Chapter No: 11
باب فِي النِّكَاحِ
(To play tricks) in marriage.
باب: نکاح پر جھوٹی گواہی گزر جائے تو کیا حکم ہے؟
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَلاَ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ ". فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ " إِذَا سَكَتَتْ ". وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ لَمْ تُسْتَأْذَنِ الْبِكْرُ وَلَمْ تَزَوَّجْ. فَاحْتَالَ رَجُلٌ فَأَقَامَ شَاهِدَىْ زُورٍ أَنَّهُ تَزَوَّجَهَا بِرِضَاهَا، فَأَثْبَتَ الْقَاضِي نِكَاحَهَا، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ أَنَّ الشَّهَادَةَ بَاطِلَةٌ، فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَطَأَهَا، وَهْوَ تَزْوِيجٌ صَحِيحٌ.
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "A virgin should not be married till she is asked for her consent; and the matron should not be married till she is asked whether she agrees to marry or not." It was asked, "O Allah's Apostle! How will she(the virgin) express her consent?" He said, "By keeping silent." Some people said, "If a virgin is not asked for her consent and she is not married, and then a man, by playing a trick presents two false witnesses that he has married her with her consent and the judge confirms his marriage as a true one, and the husband knows that the witnesses were false ones, then there is no harm for him to consummate his marriage with her and the marriage is regarded as valid."
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا کہا ہم سے ہشام بن ابی عبداللہ نے کہا ہم سے یحیی بن ابی کثیر نے انہوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے انہوں نے ابوہریرہؓ سے انہوں نے نبیﷺ سے آپﷺ نے فرمایا کنواری عورت کا بھی نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے اسی طرح بیوہ عورت کا بھی نکاح جب تک (زبان سے) اس کا حکم نہ لیں نہ کیا جائے ،لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کنواری کیوں کر اجازت دے گی (وہ تو شرم کرتی ہے)آپﷺ نے فرمایا اس کا(سن کر)چپ ہو جانا بھی اجازت ہے اور بعضے لوگوں (امام ابو حنیفہ)نے کہا اگر کسی کنواری عورت سے نہ اذن لیا گیا نہ نکاح کیا گیا مگر ایک شخص نے دو جھوٹے گواہ اس امر پر قائم کر دیے کہ اس کنواری عورت نے اپنی رضامندی سے مجھ سے نکاح کیا تھا اور قاضی نے نکاح ثابت کر دیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی گواہی ہے لیکن اس عورت سے جماع کرنا اس کو درست اور نکاح بھی صحیح ہو گیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ امْرَأَةً، مِنْ وَلَدِ جَعْفَرٍ تَخَوَّفَتْ أَنْ يُزَوِّجَهَا وَلِيُّهَا وَهْىَ كَارِهَةٌ فَأَرْسَلَتْ إِلَى شَيْخَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُجَمِّعٍ ابْنَىْ جَارِيَةَ قَالاَ فَلاَ تَخْشَيْنَ، فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهْىَ كَارِهَةٌ، فَرَدَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ذَلِكَ. قَالَ سُفْيَانُ وَأَمَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ عَنْ أَبِيهِ إِنَّ خَنْسَاءَ.
Narrated By Al-Qasim : A woman from the offspring of Ja'far was afraid lest her guardian marry her (to somebody) against her will. So she sent for two elderly men from the Ansar, 'AbdurRahman and Mujammi', the two sons of Jariya, and they said to her, "Don't be afraid, for Khansa' bint Khidam was given by her father in marriage against her will, then the Prophet cancelled that marriage."
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا ہم سے یحیی بن سعید انصاری نے قاسم بن محمد سے انہوں نے کہا جعفر بن ابی طالب کے خاندان کی ایک عورت تھی (اسکا نام معلوم نہیں ہوا)اس کو یہ ڈر پیدا ہوا کہیں اسکا ولی جبرا اس کا نکاح نہ پڑھا دے وہ نکاح سے ناراض تھی آخر اس نے دو بڈھے انصاریوں عبدالرحمن بن جاریہ اور مجمع بن جاریہ کے پاس (یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے )کسی کو بھجوایا انہوں نے کہلا بھیجا تو کاہے کو ڈرتی ہے خنساء بنت خذام کا نکاح اس کے باپ نے جبرا کر دیا تھا وہ ناراض تھی تو آپﷺ نے یہ نکاح لغو کر دیا ،سفیان بن عیینہ نے(اسی سند سے)کہا عبدالرحمن بن قاسم بھی اس حدیث کو اپنے والد سے روایت کرتے تھے اسی طرح خنساء بنت خذامؓ کا نکاح اخیر تک۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ ". قَالُوا كَيْفَ إِذْنُهَا قَالَ " أَنْ تَسْكُتَ ". وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ احْتَالَ إِنْسَانٌ بِشَاهِدَىْ زُورٍ عَلَى تَزْوِيجِ امْرَأَةٍ ثَيِّبٍ بِأَمْرِهَا، فَأَثْبَتَ الْقَاضِي نِكَاحَهَا إِيَّاهُ، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَتَزَوَّجْهَا قَطُّ، فَإِنَّهُ يَسَعُهُ هَذَا النِّكَاحُ، وَلاَ بَأْسَ بِالْمُقَامِ لَهُ مَعَهَا.
Narrated By Abu Haraira : Allah's Apostle said, "A lady slave should not be given in marriage until she is consulted, and a virgin should not be given in marriage until her permission is granted." The people said, "How will she express her permission?" The Prophet said, "By keeping silent (when asked her consent)." Some people said, "If a man, by playing a trick, presents two false witnesses before the judge to testify that he has married a matron with her consent and the judge confirms his marriage, and the husband is sure that he has never married her (before), then such a marriage will be considered as a legal one and he may live with her as husband."
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا کہا ہم سے شیبان نے انہوں نے یحیی بن ابی کثیر سے انہوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا جو عورت خاوند کر چکی ہو اس سے جب تک (زبان سے)حکم نہ لیا جائے اسکا نکاح نہ کیا جائے اور کنواری کا بھی بے اذن نکاح نہ کیا جائےلوگوں نے عرض کیا یا رسولﷺ کنواری کیونکر اذن دے گی (وہ تو شرمیلی ہوتی ہے)آپﷺ نے فرمایا اسکا خاموش رہنا یہی اذن ہے اور بعضے لوگوں (امام ابو حنیفہ)نے کہا اگر کسی نے حیلہ کر کے ایک ثیبہ عورت پر دو جھوٹے گواہ قائم کر دیئے کہ اس کے حکم سے نکاح ہوا ہے اورقاضی نے گواہی کی بنا پر نکاح ثابت کر دیا حالاں کہ وہ مرد (جو نکاح کا دعوی کرتا ہے )یہ جانتا ہے کہ اس نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا ہے ۔
(گواہی محض جھوٹی ہے)جب بھی یہ نکاح اس کے حق میں صحیح ہو جائے گا اور اس کو اس عورت کے پاس رہنا درست ہو جائے گا
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " الْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ ". قُلْتُ إِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحْيِي قَالَ " إِذْنُهَا صُمَاتُهَا ". وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ هَوِيَ رَجُلٌ جَارِيَةً يَتِيمَةً أَوْ بِكْرًا، فَأَبَتْ فَاحْتَالَ فَجَاءَ بِشَاهِدَىْ زُورٍ عَلَى أَنَّهُ تَزَوَّجَهَا، فَأَدْرَكَتْ فَرَضِيَتِ الْيَتِيمَةُ، فَقَبِلَ الْقَاضِي شَهَادَةَ الزُّورِ، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ بِبُطْلاَنِ ذَلِكَ، حَلَّ لَهُ الْوَطْءُ
Narrated By 'Aisha : Allah's Apostle said, "It is essential to have the consent of a virgin (for the marriage). I said, "A virgin feels shy." The Prophet; said, "Her silence means her consent." Some people said, "If a man falls in love with an orphan slave girl or a virgin and she refuses (him) and then he makes a trick by bringing two false witnesses to testify that he has married her, and then she attains the age of puberty and agrees to marry him and the judge accepts the false witness and the husband knows that the witnesses were false ones, he may consummate his marriage."
ہم سے ابو عاصم (ضحاک بن مخلد)نے بیان کیا انہوں نے ابن جریج سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے ذکوان سے انہوں نے حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا :کنواری عورت سے بھی نکاح میں اجازت لی جائے میں نے کہا وہ تو شرم کرتی ہے (اجازت کیونکر دے گی)آپﷺ نے فرمایا اس کی اجازت یہی ہے چپ ہو جانا اور بعضے لوگوں (امام ابو حنیفہ)نے کہا اگر کوئی شخص کسی شوہر دیدہ یا کنواری چھوکری پر فریفتہ ہو اور وہ نکاح پر راضی نہ ہو تو یہ شخص حیلہ کر کے دو جھوٹے گواہ اس بات کے لے آئے کہ اس نے اس چھوکری سے نکاح کیا تھا پھر اس کے بعد وہ چھوکری جوان ہوئی اور اس نکاح سے راضی ہو گئی اور قاضی اس گواہی کو منظور کر لے ،حالانکہ وہ شخص یہ جانتا ہے کہ یہ سارا معاملہ جھوٹ اور فریب ہے تب بھی اس چھوکری سے جماع کرنا اس کو درست ہو جائے گا ۔
Chapter No: 12
باب مَا يُكْرَهُ مِنِ احْتِيَالِ الْمَرْأَةِ مَعَ الزَّوْجِ وَالضَّرَائِرِ،وَمَا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي ذَلِكَ.
What is hated regarding the trick played by a woman with her husband and the other wives of her husband and what was revealed to the Prophet (s.a.w) in this respect.
باب: عورت کو اپنے خاوند یا سوکنوں سے چرتر کرنے کی ممانعت، اور اس باب میں نبیﷺ پر جو اللہ تعالیٰ کا کلام اترا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَيُحِبُّ الْعَسَلَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ أَجَازَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ فَقِيلَ لِي أَهْدَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْهُ شَرْبَةً. فَقُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ قُلْتُ إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ فَقُولِي لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لاَ. فَقُولِي لَهُ مَا هَذِهِ الرِّيحُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ تُوجَدُ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ. فَقُولِي لَهُ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ. وَسَأَقُولُ ذَلِكَ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ. فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قُلْتُ تَقُولُ سَوْدَةُ وَالَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِرَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي، وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ قَالَ " لاَ ". قُلْتُ فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ قَالَ " سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ ". قُلْتُ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ. فَلَمَّا دَخَلَ عَلَىَّ قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ. وَدَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ. فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ قَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ أَسْقِيكَ مِنْهُ قَالَ " لاَ حَاجَةَ لِي بِهِ ". قَالَتْ تَقُولُ سَوْدَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ. قَالَتْ قُلْتُ لَهَا اسْكُتِي
Narrated By 'Aisha : Allah's Apostle used to like sweets and also used to like honey, and whenever he finished the 'Asr prayer, he used to visit his wives and stay with them. Once he visited Hafsa and remained with her longer than the period he used to stay, so I enquired about it. It was said to me, "A woman from her tribe gave her a leather skin containing honey as a present, and she gave some of it to Allah's Apostle to drink." I said, "By Allah, we will play a trick on him." So I mentioned the story to Sauda (the wife of the Prophet) and said to her, "When he enters upon you, he will come near to you whereupon you should say to him, 'O Allah's Apostle! Have you eaten Maghafir?' He will say, 'No.' Then you say to him, 'What is this bad smell? ' And it would be very hard on Allah's Apostle that a bad smell should be found on his body. He will say, 'Hafsa has given me a drink of honey.' Then you should say to him, 'Its bees must have sucked from the Al-'Urfut (a foul smelling flower).' I too, will tell him the same. And you, O Saifya, say the same."
So when the Prophet entered upon Sauda (the following happened). Sauda said, "By Him except Whom none has the right to be worshipped, I was about to say to him what you had told me to say while he was still at the gate because of fear from you. But when Allah 's Apostle came near to me, I said to him, 'O Allah's Apostle! Have you eaten Maghafir?' He replied, 'No.' I said, 'What about this smell?' He said, 'Hafsa has given me a drink of honey.' I said, 'Its bees must have sucked Al-'Urfut.' " When he entered upon me, I told him the same as that, and when he entered upon Safiya, she too told him the same. So when he visited Hafsa again, she said to him, "O Allah's Apostle! Shall I give you a drink of it (honey)?" He said, "I have no desire for it." Sauda said, Subhan Allah! We have deprived him of it (honey)." I said to her, "Be quiet!"
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے ابو اسامہ نے انہوں نے ہشام سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا رسول اللہﷺ شیرینی اور شہد کو (بہت)پسند کرتے تھے ،آپﷺ جب عصر کی نماز پڑھ چکتے تو اپنی بی بیوں کے پاس تشریف لے جاتے ان سے اختلاط کرتے ایک بار ایسا ہوا آپﷺ ام امومنین حفصہؓ کے پاس گئے اور معمول سے زیادہ ان کے پاس ٹھہرے رہے میں نے آپﷺ سے اس کی وجہ پوچھی آپﷺ نے کہا حفصہؓ کی قوم والی ایک عورت نے اس کو شہد تحفہ بھیجا تھا تو حفصہؓ نے اسکا شربت مجھ کو پلایا (اس وجہ سے دیر ہوئی)میں نے کہا خدا کی قسم میں رسول اللہﷺ سے ایک چرتر کروں گی میں نے سودہ بنت زمعہ ام المومنین سے یہ قصئہ بیان کیا اور ان کو یہ صلاح دی کہ جب رسول اللہﷺ تمہارے پاس آئیں اور تم سے نزدیک بیٹھیں تو کہنا یا رسولﷺ آپﷺ نے مغافیر کا گوند کھایا ہے،(اس کو بد بو آرہی ہے)آپﷺ فرمائیں گے نہیں تو تم کہنا تو پھر یہ بدبو کاہے کی آرہی ہے اور رسول اللہﷺ کا قاعدہ تھا آپﷺ کو سخت ناگوار گزرتا اگر کسی قسم کی بدبو آپﷺ(کے کپڑے یا بدن)میں سے آتی (آپﷺ حد درجہ نفاست پسند اور لطیف المزاج تھے)خیر آپﷺ فرمائیں گے کہ حفصہؓ نے مجھ کو شہد کا شربت پلایا تھا ،تم کہنا اس شہد کی مکھی نے عرفط کا درخت چوسا ہو اور میں بھی (جب آپﷺ میرے پاس آئیں گے)ایسا ہی کہوں گی اور صفیہؓ تم بھی ایسا ہی کہنا خیر جب رسول اللہﷺ ام المومنین سودہؓ کے پاس گئے ،سودہؓ مجھ سے کہتی تھیں قسم خدا کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے ابھی آپﷺ دروازے پر ہی تھے (میرے پاس تک نہیں آئے تھے)لیکن میں نے تمہارے ڈر سے یہ چاہا کہ جلدی سے وہ بات کہ ڈالوں جو تم نے مجھ کو سکھلائی تھی جب آپﷺ میرے نزدیک آئے تو میں نے عرض کیا یا رسولﷺ کیا آپ نے مغافیر کا گوند کھایا ہے آپﷺ نے فرمایا نہیں تو میں نے کہا یہ بد بو کہاں سے آرہی ہے آپﷺ نے فرمایا حفصہؓ نے مجھ کو شہد کا شربت پلایا تھا میں نے کہا اس شہد کی مکھی نے عرفط کا درخت چوسا ہو گا (اسی کی بو شہد میں آگئی)حضرت عائشہؓ کہتی ہیں پھر جب رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے بھی یہی کہا اور ام المومنین صفیہؓ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی ایسا یہ کہا اس کے بعد جو رسول اللہﷺ (دوسرے روز)ام المومنین حفصہؓ کے پاس گئے تو انہوں نے کہا یا رسولﷺ آپ کو شہد کا اور شربت پلاؤں آپﷺ نے فرمایا نہیں کچھ ضرورت نہیں ہے ۔حضرت عائشہؓ کہتی ہیں سودہؓ مجھ سے کہنے لگیں سبحان اللہ(یہ ہم نے کیا کیا)گویا شہد آپﷺ پر حرام کر دیا میں نے کہا چپ رہو (کہیں آپﷺ سن نہ لیں یا ہمارا چرتر فاش نہ ہو جائے )
Chapter No: 13
باب مَا يُكْرَهُ مِنَ الاِحْتِيَالِ فِي الْفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ
What is hated as regards playing tricks in order to run away from the disease of plague.
باب: طاعون سے بھاگنے کے لیے حیلہ کرنا منع ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، فَلَمَّا جَاءَ بِسَرْغَ بَلَغَهُ أَنَّ الْوَبَاءَ وَقَعَ بِالشَّأْمِ فَأَخْبَرَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِذَا سَمِعْتُمْ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ". فَرَجَعَ عُمَرُ مِنْ سَرْغَ. وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ إِنَّمَا انْصَرَفَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
Narrated By 'Abdullah bin 'Amir bin Rabi'a : 'Umar bin Al-Khattab left for Sham, and when he reached a placed called Sargh, he came to know that there was an outbreak of an epidemic (of plague) in Sham. Then 'AbdurRahman bin 'Auf told him that Allah's Apostle said, "If you hear the news of an outbreak of an epidemic (plague) in a certain place, do not enter that place: and if the epidemic falls in a place while you are present in it, do not leave that place to escape from the epidemic." So 'Umar returned from Sargh.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا انہوں نے امام مالک سے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے کہ حضرت عمرؓ ( ۱۸ ہجری ماہ ربیع الثانی میں )شام کے ملک کی طرف روانہ ہوئے جب سرغ میں پہنچے(جو ایک بستی ہے شام کے قریب )تو ان کو خبر یہ پہنچی کہ شام کے ملک میں وبا شروع ہو گئی ہے (یعنی طاعون عمواس)عبدالرحمن بن عوفؓ نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ جب تم سنو کسی ملک میں طاعون پڑا ہے تو وہاں جاؤ بھی نہیں اور جب اس ملک میں طاعون آئے جہاں تم ہو تو وہاں سے بھاگ کر نکلو بھی نہیں ۔یہ حدیث سنتے ہی حضرت عمرؓ سرغ سے(مدینہ کو)لوٹ آئے اور اسی سند سے ابن شہاب سے مروی ہے انہوں نے سالم بن عبداللہ سے کہ ان کے دادا حضرت عمرؓ ، عبدالرحمن بن عوفؓ کی حدیث سن کر لوٹ آئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، يُحَدِّثُ سَعْدًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَكَرَ الْوَجَعَ فَقَالَ " رِجْزٌ ـ أَوْ عَذَابٌ ـ عُذِّبَ بِهِ بَعْضُ الأُمَمِ، ثُمَّ بَقِيَ مِنْهُ بَقِيَّةٌ، فَيَذْهَبُ الْمَرَّةَ وَيَأْتِي الأُخْرَى، فَمَنْ سَمِعَ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ يَقْدَمَنَّ عَلَيْهِ، وَمَنْ كَانَ بِأَرْضٍ وَقَعَ بِهَا فَلاَ يَخْرُجْ فِرَارًا مِنْهُ "
Narrated By 'Amir bin Sa'd bin Abi Waqqas : That he heard Usama bin Zaid speaking to Sa'd, saying, "Allah's Apostle mentioned the plague and said, 'It is a means of punishment with which some nations were punished and some of it has remained, and it appears now and then. So whoever hears that there is an outbreak of plague in some land, he should not go to that land, and if the plague breaks out in the land where one is already present, one should not run away from that land, escaping from the plague."
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہا ہم کو شعیب نے خبر دی انہوں نے زہری سے کہا مجھ کو عامر بن سعد بن ابی وقاصؓ نے خبر دی انہوں نے اسامہ بن زیدؓ سے سنا وہ سعد بن ابی وقاصؓ سے نقل کرتے تھے رسول اللہﷺ نے طاعون کا ذکر کیا فرمایا طاعون(اللہ کا)ایک عذاب ہے جو اس نے بعضے امتوں پر اتارا تھا اسی عذاب میں سے کچھ دنیا میں رہ گیا کبھی آ تا ہے کبھی موقوف ہو جاتا ہےپھر جو کوئی سنے کہ کسی ملک میں طاعون پڑا ہے تو اس ملک میں نہ جائے اور اگر اس سرزمین میں جہاں وہ رہتا ہو طاعون آ جائے تو بھاگے بھی نہیں
Chapter No: 14
باب فِي الْهِبَةِ وَالشُّفْعَةِ
(Tricks played in cases of) gift-giving and pre-emption.
باب: ہبہ پھیر لینے یا شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے۔
وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنْ وَهَبَ هِبَةً أَلْفَ دِرْهَمٍ أَوْ أَكْثَرَ، حَتَّى مَكَثَ عِنْدَهُ سِنِينَ، وَاحْتَالَ فِي ذَلِكَ، ثُمَّ رَجَعَ الْوَاهِبُ فِيهَا، فَلاَ زَكَاةَ عَلَى وَاحِدٍ مِنْهُمَا، فَخَالَفَ الرَّسُولَ صلى الله عليه وسلم فِي الْهِبَةِ وَأَسْقَطَ الزَّكَاةَ.
And some people said, "If some person gave to another person one hundred Dirham or more as a gift and then that amount remained with the latter for years, and then the former took it back from the latter by means of a trick, then neither of the two persons would have to pay Zakat (of that amount)." In this case the giver has gone against the orders of Allah's Messenger (s.a.w) as regards (the taking back of) the gift, but he has rendered the payment of Zakat unnecessary.
اور بعضے لوگوں (امام ابوحنیفہ) نے کہا اگر کسی شخص نے دوسرے کو ہزاردرہم یا اس سے زیادہ ہبہ کیے اور یہ درہم موہوب لہ کے پاس برسوں رہ چکے پھر واہب نے حیلہ کر کے ان کو لے لیا ہبہ میں رجوع کر لیا تو ان میں سے کسی پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور ان لوگوں نے رسول اللہﷺ کی حدیث کا خلاف کیا جو ہبہ میں وارد ہے اور (باوجود سال گزرنے کے) اس میں زکوٰۃ ساقط کی۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ، لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ "
Narrated By Ibn 'Abbas : The Prophet said, "The one who takes back his gift is like a dog swallowing its own vomit, and we (believers) should not act according to this bad example."
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان ثوری نے انہوں نے ایوب سختیانی سے انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباسؓ سے انہوں نے کہا نبیﷺ نے فرمایا ہبہ کر کے پھر اس کو پھیرنے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے پھر اس کو چاٹنے جاتا ہے ہم مسلمانوں کے لیے ایسی مثال نہ ہو نا چاہیے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلاَ شُفْعَةَ. وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ الشُّفْعَةُ لِلْجِوَارِ. ثُمَّ عَمَدَ إِلَى مَا شَدَّدَهُ فَأَبْطَلَهُ، وَقَالَ إِنِ اشْتَرَى دَارًا فَخَافَ أَنْ يَأْخُذَ الْجَارُ بِالشُّفْعَةِ، فَاشْتَرَى سَهْمًا مِنْ مِائَةِ سَهْمٍ، ثُمَّ اشْتَرَى الْبَاقِيَ، وَكَانَ لِلْجَارِ الشُّفْعَةُ فِي السَّهْمِ الأَوَّلِ، وَلاَ شُفْعَةَ لَهُ فِي بَاقِي الدَّارِ، وَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ فِي ذَلِكَ.
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : The Prophet has decreed that pre-emption is valid in all cases where the real estate concerned has not been divided, but if the boundaries are established and the ways are made, then there is no pre-emption. A man said, "Pre-emption is only for the neighbour," and then he makes invalid what he has confirmed. He said, "If someone wants to buy a house and being afraid that the neighbour (of the house) may buy it through pre-emption, he buys one share out of one hundred shares of the house and then buys the rest of the house, then the neighbour can only have the right of pre-emption for the first share but not for the rest of the house; and the buyer may play such a trick in this case."
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی انہوں نے زہری سے انہوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے انہوں نے کہا کہ نبیﷺ نے شفعہ کا حق ان جائیدادوں میں رکھا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہوں (اور ایک شریک اپنا حصہ بیچنا چاہے تو دوسرا شریک اور لوگوں سے زیادہ اس کا حقدار ہو گا)لیکن جب حدیں پڑ جائیں اور ہر شریک کے رستے الگ الگ پھیر دیے جائیں تو اب شفعہ نہیں رہا اور بعضے لوگوں (یعنی ابو حنیفہ)کہتے ہیں،ہمسایہ کو بھی شفعہ کا حق ہے (پھر خود ہی کیا کیا جس حق کو مضبوط کیا تھا اس کو اڑا دیا)اور کہنے لگے اگر کسی شخص نے ایک گھر خریدا اور اس کو ڈر ہوا کہیں شفیع شفعہ کا دعویٰ نہ کر ے تو اس کو چاہیے پہلے اس گھر کے سو حصوں میں سے ایک حصہ (مشاع کے طور پر خریدے پھر باقی گھر خرید لے اب شفیع ہمسایہ کو صرف ایک حصے میں جو سوواں حصہ ہے حق شفعہ ہو گا لیکن باقی ننانوے حصوں میں اس کو حق شفعہ خریدار کے مقابل نہ رہے گا
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الشَّرِيدِ، قَالَ جَاءَ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِي، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ إِلَى سَعْدٍ فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ لِلْمِسْوَرِ أَلاَ تَأْمُرُ هَذَا أَنْ يَشْتَرِيَ مِنِّي بَيْتِي الَّذِي فِي دَارِي. فَقَالَ لاَ أَزِيدُهُ عَلَى أَرْبَعِمِائَةٍ، إِمَّا مُقَطَّعَةٍ وَإِمَّا مُنَجَّمَةٍ. قَالَ أُعْطِيتُ خَمْسَمِائَةٍ نَقْدًا، فَمَنَعْتُهُ، وَلَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ". مَا بِعْتُكَهُ أَوْ قَالَ مَا أَعْطَيْتُكَهُ. قُلْتُ لِسُفْيَانَ إِنَّ مَعْمَرًا لَمْ يَقُلْ هَكَذَا. قَالَ لَكِنَّهُ قَالَ لِي هَكَذَا. وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَبِيعَ الشُّفْعَةَ فَلَهُ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يُبْطِلَ الشُّفْعَةَ فَيَهَبُ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي الدَّارَ، وَيَحُدُّهَا وَيَدْفَعُهَا إِلَيْهِ، وَيُعَوِّضُهُ الْمُشْتَرِي أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَلاَ يَكُونُ لِلشَّفِيعِ فِيهَا شُفْعَةٌ
Narrated By 'Amr bin Ash-Sharid : Al-Miswar bin Makhrama came and put his hand on my shoulder and I accompanied him to Sa'd. Abu Rafi' said to Al-Miswar, "Won't you order this (i.e. Sa'd) to buy my house which is in my yard?" Sa'd said, "I will not offer more than four hundred in instalments over a fixed period." Abu Rafi said, "I was offered five hundred cash but I refused. Had I not heard the Prophet saying, 'A neighbour is more entitled to receive the care of his neighbour,' I would not have sold it to you." The narrator said, to Sufyan: Ma'mar did not say so. Sufyan said, "But he did say so to me." Some people said, "If someone wants to sell a house and deprived somebody of the right of pre-emption, he has the right to play a trick to render the pre-emption invalid. And that is by giving the house to the buyer as a present and marking its boundaries and giving it to him. The buyer then gives the seller one-thousand Dirham as compensation in which case the pre-emptor loses his right of pre-emption."
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے انہوں نے ابراہیم بن میسرہ سے کہا میں نے عمرو بن شرید سے سنا انہوں نے کہا مسور بن مخرمہ میرے پاس آئے اور میرے مونڈھے پر ہاتھ رکھا میں اور وہ دونوں مل کر سعد بن ابی وقاص کے پاس گئے ابو رافع نے مسور سے کہا تم سعد بن ابی وقاصؓ سے یہ نہیں کہتے وہ میرا گھر جو ان کی حویلی میں ہے خرید کر لیں۔سعدؓ نے کہا میں چار سو سے زیادہ اس گھر کے نہیں دوں گا وہ بھی اقساط کے ساتھ۔ابو رافع نے کہا وہ اس گھر کے مجھ کو پانسو نقد ملتے تھے تب تو میں نے دیا نہیں اور اگر میں نے نبیﷺ سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی ۔آپﷺ فرماتے تھے ،ہمسایہ اپنے پڑوس کی جائیداد کا زیادہ حقدار ہے تو میں تمہارے ہاتھ بیچتا بھی نہیں یا یوں کہا تم کو دیتا ہی نہیں علی بن مدینی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا معمر نے تو اس روایت میں اس طرح نہیں نقل کیا سفیان نے کہا مجھ سے تو ابراہیم بن میسرہ نے یہ حدیث اس طرح نقل کی ہے ۔بعضے لوگوں(امام ابو حنیفہ)نے کہا اگر کوئی چاہے کہ شفعہ کا حق شفیع کو نہ رہے تو اس کے لیے حیلہ کر سکتا ہے اور حیلہ یہ ہے کہ جائیداد کا مالک خریدار کو وہ جائیداد ہبہ کر دے پھر خریدار (یعنی موہب لہ)اس ہبہ کے معاوضہ میں مالک جائداد کو ہزار درہم مثلا ہبہ کر دے اس صورت میں شفیع کو شفعہ کا استحقاق نہ رہے گا (کیونکہ شفعہ بیع میں ہو تا ہے نہ ہبہ میں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ سَعْدًا، سَاوَمَهُ بَيْتًا بِأَرْبَعِمِائَةِ مِثْقَالٍ فَقَالَ لَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ". لَمَا أَعْطَيْتُكَ. وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ اشْتَرَى نَصِيبَ دَارٍ، فَأَرَادَ أَنْ يُبْطِلَ الشُّفْعَةَ، وَهَبَ لاِبْنِهِ الصَّغِيرِ وَلاَ يَكُونُ عَلَيْهِ يَمِينٌ.
Narrated 'Amr bin Ash-Sharid: Abu Rafi' said that Sa'd offered him four hundred Mithqal of gold for a house. Abu Rafi ' said, "If I had not heard Allah's Apostle saying, 'A neighbour has more right to be taken care of by his neighbour,' then I would not have given it to you." Some people said, "If one has bought a portion of a house and wants to cancel the right of pre-emption, he may give it as a present to his little son and he will not be obliged to take an oath."
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان ثوری نے انہوں نے ابراہیم بن میسرہ سے،انہوں نے عمرو بن شرید سے انہوں نے ابورافع سے کہ سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک گھر ان سے چار سو مثقال (چاندی یا سونے کے بدل)چکایا ابورافع نے کہا اگر میں نے رسول اللہﷺ سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی کہ ہمسایہ اپنے پڑوس کے مکان کا زیادہ حقدار ہے تو تم کو یہ مکان نہ دیتا اور بعضے لو گوں(امام ابو حنیفہ)نے کہا اگر کوئی گھر کا ایک حصہ خریدے اور شفیع کا حق شفعہ باطل کرنا چاہے تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ جو حصہ اس نے خریدا ہے وہ اپنے نابالغ بچہ کو ہبہ کر دے اب نابالغ پر قسم بھی نہ آے گی
Chapter No: 15
باب احْتِيَالِ الْعَامِلِ لِيُهْدَى لَهُ
The playing of tricks by an official person in order to obtain presents.
باب: تحصیلدار (یا دوسرے کسی سرکاری ملازم) کا تحفہ لینے کے لیے حیلہ کرنا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ اللُّتَبِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ قَالَ هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " فَهَلاَّ جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ، حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ". ثُمَّ خَطَبَنَا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ " أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى الْعَمَلِ مِمَّا وَلاَّنِي اللَّهُ، فَيَأْتِي فَيَقُولُ هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي. أَفَلاَ جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ، وَاللَّهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ، إِلاَّ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلأَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ ". ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ حَتَّى رُئِيَ بَيَاضُ إِبْطِهِ يَقُولُ " اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ". بَصْرَ عَيْنِي وَسَمْعَ أُذُنِي.
Narrated By Abu Humaid As-Sa'idi : Allah's Apostle appointed a man called Ibn Al-Lutabiyya to collect the Zakat from Bani Sulaim's tribe. When he returned, the Prophet called him to account. He said (to the Prophet, 'This is your money, and this has been given to me as a gift." On that, Allah's Apostle said, "Why didn't you stay in your father's and mother's house to see whether you will be given gifts or not if you are telling the truth?" Then the Prophet addressed us, and after praising and glorifying Allah, he said: "Amma Ba'du", I employ a man from among you to manage some affair of what Allah has put under my custody, and then he comes to me and says, 'This is your money and this has been given to me as a gift. Why didn't he stay in his father's and mother's home to see whether he will be given gifts or not? By Allah, not anyone of you takes a thing unlawfully but he will meet Allah on the Day of Resurrection, carrying that thing. I do not want to see any of you carrying a grunting camel or a mooing cow or a bleating sheep on meeting Allah." Then the Prophet raised both his hands till the whiteness of his armpits became visible, and he said, "O Allah! Haven't I have conveyed (Your Message)?" The narrator added: My eyes witnessed and my ears heard (that Hadith).
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے ابو اسامہ نے انہوں نے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے انہوں نے ابوحمید ساعدی سے انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے عبداللہ بن لتبیہ نامی ایک شخص کو بنی سلیم کی زکوۃ کا تحصیل دار مقرر کیا جب وہ (زکوۃ وصول کر کے )آیا تو آپﷺ نے اس سے حساب لیا اس نے سرکاری مال علیحدہ کیا اور کچھ مال کی نسبت کہنے لگا کہ یہ مجھ کو تحفہ کے طور پر ملا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو اپنے میا باوا کے گھر بیٹھا رہتا اور تحفہ تجھ کو ملتا جب جانتے تو سچا ہے اس کے بعد آپﷺ نے ہم کو خطبہ سنایا اللہ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا اما بعد ! میں ایک شخص کو ان کاموں میں سے جو اللہ تعالی نے مجھ کو عنایت فرمائے ہیں ایک کام پر مامور کرتا ہوں جب وہ لوٹ کر آتا ہے تو کہتا ہے یہ تو تمہارا (سرکاری)مال ہے اور یہ مجھ کو تحفہ ملا ہے بھلا اپنے میا باوا کے گھر بیٹھا رہتا اور یہ تحفہ اس کے پاس آ جاتا جب جانتے(کہ یہ تحفہ ہے)خدا کی قسم (زکوۃ کے مال میں سے )جو شخص ناحق کوئی چیز لے گا تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس چیز کو (اپنی گردن پر)لادے ہوئے آ ئے گا دیکھو ایسا نہ ہو میں(قیامت کے دن)تم میں سے ایک شخص کو پہچانوں وہ اللہ کےسامنے اونٹ لادے ہوئے آئے جا بڑ بڑ کر رہا ہو یا گائے لادے ہوئے آئے وہ بھائیں بھائیں کر رہی ہو یا بکری لادے ہوئے آئے وہ مٰیں میں کر رہی ہو ۔پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اتنے اونچے اٹھائے کہ آپﷺ کی بغلوں کی سپیدی دکھلائی دی اور دعا کی یا اللہ کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا (تو گواہ رہیو)ابو حمید کہتے ہیں میری آنکھوں نے آپﷺ کا یہ فرمانا دیکھا اور میرے کانوں نے سنا ۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ". وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ إِنِ اشْتَرَى دَارًا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَحْتَالَ حَتَّى يَشْتَرِيَ الدَّارَ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَيَنْقُدَهُ تِسْعَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَتِسْعَمِائَةَ دِرْهَمٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَيَنْقُدَهُ دِينَارًا بِمَا بَقِيَ مِنَ الْعِشْرِينَ الأَلْفَ، فَإِنْ طَلَبَ الشَّفِيعُ أَخَذَهَا بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، وَإِلاَّ فَلاَ سَبِيلَ لَهُ عَلَى الدَّارِ، فَإِنِ اسْتُحِقَّتِ الدَّارُ، رَجَعَ الْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ بِمَا دَفَعَ إِلَيْهِ، وَهْوَ تِسْعَةُ آلاَفِ دِرْهَمٍ وَتِسْعُمِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِرْهَمًا وَدِينَارٌ، لأَنَّ الْبَيْعَ حِينَ اسْتُحِقَّ انْتَقَضَ الصَّرْفُ فِي الدِّينَارِ، فَإِنْ وَجَدَ بِهَذِهِ الدَّارِ عَيْبًا وَلَمْ تُسْتَحَقَّ، فَإِنَّهُ يَرُدُّهَا عَلَيْهِ بِعِشْرِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ. قَالَ فَأَجَازَ هَذَا الْخِدَاعَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لاَ دَاءَ وَلاَ خِبْثَةَ وَلاَ غَائِلَةَ "
Narrated By Abu Rafi' : The Prophet said, "The neighbour has more right to be taken care of by his neighbour (than anyone else)." Some men said, "If one wants to buy a house for 20,000 Dirhams then there is no harm to play a trick to deprive somebody of pre-emption by buying it (just on paper) with 20,000 Dirhams but paying to the seller only 9,999 Dirhams in cash and then agree with the seller to pay only one Dinar in cash for the rest of the price (i.e. 10,001 Dirhams). If the pre-emptor offers 20,000 Dirhams for the house, he can buy it otherwise he has no right to buy it (by this trick he got out of pre-emption). If the house proves to belong to somebody else other than the seller, the buyer should take back from the seller what he has paid, i.e., 9,999 Dirhams and one Dinar, because if the house proves to belong to somebody else, so the whole bargain (deal) is unlawful. If the buyer finds a defect in the house and it does not belong to somebody other than the seller, the buyer may return it and receive 20,000 Dirhams (instead of 9999 Dirham plus one Dinar) which he actually paid.' Abu 'Abdullah said, "So that man allows (some people) the playing of tricks amongst the Muslims (although) the Prophet said, 'In dealing with Muslims one should not sell them sick (animals) or bad things or stolen things."
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان ثوری نے انہوں نے ابراہیم بن میسرہ سے انہوں نے عمرو بن شرید سے انہوں نے ابو رافعؓ سے انہوں نے کہا نبیﷺ نے فرمایا ہمسایہ اپنے پڑوس کے مکان کا زیادہ حقدار ہے اور بعضے لوگوں(امام ابو حنیفہ)نے کہا اگر کسی نے ایک گھر بیس ہزار درہم کو خریدا تو(شفعہ کا حق ساقط کرنے کے لیے)یہ حیلہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ مالک مکان کو نو ہزار نو سو ننانوے درہم ادا کرے اب بیس ہزار کے تکملہ میں جو باقی رہے(یعنے دس ہزار اور ایک درہم)اس کے بدل مالک مکان کو ایک دینار(اشرفی)دے دے اس صورت میں اگر شفیع اس مکان کو لینا چاہے گا تو اس کو بیس ہزار درہم پر لینا ہو گا ورنہ وہ اس گھر کو نہیں لے سکتا ایسی صورت میں اگر بیع کے بعد یہ گھر(بایع کے سوا)اور کسی کا نکلا تو خریدار بائع سے وہی قیمت پھیر لے گا جا اس نے دی ہے یعنی نو ہزار نو سو ننانوے درہم اور ایک دینار (بیس ہزار درہم نہیں پھیر سکتا )کیونکہ جب وہ گھر کسی اور کا نکلا تو اب وہ بیع صرف جوبائع اور مشتری کے بیچ میں ہوئی تھی باطل ہو گئی تو اصل دینار پھیرنا لازم ہو گا نہ کہ اس کے ثمن (یعنے دس اور ایک درہم)اگر اس گھر میں کوئی عیب نکلا لیکن وہ بائع کے سوا کسی اور کی ملک نہیں نکلا تو خریدار اس گھر کو بائع کو واپس اور بیس ہزار درہم اس سے لے سکتا ہے امام بخاری نے کہا تو ان لوگوں نے مسلمانوں کے آپس میں مکر و فریب کو جائز رکھا (یہ عجب مسلمانی ہے)اور نبیﷺ نے تو فرمایا ہے مسلمان کی بیع میں جو مسلمان کے ساتھ ہو نہ عیب ہونا چاہیے (بیماری)نہ خباثت نہ کوئی آفت
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ، سَاوَمَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ بَيْتًا بِأَرْبَعِمِائَةِ مِثْقَالٍ وَقَالَ لَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " الْجَارُ أَحَقُّ بِصَقَبِهِ ". مَا أَعْطَيْتُكَ
Narrated By 'Amr bin Ash-Sharid : Abu Rafi' sold a house to Sa'd bin Malik for four-hundred Mithqal of gold, and said, "If I had not heard the Prophet saying, 'The neighbour has more right to be taken care of by his neighbour (than anyone else),' then I would not have sold it to you."
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہا ہم سے یحیی بن سعید قطان نے انہوں نے سفیان ثوری سے کہا مجھ سے ابراہیم بن میسرہ نے بیان کیا انہوں نے عمرو بن شرید سے کہ ابو رافع نے سعد سے ایک مکان کی قیمت چار مثقال چکائی اور کہنے لگے اگر میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ ہمسایہ اپنے پڑوس کے مکان کا زیادہ حقدار ہے تو میں یہ مکان تم کو نہ دیتا (اور کسی کو دے دیتا )