Chapter No: 41
باب السَّمَرِ في الْعِلْمِ
To speak about (religious) knowledge at night.
باب : رات کو علم کی باتیں کرنا
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، وَأَبِي، بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْعِشَاءَ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ " أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ "
Narrated By 'Abdullah bin 'Umar : Once the Prophet led us in the 'Isha prayer during the last days of his life and after finishing it (the prayer) (with Taslim) he said: "Do you realize (the importance of) this night?" Nobody present on the surface of the earth tonight will be living after the completion of one hundred years from this night."
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ ایک دفعہ نبیﷺ نےعمر کے آخری ایام میں ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی سلام کے بعد کھڑے ہوئے اور فرمایا: کیا تم نے اس رات کو دیکھا (اسے یاد رکھنا) جتنے لوگ اس وقت زمین پر ہیں سو سال بعد اُن میں سے کوئی نہیں رہے گا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ " نَامَ الْغُلَيِّمُ ". أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ثُمَّ قَامَ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ ـ أَوْ خَطِيطَهُ ـ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ
Narrated By Ibn 'Abbas : I stayed overnight in the house of my aunt Maimuna bint Al-Harith (the wife of the Prophet) while the Prophet was there with her during her night turn. The Prophet offered the 'Isha prayer (in the mosque), returned home and after having prayed four Rakat, he slept. Later on he got up at night and then asked whether the boy (or he used a similar word) had slept? Then he got up for the prayer and I stood up by his left side but he made me stand to his right and offered five Rakat followed by two more Rakat. Then he slept and I heard him snoring and then (after a while) he left for the (Fajr) prayer.
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اُس رات اپنی خالہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے پاس رہا جس رات نبیﷺ کی باری ان کے ہاں تھی،آپﷺ نماز عشاء کے بعد گھر تشریف لائے اور چار رکعت ادا کرکے سو گئے، پھر رات کو بیدار ہوئے اور فرمایا: کیا (ابھی تک یہ) بچہ سو رہا ہے یا اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا، پھر آپﷺ نماز کےلیے اٹھے میں بھی اٹھا اور آپﷺ کے بائیں جانب نماز کےلیے کھڑا ہو گیا، آپﷺ نے مجھے دائیں طرف کرلیا، پھر آپﷺ نے پانچ رکعات ادا کیں ، اس کے بعد دو رکعات( فجر کی سنتیں) ادا کیں اور پھر سو گئے حتی کہ میں نے آپﷺ کے خراٹوں کی آواز سنی، پھر آپﷺ اٹھے اور فجر کی نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
Chapter No: 42
باب حِفْظِ الْعِلْمِ
(What is said regarding) the memorization of the (religious) knowledge.
باب : علم کو یاد رکھنا
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ، وَلَوْلاَ آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِيثًا، ثُمَّ يَتْلُو {إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ} إِلَى قَوْلِهِ {الرَّحِيمُ} إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وِإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الْعَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِشِبَعِ بَطْنِهِ وَيَحْضُرُ مَا لاَ يَحْضُرُونَ، وَيَحْفَظُ مَا لاَ يَحْفَظُونَ
Narrated By Abu Huraira : People say that I have narrated many Hadiths (The Prophet's narrations). Had it not been for two verses in the Qur'an, I would not have narrated a single Hadith, and the verses are:
"Verily those who conceal the clear sign and the guidance which We have sent down . . . (up to) Most Merciful." (2:159-160). And no doubt our Muhajir (emigrant) brothers used to be busy in the market with their business (bargains) and our Ansari brothers used to be busy with their property (agriculture). But I (Abu Huraira) used to stick to Allah's Apostle contented with what will fill my stomach and I used to attend that which they used not to attend and I used to memorize that which they used not to memorize.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتا ہے اگرقرآ ن کی یہ دو آیات نہ ہوتیں تو میں ایسا نہ کرتا (پھر سورۃ البقرۃ کی آیت) کہ وہ لوگ جو ہماری کھلی نشانیوں اور ہدایت کی باتوں کو چھپاتے ہیں(شروع سے آخر تک تلاوت فرمائی) اورحقیقت یہ ہے کہ ہمارے بھائی مہاجرین کاروبار میں اور انصار کھیتی باڑی میں مصروف رہتے تھے اور میں نبیﷺکے ساتھ ہی رہتا اور ان مجلسوں میں شریک ہوتا تھا جن میں وہ نہ ہوتے اور وہ باتیں بھی یاد رکھتا تھا جو وہ یاد نہیں رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ. قَالَ " ابْسُطْ رِدَاءَكَ " فَبَسَطْتُهُ. قَالَ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ " ضُمُّهُ " فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ بِهَذَا أَوْ قَالَ غَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ
Narrated By Abu Huraira : I said to Allah's Apostle "I hear many narrations (Hadiths) from you but I forget them." Allah's Apostle said, "Spread your Rida' (garment)." I did accordingly and then he moved his hands as if filling them with something (and emptied them in my Rida') and then said, "Take and wrap this sheet over your body." I did it and after that I never forgot any thing.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! میں آپ ﷺ سے بہت سی باتیں سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں آپﷺ نے فرمایا اپنی چادر بچھاؤ میں نے بچھا دی آپﷺنے اپنے دونوں ہاتھ سے چلو بنایا اور اس میں ڈال دیا پھر فرمایا: اس کو لپیٹ لو میں نے لپیٹ لی اس کے بعد میں (آپﷺ کا کوئی فرمان) نہ بھولا۔ہم سے ابرہیم بن منذر نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی فدیک نے یہی حدیث بیان کی اس روایت میں یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے چلو لے کر اس میں ڈال دیا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ
Narrated By Abu Huraira : I have memorized two kinds of knowledge from Allah's Apostle . I have propagated one of them to you and if I propagated the second, then my pharynx (throat) would be cut (i.e. killed).
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺسے دو ظرف (علم کے) یاد کرلئے ہیں،چنانچہ ان میں سے ایک کو تو میں نے ظاہر کردیا، اور دوسرے کو اگر ظاہر کرتا تو یہ بلعوم کاٹ لی جاتی۔(ابوعبد اللہ کہتے ہیں کہ بلعوم کھانے کی رگ ہے)۔
Chapter No: 43
باب الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ
To be quiet (and listen) to religious learned men.
باب : عالموں کی بات سننے کے لئے خاموش رہنا ۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ " اسْتَنْصِتِ النَّاسَ " فَقَالَ " لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ "
Narrated By Jarir : The Prophet said to me during Hajjat-al-Wida': Let the people keep quiet and listen. Then he said (addressing the people), "Do not (become infidels) revert to disbelief after me by striking the necks (cutting the throats) of one another (killing each other)."
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبیﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مجھے فرمایا لوگوں کو خاموش کراؤ (جب لوگ خاموش ہو گئے تو) آپﷺ نے فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ بن جانا۔
Chapter No: 44
باب مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ : أَىُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ
When a religious learned man is asked, “Who is the most learned person,” it is better for him to attribute or entrust absolute knowledge to Allah and to say, “Allah is the Most Learned (than anybody else).”
باب : جب عالم سے یہ پوچھا جائے کہ سب لوگوں میں بڑا عالم کون ہے تو اس کو یُوں کہنا چاہیے اللہ کو معلوم ہے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ. فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَىُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ. فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ، إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ. قَالَ يَا رَبِّ وَكَيْفَ بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهْوَ ثَمَّ، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ، وَحَمَلاَ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمِهِمَا فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ. فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، قَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ ـ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ ـ فَسَلَّمَ مُوسَى. فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ فَقَالَ أَنَا مُوسَى. فَقَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ. قَالَ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لاَ تَعْلَمُهُ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لاَ أَعْلَمُهُ. قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا، وَلاَ أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ، فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، فَعُرِفَ الْخَضِرُ، فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ. فَقَالَ الْخَضِرُ يَا مُوسَى، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ. فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ. فَقَالَ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ. فَكَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا. فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلاَمٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلاَهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ. فَقَالَ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ـ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ وَهَذَا أَوْكَدُ ـ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا، فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ. قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ. فَقَالَ لَهُ مُوسَى لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا. قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ". قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى، لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا "
Narrated By Ubai bin Ka'b : The Prophet said, "Once the Prophet Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked, "Who is the most learned man amongst the people. He said, "I am the most learned." Allah admonished Moses as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah inspired to him "At the junction of the two seas there is a slave amongst my slaves who is more learned than you." Moses said, "O my Lord! How can I meet him?" Allah said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses set out along with his (servant) boy, Yusha' bin Nuin and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (i.e. lay down) and slept. The fish came out of the basket and it took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses said to his (servant) boy: "Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey." Moses did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses, "Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish." Moses remarked, "That is what we have been seeking. So they went back retracing their foot-steps, till they reached the rock. There they saw a man covered with a garment (or covering himself with his own garment). Moses greeted him. Al-Khadir replied saying, "How do people greet each other in your land?" Moses said, "I am Moses." He asked, "The Moses of Bani Israel?" Moses replied in the affirmative and added, "May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught." Al-Khadir replied, "Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know." Moses said, "Allah willing, you will find me patient and I will not disobey you in aught. So both of them set out walking along the sea-shore, as they did not have a boat.
In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir said: "O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak." Al-Khadir went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses said, "These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people." Al-Khadir replied, "Didn't I tell you that you will not be able to remain patient with me." Moses said, "Call me not to account for what I forgot." The first (excuse) of Moses was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boy's head from the top and plucked it out with his hands (i.e. killed him). Moses said, "Have you killed an innocent soul who has killed none." Al-Kha,dir replied, "Did I not tell you that you cannot remain patient with me?" Then they both proceeded till when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir repaired it with his own hands. Moses said, "If you had wished, surely you could have taken wages for it." Al-Khadir replied, "This is the parting between you and me." The Prophet added, "May Allah be Merciful to Moses! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir."
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کی کہ نوف بکالی کہتا ہے، کہ وہ موسی علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے) بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ(بن میشا) تھے، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ کا دشمن جھوٹ بول رہا ہے۔ہمیں ابی بن کعب نے بتایا کہ نبیﷺ نے فرمایا: موسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا (اس وقت) سب سے بڑا عالم کون ہے؟ موسی علیہ السلام نے فرمایا میں بڑا عالم ہوں اللہ تعالی کو یہ بات پسند نہ آئی لہذا اللہ تعالی نے وحی کی کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں میرا ایک بندہ ہے جس کے پاس آپ سے زیادہ علم ہے، موسی علیہ السلام نے عرض کی یا اللہ میں اس تک کیسے پہنچ پاؤں گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک مچھلی تھیلے میں رکھ کر سفر شروع کرو جہاں وہ سمندر میں چلی جائے وہاں اس سے ملاقات ہوگی، لہذا موسی علیہ السلام اپنے ساتھی یوشع بن نون کی معیت میں مچھلی ساتھ لیے چل پڑے، جب دونوں ایک چٹان کے پاس پہنچے تو (تھکاوٹ کی وجہ سے) سوگئے اتنے میں مچھلی تھیلے سے نکل کر سمندر میں چلی گئی، وہ دونوں بیدار ہوئے اور سفر شروع کردیا جب صبح ہوئی تو موسی علیہ السلام نے یوشع سے کہا تھکاوٹ ہو گئی ہے ناشتہ لاؤ، انہوں نے بتایا کہ وہ مچھلی تو فلاں چٹان کے پاس سمندر میں چلی گئی تھی مجھے بتانا یاد ہی نہیں رہا ، موسی علیہ السلام نے فرمایا: ہمیں اسی جگہ کی تلاش تو تھی آخر وہ اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے دیکھتے اسی جگہ جا پہنچے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص چادر اوڑھے سو رہا ہے، موسی علیہ السلام نے سلام کہا تو خضر جاگ اٹھے اور (بے ساختہ )بولے یہاں سلام کہاں سے آ گیا؟ موسی علیہ السلام نے کہا میں موسی ہوں ، خضر علیہ السلام نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر کہنے لگے میں آپ سے وہ علم کی باتیں سیکھنے آیا ہوں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں؟ خضر علیہ السلام نے کہا : آپ صبر نہیں کر سکیں گے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک علم مجھے دیا ہے جو آپ کے پاس نہیں اور ایک علم آپ کو دیا ہے جو میرے پاس نہیں، موسی علیہ السلام نے عرض کی اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، اور میں کسی کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا، آخر دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے ان کے پاس کشتی نہ تھی (کہ سمندر پار کر سکیں) اتنے میں ایک کشتی ادھر سے گزری جنہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ ان دونوں کو سوار کرلیا، دورانِ سفر ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کر بیٹھی اور ایک یا دو چونچ پانی پیا اور اُڑ گئی یہ دیکھ کر خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام سے فرمایا: اے موسیٰ ! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر سے پانی لیا ہے، اتنے میں خضر علیہ السلام نے کشتی کا ایک پھٹا توڑ دیا جس پر موسی علیہ السلام نے کہا انہوں نے ہمیں بغیر کرایہ کے بٹھایا اور آپ نے ان کی کشتی کو نقصان پہنچا کر لوگوں کو ڈبونا چاہا تو خضر علیہ السلام نے کہا میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے، موسی علیہ السلام نے عرض کی یہ بھول کی وجہ سے ہوا ہے آپ اس پر میری گرفت نہ کریں، آپ ﷺ نے فرمایا یہ پہلا اعتراض موسی علیہ السلام سے بھول ہی کی وجہ سے تھا، پھر وہ آگے چل پڑے وہاں کچھ بچے کھیل رہے تھے جن میں سےایک بچے کو خضر علیہ السلام نے پکڑا اور اس کا سر تن سے جدا کردیا موسی علیہ السلام نے کہا: آپ نے نا حق ایک معصوم کی جان لے لی، خضر علیہ السلام نے کہا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ صبرنہیں کر سکیں گے، ابن عیینہ کہتے ہیں یہ پہلی بات سے زیادہ سخت ہے، خیر پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں میں جا پہنچے اہلِ علاقہ سے کھانا مانگا تو انہوں نے دینے سے انکار کردیا اتنے میں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی تو خضر علیہ السلام نے ایک اشارے سےا سے ٹھیک کردیا، موسی علیہ السلام نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کی مزدوری ان سے لے سکتے تھے، خضر نے کہا: بس اب ہم دونوں جدا ہوتے ہیں( آگئے نہیں چل سکتے) نبیﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے کاش! وہ صبر کرتے تو مزید باتوں کا پتہ چلتا، (محمد بن یوسف ) نے کہا کہ ہم سے اس حدیث کو علی بن حشرم نے بیان کیا انہوں نے کہا: ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی اسی طرح طویل حدیث کی۔
Chapter No: 45
باب مَنْ سَأَلَ وَهْوَ قَائِمٌ عَالِمًا جَالِسًا
Whosoever, while standing, asked a religious learned man who was sitting (on a pulpit or a similar thing, about something).
باب : ایک عالم سے جو بیٹھا ہو کوئی کھڑے کھڑے سوال کرے ۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، قَالَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً. فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ ـ قَالَ وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلاَّ أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا ـ فَقَالَ " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "
Narrated By Abu Musa : A man came to the Prophet and asked, "O Allah's Apostle! What kind of fighting is in Allah's cause? (I ask this), for some of us fight because of being enraged and angry and some for the sake of his pride and haughtiness." The Prophet raised his head (as the questioner was standing) and said, "He who fights so that Allah's Word (Islam) should be superior, then he fights in Allah's cause."
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے ؟ کیوں کہ ہم میں سے کچھ لوگ غصے کی وجہ سے لڑتے ہیں اور کچھ غیرت کی وجہ سے، آپﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا، کیوں کہ وہ شخص کھڑا تھا اور فرمایا: اللہ کے دین کی سر بلندی کےلیے لڑنا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
Chapter No: 46
باب السُّؤَالِ وَالْفُتْيَا عِنْدَ رَمْىِ الْجِمَارِ
To ask about a religious matter and to give a religious verdict (at Mina during Hajj) while doing Ramy of Jimar (throwing of pebbles at the Jimar in Mina during Hajj).
باب : کنکریاں مارتے وقت مسئلہ پُوچھنا اور جواب دینا ۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ. قَالَ " ارْمِ وَلاَ حَرَجَ ". قَالَ آخَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ. قَالَ " انْحَرْ وَلاَ حَرَجَ ". فَمَا سُئِلَ عَنْ شَىْءٍ قُدِّمَ وَلاَ أُخِّرَ إِلاَّ قَالَ افْعَلْ وَلاَ حَرَجَ
Narrated By 'Abdullah bin 'Amar : I saw the Prophet near the Jamra and the people were asking him questions (about religious problems). A man asked, "O Allah's Apostle! I have slaughtered the Hadi (animal) before doing the Rami." The Prophet replied, "Do the Rami (now) and there is no harm." Another person asked, "O Allah's Apostle! I got my head shaved before slaughtering the animal." The Prophet replied, "Do the slaughtering (now) and there is no harm." So on that day, when the Prophet was asked about anything as regards the ceremonies of Hajj performed before or after its due time his reply was, "Do it (now) and there is no harm."
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ کو جمرہ عقبہ کے پاس دیکھا لوگ آپﷺ سے مسائل پوچھ رہے تھے ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! میں نے رمی (کنکریاں مارنے)سے پہلے ہی قربانی کرلی ، آپﷺ نے فرمایا: اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں، دوسرے نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا آپﷺ نے فرمایا: اب قربانی کرلو، کوئی حرج نہیں اس دن آپﷺ سے کسی بھی تقدیم وتاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
Chapter No: 47
باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلا}
The Statement of Allah, "And of knowledge you (mankind) have been given only a little." (V.17:85)
باب : اللہ کا ( سورہ بنی اسرائیل میں یہ ) فرمانا اور تم کو تھوڑا ہی سا علم دیا گیا ۔
حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، سُلَيْمَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي، مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ، وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ تَسْأَلُوهُ لاَ يَجِيءُ فِيهِ بِشَىْءٍ تَكْرَهُونَهُ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَنَسْأَلَنَّهُ. فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ فَسَكَتَ. فَقُلْتُ إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ. فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتُيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً}. قَالَ الأَعْمَشُ هَكَذَا فِي قِرَاءَتِنَا
Narrated By 'Abdullah : While I was going with the Prophet through the ruins of Medina and he was reclining on a date-palm leaf stalk, some Jews passed by. Some of them said to the others: Ask him (the Prophet) about the spirit. Some of them said that they should not ask him that question as he might give a reply which would displease them. But some of them insisted on asking, and so one of them stood up and asked, "O Aba-l-Qasim ! What is the spirit?" The Prophet remained quiet. I thought he was being inspired Divinely. So I stayed till that state of the Prophet (while being inspired) was over. The Prophet then said, "And they ask you (O Muhammad) concerning the spirit... Say: The spirit... its knowledge is with my Lord. And of knowledge you (mankind) have been given only a little)." (17.85)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے میں نبیﷺ کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات سے گزر رہا تھا اور آپ ﷺ کھجور کی ایک ٹہنی کے سہارے چل رہے تھے اتنے میں آپﷺ کا گزر یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے ہوا، انہوں نے آپس میں باتیں شروع کر دیں ایک کہنے لگا ان(محمدﷺ) سے روح کے بارے میں پوچھو دوسرے نے کہا نہ پوچھنا اگر انہوں نے کوئی جواب دے دیا تو آپ کو برا لگے گا، لیکن کچھ یہودیوں نے کہا ہم تو ضرور پوچھیں گے، آخر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ یہ سن کر آپﷺ خاموش ہو گئے ،میں سمجھ گیا کہ وحی نازل ہو رہی ہے لہذا میں ٹھہر گیا، جب وحی ختم ہوئی تو آپﷺ نے (سورۃ بنی اسرائیل کی) یہ آیت تلاوت فرمائی: اے پیغمبر یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ ان سے کہہ دیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے، اورتمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اعمش کہتے ہیں ہماری قراءت میں اوتوا ہے اوتیتم نہیں۔
Chapter No: 48
باب مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الاِخْتِيَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ
Whosever left some optional things simply for the fear that some people may not be able to understand them and may fall into something more difficult.
باب : اس شخص کا بیان جس نے بعض جائز چیزوں کو اس خوف سے ترک کیا کہ بعض نا سمجھ لوگ اس سے زیادہ سخت بات میں مبتلا ہو جائیں گے ۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ قُلْتُ قَالَتْ لِي قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " يَا عَائِشَةُ، لَوْلاَ قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ ـ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ بِكُفْرٍ ـ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ باب يَدْخُلُ النَّاسُ، وَبَابٌ يَخْرُجُونَ ". فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ
Narrated By Aswad : Ibn Az-Zubair said to me, "'Aisha used to tell you secretly a number of things. What did she tell you about the Ka'ba?" I replied, "She told me that once the Prophet said, 'O 'Aisha! Had not your people been still close to the pre-Islamic period of ignorance (infidelity)! I would have dismantled the Ka'ba and would have made two doors in it; one for entrance and the other for exit." Later on Ibn Az-Zubair did the same.
اسود کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعض باتیں صرف آپ ہی سے کیا کرتی تھیں تو کبھی انہوں نے کعبہ کے بارے میں بھی کوئی بات بیان کی؟ میں نے کہا: ہاں انہوں نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا: اے عائشہ اگر تیری یہ قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی تو میں کعبہ کو از سرِ نو تعمیر کرتا اور اس کے دو دروازے بناتا ایک نکلنے کےلیے اور ایک داخل ہونے کےلیے، پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے دورِ حکومت میں ایسا ہی کیا تھا۔
Chapter No: 49
باب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لاَ يَفْهَمُوا
Whoever selected some people to teach them (religious) knowledge preferring them over others for fear that the others may not understand it.
باب : بعضی علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا کچھ لوگوں کو اس خیال سے کہ اُن کی سمجھ میں نہ آئیں گی نہ بتانا،
وَقَالَ عَلِيٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ، بِمَا يَعْرِفُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ، اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟
And Ali said, "You should preach to the people according to their mental calibre so that they may not convey wrong things about Allah and His Messenger."
حضرت علیؓ نے کہا لوگوں سے ( دین کی ) وہی باتیں کہو جو وہ سمجھیں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول جھٹلایا جائے ۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ عَلِيٍّ بِذَلِكَ
Narrated Abu At-Tufail the above mentioned statement of Ali.
ہم سے اس قول کو عبیداللہ بن موسی نے بیان کیا انہوں نے معروف سے انہوں نے ابو الطفیل سے انہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَمُعَاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ قَالَ " يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ ". قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ. قَالَ " يَا مُعَاذُ ". قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ. ثَلاَثًا. قَالَ " مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلاَّ حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ ". قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا قَالَ " إِذًا يَتَّكِلُوا ". وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا
Narrated By Anas bin Malik : "Once Mu'adh was along with Allah's Apostle as a companion rider. Allah's Apostle said, "O Mu'adh bin Jabal." Mu'adh replied, "Labbaik and Sa'daik. O Allah's Apostle!" Again the Prophet said, "O Mu'adh!" Mu'adh said thrice, "Labbaik and Sa'daik, O Allah's Apostle!" Allah's Apostle said, "There is none who testifies sincerely that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is his Apostle, except that Allah, will save him from the Hell-fire." Mu'adh said, "O Allah's Apostle ! Should I not inform the people about it so that they may have glad tidings?" He replied, "When the people hear about it, they will solely depend on it." Then Mu'adh narrated the above-mentioned Hadith just before his death, being afraid of committing sin (by not telling the knowledge).
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ رسول اللہﷺ اور معاذ رضی اللہ عنہ ایک سواری پر جا رہے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کی حاضر ہوں اے اللہ کے رسولﷺ!، آپﷺ نے پھر فرمایا: اے معاذ! انہوں نے عرض کی حاضر ہوں اے اللہ کے رسولﷺ! تین بار ایسے ہی ہوا، پھر آپﷺ نے فرمایا: اے معاذ! جو شخص سچے دل کے ساتھ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس پر آگ کو حرام قرار دے دیا، معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ! کیا میں اس بات کی خبر لوگوں کو دے دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں، آپ ﷺ نے فرمایا ( اگر بتاؤ گے تو) لوگ اس پر بھروسہ کر کے (اعمال چھوڑ دیں گے) پھر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فوت ہوتے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں ان سے روزِ قیامت مواخذہ نہ ہوجائے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ، سَمِعْتُ أَنَسًا، قَالَ ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لِمُعَاذٍ " مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ". قَالَ أَلاَ أُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ " لاَ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا "
Narrated By Anas : I was informed that the Prophet had said to Mu'adh, "Whosoever will meet Allah without associating anything in worship with Him will go to Paradise." Mu'adh asked the Prophet, "Should I not inform the people of this good news?" The Prophet replied, "No, I am afraid, lest they should depend upon it (absolutely)."
معتمر کے والد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ نبیﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جو شخص اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا، معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ سنا دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں مجھے ڈر ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر لیں گے (اور اعمال چھوڑ دیں گے)۔
Chapter No: 50
باب الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ
(What is said as regards): To be shy (Al-Haya) while learning (religious) knowledge.
باب : علم میں شرم کرنا کیسا ہے ۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ لاَ يَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ مُسْتَحْىٍ وَلاَ مُسْتَكْبِرٌ ، وَقَالَتْ عَائِشَةُ : نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأَنْصَارِ لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ.
And Mujahid said, "Neither a shy nor a proud person can learn the religious knowledge."
Aisha said, "How excellent the women of the Ansar are! They do not feel shy while learning sound knowledge in religion."
اور مجاہد نے کہا جو شخص شرم کرے یا مغرور ہو اُس کو علم نہیں آنے کا اور حضرت عائشہؓ نے کہا انصار کی عورتیں بھی کیسی اچھی عورتیں ہیں ان کو شرم نے دین کی سمجھ حاصل کرنے سے نہیں روکا ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ ". فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ ـ تَعْنِي وَجْهَهَا ـ وَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ قَالَ " نَعَمْ تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا؟ "
Narrated By Um Salama : Um-Sulaim came to Allah's Apostle and said, "Verily, Allah is not shy of (telling you) the truth. Is it necessary for a woman to take a bath after she has a wet dream (nocturnal sexual discharge?) The Prophet replied, "Yes, if she notices a discharge." Um Salama, then covered her face and asked, "O Allah's Apostle! Does a woman get a discharge?" He replied, "Yes, let your right hand be in dust (An Arabic expression you say to a person when you contradict his statement meaning "you will not achieve goodness"), and that is why the son resembles his mother."
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُم سلیم رضی اللہ عنہا (انس رضی اللہ عنہ کی ماں) رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور پوچھنے لگیں یارسول اللہﷺ!، اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا ( اس لیے میں پوچھ رہی ہوں کہ) اگر عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر بھی غسل فرض ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں اگر وہ پانی دیکھ لے تو( یعنی بیدار ہوتے وقت کپڑوں پر اثرات دیکھے) یہ سن کر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنا منہ چھپا لیا اور پوچھنے لگیں اے اللہ کے رسولﷺ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں پھر بچے کی شکل ماں پر کیوں جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ ". فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَاسْتَحْيَيْتُ. فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " هِيَ النَّخْلَةُ ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي فَقَالَ لأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا
Narrated By 'Abdullah bin 'Umar : Once Allah's Apostle said, "Amongst the trees there is a tree, the leaves of which do not fall and is like a Muslim, tell me the name of that tree." Everybody started thinking about the trees of the desert areas and I thought of the date-palm tree but felt shy (to answer). The others asked, "O Allah's Apostle! inform us of it." He replied, "it is the date-palm tree." I told my father what had come to my mind and on that he said, "Had you said it I would have preferred it to such and such a thing that I might possess."
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اس کی مثال مسلمان جیسی ہے بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگوں کا خیال جنگل کے مختلف درختوں کی طرف گیا اور میرے دل میں آیا کہ وہ کجھور کا درخت ہے لیکن شرم کی وجہ سے نہ بولا، آخر لوگوں کے پوچھنے پر آپﷺ نے بتایا کہ وہ کجھور کا درخت ہے، اس کے بعد میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم اس کا جواب دے دیتے تو مجھے بہت سا (سرمایا ملنے ) سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔