Chapter No: 1
باب مَا جَاءَ فِي الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمُدَّعِي لِقَوْلِهِ تَعَالى
What is said regarding the rule that the plaintiff has to produce a proof.
باب : گواہ لانا مدعی پر لازم ہے ۔
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ }الأية .وَقَوْلِ اللهِ تَعَالَى {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ}أِلى قَولِهِ {بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا }
The Statement of Allah, "O you who believe! When you contract a debt for a fixed period, write it down ..." (V.2:282)
And His Statement, "O you who believe! Stand out firmly for justice, as witnesses to Allah ... Ever Well-Acquainted with what you do." (V.4:135)
اللہ تعالٰی نے (سورت بقرہ ) میں فرمایا مسلمانو جب تم ایک وعدہ ٹہرا کراادھا ر کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لو اور (سورت نساء میں) فرمایا مسلمانو ! انصاف پر مضبوطی سے جمے رہو۔۔۔۔۔اللہ کو تمہارے (سب) کاموں کی خبر ہے تک۔
Chapter No: 2
باب إِذَا عَدَّلَ رَجُلٌ أَحَدًا فَقَالَ لاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا أَوْ قَالَ مَا عَلِمْتُ إِلاَّ خَيْرًا
If a person attests the honourable record of a witness by saying, "I do not know except good about him."
باب : اگر تعدیل اور تزکیہ میں کوئی اتنا ہی کہے کہ ہم تو اس کو اچھا ہی سمجھتے ییں یا میں نے اس کو اچھا جانا ہے تو کیا حکم ہے ؟
وساق حَدِيثَ الإفْكِ فَقالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لأسامَةَ حِينَ اسْتَشارَهُ فَقالَ : أهْلَكَ ولا نَعْلمُ إِلاَّ خَيْرًا
In the narration of the forged story (i.e., the accusation of Aisha (r.a) when the Prophet (s.a.w) consulted Usama, Usama said, "Keep your wife, as we know nothing about her except good."
اور حدیث الافک میں ہے جب نبیﷺ نے حضرت اسامہ سے اپنی بی بی کے بارے میں رائے پوچھی تو انہوقں نے کہا اپنی بی بی کو رہنے دیجئے ہم تو اس کو اچھا ہی سمجھتے ہیں ۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ،. وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ، عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيًّا وَأُسَامَةَ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ فَقَالَ أَهْلُكَ وَلاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا. وَقَالَتْ بَرِيرَةُ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ يَعْذِرُنَا مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْ أَهْلِي إِلاَّ خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا ".
Narrated By Urwa bin Al-Musayyab, Alqama bin Waqqas and Ubaidullah bin Abdullah : About the story of 'Aisha and their narrations were similar attesting each other, when the liars said what they invented about 'Aisha, and the Divine Inspiration was delayed, Allah's Apostle sent for 'Ali and Usama to consult them in divorcing his wife (i.e. 'Aisha). Usama said, "Keep your wife, as we know nothing about her except good." Buraira said, "I cannot accuse her of any defect except that she is still a young girl who sleeps, neglecting her family's dough which the domestic goats come to eat (i.e. she was too simpleminded to deceive her husband)." Allah's Apostle said, "Who can help me to take revenge over the man who has harmed me by defaming the reputation of my family? By Allah, I have not known about my family-anything except good, and they mentioned (i.e. accused) a man about whom I did not know anything except good."
ابن شہاب نے کہا: کہ انہیں عروہ ، ابن المسیب ، علقمہ بن وقاص ، اور عبید اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے متعلق خبردی اور ان کی باہم ایک کی بات دوسرے کی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی تو رسول اللہﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنی بیوی(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو اپنے سے جدا کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کےلیے بلایا ، کیونکہ آپﷺ پر اب تک ( اس سلسلے میں) وحی نہیں آئی تھی۔ حضرت اسامہ ر ضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا: کہ آپﷺکی زوجہ مطہرہ میں ہم سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتے۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا (ان کی خادمہ) نے کہا: میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان پر عیب لگایا جاسکے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھتی اور پھر جاکے سو جاتی ہے اور بکری آکر اسے کھالیتی ہے۔ رسو ل اللہﷺنے (تہمت کے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد) فرمایا: کہ ایسے شخص کی طرف سے کون عذر خواہی کرے گا جو میری بیوی کے بارے میں بھی مجھے اذیت پہنچاتا ہے۔قسم اللہ کی ! میں نے اپنے گھر میں سوائے خیر کے اور کچھ نہیں دیکھا اور لوگ ایک ایسے شخص کا نام لیتے ہیں جس کے متعلق بھی مجھے خیر کے سوا اور کچھ معلوم نہیں۔
Chapter No: 3
باب شَهَادَةِ الْمُخْتَبِي
The witness of an eavesdropper.
باب : جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے
وَأَجَازَهُ عَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ وَكَذَلِكَ يُفْعَلُ بِالْكَاذِبِ الْفَاجِرِ. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ وَابْنُ سِيرِينَ وَعَطَاءٌ وَقَتَادَةُ السَّمْعُ شَهَادَةٌ. وَقَالَ الْحَسَنُ يَقُولُ لَمْ يُشْهِدُونِي عَلَى شَىْءٍ، وَإِنِّي سَمِعْتُ كَذَا وَكَذَا.
Amr bin Huraith allowed such a witness and said, "This is the way to be followed to discover the reality of an evil person." Ibn Sirin, Ata and Qatada said, "A witness can be based on hearing only." Al-Hasan used to say at the time of giving evidence, "They did not make me a witness but I heard such and such."
اور عمرو بن حریث نے اس کو جائز رکھا ہے اور کہا جو شخص جھوٹا بے ایمان ہو اس کے لیے یہی تدبیر کریں گے اور شعبی اور ابن سیرین اور عطاء اور قتادہ نے کہا جو کوئی کسی سے کوئی بات سنے تو اس پر گواہی دے سکتاہے گو وہ اس کو گواہ نہ بنائے اور امام حسن بصری نے کہا ایسی صورت میں گواہ یوں کہے مجھ کو انہوں نے کسی بات کا گواہ نہیں کیا بلکہ میں نے ایسا ایسا سنا۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَالِمٌ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ الأَنْصَارِيُّ يَؤُمَّانِ النَّخْلَ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم طَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَهْوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنِ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ، وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْرَمَةٌ ـ أَوْ زَمْزَمَةٌ ـ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لاِبْنِ صَيَّادِ أَىْ صَافِ، هَذَا مُحَمَّدٌ. فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ ".
Narrated By Abdullah bin Umar : Allah's Apostle and Ubai bin Kab Al-Ansari went to the garden where Ibn Saiyad used to live. When Allah's Apostle entered (the garden), he (i.e. Allah's Apostle) started hiding himself behind the date-palms as he wanted to hear secretly the talk of Ibn Saiyad before the latter saw him. Ibn Saiyad wrapped with a soft decorated sheet was lying on his bed murmuring. Ibn Saiyad's mother saw the Prophet hiding behind the stems of the date-palms. She addressed Ibn Saiyad saying, "O Saf, this is Muhammad." Hearing that Ibn Saiyad stopped murmuring (or got cautious), the Prophet said, "If she had left him undisturbed, he would have revealed his reality."
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: کہ رسو ل اللہﷺ، ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھجور کے اس باغ کی طرف تشریف لے گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ جب آپﷺباغ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺدرختوں کی آڑ میں چھپ کر چلنے لگے۔ آپﷺ چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھنے نہ پائے اور اس سے پہلے آپﷺ اس کی باتیں سن سکیں ۔ ابن صیاد ایک روئیں دار چادر میں زمین پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ گنگنارہا تھا۔ابن صیاد کی ماں نے آپﷺکو دیکھ لیا کہ آپ درخت کی آڑ لئے چلے آرہے ہیں تو وہ کہنے لگی اے صاف!یہ محمد ﷺآرہے ہیں ۔ ابن صیاد ہوشیار ہوگیا۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: اگر اسے اپنے حال پر رہنے دیتی تو بات ظاہر ہوجاتی ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَتْ كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَأَبَتَّ طَلاَقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ. فَقَالَ " أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لاَ حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ ". وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلاَ تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By 'Aisha : The wife of Rifa'a Al-Qurazi came to the Prophet and said, "I was Rifa'a's wife, but he divorced me and it was a final irrevocable divorce. Then I married AbdurRahman bin Az-Zubair but he is impotent." The Prophet asked her 'Do you want to remarry Rifa'a? You cannot unless you had a complete sexual relation with your present husband." Abu Bakr was sitting with Allah's Apostle and Khalid bin Said bin Al-'As was at the door waiting to be admitted. He said, "O Abu Bakr! Do you hear what this (woman) is revealing frankly before the Prophet ?"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کرنے لگی کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی۔پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی،پھر میں نے عبد الرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کرلی۔لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔آپﷺنے دریافت کیا تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے ۔ لیکن تم اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کرسکتی جب تک تم عبد الرحمن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔ اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لئے اجازت کا انتظار کررہے تھے۔انہوں نے کہا: اے ابو بکر رضی اللہ عنہ ! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے کہ نبیﷺکے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔
Chapter No: 4
باب إِذَا شَهِدَ شَاهِدٌ أَوْ شُهُودٌ بِشَىْءٍ فَقَالَ آخَرُونَ مَا عَلِمْنَا ذَلِكَ. يُحْكَمُ بِقَوْلِ مَنْ شَهِدَ
When a witness or witnesses give an evidence.
باب: اگر ایک گواہ یا کئ گواہوں نے ایک بات کی گواہی دی دوسرے لوگوں نے یوں کہا ہم کو تو معلوم نہیں تو جس نے گواہی دی اس کا قول قبول ہو گا ۔
قَالَ الْحُمَيْدِيُّ هَذَا كَمَا أَخْبَرَ بِلاَلٌ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى فِي الْكَعْبَةِ. وَقَالَ الْفَضْلُ لَمْ يُصَلِّ. فَأَخَذَ النَّاسُ بِشَهَادَةِ بِلاَلٍ. كَذَلِكَ إِنْ شَهِدَ شَاهِدَانِ أَنَّ لِفُلاَنٍ عَلَى فُلاَنٍ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَشَهِدَ آخَرَانِ بِأَلْفٍ وَخَمْسِمِائَةٍ يُقْضَى بِالزِّيَادِةَ.
And some people say that they do not know such an evidence, then the case will be decided according to the statement of the witnesses. Al-Humaidi said, "This (judgement) was adopted when Bilal said that the Prophet (s.a.w) had offered Salat inside the Kabah while Al-Fadl said that he had not offered Salat, so the people accepted Bilal's assertion. Similarly, if two persons give witness that such a person owes another one thousand Dirhams, but two other witnesses state that he owes him one thousand and five hundred Dirhams then the judgement will be based on the higher amount.
حمیدی نے کہا اس کی مثال یہ ہے جیسے بلالؓ نے یوں روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے کعبے کے اندر نماز پڑھی اور فضل بن عباسؓ نے روایت کی کہ آپ نے نہیں پڑھی تو لوگوں نے بلالؓ کے قول کو لیا اسی طرح اگر دو گواہوں نے یہ گواہی دی کہ زید کے عمرو پر ہزار روپے قرض نکلتے ہیں اور دو گواہوں نے یوں گواہی دی کہ ایک ہزار پانسو تو اتک ہزار پانسو دلانے کا حکم دیا جائے گا ۔
حَدَّثَنَا حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ. فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلاَ أَخْبَرْتِنِي. فَأَرْسَلَ إِلَى آلِ أَبِي إِهَابٍ يَسْأَلُهُمْ فَقَالُوا مَا عَلِمْنَا أَرْضَعَتْ صَاحِبَتَنَا. فَرَكِبَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِالْمَدِينَةِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ ". فَفَارَقَهَا، وَنَكَحَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ.
Narrated By Abdullah bin Abu Mulaika from 'Uqba bin Al-Harith : Uqba married the daughter of Abu Ihab bin Aziz, and then a woman came and said, "I suckled 'Uqba and his wife." 'Uqba said to her, "I do not know that you have suckled me, and you did not inform me." He then sent someone to the house of Abu Ihab to enquire about that but they did not know that she had suckled their daughter. Then 'Uqba went to the Prophet in Medina and asked him about it. The Prophet said to him, "How (can you keep your wife) after it has been said (that both of you were suckled by the same woman)?" So, he divorced her and she was married to another (husband).
عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ پھر ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ عقبہ کو بھی میں نے دودھ پلایا ہے اور اسے بھی جس سے اس نے شادی کی ہے ، عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے دودھ پلایا ہے اور آپ نے مجھے پہلے اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا۔ پھر انہوں نے آل ابو اہاب کے یہاں آدمی بھیجا کہ ان سے اس کے متعلق پوچھے۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے دودھ پلایا ہے ۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ اب رسو ل اللہ ﷺکی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور آپﷺسے مسئلہ پوچھا ۔ آپ ﷺنے فرمایا: اب کیا ہوسکتا ہے جب کہ کہا جاچکا ۔ چنانچہ آپ ﷺنے دونوں میں جدائی کرادی اور اس کا نکاح دوسرے شخص سے کرادیا۔
Chapter No: 5
باب الشُّهَدَاءِ الْعُدُولِ
The just witnesses. And the Statement of Allah.
باب : گواہ عادل (معتبر ) ہونا چاہئیں
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَأَشْهِدُوا ذَوَىْ عَدْلٍ مِنْكُمْ} وَ{مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ}
"And take as witness two just persons from among you (Muslims) ..." (V.65:2) "... such as you agree for witness ..." (V.2:282)
اور اللہ تعالٰی نے (سورت طلاق میں) فرمایا دو معتبر آدمیوں کو اپنے میں سے گواہ کر لو اور (سورت بقرہ میں ) فرمایا جن گواہوں کو تم پسند کرتے ہو ۔
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالْوَحْىِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَإِنَّ الْوَحْىَ قَدِ انْقَطَعَ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمُ الآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا أَمِنَّاهُ وَقَرَّبْنَاهُ، وَلَيْسَ إِلَيْنَا مِنْ سَرِيرَتِهِ شَىْءٌ، اللَّهُ يُحَاسِبُهُ فِي سَرِيرَتِهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا سُوءًا لَمْ نَأْمَنْهُ وَلَمْ نُصَدِّقْهُ، وَإِنْ قَالَ إِنَّ سَرِيرَتَهُ حَسَنَةٌ.
Narrated By 'Umar bin Al-Khattab : People were (sometimes) judged by the revealing of a Divine Inspiration during the lifetime of Allah's Apostle but now there is no longer any more (new revelation). Now we judge you by the deeds you practice publicly, so we will trust and favour the one who does good deeds in front of us, and we will not call him to account about what he is really doing in secret, for Allah will judge him for that; but we will not trust or believe the one who presents to us with an evil deed even if he claims that his intentions were good.
حضرت عبد اللہ بن عتبہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو میں نے یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہﷺکے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مؤاخذہ ہوجاتا تھا۔لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور ہم صرف انہیں امور میں مؤاخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے ۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہوگا۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا، اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے۔
Chapter No: 6
باب تَعْدِيلِ كَمْ يَجُوزُ
How many witnesses are sufficient to attest one's good or bad record?
باب : تعدیل کے لیے کتنے آدمی ہو نا چاہئیں ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِجَنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ " وَجَبَتْ ". ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا ـ أَوْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ ـ فَقَالَ " وَجَبَتْ ". فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لِهَذَا وَجَبَتْ، وَلِهَذَا وَجَبَتْ، قَالَ " شَهَادَةُ الْقَوْمِ، الْمُؤْمِنُونَ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الأَرْضِ ".
Narrated By Anas : A funeral procession passed in front of the Prophet and the people praised the deceased. The Prophet said, "It has been affirmed (Paradise)." Then another funeral procession passed by and the people talked badly of the deceased. The Prophet said, "It has been affirmed (Hell)." Allah's Apostle was asked, "O Allah's Apostle! You said it has been affirmed for both?" The Prophet said, "The testimony of the people (is accepted), (for) the believer are Allah's witnesses on the earth."
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺکے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی، آپﷺنے فرمایا: واجب ہوگئی ۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی ، یا اس کے سوا اور الفاظ کہے ۔ آپﷺنے اس پر بھی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہوگئی اور پہلے جنازے پر بھی یہی فرمایا: آپﷺنے فرمایا: ایمان والی قوم کی گواہی (بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے) یہ لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ، قَالَ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، وَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ فَمَرَّتْ جِنَازَةٌ فَأُثْنِيَ خَيْرٌ فَقَالَ عُمَرُ وَجَبَتْ. ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ. ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ شَرًّا، فَقَالَ وَجَبَتْ. فَقُلْتُ مَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ". قُلْنَا وَثَلاَثَةٌ قَالَ " وَثَلاَثَةٌ ". قُلْتُ وَاثْنَانِ قَالَ " وَاثْنَانِ ". ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ.
Narrated By Abu Al-Aswad : Once I went to Medina where there was an outbreak of disease and the people were dying rapidly. I was sitting with 'Umar and a funeral procession passed by. The people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed" (Paradise). Then another funeral procession passed by. The people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed." (Paradise). Then another funeral procession passed by. The people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed (Paradise)." Then a third funeral procession passed by and the people talked badly of the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed (Hell)." I asked Umar, "O chief of the believers! What has been affirmed?" He said, "I have said what the Prophet said. He said, 'Allah will admit into paradise any Muslim whose good character is attested by four persons.' We asked the Prophet, 'If there were three witnesses only?' He said, 'Even three.' We asked, 'If there were two only?' He said, 'Even two.' But we did not ask him about one witness."
ابو الاسود سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں مدینہ آیا تو یہاں وبا پھیلی ہوئی تھی ، لوگ بڑی تیزی سے مررہے تھے ۔ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ گزرا ۔ لوگوں نے اس میت کی تعریف کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہوگئی ۔ پھر دوسرا گزرا لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی ، حضرت عمر ضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہوگئی ۔ پھر تیسرا گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کےلیے بھی یہی کہا کہ واجب ہوگئی۔میں نے پوچھا امیر المؤمنین ! کیا چیز واجب ہوگئی ۔ انہوں نے کہا: میں نے اسی طرح کہا ہے جس طرح نبی ﷺنے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھائی کی گواہی دے دیں اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرتا ہے ۔ ہم نے آپﷺسے پوچھا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپﷺنے فرمایا: تین پر بھی ۔ ہم نے پوچھا اور اگر دو آدمی گواہی دیں ؟ آپﷺنے فرمایا: دو پر بھی ۔ پھر ہم نے ایک کے متعلق آپﷺسے نہیں پوچھا۔
Chapter No: 7
باب الشَّهَادَةِ عَلَى الأَنْسَابِ وَالرَّضَاعِ الْمُسْتَفِيضِ وَالْمَوْتِ الْقَدِيمِ
To give witness concerning lineage, foster suckling relations and dead persons, who died long ago.
باب: نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو اسی طرح پرانی موت ہر گواہی کا بیان کیا
وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ ". وَالتَّثَبُّتِ فِيهِ.
The Prophet (s.a.w) said, "I and Abu Salama were suckled by Thuwaiba." The necessity of being sure of the witness in such cases.
اور نبیﷺ نے فرمایا مجھ کو اور ابو سلمہ دونوں کو ثوبیہ (ابو لہب کی لونڈی) نے دودھ پلایا تھا اور رضاعت میں احتیاط کرنا
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتِ اسْتَأْذَنَ عَلَىَّ أَفْلَحُ فَلَمْ آذَنْ لَهُ، فَقَالَ أَتَحْتَجِبِينَ مِنِّي وَأَنَا عَمُّكِ فَقُلْتُ وَكَيْفَ ذَلِكَ قَالَ أَرْضَعَتْكِ امْرَأَةُ أَخِي بِلَبَنِ أَخِي. فَقَالَتْ سَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " صَدَقَ أَفْلَحُ، ائْذَنِي لَهُ ".
Narrated By 'Aisha : Aflah asked the permission to visit me but I did not allow him. He said, "Do you veil yourself before me although I am your uncle?" 'Aisha said, "How is that?" Aflah replied, "You were suckled by my brother's wife with my brother's milk." I asked Allah's Apostle about it, and he said, "Allah is right, so permit him to visit you."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: (پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ) حضرت افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے (گھر میں آنے کی ) اجازت چاہی تو میں نے ان کو اجازت نہیں دی۔ وہ بولے آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں حالانکہ میں آپ کا (دودھ کا ) چچا ہوں۔ میں نے کہا یہ کیسے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی (وائل ) کی عورت نے آپ کو میرے بھائی ہی کا دودھ پلایا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس کے متعلق رسول اللہﷺسے پوچھا تو آپﷺنے فرمایا: افلح نے سچ کہا ہے انہیں اجازت دے دیا کرو۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي بِنْتِ حَمْزَةَ " لاَ تَحِلُّ لِي، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ، هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ ".
Narrated By Ibn 'Abbas : The Prophet said about Hamza's daughter, "I am not legally permitted to marry her, as foster relations are treated like blood relations (in marital affairs). She is the daughter of my foster brother."
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے بارے میں فرمایا: یہ میرے لیے حلال نہیں ہوسکتیں ، جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں وہی دودھ کی وجہ سے حرام ہوجاتے ہیں ۔ یہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَخْبَرَتْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ عِنْدَهَا، وَأَنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ رَجُلٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ. قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُرَاهُ فُلاَنًا. لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ. قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أُرَاهُ فُلاَنًا ". لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ. فَقَالَتْ عَائِشَةُ لَوْ كَانَ فُلاَنٌ حَيًّا ـ لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ ـ دَخَلَ عَلَىَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " نَعَمْ، إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلاَدَةِ ".
Narrated By Amra bint 'Abdur-Rahman : That 'Aisha the wife of the Prophet told her uncle that once, while the Prophet was in her house, she heard a man asking Hafsa's permission to enter her house. 'Aisha said, "I said, 'O Allah's Apostle! I think the man is Hafsa's foster uncle.' " 'Aisha added, "O Allah's Apostle! There is a man asking the permission to enter your house." Allah's Apostle replied, "I think the man is Hafsa's foster uncle." 'Aisha said, "If so-and-so were living (i.e. her foster uncle) would he be allowed to visit me?" Allah's Apostle said, "Yes, he would, as the foster relations are treated like blood relations (in marital affairs)."
حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہیں نبیﷺکی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہﷺان کے یہاں تشریف فرماتھے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی کی آواز سنی جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میرا خیال ہے کہ یہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے دودھ کے چچا ہیں ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! یہ صحابی آپ کے گھر میں (جس میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا رہتی ہیں) آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپﷺنے فرمایا: میرا خیال ہے کہ یہ فلاں صاحب ، حضرت حفصہ کے رضاعی چچا ہیں۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے ایک رضاعی چچا کے بارے میں پوچھا کہ اگر فلاں زندہ ہوتے تو کیا وہ بے حجاب میرے پاس آسکتے تھے ؟رسول اللہﷺنے فرمایا: ہاں! دودھ سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ دَخَلَ عَلَىَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَعِنْدِي رَجُلٌ، قَالَ " يَا عَائِشَةُ مَنْ هَذَا ". قُلْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ. قَالَ " يَا عَائِشَةُ، انْظُرْنَ مَنْ إِخْوَانُكُنَّ، فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ ". تَابَعَهُ ابْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ.
Narrated By 'Aisha : Once the Prophet came to me while a man was in my house. He said, "O 'Aisha! Who is this (man)?" I replied, "My foster brother" He said, "O 'Aisha! Be sure about your foster brothers, as foster-ship is only valid if it takes place in the suckling period (before two years of age)."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبی ﷺمیرے(گھر ) تشریف لائے تو میرے یہاں ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپﷺنے دریافت فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے ۔ آپﷺنے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! ذرا دیکھ کر چلو ، کون تمہارا رضاعی بھائی ہے ؟ کیونکہ رضاعت وہی معتبر ہے جو کم سنی میں ہو۔
Chapter No: 8
باب شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي
The witness of a person falsely accusing somebody of illegal sexual intercourse and the witness of a thief or an adulterer.
باب : قاذف(زنا کی تہمت لگانے والا) اور چور اور حرام کار کی گواہی کا بیان ۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَلاَ تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ * إِلاَّ الَّذِينَ تَابُوا}. وَجَلَدَ عُمَرُ أَبَا بَكْرَةَ وَشِبْلَ بْنَ مَعْبَدٍ وَنَافِعًا بِقَذْفِ الْمُغِيرَةِ ثُمَّ اسْتَتَابَهُمْ، وَقَالَ مَنْ تَابَ قَبِلْتُ شَهَادَتَهُ. وَأَجَازَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُتْبَةَ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَطَاوُسٌ وَمُجَاهِدٌ وَالشَّعْبِيُّ وَعِكْرِمَةُ وَالزُّهْرِيُّ وَمُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ وَشُرَيْحٌ وَمُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ. وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ الأَمْرُ عِنْدَنَا بِالْمَدِينَةِ إِذَا رَجَعَ الْقَاذِفُ عَنْ قَوْلِهِ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ، قُبِلَتْ شَهَادَتُهُ. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ وَقَتَادَةُ إِذَا أَكْذَبَ نَفْسَهُ جُلِدَ وَقُبِلَتْ شَهَادَتُهُ. وَقَالَ الثَّوْرِيُّ إِذَا جُلِدَ الْعَبْدُ ثُمَّ أُعْتِقَ، جَازَتْ شَهَادَتُهُ، وَإِنِ اسْتُقْضِيَ الْمَحْدُودُ فَقَضَايَاهُ جَائِزَةٌ. وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ لاَ تَجُوزُ شَهَادَةُ الْقَاذِفِ، وَإِنْ تَابَ، ثُمَّ قَالَ لاَ يَجُوزُ نِكَاحٌ بِغَيْرِ شَاهِدَيْنِ، فَإِنْ تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ مَحْدُودَيْنِ جَازَ، وَإِنْ تَزَوَّجَ بِشَهَادَةِ عَبْدَيْنِ لَمْ يَجُزْ. وَأَجَازَ شَهَادَةَ الْمَحْدُودِ وَالْعَبْدِ وَالأَمَةِ لِرُؤْيَةِ هِلاَلِ رَمَضَانَ. وَكَيْفَ تُعْرَفُ تَوْبَتُهُ، وَقَدْ نَفَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الزَّانِيَ سَنَةً. وَنَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ كَلاَمِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَيْهِ حَتَّى مَضَى خَمْسُونَ لَيْلَةً.
The Statement of Allah, "... And reject their testimony forever, they indeed are the Fasiqun (liars, rebellious, disobedient to Allah). Except those who repent thereafter and do righteous deeds ..." (V.24:4,5)
Umar gave legal punishment of scourging to Abu Bakra, Shibl bin Mabad and Nafi for accusing Al-Mughira for illegal sexual intercourse falsely, and then they were made to repent and he said that whoever repented, his witness would be accepted. Abdullah bin Utba, Umar bin Abdul-Aziz, Saeed bin Jubair, Tawus, Mujahid, Ash-Shabi, Ikrima, Az-Zuhri, Muharib bin Dithar, Shuraih and Muawiya bin Qurra considered it permissible (the witness of the false accusers after being punished). Abu Az-Zinad said, "Our verdict in Medina is that , if the false accuser withdraws the accusation and repents, then his (future) witness is acceptable." Ash-Shabi and Qatada said, "If he tells that he has told a lie, the legal punishment will be instituted against him, but his (future) witness will be accepted."
Some people said, "The witness of a false accuser is not to be accepted even if he repented." They added, "The marriage is not legal unless it is witnessed by two witnesses. It is permissible that the two witnesses can be those who have received such punishments, but the slaves are not to be accepted as witnesses to marriage." He accepts the witness of the person who has received the punishment and the witness of a male slave and a female slave concerning the appearance of the new moon.
How to know the repentance of a person who has received the punishment of false accusation and no doubt, the Prophet (s.a.w) kept an adulterer in exile for one year. The Prophet (s.a.w) did not allow anybody to talk to Kab bin Malik and his two companions for fifty days.
اور اللہ نے (سورت نور میں) فرمایا ایسے ہمت لگانے والے کی گواہی کبھی نہ مانو یہی لوگ تو بد کار ہیں مگر جو تو بہ کر لیں تو حضرت عمرؓ نے ابو بکرہ صحابی (نفیع بن حارث) اور شبل بن معبد(ان کی ماں جائے بھائی) اور نافع بن حارث کو حد لگائی مغیرہ پر تہمت لگانے کی وجہ سے پھر ان سے توبہ کرائی اور کہا جو کوئی توبہ کرلے اس کی گواہی قبول ہو گی اور عبداللہ بن عتبہ اور عمر بن عبد العزیز اور سعید بن جبیر اور طاؤس اور مجاہد اور شعبی اور عکرمہ اورزہری اور محارب بن دثار اور شریح اور معاویہ ابن قرہ نے بھی توبہ کے بعد اس کی گواہی جائز رکھی ہے اور ابو الزناد نے کہا ہمارے نزدیک مدینہ طیبہ میں تو یہ حکم ہے کہ جب قاذف اپنے قول سے پھر جائے اوراستغفار کرے تو اس کی گواہی قبول ہو گی اورشعبی اور قتادہ نے کہا جب وہ اپنے تئیں جھٹلائے اور اس کو حد پڑ جائے تو اس کی گواہی قبول ہو گی اور سفیان ثوری نے کہا جب غلام کو حد قذف پڑے اس کے بعد وہ آزاد ہو جائے تو اس کی گواہی قبول ہو گی اور جس کو حد قذف پڑی ہو اگر وہ قاضی بنایا جائے تو اس کا فیصلہ نافذ ہو گا اور بعض لوگ (امام ابو حنیفہ) کہتے ہیں قاذف کی گواہی قبول نہ ہو گی گو وہ توبہ کرلے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ بغیر دو گواہوں کے نکاح درست نہیں ہوتا اور اگر حد قذف پڑے ہوئے گواہوں کی گواہی سے نکاح کیا تو نکاح درست ہو گا اور انہی لوگوں نے اگر دو غلاموں کی گواہی سے کیا تو وست نہ ہوگا حد قذف پڑے ہوئے لوگوں کی اور لونڈی غلام کی گواہی رمضان کے چاند کے لیے درست رکھی ہے اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ قاذف کی توبہ کیونکر معلوم ہو گی اور نبیﷺ نے توزانی کو ایک سال کے لیے اخراج کیا اور آپ نے کعب بن مالکؓ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے منع کر دیا کہ کوئی بات نہ کرے پچاس راتیں اس طرح گزریں ۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ،. وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ امْرَأَةً، سَرَقَتْ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَأُتِيَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ أَمَرَ فَقُطِعَتْ يَدُهَا. قَالَتْ عَائِشَةُ فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا وَتَزَوَّجَتْ، وَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By 'Urwa bin Az-Zubair : A woman committed theft in the Ghazwa of the Conquest (of Mecca) and she was taken to the Prophet who ordered her hand to be cut off. 'Aisha said, "Her repentance was perfect and she was married (later) and used to come to me (after that) and I would present her needs to Allah's Apostle."
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے فتح مکہ پر چوری کرلی تھی ۔ پھر اسے رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر کیا گیا اور آپﷺکے حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے اچھی طرح توبہ کرلی اور شادی کرلی۔ اس کے بعد وہ آتی تھیں تو میں ان کی ضرورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کردیا کرتی تھی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصِنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ.
Narrated By Zaid bin Khalid : Allah's Apostle ordered that an unmarried man who committed illegal sexual intercourse be scourged one hundred lashes and sent into exile for one year.
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ان لوگوں کےلیے جو شادی شدہ نہ ہوں اور زنا کریں یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کےلیے جلا وطن کردیا جائے۔
Chapter No: 9
باب لاَ يَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ
Do not be witness for injustice, if asked for that.
باب اگر ظلم کی بات پر گواہ بنانا چاہیں تو نہ بنے
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِي مِنْ مَالِهِ، ثُمَّ بَدَا لَهُ فَوَهَبَهَا لِي فَقَالَتْ لاَ أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم. فَأَخَذَ بِيَدِي وَأَنَا غُلاَمٌ، فَأَتَى بِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنَّ أُمَّهُ بِنْتَ رَوَاحَةَ سَأَلَتْنِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِهَذَا، قَالَ " أَلَكَ وَلَدٌ سِوَاهُ ". قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَأُرَاهُ قَالَ " لاَ تُشْهِدْنِي عَلَى جَوْرٍ ". وَقَالَ أَبُو حَرِيزٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ " لاَ أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ ".
Narrated By An-Nu'man bin Bashir : My mother asked my father to present me a gift from his property; and he gave it to me after some hesitation. My mother said that she would not be satisfied unless the Prophet was made a witness to it. I being a young boy, my father held me by the hand and took me to the Prophet. He said to the Prophet, "His mother, bint Rawaha, requested me to give this boy a gift." The Prophet said, "Do you have other sons besides him?" He said, "Yes." The Prophet said, "Do not make me a witness for injustice." Narrated Ash-Shabi that the Prophet said, "I will not become a witness for injustice."
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری ماں نے میرے والد سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کےلیے کہا: (پہلے تو انہوں نے انکار کیا کیونکہ دوسری بیوی کے بھی اولاد تھی)پھر راضی ہوگئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کردی ۔ لیکن ماں نے کہا: جب تک آپ نبیﷺکو اس معاملہ میں گواہ نہ بنائیں میں اس پر راضی نہ ہوں گی۔ چنانچہ والد میرا ہاتھ تھام کر نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں ابھی نو عمر تھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کےلیے کہہ رہی ہیں ۔آپﷺنے دریافت فرمایا: اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ، ہیں ۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ آپﷺنے اس پر فرمایا: تم مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ مت بناؤ۔ ابو حریز نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ آپﷺنے فرمایا: میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ سَمِعْتُ زَهْدَمَ بْنَ مُضَرِّبٍ، قَالَ سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ". قَالَ عِمْرَانُ لاَ أَدْرِي أَذَكَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَعْدُ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَشْهَدُونَ، وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ وَيَنْذِرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ ".
Narrated By Zahdam bin Mudrab : I heard Imran bin Husain saying, "The Prophet said, 'The best people are those living in my generation, then those coming after them, and then those coming after (the second generation)." Imran said "I do not know whether the Prophet mentioned two or three generations after your present generation. The Prophet added, 'There will be some people after you, who will be dishonest and will not be trustworthy and will give witness (evidences) without being asked to give witness, and will vow but will not fulfil their vows, and fatness will appear among them."
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: نبیﷺنے فرمایا: تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں(صحابہ)۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے(تابعین) ۔ پھر وہ لوگ جو اس کے بعد آئیں گے (تبع تابعین) ۔ عمران بن حصین نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا کہ آپﷺنے دو زمانوں کا (اپنے بعد) ذکر فرمایا یا تین کا۔ پھر آپﷺنے فرمایا کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو چور اور خائن ہوں گے ، جن میں دیانت کا نام نہ ہوگا۔ ان سے گواہی دینے کےلیے نہیں کہا جائے گا لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے ، موٹاپا ان میں عام ہوگا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ ". قَالَ إِبْرَاهِيمُ وَكَانُوا يَضْرِبُونَنَا عَلَى الشَّهَادَةِ وَالْعَهْدِ.
Narrated By Abdullah : The Prophet said, "The people of my generation are the best, then those who follow them, and then whose who follow the latter. After that there will come some people whose witness will go ahead of their oaths, and their oaths will go ahead of their witness." Ibrahim (a sub-narrator) said, "We used to be beaten for taking oaths by saying, 'I bear witness by the Name of Allah or by the Covenant of Allah."
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں ، پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے ۔ پھر وہ لوگ جو اس کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگوں کا زمانہ آئے گا جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے اور گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے ۔ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ہمارے بڑے بزرگ شہادت اور عہد کا لفظ زبان سے نکالنے پر ہمیں مارتے تھے۔
Chapter No: 10
باب مَا قِيلَ فِي شَهَادَةِ الزُّورِ
What has been said about false witness.
باب: جھوٹی گواہی بڑا گناہ ہے
لِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَالَّذِينَ لاَ يَشْهَدُونَ الزُّورَ} وَكِتْمَانِ الشَّهَادَةِ {وَلاَ تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} {تَلْوُوا} أَلْسِنَتَكُمْ بِالشَّهَادَةِ.
In respect of the Saying of Allah, "And those who do not bear witness to falsehood ..." (V.25:72)
What is said about hiding or concealing evidences, as Allah says, "... And conceal not the evidence for he, who hides it, surely his heart is sinful. And Allah is All-Knower of what you do." (V.2:283)
"... And if you distort your witness ..." (V.4:135)
اللہ تعالٰی نے (سورت فرقان میں) فرمایا بہشت کا بالا خانہ انہی کو ملے گا جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اسی طرح گواہی چھپانا بھی گناہ ہے اللہ تعالیٰ نے سورت بقرہ میں فرمایا گواہی مت چھپاؤ جو کوئی اس کو چھپائے ا کے دل میں کھوٹ ہے اور اللہ تعالٰی تمہارے کام خوب جانتا ہے اور (سورت نساء میں) جو فرمایا اگر تم پیچدار بات کہو(لگی لپٹی) یعنی گواہی میں ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ وَهْبَ بْنَ جَرِيرٍ، وَعَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، قَالاَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْكَبَائِرِ قَالَ " الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ ". تَابَعَهُ غُنْدَرٌ وَأَبُو عَامِرٍ وَبَهْزٌ وَعَبْدُ الصَّمَدِ عَنْ شُعْبَةَ.
Narrated By Anas : The Prophet was asked about the great sins He said, "They are:
1. To join others in worship with Allah.
2. To be undutiful to one's parents.
3. To kill a person (which Allah has forbidden to kill) (i.e. to commit the crime of murdering).
4. And to give a false witness."
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺسے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺنے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ". ثَلاَثًا. قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ " الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ ". وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ " أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ ". قَالَ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ. وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ.
Narrated By Abu Bakra : The Prophet said thrice, "Should I inform you out the greatest of the great sins?" They said, "Yes, O Allah's Apostle!" He said, "To join others in worship with Allah and to be undutiful to one's parents." The Prophet then sat up after he had been reclining (on a pillow) and said, "And I warn you against giving a false witness, and he kept on saying that warning till we thought he would not stop.
حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسو ل اللہﷺنے فر مایا: کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ؟ تین مرتبہ آپ ﷺنے اسی طرح فرمایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ، ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپﷺاس وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپﷺنے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپﷺخاموش ہوجاتے۔