Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah An-Nisa (65.4)    سورة النساء

123

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَنْكِفُ يَسْتَكْبِرُ {قِوَامًا} قِوَامُكُمْ مِنْ مَعَايِشِكُمْ‏.‏ ‏{‏لَهُنَّ سَبِيلاً‏}‏ يَعْنِي الرَّجْمَ لِلثَّيِّبِ وَالْجَلْدَ لِلْبِكْرِ، وَقَالَ غَيْرُهُ ‏{‏مَثْنَى وَثُلاَثَ‏}‏ يَعْنِي اثْنَتَيْنِ وَثَلاَثًا وَأَرْبَعًا، وَلاَ تُجَاوِزُ الْعَرَبُ رُبَاعَ‏.‏

ابن عباسؓ نے کہا یستنکف کا معنی غرور کرے (کینہ سے) قوماً کا معنی معاش جس سے گزران ہوتی ہے لہنّ سبیلا سے مراد بیاہی عورت کا سنگسار کرنا ہے اور بن بیاہی کو کوڑے مارنا ابن عباسؓ کے سوا اوروں نے اس آیت مثنیٰ و ثلاث و رُبٰع کی تفسیر یوں کی ہے دو دو ،تین تین ،چار چار اور عرب کے لوگ رباع سے آگے نہیں بڑھے۔

 

Chapter No: 1

باب ‏{‏وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى‏}‏

"And if you fear that you shall not be able to deal justly with the orphan girls ..." (V.4:3)

باب : اللہ کے اس قول وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ لَا تُقۡسِطُوا فِی الیَتَامَی کی تفسیر

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ رَجُلاً، كَانَتْ لَهُ يَتِيمَةٌ فَنَكَحَهَا، وَكَانَ لَهَا عَذْقٌ، وَكَانَ يُمْسِكُهَا عَلَيْهِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهَا مِنْ نَفْسِهِ شَىْءٌ فَنَزَلَتْ فِيهِ ‏{‏وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى‏}‏ أَحْسِبُهُ قَالَ كَانَتْ شَرِيكَتَهُ فِي ذَلِكَ الْعَذْقِ وَفِي مَالِهِ‏.‏

Narrated By 'Aisha : There was an orphan (girl) under the care of a man. He married her and she owned a date palm (garden). He married her just because of that and not because he loved her. So the Divine Verse came regarding his case: "If you fear that you shall not be able to deal justly with the orphan girls..." (4.3) The sub-narrator added: I think he (i.e. another sub-narrator) said, "That orphan girl was his partner in that date-palm (garden) and in his property."

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، پھر اس نے اس سے نکاح کر لیا، اس یتیم لڑکی کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ اسی باغ کی وجہ سے یہ شخص اس کی پرورش کرتا رہا حالانکہ دل میں اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى‏» کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے۔ ہشام بن یوسف نے کہا :میں سمجھتا ہوں، ابن جریج نے یوں کہا: یہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ، تَعَالَى ‏{‏وَإِنْ خِفْتُمْ أَنْ لاَ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى‏}‏‏.‏ فَقَالَتْ يَا ابْنَ أُخْتِي، هَذِهِ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حَجْرِ وَلِيِّهَا، تَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ وَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا، بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا عَنْ أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ، إِلاَّ أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ، وَيَبْلُغُوا لَهُنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ فِي الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ‏.‏ قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ وَإِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ هَذِهِ الآيَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ‏}‏ قَالَتْ عَائِشَةُ وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى فِي آيَةٍ أُخْرَى ‏{‏وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ‏}‏ رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ قَالَتْ فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا عَنْ مَنْ رَغِبُوا فِي مَالِهِ وَجَمَالِهِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ، إِلاَّ بِالْقِسْطِ، مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ إِذَا كُنَّ قَلِيلاَتِ الْمَالِ وَالْجَمَالِ‏.

Narrated By 'Urwa bin Az-Zubair : That he asked 'Aisha regarding the Statement of Allah: "If you fear that you shall not be able to deal justly with the orphan girls..." (4.3) She said, "O son of my sister! An Orphan girl used to be under the care of a guardian with whom she shared property. Her guardian, being attracted by her wealth and beauty, would intend to marry her without giving her a just Mahr, i.e. the same Mahr as any other person might give her (in case he married her). So such guardians were forbidden to do that unless they did justice to their female wards and gave them the highest Mahr their peers might get. They were ordered (by Allah, to marry women of their choice other than those orphan girls." 'Aisha added," The people asked Allah's Apostle his instructions after the revelation of this Divine Verse whereupon Allah revealed: "They ask your instruction regarding women " (4.127) 'Aisha further said, "And the Statement of Allah: "And yet whom you desire to marry." (4.127) as anyone of you refrains from marrying an orphan girl (under his guardianship) when she is lacking in property and beauty." 'Aisha added, "So they were forbidden to marry those orphan girls for whose wealth and beauty they had a desire unless with justice, and that was because they would refrain from marrying them if they were lacking in property and beauty."

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آیت «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى‏» کا مطلب پوچھا۔ تو انہوں نے فرمایا: میرے بھانجے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور اس کی جائیداد کی حصہ دار ہو ،اب اس ولی کو اس کی مالداری، اور اس کی خوبصورتی پسند آئے۔وہ اس سے نکاح کرنا چاہے مگر انصاف کے ساتھ اتنا مہر اس کو نہیں دیتا جتنا دوسرے دیتے ہیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں کے ساتھ جب تک ان کا پورا مہر انصاف کے ساتھ نہیں دیتے، نکاح کرنے سے منع فرمایا اور ان کو یہ حکم دیا کہ تم دوسری عورتوں سے جو تم کو بھلی لگیں نکاح کر لو۔ (یتیم لڑکی کا نقصان نہ کرو) عروہ نے کہا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، اس آیت کے اترنے کے بعد لوگوں نے پھر نبی کریم ﷺسے اس بارے میں مسئلہ پوچھا، اس وقت اللہ نے یہ آیت «ويستفتونك في النساء‏» اتاری۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: دوسری آیت میں یہ جو فرمایا «وترغبون أن تنكحوهن‏» یعنی وہ یتیم لڑکیاں جن کا مال و جمال کم ہو اور تم ان کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ان یتیم لڑکیوں سے جن کا مال و جمال کم ہو نکاح کرنا نہیں چاہتے تو مال اور جمال والی یتیم لڑکیوں سے بھی جن سے تم کو نکاح کرنے کی رغبت ہے نکاح نہ کرو، مگر جب انصاف کے ساتھ ان کا مہر پورا ادا کرو۔

Chapter No: 2

باب ‏{‏وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ‏}‏ الآيَةَ

"... But if he (the guardian) is poor, let him have for himself what is just and reasonable. And when you release their property to them, take witness in their presence and Allah is All-Sufficient in taking account." (V.4:6)

باب : اللہ کے اس قول وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡھِمۡ اَمۡوَالَھُمۡ فَاَشۡھِدُوا عَلَیۡھِمۡ وَ کَفٰی بِااللہِ حَسِیۡبًا کی تفسیر۔

{‏وَبِدَارًا‏}‏ مُبَادَرَةً ‏{‏أَعْتَدْنَا‏}‏ أَعْدَدْنَا، أَفْعَلْنَا مِنَ الْعَتَادِ‏

بدارا کے معنی جلدی جلدی۔ اعتدنا ہم نے تیار کر رکھا ہے یہ عتاد سے نکلا ہے۔ اس کو باب افعال میں لے گئے۔

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ‏}‏ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي مَالِ الْيَتِيمِ إِذَا كَانَ فَقِيرًا، أَنَّهُ يَأْكُلُ مِنْهُ مَكَانَ قِيَامِهِ عَلَيْهِ، بِمَعْرُوفٍ‏

Narrated By 'Aisha : Regarding the statement of Allah: "And whoever amongst the guardian is rich, he should take no wages, but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable (according to his work). This Verse was revealed regarding the orphan's property. If the guardian is poor, he can take from the property of the orphan, what is just and reasonable according to his work and the time he spends on managing it.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد («ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف‏» کے بارے میں فرمایا : یہ آیت یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر سرپرست فقیر ہو تو یتیم کی پرورش کے عوض اس کے مال سے دستور کے مطابق کھاسکتا ہے ۔

Chapter No: 3

باب ‏{‏وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ‏}‏ الآيَةَ

"And when the relatives and the orphans and the poor are present at the time of division ..." (V.4:8)

باب : اللہ کے اس قول وَ اِذَا حَضَرَ القِسۡمَۃَ أُولُو القُرۡبَی وَ الیَتَامَی وَ المَسَاکِیۡنُ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ ‏{‏وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ‏}‏ قَالَ هِيَ مُحْكَمَةٌ وَلَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ‏.‏ تَابَعَهُ سَعِيدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ‏.

Narrated By Ikrama : Ibn Abbas said (regarding the verse), "And when the relatives and the orphans and the poor are present at the time of division, "this verse and its order is valid and not abrogated."

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وإذا حضر القسمة أولو القربى واليتامى والمساكين‏» اور جب تقسیم کے وقت عزیز و اقارب ، یتیم اور مسکین موجود ہوں۔ کے متعلق فرمایا کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے۔ عکرمہ کے ساتھ اس حدیث کو سعید بن جبیر نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

Chapter No: 4

باب ‏{‏يُوصِيكُمُ اللَّهُ‏ فِي أَوْلادِكُمْ}‏

"Allah commands you as regards your children’s (inheritance) ..." (V.4:11)

باب: یَوضِیۡکُمُ اللہُ فِی أَوۡلَادَکُمۡ اخیر تک۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ مُنْكَدِرٍ، عَنْ جَابِرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ عَادَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ فِي بَنِي سَلِمَةَ مَاشِيَيْنِ فَوَجَدَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لاَ أَعْقِلُ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهُ، ثُمَّ رَشَّ عَلَىَّ، فَأَفَقْتُ فَقُلْتُ مَا تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي مَالِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَنَزَلَتْ ‏{‏يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ‏}‏

Narrated By Jabir : The Prophet and Abu Bakr came on foot to pay me a visit (during my illness) at Banu Salama's (dwellings). The Prophet found me unconscious, so he asked for water and performed the ablution from it and sprinkled some water over it. I came to my senses and said, "O Allah's Apostle! What do you order me to do as regards my wealth?" So there was revealed: "Allah commands you as regards your children's (inheritance)." (4.11)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺاور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو سلمہ تک پیدل چل کر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہے، اس لیے آپ نے پانی منگوایا اور وضو کر کے اس کا پانی مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آ گیا، پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ کا کیا حکم ہے، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يوصيكم الله في أولادكم‏» کہ اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی میراث) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔

Chapter No: 5

باب ‏{‏وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ‏}‏

Allah's Statement, "In that which your wives leave, your share is a half ..." (V.4:12)

باب : اللہ کے اس قول وَ لَکُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَکَ أَزۡوَاجُکُمۡ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ وَالثُّلُثَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : (In the Pre-Islamic Period) the children used to inherit all the property but the parents used to inherit only through a will. So Allah cancelled that which He liked to cancel and put decreed that the share of a son was to be twice the share of a daughter, and for the parents one-sixth for each one of them, or one third, and for the wife one-eighth or one-fourth, and for the husband one-half, or one-fourth.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ابتداء اسلام میں میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا، البتہ والدین کو وہ ملتا جو میت ان کے لیے وصیت کر جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے جیسا مناسب سمجھا اس میں ترمیم کردیا۔ چنانچہ اب مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے اور والدین میں سے ہر ایک کےلیے چھٹا اور تہائی حصہ مقرر فرمایا۔اور اسی طرح بیوی کے لیے آٹھواں اور چوتھا ، خاوند کےلیے نصف اور چوتھا حصہ مقرر کردیا۔

Chapter No: 6

باب ‏{‏لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ ‏}‏ الآيَةَ

"... You are forbidden to inherit women against their will, and you should not treat them with harshness, that you may take back part of the Mahr you have given them ..." (V.4:19)

باب : اللہ کے اس قول لَا یَحِلّ ُلَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡھًا وَ لَا تَعۡضُلُوھُنَّ لِتَذۡھَبُوا بِبَعۡضِ مَا آتَیۡتُمُوھُنَّ۔ کی تفسیر

وَيُذْكَرُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ‏{‏لاَ تَعْضُلُوهُنَّ‏}‏ لاَ تَقْهَرُوهُنَّ ‏{‏حُوبًا‏}‏ إِثْمًا‏,‏ ‏{‏تَعُولُوا‏}‏ تَمِيلُوا‏.‏ ‏{‏نِحْلَةً‏}‏ النِّحْلَةُ الْمَهْرُ‏

ابن عباسؓ سے منقول ہے لَا تَعۡضُلُوھُنَّ ن پر جبر نہ کرو۔ حوبا کا معنی گناہ۔تعولوا کا معنی جھک جاؤ۔ نحلۃ کا معنی مہر۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏.‏ قَالَ الشَّيْبَانِيُّ وَذَكَرَهُ أَبُو الْحَسَنِ السُّوَائِيُّ وَلاَ أَظُنُّهُ ذَكَرَهُ إِلاَّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ‏}‏ قَالَ كَانُوا إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ كَانَ أَوْلِيَاؤُهُ أَحَقَّ بِامْرَأَتِهِ، إِنْ شَاءَ بَعْضُهُمْ تَزَوَّجَهَا، وَإِنْ شَاءُوا زَوَّجُوهَا، وَإِنْ شَاءُوا لَمْ يُزَوِّجُوهَا، فَهُمْ أَحَقُّ بِهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي ذَلِكَ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : Regarding the Divine Verse: "O you who believe! You are forbidden to inherit women against their will, and you should not treat them with harshness that you may take back part of the (Mahr) dower you have given them." (4.19) (Before this revelation) if a man died, his relatives used to have the right to inherit his wife, and one of them could marry her if he would, or they would give her in marriage if they wished, or, if they wished, they would not give her in marriage at all, and they would be more entitled to dispose her, than her own relatives. So the above Verse was revealed in this connection.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ «يا أيها الذين آمنوا لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن‏» اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی مالک ہو جاؤ اور نہ انہیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے، اس کا کچھ حصہ وصول کر لو،)) جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے رشتہ دار اس عورت کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے۔ اگر انہیں میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا، یا پھر وہ جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرتے اور چاہتے تو نہ بھی کرتے، اس طرح عورت کے گھر والوں کے مقابلہ میں بھی شوہر کے رشتہ دار اس کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے، اسی پر یہ آیت «يا أيها الذين آمنوا لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها» نازل ہوئی۔

Chapter No: 7

باب ‏{‏وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ‏ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوَهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيداً}‏

"And to everyone, We have appointed heirs of that (property) left by parents and relatives. To those, also, with whom you have made a pledge (brotherhood), give them their due portion. Truly, Allah is Ever a Witness over all things." (V.4:33)

باب : اللہ کے اس قول وَلِکُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الوَالِدَانِ وَ الاَقۡرَبُونَ وَ الَّذِیۡنَ عَاقَدَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَاًتُوۡا نَسِیۡبَھُمۡ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیۡءٍ شَھِیۡدًا۔ کی تفسیر۔

وَقَالَ مَعْمَرٌ ‏{‏مَوَالِيَ‏}‏ أَوْلِيَاءَ وَرَثَةً‏.‏ ‏{‏عَاقَدَتْ‏}‏ هُوَ مَوْلَى الْيَمِينِ، وَهْوَ الْحَلِيفُ، وَالْمَوْلَى أَيْضًا ابْنُ الْعَمِّ‏.‏ وَالْمَوْلَى الْمُنْعِمُ الْمُعْتِقُ‏.‏ وَالْمَوْلَى الْمُعْتَقُ‏.‏ وَالْمَوْلَى الْمَلِيكُ‏.‏ وَالْمَوْلَى مَوْلًى فِي الدِّينِ‏

Mamar said, "Mawali means the heirs. And also those with whom you have made a pledge is the ally. A paternal uncle's son is called Mawla, so also a manumitter of a slave, a freed slave, a king or a religious master."

معمر نے کہا موالی سے مراد اس کے اولیا اور وارث ہیں ۔ وَ الَّذِیۡنَ عَاقَدَتۡ اَیۡمَانُکُم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو قسم کھا کر اپنا وارث بناتے تھے یعنی حلیف اور مولیٰ کے کئی معنی ہیں چچا کا بیٹا،غلام، لونڈی کا مالک جو اس پر احسان کرے اس کو آزاد کرے۔ خود غلام جو آزاد کیا جائے۔ مالک دین کا پیشوا۔

حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِدْرِيسَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاس ٍ ـ رضى الله عنهما ـ ‏{‏وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ‏}‏ قَالَ وَرَثَةً‏.‏ ‏{‏وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ‏}‏ كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرُ الأَنْصَارِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَهُمْ فَلَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ‏}‏ نُسِخَتْ، ثُمَّ قَالَ ‏{‏وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ ‏}‏ مِنَ النَّصْرِ، وَالرِّفَادَةِ وَالنَّصِيحَةِ، وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ‏.‏ سَمِعَ أَبُو أُسَامَةَ إِدْرِيسَ، وَسَمِعَ إِدْرِيسُ طَلْحَةَ‏.‏

Narrated By Ibn 'Abbas : Regarding the Verse: "To everyone, We have appointed heirs." (4.33) 'Mawali' means heirs. And regarding: "And those to whom your right hands have pledged." When the Emigrants came to Medina, an Emigrant used to be the heir of an Ansari with the exclusion of the latter's relatives, and that was because of the bond of brotherhood which the Prophet had established between them (i.e. the Emigrants and the Ansar). So when the Verses: "To everyone We have appointed heirs." was revealed, (the inheritance through bond of brotherhood) was cancelled. Ibn Abbas then said: "And those to whom your right hands have pledged." is concerned with the covenant of helping and advising each other. So allies are no longer to be the heir of each other, but they can bequeath each other some of their property by means of a will.

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ (آیت میں) «ولكل جعلنا موالي‏» سے مراد وارث ہیں اور «والذين عاقدت أيمانكم‏» کی تفسیر یہ ہے کہ شروع میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبی ﷺنے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ «ولكل جعلنا موالي‏» تو پہلا طریقہ منسوخ ہو گیا پھر بیان کیا کہ «والذين عاقدت أيمانكم‏» سے وہ لوگ مراد ہیں، جن سے دوستی اور مدد اور خیر خواہی کی قسم کھا کر عہد کیا جائے۔ لیکن اب ان کے لیے میراث کا حکم منسوخ ہو گیا مگر وصیت کا حکم رہ گیا۔ اس اسناد میں ابواسامہ نے ادریس سے اور ادریس نے طلحہ بن مصرف سے سنا ہے۔

Chapter No: 8

باب ‏{‏إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ‏}‏

"Surely! Allah wrongs not even of the weight of an atom ..." (V.4:40)

باب : اللہ کے اس قول ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ۔ کی تفسیر۔ مثقال سے مراد وزن ہے

يَعْنِي زِنَةَ ذَرَّةٍ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ أُنَاسًا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نَعَمْ، هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ بِالظَّهِيرَةِ، ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لاَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ وَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ضَوْءٌ لَيْسَ فِيهَا سَحَابٌ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لاَ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلاَّ كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ‏.‏ فَلاَ يَبْقَى مَنْ كَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللَّهِ مِنَ الأَصْنَامِ وَالأَنْصَابِ إِلاَّ يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلاَّ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ، بَرٌّ أَوْ فَاجِرٌ وَغُبَّرَاتُ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَيُدْعَى الْيَهُودُ فَيُقَالُ لَهُمْ مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ‏.‏ فَيُقَالُ لَهُمْ كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلاَ وَلَدٍ، فَمَاذَا تَبْغُونَ فَقَالُوا عَطِشْنَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا‏.‏ فَيُشَارُ أَلاَ تَرِدُونَ، فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ كَأَنَّهَا سَرَابٌ، يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى، فَيُقَالُ لَهُمْ مَنْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ‏.‏ فَيُقَالُ لَهُمْ كَذَبْتُمْ، مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلاَ وَلَدٍ‏.‏ فَيُقَالُ لَهُمْ مَاذَا تَبْغُونَ فَكَذَلِكَ مِثْلَ الأَوَّلِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلاَّ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ أَوْ فَاجِرٍ، أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنَ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا، فَيُقَالُ مَاذَا تَنْتَظِرُونَ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا كَانَتْ تَعْبُدُ‏.‏ قَالُوا فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا عَلَى أَفْقَرِ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ رَبَّنَا الَّذِي كُنَّا نَعْبُدُ‏.‏ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ لاَ نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا‏.‏ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Said Al-Khudri : During the lifetime of the Prophet some people said, : O Allah's Apostle! Shall we see our Lord on the Day of Resurrection?" The Prophet said, "Yes; do you have any difficulty in seeing the sun at midday when it is bright and there is no cloud in the sky?" They replied, "No." He said, "Do you have any difficulty in seeing the moon on a full moon night when it is bright and there is no cloud in the sky?" They replied, "No." The Prophet said, "(Similarly) you will have no difficulty in seeing Allah on the Day of Resurrection as you have no difficulty in seeing either of them. On the Day of Resurrection, a call-maker will announce, "Let every nation follow that which they used to worship." Then none of those who used to worship anything other than Allah like idols and other deities but will fall in Hell (Fire), till there will remain none but those who used to worship Allah, both those who were obedient (i.e. good) and those who were disobedient (i.e. bad) and the remaining party of the people of the Scripture. Then the Jews will be called upon and it will be said to them, 'Who do you use to worship?' They will say, 'We used to worship Ezra, the son of Allah.' It will be said to them, 'You are liars, for Allah has never taken anyone as a wife or a son. What do you want now?' They will say, 'O our Lord! We are thirsty, so give us something to drink.' They will be directed and addressed thus, 'Will you drink,' whereupon they will be gathered unto Hell (Fire) which will look like a mirage whose different sides will be destroying each other. Then they will fall into the Fire. Afterwards the Christians will be called upon and it will be said to them, 'Who do you use to worship?' They will say, 'We used to worship Jesus, the son of Allah.' It will be said to them, 'You are liars, for Allah has never taken anyone as a wife or a son,' Then it will be said to them, 'What do you want?' They will say what the former people have said. Then, when there remain (in the gathering) none but those who used to worship Allah (Alone, the real Lord of the Worlds) whether they were obedient or disobedient. Then (Allah) the Lord of the worlds will come to them in a shape nearest to the picture they had in their minds about Him. It will be said, 'What are you waiting for?' Every nation have followed what they used to worship.' They will reply, 'We left the people in the world when we were in great need of them and we did not take them as friends. Now we are waiting for our Lord Whom we used to worship.' Allah will say, 'I am your Lord.' They will say twice or thrice, 'We do not worship any besides Allah.'"

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺکے زمانہ میں آپﷺسے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے؟ آپﷺنے فرمایا : ہاں، کیا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے، جبکہ اس پر بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا نہیں۔ پھر آپﷺنے فرمایا : کیا چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کچھ دشواری پیش آتی ہے، جبکہ اس پر بادل نہ ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا نہیں۔ پھر آپﷺنے فرمایا : بس اسی طرح تم بغیر کسی دقت اور رکاوٹ کے اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ ہر امت اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ حاضر ہو جائے۔ اس وقت اللہ کے سوا جتنے بھی بتوں اور پتھروں کی پوجا ہوتی تھی، سب کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر جب وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا گنہگار اور اہل کتاب کے کچھ لوگ۔ تو پہلے یہود کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ تم (اللہ کے سوا) کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ عرض کریں گے کہ عزیر ابن اللہ کی۔ تب ان سے کہاجائے گا کہ تم جھوٹے ہو ، اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی بیوی اور بیٹا نہیں بنایا۔ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے، اے ہمارے رب! ہم پیاسے ہیں، ہمیں پانی پلا دے۔ انہیں ایک سراب کی طرف اشارہ کیا جائے گا اور کہا جائے گا : وہاں جاؤ۔ وہ حقیقت میں پانی نہیں ہوگا بلکہ جہنم ہوگاجس کا ایک حصہ دوسرے کو چکنا چور کررہا ہوگا۔ وہ بے تاب ہوکر اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور آگ میں کود جائیں گے۔ ان کے بعد عیسائیوں کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: تم کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ان سے بھی کہا جائے گا کہ تم جھوٹے تھے۔ اللہ نے کسی کو بیوی اور بیٹا نہیں بنایا، پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا چاہتے ہو؟وہ بھی ایسا ہی کہیں گے جیسا یہودیوں نے کہا تھا۔(وہ بھی دوزخ میں جاگریں گے) اب وہی لوگ رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرتے تھے ۔ ان میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہوں گے۔(اس وقت) ان کے پاس اللہ تعالیٰ ایک صورت میں جلوہ گر ہوگا جو اس پہلی صورت سے ملتی جلتی ہوگی جسے وہ دیکھ چکے ہوں گے ۔ ان لوگوں سے کہا جائے گا: اب تمہیں کس کا انتظار ہے؟ ہر امت اپنے معبودوں کو ساتھ لے کر جا چکی ہے ، وہ جواب دیں گے : ہم نے دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ نہیں دیا جہاں ان کی زیادہ ضرورت تھی ، اب اس وقت کیوں دیں؟بلکہ ہم تو سچے رب کا انتظار کررہے ہیں جس کی ہم دنیا میں عبادت کرتے تھے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں ہی تمہارا رب ہوں ، پھر سب دو یا تین مرتبہ یوں کہیں گے: ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والے نہیں ہیں۔

Chapter No: 9

باب ‏{‏فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا‏}‏

"How (will it be) then when We bring from each nation a witness and We bring you (O Muhammad (s.a.w)) as a witness against these people?" (V.4:41)

باب : اللہ کے اس قول فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک۔ کی تفسیر۔

الْمُخْتَالُ وَالْخَتَّالُ وَاحِدٌ، ‏{‏نَطْمِسَ‏}‏ نُسَوِّيَهَا حَتَّى تَعُودَ كَأَقْفَائِهِمْ‏.‏ طَمَسَ الْكِتَابَ مَحَاهُ ‏{‏سَعِيرًا‏}‏ وُقُودًا

۔ مختا ل اور ختال کا ایک معنی ہے یعنی غروری (اترانے والا) نطمس وجوہا کا معنی ہم ان کا منہ میٹ کر گدھے کی طرح سپاٹ کر دیں گے یہ طمس الکتاب سے نکلا ہے یعنی لکھا ہوا میٹ دیا۔ سعیرا کا معنی ایندھن

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى بَعْضُ الْحَدِيثِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اقْرَأْ عَلَىَّ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ آقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ ‏"‏ فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي ‏"‏‏.‏ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى بَلَغْتُ ‏{‏فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاَءِ شَهِيدًا‏}‏ قَالَ ‏"‏ أَمْسِكْ ‏"‏‏.‏ فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ‏.‏

Narrated By Abdullah bin Masud : Allah's Apostle said to me, "Recite (of the Qur'an) for me," I said, "Shall I recite it to you although it had been revealed to you?" He said, "I like to hear (the Qur'an) from others." So I recited Surat-an-Nisa' till I reached: "How (will it be) then when We bring from each nation a witness, and We bring you (O Muhammad) as a witness against these people?" (4.41) Then he said, "Stop!" And behold, his eyes were overflowing with tears."

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا : مجھ سے نبی ﷺنے فرمایا : مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا، نبیﷺکو میں پڑھ کے سناؤں؟ وہ تو آپﷺپر ہی نازل ہوتا ہے۔ آپﷺنے فرمایا کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے آپ کو سورۃ نساء سنانی شروع کی، جب میں «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا‏» پر پہنچا تو آپﷺنے فرمایا :ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپﷺکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔

Chapter No: 10

باب قَوْلِهِ ‏{‏وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ‏}‏

"... And if you are ill, or on a journey, or one of you comes after answering the call of nature ..." (V.4:43)

باب : اللہ کے اس قول و ان کنتم مرضی او علی سفر او جاء احد منکم من الغائط۔ کی تفسیر۔

{‏صَعِيدًا‏}‏ وَجْهَ الأَرْضِ‏.‏ وَقَالَ جَابِرٌ كَانَتِ الطَّوَاغِيتُ الَّتِي يَتَحَاكَمُونَ إِلَيْهَا فِي جُهَيْنَةَ وَاحِدٌ، وَفِي أَسْلَمَ وَاحِدٌ، وَفِي كُلِّ حَىٍّ وَاحِدٌ، كُهَّانٌ يَنْزِلُ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ‏.‏ وَقَالَ عُمَرُ الْجِبْتُ السِّحْرُ‏.‏ وَالطَّاغُوتُ الشَّيْطَانُ‏.‏ وَقَالَ عِكْرِمَةُ الْجِبْتُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ شَيْطَانٌ، وَالطَّاغُوتُ الْكَاهِنُ‏

The word 'Saidan' means the surface of the earth. And Jabir said, "The Tawaghit (false deities) whom the people used to for judgement in their disputes. One in Juhaina, one is Aslam and one in every tribe. Those were sooth-sayers whom Shaitan (Satan) used to inspite." Umar said, "Al-Jibt means magic, and Taghut means Shaitan." Ikrima said, "Al-Jibt in the Ethiopian language means Shaitan and Taghut means a foreteller."

سعید کہتے ہیں روئے زمین کو ۔ جابرؓ نے کہا طاغوت وہ لوگ جن کے پاس کافر اپنے مقدمے لے کر جاتے تھے۔جہینہ قبیلے میں ایک طاغوت تھا ۔ اسلم قبیلے میں ایک تھا۔ اسی طرح ہر قبیلے میں ایک ایک یہ لوگ کاہن تھے۔ ان کے اوپر شیطان اترا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا جبت کہتے ہیں جادو کو اور طاغوت شیطان کو اور عکرمہ نے کہا جبت حبشی زبان میں شیطان کو کہتے ہیں اور طاغوت کا معنی کاہن

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ هَلَكَتْ قِلاَدَةٌ لأَسْمَاءَ فَبَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي طَلَبِهَا، رِجَالاً فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ وَلَيْسُوا عَلَى وُضُوءٍ‏.‏ وَلَمْ يَجِدُوا مَاءً، فَصَلَّوْا وَهُمْ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ‏.‏ يَعْنِي آيَةَ التَّيَمُّمِ‏.‏

Narrated By 'Aisha : The necklace of Asma' was lost, so the Prophet sent some men to look for it. The time for the prayer became due and they had not performed ablution and could not find water, so they offered the prayer without ablution. Then Allah revealed (the Verse of Tayammum).

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ (مجھ سے) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا ایک ہار گم ہو گیا تو رسول اللہ ﷺنے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسے تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا، نہ لوگ وضو سے تھے اور نہ ہی انہیں پانی ملا ، اس لیے لوگوں نے وضو کے بغیر نماز پڑھی اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔

123