Chapter No: 11
باب إِذَا قَالُوا صَبَأْنَا وَلَمْ يُحْسِنُوا أَسْلَمْنَا
If non-Muslims (in war) say, "Sabana" and could not say "Aslamna" (i.e., we have embraced Islam)
باب : اگر کافر لڑائی کے وقت ( گھبرا کر ) اچھی طرح یوں نہ کہ سکیں ہم مسلمان ہوئے اور یوں کہنے لگیں ہم نے دین بدل دیا تو کیا حکم ہے ،
وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ فَجَعَلَ خَالِدٌ يَقْتُلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ ". وَقَالَ عُمَرُ إِذَا قَالَ مَتْرَسْ. فَقَدْ آمَنَهُ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ الأَلْسِنَةَ كُلَّهَا. وَقَالَ تَكَلَّمْ لاَ بَأْسَ
And Ibn Umar said, "Khalid started killing such infidels (thinking that they should have said 'Aslamna' to be safe)." The Prophet (s.a.w) said, "O Allah! I am free from what Khalid has done." Umar said, "If one says to another Matras, he is granting him security thereby. Allah knows all the tongues." Umar said (Al-Hurmuzan, a Persian leader), "Speak, there is no harm."
عبداللہ بن عمرؓ نے کہا خالد بن ولید نے ( بنی ہدبہ کی جنگ میں ) کافروں کو مارنا شروع کر دیا ( حالانکہ وہ کہتے تھے کہ ہم نے دین بدلا دین بدلا ) نبیﷺ نے جب یہ حال سُنا تو فرمایا یا اللہ میں خالد کے کام سے بیزار ہوں ۔ حضرت عمرؓ نے کہا جب کسی مسلمان نے کافر سے کہا مترس ( یعنی ڈر نہیں ) تو اس کو امن دے چکا ( اب اس کو مارنا درست نہیں ) اللہ تو سب زبانیں جانتا ہے اور حضرت عمرؓ نے ( ہرمزان فارسی سے ) کہا بات کر کچھ ڈر نہیں۔
Chapter No: 12
باب الْمُوَادَعَةِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ الْمُشْرِكِينَ بِالْمَالِ وَغَيْرِهِ وَإِثْمِ مَنْ لَمْ يَفِ بِالْعَهْدِ
Making peace with the Polytheists and the reconciliation with them by means of money or other means, and the sin of the person who does not fulfill the terms of the treaty.
باب : مشرکوں سے مال وغیرہ پر صلح کرنا لڑائی چھوڑ دینا اور کوئی عہد پورا نہ کرے اس کا گناہ
وَقَوْلِهِ {وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ }جنحوا: طلبو السلم {فَاجْنَحْ لَهَا}
And Allah's Statement; "But if they (enemy) incline toward peace ..." (V.8:61)
اور اللہ تعالیٰ کا ( سورت انفال میں ) یہ فرمانا اگر کافر صلح کی طرف جھکیں ، تو تُو بھی صلح کی طرف جھک جا ( اخیر آیت تک )
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ ـ هُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ ـ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ، وَهْىَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ، فَتَفَرَّقَا، فَأَتَى مُحَيِّصَةُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهْوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمٍ قَتِيلاً، فَدَفَنَهُ ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةُ وَحُوَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ فَقَالَ " كَبِّرْ كَبِّرْ ". وَهْوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا فَقَالَ " أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ ". قَالُوا وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ قَالَ " فَتُبْرِيكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ ". فَقَالُوا كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ فَعَقَلَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ عِنْدِهِ
Narrated By Sahl bin Abi Hathma : 'Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas'ud bin Zaid set out to Khaibar, the inhabitants of which had a peace treaty with the Muslims at that time. They parted and later on Muhaiyisa came upon 'Abdullah bin Sah! and found him murdered agitating in his blood. He buried him and returned to Medina. 'Abdur Rahman bin Sahl, Muhaiyisa and Huwaiuisa, the sons of Mas'ud came to the Prophet and 'Abdur Rahman intended to talk, but the Prophet said (to him), "Let the eldest of you speak." as 'Abdur-Rahman was the youngest:. 'Abdur-Rahman kept silent and the other two spoke. The Prophet said, "If you swear as to who has committed the murder, you will have the right to take your right from the murderer." They said, "How should we swear if we did not witness the murder or see the murderer?" The Prophet said, "Then the Jews can clear themselves from the charge by taking Alaska (an oath taken by men that it was not they who committed the murder)." They said, "How should we believe in the oaths of infidels?" So, the Prophet himself paid the blood money (of 'Abdullah).
سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے ۔ ان دنوں (خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی) صلح تھی۔ پھر دونوں حضرات (خیبر پہنچ کر اپنے اپنے کاموں کےلیے ) جدا ہوگئے۔ اس کے بعد محیصہ ، عبد اللہ بن سہل کے پاس آئے ، تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خون میں لوٹ رہے ہیں ۔ کسی نے ان کو قتل کر ڈالا ، خیر محیصہ نے عبد اللہ کو دفن کردیا۔پھر مدینہ آئے ، اس کے بعد عبد الرحمن بن سہل اور مسعود کے دونوں صاحبزادے محیصہ اور حویصہ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ، گفتگو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے شروع کی ، تو آپﷺنے فرمایا: جو تم لوگوں میں عمر میں بڑے ہوں وہ بات کریں۔ عبد الرحمن سب سے کم عمر تھے ، وہ چپ ہوگئے اور محیصہ اور حویصہ نے بات شروع کی۔ آپﷺنے دریافت فرمایا: کیا تم لوگ اس پر قسم کھا سکتے ہو ، کہ جس شخص کو تم قاتل کہہ رہے ہو اس پر تمہارا حق ثابت ہوسکے۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے معاملے میں کس طرح قسم کھاسکتے ہیں جس کو ہم نے خود آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔آپﷺنے فرمایا: پھر کیا یہود تمہارے دعوے سے اپنی برأت اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھاکر کے کردیں ؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ کفار کی قسموں کا ہم کس طرح اعتبار کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ آپﷺنے خود اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کردی۔
Chapter No: 13
باب فَضْلِ الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ
The superiority of fulfilling one's covenant.
باب : عہد پورا کرنے کی فضیلت ۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي رَكْبٍ مِنْ قُرَيْشٍ كَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي مَادَّ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَبَا سُفْيَانَ فِي كُفَّارِ قُرَيْشٍ
Narrated By ' Abdullah bin 'Abbas : That Abu Sufyan bin Harb Informed him that Heraclius called him and the members of a caravan from Quraish who had gone to Sham as traders, during the truce which Allah's Apostle had concluded with Abu Sufyan and the Quraish infidels.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل (روم کے بادشاہ) نے انہیں قریش کے قافلے کے ساتھ بلا بھیجا ، ( یہ لوگ شام اس زمانے میں تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے ) جب آپﷺنے ابو سفیان سے (صلح حدیبیہ میں) قریش کے کافروں کے مقدمہ میں صلح کی تھی۔
Chapter No: 14
باب هَلْ يُعْفَى عَنِ الذِّمِّيِّ إِذَا سَحَرَ
If a Dhimmi practises magic, can he be excused?
باب : اگر ذمّی کافر جادو کرے تو اس کو قتل کریں گے یا نہیں ؟
وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، سُئِلَ أَعَلَى مَنْ سَحَرَ مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ قَتْلٌ قَالَ بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ صُنِعَ لَهُ ذَلِكَ، فَلَمْ يَقْتُلْ مَنْ صَنَعَهُ، وَكَانَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ.
Ibn Shihab was asked, "If one of those with whom Muslims have made a covenant bewitches people, will he be sentenced to death?" He replied, "We have been informed that Allah's Messenger (s.a.w) was bewitched, yet he did not kill the magician who was from the people of the Scriptures."
عبداللہ بن وہب نے کہا مجھ کو یونس نے خبر دی ، انہوں نے ابنٍ شہاب سے ، ان سے پوچھا گیا کیا ذمّی اگر جادو کرے تو اس کو قتل کریں گے ؟ انہوں نے کہا ہم کو یہ خبر ملی کہ رسول اللہﷺ پر جادو کیا گیا ( ایک ذمی کافر لبید بن اعصم یہودی نے کیا تھا ) آپﷺ نے جادوگر کو قتل نہیں کیا ۔ وہ اہل کتاب میں سے تھا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم سُحِرَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ صَنَعَ شَيْئًا وَلَمْ يَصْنَعْهُ
Narrated By 'Aisha : Once the Prophet was bewitched so that he began to imagine that he had done a thing which in fact he had not done.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺپر جادو کردیا گیا تھا ۔ تو بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ آپﷺسمجھتے کہ میں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپﷺنے وہ کام نہ کیا ہوتا۔
Chapter No: 15
باب مَا يُحْذَرُ مِنَ الْغَدْرِ
Caution against treachery.
باب : دغا بازی کیسا گناہ ہے ،
وَقَوْلِهِ تَعَالَى {وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ} الآيَةَ
And the Statement of Allah, "And if they intend to deceive you, then verily, Allah is All-Sufficient for you ..." (V.8:62)
اور اللہ تعالیٰ نے ( سورت انفال میں ) فرمایا اگر کافر یہ چاہتے ہیں کہ تجھ سے فریب کریں تو اللہ تجھ کو بس کرتا ہے ( اخیر آیت تک)
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلاَءِ بْنِ زَبْرٍ، قَالَ سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ، قَالَ سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَهْوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ فَقَالَ " اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَىِ السَّاعَةِ، مَوْتِي، ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ مُوتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ، ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا، ثُمَّ فِتْنَةٌ لاَ يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلاَّ دَخَلَتْهُ، ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الأَصْفَرِ فَيَغْدِرُونَ، فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً، تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا ".
Narrated By Auf bin Malik : I went to the Prophet during the Ghazwa of Tabuk while he was sitting in a leather tent. He said, "Count six signs that indicate the approach of the Hour: my death, the conquest of Jerusalem, a plague that will afflict you (and kill you in great numbers) as the plague that afflicts sheep, the increase of wealth to such an extent that even if one is given one hundred Dinars, he will not be satisfied; then an affliction which no Arab house will escape, and then a truce between you and Bani Al-Asfar (i.e. the Byzantines) who will betray you and attack you under eighty flags. Under each flag will be twelve thousand soldiers.
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺاس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرماتھے ۔ آپﷺنے فرمایا: قیامت کے قیام کی چھ نشانیاں شمار کرلو: میری موت ، پھر بیت المقدس کی فتح ، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعوں پھیل جاتا ہے ۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہوگی کہ ایک شخص سو دینا ر بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر وہ ناراض ہوگا۔پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہوگا کہ عرب کا کوئی گھرانہ باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آگیا ہوگا ۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنو اصفر (روم کے نصاریٰ) کے درمیان ہوگی ، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہوگی۔ (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)
Chapter No: 16
باب كَيْفَ يُنْبَذُ إِلَى أَهْلِ الْعَهْدِ؟
How to revoke a covenant.
باب : عہد کیونکر واپس کیا جائے؟
وَقَوْلُهُ {وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ} الآيَةَ
And the Statement of Allah, "If you (O Muhammad (s.a.w)) fear treachery from any people throw back (their covenant) to them (so as to be) on equal terms (that there will be no more covenant between you and them)." (V.8:58)
اور اللہ تعالیٰ نے ( سورت انفال میں ) فرمایا اگر تو ڈرے کسی قوم سے کہ وہ دغا دیں گے تو اُن کا عہد معقول طور سے ان کو واپس کر دے ( اخیر آیت تک )
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ ـ رضى الله عنه ـ فِيمَنْ يُؤَذِّنُ يَوْمَ النَّحْرِ بِمِنًى لاَ يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلاَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ. وَيَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ، وَإِنَّمَا قِيلَ الأَكْبَرُ مِنْ أَجْلِ قَوْلِ النَّاسِ الْحَجُّ الأَصْغَرُ. فَنَبَذَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى النَّاسِ فِي ذَلِكَ الْعَامِ، فَلَمْ يَحُجَّ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ الَّذِي حَجَّ فِيهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مُشْرِكٌ
Narrated By Abu Huraira : Abu Bakr, on the day of Nahr (i.e. slaughtering of animals for sacrifice), sent me in the company of others to make this announcement: "After this year, no pagan will be allowed to perform the Hajj, and none will be allowed to perform the Tawaf of the Ka'ba undressed." And the day of Al-Hajj-ul-Akbar is the day of Nahr, and it called Al-Akbar because the people call the 'Umra Al-Hajj-ul-Asghar (i.e. the minor Hajj). Abu Bakr threw back the pagans' covenant that year, and therefore, no pagan performed the Hajj in the year of Hajj-ul-Wada' of the Prophets.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (حجۃ الواع سے پہلے والے حج کے موقع پر ) دسویں ذی الحجہ کے دن بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی منیٰ میں یہ اعلان کرنے بھیجا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگے ہوکر نہ کرے اور حج اکبر کا دن دسویں تاریخ ذی الحجہ کا دن ہے ۔ اسے حج اکبر اس لیے کہا گیا ہے کہ لوگ (عمرہ کو ) حج اصغر کہنے لگے تھے ، تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس سال مشرکوں سے جو عہد لیا تھا اسے وابس کردیا ، اور دوسرے سال حجۃ الوداع میں جب آپﷺنے حج کیا تو کوئی مشرک شریک نہیں ہوا۔
Chapter No: 17
باب إِثْمِ مَنْ عَاهَدَ ثُمَّ غَدَرَ
The sin of a person who makes a covenant and then proves treacherous.
باب : عہد کر کے دغاد ینے کا گناہ ،
وَقَوْلِهِ {الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لاَ يَتَّقُونَ}
And the Statement of Allah, "They are those with whom you made a covenant, but they break their covenant every time and they do not fear Allah." (V.8:56)
اور اللہ تعالیٰ کا ( سورت انفال میں ) فرمانا (یہود کے باب میں ) جن سے تو عہد کرتا ہے پھر ہر بار عہد کر کے توڑ ڈالتے ہیں اور ( دغا بازی سے ) باز نہیں آتے ۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَرْبَعُ خِلاَلٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا "
Narrated By 'Abdullah bin 'Amr : Allah's Apostle said, "Whoever has (the following) four characteristics will be a pure hypocrite: "If he speaks, he tells a lie; if he gives a promise, he breaks it, if he makes a covenant he proves treacherous; and if he quarrels, he behaves in a very imprudent evil insulting manner (unjust). And whoever has one of these characteristics, has one characteristic of a hypocrite, unless he gives it us."
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺنے فرمایا: چار خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر یہ چاروں کسی ایک شخص میں جمع ہوجائیں تو وہ پکا منافق ہوجاتا ہے ۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے ، اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ جب معاہدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔جب کسی سے لڑے تو گالی گلوچ پر اتر آئے ۔ اور اگر کسی شخص کے اندر ان چاروں خصلتوں میں سے ایک ہی خصلت ہے تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَا كَتَبْنَا عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ الْقُرْآنَ، وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرٍ إِلَى كَذَا، فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلاَ صَرْفٌ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ. فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ، وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ ".
Narrated By Ali : We did not, write anything from the Prophet except the Qur'an and what is written in this paper, (wherein) the Prophet said, "Medina is a sanctuary from (the mountain of) Air to so and-so, therefore, whoever innovates (in it) an heresy or commits a sin, or gives shelter to such an innovator, will incur the Curse of Allah. the angels and all the people; and none of his compulsory or optional good deeds of worship will be accepted And the asylum granted by any Muslim Is to be secured by all the Muslims even if it is granted by one of the lowest social status among them. And whoever betrays a Muslim in this respect will incur the Curse of Allah, the angels and all the people, and his compulsory and optional good deeds of worship will not be accepted. And any freed slave will take as masters (befriends) people other than his own real masters who freed him without taking the permission of the latter, will incur the Curse of Allah, the angels and all the people, and his compulsory and optional good deeds of worship will not be accepted."
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم نے نبیﷺسے صرف یہی قرآن مجید لکھا اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے ، نبیﷺنے فرمایا تھا کہ مدینہ عائر پہاڑی اور فلاں (کدیٰ) پہاڑی کے درمیان تک حرم ہے ۔ پس جس نے یہاں (دین میں ) کوئی نئی چیز داخل کی یا کسی بدعتی شخص کو اس کے حدود میں پناہ دی تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتے ، اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہوگی۔ نہ اس کا کوئی فرض قبول اور نہ نفل قبول ہوگا۔مسلمان پناہ دینے میں یکسان ہیں معمول سے معمولی مسلمان کسی کافر کو پناہ دے سکتے ہیں ، اور جو کوئی کسی مسلمان کا کیا ہواعہد توڑ ڈالے اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتے ، اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہوگی ، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول ہوگی ، اور نہ نفل ۔ اور جس غلام یا لونڈی نے اپنے آقا اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو اپنا مالک بنالیا ، تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور تمام انسانوں کی طرف سے لعنت ہوگی، نہ اس کی کوئی فرض عبادت قبول ہوگی اور نہ نفل۔
قَالَ أَبُو مُوسَى حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَمْ تَجْتَبُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا فَقِيلَ لَهُ وَكَيْفَ تَرَى ذَلِكَ كَائِنًا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ إِيْ وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ عَنْ قَوْلِ الصَّادِقِ الْمَصْدُوقِ. قَالُوا عَمَّ ذَاكَ قَالَ تُنْتَهَكُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم، فَيَشُدُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قُلُوبَ أَهْلِ الذِّمَّةِ، فَيَمْنَعُونَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ
Narrated Said: Abu Huraira once said (to the people), "What will your state be when you can get no Dinar or Dirhan (i.e. taxes from the Dhimmis)?" on that someone asked him, "What makes you know that this state will take place, O Abu- Hu raira?" He said, "By Him in Whose Hands Abu Huraira's life is, I know it through the statement of the true and truly inspired one (i.e. the Prophet)." The people asked, "What does the Statement say?" He replied, "Allah and His Apostle's asylum granted to Dhimmis, i.e. non-Muslims living in a Muslim territory) will be outraged, and so Allah will make the hearts of these Dhimmis so daring that they will refuse to pay the Jizya they will be supposed to pay."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب (جزیہ اور خراج میں سے )نہ تمہیں درہم ملے گا ، اور نہ دینار! اس پر کسی نے کہا: جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تم کیسے سمجھتے ہو کہ ایسا ہوگا ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جان ہے ۔ یہ صادق و مصدوق ﷺکا فرمان ہے ۔ لوگوں نے پوچھا تھا کہ یہ کیسے ہوجائے گا ؟ تو آپﷺنے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے عہد توڑا جانے لگے (جب مسلمان ذمی لوگوں سے معاہدہ کرکے اس کی خلاف ورزی کریں گے اور ذمیوں کو ستانے لگیں گے ) ، تو اللہ تعالیٰ بھی ذمیوں کے دلوں کو سخت کردے گا ۔ اور وہ جزیہ دینا بند کردیں گے۔
Chapter No: 18
باب
Chapter
باب :
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، قَالَ سَمِعْتُ الأَعْمَشَ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا وَائِلٍ شَهِدْتَ صِفِّينَ قَالَ نَعَمْ، فَسَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ، يَقُولُ اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ، رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ، أَمْرَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَرَدَدْتُهُ، وَمَا وَضَعْنَا أَسْيَافَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا لأَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلاَّ أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ، نَعْرِفُهُ غَيْرِ أَمْرِنَا هَذَا
Narrated By Al-Amash : I asked Abu Wail, "Did you take part in the battle of Siffin?" He said, 'Yes, and I heard Sahl bin Hunaif (when he was blamed for lack of zeal for fighting) saying, "You'd better blame your wrong opinions. I wish you had seen me on the day of Abu Jandal. If I had the courage to disobey the Prophet's orders, I would have done so. We had kept out swords on our necks and shoulders, for a thing which frightened us. And we did so, we found it easier for us, except in the case of the above battle (of ours).' "
اعمش نے کہا: میں نے حضرت ابو وائل سے پوچھا کہ کیا آپ صفین کی جنگ میں موجود تھے ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، اور میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا تھا کہ تم لوگ خود اپنی رائے کو غلط سمجھو، جو آپس میں لڑتے مرتے ہو۔ میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن حضرت ابو جندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں آپﷺکا حکم پھیر سکتا تو اس دن پھیر دیتا اور ہم نے جب کسی مصیبت میں ڈر کر تلواریں اپنے کندھوں پر رکھیں تو وہ مصیبت آسان ہوگئی ۔ ہم کو اس کا انجام معلوم ہوگیا ۔ مگر یہی ایک لڑائی ہے (جو سخت مشکل ہے اس کا انجام بہتر نہیں معلوم ہوتا)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو وَائِلٍ، قَالَ كُنَّا بِصِفِّينَ فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَلَوْ نَرَى قِتَالاً لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ فَقَالَ " بَلَى ". فَقَالَ أَلَيْسَ قَتْلاَنَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلاَهُمْ فِي النَّارِ قَالَ " بَلَى ". قَالَ فَعَلَى مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ " ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا ". فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا. فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ، فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا. فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَفَتْحٌ هُوَ قَالَ " نَعَمْ "
Narrated By Abu Wail : We were in Siffin and Sahl bin Hunaif got up and said, "O people! Blame yourselves! We were with the Prophet on the day of Hudaibiya, and if we had been called to fight, we would have fought. But 'Umar bin Al Khatab came and said, 'O Allah's Apostle! Aren't we in the right and our opponents in the wrongs' Allah's Apostle said, 'Yes.' 'Umar said, 'Aren't our killed persons in Paradise and theirs in Hell?' He said, 'Yes.' 'Umar said, 'Then why should we accept hard terms in matters concerning our religion? Shall we return before Allah judges between us and them?' Allah's Apostle said, 'O Ibn Al-Khattab! I am the Apostle of Allah and Allah will never degrade me. Then 'Umar went to Abu Bakr and told him the same as he had told the Prophet.
On that Abu Bakr said (to 'Umar). 'He is the Apostle of Allah and Allah will never degrade him.' Then Surat-al-Fath (i.e. Victory) was revealed and Allah's Apostle recited it to the end in front of 'Umar. On that 'Umar asked, 'O Allah's Apostle! Was it (i.e. the Hudaibiya Treaty) a victory?' Allah's Apostle said, "Yes"
حضرت ابو وائل نے بیان کیا ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو!تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو ۔ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺکے ساتھ تھے ،اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: کیوں نہیں ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: کیوں نہیں ! پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے ، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔آپﷺنے فرمایا: اے ابن خطاب !میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے ، جونبی کریم ﷺسے ابھی کرچکے تھے ۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپﷺاللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔پھر سورۂ فتح نازل ہوئی اور آپﷺنےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا یہی فتح ہے ؟آپﷺنے فرمایا: کہ ہاں ! بلاشک یہی فتح ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَتْ قَدِمَتْ عَلَىَّ أُمِّي وَهْىَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمُدَّتِهِمْ، مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَىَّ، وَهْىَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا قَالَ " نَعَمْ، صِلِيهَا "
Narrated By Asma 'bint Abi Bakr : During the period of the peace treaty of Quraish with Allah's Apostle, my mother, accompanied by her father, came to visit me, and she was a pagan. I consulted Allah's Apostle, "O Allah's Apostle! My mother has come to me and she desires to receive a reward from me, shall I keep good relation with her?" He said, "Yes, keep good relation with her."
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ قریش سے جس زمانہ میں رسول اللہﷺنے (حدیبیہ کی ) صلح کی تھی ، اسی مدت میں میری والدہ اپنے والد کو ساتھ لے کر میرے پاس آئیں ، وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئی تھیں ۔ (عروہ نے بیان کیا کہ ) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں آپﷺسے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! میری والدہ آئی ہوئی ہیں اورمجھ سے رغبت کے ساتھ ملنا چاہتی ہیں ، تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہا ہاں! ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔
Chapter No: 19
باب الْمُصَالَحَةِ عَلَى ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، أَوْ وَقْتٍ مَعْلُومٍ
It is permissible to conclude a peace treaty of three days or any other fixed period.
باب : تین دن یا ایک معیّن مدت کے لیے صلح کرنا ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ ـ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ، فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لاَ يُقِيمَ بِهَا إِلاَّ ثَلاَثَ لَيَالٍ، وَلاَ يَدْخُلَهَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، وَلاَ يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ بَيْنَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ. فَقَالُوا لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ، وَلَكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ. فَقَالَ " أَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَنَا وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ ". قَالَ وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ قَالَ فَقَالَ لِعَلِيٍّ " امْحُ رَسُولَ اللَّهِ ". فَقَالَ عَلِيٌّ وَاللَّهِ لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا. قَالَ " فَأَرِنِيهِ ". قَالَ فَأَرَاهُ إِيَّاهُ، فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ وَمَضَى الأَيَّامُ أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا مُرْ صَاحِبَكَ فَلْيَرْتَحِلْ. فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " نَعَمْ " ثُمَّ ارْتَحَلَ
Narrated By Al-Bara : When the Prophet intended to perform the 'Umra he sent a person to the people of Mecca asking their permission to enter Mecca. They stipulated that he would not stay for more than three days and would not enter it except with sheathed arms and would not preach (Islam) to any of them. So Ali bin Abi-Talib started writing the treaty between them. He wrote, "This is what Muhammad, Apostle of Allah has agreed to." The (Meccans) said, "If we knew that you (Muhammad) are the Apostle of Allah, then we would not have prevented you and would have followed you. But write, 'This is what Muhammad bin 'Abdullah has agreed to...' " On that Allah's Apostle said, "By Allah, I am Muhammad bin 'Abdullah, and, by Allah, I am Apostle of 'Allah." Allah's Apostle used not to write; so he asked 'Ali to erase the expression of Apostle of Allah. On that 'Ali said, "By Allah I will never erase it." Allah's Apostle said (to 'Ali), "Let me see the paper." When 'Ali showed him the paper, the Prophet erased the expression with his own hand. When Allah's Apostle had entered Mecca and three days had elapsed, the Meccans came to 'Ali and said, "Let your friend (i.e. the Prophet) quit Mecca." Ali informed Allah's Apostle about it and Allah's Apostle said, "Yes," and then he departed.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺنے جب عمرہ کرنا چاہا تو آپﷺنے مکہ میں داخلہ کےلیے مکہ کے لوگوں سے اجازت لینے کےلیے آدمی بھیجا ۔ انہوں نےاس شرط کے ساتھ (اجازت دی) کہ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں ۔ ہتھیار نیام میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں اور (مکہ کے ) کسی آدمی کو اپنے ساتھ (مدینہ ) نہ لے جائیں (اگرچہ وہ جانا چاہے) انہوں نے بیان کیا کہ پھر ان شرائط کو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے لکھنا شروع کیا اور اس طرح "یہ محمد اللہ کے رسول کے صلح نامہ کی تحریر ہے" مکہ والوں نے کہا : اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ﷺہیں تو پھر آپ کو روکتے ہی نہیں بلکہ آپ پر ایمان لاتے ، اس لیے تمہیں یوں لکھنا چاہیے، " یہ محمد بن عبد اللہ کے صلح نامہ کی تحریر ہے " اس پر آپﷺنے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبد اللہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں ۔ آپﷺلکھنا نہیں جانتے تھے ۔ راوی نے بیان کیا کہ آپﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: رسول اللہﷺکا لفظ مٹادے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم ! یہ لفظ تو میں کبھی نہ مٹاؤں گا، آپﷺنے فرمایا: پھر مجھے دکھلاؤ ، راوی نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپﷺکو وہ لفظ دکھایا ، اور آپﷺنے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹادیا۔ پھر جب آپﷺمکہ تشریف لے گئے اور (تین ) دن گزرگئے تو قریش حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اب اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں (حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ) میں نے اس کا ذکر آپﷺسے کیا ، تو آپﷺنے فرمایا: کہ ہاں ، چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہوگئے۔
Chapter No: 20
باب الْمُوَادَعَةِ مِنْ غَيْرِ وَقْتٍ
To make a peace treaty without a limited period.
باب : غیر معیّن مدّت کے لیے صلح کرنا
وَقَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم :" أُقِرُّكُمْ عَلَى مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ "
As the Prophet (s.a.w) told (the Jews of Khaibar), "We will keep you as long as Allah will keep you."
اور نبیﷺ نے ( خیبر کے یہودیوں سے ) فرمایا ہم تُم کو یہاں جب تک رہنے دیں گے جب تک اللہ تم کو رکھے ۔