Chapter No: 11
باب شُهُودِ الْمَلاَئِكَةِ بَدْرًا
The participation of angels in Badr.
باب: فرشتوں کا بدر میں حاضر ہونا۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ـ وَكَانَ أَبُوهُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ ـ قَالَ جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ قَالَ مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِينَ ـ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ـ قَالَ وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلاَئِكَةِ "
Narrated By Rifaa : (Who was one of the Badr warriors) Gabriel came to the Prophet and said, "How do you look upon the warriors of Badr among yourselves?" The Prophet said, "As the best of the Muslims." or said a similar statement. On that, Gabriel said, "And so are the Angels who participated in the Badr (battle)."
معاذ بن رفاعہ بن رافع زرقی نے اپنے والد (رفاعہ بن رافع) سے، جو غزوۂ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ ﷺسے پوچھا کہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کو کیسا شمار کرتے ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :مسلمانوں میں سب سے افضل یا آپ ﷺ نے اسی طرح کا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : جو فرشتے جنگ بدر میں شریک ہوئے ان کا بھی مقام یہی ہے ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ،، وَكَانَ، رِفَاعَةُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، وَكَانَ رَافِعٌ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ، فَكَانَ يَقُولُ لاِبْنِهِ مَا يَسُرُّنِي أَنِّي شَهِدْتُ بَدْرًا بِالْعَقَبَةِ قَالَ سَأَلَ جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم. بِهَذَا
Narrated By Mu'adh bin Rifa'a bin Rafi : Rifa'a was one of the warriors of Badr while (his father) Rafi' was one of the people of Al-'Aqaba (i.e. those who gave the pledge of allegiance at Al-'Aqaba). Rafi' used to say to his son, "I would not have been happier if I had taken part in the Badr battle instead of taking part in the 'Aqaba pledge."
حضرت معاذ بن رفاعہ سے مروی ہے کہ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے جبکہ (ان کے والد) رافع رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے تھےوہ اپنے بیٹے حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے کہ مجھے بیعت عقبہ کی حاضری کے مقابلے میں بدر کی حاضری سے اتنی خوشی نہیں ہوئی۔انہوں نے بیان کیا کہ جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺسے اس بارے میں سوال کیا تھا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، سَمِعَ مُعَاذَ بْنَ رِفَاعَةَ، أَنَّ مَلَكًا، سَأَلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم. وَعَنْ يَحْيَى، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ الْهَادِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ مَعَهُ يَوْمَ حَدَّثَهُ مُعَاذٌ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ يَزِيدُ فَقَالَ مُعَاذٌ إِنَّ السَّائِلَ هُوَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
Narrated By Mu'adh : The one who asked (the Prophet) was Gabriel.
معاذ بن رفاعہ سے مروی ہے کہ ایک فرشتے نے نبی ﷺ سے پوچھا اور یحییٰ بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ یزید بن ہاد نے انہیں خبر دی کہ جس دن معاذ بن رفاعہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی تھی تو وہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یزید نے بیان کیا کہ معاذ نے کہا تھا کہ نبیﷺسے سوال کرنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ يَوْمَ بَدْرٍ " هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ ـ عَلَيْهِ أَدَاةُ الْحَرْبِ "
Narrated By Ibn 'Abbas : The Prophet said on the day (of the battle) of Badr, "This is Gabriel holding the head of his horse and equipped with arms for the battle.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غزوۂ بدر میں فرمایا تھا کہ یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ہتھیار لگائے ہوئے۔
Chapter No: 12
باب
Chapter
باب:
حَدَّثَنِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَاتَ أَبُو زَيْدٍ وَلَمْ يَتْرُكْ عَقِبًا، وَكَانَ بَدْرِيًّا
Narrated By Anas : Abu Zaid died and did not leave any offspring, and he was one of the Badr warriors.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوزید رضی اللہ عنہ وفات پا گئے اور انہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی، وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ خَبَّابٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدِ بْنِ مَالِكٍ الْخُدْرِيَّ ـ رضى الله عنه ـ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَقَدَّمَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ لَحْمًا مِنْ لُحُومِ الأَضْحَى فَقَالَ مَا أَنَا بِآكِلِهِ حَتَّى أَسْأَلَ، فَانْطَلَقَ إِلَى أَخِيهِ لأُمِّهِ وَكَانَ بَدْرِيًّا قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ إِنَّهُ حَدَثَ بَعْدَكَ أَمْرٌ نَقْضٌ لِمَا كَانُوا يُنْهَوْنَ عَنْهُ مِنْ أَكْلِ لُحُومِ الأَضْحَى بَعْدَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ
Narrated By Ibn Khabbab : Abu Said bin Malik Al-Khudri returned from a journey and his family offered him some meat of sacrifices offered at 'Id-ul-Adha. On that he said, "I will not eat it before asking (whether it is allowed)." He went to his maternal brother, Qatada bin N i 'man, who was one of the Badr warriors, and asked him about it. Qatada said, "After your departure, an order was issued by the Prophet cancelling the prohibition of eating sacrifices after three days."
عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوسعید بن مالک خدری رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے تو ان کے گھر والے قربانی کا گوشت ان کے سامنے لائے، انہوں نے کہا کہ میں اسے اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک اس کا حکم نہ معلوم کر لوں۔ چنانچہ وہ اپنی والدہ کی طرف سے اپنے ایک بھائی کے پاس معلوم کرنے گئے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں سے تھے یعنی قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں وہ حکم منسوخ کر دیا گیا تھا جس میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے کی ممانعت کی گئی تھی۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ قَالَ الزُّبَيْرُ لَقِيتُ يَوْمَ بَدْرٍ عُبَيْدَةَ بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ وَهْوَ مُدَجَّجٌ لاَ يُرَى مِنْهُ إِلاَّ عَيْنَاهُ، وَهْوَ يُكْنَى أَبُو ذَاتِ الْكَرِشِ، فَقَالَ أَنَا أَبُو ذَاتِ الْكَرِشِ. فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ بِالْعَنَزَةِ، فَطَعَنْتُهُ فِي عَيْنِهِ فَمَاتَ. قَالَ هِشَامٌ فَأُخْبِرْتُ أَنَّ الزُّبَيْرَ قَالَ لَقَدْ وَضَعْتُ رِجْلِي عَلَيْهِ ثُمَّ تَمَطَّأْتُ، فَكَانَ الْجَهْدَ أَنْ نَزَعْتُهَا وَقَدِ انْثَنَى طَرَفَاهَا. قَالَ عُرْوَةُ فَسَأَلَهُ إِيَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَعْطَاهُ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخَذَهَا، ثُمَّ طَلَبَهَا أَبُو بَكْرٍ فَأَعْطَاهُ، فَلَمَّا قُبِضَ أَبُو بَكْرٍ سَأَلَهَا إِيَّاهُ عُمَرُ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا، فَلَمَّا قُبِضَ عُمَرُ أَخَذَهَا، ثُمَّ طَلَبَهَا عُثْمَانُ مِنْهُ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا، فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ وَقَعَتْ عِنْدَ آلِ عَلِيٍّ، فَطَلَبَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَكَانَتْ عِنْدَهُ حَتَّى قُتِلَ
Narrated By 'Urwa : Az-Zubair said, "I met Ubaida bin Said bin Al-As on the day (of the battle) of Badr and he was covered with armour; so much that only his eyes were visible. He was surnamed Abu Dhat-al-Karish. He said (proudly), 'I am Abu-al-Karish.' I attacked him with the spear and pierced his eye and he died. I put my foot over his body to pull (that spear) out, but even then I had to use a great force to take it out as its both ends were bent." 'Urwa said, "Later on Allah's Apostle asked Az-Zubair for the spear and he gave it to him. When Allah's Apostle died, Az-Zubair took it back. After that Abu Bakr demanded it and he gave it to him, and when Abu Bakr died, Az-Zubair took it back. 'Umar then demanded it from him and he gave it to him. When 'Umar died, Az-Zubair took it back, and then 'Uthman demanded it from him and he gave it to him. When 'Uthman was martyred, the spear remained with Ali's offspring. Then 'Abdullah bin Az-Zubair demanded it back, and it remained with him till he was martyred.
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں میری مڈبھیڑ عبیدہ بن سعید بن عاص سے ہو گئی۔ اس کا سارا جسم لوہے میں غرق تھا اور صرف آنکھ دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی کنیت ابوذات الکرش تھی۔ کہنے لگا کہ میں ابوذات الکرش ہوں۔ میں نے چھوٹے برچھے سے اس پر حملہ کیا اور اس کی آنکھ ہی کو نشانہ بنایا۔ چنانچہ اس زخم سے وہ مر گیا۔ ہشام نے بیان کیا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے اپنا پاؤں اس کے اوپر رکھ کر پورا زور لگایا اور بڑی دشواری سے وہ برچھا اس کی آنکھ سے نکال سکا۔ اس کے دونوں کنارے مڑ گئے تھے۔ عروہ نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے زبیر رضی اللہ عنہ کا وہ برچھا طلب فرمایا تو انہوں نے وہ پیش کر دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو انہوں نے اسے واپس لے لیا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے طلب کیا تو انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے طلب کیا۔ انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہوں نے اسے لے لیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے طلب کیا تو انہوں نے انہیں بھی دے دیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا اور ان کے بعد ان کی اولاد کے پاس اور اس کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے لے لیا اور ان کے پاس ہی رہا، یہاں تک کہ وہ شہید کر دیئے گئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ، عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، وَكَانَ، شَهِدَ بَدْرًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " بَايِعُونِي ".
Narrated By 'Ubada bin As-Samit : (Who was one of the Badr warriors) Allah's Apostle said, "Give me the pledge of allegiance."
ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے، وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا کہ مجھ سے بیعت کرو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَبَنَّى سَالِمًا، وَأَنْكَحَهُ بِنْتَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ ـ وَهْوَ مَوْلًى لاِمْرَأَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ ـ كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم زَيْدًا، وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلاً فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَوَرِثَ مِنْ مِيرَاثِهِ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ} فَجَاءَتْ سَهْلَةُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
Narrated By 'Aisha : (The wife of the Prophet) Abu Hudhaifa, one of those who fought the battle of Badr, with Allah's Apostle adopted Salim as his son and married his niece Hind bint Al-Wahd bin 'Utba to him' and Salim was a freed slave of an Ansari woman. Allah's Apostle also adopted Zaid as his son. In the Pre-Islamic period of ignorance the custom was that, if one adopted a son, the people would call him by the name of the adopted-father whom he would inherit as well, till Allah revealed: "Call them (adopted sons) By (the names of) their fathers." (33.5)
نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ جو رسول اللہﷺکے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں تھے، نے سالم رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ سے شادی کرا دی تھی۔ سالم رضی اللہ عنہ ایک انصاری خاتون کے غلام تھے۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیتا تو لوگ اسی کی طرف اسے منسوب کر کے پکارتے اور منہ بولا بیٹا اس کی میراث کا بھی وارث ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ادعوهم لآبائهم» انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو۔ تو سہلہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ پھر تفصیل سے راوی نے حدیث بیان کی۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ دَخَلَ عَلَىَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم غَدَاةَ بُنِيَ عَلَىَّ، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، يَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِهِنَّ يَوْمَ بَدْرٍ حَتَّى قَالَتْ جَارِيَةٌ وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لاَ تَقُولِي هَكَذَا، وَقُولِي مَا كُنْتِ تَقُولِينَ "
Narrated By Ar-Rubai bint Muauwidh : The Prophet came to me after consuming his marriage with me and sat down on my bed as you (the sub-narrator) are sitting now, and small girls were beating the tambourine and singing in lamentation of my father who had been killed on the day of the battle of Badr. Then one of the girls said, "There is a Prophet amongst us who knows what will happen tomorrow." The Prophet said (to her)," Do not say this, but go on saying what you have spoken before."
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس رات میری شادی ہوئی تھی نبی ﷺ اس کی صبح کو میرے یہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے، جیسے اب تم یہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ چند بچیاں دف بجا رہی تھیں اور وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں ان کے ان خاندان والوں کا ذکر تھا جو جنگ بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ انہیں میں ایک لڑکی نے یہ مصرع بھی پڑھا کہ ہم میں نبی ﷺ ہیں جو کل ہونے والی بات کو جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :کہ یہ نہ پڑھو، بلکہ جو پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ،.ح:وَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو طَلْحَةَ ـ رضى الله عنه ـ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ " لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَئِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلاَ صُورَةٌ ". يُرِيدُ التَّمَاثِيلَ الَّتِي فِيهَا الأَرْوَاحُ
Narrated By Ibn Abbas : Abu Talha, a companion of Allah's Apostle and one of those who fought at Badr together with Allah's Apostle told me that Allah's Apostle said. "Angels do not enter a house in which there is a dog or a picture" He meant the images of creatures that have souls.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے صحابی ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ جنگ بدر میں شریک تھے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یا کتا ہو۔ ان کی مراد کسی جاندار کی تصویر تھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ،. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ،ح: عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ ـ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ ـ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَعْطَانِي مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ بِنْتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَاعَدْتُ رَجُلاً صَوَّاغًا فِي بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَنَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَىَّ مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ، وَشَارِفَاىَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، حَتَّى جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا أَنَا بِشَارِفَىَّ قَدْ أُجِبَّتْ أَسْنِمَتُهَا، وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا، وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَىَّ حِينَ رَأَيْتُ الْمَنْظَرَ، قُلْتُ مَنْ فَعَلَ هَذَا قَالُوا فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَهْوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ، فِي شَرْبٍ مِنَ الأَنْصَارِ، عِنْدَهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابُهُ فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا أَلاَ يَا حَمْزَ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ، فَوَثَبَ حَمْزَةُ إِلَى السَّيْفِ، فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا، وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قَالَ عَلِيٌّ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، وَعَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الَّذِي لَقِيتُ فَقَالَ " مَا لَكَ ". قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ، عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَىَّ، فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا، وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَا هُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، فَدَعَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِرِدَائِهِ، فَارْتَدَى ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي، وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ فَأُذِنَ لَهُ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ وَهَلْ أَنْتُمْ إِلاَّ عَبِيدٌ لأَبِي فَعَرَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ ثَمِلٌ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ
Narrated By 'Ali : I had a she-camel which I got in my share from the booty of the battle of Badr, and the Prophet had given me another she camel from the Khumus which Allah had bestowed on him that day. And when I intended to celebrate my marriage to Fatima, the daughter of the Prophet, I made an arrangement with a goldsmith from Bani Qainuqa 'that he should go with me to bring Idhkhir (i.e. a kind of grass used by gold-smiths) which I intended to sell to gold-smiths in order to spend its price on the marriage banquet. While I was collecting ropes and sacks of pack saddles for my two she-camels which were kneeling down beside an Ansari's dwelling and after collecting what I needed, I suddenly found that the humps of the two she-camels had been cut off and their flanks had been cut open and portions of their livers had been taken out. On seeing that, I could not help weeping. I asked, "Who has done that?" They (i.e. the people) said, "Hamza bin 'Abdul Muttalib has done it. He is present in this house with some Ansari drinkers, a girl singer, and his friends. The singer said in her song, "O Hamza, get at the fat she-camels!" On hearing this, Hamza rushed to his sword and cut of the camels' humps and cut their flanks open and took out portions from their livers." Then I came to the Prophet, with whom Zaid bin Haritha was present. The Prophet noticed my state and asked, "What is the matter?" I said, "O Allah's Apostle, I have never experienced such a day as today! Hamza attacked my two she-camels, cut off their humps and cut their flanks open, and he is still present in a house along some drinkers." The Prophet asked for his cloak, put it on, and proceeded, followed by Zaid bin Haritha and myself, till he reached the house where Hamza was. He asked the permission to enter, and he was permitted. The Prophet started blaming Hamza for what he had done. Hamza was drunk and his eyes were red. He looked at the Prophet then raised his eyes to look at his knees and raised his eves more to look at his face and then said, "You are not but my father's slaves." When the Prophet understood that Hamza was drunk, he retreated, walking backwards went out and we left with him.
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر کی غنیمت میں سے مجھے ایک اور اونٹنی ملی تھی اور اسی جنگ کی غنیمت میں سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کا جو خمس کے طور پر حصہ مقرر کیا تھا اس میں سے بھی نبی کریم ﷺ نے مجھے ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی۔ پھر میرا ارادہ ہوا کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کرا لاؤں۔ اس لیے بنی قینقاع کے ایک سنار سے بات چیت کی کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس گھاس کو سناروں کے ہاتھ بیچ دوں گا اور اس کی قیمت ولیمہ کی دعوت میں لگاؤں گا۔ میں ابھی اپنی اونٹنی کے لیے پالان، ٹوکرے اور رسیاں جمع کر رہا تھا۔ اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے حجرہ کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں جن انتظامات میں تھا جب وہ پورے ہو گئے تو (اونٹنیوں کو لینے آیا) وہاں دیکھا کہ ان کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں اور کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا۔ میں نے پوچھا، یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اور وہ ابھی اسی حجرہ میں انصار کے ساتھ شراب نوشی کی ایک مجلس میں موجود ہیں۔ ان کے پاس ایک گانے والی ہے اور ان کے دوست احباب ہیں۔ گانے والی نے گاتے ہوئے جب یہ مصرع پڑھا۔ ہاں، اے حمزہ! یہ عمدہ اور فربہ اونٹنیاں ہیں، تو حمزہ رضی اللہ عنہ نے کود کر اپنی تلوار تھامی اور ان دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے میرے غم کو پہلے ہی جان لیا اور فرمایا کہ کیا بات پیش آئی؟ میں بولا: یا رسول اللہ! آج جیسی تکلیف کی بات کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میری دونوں اونٹنیوں کو پکڑ کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر ڈالی ہے۔ وہ یہیں ایک گھر میں شراب کی مجلس جمائے بیٹھے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی چادر مبارک منگوائی اور اسے اوڑھ کر آپ تشریف لے چلے۔ میں اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ ساتھ ہولئے۔ جب اس گھر کے قریب آپ تشریف لے گئے اور حمزہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تھا اس پر انہیں تنبیہ فرمائی۔ حمزہ رضی اللہ عنہ شراب کے نشے میں مست تھے اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کی طرف نظر اٹھائی، پھر ذرا اور اوپر اٹھائی اور آپ کے گھٹنوں پر دیکھنے لگے، پھر اور نظر اٹھائی اور آپ کے چہرہ پر دیکھنے لگے۔ پھر کہنے لگے، تم سب میرے باپ کے غلام ہو۔ آپ ﷺ سمجھ گئے کہ وہ اس وقت بیہوش ہیں۔ اس لیے آپ فوراً الٹے پاؤں اس گھر سے باہر نکل آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ أَنْفَذَهُ لَنَا ابْنُ الأَصْبَهَانِيِّ سَمِعَهُ مِنِ ابْنِ مَعْقِلٍ، أَنَّ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ كَبَّرَ عَلَى سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ فَقَالَ إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا
Narrated By Ibn Maqal : 'Ali led the funeral prayer of Sahl bin Hunaif and said, "He was one of the warriors of Badr."
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے جنازے پر تکبیریں کہیں اور کہا کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ يُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ شَهِدَ بَدْرًا تُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ قَالَ عُمَرُ فَلَقِيتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ فَقُلْتُ إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ. قَالَ سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي. فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، فَقَالَ قَدْ بَدَا لِي أَنْ لاَ أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا. قَالَ عُمَرُ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ. فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَىَّ شَيْئًا، فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَىَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَىَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلاَّ أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ ذَكَرَهَا، فَلَمْ أَكُنْ لأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا
Narrated By 'Abdullah bin 'Umar : Umar bin Al-Khattab said, "When (my daughter) Hafsa bint 'Umar lost her husband Khunais bin Hudhaifa As-Sahrni who was one of the companions of Allah's Apostle and had fought in the battle of Badr and had died in Medina, I met 'Uthman bin 'Affan and suggested that he should marry Hafsa saying, "If you wish, I will marry Hafsa bint 'Umar to you,' on that, he said, 'I will think it over.' I waited for a few days and then he said to me. 'I am of the opinion that I shall not marry at present.' Then I met Abu Bakr and said, 'if you wish, I will marry you, Hafsa bint 'Umar.' He kept quiet and did not give me any reply and I became more angry with him than I was with Uthman. Some days later, Allah's Apostle demanded her hand in marriage and I married her to him. Later on Abu Bakr met me and said, "Perhaps you were angry with me when you offered me Hafsa for marriage and I gave no reply to you?' I said, 'Yes.' Abu Bakr said, 'Nothing prevented me from accepting your offer except that I learnt that Allah's Apostle had referred to the issue of Hafsa and I did not want to disclose the secret of Allah's Apostle , but had he (i.e. the Prophet) given her up I would surely have accepted her."
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی، وہ رسول اللہﷺ کے اصحاب میں تھے اور بدر کی لڑائی میں انہوں نے شرکت کی تھی اور مدینہ میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری ملاقات حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے حفصہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس کا نکاح میں آپ سے کر دوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سوچوں گا۔ اس لیے میں چند دنوں کے لیے ٹھہر گیا، پھر انہوں نے کہا: کہ میری رائے یہ ہوئی ہے کہ ابھی میں نکاح نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میری ملاقات ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ان سے بھی میں نے یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح حفصہ بنت عمر سے کر دوں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کا یہ طریقہ عمل عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ میرے لیے باعث تکلیف ہوا۔ کچھ دنوں میں نے اور توقف کیا تو نبی کریم ﷺ نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کا پیغام بھیجا اور میں نے ان کا نکاح آپﷺ سے کر دیا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انہوں نے کہا، شاید آپ کو میرے اس طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہو گی کہ جب آپ کی مجھ سے ملاقات ہوئی اور آپ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مجھ سے بات کی تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا کہ ہاں تکلیف ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کی بات کا میں نے صرف اس لیے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے (مجھ سے) حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا (مجھ سے مشورہ لیا تھا کہ میں اس سے نکاح کر لوں) اور میں نبی کریم ﷺ کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا۔ اگر آپ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بیشک میں ان سے نکاح کر لیتا۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، سَمِعَ أَبَا مَسْعُودٍ الْبَدْرِيَّ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ صَدَقَةٌ "
Narrated By Abu Masud Al-Badri : The Prophet said, "A man's spending on his family is a deed of charity."
حضرت ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ (عقبہ بن عمرو انصاری) سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: آدمی کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، يُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي إِمَارَتِهِ أَخَّرَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ الْعَصْرَ وَهْوَ أَمِيرُ الْكُوفَةِ، فَدَخَلَ أَبُو مَسْعُودٍ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو الأَنْصَارِيُّ جَدُّ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ شَهِدَ بَدْرًا فَقَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ نَزَلَ جِبْرِيلُ فَصَلَّى فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَمْسَ صَلَوَاتٍ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا أُمِرْتَ. كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ
Narrated By Az-Zuhri : I heard 'Urwa bin Az-Zubair talking to 'Umar bin 'Abdul 'Aziz during the latter's Governorship (at Medina), he said, "Al-Mughira bin Shu'ba delayed the 'Asr prayer when he was the ruler of Al-Kufa. On that, Abu Mas'ud. 'Uqba bin 'Amr Al-Ansari, the grand-father of Zaid bin Hasan, who was one of the Badr warriors, came in and said, (to Al-Mughira), 'You know that Gabriel came down and offered the prayer and Allah's Apostle prayed five prescribed prayers, and Gabriel said (to the Prophet), "I have been ordered to do so (i.e. offer these five prayers at these fixed stated hours of the day)."
امام زہری نے عروہ بن زبیر سے سنا کہ امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیز سے انہوں نے ان کے عہد خلافت میں یہ حدیث بیان کی کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جب کوفہ کے امیر تھے، تو انہوں نے ایک دن عصر کی نماز میں دیر کی۔ اس پر زید بن حسن کے نانا ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ ان کے یہاں گئے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے تھے اور کہا: آپ کو معلوم ہے کہ جبرائیل علیہ السلام (نماز کا طریقہ بتانے کے لیے)آئے اور آپ نے نماز پڑھی اور نبی کریم ﷺنے ان کے پیچھے نماز پڑھی، پانچوں وقت کی نمازیں۔ پھر فرمایا کہ اسی طرح مجھے حکم ملا ہے۔ بشیر بن ابی مسعود بھی یہ حدیث اپنے والد سے بیان کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " الآيَتَانِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ مَنْ قَرَأَهُمَا فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ ". قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَلَقِيتُ أَبَا مَسْعُودٍ وَهْوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَسَأَلْتُهُ فَحَدَّثَنِيهِ
Narrated By Abu Masud Al-Badri : Allah's Apostle said, "It is sufficient for one to recite the last two Verses of Surat-al-Baqara at night."
ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورۃ البقرہ کی دو آیتیں ( «آمن الرسول» سے آخر تک) ایسی ہیں کہ جو شخص رات میں انہیں پڑھ لے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتی ہیں۔ عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ پھر میں نے خود ابومسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، وہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ، وَكَانَ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Mahmud bin Ar-Rabi : That 'Itban bin Malik who was one of the companions of the Prophet and one of the warriors of Badr, came to Allah's Apostle.
عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ جو نبی کریم ﷺ کے صحابی تھے اور وہ بدر میں شریک ہوئے تھے اور انصار میں سے تھے، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ـ هُوَ ابْنُ صَالِحٍ ـ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ ثُمَّ سَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ ـ وَهْوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ وَهْوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ ـ عَنْ حَدِيثِ، مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ، فَصَدَّقَةُ
Narrated By Ibn Shihab : I asked Al-Husain bin Muhammad who was one of the sons of Salim and one of the nobles amongst them, about the narration of Mahmud bin Ar-Rabi 'from 'Itban bin Malik, and he confirmed it.
ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے جو بنو سالم کے شریف لوگوں میں سے تھے، محمود بن ربیع کی حدیث کے متعلق پوچھا جس کی روایت انہوں نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے کی تھی تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَكَانَ، مِنْ أَكْبَرِ بَنِي عَدِيٍّ وَكَانَ أَبُوهُ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ عُمَرَ اسْتَعْمَلَ قُدَامَةَ بْنَ مَظْعُونٍ عَلَى الْبَحْرَيْنِ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا، وَهُوَ خَالُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَحَفْصَةَ رضى الله عنهم
Narrated By 'Abdullah bin 'Amr bin Rabi'a : Who was one of the leaders of Bani 'Adi and his father participated in the battle of Badr in the company of the Prophet. 'Umar appointed Qudama bin Maz'un as ruler of Bahrain, Qudama was one of the warriors of the battle of Badr and was the maternal uncle of Abdullah bin 'Umar and Hafsa.
زہری نے بیان کیاکہ مجھے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ قبیلہ بنو عدی کےاکابر میں سے تھے اور ان کے والد (عامر بن ربیعہ) بدر میں نبی کریمﷺکے ساتھ شریک تھے۔ (انہوں نے بیان کیا کہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بحرین کا عامل بنایا تھا، یہ بھی جنگ بدر میں شریک تھے اور عبداللہ بن عمر اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہم کے ماموں تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ قَالَ أَخْبَرَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنَّ عَمَّيْهِ، وَكَانَا، شَهِدَا بَدْرًا أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ. قُلْتُ لِسَالِمٍ فَتُكْرِيهَا أَنْتَ قَالَ نَعَمْ، إِنَّ رَافِعًا أَكْثَرَ عَلَى نَفْسِهِ
Narrated By Az-Zuhri : Salim bin 'Abdullah told me that Rafi' bin Khadij told 'Abdullah bin 'Umar that his two paternal uncles who had fought in the battle of Badr informed him that Allah's Apostle forbade the renting of fields. I said to Salim, "Do you rent your land?" He said, "Yes, for Rafi' is mistaken."
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خبر دی کہ ان کے دونوں چچا جو جنگ بدر میں شریک تھے انہوں نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ میں نے سالم سے کہا لیکن آپ تو کرایہ پر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں، رافع رضی اللہ عنہ اپنے آپ پر سختی کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ قَالَ أَخْبَرَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنَّ عَمَّيْهِ، وَكَانَا، شَهِدَا بَدْرًا أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ. قُلْتُ لِسَالِمٍ فَتُكْرِيهَا أَنْتَ قَالَ نَعَمْ، إِنَّ رَافِعًا أَكْثَرَ عَلَى نَفْسِهِ
Narrated By Az-Zuhri : Salim bin 'Abdullah told me that Rafi' bin Khadij told 'Abdullah bin 'Umar that his two paternal uncles who had fought in the battle of Badr informed him that Allah's Apostle forbade the renting of fields. I said to Salim, "Do you rent your land?" He said, "Yes, for Rafi' is mistaken."
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خبر دی کہ ان کے دونوں چچا جو جنگ بدر میں شریک تھے انہوں نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ میں نے سالم سے کہا لیکن آپ تو کرایہ پر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں، رافع رضی اللہ عنہ اپنے آپ پر سختی کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ اللَّيْثِيَّ، قَالَ رَأَيْتُ رِفَاعَةَ بْنَ رَافِعٍ الأَنْصَارِيَّ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا
Narrated By 'Abdullah bin Shaddad bin Al-Had Al-Laithi : I saw Rifa'a bin Rafi Al-Ansari who was a Badr warrior.
حضرت عبداللہ بن شداد بن ہاد لیثی سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رفاعہ بن رافع انصاری رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے۔ وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهْوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَىٍّ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمِ الْعَلاَءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ فَسَمِعَتِ الأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَوَافَوْا صَلاَةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَلَمَّا انْصَرَفَ تَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ رَآهُمْ ثُمَّ قَالَ " أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَىْءٍ ". قَالُوا أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ " فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ "
Narrated By Al-Miswar bin Makhrama : That 'Amr bin Auf, who was an ally of Bani 'Amir bin Luai and one of those who fought at Badr in the company of the Prophet , said, "Allah's Apostle sent Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah to Bahrain to bring the Jizya taxation from its people, for Allah's Apostle had made a peace treaty with the people of Bahrain and appointed Al-'Ala' bin Al-Hadrami as their ruler. So, Abu 'Ubaida arrived with the money from Bahrain. When the Ansar heard of the arrival of Abu 'Ubaida (on the next day) they offered the morning prayer with the Prophet and when the morning prayer had finished, they presented themselves before him. On seeing the Ansar, Allah's Apostle smiled and said, "I think you have heard that Abu 'Ubaida has brought something?" They replied, "Indeed, it is so, O Allah's Apostle!" He said, "Be happy, and hope for what will please you. By Allah, I am not afraid that you will be poor, but I fear that worldly wealth will be bestowed upon you as it was bestowed upon those who lived before you. So you will compete amongst yourselves for it, as they competed for it and it will destroy you as it did them."
عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن لوی کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھے۔ (نے بیان کیا کہ) نبی کریم ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین، وہاں کا جزیہ لانے کے لیے بھیجا۔ نبی ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا تھا، پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال ایک لاکھ درہم لے کر آئے۔ جب انصار کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے آنے کی خبر ہوئی تو انہوں نے فجر کی نماز نبی ﷺ کے ساتھ پڑھی۔ آپ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو تمام انصار آپ کے سامنے آئے۔ آپﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ اطلاع مل گئی ہے کہ ابوعبیدہ مال لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! آپﷺنے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو اور جس سے تمہیں خوشی ہو گی اس کی امید رکھو۔ اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق محتاجی سے ڈر نہیں لگتا، مجھے تو اس کا خوف ہے کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی تھی، پھرتم اس میں رشک کروگے جس طرح انہوں نے اس میں رشک کیا ۔اور وہ تم کو بھی ہلاک کرکے رہے گی جس طرح وہ ہلاک ہوگئے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ يَقْتُلُ الْحَيَّاتِ كُلَّهَا
Narrated By Nafi : Ibn 'Umar used to kill all kinds of snakes
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہر طرح کے سانپ کو مار ڈالا کرتے تھے۔
حَتَّى حَدَّثَهُ أَبُو لُبَابَةَ الْبَدْرِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ قَتْلِ جِنَّانِ الْبُيُوتِ، فَأَمْسَكَ عَنْهَا
until Abu Lubaba Al-Badri told him that the Prophet had forbidden the killing of harmless snakes living in houses and called Jinan. So Ibn 'Umar gave up killing them.
لیکن جب ابولبابہ بدری رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے گھر میں نکلنے والے سانپ کے مارنے سے منع فرمایا تھا تو انہوں نے بھی اسے مارنا چھوڑ دیا تھا۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رِجَالاً، مِنَ الأَنْصَارِ اسْتَأْذَنُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا ائْذَنْ لَنَا فَلْنَتْرُكْ لاِبْنِ أُخْتِنَا عَبَّاسٍ فِدَاءَهُ. قَالَ " وَاللَّهِ لاَ تَذَرُونَ مِنْهُ دِرْهَمًا "
Narrated By Anas bin Malik : Some men of the Ansar requested Allah's Apostle to allow them to see him, they said, "Allow us to forgive the ransom of our sister's son, 'Abbas." The Prophet said, "By Allah, you will not leave a single Dirham of it!"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کے چند لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اجازت چاہی اور عرض کیا کہ آپ ہمیں اجازت عطا فرمائیں تو ہم اپنے بھانجے عباس رضی اللہ عنہ کا فدیہ معاف کر دیں لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم! ان کے فدیہ سے ایک درہم بھی نہ چھوڑنا۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ، حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، ثُمَّ الْجُنْدَعِيُّ أَنَّ عُبَيْدَ، اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمِقْدَادَ بْنَ عَمْرٍو الْكِنْدِيَّ، وَكَانَ حَلِيفًا لِبَنِي زُهْرَةَ، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلاً مِنَ الْكُفَّارِ فَاقْتَتَلْنَا، فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَىَّ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لاَذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ فَقَالَ أَسْلَمْتُ لِلَّهِ. آأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " لاَ تَقْتُلْهُ ". فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَطَعَ إِحْدَى يَدَىَّ، ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ مَا قَطَعَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " لاَ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ "
Narrated By 'Ubaidullah bin 'Adi bin Al-Khiyar : That Al-Miqdad bin 'Amr Al-Kindi, who was an ally of Bani Zuhra and one of those who fought the battle of Badr together with Allah's Apostle told him that he said to Allah's Apostle, "Suppose I met one of the infidels and we fought, and he struck one of my hands with his sword and cut it off and then took refuge in a tree and said, "I surrender to Allah (i.e. I have become a Muslim),' could I kill him, O Allah's Apostle, after he had said this?" Allah's Apostle said, "You should not kill him." Al-Miqdad said, "O Allah's Apostle! But he had cut off one of my two hands, and then he had uttered those words?" Allah's Apostle replied, "You should not kill him, for if you kill him, he would be in your position where you had been before killing him, and you would be in his position where he had been before uttering those words."
حضرت مقداد بن عمرو کندی رضی اللہ عنہ جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے، پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہنے لگے میں اللہ پر ایمان لے آیا۔ تو کیا یا رسول اللہ! اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کر دوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اسے قتل نہ کرنا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ پہلے میرا ایک ہاتھ بھی کاٹ چکا ہے؟ اور یہ اقرار میرے ہاتھ کاٹنے کے بعد کیا ہے؟ آپ ﷺ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ اسے قتل نہ کرنا، کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر ڈالا تو اسے قتل کرنے سے پہلے جو تمہارا مقام تھا اب اس کا وہ مقام ہو گا اور تمہارا مقام وہ ہو گا جو اس کا مقام اس وقت تھا جب اس نے اس کلمہ کا اقرار نہیں کیا تھا۔
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ بَدْرٍ " مَنْ يَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ ". فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّى بَرَدَ، فَقَالَ آنْتَ أَبَا جَهْلٍ قَالَ ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ سُلَيْمَانُ هَكَذَا قَالَهَا أَنَسٌ. قَالَ أَنْتَ أَبَا جَهْلٍ قَالَ وَهَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ قَالَ سُلَيْمَانُ أَوْ قَالَ قَتَلَهُ قَوْمُهُ. قَالَ وَقَالَ أَبُو مِجْلَزٍ قَالَ أَبُو جَهْلٍ فَلَوْ غَيْرُ أَكَّارٍ قَتَلَنِي
Narrated By Anas : Allah's Apostle said on the day of Badr, "Who will go and see what has happened to Abu Jahl?" Ibn Mas'ud went and saw him struck by the two sons of 'Afra and was on the point of death. Ibn Mas'ud said, "Are you Abu Jahl?" Abu Jahl replied, "Can there be a man more superior to the one whom you have killed (or as Sulaiman said, or his own folk have killed.)?" Abu Jahl added, "Would that I had been killed by other than a mere farmer."
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے بدر کی لڑائی کے دن فرمایا کون دیکھ کر آئے گا کہ ابوجہل کے ساتھ کیا ہوا؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کے لیے روانہ ہوئے اور دیکھا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اسے قتل کر دیا ہے اور اس کی لاش ٹھنڈی ہونے والی ہے۔ انہوں نے پوچھا، ابوجہل تم ہی ہو؟ ابن علیہ نے بیان کیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا تھا کہ تو ابوجہل ہے؟ اس پر اس نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی ہو گا جسے تم نے آج قتل کر دیا ہے؟ سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ یا اس نے یوں کہا، جسے اس کی قوم نے قتل کر دیا ہے؟ (کیا اس سے بھی بڑا کوئی ہو گا) کہا کہ ابومجلز نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا، کاش! ایک کسان کے سوا مجھے کسی اور نے مارا ہوتا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ ـ رضى الله عنهم ـ لَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قُلْتُ لأَبِي بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا مِنَ الأَنْصَارِ. فَلَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلاَنِ صَالِحَانِ شَهِدَا بَدْرًا. فَحَدَّثْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ فَقَالَ هُمَا عُوَيْمُ بْنُ سَاعِدَةَ، وَمَعْنُ بْنُ عَدِيٍّ
Narrated By Ibn Abbas : 'Umar said, "When the Prophet died I said to Abu Bakr, 'Let us go to our Ansari brethren.' We met two pious men from them, who had fought in the battle of Badr." When I mentioned this to Urwa bin Az-Zubair, he said, "Those two pious men were 'Uwaim bin Sa'ida and Manbin Adi."
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہو گئی تو میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا آپ ہمیں ساتھ لے کر ہمارے انصاری بھائیوں کے یہاں چلیں۔ پھر ہماری ملاقات دو نیک ترین انصاری صحابیوں سے ہوئی جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ عبیداللہ نے کہا، پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ عروہ بن زبیر سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ دونوں صحابی عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی رضی اللہ عنہما تھے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ فُضَيْلٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، كَانَ عَطَاءُ الْبَدْرِيِّينَ خَمْسَةَ آلاَفٍ خَمْسَةَ آلاَفٍ. وَقَالَ عُمَرُ لأُفَضِّلَنَّهُمْ عَلَى مَنْ بَعْدَهُمْ
Narrated By Qais : The Badr warriors were given five thousand (Dirhams) each, yearly. 'Umar said, "I will surely give them more than what I will give to others."
حضرت قیس بن ابی حازم سے مروی ہے کہ بدری صحابہ کا وظیفہ پانچ، پانچ ہزار تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں انہیں بعد میں آنے والوں پر ضرور برتری دوں گا۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ، وَذَلِكَ أَوَّلَ مَا وَقَرَ الإِيمَانُ فِي قَلْبِي
Narrated By Jubair bin Mut'im : I heard the Prophet reciting Surat-at-Tur in Maghrib prayer, and that was at a time when belief was first planted in my heart.
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سنا، آپ مغرب کی نماز میں سورۃ والطور کی تلاوت کر رہے تھے، یہ پہلا موقع تھا جب میرے دل میں ایمان نے قرار پکڑا۔
وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ " لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلاَءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ "وَقَالَ اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الأُولَى ـ يَعْنِي مَقْتَلَ عُثْمَانَ ـ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ أَحَدًا، ثُمَّ وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الثَّانِيَةُ ـ يَعْنِي الْحَرَّةَ ـ فَلَمْ تُبْقِ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ أَحَدًا ثُمَّ وَقَعَتِ الثَّالِثَةُ فَلَمْ تَرْتَفِعْ وَلِلنَّاسِ طَبَاخٌ
Narrated By Jubair bin Mut'im :The Prophet while speaking about the war prisoners of Badr, said, "Were Al-Mutim bin Adi alive and interceded with me for these filthy people, I would definitely forgive them for his sake."
Narrated Said bin Al-Musaiyab: When the first civil strife (in Islam) took place because of the murder of 'Uthman, it left none of the Badr warriors alive. When the second civil strife, that is the battle of Al-Harra, took place, it left none of the Hudaibiya treaty companions alive. Then the third civil strife took place and it did not subside till it had exhausted all the strength of the people.
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے بدر کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا اگر مطعم بن عدی رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے اور ان پلید قیدیوں کے لیے سفارش کرتے تو میں انہیں ان کے کہنے پر چھوڑ دیتا۔
حضرت سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر جب دوسرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک ختم نہیں ہوا جب تک ان میں کوئی خیرو برکت باقی تھی۔
حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، قَالَ سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ، عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم كُلٌّ ـ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ ـ قَالَتْ فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ. فَقُلْتُ بِئْسَ مَا قُلْتِ، تَسُبِّينَ رَجُلاً شَهِدَ بَدْرًا فَذَكَرَ حَدِيثَ الإِفْكِ
Narrated By Yunus bin Yazid : I heard Az-Zuhri saying, "I heard 'Urwa bin Az-Zubair. Said bin Al-Musaiyab, 'Alqama bin Waqqas and 'Ubaidullah bin 'Abdullah each narrating part of the narrative concerning 'Aisha the wife of the Prophet. 'Aisha said: When I and Um Mistah were returning, Um Mistah stumbled by treading on the end of her robe, and on that she said, 'May Mistah be ruined.' I said, 'You have said a bad thing, you curse a man who took part in the battle of Badr!." Az-Zuhri then narrated the narration of the Lie (forged against 'Aisha).
زہر ی نے بیان کیا کہ میں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ سے نبی کریمﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تہمت کے متعلق سنا۔ ان میں سے ہر ایک نے مجھ سے اس واقعہ کا کوئی حصہ بیان کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تھا کہ میں اور ام مسطح باہر قضائے حاجت کو جا رہے تھے کہ ام مسطح رضی اللہ عنہا اپنی چادر میں الجھ کر پھسل پڑیں۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا، مسطح کا برا ہو۔ میں نے کہا، آپ نے اچھی بات نہیں کہی۔ ایک ایسے شخص کو آپ برا کہتی ہیں جو بدر میں شریک ہو چکا ہے۔ پھر انہوں نے تہمت کا واقعہ بیان کیا۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ هَذِهِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يُلْقِيهِمْ " هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا ". قَالَ مُوسَى قَالَ نَافِعٌ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُنَادِي نَاسًا أَمْوَاتًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا قُلْتُ مِنْهُمْ ". قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ فَجَمِيعُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ قُرَيْشٍ مِمَّنْ ضُرِبَ لَهُ بِسَهْمِهِ أَحَدٌ وَثَمَانُونَ رَجُلاً، وَكَانَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ يَقُولُ قَالَ الزُّبَيْرُ قُسِمَتْ سُهْمَانُهُمْ فَكَانُوا مِائَةً، وَاللَّهُ أَعْلَمُ
Narrated By Ibn Shihab : These were the battles of Allah's Apostle (which he fought), and while mentioning (the Badr battle) he said, "While the corpses of the pagans were being thrown into the well, Allah's Apostle said (to them), 'Have you found what your Lord promised true?" 'Abdullah said, "Some of the Prophet's companions said, "O Allah's Apostle! You are addressing dead people.' Allah's Apostle replied, 'You do not hear what I am saying, better than they.' The total number of Muslim fighters from Quraish who fought in the battle of Badr and were given their share of the booty, were 81 men." Az-Zubair said, "When their shares were distributed, their number was 101 men. But Allah knows it better."
ابن شہاب نے بیان کیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے غزوات کا بیان تھا۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ جب (بدر کے) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول اللہﷺنے فرمایا: کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ راوی کہتا ہے کہ چند صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مر چکے ہیں؟ نبی کریمﷺنے فرمایا جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں ، تم اس کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ قریش کے جتنے لوگ بدر میں شریک ہوئے تھے اورجنہیں غنیمت سے حصہ ملا ان کی تعداد 81 تھی۔
عروہ بن زبیر بیان کرتے تھے کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: ان کے حصے تقسیم کئے تھے اور ان کی تعداد سو تھی ۔ واللہ اعلم
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ ضُرِبَتْ يَوْمَ بَدْرٍ لِلْمُهَاجِرِينَ بِمِائَةِ سَهْمٍ
Narrated By Az-Zubair : On the day of Badr, (Quraishi) Emigrants received 100 shares of the war booty."
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: بدر کے دن مہاجرین کےلیے سو حصے مقرر کئے گئے تھے۔
Chapter No: 13
باب تَسْمِيةُ مَنْ سُمِّيَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ فِي الْجَامِعِ الَّذِي وَضَعَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عَلَى حُرُوفِ الْمُعْجَمِ
A list of the names of those who took part in the battle of Badr, Compiled by Abu Abdullah (Al-Bukhari)
باب: ان لوگوں کے ناموں کا بیان جن کا ذکر اس کتاب میں آیا ہے جس کو امام بخاری نے بنایا کہ وہ بدر کی جنگ میں شریک تھے بہ ترتیب حروف تہجّی۔
النَّبِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَاشِمِيُّ صلى الله عليه وسلم، إِيَاسُ بْنُ الْبُكَيْرِ، بِلاَلُ بْنُ رَبَاحٍ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ الْقُرَشِيِّ، حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ الْهَاشِمِيُّ، حَاطِبُ بْنُ أَبِي بَلْتَعَةَ حَلِيفٌ لِقُرَيْشٍ، أَبُو حُذَيْفَةَ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ الْقُرَشِيُّ، حَارِثَةُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ قُتِلَ يَوْمَ بَدْرٍ وَهْوَ حَارِثَةُ بْنُ سُرَاقَةَ كَانَ فِي النَّظَّارَةِ، خُبَيْبُ بْنُ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيُّ، خُنَيْسُ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ، رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ الأَنْصَارِيُّ، رِفَاعَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُنْذِرِ أَبُو لُبَابَةَ الأَنْصَارِيُّ، الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ الْقُرَشِيُّ، زَيْدُ بْنُ سَهْلٍ أَبُو طَلْحَةَ الأَنْصَارِيُّ ـ أَبُو زَيْدٍ الأَنْصَارِيُّ ـ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ الزُّهْرِيُّ، سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ الْقُرَشِيُّ، سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ الْقُرَشِيُّ، سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ، ظُهَيْرُ بْنُ رَافِعٍ الأَنْصَارِيُّ وَأَخُوهُ، عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ الْقُرَشِيُّ، عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ الْهُذَلِيُّ، عُتْبَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الْهُذَلِيُّ، عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ، عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ الْقُرَشِيُّ، عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ الأَنْصَارِيُّ، عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْعَدَوِيُّ، عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ الْقُرَشِيُّ خَلَّفَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى ابْنَتِهِ وَضَرَبَ لَهُ بِسَهْمِهِ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ الْهَاشِمِيُّ، عَمْرُو بْنُ عَوْفٍ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَىٍّ، عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو الأَنْصَارِيُّ، عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ الْعَنَزِيُّ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيُّ، عُوَيْمُ بْنُ سَاعِدَةَ الأَنْصَارِيُّ، عِتْبَانُ بْنُ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ، قُدَامَةُ بْنُ مَظْعُونٍ، قَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ الأَنْصَارِيُّ، مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، مُعَوِّذُ ابْنُ عَفْرَاءَ وَأَخُوهُ، مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ أَبُو أُسَيْدٍ الأَنْصَارِيُّ، مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ، مَعْنُ بْنُ عَدِيٍّ الأَنْصَارِيُّ، مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، مِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو الْكِنْدِيُّ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ، هِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ الأَنْصَارِيُّ ـ رضى الله عنهم
Prophet Muhammad bin Abdullah Al-Hashmi (s.a.w), Abu Bakr Siddiq, Umar, Uthman, Ali bin Abu Talib, Iyas bin Al-Bukair, Bilal bin Rabah the freed slave of Abu Bakr Siddiq, Hamza bin Abdul Muttalib Al-Hashmi, Hatib bin Abi Baltaa - ally of Quraish, Abu Hudhaifa bin Utba bin Rabia Qureshi, Haritha bin Ar-Rabi Al-Ansari (Haritha bin Suraqa) who was martyred on the day of the battle of Badr and was one of the scouts. Khubaib bin Adi Al-Ansari, Khunais bin Hudaifa As-Sahmi, Rifaa bin Rafi Al-Ansari, Rifaa bin Abdul Mundhir, Abu Lubaba Al-Ansari, Az-Zubair bin Al-Awwam Al-Qureshi, Zaid bin Sahl Al-Ansari, Saad bin Malik Az-Zuhri, Saad bin Khaula Al-Qureshi, Saeed bin Zaid bin Amr bin Nufail Al-Qureshi, Sahl bin Hunaif Al-Ansari, Zuhair bin Rafi Al-Ansari and his brother (Muzhir), Abdullah bin Masood Al-Hudhali, Utba bin Masood Al-Hudhali, Abdur Rehman bin Auf Az-Zuhri, Ubaida bin Al-Harith Al-Qureshi, Ubada bin As-Samit Al-Ansari, Amr bin Auf, an ally of the Bani Amir bin Luai, Uqba bin Amr Al-Ansari, Amir bin Rabia Al-Ansari, Asim bin Thabit Al-Ansari, Uwaim bin Saida Al-Ansari, Itban bin Malik Al-Ansari, Qudama bin Mazun, Qatada bin An-Numan Al-Ansari, Muadh bin Amir bin Al-Jamuh, Muawwidh bin Afra and his brother, Malik bin Rabi Abu Usaid Al-Ansari, Murara bin Ar-Rabi Al-Ansari, Maan bin Adi Al-Ansari, Mistah bin Uthatha bin Abbad bin Al-Muttalib bin Abd-Manaf, Al-Miqdad bin Amr Al-Kindi - an ally of Bani Zuhra and Hilal bin Umaiyya Al-Ansari.
جناب رسالت مآب سرورِ عالم نبیﷺ ابوبکر صدیقؓ، ایاس بن بکیرؓ ، بلال بن رباحؓ ابوبکر صدیقؓ کے غلام ، حمزہ بن عبدالمطلب۔ہاشمی ، حاطب بن ابی بلتعہ قریش کے حلیف ، ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ قرشی ، حارثہ بن ربیع انصاری جن کو حارثہ بن سراقہ بھی کہتے ہیں وہ (بچے تھے) صرف تماشہ دیکھنے کے لئے گئے تھے لیکن شہید ہوئے (پانی پینے میں ایک تیر لگا) خبیب بن عدی انصاریؓ ، خنیس بن حذافہ سہمیؓ ، رفاعہ بن رافع انصاریؓ ، رفاعہ بن عبدالمنذر ابولبابہ انصاریؓ ، زبیر بن عوام قرشیؓ ، زید بن سہل ابو طلحہ انصاریؓ ، ابو زید انصاریؓ ، سعد بن مالک یعنی سعد بن ابی وقاصؓ ، سعد بن خولہ قرشیؓ ، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل قرشیؓ ، سہل بن حنیف انصاریؓ ، ظہیر بن رافع انصاریؓ اور ان کے بھائی مظہرؓ ، عبداللہ بن مسعود ھذلیؓ ، عتبہ بن مسعود ھذلیؓ ، عبدالرحمٰن بن عوف زھریؓ ، عبیدہ بن حارث قرشیؓ ، عبادہ بن صامت انصاریؓ ، حضرت عمر بن خطابؓ عدوی ، حضرت عثمان بن عفان قرشیؓ ، ان کو نبیﷺ مدینہ میں اپنی صاحبزادی کی خبرگیری کے لیے (جو بیمار تھیں) چھوڑ گئے تھے لیکن ان کا حصِّہ آپ نے لگایا تھا ، حضرت علی بن ابی طالب حیدر کرار ہاشمیؓ ، عمرو بن عوفؓ بنی عامر بن لوئے کے حلیف ، عقبہ بن عمرو انصاریؓ ، عامر بن ربیعہ عنزیؓ ، عاصم ابن ثابت انصاریؓ ، عویم بن ساعدہ انصاریؓ ، عتبان بن مالک انصاریؓ ، اقدام بن مظعونؓ ، قتادہ بن نعمان انصاریؓ ، معاذ ابن عمرو ابن الجموحؓ ، معوذ بن عفراءؓ اور ان کے بھائی عوفؓ ، مالک بن ربیعہ ابو اسید انصاریؓ ، مرارہ بن ربیع انصاریؓ ، معن بن عدی انصاریؓ ، مسطح بن اثاثہؓ ابن عباد بن عبدالمطلب بن عبد منافؓ مقداد بن عمرو کندیؓ بنی زھرہ کے حلیف ہلال بن امیہ انصاریؓ اللہ ان سب سے راضی ہو۔(اور برزخ اور حشر اور بہشت میں ہم کو ان کے پاس رکھے)۔
Chapter No: 14
باب حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ وَمَخْرَجِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِمْ فِي دِيَةِ الرَّجُلَيْنِ، وَمَا أَرَادُوا مِنَ الْغَدْرِ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
The story of Bani An-Nadir. And the going of Allah's Messenger (s.a.w) to them asking their help in collecting the blood-money of the two men. And how Bani An-Nadir betrayed Allah's Messenger (s.a.w) by breaking the covenant with him.
باب: بنی نضیر یہودیوں کا قصّہ اور رسول اللہﷺ کا دو آدمیوں کی دیت میں مدد لینے کے لئے ان کے پاس جانا اور ان کا رسول اللہﷺ سے دغابازی کرنا
قَالَ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ كَانَتْ عَلَى رَأْسِ سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ وَقْعَةِ بَدْرٍ قَبْلَ أُحُدٍ. وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لأَوَّلِ الْحَشْرِ} وَجَعَلَهُ ابْنُ إِسْحَاقَ بَعْدَ بِئْرِ مَعُونَةَ وَأُحُدٍ
Urwa bin Az-Zubair said, "This incident (Ghazwa of Bani An-Nadir) took place six months after the battle of Badr and before the battle of Uhud."
And the Statement of Allah, "He it is Who drove out the disbelievers among the people of the Scripture from their homes at the first gathering ..." (V.59:2)
Ibn Ishaq thinks that it (Ghazwa) took place after the Bir Mauna and Uhud.
زہری نے عروہ بن زبیر سے روایت کی انہوں نے کہا بنی نضیر کی لڑائی بدر کی لڑائی سے چھ مہینے کے بعد اور احد کی لڑائی سے پہلے ہوئی۔اور اللہ تعالٰی کا (سورت حشر میں) یہ فرمانا وہی پروردگار ہے جس نے اہل کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے نکالا یہ ان کا پہلا نکالا تھا اور ابن اسحٰق نے بنی نضیر کی لڑائی بئرمعونہ اور جنگ احد کے بعد رکھی ہے(صفر ۴ہجری میں)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ حَارَبَتِ النَّضِيرُ وَقُرَيْظَةُ، فَأَجْلَى بَنِي النَّضِيرِ، وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ، حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ وَقَسَمَ نِسَاءَهُمْ وَأَوْلاَدَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلاَّ بَعْضَهُمْ لَحِقُوا بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَآمَنَهُمْ وَأَسْلَمُوا، وَأَجْلَى يَهُودَ الْمَدِينَةِ كُلَّهُمْ بَنِي قَيْنُقَاعَ وَهُمْ رَهْطُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ، وَكُلَّ يَهُودِ الْمَدِينَةِ
Narrated By Ibn Umar : Bani An-Nadir and Bani Quraiza fought (against the Prophet violating their peace treaty), so the Prophet exiled Bani An-Nadir and allowed Bani Quraiza to remain at their places (in Medina) taking nothing from them till they fought against the Prophet again). He then killed their men and distributed their women, children and property among the Muslims, but some of them came to the Prophet and he granted them safety, and they embraced Islam. He exiled all the Jews from Medina. They were the Jews of Bani Qainuqa', the tribe of 'Abdullah bin Salam and the Jews of Bani Haritha and all the other Jews of Medina.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا: بنو نضیر اور بنو قریظہ نے نبی ﷺسے (معاہدہ توڑ کر) لڑائی مول لی۔ اس لیے آپ ﷺنے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا اور بنو قریظہ پر احسان کرتےہوئے انہیں برقرار رکھاحتی کہ انہوں نے بھی دوبارہ آپﷺسے جنگ مول لی۔ تو آپﷺ نے ان کے مردوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں، بچوں اور مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ صرف بعض بنی قریظہ اس سے الگ قرار دیئے گئے تھے کیونکہ وہ آپﷺ کی پناہ میں آ گئے تھے۔ اس لیے آپ ﷺنے انہیں پناہ دی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپﷺنے مدینہ کے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا تھا۔ بنو قینقاع کو بھی جو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا، یہود بنی حارثہ کو بھی وہاں سے نکال دیا۔ الغرض آپﷺنے مدینہ کے تمام یہودیوں کو مدینہ طیبہ سے جلاوطن کردیا۔
حَدَّثَنا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ سُورَةُ الْحَشْرِ. قَالَ قُلْ سُورَةُ النَّضِيرِ. تَابَعَهُ هُشَيْمٌ عَنْ أَبِي بِشْرٍ
Narrated By Said bin Jubair : I mentioned to Ibn 'Abbas Surat-Hashr. He said, "Call it Surat-an-Nadir."
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ یہ سورہ الحشر ہے تو انہوں نے کہا :اسے سورۃ نضیر کہو(کیونکہ یہ سورۃ بنو نضیر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے) اس روایت کی متابعت ہشیم سے ابوبشر نے کی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه قَالَ كَانَ الرَّجُلُ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم النَّخَلاَتِ حَتَّى افْتَتَحَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرَ، فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ
Narrated By Anas bin Malik : Some people used to allot some date palm trees to the Prophet as gift till he conquered Banu Quraiza and Bani An-Nadir, where upon he started returning their date palms to them.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک آدمی (انصاری) نبی کریمﷺ کے لیے کچھ کھجور کے درخت مخصوص رکھتے تھے (تاکہ اس کا پھل آپ کی خدمت میں بھیج دیا جائے) لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بنو قریظہ اور بنو نضیر پر فتح عطا فرمائی تو آپﷺ ان کے پھل واپس فرما دیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَهْىَ الْبُوَيْرَةُ فَنَزَلَتْ {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ}
Narrated By Ibn Umar : Allah's Apostle had the date-palm trees of Bani Al-Nadir burnt and cut down at a place called Al-Buwaira. Allah then revealed: "What you cut down of the date-palm trees (of the enemy) Or you left them standing on their stems. It was by Allah's Permission." (59.5)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیئے تھے اور کچھ کاٹ دئیے تھے ۔ یہ باغات مقام بویرہ میں تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله» جو درخت تم نے کاٹے ہیں یا انہیں ان کے تنوں پرقائم رہنے دیا ہے یہ سب اللہ کے حکم ہی سے تھا۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ، أَخْبَرَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ قَالَ وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَىٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ قَالَ فَأَجَابَهُ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ أَدَامَ اللَّهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَىَّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ
Narrated By Ibn Umar : The Prophet burnt the date-palm trees of Bani An-Nadir. Hassan bin Thabit said the following poetic Verses about this event: "the terrible burning of Al-Buwaira Has been received indifferently By the nobles of Bani Luai (The masters and nobles of Quraish)." Abu Sufyan bin Al-Harith (i.e. the Prophet's cousin who was still a disbeliever then) replied to Hassan, saying in poetic verses: "May Allah bless that burning And set all its (i.e. Medina's) Parts on burning fire. You will see who is far from it (i.e. Al-Buwaira) And which of our lands will be Harmed by it (i.e. the burning of Al-Buwaira)."
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیﷺنے بنو نضیر کے باغات کو آگ لگائی تو اس کے بارے میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے شعر کہا تھا (ترجمہ) بنو لوی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کررہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آکر جل رہا ہے ۔ابو سفیان بن حارث نے یہ جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کرے مدینہ میں یوں آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھٹے رہیں ، تمہیں جلدی معلوم ہوجائے گا کہ ہماری کس زمین کو نقصان پہچتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ دَعَاهُ إِذْ جَاءَهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ فَقَالَ نَعَمْ، فَأَدْخِلْهُمْ. فَلَبِثَ قَلِيلاً، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ يَسْتَأْذِنَانِ قَالَ نَعَمْ. فَلَمَّا دَخَلاَ قَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الَّذِي أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ بَنِي النَّضِيرِ، فَاسْتَبَّ عَلِيٌّ وَعَبَّاسٌ، فَقَالَ الرَّهْطُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ. فَقَالَ عُمَرُ اتَّئِدُوا، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ. قَالُوا قَدْ قَالَ ذَلِكَ. فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ قَالَ ذَلِكَ قَالاَ نَعَمْ. قَالَ فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم فِي هَذَا الْفَىْءِ بِشَىْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ} إِلَى قَوْلِهِ {قَدِيرٌ} فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلاَ اسْتَأْثَرَهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَقَسَمَهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ مِنْهَا، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَيَاتَهُ، ثُمَّ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ. فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ وَقَالَ تَذْكُرَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ عَمِلَ فِيهِ كَمَا تَقُولاَنِ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهِ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ. فَقَبَضْتُهُ سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهِ بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي فِيهِ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي كِلاَكُمَا وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ، فَجِئْتَنِي ـ يَعْنِي عَبَّاسًا ـ فَقُلْتُ لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا قُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلاَنِ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ، وَمَا عَمِلْتُ فِيهِ مُذْ وَلِيتُ، وَإِلاَّ فَلاَ تُكَلِّمَانِي، فَقُلْتُمَا ادْفَعْهُ إِلَيْنَا بِذَلِكَ. فَدَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا، أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ لاَ أَقْضِي فِيهِ بِقَضَاءٍ غَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهُ، فَادْفَعَا إِلَىَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهُ
Narrated By Malik bin Aus Al-Hadathan An-Nasri : That once 'Umar bin Al-Khattab called him and while he was sitting with him, his gatekeeper, Yarfa came and said, "Will you admit 'Uthman, 'Abdur-Rahman bin Auf, AzZubair and Sad (bin Abi Waqqas) who are waiting for your permission?" 'Umar said, "Yes, let them come in." After a while, Yarfa- came again and said, "Will you admit 'Ali and 'Abbas who are asking your permission?" 'Umar said, "Yes." So, when the two entered, 'Abbas said, "O chief of the believers! Judge between me and this (i.e. 'Ali). "Both of them had a dispute regarding the property of Bani An-Nadir which Allah had given to His Apostle as Fai (i.e. booty gained without fighting), 'Ali and 'Abbas started reproaching each other. The (present) people (i.e. 'Uthman and his companions) said, "O chief of the believers! Give your verdict in their case and relieve each from) the other." 'Umar said, "Wait I beseech you, by Allah, by Whose Permission both the heaven and the earth stand fast! Do you know that Allah's Apostle said, 'We (Prophets) our properties are not to be inherited, and whatever we leave, is to be spent in charity,' and he said it about himself?" They (i.e. 'Uthman and his company) said, "He did say it. "'Umar then turned towards 'Ali and 'Abbas and said, "I beseech you both, by Allah! Do you know that Allah's Apostle said this?" They replied in the affirmative. He said, "Now I am talking to you about this matter. Allah the Glorified favoured His Apostle with something of this Fai (i.e. booty won without fighting) which He did not give to anybody else. Allah said:
"And what Allah gave to His Apostle ("Fai"" Booty) from them... for which you made no expedition with either calvary or camelry. But Allah gives power to His Apostles over whomsoever he will and Allah is able to do all things." (59.6)
So this property was especially granted to Allah's Apostle. But by Allah, the Prophet neither took it all for himself only, nor deprived you of it, but he gave it to all of you and distributed it amongst you till only this remained out of it. And from this Allah's Apostle used to spend the yearly maintenance for his family, and whatever used to remain, he used to spend it where Allah's Property is spent (i.e. in charity), Allah's Apostle kept on acting like that during all his life, Then he died, and Abu Bakr said, 'I am the successor of Allah's Apostle.' So he (i.e. Abu Bakr) took charge of this property and disposed of it in the same manner as Allah's Apostle used to do, and all of you (at that time) knew all about it." Then 'Umar turned towards 'Ali and 'Abbas and said, "You both remember that Abu Bakr disposed of it in the way you have described and Allah knows that, in that matter, he was sincere, pious, rightly guided and the follower of the right. Then Allah caused Abu Bakr to die and I said, 'I am the successor of Allah's Apostle and Abu Bakr.' So I kept this property in my possession for the first two years of my rule (i.e. Caliphate and I used to dispose of it in the same was as Allah's Apostle and Abu Bakr used to do; and Allah knows that I have been sincere, pious, rightly guided an the follower of the right (in this matte Later on both of you (i.e. 'Ali and Abbas) came to me, and the claim of you both was one and the same, O 'Abbas! You also came to me. So I told you both that Allah's Apostle said, "Our property is not inherited, but whatever we leave is to be given in charity.' Then when I thought that I should better hand over this property to you both or the condition that you will promise and pledge before Allah that you will dispose it off in the same way as Allah's Apostle and Abu Bakr did and as I have done since the beginning of my caliphate or else you should not speak to me (about it).' So, both of you said to me, 'Hand it over to us on this condition.' And on this condition I handed it over to you. Do you want me now to give a decision other than that (decision)? By Allah, with Whose Permission both the sky and the earth stand fast, I will never give any decision other than that (decision) till the Last Hour is established. But if you are unable to manage it (i.e. that property), then return it to me, and I will manage on your behalf."
مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں اس وقت بلایا تھا کہ جب امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا کہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کردیجئے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مال بنو نضیر سے فے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ ﷺ کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد قدیر تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ ﷺ نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فےمیں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم ﷺ کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم ﷺ خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ ﷺ فرما گئے تھے کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔
قَالَ فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ، عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ فَقَالَ صَدَقَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ، أَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم تَقُولُ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم، فَكُنْتُ أَنَا أَرُدُّهُنَّ، فَقُلْتُ لَهُنَّ أَلاَ تَتَّقِينَ اللَّهَ، أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ـ يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ ـ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فِي هَذَا الْمَالِ ". فَانْتَهَى أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى مَا أَخْبَرَتْهُنَّ. قَالَ فَكَانَتْ هَذِهِ الصَّدَقَةُ بِيَدِ عَلِيٍّ، مَنَعَهَا عَلِيٌّ عَبَّاسًا فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا، ثُمَّ كَانَ بِيَدِ حَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ بِيَدِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ وَحَسَنِ بْنِ حَسَنٍ، كِلاَهُمَا كَانَا يَتَدَاوَلاَنِهَا، ثُمَّ بِيَدِ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ، وَهْىَ صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَقًّا
The sub-narrator said, "I told 'Urwa bin Az-Zubair of this Hadith and he said, 'Malik bin Aus has told the truth" I heard 'Aisha, the wife of the Prophet saying, 'The wives of the Prophet sent 'Uthman to Abu Bakr demanding from him their 1/8 of the Fai which Allah had granted to his Apostle. But I used to oppose them and say to them: Will you not fear Allah? Don't you know that the Prophet used to say: Our property is not inherited, but whatever we leave is to be given in charity? The Prophet mentioned that regarding himself. He added: 'The family of Muhammad can take their sustenance from this property. So the wives of the Prophet stopped demanding it when I told them of that.' So, this property (of Sadaqa) was in the hands of Ali who withheld it from 'Abbas and overpowered him. Then it came in the hands of Hasan bin 'Ali, then in the hands of Husain bin 'Ali, and then in the hands of Ali bin Husain and Hasan bin Hasan, and each of the last two used to manage it in turn, then it came in the hands of Zaid bin Hasan, and it was truly the Sadaqa of Allah's Apostle."
زہری نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس حدیث کا تذکرہ حضرت عروہ بن زبیر سے کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک بن اوس نے یہ روایت تم سے صحیح بیان کی ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺکی پاک بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فے اپنے رسول ﷺ کو دی تھی اس میں سے ان کے حصے دیئے جائیں، لیکن میں نے انہیں روکا اور ان سے کہا تم اللہ سے نہیں ڈرتی کہ آپ ﷺ نے خود نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا؟ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا اشارہ اس ارشاد میں خود اپنی ذات کی طرف تھا۔ البتہ آل محمد ( ﷺ ) کو اس جائیداد میں سے تا زندگی (ان کی ضروریات کے لیے) ملتا رہے گا۔ جب میں نے ازواج مطہرات کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے بھی اپنا خیال بدل دیا۔ عروہ نے کہا کہ یہی وہ صدقہ ہے جس کا انتظام پہلے علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ کو اس کے انتظام میں شریک نہیں کیا تھا بلکہ خود اس کا انتظام کرتے تھے (اور جس طرح نبی کریم ﷺ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسے خرچ کیا تھا، اسی طرح انہیں مصارف میں وہ بھی خرچ کرتے تھے) اس کے بعد وہ صدقہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظام میں آ گیا تھا۔ پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظام میں رہا۔ پھر جناب علی بن حسین اور حسن بن حسن کے انتظام میں آ گیا تھا اور یہ حق ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا صدقہ تھا۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ وَالْعَبَّاسَ أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا، أَرْضَهُ مِنْ فَدَكٍ، وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ.
Narrated By 'Aisha : Fatima and Al'Abbas came to Abu Bakr, claiming their inheritance of the Prophet's land of Fadak and his share from Khaibar.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اورحضرت عباس رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور نبی ﷺ کی زمین جو فدک میں تھی اور جو خیبر میں آپ کو حصہ ملا تھا، اس میں سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا۔
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ ". وَاللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحَبُّ إِلَىَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي
Abu Bakr said, "I heard the Prophet saying, 'Our property is not inherited, and whatever we leave is to be given in charity. But the family of Muhammad can take their sustenance from this property.' By Allah, I would love to do good to the Kith and kin of Allah's Apostle rather than to my own Kith and kin."
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے خود نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ آل محمدﷺکو اس جائیداد سے خرچہ ضرور ملتا رہے گا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی قرابت میرے نزدیک خود اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے کہ ان سے اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کروں۔
Chapter No: 15
باب قَتْلُ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ
The killing of Kaab bin Al-Ashraf.
باب: کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا قصّہ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ". فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ قَالَ " نَعَمْ ". قَالَ فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا. قَالَ " قُلْ ". فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَقَالَ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً، وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا، وَإِنِّي قَدْ أَتَيْتُكَ أَسْتَسْلِفُكَ. قَالَ وَأَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَىِّ شَىْءٍ يَصِيرُ شَأْنُهُ، وَقَدْ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا، أَوْ وَسْقَيْنِ ـ وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو غَيْرَ مَرَّةٍ، فَلَمْ يَذْكُرْ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ أَوْ فَقُلْتُ لَهُ فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ أُرَى فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ ـ فَقَالَ نَعَمِ ارْهَنُونِي. قَالُوا أَىَّ شَىْءٍ تُرِيدُ قَالَ فَارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ. قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ. قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ، فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ. هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا، وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللأْمَةَ ـ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلاَحَ ـ فَوَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ، فَجَاءَهُ لَيْلاً وَمَعَهُ أَبُو نَائِلَةَ وَهْوَ أَخُو كَعْبٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَدَعَاهُمْ إِلَى الْحِصْنِ، فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ أَيْنَ تَخْرُجُ هَذِهِ السَّاعَةَ فَقَالَ إِنَّمَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَأَخِي أَبُو نَائِلَةَ ـ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَتْ أَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ يَقْطُرُ مِنْهُ الدَّمُ. قَالَ إِنَّمَا هُوَ أَخِي مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَرَضِيعِي أَبُو نَائِلَةَ ـ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ بِلَيْلٍ لأَجَابَ قَالَ وَيُدْخِلُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ مَعَهُ رَجُلَيْنِ ـ قِيلَ لِسُفْيَانَ سَمَّاهُمْ عَمْرٌو قَالَ سَمَّى بَعْضَهُمْ قَالَ عَمْرٌو جَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو أَبُو عَبْسِ بْنُ جَبْرٍ، وَالْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ عَمْرٌو وَجَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ ـ فَقَالَ إِذَا مَا جَاءَ فَإِنِّي قَائِلٌ بِشَعَرِهِ فَأَشَمُّهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُونِي اسْتَمْكَنْتُ مِنْ رَأْسِهِ فَدُونَكُمْ فَاضْرِبُوهُ. وَقَالَ مَرَّةً ثُمَّ أُشِمُّكُمْ. فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ مُتَوَشِّحًا وَهْوَ يَنْفَحُ مِنْهُ رِيحُ الطِّيبِ، فَقَالَ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رِيحًا ـ أَىْ أَطْيَبَ ـ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَ عِنْدِي أَعْطَرُ نِسَاءِ الْعَرَبِ وَأَكْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ عَمْرٌو فَقَالَ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشَمَّ رَأْسَكَ قَالَ نَعَمْ، فَشَمَّهُ، ثُمَّ أَشَمَّ أَصْحَابَهُ ثُمَّ قَالَ أَتَأْذَنُ لِي قَالَ نَعَمْ. فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ قَالَ دُونَكُمْ. فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوُا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرُوهُ.
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : Allah's Apostle said, "Who is willing to kill Ka'b bin Al-Ashraf who has hurt Allah and His Apostle?" Thereupon Muhammad bin Maslama got up saying, "O Allah's Apostle! Would you like that I kill him?" The Prophet said, "Yes," Muhammad bin Maslama said, "Then allow me to say a (false) thing (i.e. to deceive Kab). "The Prophet said, "You may say it." Then Muhammad bin Maslama went to Kab and said, "That man (i.e. Muhammad demands Sadaqa (i.e. Zakat) from us, and he has troubled us, and I have come to borrow something from you." On that, Kab said, "By Allah, you will get tired of him!" Muhammad bin Maslama said, "Now as we have followed him, we do not want to leave him unless and until we see how his end is going to be. Now we want you to lend us a camel load or two of food." (Some difference between narrators about a camel load or two.) Kab said, "Yes, (I will lend you), but you should mortgage something to me." Muhammad bin Mas-lama and his companion said, "What do you want?" Ka'b replied, "Mortgage your women to me." They said, "How can we mortgage our women to you and you are the most handsome of the 'Arabs?" Ka'b said, "Then mortgage your sons to me." They said, "How can we mortgage our sons to you? Later they would be abused by the people's saying that so-and-so has been mortgaged for a camel load of food. That would cause us great disgrace, but we will mortgage our arms to you." Muhammad bin Maslama and his companion promised Kab that Muhammad would return to him. He came to Kab at night along with Kab's foster brother, Abu Na'ila. Kab invited them to come into his fort, and then he went down to them. His wife asked him, "Where are you going at this time?" Kab replied, "None but Muhammad bin Maslama and my (foster) brother Abu Na'ila have come." His wife said, "I hear a voice as if dropping blood is from him, Ka'b said. "They are none but my brother Muhammad bin Maslama and my foster brother Abu Naila. A generous man should respond to a call at night even if invited to be killed." Muhammad bin Maslama went with two men. (Some narrators mention the men as 'Abu bin Jabr. Al Harith bin Aus and Abbad bin Bishr). So Muhammad bin Maslama went in together with two men, and sail to them, "When Ka'b comes, I will touch his hair and smell it, and when you see that I have got hold of his head, strip him. I will let you smell his head." Kab bin Al-Ashraf came down to them wrapped in his clothes, and diffusing perfume. Muhammad bin Maslama said. " have never smelt a better scent than this. Ka'b replied. "I have got the best 'Arab women who know how to use the high class of perfume." Muhammad bin Maslama requested Ka'b "Will you allow me to smell your head?" Ka'b said, "Yes." Muhammad smelt it and made his companions smell it as well. Then he requested Ka'b again, "Will you let me (smell your head)?" Ka'b said, "Yes." When Muhammad got a strong hold of him, he said (to his companions), "Get at him!" So they killed him and went to the Prophet and informed him.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا:کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت تکلیف دے رہا ہے۔ اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جو مناسب خیال کروں ، اس سے کہوں ۔آپﷺنے فرمایا: تجھے اجازت ہے ۔ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ،کعب بن اشرف کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ شخص (محمد ﷺ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اور اس نے ہمیں بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے لہذا میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں ۔ کعب نے کہا: اللہ کی قسم! ابھی تو تم اس سے اور بھی تکلیف اٹھاؤگے ۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اب تو ہم نے اس کی اتباع کرلی ہے ۔ ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے جب تک کہ دیکھ نہ لیں کہ آگے کیا انجام ہوتا ہے ۔اس وقت تو میں تمہارے پاس اس وجہ سے آیا ہوں کہ ایک یا دو وسق قرض لوں ۔ راوی عمرو نے کبھی وسق یا دو وسق کا ذکر کیا ہے اور کبھی نہیں ۔ کعب بن اشرف نے کہا: اچھا ، تو میرے پاس کوئی چیز گروی رکھو۔ انہوں نے کہا: تم کیا چیز پسند کرتے ہو؟ کعب نے کہا: اپنی عورتوں کو رہن میں رکھو ۔ اس نے کہا: ہم اپنی عورتوں کو تمہارے پاس بطور رہن کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ جبکہ تو عرب میں بہت خوبصورت آدمی ہے ؟ کعب نے کہا: تو پھر اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے بیٹے تیرے پاس گروی رکھ دیں انہیں ، انہیں تو کل گالی دی جائے گی اور کہا جائے گا کہ انہیں ایک یا دو وسق کے عوض گروی رکھا گیا تھا اور یہ بات ہمارے لیے باعث شرم ہے ۔ البتہ ہم اپنے ہتھیار تمہارے پاس گروی رکھ سکتے ہیں ۔ بہر حال انہوں نے اس سے ہتھیار لے کر آنے کا وعدہ کرلیا۔پھر رات کے وقت کعب کے رضاعی بھائی ابو نائلہ رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے ۔ کعب نے ان کو قلعے کی ایک طرف بلایا ، پھر خود ان کے پاس آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا: تو اس وقت کہاں جارہا ہے ؟ کعب نے جواب دیا : اس وقت تو صرف محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابو نائلہ ہے ۔ عمرو کے علاوہ دوسرے راوی نے بیان کیا کہ کعب ملعون کی بیوی نے کہا: میں تو ایسی آواز سنتی ہوں جس سے خون ٹپکتا ہے ۔ کعب نے کہا: (خطرے کی کوئی بات نہیں وہاں پر) میرا دوست محمد بن مسلمہ اور میرا رضاعی بھائی ابو نائلہ ہے ۔ کرم پیشہ انسان اگر رات کے وقت نیزہ زنی کےلیے بلایا جائے تو اس دعوت کو قبول کرلیتا ہے ۔ادھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ دو اور آدمی لے کر آئے تھے ۔ راوی سفیان سے پوچھا گیا : کیا آپ کے شیخ عمرو نے ان کا نام لیا تھا ؟ انہوں نے کہا: کچھ آدمیوں کا نام لیا تھا۔ البتہ عمرو کے علاوہ دوسروں نے بیان کیا کہ وہ اپنے ہمراہ ابو عبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر کو لائے تھے ۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ (محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ )اپنے ساتھ دو آدمی لائے تھے او رانہوں نے (اپنے ان دونوں ساتھیوں سے ) کہا کہ جب کعب یہاں آئے گا تو میں اس کے بال پکڑکر سونگھوں گا ۔ جب تم دیکھو کہ میں نے اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے اور اس کے سر کو تھام لیا ہے تو تم نے جلدی سے اس کا کام تمام کردینا ہے ۔
راوی نے ایک دفعہ یوں بیان کیا کہ میں تمہیں اس کا سرسونگھاؤں گا۔الغرض وہ ان کے پاس چادر لپیتے ہوئے آیا جب کہ اس سے خوشبو کی مہک اٹھ رہی تھی ۔اس وقت حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آج کی طرح خوشبودار ہوا کبھی نہیں سونگھی ۔ عمرو کے علاوہ (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ کعب نے کہا: میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو سب عورتوں سے زیادہ معطر رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ہے ۔ عمرو نے بیان کیا کہ پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تو مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتا ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ۔ تب انہوں نے خود بھی سونگھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی سونگھایا ۔ پھر انہوں نے کہا: کیا مجھے دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ اس نے کہا: ہاں ۔ پھر جب حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا تو اپنے ساتھیوں سے کہا: ادھر آؤ اور اس کا کام تمام کردو، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کردیا ۔ پھر وہ نبیﷺکے پاس آئے اور آپ کو اس کے قتل کی خوشخبری سنائی۔
Chapter No: 16
باب قَتْلُ أَبِي رَافِعٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْحُقَيْقِ وَيُقَالُ سَلاَّمُ بْنُ أَبِي الْحُقَيْقِ كَانَ بِخَيْبَرَ، وَيُقَالُ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ
The killing of Abu Rafi, Abdullah bin Abi Al-Huqaiq and he was also called Salam bin Abi Al-Huqaiq who used to live in Khaibar, and some said that he used to live in his castle in the land of Hijaz.
باب: ابو رافع یہودی عبداللہ بن ابی الحقیق کے قتل کا قصّہ۔
باب: جنگ احد کا قصّہ۔
باب: یہ آیت جب تم میں سے دو گروہوں نے ہمت ہار دینی چاہی اور اللہ ان کا مددگار تھا اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئیے۔
باب: اللہ تعالٰی کا (سورۂ آل عمران میں) فرمانا جس دن (یعنے احد کے دن) دونوں گروہ بھڑ گئے تم میں سے جو لوگ بھاگ نکلے (کچھ کافر نہیں ہوئے بلکہ) شیطان نے ان کے بعضے کرتوتوں کے بدل ان کو بھڑکا دیا اور بیشک اللہ نے ان کا قصور معاف کر دیا کیونکہ اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے۔
باب: (سورۂ آل عمران میں) یہ فرمانا جب تم بگٹٹ چلے جا رہے تھے اور باوجودیکہ پیغمبر پچھلے گروہ میں رہ کر تم کو بلا رہا تھا لیکن تم مڑ کر بھی کسی کو نہیں دیکھتے تھے (بھاگنے کی دھن میں لگے تھے) آخر تم نے جو پیغمبر کو رنجیدہ کیا اللہ نے بھی اس کے بدل تم کو (شکست دے کر) تم کو رنجیدہ کیا اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ جب کوئی اچھی چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے یا کوئی مصیبت تم پر آ جائے تو (صبر کرو) اور تم جو کرتے ہو اللہ کو اس کی پوری خبر ہے امام بخاری نے کہا اس آیت میں تُصۡعِدُوۡنَ کا معنے تَذۡھبُوۡنَ یعنے چلے جا رہے تھے أصعد و صعد فوق البیت یعنی گھر کے اوپر چڑھ لیا۔
باب: اللہ تعالٰی کا (سورۂ آل عمران میں) فرمانا جب تم شکست کا غم کر چکے تو تم پر امن کی اونگھ بھیجی جو تم میں سے ایک گروہ کو دبا رہی تھی اور بعضوں کو اس وقت بھی اپنی جان کے لالے پڑے تھے (یعنے منافقوں کو) وہ اللہ کی نسبت جہالت کے وقت کی سی بدگمانی کر رہے تھے کہہ رہے تھے اب وہ بات ہم کو کہاں ملی جس کا پیغمبر صاحب نے وعدہ کیا تھا (یعنے فتح) اے پیغمبر کہہ دے سارا کام اللہ کے اختیار میں ہے یہ لوگ دلوں میں اور بھی باتیں (کفر اور نفاق کی) چھپائے ہوئے ہیں جن کو تجھ پر نہیں کھولتے اپنے دل مین کہتے ہیں اگر ہماری بات چلتی تو ہم لوگ یہاں کیوں مارے جاتے اے پیغمبر کہہ دے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کی قسمت میں مارا جانا لکھا تھا وہ (کسی بہانے سے) قتل گاہ میں آموجود ہوتے اس لڑائی میں یہ بھی حکمت تھی کہ اللہ کو تمہارے دلوں کی بات آزمانا اور تمہارے دلی خیالات کو صاف کرنا منظور تھا اور اللہ دلوں کی بات خوب جانتا ہے اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انسؓ سے انہوں نے ابوطلحہ سے انہوں نے کہا میں بھی ان لوگوں میں تھا جن کو احد کے دن اونگھ نے دبا لیا تھا مجھ کو ایسی اونگھ آئی کہ کئی بار میرے ہاتھ سے تلوار گر پڑی وہ گرتی جاتی تھی میں اٹھاتا جاتا تھا وہ گرتی جاتی تھی میں اٹھاتا جاتا تھا۔
وَقَالَ الزُّهْرِيُّ هُوَ بَعْدَ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ
Az-Zuhair said, "He (Abu Rafi) was killed after Kaab bin Al-Ashraf."
کہتے ہیں اس کا نام سلام بن ابی الحقیق تھا یہ خیبر میں رہتا تھا بعضوں نے کہا ایک قلعہ میں جو حجاز کے ملک میں واقع تھا زہری نے کہا ابو رافع کعب بن اشرف کے بعد قتل ہوا (رمضان ۶ یجری میں)
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَهْطًا إِلَى أَبِي رَافِعٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ بَيْتَهُ لَيْلاً وَهْوَ نَائِمٌ فَقَتَلَهُ
Narrated By Al-Bara bin Azib : Allah's Apostle sent a group of persons to Abu Rafi. Abdullah bin Atik entered his house at night, while he was sleeping, and killed him.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ نبی ﷺنے چند آدمیوں کو ابو رافع(یہودی) کی طرف(قتل کرنے کےلیے) بھیجا ۔تو عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ رات کو اس کے گھر میں داخل ہوئے اور وہ سورہا تھا تو عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کردیا۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى أَبِي رَافِعٍ الْيَهُودِيِّ رِجَالاً مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَيُعِينُ عَلَيْهِ، وَكَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ، وَقَدْ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لأَصْحَابِهِ اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ، فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ، وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ، لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ. فَأَقْبَلَ حَتَّى دَنَا مِنَ الْبَابِ ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ كَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً، وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ، فَهَتَفَ بِهِ الْبَوَّابُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ الْبَابَ. فَدَخَلْتُ فَكَمَنْتُ، فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ، ثُمَّ عَلَّقَ الأَغَالِيقَ عَلَى وَتَدٍ قَالَ فَقُمْتُ إِلَى الأَقَالِيدِ، فَأَخَذْتُهَا فَفَتَحْتُ الْبَابَ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ، وَكَانَ فِي عَلاَلِيَّ لَهُ، فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ، فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَىَّ مِنْ دَاخِلٍ، قُلْتُ إِنِ الْقَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَىَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ. فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ، لاَ أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنَ الْبَيْتِ فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ. قَالَ مَنْ هَذَا فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ، فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ، وَأَنَا دَهِشٌ فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا، وَصَاحَ فَخَرَجْتُ مِنَ الْبَيْتِ، فَأَمْكُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ. فَقَالَ لأُمِّكَ الْوَيْلُ، إِنَّ رَجُلاً فِي الْبَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ، قَالَ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ، ثُمَّ وَضَعْتُ ظُبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ، فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ، فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الأَبْوَابَ بَابًا بَابًا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ، فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَى أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَى الأَرْضِ فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ، فَانْكَسَرَتْ سَاقِي، فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى الْبَابِ فَقُلْتُ لاَ أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَعْلَمَ أَقَتَلْتُهُ فَلَمَّا صَاحَ الدِّيكُ قَامَ النَّاعِي عَلَى السُّورِ فَقَالَ أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الْحِجَازِ. فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي فَقُلْتُ النَّجَاءَ، فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ. فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ " ابْسُطْ رِجْلَكَ ". فَبَسَطْتُ رِجْلِي، فَمَسَحَهَا، فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ
Narrated By Al-Bara bin Azib : Allah's Apostle sent some men from the Ansar to ((kill) Abu Rafi, the Jew, and appointed 'Abdullah bin Atik as their leader. Abu Rafi used to hurt Allah's Apostle and help his enemies against him. He lived in his castle in the land of Hijaz. When those men approached (the castle) after the sun had set and the people had brought back their livestock to their homes. Abdullah (bin Atik) said to his companions, "Sit down at your places. I am going, and I will try to play a trick on the gate-keeper so that I may enter (the castle)." So 'Abdullah proceeded towards the castle, and when he approached the gate, he covered himself with his clothes, pretending to answer the call of nature. The people had gone in, and the gate-keeper (considered 'Abdullah as one of the castle's servants) addressing him saying, "O Allah's Servant! Enter if you wish, for I want to close the gate." 'Abdullah added in his story, "So I went in (the castle) and hid myself. When the people got inside, the gate-keeper closed the gate and hung the keys on a fixed wooden peg. I got up and took the keys and opened the gate. Some people were staying late at night with Abu Rafi for a pleasant night chat in a room of his. When his companions of nightly entertainment went away, I ascended to him, and whenever I opened a door, I closed it from inside. I said to myself, 'Should these people discover my presence, they will not be able to catch me till I have killed him.' So I reached him and found him sleeping in a dark house amidst his family, I could not recognize his location in the house. So I shouted, 'O Abu Rafi!' Abu Rafi said, 'Who is it?' I proceeded towards the source of the voice and hit him with the sword, and because of my perplexity, I could not kill him. He cried loudly, and I came out of the house and waited for a while, and then went to him again and said, 'What is this voice, O Abu Rafi?' He said, 'Woe to your mother! A man in my house has hit me with a sword! I again hit him severely but I did not kill him. Then I drove the point of the sword into his belly (and pressed it through) till it touched his back, and I realized that I have killed him. I then opened the doors one by one till I reached the staircase, and thinking that I had reached the ground, I stepped out and fell down and got my leg broken in a moonlit night. I tied my leg with a turban and proceeded on till I sat at the gate, and said, 'I will not go out tonight till I know that I have killed him.' So, when (early in the morning) the cock crowed, the announcer of the casualty stood on the wall saying, 'I announce the death of Abu Rafi, the merchant of Hijaz. Thereupon I went to my companions and said, 'Let us save ourselves, for Allah has killed Abu Rafi,' So I (along with my companions proceeded and) went to the Prophet and described the whole story to him. "He said, 'Stretch out your (broken) leg. I stretched it out and he rubbed it and it became All right as if I had never had any ailment whatsoever."
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابورافع یہودی کے قتل کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابورافع نبی ﷺ کو تکلیف اور اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر اپنے گھروں کو واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں (اس قلعہ پر) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہوجاؤں۔ چنانچہ وہ (قلعہ کے پاس) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کررہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہوچکے تھے۔ دربان نے آواز دی، اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلدی آجاؤ، میں اب دروازہ بند کردوں گا۔ (عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کاروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور چابیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان چابیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ اس عرصہ میں، میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کےلیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہوجائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کرلوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ (سو رہا) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی، یا ابا رافع؟ وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کررہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کرسکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع! یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر (آواز کی طرف بڑھ کر) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہوگیا کہ میں اسے قتل کرچکا ہوں۔چنانچہ میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا سیڑھی تک پہنچ گیا ۔ چاندنی رات تھی ، یہ خیال کرکے کہ میں زمین پر پہنچ گیا ہوں نیچے پاؤں رکھا تو دھڑام سے نیچے آگرا جس سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ معلوم کرلوں کہ آیا میں اسے قتل کرچکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے آواز دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہوکر پکارا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ جلدی چلو۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپﷺ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا ،تو ایسا لگا جیسے مجھے کبھی پاؤں میں تکلیف ہی نہ تھی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحٌ ـ هُوَ ابْنُ مَسْلَمَةَ ـ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى أَبِي رَافِعٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ فِي نَاسٍ مَعَهُمْ، فَانْطَلَقُوا حَتَّى دَنَوْا مِنَ الْحِصْنِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَتِيكٍ امْكُثُوا أَنْتُمْ حَتَّى أَنْطَلِقَ أَنَا فَأَنْظُرَ. قَالَ فَتَلَطَّفْتُ أَنْ أَدْخُلَ الْحِصْنَ، فَفَقَدُوا حِمَارًا لَهُمْ ـ قَالَ ـ فَخَرَجُوا بِقَبَسٍ يَطْلُبُونَهُ ـ قَالَ ـ فَخَشِيتُ أَنْ أُعْرَفَ ـ قَالَ ـ فَغَطَّيْتُ رَأْسِي كَأَنِّي أَقْضِي حَاجَةً، ثُمَّ نَادَى صَاحِبُ الْبَابِ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ فَلْيَدْخُلْ قَبْلَ أَنْ أُغْلِقَهُ. فَدَخَلْتُ ثُمَّ اخْتَبَأْتُ فِي مَرْبِطِ حِمَارٍ عِنْدَ باب الْحِصْنِ، فَتَعَشَّوْا عِنْدَ أَبِي رَافِعٍ وَتَحَدَّثُوا حَتَّى ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى بُيُوتِهِمْ، فَلَمَّا هَدَأَتِ الأَصْوَاتُ وَلاَ أَسْمَعُ حَرَكَةً خَرَجْتُ ـ قَالَ ـ وَرَأَيْتُ صَاحِبَ الْبَابِ حَيْثُ وَضَعَ مِفْتَاحَ الْحِصْنِ، فِي كَوَّةٍ فَأَخَذْتُهُ فَفَتَحْتُ بِهِ باب الْحِصْنِ. قَالَ قُلْتُ إِنْ نَذِرَ بِي الْقَوْمُ انْطَلَقْتُ عَلَى مَهَلٍ، ثُمَّ عَمَدْتُ إِلَى أَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ، فَغَلَّقْتُهَا عَلَيْهِمْ مِنْ ظَاهِرٍ، ثُمَّ صَعِدْتُ إِلَى أَبِي رَافِعٍ فِي سُلَّمٍ، فَإِذَا الْبَيْتُ مُظْلِمٌ قَدْ طَفِئَ سِرَاجُهُ، فَلَمْ أَدْرِ أَيْنَ الرَّجُلُ، فَقُلْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ. قَالَ مَنْ هَذَا قَالَ فَعَمَدْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ، وَصَاحَ فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا ـ قَالَ ـ ثُمَّ جِئْتُ كَأَنِّي أُغِيثُهُ فَقُلْتُ مَا لَكَ يَا أَبَا رَافِعٍ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي. فَقَالَ أَلاَ أُعْجِبُكَ لأُمِّكَ الْوَيْلُ، دَخَلَ عَلَىَّ رَجُلٌ فَضَرَبَنِي بِالسَّيْفِ. قَالَ فَعَمَدْتُ لَهُ أَيْضًا فَأَضْرِبُهُ أُخْرَى فَلَمْ تُغْنِ شَيْئًا، فَصَاحَ وَقَامَ أَهْلُهُ، قَالَ ثُمَّ جِئْتُ وَغَيَّرْتُ صَوْتِي كَهَيْئَةِ الْمُغِيثِ، فَإِذَا هُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ، فَأَضَعُ السَّيْفَ فِي بَطْنِهِ ثُمَّ أَنْكَفِئُ عَلَيْهِ حَتَّى سَمِعْتُ صَوْتَ الْعَظْمِ، ثُمَّ خَرَجْتُ دَهِشًا حَتَّى أَتَيْتُ السُّلَّمَ أُرِيدُ أَنْ أَنْزِلَ، فَأَسْقُطُ مِنْهُ فَانْخَلَعَتْ رِجْلِي فَعَصَبْتُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُ أَصْحَابِي أَحْجُلُ فَقُلْتُ انْطَلِقُوا فَبَشِّرُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَإِنِّي لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَسْمَعَ النَّاعِيَةَ، فَلَمَّا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ صَعِدَ النَّاعِيَةُ فَقَالَ أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ. قَالَ فَقُمْتُ أَمْشِي مَا بِي قَلَبَةٌ، فَأَدْرَكْتُ أَصْحَابِي قَبْلَ أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَبَشَّرْتُهُ
Narrated By Al-Bara : Allah's Apostle sent 'Abdullah bin 'Atik and 'Abdullah bin 'Utba with a group of men to Abu Rafi (to kill him). They proceeded till they approached his castle, whereupon 'Abdullah bin Atik said to them, "Wait (here), and in the meantime I will go and see." 'Abdullah said later on, "I played a trick in order to enter the castle. By chance, they lost a donkey of theirs and came out carrying a flaming light to search for it. I was afraid that they would recognize me, so I covered my head and legs and pretended to answer the call to nature. The gatekeeper called, 'Whoever wants to come in, should come in before I close the gate.' So I went in and hid myself in a stall of a donkey near the gate of the castle. They took their supper with Abu Rafi and had a chat till late at night. Then they went back to their homes. When the voices vanished and I no longer detected any movement, I came out. I had seen where the gate-keeper had kept the key of the castle in a hole in the wall. I took it and unlocked the gate of the castle, saying to myself, 'If these people should notice me, I will run away easily.' Then I locked all the doors of their houses from outside while they were inside, and ascended to Abu Rafi by a staircase. I saw the house in complete darkness with its light off, and I could not know where the man was. So I called, 'O Abu Rafi!' He replied, 'Who is it?' I proceeded towards the voice and hit him. He cried loudly but my blow was futile. Then I came to him, pretending to help him, saying with a different tone of my voice, ' What is wrong with you, O Abu Rafi?' He said, 'Are you not surprised? Woe on your mother! A man has come to me and hit me with a sword!' So again I aimed at him and hit him, but the blow proved futile again, and on that Abu Rafi cried loudly and his wife got up. I came again and changed my voice as if I were a helper, and found Abu Rafi lying straight on his back, so I drove the sword into his belly and bent on it till I heard the sound of a bone break. Then I came out, filled with astonishment and went to the staircase to descend, but I fell down from it and got my leg dislocated. I bandaged it and went to my companions limping. I said (to them), 'Go and tell Allah's Apostle of this good news, but I will not leave (this place) till I hear the news of his (i.e. Abu Rafi's) death.' When dawn broke, an announcer of death got over the wall and announced, 'I convey to you the news of Abu Rafi's death.' I got up and proceeded without feeling any pain till I caught up with my companions before they reached the Prophet to whom I conveyed the good news."
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبیﷺ نے عبداللہ بن عتیک اور عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہما کو چند صحابہ کے ساتھ ابورافع (کے قتل) کےلیے بھیجا۔ یہ لوگ روانہ ہوئے جب اس کے قلعہ کے نزدیک پہنچے تو عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو، پہلے میں جاکر دیکھتا ہوں
عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (قلعہ کے قریب پہنچ کر) میں اندر جانے کےلیے تدابیر کرنے لگا۔ اتفاق سے قلعہ کا ایک گدھا گم تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس گدھے کو تلاش کرنے کے لیے قلعہ والے روشنی لے کر باہر نکلے۔ بیان کیا کہ میں ڈرا کہ کہیں مجھے کوئی پہچان نہ لے۔ اس لیے میں نے اپنا سر ڈھک لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کررہا ہے۔ اس کے بعد دربان نے آواز دی کہ اس سے پہلے کہ میں دروازہ بندکرلوں جس نے قلعہ کے اندر داخل ہونا ہے وہ جلدی آجائے۔ میں (نے موقع غنیمت سمجھا اور) اندر داخل ہوگیا اور قلعہ کے دروازے کے پاس ہی گدھےکے باڑے میں چھپ گیا۔قلعہ والوں نے ابورافع کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسے قصے سناتے رہے۔ آخر کچھ رات گئے وہ سب قلعہ کے اندر ہی اپنے اپنے گھروں میں واپس آگئے۔ جب سناٹا چھا چکا تھا اورکہیں کوئی حرکت نہیں ہوتی تھی ، میں(باڑے) سے باہر نکل آیا ۔ میں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ دربان نے قلعہ کی چابی ایک طاق میں رکھی ہے۔ میں نے پہلے قلعہ کی چابی اپنے قبضہ میں لے لی اور پھر سب سے پہلے قلعہ کا دروازہ کھولا۔ بیان کیا کہ میں نے یہ سوچا تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرا علم ہوگیا تو میں بڑی آسانی کے ساتھ بھاگ سکوں گا۔اس کے بعد میں نے ان کے کمروں کے دروازے کھولنے شروع کئے اور انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ اب میں سیڑھیوں سے ابورافع کے بالاخانوں تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے کمرہ میں اندھیرا تھا۔ اس کا چراغ گل کردیا گیا تھا۔ میں یہ نہیں اندازہ کرپایا تھا کہ ابورافع کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی۔ اے ابورافع! اس پر وہ بولا کہ کون ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آواز کی طرف میں بڑھا اور میں نے اس پر حملہ کیا۔ وہ چلانے لگا مگر وار خالی ہوگیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر دوبارہ میں اس کے قریب پہنچا، گویا میں اس کی مدد کو آیا ہوں۔ میں نے آواز بدل کر پوچھا۔ ابورافع کیا بات پیش آئی ہے؟ اس نے کہا: تیری ماں غارت ہو، ابھی کوئی شخص میرے کمرے میں آ گیا اور اس نے تلوار سے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس مرتبہ پھر میں نے اس کی آواز کی طرف بڑھ کر دوبارہ حملہ کیا۔ اس حملہ میں بھی وہ قتل نہ ہوسکا۔ پھر وہ چلانے لگا اور اس کی بیوی بھی اٹھ گئی (اور چلانے لگی)۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بظاہر مددگار بن کر پہنچا اور میں نے اپنی آواز بدل لی۔ اس وقت وہ چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا۔ آخر جب میں نے ہڈی ٹوٹنے کی آواز سن لی تو میں وہاں سے نکلا، بہت گھبرایا ہوا۔ حتی کہ میں سیڑھی کے پاس آیا تھا۔ میں اترنا چاہتا تھا کہ نیچے گر پڑا۔ جس سے میرا پاؤں ٹوٹ گیا۔ میں نے اس پر پٹی باندھی اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری سناؤ۔ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک کہ اس کی موت کا اعلان نہ سن لوں۔ چنانچہ صبح کے وقت موت کا اعلان کرنے والا (قلعہ کی فصیل پر) چڑھا اور اس نے اعلان کیا کہ ابورافع کی موت واقع ہوگئی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں چلنے کےلیے اٹھا، مجھے (کامیابی کی خوشخبری میں)کوئی تکلیف معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس سے پہلے کہ میرے ساتھی آپ ﷺکی خدمت میں پہنچیں، میں نے اپنے ساتھیوں کو پالیا تو میں نے نبیﷺ کو خوشخبری سنائی۔
Chapter No: 17
باب غَزْوَةِ أُحُدٍ
The Ghazwa of Uhud.
باب: جنگ احد کا قصّہ۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} وَقَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ {وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ * إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ * وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ * أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ * وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ} وَقَوْلِهِ {وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ} {وَلاَ تَحْسِبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا} الآيَةَ
And the Statement of Allah, "And when you (Muhammad (s.a.w)) left your household in the morning to post the believers at their stations for battle (Uhud). And Allah is All-Hearer, All-Knower." (V.3:121)
Also the Statement of Allah, "So do not become weak (against your enemy), nor be sad, and you will be superior (in victory) if you are indeed (true) believers. If a wound (and killing) has touched you, be sure a similar wound (and killing) has touched the others. And so are the days (good and not so good), We give to men by turns, that Allah may test those who believe, and that He may take martyrs from among you. And Allah likes not the Zalimun (polytheists and wrong-doers). And that Allah may test (or purify) the believers (from sins) and destroy the disbelievers. Do you think that you will enter Paradise before Allah tests those of you who fought (in His Cause) and (also) tests those who are As-Sabirun (the patient)? You did indeed wish for death (Ash-Shahadah - martyrdom) before you met it. Now you have seen it openly with your own eyes." (V.3:139-143)
And His Statement, "And Allah did indeed fulfil His Promise to you when you were killing them (your enemy) ... And Allah is Most Gracious to the believers." (V.3:152)
And His Statement, "Think not of those who are killed in the Way of Allah ..." (V.3:169)
اور اللہ تعالیٰ نے (سورت آل عمران میں) فرمایا اے پیغمبر جب تم صبح صبح اپنے گھر سے (احد پہاڑ کی طرف نکل کر ) لگے مسلمانوں کو مورچوں پر لڑائی کے لئے جمانے اور اللہ سنتا جانتا ہے اور اسی سورت میں فرمایا ہمت نہ ہارو نہ رنجیدہ ہو اگر تم سچے ایماندار ہو تو(آئندہ) تم ہی غالب رہو گے اگر اس لڑائی میں تم کو کچھ صدمہ پہنچا (تو بیدل کیوں ہوتے ہو) ان مشرکوں کو بھی(جنگ بدر میں) ایسا ہی صدمہ پہنچ چکا ہے یہ تو زمانہ کے ہیر پھیر ہے جو ہم باری باری لوگوں پر لاتے ہیں (کبھی فتح کبھی شکست) اور اس شکست میں یہ بھی حکمت تھی اللہ کو سچے ایمانداروں کا کھول دینا اور تم میں سے بعضوں کو شہیدوں کا درجہ دینا منظور تھا اور اللہ کسی حال میں بھی مشرکوں سے محبت نہیں رکھتا اور یہ بھی غرض تھی کہ ایمان والوں کو صاف ستھرا کردے اور کافروں کا ستیاناس کرے مسلمانو! کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ (مزے سے) بہشت میں چل دوگے نہ ابھی اللہ نے یہ کھولا کہ تم میں کون لڑنے والے ہیں کون صبر کرنے والے ہیں اور (تم اتنا گھبراتے کیوں ہو) اس جنگ سے پہلے تو تم شہادت کی آرزو کرتے تھے اب تو شہادت کو اپنے آنکھوں سے دیکھ لیا اور(اسی سورت میں) فرمایا اور جب تم کافروں کو اللہ کے حکم سے(شروع لڑائی میں)خوب قتل کر رہے تھے تو اللہ نے اپنا وعدہ تم کو سچ کر دکھایا (تمہاری فتح ہوئی) پھر جب تم نے بزدلی کی اور پیغمبر کے حکم کو نہ سنا لگے اختلاف کرنے اور جو امر تم چاہتےتھے (یعنی فتح) اس کو دیکھ کر بھی تم نے پیغمبر کی نافرمانی کی کوئی تو دنیا کے پیچھے پڑ گیا (لوٹ کی فکر میں) اور کوئی کوئی آخرت کی خیال میں تھا اللہ نے تم کو دشمنوں کی طرف سے پھرا دیا (تم بھاگ کھڑے ہوئے ) اس میں تمھارا آزمانا بھی منظور تھا اور اللہ تمہارا یہ قصور (احد کے دن بھاگنا) معاف کر چکا اللہ ایمان والوں پر بڑا مہربان ہے اور فرمایا اللہ کی راہ میں جو لوگ مارے گئے (شہید) ان کو مردہ نہ سمجھنا اخیر آیت تک۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ " هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ عَلَيْهِ أَدَاةُ الْحَرْبِ "
Narrated By Ibn Abbas : On the day of Uhud. the Prophet said, "This is Gabriel holding the head of his horse and equipped with war material."
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو عبد الوہاب بن عبد المجید نے خبر دی کہا ہم سے خالد حذّاء، نے بیان کیا انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عبّاسؓ سے انہوں نے کہا نبیﷺ نے احد کے دن فرمایا یہ جبریلؑ آن پہنچے ہتھیار لگائے ہوئے اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے غزوۂ احد کے موقع پر فرمایا: یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں،جو ہتھیار بند، اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ، كَالْمُوَدِّعِ لِلأَحْيَاءِ وَالأَمْوَاتِ، ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ " إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ، وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ، وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ، وَإِنِّي لأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا، وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا ". قَالَ فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Uqba bin Amir : Allah's Apostle offered the funeral prayers of the martyrs of Uhud eight years after (their death), as if bidding farewell to the living and the dead, then he ascended the pulpit and said, "I am your predecessor before you, and I am a witness on you, and your promised place to meet me will be Al-Haud (i.e. the Tank) (on the Day of Resurrection), and I am (now) looking at it from this place of mine. I am not afraid that you will worship others besides Allah, but I am afraid that worldly life will tempt you and cause you to compete with each other for it." That was the last look which I cast on Allah's Apostle.
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺنے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ پڑھی، جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو الوداع کہتا ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا میں تمہارے لیے میرکارواں (پیش رو) ہوں ، اور تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے تمہاری ملاقات حوض (کوثر) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض (کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم دنیا میں دلچسپی لینے لگوگے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ ﷺ کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَقِينَا الْمُشْرِكِينَ يَوْمَئِذٍ، وَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم جَيْشًا مِنَ الرُّمَاةِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ وَقَالَ " لاَ تَبْرَحُوا، إِنْ رَأَيْتُمُونَا ظَهَرْنَا عَلَيْهِمْ فَلاَ تَبْرَحُوا وَإِنْ رَأَيْتُمُوهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْنَا فَلاَ تُعِينُونَا ". فَلَمَّا لَقِينَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ فِي الْجَبَلِ، رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ، فَأَخَذُوا يَقُولُونَ الْغَنِيمَةَ الْغَنِيمَةَ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ عَهِدَ إِلَىَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ لاَ تَبْرَحُوا. فَأَبَوْا، فَلَمَّا أَبَوْا صُرِفَ وُجُوهُهُمْ، فَأُصِيبَ سَبْعُونَ قَتِيلاً، وَأَشْرَفَ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ فَقَالَ " لاَ تُجِيبُوهُ ". فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ قَالَ " لاَ تُجِيبُوهُ ". فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ إِنَّ هَؤُلاَءِ قُتِلُوا، فَلَوْ كَانُوا أَحْيَاءً لأَجَابُوا، فَلَمْ يَمْلِكْ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، أَبْقَى اللَّهُ عَلَيْكَ مَا يُخْزِيكَ. قَالَ أَبُو سُفْيَانَ أُعْلُ هُبَلْ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَجِيبُوهُ ". قَالُوا مَا نَقُولُ قَالَ " قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ ". قَالَ أَبُو سُفْيَانَ لَنَا الْعُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَجِيبُوهُ ". قَالُوا مَا نَقُولُ قَالَ " قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ ". قَالَ أَبُو سُفْيَانَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، وَتَجِدُونَ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي
Narrated By Al-Bara : We faced the pagans on that day (of the battle of Uhud) and the Prophet placed a batch of archers (at a special place) and appointed 'Abdullah (bin Jubair) as their commander and said, "Do not leave this place; and if you should see us conquering the enemy, do not leave this place, and if you should see them conquering us, do not (come to) help us," So, when we faced the enemy, they took to their heel till I saw their women running towards the mountain, lifting up their clothes from their legs, revealing their leg-bangles. The Muslims started saying, "The booty, the booty!" 'Abdullah bin Jubair said, "The Prophet had taken a firm promise from me not to leave this place." But his companions refused (to stay). So when they refused (to stay there), (Allah) confused them so that they could not know where to go, and they suffered seventy casualties. Abu Sufyan ascended a high place and said, "Is Muhammad present amongst the people?" The Prophet said, "Do not answer him." Abu Sufyan said, "Is the son of Abu Quhafa present among the people?" The Prophet said, "Do not answer him." Abd Sufyan said, "Is the son of Al-Khattab amongst the people?" He then added, "All these people have been killed, for, were they alive, they would have replied." On that, 'Umar could not help saying, "You are a liar, O enemy of Allah! Allah has kept what will make you unhappy." Abu Safyan said, "Superior may be Hubal!" On that the Prophet said (to his companions), "Reply to him." They asked, "What may we say?" He said, "Say: Allah is More Elevated and More Majestic!" Abu Sufyan said, "We have (the idol) Al-'Uzza, whereas you have no 'Uzza!" The Prophet said (to his companions), "Reply to him." They said, "What may we say?" The Prophet said, "Say: Allah is our Helper and you have no helper." Abu Sufyan said, "(This) day compensates for our loss at Badr and (in) the battle (the victory) is always undecided and shared in turns by the belligerents. You will see some of your dead men mutilated, but neither did I urge this action, nor am I sorry for it."
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: جنگ احد کے موقع پر جب مشرکین سے ہمارا آمنا سامنا ہوا، تو نبیﷺ نے تیر اندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں تعینات فرمایا، اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔ جب تم لوگ دیکھ لو کہ ہم مشرکین پر غالب آگئے ہیں پھر بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اس وقت بھی ہماری مدد کےلیے نہ آنا جب تم دیکھ لو کہ مشرکین ہم پر غالب آگئے۔پھر جب ہماری مڈبھیڑ کفار سے ہوئی تو ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ بھاگی جا رہی تھیں، پنڈلیوں سے اوپر کپڑے اٹھائے ہوئے، جس سے ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے (تیرانداز) ساتھی کہنے لگے کہ غنیمت غنیمت۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے نبی ﷺنے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا (اس لیے تم لوگ مال غنیمت لوٹنے نہ جاؤ) لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ ان کی اس حکم عدولی کے نتیجے میں مسلمانوں کو ہار ہوئی اور ستر مسلمان شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ابوسفیان نے پہاڑی پر سے آواز دی، کیا تمہارے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے، پھر انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن ابی قحافہ موجود ہیں؟ آپﷺنے اس کے جواب کی بھی ممانعت فرما دی۔ انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن خطاب موجود ہیں؟ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ یہ سب قتل کردیئے گئے۔ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بے قابو ہوگئے اور فرمایا: اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اللہ نے ابھی انہیں تمہیں ذلیل کرنے لیے باقی رکھا ہے۔ ابوسفیان نے کہا، ہبل (ایک بت) بلند رہے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ اس کا جواب دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو، اللہ سب سے بلند اور بزرگ و برتر ہے۔ ابوسفیان نے کہا، ہمارے پاس عزیٰ (بت) ہے اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا جواب دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا جواب دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو، اللہ ہمارا حامی اور مددگار ہے اور تمہارا کوئی حامی نہیں۔ ابوسفیان نے کہا، آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی ہوتی ہے۔ (کبھی ہمارے ہاتھ میں اور کبھی تمہارے ہاتھ میں) تم اپنے مقتولین میں کچھ لاشوں کا مثلہ کیا ہوا پاؤگے، میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے برا نہیں معلوم ہوا۔
أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ اصْطَبَحَ الْخَمْرَ يَوْمَ أُحُدٍ نَاسٌ ثُمَّ قُتِلُوا شُهَدَاءَ.
Narrated Jabir: Some people took wine in the morning of the day of Uhud and were then killed as martyrs.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نےکہا: غزوۂ احد کی صبح کو کچھ صحابہ نے شراب پی تھی (جو ابھی تک حرام نہیں ہوئی تھی) اور پھر شہادت کی موت نصیب ہوئی۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، إِبْرَاهِيمَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، أُتِيَ بِطَعَامٍ، وَكَانَ صَائِمًا فَقَالَ قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَهْوَ خَيْرٌ مِنِّي، كُفِّنَ فِي بُرْدَةٍ، إِنْ غُطِّيَ رَأْسُهُ بَدَتْ رِجْلاَهُ، وَإِنْ غُطِّيَ رِجْلاَهُ بَدَا رَأْسُهُ ـ وَأُرَاهُ قَالَ ـ وَقُتِلَ حَمْزَةُ وَهْوَ خَيْرٌ مِنِّي، ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنَ الدُّنْيَا مَا بُسِطَ، أَوْ قَالَ أُعْطِينَا مِنَ الدُّنْيَا مَا أُعْطِينَا، وَقَدْ خَشِينَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا. ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ
Narrated By Sad bin Ibrahim : A meal was brought to 'Abdur-Rahman bin 'Auf while he was fasting. He said, "Musab bin 'Umar was martyred, and he was better than I, yet he was shrouded in a Burda (i.e. a sheet) so that, if his head was covered, his feet became naked, and if his feet were covered, his head became naked." 'Abdur-Rahman added, "Hamza was martyred and he was better than 1. Then worldly wealth was bestowed upon us and we were given thereof too much. We are afraid that the reward of our deeds have been given to us in this life." 'Abdur-Rahman then started weeping so much that he left the food.
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا لایا گیا،جبکہ وہ روزے سے تھے تو انہوں نے کہا: مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ (غزوۂ احد میں) شہید کردیئے گئے، وہ مجھ سے افضل اور بہتر تھے لیکن انہیں ایک ہی چادر میں کفن دیا گیا ، اگر اس سے ان کا سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور اگر پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ رای نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بھی ذکر کیا ، اور کہا: وہ بھی مجھ سے بہتر تھے۔پھر ہمارے لیے دنیا کشادہ کردی گئی یا ہمیں دنیا میں بہت کچھ دیا گیا۔ہمیں تواندیشہ ہے کہ کہیں یہ ہماری نیکیوں کا بدلہ تو نہیں ، جو ہمیں اسی دنیا میں دیا جارہا ہے ۔اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ بہت روئے یہاں تک کہ کھانا بھی نہ کھاسکے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَيْنَ أَنَا قَالَ " فِي الْجَنَّةِ " فَأَلْقَى تَمَرَاتٍ فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ.
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : On the day of the battle of Uhud, a man came to the Prophet and said, "Can you tell me where I will be if I should get martyred?" The Prophet replied, "In Paradise." The man threw away some dates he was carrying in his hand, and fought till he was martyred.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: ایک صحابی نے نبیﷺسے غزوۂ احد کے موقع پر پوچھا: یا رسول اللہﷺ! اگر میں شہید کردیا گیا تو میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا :جنت میں۔(یہ سن کر ) اس نے کھجوریں پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھیں۔ پھر وہ لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ خَبَّابٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ، فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ، وَمِنَّا مَنْ مَضَى أَوْ ذَهَبَ لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، كَانَ مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، لَمْ يَتْرُكْ إِلاَّ نَمِرَةً، كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلاَهُ، وَإِذَا غُطِّيَ بِهَا رِجْلاَهُ خَرَجَ رَأْسُهُ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " غَطُّوا بِهَا رَأْسَهُ، وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلِهِ الإِذْخِرَ ـ أَوْ قَالَ أَلْقُوا عَلَى رِجْلِهِ مِنَ الإِذْخِرِ ". وَمِنَّا مَنْ قَدْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهْوَ يَهْدُبُهَا
Narrated By Khabbab bin Al-Art : We migrated in the company of Allah's Apostle, seeking Allah's Pleasure. So our reward became due and sure with Allah. Some of us have been dead without enjoying anything of their rewards (here), and one of them was Mus'ab bin 'Umar who was martyred on the day of the battle of Uhud, and did not leave anything except a Namira (i.e. a sheet in which he was shrouded). If we covered his head with it, his feet became naked, and if we covered his feet with it, his head became naked. So the Prophet said to us, "Cover his head with it and put some Idhkhir (i.e. a kind of grass) over his feet or throw Idhkhir over his feet." But some amongst us have got the fruits of their labour ripened, and they are collecting them.
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا تھی۔ اس کا ثواب اللہ کے ذمے تھا۔ پھر ہم میں سے بعض لوگ تو وہ تھے جو گزر گئے اور کوئی اجر انہوں نے اس دنیا میں نہیں دیکھا، انہیں میں سے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ احد کی لڑائی میں انہوں نے شہادت پائی تھی۔ ایک دھاری دار چادر کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ جب ہم اس چادر سے ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے اور جب پاؤں چھپاتے تو سر کھل جاتا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا : سر چادر سے چھپا دو اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو۔ اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ان کے عمل کا بدلہ دنیا ہی میں مل رہا ہے اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
أَخْبَرَنَا حَسَّانُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ عَمَّهُ، غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَقَالَ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، لَئِنْ أَشْهَدَنِي اللَّهُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أُجِدُّ. فَلَقِيَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَهُزِمَ النَّاسُ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلاَءِ ـ يَعْنِي الْمُسْلِمِينَ ـ وَأَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ الْمُشْرِكُونَ. فَتَقَدَّمَ بِسَيْفِهِ فَلَقِيَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ أَيْنَ يَا سَعْدُ إِنِّي أَجِدُ رِيحَ الْجَنَّةِ دُونَ أُحُدٍ. فَمَضَى فَقُتِلَ، فَمَا عُرِفَ حَتَّى عَرَفَتْهُ أُخْتُهُ بِشَامَةٍ أَوْ بِبَنَانِهِ، وَبِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ طَعْنَةٍ وَضَرْبَةٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ.
Narrated Anas: His uncle (Anas bin An-Nadr) was absent from the battle of Badr and he said, "I was absent from the first battle of the Prophet (i.e. Badr battle), and if Allah should let me participate in (a battle) with the Prophet, Allah will see how strongly I will fight." So he encountered the day of Uhud battle. The Muslims fled and he said, "O Allah ! I appeal to You to excuse me for what these people (i.e. the Muslims) have done, and I am clear from what the pagans have done." Then he went forward with his sword and met Sad bin Mu'adh (fleeing), and asked him, "Where are you going, O Sad? I detect a smell of Paradise before Uhud." Then he proceeded on and was martyred. No-body was able to recognize him till his sister recognized him by a mole on his body or by the tips of his fingers. He had over 80 wounds caused by stabbing, striking or shooting with arrows.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے چچا (حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ) غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے، پھر انہوں نے کہا: میں نبی ﷺکے ساتھ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا۔ اگر نبی ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی اور لڑائی میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر غزوۂ احد کے موقع پر جب لوگوں میں افراتفری پیدا ہوگئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور اس کےلیے معذرت خواہ ہوں اورمشرکین نے جو کردار ادا کیا ہےمیں اسے اظہار بیزاری کرتاہے۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کہا: اے سعد! تم کہاں جارہے ہو؟ میں احد کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔اس کے بعد وہ آگے بڑھے اور شہید کردیئے گئے۔ ان کی لاش پہچانی نہیں جارہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل یا انگلی کے پوروں سے انہیں پہچانا۔انہیں نیزوں،تلواروں، اور تیروں کے اسی (80) سے زیادہ زخم لگے تھے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ فَقَدْتُ آيَةً مِنَ الأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ، كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ بِهَا، فَالْتَمَسْنَاهَا فَوَجَدْنَاهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيِّ {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ } فَأَلْحَقْنَاهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ.
Narrated By Zaid bin Thabit : When we wrote the Holy Qur'an, I missed one of the Verses of Surat-al-Ahzab which I used to hear Allah's Apostle reciting. Then we searched for it and found it with Khuzaima bin Thabit Al-Ansari. The Verse was:
'Among the Believers are men Who have been true to Their Covenant with Allah, Of them, some have fulfilled Their obligations to Allah (i.e. they have been Killed in Allah's Cause), And some of them are (still) waiting" (33.23) So we wrote this in its place in the Qur'an.
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: جب ہم نے قرآن مجید لکھنا شروع کیا تو مجھے سورۃ الاحزاب کی ایک آیت (لکھی ہوئی) نہیں ملی۔حالانکہ میں رسول اللہ ﷺ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا کرتا تھا۔ پھر جب ہم نے اس کی تلاش شروع کی تو وہ آیت ہمیں حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی (وہ آیت یہ تھی) «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر»ترجمہ: "اہل ایمان میں سے کچھ ایسے مرد ہیں جنہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اسے سچ کر دکھایا۔ پھر ان میں سے کچھ تو اپنی نذر پوری کرچکے اور کچھ انتظار کررہے ہیں"پھر ہم نے اس آیت کو قرآن مجید کی اس سورۃ میں ذکر کردیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ،، يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى أُحُدٍ، رَجَعَ نَاسٌ مِمَّنْ خَرَجَ مَعَهُ، وَكَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِرْقَتَيْنِ، فِرْقَةً تَقُولُ نُقَاتِلُهُمْ. وَفِرْقَةً تَقُولُ لاَ نُقَاتِلُهُمْ. فَنَزَلَتْ {فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا} وَقَالَ " إِنَّهَا طَيْبَةُ تَنْفِي الذُّنُوبَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ ".
Narrated By Zaid bin Thabit : When the Prophet set out for (the battle of) Uhud, some of those who had gone out with him, returned. The companions of the Prophet were divided into two groups. One group said, "We will fight them (i.e. the enemy)," and the other group said, "We will not fight them." So there came the Divine Revelation: '(O Muslims!) Then what is the matter within you that you are divided. Into two parties about the hypocrites? Allah has cast them back (to disbelief) Because of what they have earned.' (4.88) On that, the Prophet said, "That is Taiba (i.e. the city of Medina) which clears one from one's sins as the fire expels the impurities of silver."
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: جب نبیﷺ غزوۂ احد کےلیے نکلے تو کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے واپس لوٹ گئے۔ پھر صحابہ کی ان واپس ہونے والے منافقین کے بارے میں دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم ان سے جنگ کریں گے اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ہم ان سے جنگ نہیں لڑیں گے۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی :«فما لكم في المنافقين فئتين والله أركسهم بما كسبوا» پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تمہاری دو جماعتیں ہوگئیں ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بداعمالی کی وجہ سے انہیں کفر کی طرف لوٹا دیا ہے۔ اور نبیﷺنے فرمایا: مدینہ طیبہ ہے جو گناہوں کو اس طرح دور کردیتا ہے جیسے آگ چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے۔
Chapter No: 18
باب
Chapter
باب:
{إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا}
"When two parties from among you were about to lose heart, but Allah was their Wali (Protector and Supporter)." (V.3:122)
یہ آیت جب تم میں سے دو گروہوں نے ہمت ہار دینی چاہی اور اللہ ان کا مددگار تھا اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئیے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِينَا {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ} بَنِي سَلِمَةَ وَبَنِي حَارِثَةَ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّهَا لَمْ تَنْزِلْ، وَاللَّهُ يَقُولُ {وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا}
Narrated By Jabir : This Verse: "When two of your parties almost Decided to fall away..." was revealed in our connection, i.e. Bani Salama and Bani Haritha and I would not have liked that, if it was not revealed, for Allah said: But Allah was their Protector... (3.122)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نےکہا: یہ آیت ہمارے متعلق نازل ہوئی {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ} جب دو جماعتوں نے بزدلی دکھانے کا ارادہ کیا۔ یعنی دو قبیلوں بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے بارےمیں نازل ہوئی۔اب مجھے اس آیت کا اترنا ناپسند نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کا مددگار تھا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " هَلْ نَكَحْتَ يَا جَابِرُ ". قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ " مَاذَا أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا ". قُلْتُ لاَ بَلْ ثَيِّبًا. قَالَ " فَهَلاَّ جَارِيَةً تُلاَعِبُكَ ". قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ كُنَّ لِي تِسْعَ أَخَوَاتٍ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَجْمَعَ إِلَيْهِنَّ جَارِيَةً خَرْقَاءَ مِثْلَهُنَّ، وَلَكِنِ امْرَأَةً تَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ. قَالَ " أَصَبْتَ ".
Narrated By Jabir : "Allah's Apostle said to me, "Have you got married O Jabir?" I replied, "Yes." He asked "What, a virgin or a matron?" I replied, "Not a virgin but a matron." He said, "Why did you not marry a young girl who would have fondled with you?" I replied, "O Allah's Apostle! My father was martyred on the day of Uhud and left nine (orphan) daughters who are my nine sisters; so I disliked to have another young girl of their age, but (I sought) an (elderly) woman who could comb their hair and look after them." The Prophet said, "You have done the right thing."
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺنے مجھ سے پوچھا جابرکیا تو نے نکاح کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: کنواری سے یا بیوہ سے۔ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپﷺ نے فرمایا: کنوری سے کیوں نہیں کی وہ تم سے ہنستی کھیلتی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میرے والدغزوۂ احد کے دن شہید ہوئے اور اپنے پیچھے نو بیٹیاں چھوڑ گئے تھے تو میری نو بہنیں تھیں میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ان جیسی ایک نادان اور ناتجربہ کارلڑکی اپنے گھر لے آؤں۔لہذا میں نے شادی کےلیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو ان کی کنگھی پٹی کرے گی، اور ان کی نگہداشت کا فریضہ ادا کرتی رہے گی۔ آپﷺنے فرمایا: تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما أَنَّ أَبَاهُ، اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا، وَتَرَكَ سِتَّ بَنَاتٍ، فَلَمَّا حَضَرَ جِذَاذُ النَّخْلِ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي قَدِ اسْتُشْهِدَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَتَرَكَ دَيْنًا كَثِيرًا، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ. فَقَالَ " اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ ". فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ، فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّهُمْ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ، فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ أَطَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ " ادْعُ لَكَ أَصْحَابَكَ ". فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ عَنْ وَالِدِي أَمَانَتَهُ، وَأَنَا أَرْضَى أَنْ يُؤَدِّيَ اللَّهُ أَمَانَةَ وَالِدِي، وَلاَ أَرْجِعَ إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ، فَسَلَّمَ اللَّهُ الْبَيَادِرَ كُلَّهَا وَحَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْبَيْدَرِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم كَأَنَّهَا لَمْ تَنْقُصْ تَمْرَةً وَاحِدَةً.
Narrated By Jabir bin Abdullah : That his father was martyred on the day of the battle of Uhud and was in debt and left six (orphan) daughters. Jabir, added, "When the season of plucking the dates came, I went to Allah's Apostle and said, "You know that my father was martyred on the day of Uhud, and he was heavily in debt, and I would like that the creditors should see you." The Prophet said, "Go and pile every kind of dates apart." I did so and called him (i.e. the Prophet). When the creditors saw him, they started claiming their debts from me then in such a harsh manner (as they had never done before). So when he saw their attitude, he went round the biggest heap of dates thrice, and then sat over it and said, 'O Jabir), call your companions (i.e. the creditors).' Then he kept on measuring (and giving) to the creditors (their due) till Allah paid all the debt of my father. I would have been satisfied to retain nothing of those dates for my sisters after Allah had paid the debts of my father. But Allah saved all the heaps (of dates), so that when I looked at the heap where the Prophet had been sitting, it seemed as if a single date had not been taken away thereof."
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ان کے والد ماجد غزوۂ احد میں شہید ہوئے اور اپنے اوپر قرضہ اور چھ بیٹیاں چھوڑ گئے ۔ جب درختوں سے کھجور اتارے جانے کا وقت قریب آیا تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جیسا کہ آپﷺ کے علم میں ہے، میرے والد صاحب احد کی لڑائی میں شہید ہوگئے اورقرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا تھا کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (اور کچھ نرمی برتیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور ہر قسم کی کھجور کا الگ الگ ڈھیر لگالو۔ میں نے حکم کے مطابق عمل کیا اور پھر آپ کو بلانے گیا۔ جب قرض خواہوں نے آپ ﷺکو دیکھا تو اس وقت میرے خلاف اور زیادہ مشتعل ہوگئے۔ آپﷺنے جب ان کا یہ طرز عمل دیکھا تو آپﷺ پہلے سب سے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین مرتبہ گھومے۔ اس کے بعد اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ۔ آپﷺ برابر انہیں ناپ کے دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی طرف سے ان کی ساری امانت ادا کردی۔ میں اس پر خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے والد کی امانت ادا کرا دے اور میں اپنی بہنوں کےلیے ایک کھجور بھی نہ لے جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام دوسرے ڈھیر بچا دیئے بلکہ اس ڈھیر کو بھی جب دیکھا جس پر آپﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ جیسے اس میں سے ایک کھجور کا دانہ بھی کم نہیں ہوا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُلاَنِ يُقَاتِلاَنِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ، كَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلاَ بَعْدُ
Narrated By Sad bin Abi Waqqas : I saw Allah's Apostle on the day of the battle of Uhud accompanied by two men fighting on his behalf. They were dressed in white and were fighting as bravely as possible. I had never seen them before, nor did I see them later on.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا، غزوۂ احد کے موقع پر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور آپﷺ کے ہمراہ دو آدمی ہیں جو آپﷺکی طرف سے لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے۔ میں نے انہیں نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی دیکھا۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ هَاشِمٍ السَّعْدِيُّ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، يَقُولُ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، يَقُولُ نَثَلَ لِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم كِنَانَتَهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ " ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي "
Narrated By Sad bin Abi Waqqas : The Prophet took out a quiver (of arrows) for me on the day of Uhud and said, "Throw (arrows); let my father and mother be sacrificed for you."
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺنے جنگ احد میں میرے لیے اپنے ترکش سے تمام تیر نکال کر رکھ دیے اور فرمایا: ان پر تیروں کی بارش کردو میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ سَمِعْتُ سَعْدًا، يَقُولُ جَمَعَ لِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ.
Narrated By Sad : Allah's Apostle mentioned both his father and mother for me on the day of the battle of Uhud.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: جنگ احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے میرے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا۔ (کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ـ رضى الله عنه ـ لَقَدْ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ أَبَوَيْهِ كِلَيْهِمَا. يُرِيدُ حِينَ قَالَ " فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي ". وَهُوَ يُقَاتِلُ
Narrated By Ibn Al Musaiyab : Sad bin Abi Waqqas said, "Allah's Apostle mentioned both his father and mother for me on the day of the battle of Uhud." He meant when the Prophet said (to Sad) while the latter was fighting. "Let my father and mother be sacrificed for you!"
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نےکہا: رسول اللہ ﷺنے جنگ احد کےموقع پر میرے لیے اپنے دونوں والدین کو جمع فرمایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ جب وہ لڑ رہا تھا اس وقت آپﷺ نے فرمایا: میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شَدَّادٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَجْمَعُ أَبَوَيْهِ لأَحَدٍ غَيْرَ سَعْدٍ
Narrated By 'Ali : I have never heard the Prophet mentioning both his father and mother for anybody other than Sad.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے نبیﷺسے نہیں سنا کہ آپﷺنے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کو یہ فرمایا ہو کہ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔
حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم جَمَعَ أَبَوَيْهِ لأَحَدٍ إِلاَّ لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ أُحُدٍ " يَا سَعْدُ ارْمِ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي "
Narrated By 'Ali : I have never heard the Prophet mentioning his father and mother for anybody other than Sad bin Malik. I heard him saying on the day of Uhud, "O Sad throw (arrows)! Let my father and mother be sacrificed for you !"
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺکو حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ(سعد بن ابی وقاص) کے علاوہ کسی کے متعلق یہ فرماتےہوئے نہیں سنا کہ آپﷺنے اپنے والدین کو جمع کیا ہو۔میں نے احد کے دن آپﷺکو یہ فرماتےہوئےسنا کہ اے سعد! خوب تیر چلاؤ ، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُعْتَمِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ زَعَمَ أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ لَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ تِلْكَ الأَيَّامِ الَّتِي يُقَاتِلُ فِيهِنَّ غَيْرُ طَلْحَةَ وَسَعْدٍ. عَنْ حَدِيثِهِمَا
Narrated By Mu'tamir's father : 'Uthman said that on the day of the battle of Uhud, none remained with the Prophet but Talha and Sad.
حضرت ابو عثمان سے مروی ہے انہوں نے کہا: جن ایام میں نبیﷺکفار سے لڑائی رہے تھے آپﷺکے ساتھ حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا۔ابو عثمان نے یہ بات حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے سن کر بیان کی۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُعْتَمِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ زَعَمَ أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ لَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ تِلْكَ الأَيَّامِ الَّتِي يُقَاتِلُ فِيهِنَّ غَيْرُ طَلْحَةَ وَسَعْدٍ. عَنْ حَدِيثِهِمَا
Narrated By Mu'tamir's father : 'Uthman said that on the day of the battle of Uhud, none remained with the Prophet but Talha and Sad.
حضرت ابو عثمان سے مروی ہے انہوں نے کہا: جن ایام میں نبیﷺکفار سے لڑائی رہے تھے آپﷺکے ساتھ حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا۔ابو عثمان نے یہ بات حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما سے سن کر بیان کی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، قَالَ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، قَالَ صَحِبْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَطَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ وَالْمِقْدَادَ وَسَعْدًا رضى الله عنهم فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، إِلاَّ أَنِّي سَمِعْتُ طَلْحَةَ يُحَدِّثُ عَنْ يَوْمِ أُحُدٍ
Narrated By As-Saib bin Yazid : I have been in the company of 'AbdurRahman bin 'Auf, Talha bin 'Ubaidullah, Al-Miqdad and Sad, and I heard none of them narrating anything from the Prophet excepting the fact that I heard Talha narrating about the day of Uhud (battle).
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں عبد الرحمن بن عوف ، طلحہ بن عبید اللہ ، مقداد بن اسود اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کا ساتھی رہا ہوں ۔ میں نے ان میں سے کسی کو نبی ﷺسے حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔لیکن حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ جنگ احد کے متعلق بیان کرتےتھے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ رَأَيْتُ يَدَ طَلْحَةَ شَلاَّءَ، وَقَى بِهَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ أُحُدٍ.
Narrated By Qais : I saw Talha's paralysed hand with which he had protected the Prophet on the day of Uhud.
حضرت قیس سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا جو شل (ناکارہ) ہوچکا تھا اس ہاتھ کےساتھ انہوں نے جنگ احد میں نبی ﷺکا دفاع کیا تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمَ أُحُدٍ انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو طَلْحَةَ بَيْنَ يَدَىِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مُجَوِّبٌ عَلَيْهِ بِحَجَفَةٍ لَهُ، وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلاً رَامِيًا شَدِيدَ النَّزْعِ، كَسَرَ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، وَكَانَ الرَّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ بِجَعْبَةٍ مِنَ النَّبْلِ فَيَقُولُ انْثُرْهَا لأَبِي طَلْحَةَ. قَالَ وَيُشْرِفُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَنْظُرُ إِلَى الْقَوْمِ، فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، لاَ تُشْرِفْ يُصِيبُكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ، نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ. وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ وَأُمَّ سُلَيْمٍ، وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تَنْقُزَانِ الْقِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا، تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلآنِهَا، ثُمَّ تَجِيئَانِ فَتُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ، وَلَقَدْ وَقَعَ السَّيْفُ مِنْ يَدَىْ أَبِي طَلْحَةَ إِمَّا مَرَّتَيْنِ وَإِمَّا ثَلاَثًا.
Narrated By Anas : When it was the day of Uhud, the people left the Prophet while Abu Talha was in front of the Prophet shielding him with his leather shield. Abu Talha was a skilful archer who used to shoot violently. He broke two or three arrow bows on that day. If a man carrying a quiver full of arrows passed by, the Prophet would say (to him), put (scatter) its contents for Abu Talha." The Prophet would raise his head to look at the enemy, whereupon Abu Talha would say, "Let my father and mother be sacrificed for you ! Do not raise your head, lest an arrow of the enemy should hit you. (Let) my neck (be struck) rather than your neck." I saw 'Aisha, the daughter of Abu Bakr, and Um Sulaim rolling up their dresses so that I saw their leg-bangles while they were carrying water skins on their backs and emptying them in the mouths of the (wounded) people. They would return to refill them and again empty them in the mouths of the (wounded) people. The sword fell from Abu Talha's hand twice or thrice (on that day).
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب جنگ احد میں لوگوں نے نبی ﷺکو تنہا چھوڑ دیاتھا تو اس وقت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال لے کر خود نبی ﷺکے اوپر ڈھال بنے ہوئے تھے۔ حضرت ابو طلحہ بہت زبردست تیر انداز تھے۔انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑ دی تھی۔اس دوران میں جو آدمی بھی آپ کے پاس سے تیروں کا ترکش لیکر گزرتا تو آپﷺ اس سے کہتے : ان تیروں کوابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس رکھ دو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺاپنا سر مبارک اٹھا کر کافروں کو دیکھتے تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ سر مبارک نہ اٹھائیں ، کہیں کفار کا کوئی تیر آپ کو لگ نہ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے قربانی کےلیے موجود ہے۔ اور میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا(میری والدہ) کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ کپڑے اٹھائے ہوئے ہیں ۔ میں ان کے پازیب دیکھ رہا تھا وہ اپنی پشتوں پر مشکیں بھر بھر کر لارہی تھیں اور لوگوں کے منہ میں پانی ڈال رہی تھیں۔ پھر واپس آتی ہیں اور مشکیں بھر کر پھر لے جاتی ہیں اور مسلمانوں کو پلاتی ہیں۔اس دن حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ تلوار گر گئی تھی۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ لَمَّا كَانَ يَوْمَ أُحُدٍ هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ، فَصَرَخَ إِبْلِيسُ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَىْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ. فَرَجَعَتْ أُولاَهُمْ فَاجْتَلَدَتْ هِيَ وَأُخْرَاهُمْ فَبَصُرَ حُذَيْفَةُ فَإِذَا هُوَ بِأَبِيهِ الْيَمَانِ فَقَالَ أَىْ عِبَادَ اللَّهِ أَبِي أَبِي. قَالَ قَالَتْ فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ. قَالَ عُرْوَةُ فَوَاللَّهِ مَا زَالَتْ فِي حُذَيْفَةَ بَقِيَّةُ خَيْرٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ. بَصُرْتُ عَلِمْتُ، مِنَ الْبَصِيرَةِ فِي الأَمْرِ، وَأَبْصَرْتُ مِنْ بَصَرِ الْعَيْنِ وَيُقَالُ بَصُرْتُ وَأَبْصَرْتُ وَاحِدٌ
Narrated By 'Aisha : When it was the day of Uhud, the pagans were defeated. Then Satan, Allah's Curse be upon him, cried loudly, "O Allah's Worshippers, beware of what is behind!" On that, the front files of the (Muslim) forces turned their backs and started fighting with the back files. Hudhaifa looked, and on seeing his father Al-Yaman, he shouted, "O Allah's Worshippers, my father, my father!" But by Allah, they did not stop till they killed him. Hudhaifa said, "May Allah forgive you." (The sub-narrator, 'Urwa, said, "By Allah, Hudhaifa continued asking Allah's Forgiveness for the killers of his father till he departed to Allah (i.e. died).")
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا: جنگ احد کے دن مشرکین شکست خوردہ ہوکر بھاگ نکلے، تو ابلیس لعین نے بآواز بلند کہا: اے اللہ کے بندو ! اپنے پیچھے والوں سے خبردار ہوجاؤ۔ اس پر آگے جو مسلمان تھے وہ لوٹ پڑے اور اپنے پیچھے والوں سے بھڑ گئے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو ان کے والد یمان رضی اللہ عنہ انہیں میں ہیں (جنہیں مسلمان اپنا دشمن مشرک سمجھ کر مار رہے تھے)۔ وہ کہنے لگے مسلمانو! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد۔ عروہ نے کہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، پس اللہ کی قسم انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک قتل نہ کرلیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا کہ اللہ مسلمانوں کی غلطی معاف کرے۔ عروہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حذیفہ رضی اللہ عنہ برابر مغفرت کی دعا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اللہ سے جا ملے۔ «بصرت» یعنی میں دل کی آنکھوں سے کام کو سمجھتا ہوں اور «أبصرت» آنکھوں سے دیکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ «بصرت» اور «أبصرت» کے ایک ہی معنی ہیں۔ «بصرت» دل کی آنکھوں سے دیکھنا اور «أبصرت» ظاہر کی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے۔
Chapter No: 19
باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى
The Statement of Allah
باب: اللہ تعالٰی کا (سورت آل عمران میں) فرمانا
{إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ }
"Those of you who turned back on the day the two hosts met (i.e., the battle of Uhud) it was Shaitan (Satan) who caused them to backslide (run away from the battlefield) because of some (sins) they had earned. But Allah, indeed has forgiven them. Surely, Allah is Oft-Forgiving, Most Forbearing." (V.3:155)
جس دن (یعنے احد کے دن) دونوں گروہ بھڑ گئے تم میں سے جو لوگ بھاگ نکلے (کچھ کافر نہیں ہوئے بلکہ) شیطان نے ان کے بعضے کرتوتوں کے بدل ان کو بھڑکا دیا اور بیشک اللہ نے ان کا قصور معاف کر دیا کیونکہ اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلاَءِ الْقُعُودُ قَالُوا هَؤُلاَءِ قُرَيْشٌ. قَالَ مَنِ الشَّيْخُ قَالُوا ابْنُ عُمَرَ. فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَىْءٍ أَتُحَدِّثُنِي، قَالَ أَنْشُدُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَتَعْلَمُهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَخَلَّفَ عَنْ بَيْعَةِ الرُّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَكَبَّرَ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ لأُخْبِرَكَ وَلأُبَيِّنَ لَكَ عَمَّا سَأَلْتَنِي عَنْهُ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَتْ مَرِيضَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ ". وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرُّضْوَانِ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ، فَبَعَثَ عُثْمَانَ، وَكَانَ بَيْعَةُ الرُّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِيَدِهِ الْيُمْنَى " هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ ". فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ " هَذِهِ لِعُثْمَانَ ". اذْهَبْ بِهَذَا الآنَ مَعَكَ.
Narrated By 'Uthman bin Mauhab : A man came to perform the Hajj to (Allah's) House. Seeing some people sitting, he said, "Who are these sitting people?" Somebody said, "They are the people of Quraish." He said, "Who is the old man?" They said, "Ibn 'Umar." He went to him and said, "I want to ask you about something; will you tell me about it? I ask you with the respect due to the sanctity of this (Sacred) House, do you know that 'Uthman bin 'Affan fled on the day of Uhud?" Ibn 'Umar said, "Yes." He said, "Do you know that he (i.e. 'Uthman) was absent from the Badr (battle) and did not join it?" Ibn 'Umar said, "Yes." He said, "Do you know that he failed to be present at the Ridwan Pledge of allegiance (i.e. Pledge of allegiance at Hudaibiya) and did not witness it?" Ibn 'Umar replied, "Yes," He then said, "Allahu-Akbar!" Ibn 'Umar said, "Come along; I will inform you and explain to you what you have asked. As for the flight (of 'Uthman) on the day of Uhud, I testify that Allah forgave him. As regards his absence from the Badr (battle), he was married to the daughter of Allah's Apostle and she was ill, so the Prophet said to him, 'You will have such reward as a man who has fought the Badr battle will get, and will also have the same share of the booty.' As for his absence from the Ridwan Pledge of allegiance if there had been anybody more respected by the Meccans than 'Uthman bin 'Affan, the Prophet would surely have sent that man instead of 'Uthman. So the Prophet sent him (i.e. 'Uthman to Mecca) and the Ridwan Pledge of allegiance took place after 'Uthman had gone to Mecca. The Prophet raised his right hand saying. 'This is the hand of 'Uthman,' and clapped it over his other hand and said, "This is for 'Uthman.'" Ibn 'Umar then said (to the man), "Go now, after taking this information."
عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ ایک شخص بیت اللہ کے حج کےلیے آئے تھے۔ دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھا کہ یہ بیٹھے ہوئے کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ قریش ہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ یہ بوڑھا بزرگ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: کہ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ وہ شخص ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں کیا آپ مجھے جواب دیں گے۔ پھر اس نے کہا: اس گھر کی حرمت کی قسم دے کر میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوۂ احد کے موقع پر راہ فرار اختیار کی تھی؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں صحیح ہے۔ اس نے پوچھا آپ کو یہ بھی معلوم ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں تھے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں صحیح ہے۔اس نے پھر پوچھا اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان (صلح حدیبیہ) میں بھی پیچھے رہ گئے تھے اور حاضر نہ ہو سکے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ اس پر اس شخص نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ادھر آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں اور تم نے جو سوالات کئے ہیں ان کی حقیقت سے بھی آگاہ کردوں گا۔احد کی لڑائی میں فرار سے متعلق جو تم نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کردی ہے۔ بدر کی لڑائی میں ان کے نہ ہونے کے متعلق جو تم نے کہا تو اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ ان کے نکاح میں رسول اللہﷺ کی صاحبزادی (رقیہ رضی اللہ عنہا) تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اوران کے حصےکے برابر تمہیں مال غنیمت ملےگا۔ بیعت رضوان میں ان کی عدم شرکت کا جہاں تک سوال ہے تو وادی مکہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص ہر دل عزیز ہوتا تو نبی کریم ﷺ ان کے بجائے اسی کو بھیجتے۔ اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجنا پڑا اور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں تھے۔ (بیعت لیتے ہوئے) نبی کریم ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے (بائیں) ہاتھ پر مارکر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ان جوابات کو ساتھ لیکر اب جاسکتے ہو۔
Chapter No: 20
{إِذْ تُصْعِدُونَ وَلاَ تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلاَ تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ مَا أَصَابَكُمْ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} {تُصْعِدُونَ} تَذْهَبُونَ، أَصْعَدَ وَصَعِدَ فَوْقَ الْبَيْتِ
"(And remember) when you ran away (dreadfully) without even casting a side glance at anyone (up to) all that you do." (V.3:153)
باب: (سورت آل عمران میں) یہ فرمانا جب تم بگٹٹ چلے جا رہے تھے اور باوجودیکہ پیغمبر پچھلے گروہ میں رہ کر تم کو بلا رہا تھا لیکن تم مڑ کر بھی کسی کو نہیں دیکھتے تھے
(بھاگنے کی دھن میں لگے تھے) آخر تم نے جو پیغمبر کو رنجیدہ کیا اللہ نے بھی اس کے بدل تم کو (شکست دے کر)رنجیدہ کیا اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ جب کوئی اچھی چیز تمہارے ہاتھ سے نکل جائے یا کوئی مصیبت تم پر آ جائے تو (صبر کرو) اور تم جو کرتے ہو اللہ کو اس کی پوری خبر ہے امام بخاری نے کہا اس آیت میں تُصۡعِدُوۡنَ کا معنے تَذۡھبُوۡنَ یعنے چلے جا رہے تھےأصعد و صعد فوق البیت یعنی گھر کے اوپر چڑھ لیا۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، وَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ.
Narrated By Al-Bara' bin 'Azib : The Prophet appointed Abdullah bin Jubair as the commander of the cavalry archers on the day of the battle of Uhud. Then they returned defeated, and that what is referred to by Allah's Statement: "And the Apostle (Muhammad) in your rear was calling you." (3.153)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا : غزوۂ احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے (تیر اندازوں کے) پیدل دستہ کا امیر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہما کو بنایا تھا لیکن وہ لوگ شکست خوردہ ہوکر مدینہ کی طرف جارہے تھے۔ اور یہ ہزیمت اس وقت پیش آئی جبکہ رسول اللہ ﷺ ان کو پیچھے سے پکار رہے تھے۔