Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Wills and Testaments (55)    كتاب الوصايا

‹ First234

Chapter No: 31

باب وَقْفِ الدَّوَابِّ وَالْكُرَاعِ وَالْعُرُوضِ وَالصَّامِتِ

Giving animals particularly horses, property, gold and silver as endowments.

باب: جانور اور گھوڑے اور سامان اور نقد چاندی سونا وقف کرنا۔

قَالَ الزُّهْرِيُّ فِيمَنْ جَعَلَ أَلْفَ دِينَارٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدَفَعَهَا إِلَى غُلاَمٍ لَهُ تَاجِرٍ يَتْجُرُ بِهَا، وَجَعَلَ رِبْحَهُ صَدَقَةً لِلْمَسَاكِينِ وَالأَقْرَبِينَ، هَلْ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ رِبْحِ ذَلِكَ الأَلْفِ شَيْئًا، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ جَعَلَ رِبْحَهَا صَدَقَةً فِي الْمَسَاكِينِ قَالَ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا‏.‏

Someone asked Az-Zuhri, "If the founder of an endowment of 1000 Dinar and gives the sum to his boy who is a trader to invest it in business and declares that the profit of the money will be given in charity to the poor and the relatives, will the founder have the right to use anything of the profit of the 1000 Dinar?" And if he does not assign its profit to the poor?" Az-Zuhri said, "He will have no right to use any of it."

زہری نے کہا اگر کسی شخص نے ہزار اشرفیاں اللہ کی راہ میں نکالیں اور اپنے ایک غلام کو جو سوداگری کرتا تھا دیں ان کا فائدہ محتاجوں اور ناطے والوں کے لئے تصدق کیا کیا وہ شخص اشرفیوں کے نفع میں سے کھا سکتا ہے؟ گو اس نے اس نفع کو محتاج پر تصدق نہ کیا ہو جب بھی وہ اس میں سے نہیں کھا سکتا۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ عُمَرَ، حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَعْطَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِيَحْمِلَ عَلَيْهَا رَجُلاً، فَأُخْبِرَ عُمَرُ أَنَّهُ قَدْ وَقَفَهَا يَبِيعُهَا، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَبْتَاعَهَا فَقَالَ ‏"‏ لاَ تَبْتَعْهَا، وَلاَ تَرْجِعَنَّ فِي صَدَقَتِكَ ‏"‏‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : Once 'Umar gave a horse in charity to be used in holy fighting. It had been given to him by Allah's Apostle. 'Umar gave it to another man to ride. Then 'Umar was informed that the man put the horse for sale, so he asked Allah's Apostle whether he could buy it. Allah's Apostle replied, "You should not buy it, for you should not take back what you have given in charity."

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں (جہاد کرنے کےلیے) ایک آدمی کو دے دیا۔یہ گھوڑا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپﷺنے دیا تھا ، تاکہ جہاد میں کسی کو اس پر سوار کریں ۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ جس شخص کو یہ گھوڑا ملا تھا ، وہ اس گھوڑے کو بازار میں بیچ رہا ہے۔ اس لیے رسول اللہﷺسے پوچھا کہ کیا وہ اسے خرید سکتے ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: اسے نہ خریدیں۔اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لے۔

Chapter No: 32

باب نَفَقَةِ الْقَيِّمِ لِلْوَقْفِ

The salary for the administrator of an endowment.

باب: جو شخص وقفی جائیداد کا اہتمام کرے وہ اپنی اجرت اس میں سے لے سکتا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لاَ يَقْتَسِمْ وَرَثَتِي دِينَارًا، مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهْوَ صَدَقَةٌ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "My heirs will not inherit a Dinar or a Dirham (i.e. money), for whatever I leave (excluding the adequate support of my wives and the wages of my employees) is given in charity."

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: میرے ورثاء دینار اور درہم تقسیم نہ کریں جو میں (مرتے وقت) چھوڑ جاؤں۔وہ میری ازواج اور جائداد کا اہتمام کرنے والے کا خرچہ نکالنے کے بعد صدقہ ہے۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ عُمَرَ، اشْتَرَطَ فِي وَقْفِهِ أَنْ يَأْكُلَ مَنْ وَلِيَهُ وَيُوكِلَ صَدِيقَهُ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ مَالاً‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : When 'Umar founded an endowment he stipulated that its administrator could eat from it and also feed his friend on the condition that he would not store anything for himself from it.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف میں یہ شرط لگائی تھی کہ اس کا متولی اس میں سے کھاسکتا ہے اور اپنے دوست کو کھلا سکتا ہے مگر وہ دولت نہ بنائے۔

Chapter No: 33

باب إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِينَ

If somebody keeps a piece of land or a well as an endowment, or declares that he should benefit by its water as the other Muslims do.

باب: اگر کسی شخص نے کنواں وقف کیا اور یہ شرط لگائی کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ اپنا ڈول بھی اس میں ڈالے گا اس میں سے پانی لے گا یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کر لی تو یہ درست ہے

وَأَوْقَفَ أَنَسٌ دَارًا فَكَانَ إِذَا قَدِمَهَا نَزَلَهَا‏.‏ وَتَصَدَّقَ الزُّبَيْرُ بِدُورِهِ، وَقَالَ لِلْمَرْدُودَةِ مِنْ بَنَاتِهِ أَنْ تَسْكُنَ غَيْرَ مُضِرَّةٍ وَلاَ مُضَرٍّ بِهَا، فَإِنِ اسْتَغْنَتْ بِزَوْجٍ فَلَيْسَ لَهَا حَقٌّ‏.‏ وَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ نَصِيبَهُ مِنْ دَارِ عُمَرَ سُكْنَى لِذَوِي الْحَاجَةِ مِنْ آلِ عَبْدِ اللَّهِ‏.‏

Anas kept a house as an endowment and whenever he came (to Medina), he used to stay in it. Az-Zubair gave his house in charity and told his divorced daughters to dwell therein without harming or being harmed, but if any of them re-married, she would have no right to stay there. Ibn Umar kept his share from his father's house to be inhabited by the needy amongst his family.

اور انس بن مالکؓ نے مدینہ میں ایک گھر وقف کیا تھا وہ جب مدینہ میں آتے تو اسی میں اترتے اور زبیر بن عوام نے اپنے گھروں کو وقف کر دیا تھا ان کی جس بیٹی کو طلاق دیا جاتا تو کہتے اس میں رہ کر گھر خراب نہ کر نہ تیرا کوئی نقصان کرے اور جب خاوند والی ہو جائے پھر اس کو وہاں رہنے کا حق نہیں۔ اور ابن عمرؓ نے اپنے باپ عمرؓ کے گھر میں سے اپنا حصّہ اپنی محتاج اولاد کو دے دیا تھا

وَقَالَ عَبْدَانُ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عُثْمَانَ ـ رضى الله عنه ـ حَيْثُ حُوصِرَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ أَنْشُدُكُمْ وَلاَ أَنْشُدُ إِلاَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الْجَنَّةُ ‏"‏‏.‏ فَحَفَرْتُهَا، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ قَالَ ‏"‏ مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ ‏"‏‏.‏ فَجَهَّزْتُهُمْ‏.‏ قَالَ فَصَدَّقُوهُ بِمَا قَالَ‏.‏ وَقَالَ عُمَرُ فِي وَقْفِهِ لاَ جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ‏.‏ وَقَدْ يَلِيهِ الْوَاقِفُ وَغَيْرُهُ فَهْوَ وَاسِعٌ لِكُلٍّ‏.‏

Abu Abdur Rahman narrated: When Uthman(R.A.) was circled (by the rebels) , he looked upon them from above and said, "I ask you by Allah , I ask nobody but the companions of the Prophet(s.a.w.), don't you know that Allah's Messenger( s.a.w.) said, 'Whoever will( buy and ) dig the well of Ruma will be granted Paradise,' and I ( bought and) dug it? Don't you know that he said, 'Whoever equip the army of Usra(i.e. Tabuk's Ghazwa) will be granted Paradise, and I equipped it?" They attested whatever he said. When Umar founded his endowment he said,"Its administrator can eat from it."The management of the endowment can be taken over by the founder himself or any other person, for both cases are permissible.

ابو عبد الرحمن سے مروی ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ محاصرے میں لئے گئے تو (اپنے گھر کے ) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا: میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبیﷺکے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہﷺنے فرمایا: جو شخص بئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کےلیے وقف کردے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھوداتھا۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آپﷺنے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرت کو جو شخص سازو و سامان سے لیس کردے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کا منتظم اگر اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ منتظم خود واقف بھی ہوسکتا ہے اور کبھی دوسرے بھی ہوسکتے ہیں اور ہر ایک کےلیے یہ جائز ہے۔

Chapter No: 34

باب إِذَا قَالَ الْوَاقِفُ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلاَّ إِلَى اللَّهِ فَهْوَ جَائِزٌ

It is permissible for the founder of an endowment to say, "We will demand its price, from none but Allah."

باب: اگر وقف کرنے والا یوں کہے ہم اس کی قیمت اللہ ہی سے لیں گے تو وہ درست ہو جائے گا۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلاَّ إِلَى اللَّهِ‏.‏

Narrated By Anas : The Prophet said (at the time of building the Mosque), "O Ban, An-Najjar! Suggest to me a price for your garden." They replied, "We do not ask its price except from Allah."

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا تھا اے بنو نجار! تم اپنے باغ کی قیمت مجھ سے وصول کرلو تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں چاہتے۔

Chapter No: 35

باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِن

The Statement of Allah, "O you who believe! When death approaches any of you, and you make a bequest, (then take) the testimony of two just men of your own folk or two others from outside ... Allah guides not the people who are disobedient." (V.5:106-108)

باب: (سورت مائدہ میں) اللہ تعالٰی کا یہ فرمانا کہ مسلمانو جب تم میں سے کوئی مرنے لگے تو آپس کی گواہی مصیبت کے وقت تم میں سے (یعنی مسلمانوں میں سے یا عزیزوں میں سے) دو معتبر شخصوں کی ہونی چاہئے۔ یا اگر تم سفر میں ہو وہاں موت کی مصیبت آن پڑے تو غیر ہی کافر یا جن سے قرابت نہ ہو دو شخص سہی۔ (میت کے وارثو) ان دو نوں گواہوں کو عصر کی نمازکے بعد تم روک لو۔ اگر تم کو (ان کے سچا ہونے میں شبہ ہو) تو وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی کے بدل دنیا نہیں کمانا چاہتے۔ جس کے لئے گواہی دیں وہ اپنا رشتہ دار ہو اور نہ ہم خدا واسطے گواہی چھپائیں گے۔ ایسا کریں تو ہم خدا کے قصور وار ہیں۔ پھر اگر معلوم ہو کہ واقعی یہ گواہ جھوٹے تھے تو دوسرے وہ دو گواہ کھڑے ہوں جو میت کے نزدیک کے رشتہ دار ہوں (یا جن کو میت کے نزدیک کے رشتہ داروں نے گواہی کے لائق سمجھا ہو وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں ہماری گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے اورہم نے کوئی ناحق بات نہیں کہی۔ ایسا کیا ہو تو بیشک ہم گنہگار ہیں۔ یہ تدبیر ایسی ہے جس سے ٹھیک ٹھیک گواہی دینے کی زیادہ امید پڑتی ہے یا اتنا تو ضرور ہو گا کہ وصی یا گواہوں کو ڈر رہے گا ایسا نہ ہو کہ ان کے قسم کھانے کے بعد پھر وارثوں کو قسم دی جائے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اس کا حکم سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو راہ پر نہیں لگاتا۔

وَقَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مُسْلِمٌ، فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا مِنْ ذَهَبٍ، فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَكَّةَ فَقَالُوا ابْتَعْنَاهُ مِنْ تَمِيمٍ وَعَدِيٍّ‏.‏ فَقَامَ رَجُلاَنِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، فَحَلَفَا لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا، وَإِنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِهِمْ‏.‏ قَالَ وَفِيهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ‏}‏

Ibn Abbas(R.A.) said, "A man from the tribe of Bani Sahm went out in the company of Tamim Ad-Dari and Adi bin Badda.The man of Bani Sahm died in a land where there was no muslim.When Tamim and Adi returned conveying the property of the deceased, they claimed that they had lost a silver bowl with gold engraving.Allah's Messenger(s.a.w.) made them take an oath ( to confirm their claim), and then the bowl was found in Makkah with some people who claimed that they had bought it from Tamim and Adi.Then two witnesses were more valid than the witnesses of Adi and Tamim and that the bowl belonged to their deceased fellow.So, this Verse was revealed in connection with this case; 'O you who believe when death approaches any of you...' "(V.5:106)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: بنو سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ سفر کو نکلا، وہ ایسے ملک میں جاکر مرگیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔یہ دونوں شخص اس کا متروکہ مال لے کر مدینہ واپس آئے ۔ اس کے اسباب میں چاندی کا ایک گلاس گم تھا۔ آپﷺنے ان دونوں کو قسم کھانے کا حکم فرمایا (انہوں نے قسم کھالی) پھر ایسا ہوا کہ وہ گلاس مکہ میں ملا، انہوں نے کہا ہم نے یہ گلاس تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔اس وقت میت کے دو عزیز (عمرو بن عاص اور مطلب) کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ یہ ہماری گواہی تمیم اور عدی کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے۔یہ گلاس میت ہی کا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (یا ایہا الذی آمنوا شہادۃ بینکم) آخری آیت تک۔

Chapter No: 36

باب قَضَاءِ الْوَصِيِّ دُيُونَ الْمَيِّتِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الْوَرَثَةِ

The payments of the debts of the deceased by the executor (of the will) in the absence of other inheritors.

باب: وصی میت پر جو قرضہ ہو وہ ادا کر سکتا ہے گو دوسرے وارث حاضر نہ ہوں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، أَوِ الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ عَنْهُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، قَالَ قَالَ الشَّعْبِيُّ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ أَبَاهُ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ، وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا، فَلَمَّا حَضَرَ جِدَادُ النَّخْلِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا كَثِيرًا، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ قَالَ ‏"‏ اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَتِهِ ‏"‏‏.‏ فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ، فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ، فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ ادْعُ أَصْحَابَكَ ‏"‏‏.‏ فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، وَأَنَا وَاللَّهِ رَاضٍ أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي وَلاَ أَرْجِعَ إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ، فَسَلِمَ وَاللَّهِ الْبَيَادِرُ كُلُّهَا حَتَّى أَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْبَيْدَرِ الَّذِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَأَنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً‏.‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah Al-Ansari : My father was martyred on the day (of the Ghazwa) of Uhud and left six daughters and some debts to be paid. When the time of plucking the date-fruits came, I went to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! you know that my father was martyred on Uhud's day and owed much debt, and I wish that the creditors would see you." The Prophet said, "Go and collect the various kinds of dates and place them separately in heaps"' I did accordingly and called him. On seeing him, the creditors started claiming their rights pressingly at that time. When the Prophet saw how they behaved, he went round the biggest heap for three times and sat over it and said, "Call your companions (i.e. the creditors)." Then he kept on measuring and giving them, till Allah cleared all my father's debts. By Allah, it would have pleased me that Allah would clear the debts of my father even though I had not taken a single date to my sisters. But by Allah, all the heaps were complete, (as they were) and I looked at the heap where Allah's Apostle was sitting and noticed as if not a single date had been taken thereof.

حضرت جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے تھے۔ اپنے پیچھے چھ لڑکیاں چھوڑی تھیں۔ اور قرض بھی ۔ جب کھجور کے پھل توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسو لﷺ! آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد ماجد احد کی لڑائی میں شہید ہوچکے ہیں اور بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا تھا کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں لیکن وہ یہودی تھے اور وہ نہیں مانے ، اس لیے رسول اللہﷺنے فرمایا: جاؤ اور کھلیان میں ہر قسم کی کھجور الگ الگ کرلو جب میں نے ایسا ہی کرلیا تو آپﷺکو بلایا،قرض خواہوں نے آپﷺکو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کردی تھی۔آپﷺنے جب یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا توسب سے بڑے کھجور کے ڈھیر کے گرد آپﷺنے تین چکر لگائے اور وہیں بیٹھ گئے پھر فرمایا: کہ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ آپﷺنے ناپ ناپ کر دینا شروع کیا اور اللہ کی قسم!میرے والد کی تمام امانت ادا کردی، اللہ گواہ ہے کہ میں اتنے پر بھی راضی تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کا تمام قرض ادا کردے اور میں اپنی بہنوں کےلیے ایک کھجور بھی اس میں سے نہ لے جاؤں۔ لیکن ہوا یہ کہ ڈھیر کے ڈھیر بچ رہے اور میں نے دیکھا کہ رسو ل اللہﷺجس ڈھیر پر بیٹھے ہوئے تھے اس میں سے تو ایک کھجور بھی نہیں دی گئی تھی۔ حضرت ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اغروا بی (حدیث میں الفاظ ) کے معنیٰ ہیں کہ مجھ پر بھڑکنے اور سختی کرنے لگے۔ اسی معنیٰ میں قرآن مجید کی آیت (فاغرینا بینہم العداوۃ والبغضاء) میں فاغرینا ہے۔

‹ First234