Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Witnesses (52)    كتاب الشهادات

123

Chapter No: 11

باب شَهَادَةِ الأَعْمَى، وَأَمْرِهِ وَنِكَاحِهِ وَإِنْكَاحِهِ وَمُبَايَعَتِهِ وَقَبُولِهِ فِي التَّأْذِينِ وَغَيْرِهِ، وَمَا يُعْرَفُ بِالأَصْوَاتِ

The witness of a blind man, his marriage, his affairs, the marriage conducted by him, and his buying and selling. And accepting his call for the Salat, etc., and what can be known by sound or voice.

باب : اندھے کی گواہی اور اس کا معاملہ اور اپنا یا دوسرے کا نکاح پڑھانا یا بیع و شراکرنا اور اذان وغیرہ (جیسے امامت اور اقامت)بھی اندھے کی درست ہے اسی طرح اندھے کی گواہی ان باتوں میں جوآواز سے معلوم ہوتی ہیں

وَأَجَازَ شَهَادَتَهُ قَاسِمٌ وَالْحَسَنُ وَابْنُ سِيرِينَ وَالزُّهْرِيُّ وَعَطَاءٌ‏.‏ وَقَالَ الشَّعْبِيُّ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ إِذَا كَانَ عَاقِلاً‏.‏ وَقَالَ الْحَكَمُ رُبَّ شَىْءٍ تَجُوزُ فِيهِ‏.‏ وَقَالَ الزُّهْرِيُّ أَرَأَيْتَ ابْنَ عَبَّاسٍ لَوْ شَهِدَ عَلَى شَهَادَةٍ أَكُنْتَ تَرُدُّهُ‏.‏ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَبْعَثُ رَجُلاً إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ أَفْطَرَ، وَيَسْأَلُ عَنِ الْفَجْرِ فَإِذَا قِيلَ لَهُ طَلَعَ‏.‏ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ‏.‏ وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ اسْتَأْذَنْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَعَرَفَتْ صَوْتِي قَالَتْ سُلَيْمَانُ، ادْخُلْ فَإِنَّكَ مَمْلُوكٌ مَا بَقِيَ عَلَيْكَ شَىْءٌ‏.‏ وَأَجَازَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ شَهَادَةَ امْرَأَةٍ مُنْتَقِبَةٍ‏.‏

Al-Qasim, Al-Hasan, Ibn Sirin, Az-Zuhri and Ata permitted the witness of the blind. Ash-Shabi said, "The witness of a blind man is valid if he is intelligent and witty." Al-Hakam said, "The witness of a blind man is certain things is to be accepted." Az-Zuhri said, "Suppose Ibn Abbas gave me a witness against me, would you reject his witness?" Ibn Abbas used to send a man to watch the sunset so that he might break his fast. He would ask about the dawn, and if he was informed that it was dawn, he would offer two Raka prayer. Sulaiman bin Yasar said, "I asked Aisha to admit me into her house and she recognized my voice and said, 'Sulaiman! Come in, as you are still a slave so long as you still owe part of the price of your manumission.'" Samura bin Jundab accepted the evidence of a veiled woman.

اور قاسم اور حسن بصری اور محمد بن سیرین اور زہری اور عطابن ابی رباح نے اندھے کی گواہی جائز رکھی اور شعبی نے کہا اگر اندھا عقل والا ہو تو اس کی گواہی درست ہے اور حکم بن عتیبہ نے کہا یعنی باتوں میں اندھے کی گواہی جائز ہوگی اور زہری نے کہا بھلا بتلاؤ اگر عبداللہ بن عباسؓ (جو اندھے ہو گئے تھے) کسی بات کی گواہی دیں تو تم منظور نہ کرو گے اور عبداللہ بن عباس ایک آدمی کو بھیجتے جب وہ کہتا سورج ڈوب گیا تو وہ روزہ افطار کرتے اور لوگوں سے پوچھتے کیا صبح ہو گی جب وہ کہتے ہاں ہو گی تو دو رکعتیں پڑھتے اور سلیمان بن یسار نے کہا (جو غلام تھے) میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا اندر آنے کی اجازت چاہی انہوں نے میری آواز پہچان لی اور فرمایا جب تک تجھ پر کچھ باقی ہے تو غلام ہے اور سمرہ بن جندب صحابی نے ایک نقاب ڈالی ہوئی عورت کی گواہی جائز رکھی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ سَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً يَقْرَأُ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ ‏"‏ رَحِمَهُ اللَّهُ، لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً، أَسْقَطْتُهُنَّ مِنْ سُورَةِ كَذَا وَكَذَا ‏"‏‏.‏ وَزَادَ عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ تَهَجَّدَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِي فَسَمِعَ صَوْتَ عَبَّادٍ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ ‏"‏ يَا عَائِشَةُ، أَصَوْتُ عَبَّادٍ هَذَا ‏"‏‏.‏ قُلْتُ نَعَمْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ ارْحَمْ عَبَّادًا ‏"‏‏.‏

Narrated By 'Aisha : The Prophet heard a man (reciting Qur'an) in the Mosque, and he said, "May Allah bestow His Mercy upon him. No doubt, he made me remember such-and such Verses of such-and-such Sura which I dropped (from my memory). Narrated 'Aisha: The Prophet performed the Tahajjud prayer in my house, and then he heard the voice of 'Abbas who was praying in the Mosque, and said, "O 'Aisha! Is this 'Abbad's voice?" I said, "Yes." He said, "O Allah! Be merciful to 'Abbad!"

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺنے ایک شخص کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا: ان پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے مجھے انہوں نے ا س وقت فلاں آیتیں یاد دلادیں۔ جنہیں میں فلاں فلاں سورتوں میں سے بھول گیا تھا۔عباد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبیﷺنے میرے گھر میں تہجد کی نماز پڑھی ۔ اس وقت آپﷺنے حضرت عباد رضی اللہ عنہ کی آواز سنی کہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپﷺنے پوچھا کہ اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! کیا یہ عباد کی آواز ہے ؟ میں نے کہا: جی ہاں ! آپﷺنے فرمایا: اے اللہ ! عباد پر رحم فرما۔


حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ـ أَوْ قَالَ حَتَّى تَسْمَعُوا ـ أَذَانَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ‏"‏‏.‏ وَكَانَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ رَجُلاً أَعْمَى، لاَ يُؤَذِّنُ حَتَّى يَقُولَ لَهُ النَّاسُ أَصْبَحْتَ‏.‏

Narrated By Abdullah bin Umar : The Prophet said, "Bilal pronounces the Adhan when it is still night (before dawn), so eat and drink till the next Adhan is pronounced (or till you hear Ibn Um Maktum's Adhan)." Ibn Um Maktum was a blind man who would not pronounce the Adhan till he was told that it was dawn.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: حضرت بلال رضی اللہ عنہ رات میں اذان دیتے ہیں ، اس لیے تم لوگ سحری کھا پی سکتے ہو یہاں تک کہ دوسری اذان دی جائے۔ یا (یہ فرمایا) یہاں تک کہ عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان سن لو۔حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہوگئی ہے ،وہ اذان نہیں دیتے تھے۔


حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَدِمَتْ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَقْبِيَةٌ فَقَالَ لِي أَبِي مَخْرَمَةُ انْطَلِقْ بِنَا إِلَيْهِ عَسَى أَنْ يُعْطِيَنَا مِنْهَا شَيْئًا‏.‏ فَقَامَ أَبِي عَلَى الْبَابِ فَتَكَلَّمَ، فَعَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم صَوْتَهُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَمَعَهُ قَبَاءٌ وَهُوَ يُرِيهِ مَحَاسِنَهُ وَهُوَ يَقُولَ ‏"‏ خَبَأْتُ هَذَا لَكَ، خَبَأْتُ هَذَا لَكَ ‏"‏‏.‏

Narrated By Al-Miswar bin Makhrama : Some outer garments were received the Prophet and my father (Makhrama) said to me, "Let us go to the Prophet so that he may give us something from the garments." So, my father stood at the door and spoke. The Prophet recognized his voice and came out carrying a garment and telling Makhrama the good qualities of that garment, adding, "I have kept this for you, I have sent this for you."

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺکے یہاں چند قبائیں آئیں تو مجھ سے میرے والد مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ساتھ رسول اللہﷺکی خدمت میں چلو۔ ممکن ہے کہ آپﷺ ان میں سے کوئی مجھے بھی عنایت فرمائیں ۔میرے والد (آپﷺکے) دروازے پر کھڑے ہوگئے اور باتیں کرنے لگے۔ آپﷺنے ان کی آواز پہچان لی اور باہر تشریف لائے ، آپﷺکے پاس ایک قبا بھی تھی، آپ اس کی خوبیان بیان کرنے لگے ، اور فرمایا: میں نے یہ تمہارے ہی لیے الگ کر رکھی تھی، صرف تمہارے ہی لیے۔

Chapter No: 12

باب شَهَادَةِ النِّسَاءِ

The witness of women.

باب :عورتوں کی گواہی کا بیان

وَقَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ‏}‏

And the Statement of Allah, "... And if there are not two men (available), then a man and two women ..." (V.2:282)

اور اللہ تعالٰی نے (سورت بقرہ میں )فرمایا اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد دو عورتیں سہی۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدٌ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ ‏"‏‏.‏ قُلْنَا بَلَى‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Said Al-Khudri : The Prophet said, "Isn't the witness of a woman equal to half of that of a man?" The women said, "Yes." He said, "This is because of the deficiency of a woman's mind."

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے آدھے کے برابر نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں ۔ آپﷺنے فرمایا: یہی تو ان کی عقل کا نقصان ہے۔

Chapter No: 13

باب شَهَادَةِ الإِمَاءِ وَالْعَبِيدِ

The witness of male and female slaves.

باب : لونڈی غلاموں کی گواہی کا بیان

وَقَالَ أَنَسٌ شَهَادَةُ الْعَبْدِ جَائِزَةٌ إِذَا كَانَ عَدْلاً وَأَجَازَهُ شُرَيْحٌ وَزُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى‏.‏ وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ شَهَادَتُهُ جَائِزَةٌ، إِلاَّ الْعَبْدَ لِسَيِّدِهِ‏.‏ وَأَجَازَهُ الْحَسَنُ وَإِبْرَاهِيمُ فِي الشَّىْءِ التَّافِهِ‏.‏ وَقَالَ شُرَيْحٌ كُلُّكُمْ بَنُو عَبِيدٍ وَإِمَاءٍ‏.‏

Anas said, "The witness of a slave is to be trusted, provided he is a just, well-reputed man." Shuraih and Zurara bin Aufa considered it permissible. Ibn Sirin considered the witness of a slave permissible except when in favour of his master. Al-Hasan and Ibrahim considered it permissible in minor matters. Shuraih said "You are all the sons of slaves and slave-girls."

اور انسؓ بن مالک نے کہا اگر غلام عادل ہو تو اس کی گواہی جائز ہے اور شر یح قاضی اور زرارہ بن ابی اوفی نے بھی اس کو بھی جائز رکھا ہے اور ابن سیرین نے کہا غلام کی گواہی جائز ہے مگر اپنے مالک کے فائدے کے لیے جائز نہیں اور امام حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے کم قیمت حقیر چیز میں اس کی گواہی جائز رکھی اور شریح نے کہا تم سب لوگ لونڈی غلام کی اولاد ہو ۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،‏.‏ وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ، أَوْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ، أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ يَحْيَى بِنْتَ أَبِي إِهَابٍ قَالَ فَجَاءَتْ أَمَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا‏.‏ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ فَتَنَحَّيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ قَالَ ‏"‏ وَكَيْفَ وَقَدْ زَعَمَتْ أَنْ قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا ‏"‏‏.‏ فَنَهَاهُ عَنْهَا‏.‏

Narrated By Uqba bin Al-Harith : That he had married Um Yahya bint Abu Ihab. He said. "A black slave-lady came and said, 'I suckled you both.' I then mentioned that to the Prophet who turned his face aside." Uqba further said, "I went to the other side and told the Prophet about it. He said, 'How can you (keep her as your wife) when the lady has said that she suckled both of you (i.e. you and your wife?)" So, the Prophet ordered him to divorce her.

ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا مجھ سے عقبہ بن حارث نے بیان کیا یا میں نے یہ حدیث ان (عقبہ بن حارث) سے سنی کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک سیاہ رنگ والی باندی آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہﷺسے کیا ، تو آپﷺنے میری طرف سے منہ پھیر لیا ، پس میں جدا ہوگیا ۔ میں نے پھر آپ ﷺکے سامنے جاکر اس کا ذکر کیا ، تو آپﷺنے فرمایا: اب (نکاح ) کیسے (باقی رہ سکتا ہے) جبکہ تمہیں اس عورت نے بتادیا ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ چنانچہ آپﷺنے انہیں ام یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھنے سے منع فرمادیا۔

Chapter No: 14

باب شَهَادَةِ الْمُرْضِعَةِ

The witness of a wet nurse.

باب : صرف دودھ پلانے والی کی گواہی کافی ہونا

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا‏.‏ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ وَكَيْفَ وَقَدْ قِيلَ دَعْهَا عَنْكَ ‏"‏ أَوْ نَحْوَهُ‏.‏

Narrated By 'Uqba bin Al-Harith : I married a woman and later on a woman came and said, "I suckled you both." So, I went to the Prophet (to ask him about it). He said, "How can you (keep her as a wife) when it has been said (that you were foster brother and sister)? Leave (divorce) her.

حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تھی۔ پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا ۔ اس لیے میں نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپﷺنے فرمایا: جب تمہیں بتادیا گیا ، تو پھر اب اور کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اپنی بیوی کو اپنے سے جدا کردے یا اسی طرح کے الفاظ آپﷺنے فرمائے۔

Chapter No: 15

باب تَعْدِيلِ النِّسَاءِ بَعْضِهِنَّ بَعْضًا

The women's attesting the honourable record of each other.

باب: عورتیں عورتوں کا تزکیہ کر سکتی ہیں (یعنی ان کی پاکیزگی اور ثقاہت بیان کر سکتی ہیں )

حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ وَأَفْهَمَنِي بَعْضَهُ أَحْمَدُ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا، فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِنْهُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ أَوْعَى مِنْ بَعْضٍ، وَأَثْبَتُ لَهُ اقْتِصَاصًا، وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ عَائِشَةَ، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا‏.‏ زَعَمُوا أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزَاةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَهُ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجٍ وَأُنْزَلُ فِيهِ، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ، وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ، آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ، فَلَمَسْتُ صَدْرِي، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ أَظْفَارٍ قَدِ انْقَطَعَ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي، فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ، فَأَقْبَلَ الَّذِينَ يَرْحَلُونَ لِي، فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ، وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يَثْقُلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ، وَإِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ حِينَ رَفَعُوهُ ثِقَلَ الْهَوْدَجِ فَاحْتَمَلُوهُ وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا، فَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنْزِلَهُمْ وَلَيْسَ فِيهِ أَحَدٌ، فَأَمَمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَىَّ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ غَلَبَتْنِي عَيْنَاىَ فَنِمْتُ، وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَأَتَانِي، وَكَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، فَوَطِئَ يَدَهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ، حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُعَرِّسِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى الإِفْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ بِهَا شَهْرًا، يُفِيضُونَ مِنْ قَوْلِ أَصْحَابِ الإِفْكِ، وَيَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لاَ أَرَى مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَمْرَضُ، إِنَّمَا يَدْخُلُ فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ كَيْفَ تِيكُمْ ‏"‏‏.‏ لاَ أَشْعُرُ بِشَىْءٍ مِنْ ذَلِكَ حَتَّى نَقَهْتُ، فَخَرَجْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ مُتَبَرَّزُنَا، لاَ نَخْرُجُ إِلاَّ لَيْلاً إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا، وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الأُوَلِ فِي الْبَرِّيَّةِ أَوْ فِي التَّنَزُّهِ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ بِنْتُ أَبِي رُهْمٍ نَمْشِي، فَعَثُرَتْ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ، أَتَسُبِّينَ رَجُلاً شَهِدَ بَدْرًا فَقَالَتْ يَا هَنْتَاهْ أَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالُوا فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الإِفْكِ، فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي دَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمَ فَقَالَ ‏"‏ كَيْفَ تِيكُمْ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ ائْذَنْ لِي إِلَى أَبَوَىَّ‏.‏ قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَتَيْتُ أَبَوَىَّ فَقُلْتُ لأُمِّي مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِي عَلَى نَفْسِكِ الشَّأْنَ، فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلاَّ أَكْثَرْنَ عَلَيْهَا‏.‏ فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَلَقَدْ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبِتُّ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، ثُمَّ أَصْبَحْتُ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ، يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ عَلَيْهِ بِالَّذِي يَعْلَمُ فِي نَفْسِهِ مِنَ الْوُدِّ لَهُمْ، فَقَالَ أُسَامَةُ أَهْلُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ نَعْلَمُ وَاللَّهِ إِلاَّ خَيْرًا، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يُضَيِّقِ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَسَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ‏.‏ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَرِيرَةَ فَقَالَ ‏"‏ يَا بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ فِيهَا شَيْئًا يَرِيبُكِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ بَرِيرَةُ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنْ رَأَيْتُ مِنْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنِ الْعَجِينَ فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ‏.‏ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ يَوْمِهِ، فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَىٍّ ابْنِ سَلُولَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ خَيْرًا، وَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ مَعِي ‏"‏‏.‏ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا وَاللَّهِ أَعْذِرُكَ مِنْهُ، إِنْ كَانَ مِنَ الأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا فِيهِ أَمْرَكَ‏.‏ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ، وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلاً صَالِحًا وَلَكِنِ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ، لاَ تَقْتُلُهُ وَلاَ تَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ فَقَالَ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ‏.‏ فَثَارَ الْحَيَّانِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى الْمِنْبَرِ فَنَزَلَ فَخَفَّضَهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ، وَبَكَيْتُ يَوْمِي لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، فَأَصْبَحَ عِنْدِي أَبَوَاىَ، قَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا حَتَّى أَظُنُّ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي ـ قَالَتْ ـ فَبَيْنَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي إِذِ اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَأَذِنْتُ لَهَا، فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجَلَسَ، وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مِنْ يَوْمِ قِيلَ فِيَّ مَا قِيلَ قَبْلَهَا، وَقَدْ مَكُثَ شَهْرًا لاَ يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي شَىْءٌ ـ قَالَتْ ـ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ يَا عَائِشَةُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ‏"‏‏.‏ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً وَقُلْتُ لأَبِي أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَقُلْتُ لأُمِّي أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيمَا قَالَ‏.‏ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَتْ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لاَ أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ فَقُلْتُ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمْ سَمِعْتُمْ مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ، وَوَقَرَ فِي أَنْفُسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ، وَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ‏.‏ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَبَرِيئَةٌ لاَ تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ، وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلاً إِلاَّ أَبَا يُوسُفَ إِذْ قَالَ ‏{‏فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ‏}‏ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ عَلَى فِرَاشِي، وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَرِّئَنِي اللَّهُ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا ظَنَنْتُ أَنْ يُنْزِلَ فِي شَأْنِي وَحْيًا، وَلأَنَا أَحْقَرُ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يُتَكَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فِي أَمْرِي، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ، فَوَاللَّهِ مَا رَامَ مَجْلِسَهُ وَلاَ خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي يَوْمٍ شَاتٍ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ يَضْحَكُ، فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ لِي ‏"‏ يَا عَائِشَةُ، احْمَدِي اللَّهَ فَقَدْ بَرَّأَكِ اللَّهُ ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَقُلْتُ لاَ وَاللَّهِ، لاَ أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلاَ أَحْمَدُ إِلاَّ اللَّهَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ‏}‏ الآيَاتِ، فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَاللَّهِ لاَ أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ مَا قَالَ لِعَائِشَةَ‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏غَفُورٌ رَحِيمٌ‏}‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلَى، وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ الَّذِي كَانَ يُجْرِي عَلَيْهِ‏.‏ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَسْأَلُ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي، فَقَالَ ‏"‏ يَا زَيْنَبُ، مَا عَلِمْتِ مَا رَأَيْتِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلاَّ خَيْرًا، قَالَتْ وَهْىَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ‏.‏ قَالَ وَحَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، مِثْلَهُ‏.‏ قَالَ وَحَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، مِثْلَهُ‏.‏

Narrated By 'Aisha : (The wife of the Prophet) "Whenever Allah's Apostle intended to go on a journey, he would draw lots amongst his wives and would take with him the one upon whom the lot fell. During a Ghazwa of his, he drew lots amongst us and the lot fell upon me, and I proceeded with him after Allah had decreed the use of the veil by women. I was carried in a Howdah (on the camel) and dismounted while still in it. When Allah's Apostle was through with his Ghazwa and returned home, and we approached the city of Medina, Allah's Apostle ordered us to proceed at night. When the order of setting off was given, I walked till I was past the army to answer the call of nature. After finishing I returned (to the camp) to depart (with the others) and suddenly realized that my necklace over my chest was missing. So, I returned to look for it and was delayed because of that. The people who used to carry me on the camel, came to my Howdah and put it on the back of the camel, thinking that I was in it, as, at that time, women were light in weight, and thin and lean, and did not use to eat much. So, those people did not feel the difference in the heaviness of the Howdah while lifting it, and they put it over the camel. At that time I was a young lady. They set the camel moving and proceeded on. I found my necklace after the army had gone, and came to their camp to find nobody. So, I went to the place where I used to stay, thinking that they would discover my absence and come back in my search. While in that state, I felt sleepy and slept. Safwan bin Mu'attal As-Sulami Adh-Dhakwani was behind the army and reached my abode in the morning. When he saw a sleeping person, he came to me, and he used to see me before veiling. So, I got up when I heard him saying, "Inna lil-lah-wa inn a ilaihi rajiun (We are for Allah, and we will return to Him)." He made his camel knell down. He got down from his camel, and put his leg on the front legs of the camel and then I rode and sat over it. Safwan set out walking, leading the camel by the rope till we reached the army who had halted to take rest at midday. Then whoever was meant for destruction, fell into destruction, (some people accused me falsely) and the leader of the false accusers was 'Abdullah bin Ubai bin Salul. After that we returned to Medina, and I became ill for one month while the people were spreading the forged statements of the false accusers. I was feeling during my ailment as if I were not receiving the usual kindness from the Prophet which I used to receive from him when I got sick. But he would come, greet and say, 'How is that (girl)?' I did not know anything of what was going on till I recovered from my ailment and went out with Um Mistah to the Manasi where we used to answer the call of nature, and we used not to go to answer the call of nature except from night to night and that was before we had lavatories near to our houses. And this habit of ours was similar to the habit of the old 'Arabs in the open country (or away from houses). So. I and Um Mistah bint Ruhm went out walking. Um Mistah stumbled because of her long dress and on that she said, 'Let Mistah be ruined.' I said, 'You are saying a bad word. Why are you abusing a man who took part in (the battle of) Badr?' She said, 'O Hanata (you there) didn't you hear what they said?' Then she told me the rumours of the false accusers. My sickness was aggravated, and when I returned home, Allah's Apostle came to me, and after greeting he said, 'How is that (girl)?' I requested him to allow me to go to my parents. I wanted then to be sure of the news through them I Allah's Apostle allowed me, and I went to my parents and asked my mother, 'What are the people talking about?' She said, 'O my daughter! Don't worry much about this matter. By Allah, never is there a charming woman loved by her husband who has other wives, but the women would forge false news about her.' I said, 'Glorified be Allah! Are the people really taking of this matter?' That night I kept on weeping and could not sleep till morning. In the morning Allah's Apostle called Ali bin Abu Talib and Usama bin Zaid when he saw the Divine Inspiration delayed, to consul them about divorcing his wife (i.e. 'Aisha). Usama bin Zaid said what he knew of the good reputation of his wives and added, 'O Allah's Apostle! Keep you wife, for, by Allah, we know nothing about her but good.' 'Ali bin Abu Talib said, 'O Allah's Apostle! Allah has no imposed restrictions on you, and there are many women other than she, yet you may ask the woman-servant who will tell you the truth.' On that Allah's Apostle called Buraira and said, 'O Burair. Did you ever see anything which roused your suspicions about her?' Buraira said, 'No, by Allah Who has sent you with the Truth, I have never seen in her anything faulty except that she is a girl of immature age, who sometimes sleeps and leaves the dough for the goats to eat.' On that day Allah's Apostle ascended the pulpit and requested that somebody support him in punishing 'Abdullah bin Ubai bin Salul. Allah's Apostle said, 'Who will support me to punish that person ('Abdullah bin Ubai bin Salul) who has hurt me by slandering the reputation of my family? By Allah, I know nothing about my family but good, and they have accused a person about whom I know nothing except good, and he never entered my house except in my company.' Sad bin Mu'adh got up and said, 'O Allah's Apostle! by Allah, I will relieve you from him. If that man is from the tribe of the Aus, then we will chop his head off, and if he is from our brothers, the Khazraj, then order us, and we will fulfil your order.' On that Sad bin 'Ubada, the chief of the Khazraj and before this incident, he had been a pious man, got up, motivated by his zeal for his tribe and said, 'By Allah, you have told a lie; you cannot kill him, and you will never be able to kill him.' On that Usaid bin Al-Hadir got up and said (to Sad bin 'Ubada), 'By Allah! you are a liar. By Allah, we will kill him; and you are a hypocrite, defending the hypocrites.' On this the two tribes of Aus and Khazraj got excited and were about to fight each other, while Allah's Apostle was standing on the pulpit. He got down and quietened them till they became silent and he kept quiet. On that day I kept on weeping so much so that neither did my tears stop, nor could I sleep. In the morning my parents were with me and I had wept for two nights and a day, till I thought my liver would burst from weeping. While they were sitting with me and I was weeping, an Ansari woman asked my permission to enter, and I allowed her to come in. She sat down and started weeping with me. While we were in this state, Allah's Apostle came and sat down and he had never sat with me since the day they forged the accusation. No revelation regarding my case came to him for a month. He recited Tashah-hud (i.e. None has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is His Apostle) and then said, 'O 'Aisha! I have been informed such-and-such about you; if you are innocent, then Allah will soon reveal your innocence, and if you have committed a sin, then repent to Allah and ask Him to forgive you, for when a person confesses his sin and asks Allah for forgiveness, Allah accepts his repentance.' When Allah's Apostle finished his speech my tears ceased completely and there remained not even a single drop of it. I requested my father to reply to Allah's Apostle on my behalf. My father said, By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle.' I said to my mother, 'Talk to Allah's Apostle on my behalf.' She said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle. I was a young girl and did not have much knowledge of the Qur'an. I said. 'I know, by Allah, that you have listened to what people are saying and that has been planted in your minds and you have taken it as a truth. Now, if I told you that I am innocent and Allah knows that I am innocent, you would not believe me and if I confessed to you falsely that I am guilty, and Allah knows that I am innocent you would believe me. By Allah, I don't compare my situation with you except to the situation of Joseph's father (i.e. Jacob) who said, 'So (for me) patience is most fitting against that which you assert and it is Allah (Alone) whose help can be sought.' Then I turned to the other side of my bed hoping that Allah would prove my innocence. By Allah I never thought that Allah would reveal Divine Inspiration in my case, as I considered myself too inferior to be talked of in the Holy Qur'an. I had hoped that Allah's Apostle might have a dream in which Allah would prove my innocence. By Allah, Allah's Apostle had not got up and nobody had left the house before the Divine Inspiration came to Allah's Apostle. So, there overtook him the same state which used to overtake him, (when he used to have, on being inspired divinely). He was sweating so much so that the drops of the sweat were dropping like pearls though it was a (cold) wintry day. When that state of Allah's Apostle was over, he was smiling and the first word he said, 'Aisha! Thank Allah, for Allah has declared your innocence.' My mother told me to go to Allah's Apostle. I replied, 'By Allah I will not go to him and will not thank but Allah.' So Allah revealed: "Verily! They who spread the slander are a gang among you..." (24.11) When Allah gave the declaration of my Innocence, Abu Bakr, who used to provide for Mistah bin Uthatha for he was his relative, said, 'By Allah, I will never provide Mistah with anything because of what he said about 'Aisha.' But Allah later revealed: "And let not those who are good and wealthy among you swear not to help their kinsmen, those in need and those who left their homes in Allah's Cause. Let them forgive and overlook. Do you not wish that Allah should forgive you? Verily! Allah is Oft-forgiving, Most Merciful." (24.22) After that Abu Bakr said, 'Yes ! By Allah! I like that Allah should forgive me,' and resumed helping Mistah whom he used to help before. Allah's Apostle also asked Zainab bint Jahsh (i.e. the Prophet's wife about me saying, 'What do you know and what did you see?' She replied, 'O Allah's Apostle! I refrain to claim hearing or seeing what I have not heard or seen. By Allah, I know nothing except goodness about 'Aisha." 'Aisha further added "Zainab was competing with me (in her beauty and the Prophet's love), yet Allah protected her (from being malicious), for she had piety."

نبی ﷺکی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ قصہ بیان کیا جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی لیکن اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اس سے بری قرار دیا۔ امام زہری رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ تمام راویوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا ایک ایک حصہ بیان کیا تھا ، بعض راویوں کو بعض دوسرے راویوں سے حدیث زیادہ یاد تھی اور وہ بیان بھی زیادہ بہتر طریقہ پر کرسکتے تھے ۔ بہر حال ان سب راویوں سے میں نے یہ حدیث پوری طرح محفوظ کرلی تھی جسے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے تھے۔ ان راویوں میں ہر ایک کی روایت سے دوسرے راوی کی تصدیق ہوتی تھی۔ ان کا بیان تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ ﷺجب سفر میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے ۔ جس کا پانسہ نکلتا ، سفر میں وہی آپ ﷺکے ساتھ جاتی ۔چنانچہ ایک غزوہ کے موقع جس میں آپﷺبھی شرکت کررہے تھے ، آپ ﷺنے قرعہ ڈلوایا اور میرا نام نکلا ۔ اب میں آپﷺکے ساتھ تھی۔ یہ واقعہ پردے کی آیت کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ خیر میں ایک ہودج میں سوار رہتی ، اسی میں بیٹھے بیٹھے مجھ کو اتارا جاتا تھا۔ اس طرح ہم چلتے رہے ۔ پھر جب رسول اللہﷺجہاد سے فارغ ہوکر واپس ہوئے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات آپﷺنے کوچ کا اعلان کروایا ۔ میں یہ حکم سنتے ہی اٹھی اور لشکر سے آگے بڑھ گئی ۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو کجاوے کے پاس آگئی ۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو میرا ظفار کے کالے نگینوں کا ہار موجود نہیں تھا۔ اس لیے میں وہاں دوبارہ پہنچی (جہاں سے قضاء حاجت کےلیے گئی تھی)اور میں نے ہار کو تلاش کیا ۔ اس تلاش میں دیر ہوگئی ۔ اس عرصے میں وہ اصحاب جو مجھے سوار کراتے تھے ، آئے اور میرا ہودج اٹھاکر میرے اونٹ پر رکھ دیا۔وہ یہی سمجھے کہ میں اس میں بیٹھی ہوں ، ان دنوں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں، بھاری بھر کم نہیں ۔ گوشت ان میں زیادہ نہیں رہتا تھا کیونکہ بہت معمولی غذا کھاتی تھیں۔ اس لیے ان لوگوں نے جب ہودج کو اٹھایا تو انہیں اس کے بوجھ میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا ۔ میں یوں بھی نو عمر لڑکی تھی۔ چنانچہ اصحاب نے اونٹ کو ہانک دیا اور خود بھی اس کے ساتھ چلنے لگے۔ جب لشکر روانہ ہوچکا تو مجھے اپنا ہار ملا اور میں پڑاؤ کی جگہ آئی ۔ لیکن وہاں کوئی آدمی موجود نہ تھا۔اس لیے میں اس جگہ گئی جہاں پہلے میرا قیام تھا۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہیں پائیں گے تو یہیں لوٹ کے آئیں گے ۔ (اپنی جگہ پہنچ کر ) میں یوں ہی بیٹھی ہوئی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سوگئی ۔ تو صفوان بن معطل سلمیٰ ذکوانی لشکر کے پیچھے تھے ، وہ میری طرف سے گزرے تو ایک سوئے ہوئے انسان کا سایہ نظر پڑا اس لیے اور قریب پہنچے ۔ پردہ کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ ان کے انا للہ پڑھنے سے میں بیدا ر ہوگئی ۔ آخر انہوں نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اس کے اگلے پاؤں کو موڑ دیا ۔ چنانچہ میں سوار ہوگئی ، اب وہ اونٹ پر مجھے بٹھائے ہوئے خود اس کے آگے آگے چلنے لگے ۔ اسی طرح ہم جب لشکر کے قریب پہنچے تو لوگ بھری دوپہر میں آرام کےلیے پڑاؤ ڈال چکے تھے۔(اتنی ہی بات تھی جس کی بنیاد پر ) جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا اور تہمت کے معاملے میں پیش پیش عبد اللہ بن ابی بن سلول (منافق) تھا ۔ پھر ہم مدینہ میں آگئے اور میں ایک مہینے تک بیمار رہی ۔ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا خوب چرچا ہورہا تھا۔اپنی بیماری کے دوران مجھے اس سے بھی بڑا شبہ ہوتا تھا کہ ان دنوں رسول اللہﷺکا وہ لطف و کرم بھی میں نہیں دیکھتی تھی جن کا مشاہدہ اپنی پچھلی بیماریوں میں کرچکی تھی۔ پس آپﷺ گھر میں جب آتے تو سلام کرتے اور صرف اتنا دریافت فرمالیتے ، مزاج کیسا ہے ؟ جو باتیں تہمت لگانے والے پھیلا رہے تھے ان میں سے کوئی بات مجھے معلوم نہیں تھی۔جب میری صحت کچھ ٹھیک ہوئی تو (ایک رات ) میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی ۔ یہ ہماری قضاء حاجت کی جگہ تھی، ہم یہاں صرف رات ہی میں آتے تھے ۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ابھی ہمارے گھروں کے قریب بیت الخلاء نہیں بنے تھے ۔ میدان میں جانے کے سلسلے میں (قضاء حاجت کےلیے)ہمارا طرز عمل قدیم عرب کی طرح تھا ،میں اور ام مسطح بنت ابی رھم چل رہے تھے کہ وہ اپنی چادر میں الجھ کر گر پڑیں اور ان کی زبان سے نکل گیا ، مسطح برباد ہو۔ میں نے کہا: بری بات آپ نے اپنی زبان سے نکالی۔ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہیں آپ ، جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا۔ وہ کہنے لگیں ، اے ! جو کچھ ان سب نے کہا ہے وہ آپ نے نہیں سنا ، پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی ساری باتیں سنائیں اور ان باتوں کو سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی ۔ میں جب اپنے گھر واپس ہوئی تو رسول اللہﷺاندر تشریف لائے اور دریافت فرمایا ، مزاج کیسا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے والدین کے یہاں جانے کی اجازت دیجئے ۔ اس وقت میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں گی۔آپﷺنے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں جب گھر آئی تو میں نے اپنی والدہ (ام رومان) سے ان باتوں کے متعلق پوچھا ، جو لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ انہوں نے فرمایا: بیٹی ! اس طرح کی باتوں کی پرواہ نہ کرنا ، اللہ کی قسم ! شاید ہی ایسا ہو کہ تجھ جیسی حسین و خوبصورت عورت کسی مرد کے گھر میں ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں ، پھر بھی اس طرح کی باتیں نہ پھیلائی جایا کریں۔ میں نے کہا سبحان اللہ ! (سوکنوں کا کیا ذکر) وہ تو دوسرے لوگ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ وہ رات میں نے وہیں گزاری ، صبح تک میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آئی ۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیوی کو جدا کرنے کے سلسلے میں مشورہ کرنے کے لیے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بلوایا ۔ کیونکہ وحی اب تک نہیں آئی تھی۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپﷺکی بیویوں سے آپ کی محبت کا علم تھا ۔ اس لیے اسی کے مطابق مشورہ دیا اور کہا : آپﷺکی بیوی یا رسو ل اللہﷺ!اللہ کی قسم ، ہم ان کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسو لﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے ، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں ۔ باندی سے بھی آپﷺدریافت فرما لیجئے ، و ہ سچی بات بیان کریں گی ۔ چنانچہ رسو ل اللہﷺنے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ کو بلایا (جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاص خادمہ تھی) اور دریافت فرمایا کہ بریرہ ! کیا تم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میں کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تمہیں شبہ ہوا ہو ۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ۔ میں نے ان میں کوئی چیز نہیں دیکھی جس کا عیب میں ان پر لگاسکوں ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہیں آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں پھر بکری آتی ہے اور کھالیتی ہے۔ رسول اللہﷺنے اسی دن (منبر پر )کھڑے ہوکر عبد اللہ بن ابی ابن سلول کے بارے میں مدد چاہی ۔ آپﷺنے فرمایا: ایک ایسے شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیت اور تکلیف دہی کا سلسلہ اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ چکا ہے ۔ اللہ کی قسم ! اپنی بیوی کے بارے میں خیر کے سوا اور کوئی چیز مجھے معلوم نہیں۔ پھر نام بھی اس معاملے میں انہوں نے ایک ایسے آدمی کا لیا ہے جس کے بارے میں میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ خود میرے گھر میں جب بھی وہ آئے ہیں تو میرے ساتھ ہی آئے ۔ (یہ سن کر ) حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ!واللہ میں آپ کی مدد کروں گا اگر وہ شخص اوس قبیلہ سے ہوگا تو ہم اس کی گردن مار دیں گے ۔ اور اگر وہ خزرج کا آدمی ہوا تو آپ ہمیں حکم دیں ، جو بھی آپ کا حکم ہوگا ہم تعمیل کریں گے ۔ اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے ، وہ اس سے قبل اب تک بہت صالح تھے لیکن اس وقت حمیت سے غصہ ہوگئے تھے اور (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) سے کہنے لگے اللہ کے دوام و بقا کی قسم!تم جھوٹ بولتے ہو، نہ تم اسے قتل کرسکتے ہو اور نہ تمہارے اندر اس کی طاقت ہے ۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے (جو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے ) اور کہنے لگے اللہ کی قسم ! ہم اسے قتل کردیں گے ، کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ تم بھی منافق ہو ۔ کیونکہ منافقوں کی طرفداری کررہے ہو ۔ اس پر اور س و خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھنے ہی والے تھے کہ رسو ل اللہﷺجو ابھی تک منبر پر تشریف فرما تھے ۔ منبر سے اترے اور لوگوں کو نرم کیا ۔ اب سب لوگ خاموش ہوگئے اور آپ بھی خاموش ہوگئے ۔ میں اس دن بھی روتی رہی۔ نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی ۔ پھر میرےپاس میرے ماں باپ آئے ۔ میں دو راتوں اور ایک دن سے برابر روتی رہی تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرے دل کے ٹکڑے ہوجائیں گے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ ماں باپ میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک انصاری عورت نے اجازت چاہی اور میں نےانہیں اندر آنے کی اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم سب اسی طرح تھے کہ رسو ل اللہ ﷺاندر تشر یف لائے اور بیٹھ گئے ۔ جس دن سے میرے متعلق وہ باتیں کہی جارہی تھیں جو کبھی نہیں کہی گئیں تھیں ۔ اس دن سے میرے پاس آپﷺنہیں بیٹھے تھے ۔ آپﷺایک مہینے تک انتظار کرتے رہے تھے ۔ لیکن میرے معاملے میں کوئی وحی آپﷺپر نازل نہیں ہوئی تھی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا پھر آپﷺنے تشہد پڑھی اور فرمایا: اے عائشہ ! تمہارے متعلق مجھے یہ یہ باتیں معلوم ہوئیں ۔ اگر تم اس معاملے میں بری ہو تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری برأت ظاہر کردے گا اور اگر تم نے گناہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہو اور اس کے حضور توبہ کرو کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرکے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے ۔جونہی آپﷺنے اپنی گفتگو ختم کی ، میرے آنسو اس طرح خشک ہوگئے کہ اب ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ رسول اللہﷺسے میرے بارے میں کہیے۔ لیکن انہوں نے کہا: قسم اللہ کی ! مجھے نہیں معلوم کہ آپﷺسے مجھے کیا کہنا چاہیے ۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے جو کچھ فرمایاا س کے متعلق آپﷺسے آپ ہی کچھ کہئے ، انہوں نے بھی یہی فرمادیا کہ قسم اللہ کی ! مجھے معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہﷺسے کیا کہنا چاہیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نو عمر لڑکی تھی ۔ قرآن مجھے زیادہ یاد نہیں تھا۔ میں نے کہا اللہ گواہ ہے ، مجھے معلوم ہوا کہ آپ لوگوں نے بھی لوگوں کی افواہ سنی ہیں ، اور آپ لوگوں کے دلوں میں وہ بات بیٹھ گئی ہے اور اس کی تصدیق بھی آپ لوگ کرچکے ہیں ، اس لیے اب اگر میں کہوں کہ میں (اس بہتان سے)بری ہوں ، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی اس سے بری ہوں تو آپ لوگ میری اس معاملے میں تصدیق نہیں کریں گے ۔ لیکن اگر میں (گناہ کو ) اپنے ذمہ لے لوں ، حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں ، تو آپ لوگ میری بات کی تصدیق کردیں گے ۔ قسم اللہ کی ! میں اس وقت اپنی اور آپ لوگوں کی کوئی مثال یوسف علیہ السلام کے والد (یعقوب علیہ السلام) کے سوا نہیں پاتی کہ انہوں نے بھی فرمایا تھا " پس صبر جمیل " صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم کہتے ہو اس معاملے میں میرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے " ۔ اس کے بعد بستر پر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا اور مجھے امید تھی کہ خود اللہ تعالیٰ میری برأت کرے گا۔لیکن میرا یہ خیال کبھی نہ تھا کہ میرے متعلق وحی نازل ہوگی ۔ میری اپنی نظر میں حیثیت اس سے بہت معمولی تھی کہ قرآن مجید میں میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو۔ ہاں مجھے اتنی امید ضرور تھی کہ آپ ﷺکوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ مجھے بری فرمادے گا۔اللہ گواہ ہے کہ ابھی آپﷺاپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے اور نہ اس وقت گھر میں موجود کوئی باہر نکلا تھا کہ آپﷺپر وحی نازل ہونے لگی اور (شدت وحی سے) آپ جس طرح پسینے پسینے ہوجایا کرتے تھے وہی کیفیت آپ ﷺکی اب بھی تھی ۔ پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح آپﷺکے جسم مبارک سے گرنے لگے حالانکہ سردی کا موسم تھا ۔ جب وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو آپﷺہنس رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ ﷺکی زبان مبارک سے نکلا ، وہ یہ تھا کہ اے عائشہ! اللہ کی حمد بیان کرو کہ اس نے تمہیں بری قرار دے دیا ہے ۔ میری والدہ نے کہا بیٹی جا، رسول اللہﷺکے سامنے جاکر کھڑی ہوجا۔ میں نے کہا: نہیں ، قسم اللہ کی ! میں آپﷺکے پاس جاکر کھڑی نہیں ہوں گی اور میں تو صرف اللہ کی حمد و ثناء کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی "جن لوگوں نے تہمت تراشی کی ہے وہ تم ہی میں سے کچھ لوگ ہیں "۔ جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت میں یہ آیت نازل فرمائی ، تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے اخراجات قرابت کی وجہ سے خود ہی اٹھاتے تھے کہا کہ قسم اللہ کی اب میں مسطح پر کبھی کوئی چیز خرچ نہیں کروں گا کہ وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے میں شریک تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ۔ "تم میں سے صاحب فضل و صاحب مال لوگ قسم نہ کھائیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد غفور رحیم تک " حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! بس میری یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت کردے ۔ چنانچہ مسطح رضی اللہ عنہ کو جو آپ پہلے دیا کرتے تھے وہ پھر دینے لگے۔رسول اللہ ﷺنے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے متعلق پوچھا تھا آپﷺنے دریافت فرمایا کہ زینب ! تم (عائشہ کے متعلق ) کیا جانتی ہو؟ اور کیا دیکھا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں اپنے کان اور اپنی آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں ، اللہ گواہ ہے کہ میں نے ان میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہی میری برابر کی تھیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ کی وجہ سے بچالیا۔ یہ حدیث کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے۔

Chapter No: 16

باب إِذَا زَكَّى رَجُلٌ رَجُلاً كَفَاهُ

If only one man attests the (good) conduct of another, then it is sufficient.

باب: جب ایک مرد دوسرے مرد کو اچھا کہے تو یہ کافی ہے

وَقَالَ أَبُو جَمِيلَةَ وَجَدْتُ مَنْبُوذًا، فَلَمَّا رَآنِي عُمَرُ قَالَ عَسَى الْغُوَيْرُ أَبْؤُسًا‏.‏ كَأَنَّهُ يَتَّهِمُنِي قَالَ عَرِيفِي إِنَّهُ رَجُلٌ صَالِحٌ قَالَ كَذَاكَ، اذْهَبْ وَعَلَيْنَا نَفَقَتُهُ‏.‏

Abu Jamila said, "I found a foundling, and when Umar saw me he said, 'Perhaps what you intend to do will cause you trouble,' as if he was accusing me. My monitor said, 'He is really a pious man.' Umar said to me, 'If it is so, then go (and be the child's guardian) and we will provide for it (from the Muslims' treasury).'"

اور ابو جمیلہ (سنین ) نے کہا میں نے ایک لڑکا پڑایا یا حضرت عمرؓ نے مجھ کو دیکھا تو کہنے لگے ایسا نہ ہو یہ غار آفت کا غار ہو گویا انہوں نے مجھ پر برا گمان کیا پھر میرے نقیب نے ان سے کہانہیں یہ نیک بخت آدمی ہے جب انہوں نے کہا ایسا ہے تو بچہ لے جا اس کا خرچ ہم پر ہے ۔

حَدَّثَنَا ابْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَثْنَى رَجُلٌ عَلَى رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ وَيْلَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنَقَ صَاحِبِكَ ‏"‏‏.‏ مِرَارًا ثُمَّ قَالَ ـ ‏"‏ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، وَلاَ أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا، أَحْسِبُهُ كَذَا وَكَذَا إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَلِكَ مِنْهُ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Bakra : A man praised another man in front of the Prophet. The Prophet said to him, "Woe to you, you have cut off your companion's neck, you have cut off your companion's neck," repeating it several times and then added, "Whoever amongst you has to praise his brother should say, 'I think that he is so and so, and Allah knows exactly the truth, and I do not confirm anybody's good conduct before Allah, but I think him so and so,' if he really knows what he says about him."

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسو ل اللہﷺکے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کی ، تو آپﷺنے فرمایا: افسوس! تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی ۔ تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی ، کئی مرتبہ (آپﷺنے اسی طرح فرمایا) پھر فرمایا: کہ اگر کسی کےلیے اپنے کسی بھائی کی تعریف کرنی ضروری ہوجائے تویوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں ، آگے اللہ خوب جانتا ہے ، میں اللہ کے سامنے کسی کو بے عیب نہیں کہہ سکتا ، میں سمجھتا ہوں وہ ایسا ایسا ہے اگر اس کا حال جانتا ہو۔

Chapter No: 17

باب مَا يُكْرَهُ مِنَ الإِطْنَابِ فِي الْمَدْحِ وَلْيَقُلْ مَا يَعْلَمُ

What is hated of exaggeration in praising, and one should say only what he knows.

باب : کسی کی تعریف میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے جتنا جانتا ہو اتنا ہی کہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ سَمِعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَجُلاً يُثْنِي عَلَى رَجُلٍ، وَيُطْرِيهِ فِي مَدْحِهِ فَقَالَ ‏"‏ أَهْلَكْتُمْ ـ أَوْ قَطَعْتُمْ ـ ظَهْرَ الرَّجُلِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Musa Al-Ashari : The Prophet heard someone praising another and exaggerating in his praise. The Prophet said, "You have ruined or cut the man's back (by praising him so much).

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے سنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کررہا تھا اور مبالغہ سے کام لے رہا تھا تو رسو ل اللہﷺنے فرمایا: تم لوگوں نے اس شخص کو ہلاک کردیا ، اس کی پشت توڑ دی۔

Chapter No: 18

باب بُلُوغِ الصِّبْيَانِ وَشَهَادَتِهِمْ

The boys attaining the age of puberty and the validity of their witness.

باب : بچے کب جوان ہوتے ہیں اور ان کی گواہی درست ہے یا نہیں

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏وَإِذَا بَلَغَ الأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا‏}‏‏.‏ وَقَالَ مُغِيرَةُ احْتَلَمْتُ وَأَنَا ابْنُ ثِنْتَىْ عَشْرَةَ سَنَةً‏.‏ وَبُلُوغُ النِّسَاءِ فِي الْحَيْضِ لِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏وَاللاَّئِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ‏}‏ وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ أَدْرَكْتُ جَارَةً لَنَا جَدَّةً بِنْتَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ سَنَةً‏.‏

And the Statement of Allah, "And when the children among you come to puberty, then let them (also) ask for permission." (V.24:59) Al-Mughira said, "I attained puberty at the age of twelve." The attaining of puberty by women is with the start of menses, as is referred to by the Statement of Allah, "And those of your women as have passed the age of monthly courses, until they deliver ..." (V.65:4) Al-Hasan bin Salih said, "I saw a neighbouress of mine who became a grandmother at the age of twenty-one."

اور اللہ تعالٰی نے (سورت نور میں ) فرمایا اور جب تمہارے بچے احتلام کو پنہچ جائیں تو وہ بھی اجازت لیں اور مغیرہ بن مقسم نے کہا مجھے بارہ برس کی عمر میں احتلام ہونے لگا تھا اور عورتیں حیض سے آنے پر جوان ہو جاتی ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی نے(سورت طلاق میں ) فرمایا جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گی ہوں اخیر آیت یضعن حملھن تک اور حسن بن صالح نے کہا ہماری ایک ہمسائی تھی وہ اکیس برس کی عمر میں نانی ہو گئی تھی۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهْوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْنِي، ثُمَّ عَرَضَنِي يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَأَجَازَنِي‏.‏ قَالَ نَافِعٌ فَقَدِمْتُ عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهْوَ خَلِيفَةٌ، فَحَدَّثْتُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ إِنَّ هَذَا لَحَدٌّ بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ‏.‏ وَكَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ أَنْ يَفْرِضُوا لِمَنْ بَلَغَ خَمْسَ عَشْرَةَ‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : Allah's Apostle called me to present myself in front of him or the eve of the battle of Uhud, while I was fourteen years of age at that time, and he did not allow me to take part in that battle, but he called me in front of him on the eve of the battle of the Trench when I was fifteen years old, and he allowed me (to join the battle)." Nafi' said, "I went to 'Umar bin 'Abdul Aziz who was Caliph at that time and related the above narration to him, He said, "This age (fifteen) is the limit between childhood and manhood," and wrote to his governors to give salaries to those who reached the age of fifteen.

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر وہ رسول اللہ ﷺکے سامنے (جنگ پر جانے کےلیے ) پیش ہوئے تو انہیں اجازت نہیں ملی ، اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی۔ پھر غزوہ خندق کے موقع پر پیش ہوئے تو اجازت مل گئی ۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ نافع نے بیان کیا کہ جب میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے یہاں ان کی خلافت کے زمانے میں گیا تو میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان (پندرہ سال ہی کی ) حد ہے ۔ پھر انہوں نے اپنے حاکموں کو لکھا کہ جس بچے کی عمر پندرہ سال کی ہو جائے (اس کا فوجی وظیفہ ) بیت المال سےمقرر کردیں۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Said Al-Khudri : The Prophet said, "Bath on Friday is compulsory for those who have attained the age of puberty."

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺنے فرمایا: ہر بالغ پر جمعہ کے دن غسل واجب ہے۔

Chapter No: 19

باب سُؤَالِ الْحَاكِمِ الْمُدَّعِيَ هَلْ لَكَ بَيِّنَةٌ قَبْلَ الْيَمِينِ

The question of the judge to the plaintiff, "Do you have a proof?" before asking the defendant to take an oath.

باب : مدعا علیہ کو قسم دلانے سے پہلے حاکم کا مدعی سے پوچھنا تیرے پاس گواہ ہیں ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَقَالَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ فِيَّ وَاللَّهِ كَانَ ذَلِكَ، كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي، فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلَكَ بَيِّنَةٌ ‏"‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ ‏"‏ احْلِفْ ‏"‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذًا يَحْلِفَ وَيَذْهَبَ بِمَالِي‏.‏ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ‏.‏

Narrated By Abdullah : Allah's Apostle said, "If somebody takes a false oath in order to get the property of a Muslim (unjustly) by that oath, then Allah will be angry with him when he will meet Him." Al-Ash'ath informed me, "By Allah! This was said regarding me. There was a dispute about a piece of land between me and a man from the Jews who denied my right. I took him to the Prophet. Allah's Apostle asked me, 'Do you have an evidence?' I replied in the negative. He said to the Jew, 'Take an oath.' I said, 'O Allah's Apostle! He will surely take an oath and take my property unjustly." So, Allah revealed: "Verily! Those who purchase a little gain at the cost of Allah's covenant and their oaths..." (3.77)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا: جس شخص نے کوئی ایسی قسم کھائی جس میں وہ جھوٹا تھا ، کسی مسلمان کا مال چھیننے کےلیے ، تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا ۔انہوں نے بیان کیا کہ اس پر اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ گواہ ہے ، یہ حدیث میرے ہی متعلق آپﷺنے فرمائی تھی ۔ میرا ایک یہودی سے ایک زمین کا جھگڑا تھا۔ یہودی میرے حق کا انکار کررہا تھا۔اس لیے میں اسے نبی ﷺکی خدمت میں لایا ۔ آپﷺنے مجھ سے فرمایا: گواہی پیش کرنا تمہارے ہی ذمہ ہے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا ، گواہ تو میرے پاس نہیں ہیں۔ اس لیے آپﷺنے یہودی سے فرمایا: کہ پھر تم قسم کھاؤ ۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں بول پڑا ، اے اللہ کے رسول ﷺ! پھر تو یہ قسم کھالے گا اور میرا مال ہضم کرجائے گا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اسی واقعہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی "جو لوگ اللہ کے عہد اور قسموں سے معمولی پونجی خریدتے ہیں ۔ آخر آیت تک"


حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَقَالَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ فِيَّ وَاللَّهِ كَانَ ذَلِكَ، كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي، فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلَكَ بَيِّنَةٌ ‏"‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ ‏"‏ احْلِفْ ‏"‏‏.‏ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذًا يَحْلِفَ وَيَذْهَبَ بِمَالِي‏.‏ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً‏}‏ إِلَى آخِرِ الآيَةِ‏.‏

Narrated By Abdullah : Allah's Apostle said, "If somebody takes a false oath in order to get the property of a Muslim (unjustly) by that oath, then Allah will be angry with him when he will meet Him." Al-Ash'ath informed me, "By Allah! This was said regarding me. There was a dispute about a piece of land between me and a man from the Jews who denied my right. I took him to the Prophet. Allah's Apostle asked me, 'Do you have an evidence?' I replied in the negative. He said to the Jew, 'Take an oath.' I said, 'O Allah's Apostle! He will surely take an oath and take my property unjustly." So, Allah revealed: "Verily! Those who purchase a little gain at the cost of Allah's covenant and their oaths..." (3.77)

Chapter No: 20

باب الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ، فِي الأَمْوَالِ وَالْحُدُودِ

The defendant must taken an oath if matters concerning property or legal punishments.

باب : دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعا علیہ سے قسم لینا ۔

وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ ‏". وَقَالَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ، كَلَّمَنِي أَبُو الزِّنَادِ فِي شَهَادَةِ الشَّاهِدِ وَيَمِينِ الْمُدَّعِي فَقُلْتُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى‏}‏‏.‏ قُلْتُ إِذَا كَانَ يُكْتَفَى بِشَهَادَةِ شَاهِدٍ وَيَمِينِ الْمُدَّعِي، فَمَا تَحْتَاجُ أَنْ تُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، مَا كَانَ يَصْنَعُ بِذِكْرِ هَذِهِ الأُخْرَى

The Prophet (s.a.w) said, "Two witnesses, otherwise (the defendant) should take the oath." Ibn Shubruma said, "When Abu Az-Zinad asked me my opinion about the verdict that one witness and the oath of the plaintiff are sufficient, I said, Allah stated, 'And get two witnesses out of your own men. And if there are not two men (available) then a man and two women, such as you agree for witnesses, so that if one of them (two women) errs, the other can remind her ...' (V.2:282)" I added, "If one witness and the oath of the plaintiff were sufficient, there would be no need for one of the two women to remind the other."

اور نبیﷺ نے فرمایا یا تو دو گواہ لا نہیں تو اس سے قسم لے اور قتیبہ نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا انہوں نے عبداللہ بن شبرمہ سے (جو کوفہ کے قاضی تھے) انہوں نے کہا مجھ سے ابو الزناد نے (جو مدینہ کے قاضی تھے ) ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنے میں گفتگو کی میں نے کہا اللہ تعالٰی فرماتا اپنے مردوں میں سے دو مردوں کو گواہ کر لو اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد دو عورتیں ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے میں نے کہا جب ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم پر فیصلہ ہو سکتا ہے تو پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے دوسری عورت کے یاد دلانے سے فائدہ ہی کیا ہے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ كَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَضَى بِالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ‏.‏

Narrated By Ibn Abu Mulaika : Ibn 'Abbas wrote that the Prophet gave his verdict on the basis of the defendant's oath.

ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ "نبیﷺنے مدعیٰ علیہ کےلیے قسم کھانے کا فیصلہ کیا تھا"


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالاً لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ‏}‏ إِلَى ‏{‏عَذَابٌ أَلِيمٌ‏}‏‏.‏ ثُمَّ إِنَّ الأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ خَرَجَ إِلَيْنَا فَقَالَ مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا، قَالَ، فَقَالَ صَدَقَ لَفِيَّ أُنْزِلَتْ، كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ خُصُومَةٌ فِي شَىْءٍ، فَاخْتَصَمْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّهُ إِذًا يَحْلِفُ وَلاَ يُبَالِي‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالاً وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ‏"‏‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ، ثُمَّ اقْتَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ‏.‏

0

0


حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالاً لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ ‏{‏إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ‏}‏ إِلَى ‏{‏عَذَابٌ أَلِيمٌ‏}‏‏.‏ ثُمَّ إِنَّ الأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ خَرَجَ إِلَيْنَا فَقَالَ مَا يُحَدِّثُكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا، قَالَ، فَقَالَ صَدَقَ لَفِيَّ أُنْزِلَتْ، كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ خُصُومَةٌ فِي شَىْءٍ، فَاخْتَصَمْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّهُ إِذًا يَحْلِفُ وَلاَ يُبَالِي‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَسْتَحِقُّ بِهَا مَالاً وَهْوَ فِيهَا فَاجِرٌ لَقِيَ اللَّهَ وَهْوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ‏"‏‏.‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ، ثُمَّ اقْتَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ‏.‏

Narrated By Abu Wail : Abdullah (bin Mas'ud) said, "Whoever takes a (false) oath in order to grab some property (unjustly), Allah will be angry with him when he will meet Him. Allah confirmed that through His Divine Revelation: "Verily! Those who purchase a little gain at the cost of Allah's covenant and their oaths... they will have a painful punishment." (3.77) Al-Ash'ath bin Qais came to us and asked, 'What is Abu Abdur-Rahman (i.e. 'Abdullah) telling you? 'We told him what he was narrating to us. He said, 'He was telling the truth; this Divine Verse was revealed in connection with me. There was a dispute between me and another man about something and the case was filed before Allah's Apostle who said, 'Produce your two witnesses or else the defendant is to take an oath.' I said, The defendant will surely take a (false) oath caring for nothing.' The Prophet said, 'Whoever takes a false oath in order to grab (other's) property, then Allah will be angry with him when he will meet Him.' Then Allah revealed its confirmation. Al-Ashath then recited the above Divine Verse." (3.77)

ابو وائل نے بیان کیا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا جو شخص (جھوٹی) قسم کسی کا مال حاصل کرنےکےلیے کھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر غضبناک ہوگا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تصدیق کےلیے یہ آیت نازل فرمائی۔ " جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونجی خریدتے ہیں ۔ عذاب الیم تک۔پھر اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہماری طرف تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ اے ابو عبد الرحمن (عبد اللہ بن مسعود رض اللہ عنہ ) تم سے کون سی حدیث بیان کررہے تھے ۔ ہم نے ان کی یہی حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے صحیح بیان کی ،یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرا ایک شخص سے جھگڑا تھا۔ ہم اپنا مقدمہ رسول اللہﷺکے پاس لے گئے تو آپﷺنے فرمایا: یا تم دو گواہ لاؤ ، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا۔ میں نے کہا کہ (گواہ میرے پاس نہیں ہیں لیکن اگر فیصلہ اس کی قسم پر ہوا) پھر تو یہ ضرور ہی قسم کھالے گا اور کوئی پروا نہ کرے گا۔ نبیﷺنے یہ سن کر فرمایا: کہ جو شخص بھی کسی کا مال لینے کےلیے (جھوٹی ) قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا ۔ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی تھی ۔ پھر انہوں نے یہی آیت تلاوت کی۔

123