Chapter No: 1
باب الْوَصَايَا
Al-Wasaya (The Wills)
با ب : باب وصیتوں کے بیا ن میں ،
وَقَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " وَصِيَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ ". وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ * فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ * فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ}. جَنَفًا مَيْلاً، مُتَجَانِفٌ مَائِلٌ.
And th statement of the Prophet (s.a.w), "One should have his Wasaya (will and testament) written and kept ready with him."
And the Statement of Allah, "It is prescribed for you, when death approaches any of you, if he leaves wealth, that he make a bequest to parents ... some unjust ..." (V.2:180-182)
اور نبیﷺنے فر ما یا ہے مرد کی وصیت اس کے پاس لکھی رہنی چا ہیئے اور اللہ تعا لیٰ نے (سورت بقرہ میں ) فر ما یا جب تم میں کو ئی مر نے لگے اور مال( یا بہت مال ) چھوڑ جانے وا لا ہو تو ماں با پ نا طے وا لو ں کے لئے دستو ر کے موا فق وصیت کر نا تم پر فرض ہے (جنفاً تک )جنفاً کے معنی ایک طرف جھک جا نا اسی سے ہے متجا نف یعنی جھکنے والا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَىْءٌ، يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ، إِلاَّ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ ". تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرٍو عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By Abdullah bin Umar : Allah's Apostle said, "It is not permissible for any Muslim who has something to will to stay for two nights without having his last will and testament written and kept ready with him."
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: کسی مسلمان کےلیے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔ امام مالک کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن مسلم نے عمرو بن دینار سے کی ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، خَتَنِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخِي جُوَيْرِيَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ قَالَ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا وَلاَ دِينَارًا وَلاَ عَبْدًا وَلاَ أَمَةً وَلاَ شَيْئًا، إِلاَّ بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ وَسِلاَحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً.
Narrated By Amr bin Al-Harith : (The brother of the wife of Allah's Apostle. Juwaira bint Al-Harith) When Allah's Apostle died, he did not leave any Dirham or Dinar (i.e. money), a slave or a slave woman or anything else except his white mule, his arms and a piece of land which he had given in charity.
رسول اللہ ﷺکے برادر نسبتی ، اور(ام المؤمنین) حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا ،او ر نہ کوئی دینار ، اور نہ کوئی غلام، اور نہ کوئی باندی، اور کوئی چیز چھوڑی ، ماسوائے اپنے سفید خچر ، اور اپنے ہتھیار، اور اپنی زمین کے جسے آپﷺوقف کرگئے تھے۔
حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ مُصَرِّفٍ، قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَوْصَى فَقَالَ لاَ. فَقُلْتُ كَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاسِ الْوَصِيَّةُ أَوْ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ قَالَ أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ.
Narrated By Talha bin Musarrif : I asked 'Abdullah bin Abu Aufa "Did the Prophet make a will?" He replied, "No," I asked him, "How is it then that the making of a will has been enjoined on people, (or that they are ordered to make a will)?" He replied, "The Prophet bequeathed Allah's Book (i.e. Qur'an)."
طلحہ بن مصرف نے بیان کیا ، انہوں نے کہا: میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سےسوال کیا کہ رسو ل اللہﷺنے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی ؟ یا کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کر دیا گیا؟ انہوں نے کہا: کہ آپﷺنے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ وَصِيًّا. فَقَالَتْ مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ وَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي ـ أَوْ قَالَتْ حَجْرِي ـ فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي، فَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ
Narrated By Al-Aswad : In the presence of 'Aisha some people mentioned that the Prophet had appointed 'Ali by will as his successor. 'Aisha said, "When did he appoint him by will? Verily when he died he was resting against my chest (or said: in my lap) and he asked for a wash-basin and then collapsed while in that state, and I could not even perceive that he had died, so when did he appoint him by will?"
اسود بن یزید نے بیان کیاکہ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (نبیﷺ) کے وصی تھے تو آپ رضی اللہ عنہا نے کہا: کب انہیں وصی بنایا۔ میں توآپﷺکے وصال کے وقت سر مبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے کہا: اپنی گود میں رکھے ہوئے تھی پھر آپﷺنے طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں (سر مبارک) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپﷺکی وفات ہوچکی ہے تو آپﷺنے علی کو وصی کب بنایا۔
Chapter No: 2
باب أَنْ يَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَكَفَّفُوا النَّاسَ
One would rather leave one's inheritors wealthy than leave them begging others.
باب :اگر اپنے وا رثوں کے لیے ما ل و دو لت چھو ڑ جائے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ ان کو نا د ار چھوڑے ،لو گو ں کے سامنے ہا تھ پھلا تے پھر یں
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهْوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا قَالَ " يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ ". قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ " لاَ ". قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ " لاَ ". قُلْتُ الثُّلُثُ. قَالَ " فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ ". وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلاَّ ابْنَةٌ.
Narrated By Sad bin Abu Waqqas : The Prophet came visiting me while I was (sick) in Mecca, ('Amir the sub-narrator said, and he disliked to die in the land, whence he had already migrated). He (i.e. the Prophet) said, "May Allah bestow His Mercy on Ibn Afra (Sad bin Khaula)." I said, "O Allah's Apostle! May I will all my property (in charity)?" He said, "No." I said, "Then may I will half of it?" He said, "No". I said, "One third?" He said: "Yes, one third, yet even one third is too much. It is better for you to leave your inheritors wealthy than to leave them poor begging others, and whatever you spend for Allah's sake will be considered as a charitable deed even the handful of food you put in your wife's mouth. Allah may lengthen your age so that some people may benefit by you, and some others be harmed by you." At that time Sad had only one daughter.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺ(حجۃ الوداع میں) میری عیادت کو تشریف لائے ، میں اس وقت مکہ میں تھا، آپﷺاس سر زمیں پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھےجہاں سے کوئی ہجرت کرچکا ہو۔ آپﷺنے فرمایا: اللہ ابن عفراء (سع بن خولہ) پررحم فرمائے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ!میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کردوں ۔ آپﷺنے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا پھر آدھے کی کردوں؟ آپﷺنے اس پر بھی یہی فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا پھر تہائی کی کردوں؟ آپﷺنے فرمایا: تہائی کی کرسکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے ، اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کےلیے خرچ کروگے) تو وہ خیرات ہے ، یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالوگے (وہ بھی خیرات ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو ، اور دوسرے بہت سے لوگ(اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھیں۔
Chapter No: 3
باب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ
To Will one-third of one's property.
باب :تہا ئی وصیت کر نے کا بیا ن
وَقَالَ الْحَسَنُ لاَ يَجُوزُ لِلذِّمِّيِّ وَصِيَّةٌ إِلاَّ الثُّلُثُ. وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ}.
Al-Hasan said, "A Dhimmi (a non-Muslim living under the protection of an Islamic state) is not allowed to will more than one-third of his property. And Allah said, 'And so judge among them by what Allah has revealed ...' (V.5:49)"
اور اما م حسن بصریؒ نے کہا ذمّی کا فر کی بھی وصیت تہا ئی مال سے زیا دہ نا فذ نہ ہو گی اور اللہ تعا لیٰ نے (سورت ما ئدہ ) میں فر ما یا جو اللہ نے اتارا اس کے موا فق ان کا (یعنی کا فرو ں کا ) فیصلہ کر
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَى الرُّبْعِ، لأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ ".
Narrated By Ibn 'Abbas : I recommend that people reduce the proportion of what they bequeath by will to the fourth (of the whole legacy), for Allah's Apostle said, "One-third, yet even one third is too much."
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ کاش! لوگ (وصیت کو) چوتھائی تک کم کردیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہﷺنے فرمایا تھا کہ تم تہائی (کی وصیت کرسکتے ہو) اور تہائی بھی بہت ہے یا (آپﷺنے یہ فرمایا کہ) یہ بڑی رقم ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَرِضْتُ فَعَادَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ لاَ يَرُدَّنِي عَلَى عَقِبِي. قَالَ " لَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ وَيَنْفَعُ بِكَ نَاسًا ". قُلْتُ أُرِيدُ أَنْ أُوصِيَ، وَإِنَّمَا لِي ابْنَةٌ ـ قُلْتُ ـ أُوصِي بِالنِّصْفِ قَالَ " النِّصْفُ كَثِيرٌ ". قُلْتُ فَالثُّلُثِ. قَالَ " الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ ". قَالَ فَأَوْصَى النَّاسُ بِالثُّلُثِ، وَجَازَ ذَلِكَ لَهُمْ.
Narrated By Sad : I fell sick and the Prophet paid me a visit. I said to him, "O Allah's Apostle! I invoke Allah that He may not let me expire in the land whence I migrated (i.e. Mecca)." He said, "May Allah give you health and let the people benefit by you." I said, "I want to will my property, and I have only one daughter and I want to will half of my property (to be given in charity)." He said," Half is too much." I said, "Then I will one third." He said, "One-third, yet even one-third is too much." (The narrator added, "So the people started to will one third of their property and that was Permitted for them.")
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مکہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہﷺمیری عیادت کےلیے تشریف لائے ۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے الٹے پاؤں واپس نہ کردے (یعنی مکہ میں میری موت نہ ہو) آپﷺنے فرمایا: ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں صحت دے اور تم سے بہت سے لوگ نفع اٹھائیں ۔ میں نے عرض کیا میرا ارادہ وصیت کرنے کا ہے ۔ ایک بیٹی کے سوا ، اور میری کوئی (اولاد) نہیں ۔ میں نے پوچھا کیا آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپﷺنے فرمایا: آدھا توبہت ہے ۔ پھر میں نے پوچھا تو تہائی کی کردوں؟ فرمایا: کہ تہائی کی کرسکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے یا یہ فرمایا: بڑی رقم ہے۔ چنانچہ لوگ بھی تہائی کی وصیت کرنے لگے اور یہ ان کےلیے جائز ہوگئی۔
Chapter No: 4
باب قَوْلِ الْمُوصِي لِوَصِيِّهِ تَعَاهَدْ وَلَدِي وَمَا يَجُوزُ لِلْوَصِيِّ مِنَ الدَّعْوَى
The saying of a testator to the executor, "Look after my soon" and what is permissible for the executor to claim.
باب : وصیت کرنے وا لا اپنے وصی سے یوں کہ سکتا ہے کہ میری اولاد کا خیال رکھیو اور وصی دعوےٰ کر سکتا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي، فَاقْبِضْهُ إِلَيْكَ. فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ أَخَذَهُ سَعْدٌ فَقَالَ ابْنُ أَخِي، قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَىَّ فِيهِ. فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فَقَالَ أَخِي، وَابْنُ أَمَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ. فَتَسَاوَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي، كَانَ عَهِدَ إِلَىَّ فِيهِ. فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي. وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ ابْنَ زَمْعَةَ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ". ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ " احْتَجِبِي مِنْهُ ". لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ.
Narrated By 'Aisha : (The wife of the Prophet) Utba bin Abi Waqqas entrusted (his son) to his brother Sad bin Abi Waqqas saying, "The son of the slave-girl of Zam'a is my (illegal) son, take him into your custody." So during the year of the Conquest (of Mecca) Sad took the boy and said, "This is my brother's son whom my brother entrusted to me." 'Abu bin Zam's got up and said, "He is my brother and the son of the slave girl of my father and was born on my father's bed." Then both of them came to Allah's Apostle and Sad said, "O Allah's Apostle! This is my brother's son whom my brother entrusted to me."
Then 'Abu bin Zam'a got up and said, "This is my brother and the son of the slave-girl of my father." Allah's Apostle said, "O Abu bin Zam'a! This boy is for you as the boy belongs to the bed (where he was born), and for the adulterer is the stone (i.e. deprivation)." Then the Prophet said to his wife Sauda bint Zam'a, "Screen yourself from this boy," when he saw the boy's resemblance to 'Utba. Since then the boy did not see Sauda till he died.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے ، اس لیے تم اسے لے لینا ، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر سعد رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور کہا کہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ، انہوں نے اس بارے میں مجھے وصیت کی تھی ۔ پھر عبد بن زمعہ اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ تو میرا بھائی ہے ، میرے باپ کی لونڈی نے اس کو جنا ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ پھر یہ دونوں نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے ، مجھے اس نے وصیت کی تھی ۔ لیکن عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ میرا بھائی اور میرے والد کی باندی کا لڑکا ہے ۔ نبیﷺنے فیصلہ یہ فرمایا کہ لڑکا تمہارا ہی ہے عبد بن زمعہ ! بچہ فراش کے تحت ہوتا ہے ، اور زانی کے حصے میں پتھر ہیں لیکن آپﷺنے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: کہ اس لڑکے سے پردہ کرو کیوکہ آپﷺنے عتبہ کی مشابہت اس لڑکے میں صاف پائی تھی ۔ چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو مرتے دم تک کبھی نہ دیکھا ۔
Chapter No: 5
باب إِذَا أَوْمَأَ الْمَرِيضُ بِرَأْسِهِ إِشَارَةً بَيِّنَةً جَازَتْ
If a patient gives an evident clear sign by nodding
باب :اگر بیمار اپنے سر سے ایسا اشا رہ کرے جو صاف سمجھ میں آئے تو اس پر حکم دیا جا ئے گا۔
حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ أَبِي عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ يَهُوِدِيًّا، رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَقِيلَ لَهَا مَنْ فَعَلَ بِكِ، أَفُلاَنٌ أَوْ فُلاَنٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا، فَجِيءَ بِهِ، فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى اعْتَرَفَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَرُضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ.
Narrated By Anas : A Jew crushed the head of a girl between two stones. She was asked, "Who has done so to you, so-and-so? So-and-so?" Till the name of the Jew was mentioned, whereupon she nodded (in agreement). So the Jew was brought and was questioned till he confessed. The Prophet then ordered that his head be crushed with stones.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک (انصاری) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کر کچل دیا تھا ۔ لڑکی سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے ؟ کیا فلاں شخص نے کیا ؟ فلاں نے کیا ؟ آخر یہودی کا بھی نام لیا گیا ۔ تو لڑکی نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا ۔ پھر وہ یہودی بلایا گیا اور آخر اس نے بھی اقرار کرلیا اور نبیﷺکے حکم سے اس کا بھی پتھر سے سر کچل دیا گیا۔
Chapter No: 6
باب لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ
A legal heir has no right to inherit through a will.
باب :وارث کے لیے وصیت کر نا درست نہیں ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبْعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ.
Narrated By Ibn 'Abbas : The custom (in old days) was that the property of the deceased would be inherited by his offspring; as for the parents (of the deceased), they would inherit by the will of the deceased. Then Allah cancelled from that custom whatever He wished and fixed for the male double the amount inherited by the female, and for each parent a sixth (of the whole legacy) and for the wife an eighth or a fourth and for the husband a half or a fourth.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ شروع اسلام میں (میراث کا) مال اولاد کو ملتا تھا ، اور والدین کےلیے وصیت ضروری تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح چاہا اس حکم کو منسوخ کردیا پھر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر قرار دیا ، اور والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور بیوی کا آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ قرار دیا۔ اسی طرح شوہر کا آدھا اور چوتھائی حصہ قرار دیا۔
Chapter No: 7
باب الصَّدَقَةِ عِنْدَ الْمَوْتِ
Giving charity at the time of death.
باب : مرتے وقت خیرات کرنا چنداں افضل نہیں ہے ( جیسے صحت میں افضل ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَىُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ " أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ حَرِيصٌ. تَأْمُلُ الْغِنَى، وَتَخْشَى الْفَقْرَ، وَلاَ تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلاَنٍ كَذَا وَلِفُلاَنٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلاَنٍ ".
Narrated By Abu Huraira : A man asked the Prophet, "O Allah's Apostle! What kind of charity is the best?" He replied. "To give in charity when you are healthy and greedy hoping to be wealthy and afraid of becoming poor. Don't delay giving in charity till the time when you are on the death bed when you say, 'Give so much to so-and-so and so much to so-and so,' and at that time the property is not yours but it belongs to so-and-so (i.e. your inheritors)."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ایک صحابی نے رسول اللہﷺ سے پوچھااے اللہ کے رسو لﷺ!کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپﷺنے فرمایا: یہ کہ صدقہ تندرستی کی حالت میں کریں (تجھے اس مال کو باقی رکھنے کی ) خواہش بھی ہو، جس سے کچھ سرمایہ جمع ہوجانے کی تمہیں امید ہو اور (اسے خرچ کرنے کی صورت میں) محتاجی کا ڈر ہو، اور اس میں تاخیر نہ کریں یہاں تک کہ روح حلق تک پہنچ جائے تو کہنےبیٹھ جاؤکہ اتنا مال فلاں کےلیے ، فلاں کو اتنا دینا ، اب تو مال فلاں کا ہو ہی گیا ہے (اور تو دنیا سے چلا گیا)
Chapter No: 8
باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ}
The Statement of Allah, "... After the payment of legacies he may have bequeathed or debts ..." (V.4:11)
باب : اللہ تعالیٰ کا (سورت نساء میں یہ فرمانا) کہ وصیت اور قرضے کی ادائیگی کے بعد حصے بٹیں گے۔
وَيُذْكَرُ أَنَّ شُرَيْحًا وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَطَاوُسًا وَعَطَاءً وَابْنَ أُذَيْنَةَ أَجَازُوا إِقْرَارَ الْمَرِيضِ بِدَيْنٍ. وَقَالَ الْحَسَنُ أَحَقُّ مَا تَصَدَّقَ بِهِ الرَّجُلُ آخِرَ يَوْمٍ مِنَ الدُّنْيَا وَأَوَّلَ يَوْمٍ مِنَ الآخِرَةِ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ وَالْحَكَمُ إِذَا أَبْرَأَ الْوَارِثَ مِنَ الدَّيْنِ بَرِئَ. وَأَوْصَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنْ لاَ تُكْشَفَ امْرَأَتُهُ الْفَزَارِيَّةُ عَمَّا أُغْلِقَ عَلَيْهِ بَابُهَا. وَقَالَ الْحَسَنُ إِذَا قَالَ لِمَمْلُوكِهِ عِنْدَ الْمَوْتِ كُنْتُ أَعْتَقْتُكَ. جَازَ. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ إِذَا قَالَتِ الْمَرْأَةُ عِنْدَ مَوْتِهَا إِنَّ زَوْجِي قَضَانِي وَقَبَضْتُ مِنْهُ. جَازَ. وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ لاَ يَجُوزُ إِقْرَارُهُ لِسُوءِ الظَّنِّ بِهِ لِلْوَرَثَةِ، ثُمَّ اسْتَحْسَنَ فَقَالَ يَجُوزُ إِقْرَارُهُ بِالْوَدِيعَةِ وَالْبِضَاعَةِ وَالْمُضَارَبَةِ. وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ ". وَلاَ يَحِلُّ مَالُ الْمُسْلِمِينَ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " آيَةُ الْمُنَافِقِ إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ". وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} فَلَمْ يَخُصَّ وَارِثًا وَلاَ غَيْرَهُ. فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
It is mentioned that Shuraih, Umar bin Abdul Aziz, Tawus, Ata and Ibn Udhaina regarded as valid the acknowledgement of a debt by a sick man. Al-Hasan said, "The most valid charity is what is given on the last day of one's present life and the first day of the life to come."
Ibrahim and Hakam said, "If a sick person absolves an heir from debt, the heir is regarded as absolved." Rafi bin Khadij made a will that his Fazariyya wife should not let anybody share with her the contents of her house.
Al-Hasan said, "If somebody on his deathbed says to his slave, 'I have freed you,' then it is valid." Ash-Shabi said, "If a dying woman says, 'My husband has paid what he owed me and I have received it,' then it is valid." Some people say, "The dying person's confession is not valid because such a confession rouses suspicion." But they approve of a confession concerning a trust, goods and silent partnership, but the Prophet (s.a.w) said, "Avoid suspicion, suspicion is the worst of false tales."
It is not legal for one to eat up the Muslims' wealth, for the Prophet (s.a.w) said, "The sign of a hypocrite is that when he is entrusted with something he proves treacherous." And Allah said, "Verily! Allah commands that you should render back the trusts to those to whom they are due ..." (V.4:58), without restricting this order to the heirs or some other people.
اور منقول ہے کہ شریح قاضی اور عمر بن عبد العزیز اور طاؤس اور عطاء اور عبدالرحمٰن بن اذینہ ، نے بیماری میں قرض کا اقرار درست کر رکھا ہے اور امام حسن بصریؒ نے کہا سب سے زیادہ آدمی کو اس وقت سچّا سمجھنا چاہیے جب دنیا میں اس کا آخری دن اور آخرت میں پہلا دن ہو اور ابراہیم نخعی اور حکم بن عتیبہ نے کہا اگر بیمار وارث سے یوں کہے کہ میرا اس پر کوئی قرضہ نہیں تو یہ ابراء صحیح ہو گا اور رافع بن خدیج (صحابی) نے یہ وصیّت کی کہ ان کی جورو فزاری کے دروازے میں جو مال بند ہے وہ نہ کھولا جائے اور امام حسن بصریؒ نےکہا اگر کوئی مرتے وقت اپنے غلام سے کہے میں تجھ کو آزاد کر چکا تھا تو جائز ہے اور شعبی نے کہا اگر عورت مرتے وقت یوں کہے کہ میراخاوند مجھ کو مہر دے چکاہے اور میں لے چکی ہوں تو جائز ہو گا اور بعضے لوگ (حنفیہ) کہتے ہیں کہ بیمار کا اقرار کسی وارث کے لیے دوسرے وارثوں کی بد گمانی کی وجہ سے صحیح نہ ہو گا پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ امانت اور بضاعت اور مضاربت کا اگر بیمار اقرار کرے تو صحیح ہے حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا تم بدگمانی سے بچے رہو کیونکہ بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اور مسلمانوں (دوسرے وارثوں) کا حق مار لینا درست نہیں کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے منافق کی نشانی یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرے اور اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ جس کی امانت ہے اس کو پہنچا دو اس میں وارث یا غیر وارث کی کوئی حصوصیّت نہیں ہے اسی مضمون میں عبداللہ بن عمرؓ سے مرفوع حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ أَبُو سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ، إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ".
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "The signs of a hypocrite are three: Whenever he speaks he tells a lie; whenever he is entrusted he proves dishonest; whenever he promises he breaks his promise."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے ،اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ، اور جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔
Chapter No: 9
باب تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ}
The explanation of the Statement of Allah, "... After payment of legacies that they may have bequeathed or debts ..." (V.4:12)
باب : اللہ تعا لیٰ کے (سورت النساء میں )یہ فر مانے کی تفسیر کہ ،حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہو گی ،
وَيُذْكَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ. وَقَوْلِهِ {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا}، فَأَدَاءُ الأَمَانَةِ أَحَقُّ مِنْ تَطَوُّعِ الْوَصِيَّةِ. وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لاَ صَدَقَةَ إِلاَّ عَنْ ظَهْرِ غِنًى ". وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لاَ يُوصِي الْعَبْدُ إِلاَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِ. وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " الْعَبْدُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ ".
The Prophet (s.a.w) is reported to have judged that the debt should be paid before the execution of the will.
The Statement of Allah, "Verily! Allah commands that you should render back the trusts of those to whom they are due ..." (V.4:58)
So, returning the trust must take precedence over the execution of the voluntary will.
The Prophet (s.a.w) said, "No giving in charity is recommended except if one is wealthy." Ibn Abbas said, "A slave cannot make a will without his master's consent." The Prophet (s.a.w) said, "A slave is a guardian of the property of his master."
اور منقو ل ہے کہ نبیﷺ نے دین کو وصیت پر مقدم کر نے کا حکم دیا اور (اسی سورت میں ) یہ فر ما نے کی کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ اما نتیں اما نت وا لوں کو پہنچا ؤ،تو امانت (قر ض )کا ادا کر نا نفل وصیت کے پو را کر نے سے زیا دہ ضرو ری ہے اور نبیﷺنے فرما یا کہ صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آدمی ما لدار رہے اور ابن عباسؓ نے کہا غلا م بغیر اپنے مالک کی اجا زت کے وصیت نہیں کر سکتا اور نبیﷺ نے فر مایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبا ن ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ لِي " يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ". قَالَ حَكِيمٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا. فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ الْعَطَاءَ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الْفَىْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ. فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ.
Narrated By 'Urwa bin Az-Zubair : Hakim bin Hizam said, "I asked Allah's Apostle for something, and he gave me, and I asked him again and he gave me and said, 'O Hakim! This wealth is green and sweet (i.e. as tempting as fruits), and whoever takes it with the upper (i.e. giving) hand is better than the lower (i.e. taking) hand." Hakim added, "I said, O Allah's Apostle! By Him Who has sent you with the Truth I will never demand anything from anybody after you till I die." Afterwards Abu Bakr used to call Hakim to give him something but he refused to accept anything from him. Then 'Umar called him to give him (something) but he refused. Then 'Umar said, "O Muslims! I offered to him (i.e. Hakim) his share which Allah has ordained for him from this booty and he refuses to take it." Thus Hakim did not ask anybody for anything after the Prophet, till he died... may Allah bestow His mercy upon him.
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسو ل اللہ ﷺسے مانگا تو آپ ﷺنے مجھ کو دیا ، پھر مانگا ، تو پھر دے دیا۔ پھر فرمایا: اے حکیم! یہ مال دیکھنے میں خوشنما اور مزے دار ہے ، لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہوگی۔اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا ، اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ!قسم اس کی جس نے آپ کوسچا پیغمبر بناکر بھیجا ہے ، میں تو آج سے مرنے تک آپ کے بعد کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔(آپﷺکی وفات کے بعد) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظیفہ دینے کےلیے حکیم بن حزام کو بلاتے تو انہوں نے اس کو لینے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ، ان کا وظیفہ دینے کےلیے لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے مسلمانو! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو فئے کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں ، مگر وہ نہیں لیتا۔غرض حضرت حکیم رضی اللہ عنہ نے آپﷺکے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی (بیت المال سے اپنا وظیفہ بھی نہیں) یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی ، اللہ ان پر رحم فرمائیں۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّخْتِيَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ". قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ " وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ ".
Narrated By Ibn Umar : I heard Allah's Apostle saying, "All of you are guardians and responsible for your charges: the Ruler (i.e. Imam) is a guardian and responsible for his subjects; and a man is a guardian of his family and is responsible for his charges; and a lady is a guardian in the house of her husband and is responsible for her charge; and a servant is a guardian of the property of his master and is responsible for his charge." I think he also said, "And a man is a guardian of the property of his father."
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اسے پوچھا جائے گا۔ امام (حاکم) بھی نگہبان ہے ، اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے ، اپنی رعیت کے بارے میں پوچھی جائے گی اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ آپﷺنے یہ بھی فرمایا: مرد اپنے والد کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
Chapter No: 10
باب إِذَا وَقَفَ أَوْ أَوْصَى لأَقَارِبِهِ وَمَنِ الأَقَارِبُ
If somebody founds an endowment his relatives by a will and who are considered as relatives.
باب : اگر کسی نے اپنے عزیزوں پر کو ئی چیز وقف کی یا ان کیلئے وصیت کی تو کیا حکم ہے۔عز یزوں سے کون لوگ مراد ہوں گے
وَقَالَ ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لأَبِي طَلْحَةَ " اجْعَلْهَا لِفُقَرَاءِ أَقَارِبِكَ ". فَجَعَلَهَا لِحَسَّانَ وَأُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ.
Narrated by Anas (r.a), the Prophet (s.a.w) said to Abu Talha, "Give to the poor amongst your relatives." So he gave it to Hassan and Ubai bin Kaab.
Anas added in another narration, "So he gave it to Hassan and Ubai bin Kaab who were nearer relatives to him than I." The relation between Hassan and Ubai to Abu Talha was that Abu Talha's name was Zaid, son of Sahl, the son of Al-Aswad, the son of Haram, the son of Amr, the son of Zaid Manat, the son of Adi, the son of Amr, the son of Malik, the son of An-Najjar. Hassan was the son of Thabit, the son of Al-Mundhir, the son of Haram, this means that Abu Talha and Hassan had a common great grandfather. Hassan and Abu Talha and Ubai had a common ancestor, Amr bin Malik, the sixth in the lineage, as Ubai was the son of Kaab, the son of Qais, the son of Ubaid, the son of Zaid, the son of Muawiya, the son of Amr, the son of Malik, the son of An-Najjar.
Some scholars say, "If anyone wants to will some of his wealth to one's relatives, they must be among those who share a Muslim common ancestor with one."
اور ثابت نے انسؓ سے روا یت کیاکہ نبی ﷺنے ابو طلحہ سے فر مایا تو یہ با غ اپنے محتاج عزیزوں کو دے ڈال ، انہوں نے حسان اور ابن ابی کعب کو دے دیا (جو ابو طلحہ کے چچا کی اولاد تھے) اور محمد بن عبداللہ انصاری نے کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا انہوں نے ثمامہ سے انہوں انسؓ سے ثابت کی طرح روایت کی ۔ اس میں یوں ہے اپنے قرابت کے محتاجوں کو دے ۔ انسؓ نے کہا تو ابو طلحہؓ نے وہ باغ حسان اور ابی ابن کعب کو دے دیا ۔ وہ مجھ سے زیادہ ابع طلحہؓ کے قریبی رشتہ دار تھے اور حسان اور ابی کی قرابت ابو طلحہ سے یوں تھی کہ ابو طلحہؓ کا نام زید ہے وہ سہیل کے بیٹے، وہ اسود کے، وہ حرام کے وہ عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجارکے اور حسان ثابت کے بیٹے وہ منذر کے وہ حرام کے تو دونوں حرام میں جا کر مل جاتے ہیں جو تیسرا دادا ہے تو حرام بن عمروبن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار حسان اور ابو طلحہ کو ملا دیتا ہے اور ابی بن کعب چھٹی پشت میں یعنی عمرو بن مالک میں ابو طلحہ سے ملتے ہیں ابی کعب کے بیٹے وہ قیس کے وہ عبید کے وہ زید کے وہ معاویہ کے وہ عمرو بن مالک بن نجار کے تو عمرو بن مالک حسّان اور ابو طلحہ اور ابی تینوں کو ملا دیتا ہے اور بعضوں نے (امام ابو یوسف، امام ابو حنیفہ کے شاگرد نے ) کہا، عزیزوں کے لیے وصیّت کرےتو جتنے مسلمان باپ دادا گزرے ہیں وہ سب داخل ہونگے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لأَبِي طَلْحَةَ " أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ ". قَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَمَّا نَزَلَتْ {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُنَادِي " يَا بَنِي فِهْرٍ، يَا بَنِي عَدِيٍّ ". لِبُطُونِ قُرَيْشٍ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لَمَّا نَزَلَتْ {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ} قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ ".
Narrated By Anas : The Prophet said to Abu Talha, "I recommend that you divide (this garden) amongst your relatives." Abu Talha said, "O Allah's Apostle! I will do the same." So Abu Talha divided it among his relatives and cousins. Ibn 'Abbes said, "When the Qur'anic Verse: "Warn your nearest kinsmen." (26.214) was revealed, the Prophet started calling the various big families of Quraish, "O Bani Fihr! O Bani Adi!". Abu Huraira said, "When the Verse: "Warn your nearest kinsmen" was revealed, the Prophet said (in a loud voice), "O people of Quraish!"
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (جب انہوں نے اپنا باغ بیرحاء اللہ کی راہ میں دینا چاہا) میں مناسب سمجھتا ہوں تو یہ باغ اپنے عزیزوں کو دے دے۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت خوب ایسا ہی کروں گا۔ پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب (سورۂ شعراء کی ) یہ آیت نازل ہوئی اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ، تو آپﷺقریش کے خاندانوں بنی فہر، بنو عدی کو پکارنے لگے ، اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی "وانذر عشیرتک الاقربین" آپﷺنے فرمایا: اے قریش کے لوگو! اللہ سے ڈرو۔