Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Hujurat (65.49)    سورة الحجرات

‏بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنُ الرَّحِيم

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

شروع ساتھ نام اللہ کےجو بہت رحم والا مہربان ہے۔

وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ‏{‏لاَ تُقَدِّمُوا‏}‏ لاَ تَفْتَاتُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَلَى لِسَانِهِ‏.‏ ‏{‏امْتَحَنَ‏}‏ أَخْلَصَ‏.‏ ‏{‏تَنَابَزُوا‏}‏ يُدْعَى بِالْكُفْرِ بَعْدَ الإِسْلاَمِ‏.‏ ‏{‏يَلِتْكُمْ‏}‏ يَنْقُصْكُمْ، أَلَتْنَا نَقَصْنَا‏.‏

مجاہد نے کہا لَا تُقَدِّمُوا بَینَ یَدِیَ اللہِ وَ رسولہِ کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بڑھ کر باتیں مت کرو (ٹھہرے رہو) یہاں تک کہ اللہ کو جو حکم دینا ہے وہ اپنے پیغمبرﷺ کی زبان پر دے۔اِمتَحَنَ کا معنی صاف کیا، پر لکھ لیا۔ لَا تَنَا بَزوا بِالاَلقَاب کا معنی یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اس کو کافر (مثلا یہودی، نصرانی) کہہ کر نہ پکارو۔ لَا یَلِتکُم تمھارا ثواب کچھ کم نہ کرے گا۔ اسی سے ہے وَ مَ اَلَتنَا (جو سورہ طور میں ہے) یعنی ہم نے ان کے عمل کا ثواب کچھ گھٹایا نہیں۔

 

Chapter No: 1

باب ‏{‏لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ‏}‏ الآيَةَ

"O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet (s.a.w) ..." (V.49:2)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول لَا تَرفَعُوا اَصوَاتَکُم فَوقَ صَوتِ النَّبِیِّ کی تفسیر

‏{‏تَشْعُرُونَ‏}‏ تَعْلَمُونَ وَمِنْهُ الشَّاعِرُ‏.

تشعرون کا معنی جانتے ہو اسی سے شاعر نکلا ہے یعنی جانے والا۔

حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ بْنِ جَمِيلٍ اللَّخْمِيُّ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا ـ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ رَفَعَا أَصْوَاتَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَدِمَ عَلَيْهِ رَكْبُ بَنِي تَمِيمٍ، فَأَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ، وَأَشَارَ الآخَرُ بِرَجُلٍ آخَرَ ـ قَالَ نَافِعٌ لاَ أَحْفَظُ اسْمَهُ ـ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ مَا أَرَدْتَ إِلاَّ خِلاَفِي‏.‏ قَالَ مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ‏.‏ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فِي ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ‏}‏ الآيَةَ‏.‏ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَمَا كَانَ عُمَرُ يُسْمِعُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ هَذِهِ الآيَةِ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ‏.‏ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ عَنْ أَبِيهِ، يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ‏.‏

Narrated By Ibn Abi Mulaika : The two righteous persons were about to be ruined. They were Abu Bakr and 'Umar who raised their voices in the presence of the Prophet when a mission from Bani Tamim came to him. One of the two recommended Al-Aqra' bin Habeas, the brother of Bani Mujashi (to be their governor) while the other recommended somebody else. (Nafi', the sub-narrator said, I do not remember his name). Abu Bakr said to Umar, "You wanted nothing but to oppose me!" 'Umar said, "I did not intend to oppose you." Their voices grew loud in that argument, so Allah revealed: 'O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet.' (49.2) Ibn Az-Zubair said, "Since the revelation of this Verse, 'Umar used to speak in such a low tone that the Prophet had to ask him to repeat his statements." But Ibn Az-Zubair did not mention the same about his (maternal) grandfather (i.e. Abu Bakr).

ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺکے سامنے آوازیں بلند کرنے کی بنا پر دو نیک ترین آدمی تباہ ہونے کو تھے یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ، قصہ یوں ہے کہ بنو تمیم کا ایک وفد آپﷺکے پاس آیا ، ان میں سے ایک نے اقرع بن حابس کی سرداری کا مشورہ دیا۔ جو بنو مجاشع سے تھا اور دوسرے نے کسی دوسرے کا مشورہ دیا۔ نافع نے کہا: ان کا نام مجھے یاد نہیں رہا ۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تمہارا مقصد صرف میری مخالفت ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے ۔ اس معاملے میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم‏» اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی ﷺکے سامنے اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ ﷺصاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے نانا یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس سلسلے میں کوئی چیز بیان نہیں کی۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ أَنْبَأَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ‏.‏ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَكِّسًا رَأْسَهُ فَقَالَ لَهُ مَا شَأْنُكَ‏.‏ فَقَالَ شَرٌّ‏.‏ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ، وَهْوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ‏.‏ فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ كَذَا وَكَذَا ـ فَقَالَ مُوسَى ـ فَرَجَعَ إِلَيْهِ الْمَرَّةَ الآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ فَقَالَ ‏"‏ اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَلَكِنَّكَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Anas bin Malik : The Prophet missed Thabit bin Qais for a period (So he inquired about him). A man said. "O Allah's Apostle! I will bring you his news." So he went to Thabit and found him sitting in his house and bowing his head. The man said to Thabit, " 'What is the matter with you?" Thabit replied that it was an evil affair, for he used to raise his voice above the voice of the Prophet and so all his good deeds had been annulled, and he considered himself as one of the people of the Fire. Then the man returned to the Prophet and told him that Thabit had said, so-and-so. (Musa bin Anas) said: The man returned to Thabit with great glad tidings. The Prophet said to the man. "Go back to him and say to him: "You are not from the people of the Hell Fire, but from the people of Paradise."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ پھر وہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے دیکھا کہ وہ گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں پوچھا کیا حال ہے؟ کہا کہ برا حال ہے کہ نبی ﷺکی آواز کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولا کرتا تھا اب سارے نیک عمل رائیگان ہوئے اور اہل دوزخ میں قرار دے دیا گیا ہوں۔ وہ نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس کی اطلاع آپ کو دی۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ وہ شخص اب دوبارہ ان کے لیے ایک عظیم بشارت لے کر ان کے پاس آئے۔ آپ ﷺنے فرمایا تھا : ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت میں سے ہو۔

Chapter No: 2

باب ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ‏}‏

"Verily! Those who call you from behind the dwellings, most of them have no sense." (V.49:4)

ب : اللہ تعالیٰ کے اس قول اِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِن وَرَاءِ الحُجُرَاتِ اَکثَرُھُم لَا یَعقِلُون کی تفسیر

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ، قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمِّرِ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدٍ‏.‏ وَقَالَ عُمَرُ بَلْ أَمِّرِ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا أَرَدْتَ إِلَى ـ أَوْ إِلاَّ ـ خِلاَفِي‏.‏ فَقَالَ عُمَرُ مَا أَرَدْتُ خِلاَفَكَ‏.‏ فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَىِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ‏}‏ حَتَّى انْقَضَتِ الآيَةُ‏.‏

Narrated By Abdullah bin Az-Zubair : A group of Bani Tamim came to the Prophet (and requested him to appoint a governor for them). Abu Bakr said, "Appoint Al-Qaqa bin Mabad." Umar said, "Appoint Al-Aqra' bin Habeas." On that Abu Bakr said (to 'Umar). "You did not want but to oppose me!" 'Umar replied "I did not intend to oppose you!" So both of them argued till their voices grew loud. So the following Verse was revealed: 'O you who believe! Be not forward...' (49.1)

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا قبیلہ بنی تمیم کے سواروں کا وفد نبیﷺکی خدمت میں آیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ قعقاع بن معبد کو ان کا امیر بنا دیں اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بلکہ آپ اقرع بن حابس کو امیر بنا دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر)کہا: اے عمر رضی اللہ عنہ ! تم نے تو میری مخالفت کا ارادہ کررکھا ہے ۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔ بہرحال دونوں میں بحث چل پڑی اور آوازیں بلند ہو گئی۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدى الله ورسوله‏» کہ اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے پہلے کسی کام میں جلدی مت کیا کرو۔ آخر آیت تک۔

Chapter No: 3

باب ‏{‏وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ‏}‏

The Statement of Allah, "And if they had patience till you could come out to them, it would have been better for them ..." (V.49:5)

باب : اللہ تعالیٰ کے اس قول وَ لَوا اَنَّھُم صَبَرُوا حَتّٰی تَخرُجَ اِلَیھِم لَکَانَ خَیرًا لَّھُم کی تفسیر