn 'Abbas saying, "Thursday! And you know not what Thursday is? After that Ibn 'Abbas wept till the stones on the ground were soaked with his tears. On that I asked Ibn 'Abbas, "What is (about) Thursday?" He said, "When the condition (i.e. health) of Allah's Apostle deteriorated, he said, 'Bring me a bone of scapula, so that I may write something for you after which you will never go astray. 'The people differed in their opinions although it was improper to differ in front of a prophet, They said, 'What is wrong with him? Do you think he is delirious? Ask him (to understand). The Prophet replied, 'Leave me as I am in a better state than what you are asking me to do.' Then the Prophet ordered them to do three things saying, 'Turn out all the pagans from the Arabian Peninsula, show respect to all foreign delegates by giving them gifts as I used to do.' " The sub-narrator added, "The third order was something beneficial which either Ibn 'Abbas did not mention or he mentioned but I forgot.'

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن کا ذکر کرتے ہوئے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ جمعرات کا دن ، ہائے! یہ کون سا دن ہے ؟ اس کے بعد وہ اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہوگئیں ۔ سعید نے کہا میں نے عرض کیا ، اے ابو عباس! جمعرات کے دن سے کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اسی دن رسول اللہﷺکی تکلیف میں شدت پیدا ہوئی تھی اور آپﷺنے فرمایا تھا کہ مجھے (لکھنے کا ) ایک کاغذ دے دو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھ جاؤں ، جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔اس پر لوگوں کا اختلاف ہوگیا پھر آپﷺنے خود ہی فرمایا کہ نبی کی موجودگی میں جھگڑنا غیر مناسب ہے، دوسرے لوگ کہنے لگے ، بھلا کیا آپﷺبے کارباتیں فرمائیں گے اچھا ، پھر پوچھ لو ، یہ سن کر آپﷺنے فرمایا ، کہ مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ، کیونکہ اس وقت میں جس عالم میں ہوں ، وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلار ہے ہو۔ اس کے بعد آپﷺنے تین باتوں کا حکم فرمایا ، کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور وفود کے ساتھ اسی طرح خاطر تواضع کا معاملہ کرنا ، جس طرح میں کیا کرتا تھا، تیسری بات کچھ بھلی سی تھی ، یا تو سعید نے اس کو بیان نہ کیا ، یا میں بھول گیا ۔ سفیان نے کہا یہ جملہ (تیسری بات کچھ بھلی سی تھی) سلیمان احول کا کلام ہے اور یہ تھی کہ اسامہ کا لشکر تیار کردینا، یا نماز کی حفاظت کرنا، یا لونڈی غلاموں سے اچھا سلوک کرنا۔

Chapter No: 7

باب إِذَا غَدَرَ الْمُشْرِكُونَ بِالْمُسْلِمِينَ هَلْ يُعْفَى عَنْهُمْ

If the Polytheists prove treacherous to the Muslims, may they be forgiven?

باب : اگر کافر مسلمان سے دغا کریں تو یہ معاف ہو سکتی ہے یا نہیں ؟

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ أُهْدِيَتْ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اجْمَعُوا إِلَىَّ مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ يَهُودَ ‏"‏‏.‏ فَجُمِعُوا لَهُ فَقَالَ ‏"‏ إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَىْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا نَعَمْ‏.‏ قَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ أَبُوكُمْ ‏"‏‏.‏ قَالُوا فُلاَنٌ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ كَذَبْتُمْ، بَلْ أَبُوكُمْ فُلاَنٌ ‏"‏‏.‏ قَالُوا صَدَقْتَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَىْءٍ إِنْ سَأَلْتُ عَنْهُ ‏"‏ فَقَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، وَإِنْ كَذَبْنَا عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي أَبِينَا‏.‏ فَقَالَ لَهُمْ ‏"‏ مَنْ أَهْلُ النَّارِ ‏"‏‏.‏ قَالُوا نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلُفُونَا فِيهَا‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اخْسَئُوا فِيهَا، وَاللَّهِ لاَ نَخْلُفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا ـ ثُمَّ قَالَ ـ هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَىْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا ‏"‏‏.‏ قَالُوا نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ ‏"‏‏.‏ قَالُوا أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا نَسْتَرِيحُ، وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ‏

Narrated By Abu Huraira : When Khaibar was conquered, a roasted poisoned sheep was presented to the Prophets as a gift (by the Jews). The Prophet ordered, "Let all the Jews who have been here, be assembled before me." The Jews were collected and the Prophet said (to them), "I am going to ask you a question. Will you tell the truth?'' They said, "Yes.' The Prophet asked, "Who is your father?" They replied, "So-and-so." He said, "You have told a i.e your father is so-and-so." They said, "You are right." He said, "Will you now tell me the truth, if I ask you about something?" They replied, "Yes, O AbuAl-Qasim; and if we should tell a lie, you can realize our lie as you have done regarding our father." On that he asked, "Who are the people of the (Hell) Fire?" They said, "We shall remain in the (Hell) Fire for a short period, and after that you will replace us." The Prophet said, "You may be cursed and humiliated in it! By Allah, we shall never replace you in it.'' Then he asked, "Will you now tell me the truth if I ask you a question?" They said, "Yes, O Ab Li-AI-Qasim." He asked, "Have you poisoned this sheep?" They said, "Yes." He asked, "What made you do so?" They said, "We wanted to know if you were a liar in which case we would get rid of you, and if you are a prophet then the poison would not harm you."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب خیبر فتح ہوا تو (یہودیوں کی طرف سے) نبیﷺکی خدمت میں بکری کا یا ایسے گوشت کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا۔اس پر آپﷺنے فرمایا: جتنے یہودی یہاں موجود ہیں ۔ انہیں میرے پاس جمع کرو، چنانچہ وہ سب آگئے ، اس کے بعد آپﷺنے فرمایا: دیکھو ، میں تم سے ایک بات پوچھوں گا۔ کیا تم لوگ صحیح صحیح جواب دوگے ؟ سب نے کہا: جی ہاں ، آپﷺنے دریافت فرمایا : تمہارے باپ کون تھے ؟انہوں نے کہا فلاں !آپﷺنے فرمایا : تم جھوٹ بولتے ہو، تمہارے باپ تو فلاں تھے ۔ سب نے کہا: آپ سچ فرماتے ہیں پھر آپﷺنے فرمایا: اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو تم صحیح واقعہ بیان کردوگے ؟ سب نے کہا: جی ہاں ، اے ابو القاسم ! اور اگر ہم جھوٹ بھی بولیں تو آپ ہمارے جھوٹ کو اسی طرح پکڑلیں گے جس طرح آپ نے ابھی ہمارے باپ کے بارے میں ہمارے جھوٹ کو پکڑ لیا ، آپﷺنے اس کے بعد دریافت فرمایا کہ دوزخ میں جانے والے کون لوگ ہوں گے ؟ انہوں نے کہا: کچھ دنوں کےلیے تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے لیکن پھر آپ لوگ ہماری جگہ داخل کردئیے جائیں گے ۔ آپﷺنے فرمایا: تم اس میں برباد رہو، اللہ گواہ ہے کہ ہم تمہاری جگہ اس میں کبھی داخل نہیں کئے جائیں گے ۔ پھر آپﷺنے دریافت فرمایا کہ اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو کیا تم مجھ سے صحیح واقعہ بتادوگے ؟اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہاں ! اے ابو القاسم ! آپﷺنے دریافت کیا تو کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا ہے ؟ انہوں نے کہا :جی ہاں ، آپﷺنے دریافت فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے کہا : ہمارا مقصد یہ تھا کہ آپ جھوٹے ہیں (نبوت میں) تو ہمیں آرام مل جائے گا اور اگر آپ واقعی نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔

Chapter No: 8

باب دُعَاءِ الإِمَامِ عَلَى مَنْ نَكَثَ عَهْدًا

The invocation of the Imam against those who break their covenant.

باب : جو عہد شکنی کرے اس کے لئے بد دعا کرنا ۔

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ سَأَلْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ عَنِ الْقُنُوتِ‏.‏ قَالَ قَبْلَ الرُّكُوعِ‏.‏ فَقُلْتُ إِنَّ فُلاَنًا يَزْعُمُ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ كَذَبَ‏.‏ ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ ـ قَالَ ـ بَعَثَ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ ـ يَشُكُّ فِيهِ ـ مِنَ الْقُرَّاءِ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَعَرَضَ لَهُمْ هَؤُلاَءِ فَقَتَلُوهُمْ، وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَهْدٌ، فَمَا رَأَيْتُهُ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ‏

Narrated By 'Asim : I asked Anas about the Qunut (i.e. invocation in the prayer). Anas said, "It should be recited before bowing." I said, "So-and-so claims that you say that it should be recited after bowing." He replied, "He is mistaken." Then Anas narrated to us that the Prophet invoked evil on the tribe of Bani-Sulaim for one month after bowing. 'Anas Further said, "The Prophet had sent 40 or 70 Qaris (i.e. men well versed in the knowledge of the Qur'an) to some pagans, but the latter struggled with them and martyred them, although there was a peace pact between them and the Prophet I had never seen the Prophet so sorry and worried about anybody as he was about them (i.e. the Qaris)."

عاصم احول نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دعا ئے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رکوع سے پہلے ہونی چاہیے ، میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب (محمد بن سیرین ) تو کہتے ہیں کہ آپ (حضرت انس رضی اللہ عنہ ) نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ انہوں نے غلط کہا ہے ۔ پھر انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبیﷺنے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت کی تھی۔ اور آپﷺنے اس میں قبیلہ بنو سلیم کے قبیلوں کے حق میں بد دعا کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپﷺنے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت ، راوی کو شک تھا ، مشرکین کے پاس بھیجی تھی۔ لیکن یہ بنو سلیم کے لوگ (جن کا سردار عامر بن طفیل تھا) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا ۔ حالانکہ نبیﷺسے ان کا معاہدہ تھا۔ (لیکن انہوں نے دغا دی) آپﷺکو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپﷺرنجیدہ تھے۔

Chapter No: 9

باب أَمَانِ النِّسَاءِ وَجِوَارِهِنَّ

The offering of shelter and peace to someone by women.

باب : عورتیں اگر کسی کو امان اور پناہ دیں ؟

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ أَبَا مُرَّةَ، مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ ابْنَةِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ ابْنَةَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ ‏"‏ مَنْ هَذِهِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ قَامَ، فَصَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي عَلِيٌّ أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلاً قَدْ أَجَرْتُهُ فُلاَنُ بْنُ هُبَيْرَةَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ ‏"‏‏.‏ قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ وَذَلِكَ ضُحًى‏

Narrated By Um Hani : The daughter of Abu Talib: I went to Allah's Apostle on the day of the conquest of Mecca and found him taking a bath, and his daughter Fatima was screening him. I greeted him and he asked, "Who is that?" I said, "I, Um Hani bint Abi Talib." He said, "Welcome, O Um Hani." When he had finished his bath, he stood up and offered eight Rakat while dressed in one garment. I said, "O Allah's Apostle! My brother 'Ali has declared that he will kill a man to whom I have granted asylum. The man is so and-so bin Hubaira." Allah's Apostle said, "O Um Hani! We will grant asylum to the one whom you have granted asylum." (Um Hani said, "That (visit) took place in the Duha (i.e. forenoon)).

ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی میں نے دیکھا کہ آپﷺغسل کررہے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کی صاحبزادی پردہ کئے ہوئے تھیں ۔ میں نے آپﷺکو سلام کیا ، تو آپﷺنے دریافت فرمایا کہ کون صاحبہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ میں ام ہانی بنت ابی طالب ہوں ، آپﷺنے فرمایا: مرحبا ام ہانی ! پھر جب آپﷺغسل سے فارغ ہوئے تو آپﷺنے کھڑے ہوکر آٹھ رکعت چاشت کی نماز پڑھی ۔ آپﷺصرف ایک کپڑا جسم اطہر پر لپیٹے ہوئے تھے ، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!میری ماں کے بیٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک شخص کو جسے میں پناہ دے چکی ہوں ،قتل کئے بغیر نہیں رہیں گے ۔ یہ شخص ہبیرہ کا فلاں لڑکا (جعدہ ) ہے آپﷺنے فرمایا: ام ہانی ! جسے تم نے پناہ دے دی ، اسے ہماری طرف سے بھی پناہ ہے ۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ وقت چاشت کا تھا۔

Chapter No: 10

باب ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَجِوَارُهُمْ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ

The asylum and protection granted by the Muslims should be respected and observed by all of them, even if it is granted by one of the lowest social status.

باب : مسلمان مسلمان سب برابر ہیں ۔ اگر ایک ادنیٰ مسلمان کسی کافر کو پناہ دے تو سب مسلمانوں کو قبول کرنا چاہئے۔

حَدَّثَنى مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ خَطَبَنَا عَلِيٌّ فَقَالَ مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلاَّ كِتَابُ اللَّهِ، وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَقَالَ فِيهَا الْجِرَاحَاتُ وَأَسْنَانُ الإِبِلِ، وَالْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى كَذَا، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى فِيهَا مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ، وَمَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِكَ‏

Narrated By Ibrahim At-Tamimi's father : 'Ali delivered a sermon saying, "We have no book to read except the Book of Allah and what is written in this paper which contains verdicts regarding (retaliation for) wounds, the ages of the camels (given as Zakat or as blood money) and the fact that Medina is a sanctuary in between Air mountain to so-and-so (mountain). So, whoever innovates in it an heresy or commits a sin or gives shelter in it, to such an innovator will incur the Curse of Allah, the angels and all the people, and none of his compulsory or optional good deeds of worship will be accepted. And whoever (freed slave) takes as his master (i.e. befriends) other than his real masters will incur the same (Curse). And the asylum granted by any Muslim is to be secured by all the other Muslims, and whoever betrays a Muslim in this respect will incur the same (Curse)."

ابراہیم تیمی اپنے والد یزید بن شریک تیمی سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے خطبہ دیا ، جس میں فرمایا: کہ کتاب اللہ اور اس ورق میں جو کچھ ہے ، ا سکے سوا اور کوئی کتاب(احکام شریعت کی) ایسی ہمارے پاس نہیں جسے ہم پڑھتے ہوں ، پھر آپﷺنے فرمایا : اس میں زخموں کے قصاص کے احکام ہیں اور دیت میں دئیے جانے والے کی عمر کے احکام ہیں اور یہ کہ مدینہ حرم ہے عیر پہاڑی سے فلاں (احد پہاڑی ) تک۔اس لیے جس شخص نے اس جگہ کوئی نئی بات (شریعت کے اندر داخل کی ) یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول ہوگی اور نہ نفل ۔ اور یہ بیان ہے جو لونڈی غلام اپنے مالک کے سوا کسی دوسرے کو مالک بنائے اس پر بھی اس طرح (لعنت ) ہے ۔اور مسلمان مسلمان سب برابر ہیں ہر ایک کا ذمہ یکسان ہے ۔ پس جس شخص نے کسی مسلمان کی پناہ میں (جو کسی کافر کو دی گئی ہو) دخل اندازی کی تو اس پر بھی اسی طرح لعنت ہے۔

123