Chapter No: 21
باب صَبِّ الْخَمْرِ فِي الطَّرِيقِ
Spilling wine on the way.
باب : شراب کا رستے پر بہا دینا درست ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَبُو يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ كُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ، وَكَانَ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مُنَادِيًا يُنَادِي " أَلاَ إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ ". قَالَ فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ اخْرُجْ فَأَهْرِقْهَا، فَخَرَجْتُ فَهَرَقْتُهَا، فَجَرَتْ فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ قَدْ قُتِلَ قَوْمٌ وَهْىَ فِي بُطُونِهِمْ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا} الآيَةَ.
Narrated By Anas : I was the butler of the people in the house of Abu Talha, and in those days drinks were prepared from dates. Allah's Apostle ordered somebody to announce that alcoholic drinks had been prohibited. Abu Talha ordered me to go out and spill the wine. I went out and spilled it, and it flowed in the streets of Medina. Some people said, "Some people were killed and wine was still in their stomachs." On that the Divine revelation came: "On those who believe And do good deeds There is no blame For what they ate (in the past)." (5.93)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا۔ ان دنوں کھجور ہی کی شراب پیا کرتے تھے ۔(پھر جونہی شراب کی حرمت پر آیت قرآنی اتری) تو رسول اللہ ﷺنے ایک منادی سے اعلان کروایا کہ شراب حرام ہوگئی ہے ۔ انہوں نے کہا: (یہ سنتے ہی) حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: باہر لے جاکر اس شراب کو بہادے۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر ساری شراب بہادی۔شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی ، تو بعض لوگوں نے کہا: یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اس حالت میں قتل کردئیے گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں موجود تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی " وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے ، ان پر ان چیزوں کا کوئی گناہ نہیں ہے جو پہلے کھاچکے ہیں۔
Chapter No: 22
باب أَفْنِيَةِ الدُّورِ وَالْجُلُوسِ فِيهَا وَالْجُلُوسِ عَلَى الصُّعُدَاتِ
What is said about the open courtyards of houses and sitting in them, and sitting on the ways.
باب : گھروں کے صحن اور جلو خانے اور رستوں پر بیٹھنا
وَقَالَتْ عَائِشَةُ فَابْتَنَى أَبُو بَكْرٍ مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، يُصَلِّي فِيهِ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ، يَعْجَبُونَ مِنْهُ، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ
Narrated by Aisha (r.a), "Abu Bakr got a masjid constructed in front of his house and used to offer Salat and recite the Quran there. The women and children of the Polytheists used to encircle him and were astonished at his behaviour. The Prophet (s.a.w) was staying at Makkah during those days."
اور حضرت عائشہؓ نے کہا ابو بکرؓ نے اپنےجلو خانے میں ایک مسجد بنا لی وہاں نماز اور قرآن پڑھا کرتے پھر مشرکوں کی عورتیں اور بچے ان پر ہجوم کرتے اور تعجب سے سنتے اور دیکھتےان دنوں نبیﷺ مکہ ہی میں تشریف رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ ". فَقَالُوا مَا لَنَا بُدٌّ، إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا. قَالَ " فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلاَّ الْمَجَالِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا " قَالُوا وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ قَالَ " غَضُّ الْبَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْىٌ عَنِ الْمُنْكَرِ ".
Narrated By Abu Said Al-Khudri : The Prophet said, "Beware! Avoid sitting on he roads (ways)." The people said, "There is no way out of it as these are our sitting places where we have talks." The Prophet said, "If you must sit there, then observe the rights of the way." They asked, "What are the rights of the way?" He said, "They are the lowering of your gazes (on seeing what is illegal to look at), refraining from harming people, returning greetings, advocating good and forbidding evil."
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم تو وہاں بیٹھنے پر مجبور ہیں ، وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے کہ جہاں ہم باتیں کرتے ہیں ۔اس پر آپﷺنے فرمایا: اگر وہاں بیٹھنے کی مجبوری ہی ہے تو راستے کا حق بھی ادا کرو۔ صحابہ نے پوچھا اور راستے کا حق کیا ہے ؟ آپﷺنے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا ، کسی کو تکلیف دینے سے بچنا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کےلیے لوگوں کو حکم کرنا، اور بری باتوں سے روکنا۔
Chapter No: 23
باب الآبَارِ عَلَى الطُّرُقِ إِذَا لَمْ يُتَأَذَّ بِهَا
The digging of wells on the ways (is permissible) if they do not cause trouble to the people.
باب : رستے میں کنواں کھود سکتے ہیں اگر اس سے تکلیف نہ ہو ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَىٍّ، مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " بَيْنَا رَجُلٌ بِطَرِيقٍ، اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ مِنِّي، فَنَزَلَ الْبِئْرَ، فَمَلأَ خُفَّهُ مَاءً، فَسَقَى الْكَلْبَ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ ". قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ لأَجْرًا فَقَالَ " فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ ".
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "A man felt very thirsty while he was on the way, there he came across a well. He went down the well, quenched his thirst and came out. Meanwhile he saw a dog panting and licking mud because of excessive thirst. He said to himself, "This dog is suffering from thirst as I did." So, he went down the well again and filled his shoe with water and watered it. Allah thanked him for that deed and forgave him. The people said, "O Allah's Apostle! Is there a reward for us in serving the animals?" He replied: "Yes, there is a reward for serving any animate (living being)."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: ایک آدمی راستے میں سفر کررہا تھا کہ اسے پیاس لگی ۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا ۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا اور اس کی مغفرت کردی گئی ۔ صحابہ نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا جانوروں کے سلسلے میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے ؟ تو آپﷺنے فرمایا: ہاں ، ہرتازے جگر والے میں ثواب ہے۔ یعنی ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے۔
Chapter No: 24
باب إِمَاطَةِ الأَذَى
To remove harmful things from the roads.
باب : رستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا
وَقَالَ هَمَّامٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " يُمِيطُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ "
Narrated by Abu Hurairah (r.a), the Prophet (s.a.w) said, "To remove harmful things from the roads is Sadaqa."
اور ہمام بن منبہ نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی انہوں نے نبیﷺ سے آپؐ نے فرمایا اگر رستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دے تو صدقے کا ثواب ملے گا ۔
Chapter No: 25
باب الْغُرْفَةِ وَالْعُلِّيَّةِ الْمُشْرِفَةِ وَغَيْرِ الْمُشْرِفَةِ فِي السُّطُوحِ وَغَيْرِهَا
(The permissibility of living on) higher places of a house, looking upon other houses or not looking upon other houses, whether these places are on roofs or not.
باب : بلند اور پست بالا خانوں (ماڑیوں) میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے۔
حَدَّثَنَىِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَشْرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ قَالَ " هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى إِنِّي أَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلاَلَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ ".
Narrated By Usama bin Zaid : Once the Prophet stood at the top of one of the castles (or higher buildings) of Medina and said, "Do you see what I see? No doubt I am seeing the spots of afflictions amongst your houses as numerous as the spots where rain-drops fall (during a heavy rain).
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺمدینہ کے ایک بلند مکان پر چڑھے ، پھر فرمایا: کیا تم لوگ بھی دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں کہ (عنقریب ( تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے جیسے بارش برستی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ لَهُمَا {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} فَحَجَجْتُ مَعَهُ فَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ حَتَّى جَاءَ، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ مِنَ الإِدَاوَةِ، فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم اللَّتَانِ قَالَ لَهُمَا {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ} فَقَالَ وَاعَجَبِي لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِيثَ يَسُوقُهُ، فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ وَجَارٌ لِي مِنَ الأَنْصَارِ فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَهْىَ مِنْ عَوَالِي الْمَدِينَةِ، وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الأَمْرِ وَغَيْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الأَنْصَارِ إِذَا هُمْ قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، فَصِحْتُ عَلَى امْرَأَتِي، فَرَاجَعَتْنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَيُرَاجِعْنَهُ، وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ. فَأَفْزَعَنِي، فَقُلْتُ خَابَتْ مَنْ فَعَلَ مِنْهُنَّ بِعَظِيمٍ. ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَىَّ ثِيَابِي، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَىْ حَفْصَةُ، أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْيَوْمَ حَتَّى اللَّيْلِ فَقَالَتْ نَعَمْ. فَقُلْتُ خَابَتْ وَخَسِرَتْ، أَفَتَأْمَنُ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم فَتَهْلِكِينَ لاَ تَسْتَكْثِرِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ تُرَاجِعِيهِ فِي شَىْءٍ وَلاَ تَهْجُرِيهِ، وَاسْأَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلاَ يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ يُرِيدُ عَائِشَةَ ـ وَكُنَّا تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ النِّعَالَ لِغَزْوِنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمَ نَوْبَتِهِ فَرَجَعَ عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي ضَرْبًا شَدِيدًا، وَقَالَ أَنَائِمٌ هُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ. وَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ. قُلْتُ مَا هُوَ أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ لاَ، بَلْ أَعْظَمُ مِنْهُ وَأَطْوَلُ، طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نِسَاءَهُ. قَالَ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ هَذَا يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ، فَجَمَعْتُ عَلَىَّ ثِيَابِي، فَصَلَّيْتُ صَلاَةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَدَخَلَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِيهَا، فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَإِذَا هِيَ تَبْكِي. قُلْتُ مَا يُبْكِيكِ أَوَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ لاَ أَدْرِي هُوَ ذَا فِي الْمَشْرُبَةِ. فَخَرَجْتُ، فَجِئْتُ الْمِنْبَرَ، فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِيلاً ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ الْمَشْرُبَةَ الَّتِي هُوَ فِيهَا فَقُلْتُ لِغُلاَمٍ لَهُ أَسْوَدَ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ. فَدَخَلَ، فَكَلَّمَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ ذَكَرْتُكَ لَهُ، فَصَمَتَ، فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِينَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَجِئْتُ الْغُلاَمَ. فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ. فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ مُنْصَرِفًا، فَإِذَا الْغُلاَمُ يَدْعُونِي قَالَ أَذِنَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ، قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ، مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ طَلَّقْتَ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَىَّ، فَقَالَ " لاَ ". ثُمَّ قُلْتُ ـ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ رَأَيْتَنِي، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى قَوْمٍ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَذَكَرَهُ، فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ قُلْتُ لَوْ رَأَيْتَنِي، وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لاَ يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ـ يُرِيدُ عَائِشَةَ ـ فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَجَلَسْتُ حِينَ رَأَيْتُهُ تَبَسَّمَ، ثُمَّ رَفَعْتُ بَصَرِي فِي بَيْتِهِ، فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلاَثَةٍ. فَقُلْتُ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ، فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا، وَهُمْ لاَ يَعْبُدُونَ اللَّهَ، وَكَانَ مُتَّكِئًا. فَقَالَ " أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ". فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي. فَاعْتَزَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَدِيثِ حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ، وَكَانَ قَدْ قَالَ " مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا ". مِنْ شِدَّةِ مَوْجَدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حِينَ عَاتَبَهُ اللَّهُ. فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لاَ تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّا أَصْبَحْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، أَعُدُّهَا عَدًّا. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ". وَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ. قَالَتْ عَائِشَةُ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ التَّخْيِيرِ فَبَدَأَ بِي أَوَّلَ امْرَأَةٍ، فَقَالَ " إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، وَلاَ عَلَيْكِ أَنْ لاَ تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ ". قَالَتْ قَدْ أَعْلَمُ أَنَّ أَبَوَىَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِكَ. ثُمَّ قَالَ " إِنَّ اللَّهَ قَالَ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ} إِلَى قَوْلِهِ { عَظِيمًا} ". قُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَىَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ. ثُمَّ خَيَّرَ نِسَاءَهُ، فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ.
Narrated By 'Abdullah bin 'Abbas : I had been eager to ask 'Umar about the two ladies from among the wives of the Prophet regarding whom Allah said (in the Qur'an saying): If you two (wives of the Prophet namely 'Aisha and Hafsa) turn in repentance to Allah your hearts are indeed so inclined (to oppose what the Prophet likes) (66.4), till performed the Hajj along with 'Umar (and on our way back from Hajj) he went aside (to answer the call of nature) and I also went aside along with him carrying a tumbler of water. When he had answered the call of nature and returned. I poured water on his hands from the tumbler and he performed ablution. I said, "O Chief of the believers! ' Who were the two ladies from among the wives of the Prophet to whom Allah said:
'If you two return in repentance (66.4)? He said, "I am astonished at your question, O Ibn 'Abbas. They were 'Aisha and Hafsa." Then 'Umar went on relating the narration and said. "I and an Ansari neighbour of mine from Bani Umaiya bin Zaid who used to live in 'Awali Al-Medina, used to visit the Prophet in turns. He used to go one day, and I another day. When I went I would bring him the news of what had happened that day regarding the instructions and orders and when he went, he used to do the same for me. We, the people of Quraish, used to have authority over women, but when we came to live with the Ansar, we noticed that the Ansari women had the upper hand over their men, so our women started acquiring the habits of the Ansari women. Once I shouted at my wife and she paid me back in my coin and I disliked that she should answer me back. She said, 'Why do you take it ill that I retort upon you? By Allah, the wives of the Prophet retort upon him, and some of them may not speak with him for the whole day till night.' What she said scared me and I said to her, 'Whoever amongst them does so, will be a great loser.'
Then I dressed myself and went to Hafsa and asked her, 'Does any of you keep Allah's Apostle angry all the day long till night?' She replied in the affirmative. I said, 'She is a ruined losing person (and will never have success)! Doesn't she fear that Allah may get angry for the anger of Allah's Apostle and thus she will be ruined? Don't ask Allah's Apostle too many things, and don't retort upon him in any case, and don't desert him. Demand from me whatever you like, and don't be tempted to imitate your neighbour (i.e. 'Aisha) in her behaviour towards the Prophet), for she (i.e. 'Aisha) is more beautiful than you, and more beloved to Allah's Apostle.
In those days it was rumoured that Ghassan, (a tribe living in Sham) was getting prepared their horses to invade us. My companion went (to the Prophet on the day of his turn, went and returned to us at night and knocked at my door violently, asking whether I was sleeping. I was scared (by the hard knocking) and came out to him. He said that a great thing had happened. I asked him: What is it? Have Ghassan come? He replied that it was worse and more serious than that, and added that Allah's Apostle had divorced all his wives. I said, Hafsa is a ruined loser! I expected that would happen some day.' So I dressed myself and offered the Fajr prayer with the Prophet. Then the Prophet entered an upper room and stayed there alone. I went to Hafsa and found her weeping. I asked her, 'Why are you weeping? Didn't I warn you? Have Allah's Apostle divorced you all?' She replied, 'I don't know. He is there in the upper room.' I then went out and came to the pulpit and found a group of people around it and some of them were weeping. Then I sat with them for some time, but could not endure the situation. So I went to the upper room where the Prophet was and requested to a black slave of his: "Will you get the permission of (Allah's Apostle) for Umar (to enter)? The slave went in, talked to the Prophet about it and came out saying, 'I mentioned you to him but he did not reply.' So, I went and sat with the people who were sitting by the pulpit, but I could not bear the situation, so I went to the slave again and said: "Will you get he permission for Umar? He went in and brought the same reply as before. When I was leaving, behold, the slave called me saying, "Allah's Apostle has granted you permission." So, I entered upon the Prophet and saw him lying on a mat without wedding on it, and the mat had left its mark on the body of the Prophet, and he was leaning on a leather pillow stuffed with palm fires. I greeted him and while still standing, I said: "Have you divorced your wives?' He raised his eyes to me and replied in the negative. And then while still standing, I said chatting: "Will you heed what I say, 'O Allah's Apostle! We, the people of Quraish used to have the upper hand over our women (wives), and when we came to the people whose women had the upper hand over them..."
'Umar told the whole story (about his wife). "On that the Prophet smiled." 'Umar further said, "I then said, 'I went to Hafsa and said to her: Do not be tempted to imitate your companion ('Aisha) for she is more beautiful than you and more beloved to the Prophet.' The Prophet smiled again. When I saw him smiling, I sat down and cast a glance at the room, and by Allah, I couldn't see anything of importance but three hides. I said (to Allah's Apostle) "Invoke Allah to make your followers prosperous for the Persians and the Byzantines have been made prosperous and given worldly luxuries, though they do not worship Allah?' The Prophet was leaning then (and on hearing my speech he sat straight) and said, 'O Ibn Al-Khatttab! Do you have any doubt (that the Hereafter is better than this world)? These people have been given rewards of their good deeds in this world only.' I asked the Prophet. 'Please ask Allah's forgiveness for me. The Prophet did not go to his wives because of the secret which Hafsa had disclosed to 'Aisha, and he said that he would not go to his wives for one month as he was angry with them when Allah admonished him (for his oath that he would not approach Maria). When twenty-nine days had passed, the Prophet went to 'Aisha first of all. She said to him, 'You took an oath that you would not come to us for one month, and today only twenty-nine days have passed, as I have been counting them day by day.' The Prophet said, 'The month is also of twenty-nine days.' That month consisted of twenty-nine days. 'Aisha said, 'When the Divine revelation of Choice was revealed, the Prophet started with me, saying to me, 'I am telling you something, but you needn't hurry to give the reply till you can consult your parents." 'Aisha knew that her parents would not advise her to part with the Prophet. The Prophet said that Allah had said:
'O Prophet! Say To your wives; If you desire The life of this world And its glitter... then come! I will make a provision for you and set you free In a handsome manner. But if you seek Allah And His Apostle, and The Home of the Hereafter, then Verily, Allah has prepared For the good-doers amongst you A great reward.' (33.28) 'Aisha said, 'Am I to consult my parents about this? I indeed prefer Allah, His Apostle, and the Home of the Hereafter.' After that the Prophet gave the choice to his other wives and they also gave the same reply as 'Aisha did."
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں ہمیشہ اس بات کا آرزو مند رہتا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آپﷺکی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو ، کہ تمہارے دل بگڑ گئے ہیں " پھر میں ان کے ساتھ حج کو گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ راستے سے قضائے حاجت کےلیے گئے ، اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر چھاگل سے پانی ڈالا ، اور انہوں نے وضو کیا ، پھر میں نے پوچھا اے امیر المؤمنین ! نبی ﷺکی بیویوں میں وہ دو خواتین کون سی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا: " تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو۔ انہوں نے فرمایا: اے حضرت ابن عباس ! تم پر حیرت ہے۔ وہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہوکر پورا واقعہ بیان کرنے لگے۔آپ نے بتلایا کہ بنو امیہ بن زید کے قبیلے میں جو مدینہ سے ملا ہوا تھا ، میں اپنے ایک انصاری پڑوسی کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم دونوں نے نبیﷺکی خدمت میں حاضری کی باری مقرر کررکھی تھی۔ایک دن وہ حاضر ہوتے اور ایک دن میں۔ جب میں حاضری دیتا تو اس دن کی تمام خبریں وغیرہ لاتا (اور ان کو سناتا) اور جب وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی اسی طرح کرتے ۔ ہم قریش کے لوگ (مکہ میں) اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے ۔لیکن جب ہم (ہجرت کرکے) انصار کے یہاں آئے تو انہیں دیکھا کہ ان کی عورتیں خود ان پر غالب تھیں ۔ ہماری عورتوں نے بھی ان کا طریقہ اختیار کرنا شروع کردیا۔ میں نے ایک دن اپنی بیوی کو ڈانٹا ، تو انہوں نے بھی اس کا جواب دیا۔ ان کا یہ جواب مجھے ناگوار معلوم ہوا۔ لیکن انہوں نے کہا : کہ میں اگر جواب دیتی ہوں تو تمہیں ناگواری کیوں ہوتی ہے ۔ قسم اللہ کی نبی ﷺکی ازواج تک آپ کو جواب دے دیتی ہیں اور بعض بیویاں تو آپﷺسے پورے دن اور پوری رات ناراض رہتی ہیں۔ اس بات سے میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا: ان میں سے جس نے بھی ایسا کیا ہوگا وہ تو بڑے نقصان اور خسارے میں ہے۔اس کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور کہا: اے حفصہ ! کیا تم میں سے کوئی نبیﷺسے پورے دن رات تک غصہ رہتی ہیں ۔ انہوں نے کہا: ہاں! میں بول اٹھا کہ پھر تو وہ تباہی اور نقصان میں رہیں۔ کیا تمہیں اس سے امن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺکی خفگی کی وجہ سے (تم پر) غصہ ہوجائے اور تم ہلاک ہوجاؤ ۔ رسول اللہﷺسے زیادہ چیزوں کا مطالبہ ہرگز نہ کیا کرو، اور نہ کسی معاملہ میں آپﷺکی کسی بات کا جواب دو ، اور نہ آپﷺپر خفگی کا اظہار ہونے دو۔البتہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو ، وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، کسی خود فریبی میں مبتلا نہ رہنا ، تمہاری یہ پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور نظیف ہیں اور رسول اللہ ﷺکو زیادہ پیاری بھی ہیں ۔ آپ کی مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ان دنوں یہ چرچا ہورہا تھا کہ غسان کے فوجی ہم سے لڑنے کےلیے گھوڑوں کے نعل باندھ رہے ہیں ۔ میرے پڑوسی ایک دن اپنی باری پر مدینہ گئے ہوئے تھے ۔ پھر عشاء کے وقت واپس لوٹے۔ آکر میرا دروازہ انہوں نے بڑی زود سے کھٹکھٹایا ، اور کہا: کیا آپ سوگئے ہیں ؟ میں بہت گھبرایا ہوا باہر آیا ، انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آگیا ہے ۔ میں نے پوچھا کیا ہوا ؟ کیا غسان کا لشکر آگیا ہے ؟ انہوں نے کہا: بلکہ اس سے بھی بڑا اور سنگین حادثہ وہ یہ کہ رسو ل اللہﷺنے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت حفصہ تو تباہ و برباد ہوگئی ہے ۔ مجھے تو پہلے ہی کھٹکا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے کپڑے پہنے، صبح کی نماز رسول اللہ ﷺکے ساتھ پڑی (نماز پڑھتے ہی) آپﷺاپنے بالا خانہ میں تشریف لے گئے اور وہیں تنہائی اختیار کرلی۔ میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا ، دیکھا تو وہ رو رہی تھیں ۔ میں نے کہا: رو کیوں رہی ہو؟ کیا پہلے ہی میں نے تمہیں نہیں کہہ دیا تھا ؟کیا رسول اللہﷺنے تم سب کو طلاق دے دی ہے ؟ انہوں نے کہا: مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ آپﷺبالاخانہ میں تشریف رکھتے ہیں ۔ پھر میں باہر نکلا اور منبر کے پاس آیا ، وہاں کچھ لوگ موجود تھے اور بعض رو بھی رہے تھے۔تھوڑی دیر تو میں ان کے پاس بیٹھا رہا۔ لیکن مجھ پر رنج کا غلبہ ہوا ، اور میں بالا خانے کے پاس پہنچا ، جس میں آپﷺتشریف رکھتے تھے ۔ میں نے آپﷺکے ایک سیاہ غلام سے کہا: کہ عمر اجازت چاہتا ہے ۔ وہ غلام اندر گیا اور آپﷺسے گفتگو کرکے واپس آیا اور کہا: میں نے آپ کی بات پہنچادی تھی، لیکن آپﷺخاموش ہوگئے ۔ چنانچہ میں واپس آکر انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔پھر مجھ پر رنج غالب آیا اور میں دوبارہ آیا ۔ لیکن اس دفعہ بھی وہی ہوا ۔ پھر آکر انہیں لوگوں میں بیٹھ گیا جو منبر کے پاس تھے ۔ لیکن اس مرتبہ پھر مجھ سے نہیں رہا گیا ، اور میں نے غلام سے آکر کہا: عمر کےلیے اجازت چاہو۔ لیکن بات جوں کی توں رہی۔ جب میں واپس ہورہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا کہ رسول اللہﷺنے آپ کو اجازت دے دی ہے ۔ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺکھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے ، جس پر کوئی بستر بھی نہیں تھا۔ اس لیے چٹائی کے ابھرے ہوئے حصوں کا نشان آپﷺ کے پہلو میں پڑگیا تھا ۔ آپﷺاس وقت ایک ایسے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جس کے اندر کھجور کی چھال بھری گئی تھی۔ میں نے آپﷺکو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کیا ، کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ آپﷺنے نگاہ میری طرف کرکے فرمایا: کہ نہیں ۔ میں نے آپﷺکے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی اور کہنے لگا ۔۔۔۔ اب بھی میں کھڑا ہی تھا ۔۔۔ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قریش کے لوگ اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے ۔ لیکن جب ہم ایک ایسی قوم میں آگئے ہیں جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل ذکر کی ۔ اس بات پر رسول اللہﷺمسکرا دئیے۔ پھر میں نے کہا: میں حضرت حفصہ کے ہاں بھی گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ کہیں کسی خود فریبی میں نہ مبتلا رہنا۔یہ تمہاری پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور پاک ہیں اور رسول اللہ ﷺکو زیادہ محبوب بھی ہیں ۔ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کررہے تھے ۔ اس بات پر آپﷺ دوبارہ مسکرا دئیے۔ جب میں نے آپﷺکو مسکراتے دیکھا ، تو (آپ ﷺکے پاس) بیٹھ گیا ، اور آپﷺکے گھر میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اللہ کی قسم! تین کھالوں کے سوا اور کوئی چیز وہاں نظر نہ آئی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ آپ کی امت کو کشادگی عطا کردے۔ فارس اور روم کے لوگ تو پوری فراخی کے ساتھ رہتے ہیں ، دنیا انہیں خوب ملی ہوئی ہے ۔ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی نہیں کرتے ۔آپﷺٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ آپﷺنے فرمایا: اے خطاب کے بیٹے ! کیا تمہیں ابھی کچھ شبہ ہے ؟ یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ ان کے اچھے اعمال کی جزا اسی دنیا میں ان کو دے دی گئی ہے ۔(یہ سن کر ) میں بول اٹھا اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیجئے ۔ تو نبیﷺنے اس بات پر علیٰحدگی اختیار کرلی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے پوشیدہ بات کہہ دی تھی ۔ آپﷺنے اس انتہائی خفگی کی وجہ سے جو آپﷺکو ہوئی تھی، فر مایا تھا کہ میں اب ان کے پاس ایک مہینے تک نہیں جاؤں گا اور یہی موقعہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو متنبہ کیا تھا ۔ پھر جب انتیس دن گذر گئے تو آپﷺحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں کے یہاں سے آپﷺنے ابتداء کی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : آپ ﷺنے تو عہد کیا تھا کہ ہمارے یہاں ایک مہینے تک نہیں تشریف لائیں گے ، اور آج ابھی انتیسویں کی صبح ہے ، میں تو دن گن رہی تھی ۔ نبیﷺنے فرمایا: یہ مہینہ انتیس دن کا ہے اور وہ مہینہ انتیس ہی دن کا تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جس میں (ازواج النبی کو) اختیار دیا گیا تھا ۔ اس کی ابتداء آپﷺنے مجھ ہی سے کی اور فرمایا: میں تم سے ایک بات کہتا ہوں ، اور یہ ضروری نہیں کہ جواب فوراًدو،بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپﷺکو یہ معلوم تھا کہ میرے والدین کبھی آپﷺسے جدائی کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ پھر آپﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو ۔"اللہ تعالیٰ کے قول عظیما تک۔ میں نے عرض کیا ، کیا اب اس معاملے میں بھی میں اپنے والدین سے مشورہ کرنے جاؤں گی!اس میں تو کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺاور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں ۔ اس کے بعد آپﷺنے اپنی دوسری بیویوں کو بھی اختیار دیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ سَلاَمٍ، حَدَّثَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ آلَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، وَكَانَتِ انْفَكَّتْ قَدَمُهُ فَجَلَسَ فِي عِلِّيَّةٍ لَهُ، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ قَالَ " لاَ، وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا ". فَمَكُثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ، فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ.
Narrated By Anas : Allah's Apostle took an oath that he would not go to his wives for one month as his foot had been sprained. He stayed in an upper room when 'Umar went to him and said, "Have you divorced your wives?" He said, "No, but I have taken an oath that I would not go to them for one month." The Prophet stayed there for twenty-nine days, and then came down and went to his wives.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺنے اپنی ازواج کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھائی تھی اور آپﷺکے قدم مبارک میں موچ آگئی تھی ۔ اور آپﷺاپنے بالاخانہ میں قیام پذیر ہوئے تھے ۔ (ایلاء کے موقع پر ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا آپﷺنے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟آپﷺنے فرمایا: نہیں ۔ البتہ ایک مہینے کےلیےان کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی ہے ۔ چنانچہ آپﷺانتیس دن تک بیویوں کے پاس نہیں گئے ، اس لیے آپﷺبالاخانے سے اترے اور بیویوں کے پاس گئے۔
Chapter No: 26
باب مَنْ عَقَلَ بَعِيرَهُ عَلَى الْبَلاَطِ أَوْ باب الْمَسْجِدِ
Whoever tied his camel at the pavement or at the gate of the masjid.
مسجد کے دروازے پر جو پتھر بچھے ہوتے ہیں وہاں یا دروازے پر اونٹ باندھنا۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيُّ، قَالَ أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمَسْجِدَ، فَدَخَلْتُ إِلَيْهِ، وَعَقَلْتُ الْجَمَلَ فِي نَاحِيَةِ الْبَلاَطِ فَقُلْتُ هَذَا جَمَلُكَ. فَخَرَجَ فَجَعَلَ يُطِيفُ بِالْجَمَلِ قَالَ " الثَّمَنُ وَالْجَمَلُ لَكَ ".
Narrated By Jabir : The Prophet entered the Mosque, and I too went there after tying the camel at the pavement of the Mosque. I said (to the Prophet), "This is your camel." He came out and started examining the camel and said, "Both the camel and its price are for you."
ابو المتوکل ناجی نے بیان کیا کہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ آپﷺمسجد میں تشریف رکھتے تھے ۔ اس لیے میں بھی مسجد کے اندر چلا گیا ۔ البتہ اونٹ بلاط کے ایک کنارے باندھ دیا ۔ آپﷺسے میں نے عرض کیا کہ حضور ! آپﷺکا اونٹ حاضر ہے آپﷺباہر تشریف لائے اوراونٹ کے چاروں طرف ٹہلنے لگے ۔ پھر فرمایا: قیمت بھی لے اور اونٹ بھی لے جا۔
Chapter No: 27
باب الْوُقُوفِ وَالْبَوْلِ عِنْدَ سُبَاطَةِ قَوْمٍ
Standing and urinating at the dumps of some people.
باب : کسی قوم کے گھوڑے کے پاس ٹھہرنا اور وہاں پیشاب کرنا۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، أَوْ قَالَ لَقَدْ أَتَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا.
Narrated By Hudhaifa : I saw Allah's Apostle coming (or the Prophet came) to the dumps of some people and urinated there while standing.
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو دیکھا ، یا یہ کہا: نبی ﷺایک قوم کی کوڑے پر تشریف لائے ، اور آپﷺنے وہاں کھڑے ہوکرپیشاب کیا۔
Chapter No: 28
باب مَنْ أَخَذَ الْغُصْنَ وَمَا يُؤْذِي النَّاسَ فِي الطَّرِيقِ فَرَمَى بِهِ
(The reward of him) who removes a branch of a tree or any other thing which harms the people from the way.
باب : رستے میں سے کانٹوں کی ڈالی یا اور کوئی تکلیف دہ چیز اٹھا کر پھینک دینا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ،بن يُوسُفَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَىٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ، وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ فَأَخَذَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ، فَغَفَرَ لَهُ ".
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "While a man was on the way, he found a thorny branch of a tree there on the way and removed it. Allah thanked him for that deed and forgave him."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے وہاں کانٹے دار ٹہنی دیکھی ۔ اس نے اسے اٹھالیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اس کی مغفرت کردی۔
Chapter No: 29
باب إِذَا اخْتَلَفُوا فِي الطَّرِيقِ الْمِيتَاءِ وَهْىَ الرَّحْبَةُ تَكُونُ بَيْنَ الطَّرِيقِ ثُمَّ يُرِيدُ أَهْلُهَا الْبُنْيَانَ، فَتُرِكَ مِنْهَا الطَّرِيقُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ
When there is a dispute about a public way and the owner of the land wishes to build (something), he should leave seven cubits for the people to pass through.
باب : اگر عام رستے میں اختلاف ہو اور وہاں رہنے والے کچھ عمارت بنانا چاہیں تو سات ہاتھ رستہ چھوڑ دیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ خِرِّيتٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَضَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا تَشَاجَرُوا فِي الطَّرِيقِ بِسَبْعَةِ أَذْرُعٍ.
Narrated By Abu Huraira : The Prophet judged that seven cubits should be left as a public way when there was a dispute about the land.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فیصلہ کیا تھا جب کہ راستے کے بارے میں جھگڑا ہو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دینا چاہیے۔
Chapter No: 30
باب النُّهْبَى بِغَيْرِ إِذْنِ صَاحِبِهِ
Robbing.
باب : کسی شخص کی بے اس کی اجازت کے لوٹنا منع ہے
وَقَالَ عُبَادَةُ بَايَعْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَنْ لاَ نَنْتَهِبَ
Ubada said, "We gave the Baia (pledge) to the Prophet (s.a.w) that we would not commit robbery."
اور عبادہ بن صامتؓ نے کہا ہم نے نبیﷺ سے اس امر پر بیعت کی کہ لوٹ نہ کریں گے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الأَنْصَارِيّ َ ـ وَهُوَ جَدُّهُ أَبُو أُمِّهِ ـ قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنِ النُّهْبَى وَالْمُثْلَةِ.
Narrated By 'Abdullah bin Yazid Al-Ansari : The Prophet forbade robbery (taking away what belongs to others without their permission), and also forbade mutilation (or maiming) of bodies.
حضرت عبد اللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ جو عدی بن ثابت کے نانا تھے سے مروی ہے کہ نبیﷺنے لوٹ مار کرنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لاَ يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهْوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهْوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهْوَ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهْوَ مُؤْمِنٌ ". وَعَنْ سَعِيدٍ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ إِلاَّ النُّهْبَةَ. قَال الفِرَبْرِىُّ وجَدْتُ بِخَطِّ أبى جَعْفَر:قالَ أبُو عَبْدِ اللهِ:أن يُنْزَعَ مِنْهُ؛ يُرِيدُ الِأيمانَ.
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "When an adulterer commits illegal sexual intercourse, then he is not a believer at the time, he is doing it, and when a drinker of an alcoholic liquor drinks it, then he is not a believer at the time of drinking it, and when a thief steals, then he is not a believer at the time of stealing, and when a robber robs, and the people look at him, then he is not a believer at the time of doing robbery.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: کہ نبی ﷺنے فرمایا: زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کرسکتا ۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کرسکتا۔ کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کرسکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو۔سعید اور ابو سلمہ کی بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی ﷺاسی طرح روایت ہے البتہ ان کی روایت میں لوٹ کا تذکرہ نہیں ہے۔