Chapter No: 31
باب مَرْجَعِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنَ الأَحْزَابِ وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِيَّاهُمْ
The return of the Prophet (s.a.w) from (the battle of) the Ahzab (Confederates) and his going out to Bani Quraiza and his besieging them.
باب:نبیﷺ کا جنگ خندق سے لوٹنا اور بنی قریظہ پر چڑھائی کرنا ان کو گھیر لینا۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْخَنْدَقِ وَوَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ، أَتَاهُ جِبْرِيلُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعْنَاهُ، فَاخْرُجْ إِلَيْهِمْ. قَالَ " فَإِلَى أَيْنَ ". قَالَ هَا هُنَا، وَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِمْ
Narrated By 'Aisha : When the Prophet returned from Al-Khandaq (i.e. Trench) and laid down his arms and took a bath, Gabriel came and said (to the Prophet), You have laid down your arms? By Allah, we angels have not laid them down yet. So set out for them." The Prophet said, "Where to go?" Gabriel said, "Towards this side," pointing towards Banu Quraiza. So the Prophet went out towards them.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبیﷺ جنگ خندق سے مدینہ واپس ہوئے اور ہتھیار اتار کرغسل کیا تو جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس آئے اور کہا: آپ نے ابھی ہتھیار اتار دیئے؟ اللہ کی قسم! ہم (فرشتوں)نے تو ابھی ہتھیار نہیں اتارے۔ ان کی طرف روانہ ہوجائے۔ آپﷺنے دریافت فرمایا کہ کن کی طرف؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: اس طرف اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔پھر نبیﷺنے بنو قریظہ پر چڑھائی کی۔
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْغُبَارِ سَاطِعًا فِي زُقَاقِ بَنِي غَنْمٍ مَوْكِبِ جِبْرِيلَ حِينَ سَارَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ
Narrated By Anas : As if I am just now looking at the dust rising in the street of Banu Ghanm (in Medina) because of the marching of Gabriel's regiment when Allah's Apostle set out to Banu Quraiza (to attack them).
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا: میں اب بھی قبیلہ بنو غنم کی گلیوں میں حضرت جبریل کی سواری کی وجہ سے اٹھتا ہوا گرد وغبار دیکھ رہا ہوں جب رسول اللہﷺنے بنو قریظہ پر لشکر کشی کی تھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الأَحْزَابِ " لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلاَّ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ ". فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا. وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ نُصَلِّي، لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ
Narrated By Ibn Umar : On the day of Al-Ahzab (i.e. Clans) the Prophet said, "None of you Muslims) should offer the 'Asr prayer but at Banu Quraiza's place." The 'Asr prayer became due for some of them on the way. Some of those said, "We will not offer it till we reach it, the place of Banu Quraiza," while some others said, "No, we will pray at this spot, for the Prophet did not mean that for us." Later on It was mentioned to the Prophet and he did not berate any of the two groups.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺنے غزوۂ احزاب کے دن فرمایا: ہر آدمی عصر کی نماز بنو قریظہ پہنچ کر ہی پڑھے۔بعض حضرات کی عصر کی نماز کا وقت راستے ہی میں ہوگیا۔ ان میں سے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو کہا: ہم راستے میں نماز نہیں پڑھیں گے۔ (کیونکہ نبیﷺ نے بنو قریظہ میں نماز عصر پڑھنے کےلیے فرمایا ہے) اور بعض صحابہ نے کہا: ہم تو نماز پڑھیں گے آپﷺنے ہمارے متعلق یہ ارادہ نہیں کیا کہ ہم نماز نہ پڑھیں۔ (بلکہ جلدی جانا مقصد تھا) بعد میں آپﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپﷺنے کسی پر خفگی کا اظہار نہ فرمایا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، وَحَدَّثَنِي خَلِيفَةُ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ الرَّجُلُ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم النَّخَلاَتِ حَتَّى افْتَتَحَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرَ، وَإِنَّ أَهْلِي أَمَرُونِي أَنْ آتِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَسْأَلَهُ الَّذِينَ كَانُوا أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ. وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَيْمَنَ، فَجَاءَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِي عُنُقِي تَقُولُ كَلاَّ وَالَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ لاَ يُعْطِيكَهُمْ وَقَدْ أَعْطَانِيهَا، أَوْ كَمَا قَالَتْ، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " لَكِ كَذَا ". وَتَقُولُ كَلاَّ وَاللَّهِ. حَتَّى أَعْطَاهَا، حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ " عَشَرَةَ أَمْثَالِهِ ". أَوْ كَمَا قَالَ
Narrated By Anas : Some (of the Ansar) used to present date palm trees to the Prophet till Banu Quraiza and Banu An-Nadir were conquered (then he returned to the people their date palms). My people ordered me to ask the Prophet to return some or all the date palms they had given to him, but the Prophet had given those trees to Um Aiman. On that, Um Aiman came and put the garment around my neck and said, "No, by Him except Whom none has the right to be worshipped, he will not return those trees to you as he (i.e. the Prophet) has given them to me." The Prophet go said (to her), "Return those trees and I will give you so much (instead of them)." But she kept on refusing, saying, "No, by Allah," till he gave her ten times the number of her date palms.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے باغات میں سے کچھ درخت نبیﷺکےلیے مقرر کردیتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کو فتح کیا تو میرے گھر والوں نے مجھے نبی ﷺکی خدمت میں بھیجا تاکہ میں آپﷺسے تمام یا کچھ کھجوروں کی واپسی کا مطالبہ کروں جو انہوں نے آپ ﷺکو دے رکھی تھیں ۔ نبی ﷺنے ہماری کچھ کھجوریں حضرت ام ایمن کو دے رکھی تھیں۔ اس دوران میں وہ بھی تشریف لے آئیں تو انہوں نے میری گردن میں کپڑا ڈال کر کہا: ہرگز نہیں ، مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔جو کھجوریں آپ ﷺنے مجھے دی ہیں وہ تمہیں کبھی بھی واپس نہیں ملیں گی یا اس طرح کے کوئی اور کلمات کہے۔ نبیﷺ(ام ایمن سے یہ ) فرماتے تھے :" تمہیں ان کے عوض اتنے درخت دے دیتے ہیں " لیکن وہ کہتیں: ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم! یہ کھجوریں تمہیں واپس نہیں کروں گی۔راوی نے کہا: میرا خیال ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: آپﷺنے انہیں دس گنا زیادہ کھجویں دے کر راضی کیا۔ یا (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) اس سے ملتے جلتے الفاظ بیان فرمائے تھے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ نَزَلَ أَهْلُ قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى سَعْدٍ، فَأَتَى عَلَى حِمَارٍ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ لِلأَنْصَارِ " قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ ـ أَوْ ـ خَيْرِكُمْ ". فَقَالَ " هَؤُلاَءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ ". فَقَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِي ذَرَارِيَّهُمْ. قَالَ " قَضَيْتَ بِحُكْمِ اللَّهِ ". وَرُبَّمَا قَالَ " بِحُكْمِ الْمَلِكِ "
Narrated By Abu Said Al-Khudri : The people of (Banu) Quraiza agreed to accept the verdict of Sad bin Mu'adh. So the Prophet sent for Sad, and the latter came (riding) a donkey and when he approached the Mosque, the Prophet said to the Ansar, "Get up for your chief or for the best among you." Then the Prophet said (to Sad)." These (i.e. Banu Quraiza) have agreed to accept your verdict." Sad said, "Kill their (men) warriors and take their offspring as captives, "On that the Prophet said, "You have judged according to Allah's Judgment," or said, "according to the King's judgment."
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے بنو قریظہ قلعے سے نیچے اترے۔تو نبی ﷺنے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا تو وہ گدھے پر سوار ہوکر تشریف لائے۔جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو آپﷺنے انصار کو کہا: اپنے سردار کو لینے کےلیے کھڑے ہوجاؤ۔ یا (آپ ﷺ نے یوں فرمایا) اپنے سے بہتر شخص کو لینے کےلیے کھڑے ہوجاؤ۔ اس کے بعد آپ ﷺنے ان سے فرمایا: بنو قریظہ نے تم کو ثالث مان کر قلعے سے اترے اورہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا: کہ ان کے جنگجوؤں کو قتل کیا جائے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنایا جائے۔ اس پر آپﷺنے فرمایا:تم نے اللہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ۔یا یہ فرمایا : کہ تو نے بادشاہانہ فیصلہ دیا ہے۔
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ حِبَّانُ ابْنُ الْعَرِقَةِ، رَمَاهُ فِي الأَكْحَلِ، فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ، فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ ـ وَهْوَ يَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعْتُهُ، اخْرُجْ إِلَيْهِمْ. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " فَأَيْنَ ". فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ، فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِهِ، فَرَدَّ الْحُكْمَ إِلَى سَعْدٍ، قَالَ فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَأَنْ تُسْبَى النِّسَاءُ وَالذُّرِّيَّةُ، وَأَنْ تُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ. قَالَ هِشَامٌ فَأَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ سَعْدًا قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَىَّ أَنْ أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صلى الله عليه وسلم وَأَخْرَجُوهُ، اللَّهُمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَإِنْ كَانَ بَقِيَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَىْءٌ، فَأَبْقِنِي لَهُ حَتَّى أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ، وَإِنْ كُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ فَافْجُرْهَا، وَاجْعَلْ مَوْتَتِي فِيهَا. فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِهِ، فَلَمْ يَرُعْهُمْ وَفِي الْمَسْجِدِ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلاَّ الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ فَقَالُوا يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا، فَمَاتَ مِنْهَا رضى الله عنه
Narrated By 'Aisha : Sad was wounded on the day of Khandaq (i.e. Trench) when a man from Quraish, called Hibban bin Al-'Araqa hit him (with an arrow). The man was Hibban bin Qais from (the tribe of) Bani Mais bin 'Amir bin Lu'ai who shot an arrow at Sad's medial arm vein (or main artery of the arm). The Prophet pitched a tent (for Sad) in the Mosque so that he might be near to the Prophet to visit. When the Prophet returned from the (battle) of Al-Khandaq (i.e. Trench) and laid down his arms and took a bath Gabriel came to him while he (i.e. Gabriel) was shaking the dust off his head, and said, "You have laid down the arms?" By Allah, I have not laid them down. Go out to them (to attack them)." The Prophet said, "Where?" Gabriel pointed towards Bani Quraiza. So Allah's Apostle went to them (i.e. Banu Quraiza) (i.e. besieged them). They then surrendered to the Prophet's judgment but he directed them to Sad to give his verdict concerning them. Sad said, "I give my judgment that their warriors should be killed, their women and children should be taken as captives, and their properties distributed."
Narrated Hisham: My father informed me that 'Aisha said, "Sad said, "O Allah! You know that there is nothing more beloved to me than to fight in Your Cause against those who disbelieved Your Apostle and turned him out (of Mecca). O Allah! I think you have put to an end the fight between us and them (i.e. Quraish infidels). And if there still remains any fight with the Quraish (infidels), then keep me alive till I fight against them for Your Sake. But if you have brought the war to an end, then let this wound burst and cause my death thereby.' So blood gushed from the wound. There was a tent in the Mosque belonging to Banu Ghifar who were surprised by the blood flowing towards them. They said, 'O people of the tent! What is this thing which is coming to us from your side?' Behold! Blood was flowing profusely out of Sad's wound. Sad then died because of that."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ غزوۂ خندق کے موقع پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ زخمی ہوگئے تھے۔ قریش کے ایک کافر شخص ‘ حسان بن عرفہ نامی نے ان پر تیر چلایا تھا اور وہ ان کے بازو کی رگ میں آ کے لگا تھا۔ نبیﷺنے ان کےلیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا تھا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کرتے رہیں۔ پھر جب آپﷺ غزوۂ خندق سے واپس ہوئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس آئے۔ وہ اپنے سر سے غبار جھاڑ رہے تھے۔ انہوں نے نبیﷺ سے کہا: آپ نے ہتھیار رکھ دیئے۔ اللہ کی قسم! ابھی میں نے ہتھیار نہیں اتارے ہیں۔ آپ کو ان پر فوج کشی کرنی ہے۔ نبیﷺنے دریافت فرمایا کہ کن پر؟ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔آپﷺ بنو قریظہ تک پہنچے (اور انہوں نے اسلامی لشکر کے پندرہ دن کے سخت محاصرہ کے بعد) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے۔ آپﷺنے سعد رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کا اختیار دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ان کے بارے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ جتنے لوگ ان کے جنگ کرنے کے قابل ہیں وہ قتل کردیئے جائیں ‘ ان کی عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں اور ان کا مال تقسیم کر لیا جائے۔ ہشام نے بیان کیا کہ پھر مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تھی اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تیرے راستے میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں ان کے وطن سے نکالا لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے ہماری اور ان کی لڑائی اب ختم کردی ہے۔ لیکن اگر قریش سے ہماری لڑائی کا کوئی بھی سلسلہ ابھی باقی ہو تو مجھے اس کےلیے زندہ رکھنا۔ یہاں تک کہ میں تیرے راستے میں ان سے جہاد کروں اور اگر لڑائی کے سلسلے کو تو نے ختم ہی کردیا ہے تو میرے زخموں کو پھر سے ہرا کر دے اور اسی میں میری موت واقع کردے۔ اس دعا کے بعد سینے پر ان کا زخم پھر سے تازہ ہوگیا۔ مسجد میں قبیلہ بنو غفار کے کچھ صحابہ کا بھی ایک خیمہ تھا۔ خون ان کی طرف بہہ کر آیا تو وہ گھبرائے اور انہوں نے کہا: اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ خون ہماری طرف بہہ کر آرہا ہے؟ دیکھا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا ‘ ان کی وفات اسی میں ہوئی۔
حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَدِيٌّ، أَنَّهُ سَمِعَ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِحَسَّانَ " اهْجُهُمْ ـ أَوْ هَاجِهِمْ ـ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ "
Narrated By Al-Bara : The Prophet said to Hassan, "Abuse them (with your poems), and Gabriel is with you (i.e, supports you)."
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مشرکین کی ہجو کر، یا (آپﷺ نے فرمایا) «هاجهم»اورفرمایا: حضرت جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔
وَزَادَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ " اهْجُ الْمُشْرِكِينَ، فَإِنَّ جِبْرِيلَ مَعَكَ "
(Through another group of sub narrators) Al-Bara bin Azib said, "On the day of Quraiza's (besiege), Allah's Apostle said to Hassan bin Thabit, 'Abuse them (with your poems), and Gabriel is with you (i.e. supports you).'"
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ مشرکین کی ہجو کرو، جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں۔
Chapter No: 32
باب غَزْوَةُ ذَاتِ الرِّقَاعِ
The Ghazwa of Dhat-ur-Riqa
باب: ذات الرقاع کی جنگ کا بیان
وَهْىَ غَزْوَةُ مُحَارِبِ خَصَفَةَ مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ مِنْ غَطَفَانَ، فَنَزَلَ نَخْلاً. وَهْىَ بَعْدَ خَيْبَرَ، لأَنَّ أَبَا مُوسَى جَاءَ بَعْدَ خَيْبَرَ
This was the Ghazwa carried on (by the Muslims) against the tribes of Muharib, Khasafa from Banu Thalaba from Ghatafan. The Prophet (s.a.w) halted at Nakhl. This Ghazwa took place after the conquest of Khaibar, as Abu Musa came (to Medina from Ethiopia) after (the Ghazwa) of Khaibar.
یہ جنگ محارب قبیلے سے ہوئی خصفہ کی اولاد تھے اور یہ خصفہ بن ثعلبہ کی اولاد میں سے تھا جو غظفان قبیلے کی ایک شاخ ہیں۔اس لڑائی میں نبیﷺ نخل میں جا کر اترے تھے۔یہ لڑائی جنگ خیبر کے بعد ہوئی کیونکہ ابو موسٰی اشعریؓ جنگ خیبر کے بعد (حبش سے) آئے تھے۔
وَقَالَ لِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى بِأَصْحَابِهِ فِي الْخَوْفِ فِي غَزْوَةِ السَّابِعَةِ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ صَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْخَوْفَ بِذِي قَرَدٍ
Narrated Jabir bin Abdullah (RA): The Prophet(s.a.w) led his Companions in Fear Prayer in seventh Ghazwa, i.e., the Ghazwa of Dhat-ur-Riqa'. Ibn Abbas said, "The Prophet(s.a.w) offered the Fear Prayer at a place called Dhi-Qarad."
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبی ﷺنے اپنے اصحاب کے ساتھ صلاۃ الخوف ساتویں غزوۂ ذات الرقاع میں پڑھی تھی۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ نبیﷺنے صلاۃ الخوف ذو قرد میں پڑھی تھی۔
وَقَالَ بَكْرُ بْنُ سَوَادَةَ حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ جَابِرًا، حَدَّثَهُمْ صَلَّى النَّبِيُّ، صلى الله عليه وسلم بِهِمْ يَوْمَ مُحَارِبٍ وَثَعْلَبَةَ
Jabbir said that the Prophet(s.a.w) led the people in the Fear Prayer on the day of Muharib and Tha'laba(i.e., the day of the battle of Dhat-ur-Riqa').
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے غزوۂ محارب اور بنی ثعلبہ میں اپنے ساتھیوں کو صلاۃ الخوف پڑھائی تھی۔
وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ كَيْسَانَ، سَمِعْتُ جَابِرًا، خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى ذَاتِ الرِّقَاعِ مِنْ نَخْلٍ فَلَقِيَ جَمْعًا مِنْ غَطَفَانَ، فَلَمْ يَكُنْ قِتَالٌ، وَأَخَافَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا فَصَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَكْعَتَىِ الْخَوْفِ. وَقَالَ يَزِيدُ عَنْ سَلَمَةَ غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْقَرَدِ
Jabir added, "The Prophet(s.a.w) set out for (the battle of) Dhat-ur-Riqa' at a place called Nakhl and he met a group of people from Ghatafan, but there was no clash(between them), and the people were afraid of each other, and the Prophet(s.a.w) offered the two Rak'at of the Fear Prayer." Narrated Salama: "I fought in the company of Prophet(s.a.w) on the day of Al-Qarad."
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبیﷺ غزوۂ ذات الرقاع کےلیے مقام نخل سے روانہ ہوئے تھے۔ وہاں آپ کا قبیلہ غطفان کی ایک جماعت سے سامنا ہوا لیکن کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ہر ایک نے دوسرے کو ڈرایا (مسلمانوں نے کافروں کو اور کافروں نے مسلمانوں کو)۔ اس لیے نبیﷺ نے دو رکعت صلاۃ الخوف پڑھائی۔ اور یزید نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں نبیﷺکے ساتھ غزوۂ ذوالقرد میں شریک تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي غَزَاةٍ وَنَحْنُ سِتَّةُ نَفَرٍ بَيْنَنَا بَعِيرٌ نَعْتَقِبُهُ، فَنَقِبَتْ أَقْدَامُنَا وَنَقِبَتْ قَدَمَاىَ وَسَقَطَتْ أَظْفَارِي، وَكُنَّا نَلُفُّ عَلَى أَرْجُلِنَا الْخِرَقَ، فَسُمِّيَتْ غَزْوَةَ ذَاتِ الرِّقَاعِ، لِمَا كُنَّا نَعْصِبُ مِنَ الْخِرَقِ عَلَى أَرْجُلِنَا، وَحَدَّثَ أَبُو مُوسَى بِهَذَا، ثُمَّ كَرِهَ ذَاكَ، قَالَ مَا كُنْتُ أَصْنَعُ بِأَنْ أَذْكُرَهُ. كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَكُونَ شَىْءٌ مِنْ عَمَلِهِ أَفْشَاهُ.
Narrated By Abu Burda : Abu Musa said, "We went out in the company of the Prophet for a Ghazwa and we were six persons having one camel which we rode in rotation. So, (due to excessive walking) our feet became thin and my feet became thin and my nail dropped, and we used to wrap our feet with the pieces of cloth, and for this reason, the Ghazwa was named Dhat-ur-Riqa as we wrapped our feet with rags." When Abu- Musa narrated this (Hadith), he felt regretful to do so and said, as if he disliked to have disclosed a good deed of his.
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺکے ساتھ ایک غزوۂ کےلیے نکلے۔ ہم چھ ساتھی تھے اور ہم سب کےلیے صرف ایک اونٹ تھا ‘ جس پر باری باری ہم سوار ہوتے تھے۔ (پیدل طویل اور پر مشقت سفر کی وجہ سے) ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے بھی پاؤں پھٹ گئے تھے۔ ناخن بھی جھڑ گئے تھے۔ چنانچہ ہم قدموں پر کپڑے کی پٹی باندھ باندھ کر چل رہے تھے۔ اسی لیے اس کا نام غزوۂ ذات الرقاع پڑا ‘ کیونکہ ہم نے قدموں کو پٹیوں سے باندھ رکھا تھا۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث تو بیان کردی ‘ لیکن پھر ان کو اس کا اظہار اچھا نہیں معلوم ہوا۔ فرمانے لگے کہ مجھے یہ حدیث بیان نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ان کو اپنا نیک عمل ظاہر کرنا برا معلوم ہوا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَمَّنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَّى صَلاَةَ الْخَوْفِ أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ، وَطَائِفَةٌ وُجَاهَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّتِي مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا، وَأَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ انْصَرَفُوا، فَصَفُّوا وُجَاهَ الْعَدُوِّ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الأُخْرَى فَصَلَّى بِهِمِ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ مِنْ صَلاَتِهِ، ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا، وَأَتَمُّوا لأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ
Narrated By Salih bin Khawwat : Concerning those who witnessed the Fear Prayer that was performed in the battle of Dhat-ur-Riqa' in the company of Allah's Apostle; One batch lined up behind him while another batch (lined up) facing the enemy. The Prophet led the batch that was with him in one Rak'a, and he stayed in the standing posture while that batch completed their (two Rakat) prayer by themselves and went away, lining in the face of the enemy, while the other batch came and he (i.e. the Prophet) offered his remaining Rak'a with them, and then, kept on sitting till they completed their prayer by themselves, and he then finished his prayer with Taslim along with them.
صالح بن خوات نے ، ایک ایسے صحابی سے بیان کیا جو نبیﷺکے ساتھ غزوۂ ذات الرقاع میں شریک تھے کہ نبیﷺنے صلاۃ الخوف پڑھی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ پہلے ایک جماعت نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ اس وقت دوسری جماعت (مسلمانوں کی) دشمن کے مقابلے پر کھڑی تھی۔ نبیﷺنے اس جماعت کو جو آپ کے پیچھے صف میں کھڑی تھی، ایک رکعت نماز خوف پڑھائی اور اس کے بعد آپﷺ کھڑے رہے۔ اس جماعت نے اس عرصہ میں اپنی نماز پوری کرلی اور واپس آکر دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی۔ اس کے بعد دوسری جماعت آئی تو آپﷺنے انہیں نماز کی دوسری رکعت پڑھائی جو باقی رہ گئی تھی اور (رکوع و سجدہ کے بعد) آپﷺ قعدہ میں بیٹھے رہے۔ پھر ان لوگوں نے جب اپنی نماز (جو باقی رہ گئی تھی) پوری کرلی تو آپﷺنے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔
وَقَالَ مُعَاذٌ حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِنَخْلٍ. فَذَكَرَ صَلاَةَ الْخَوْفِ. قَالَ مَالِكٌ وَذَلِكَ أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي صَلاَةِ الْخَوْفِ. تَابَعَهُ اللَّيْثُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَدَّثَهُ صَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ بَنِي أَنْمَارٍ.
Narrated Ibn Az-Zubair: Jabir said, "We were with the Prophet at Nakhl," and then he mentioned the fear prayer.
Narrated Al-Qasim bin Muhammad: The Prophet offered the Fear prayer in the Ghazwa of Banu Anmar.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ مقام نخل میں تھے۔ پھر انہوں نے صلاۃ الخوف کا ذکرکیا۔ امام مالک نے بیان کیا کہ صلاۃ الخوف کے سلسلے میں جتنی روایات میں نے سنی ہیں یہ روایت ان سب میں زیادہ بہتر ہے۔ معاذ بن ہشام کے ساتھ اس حدیث کو لیث بن سعد نے بھی ہشام بن سعد مدنی سے ‘ انہوں نے زید بن اسلم سے روایت کیا اور ان سے قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بنو انمار میں (صلاۃ الخوف) پڑھی تھی۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ يَقُومُ الإِمَامُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَهُ وَطَائِفَةٌ مِنْ قِبَلِ الْعَدُوِّ، وُجُوهُهُمْ إِلَى الْعَدُوِّ، فَيُصَلِّي بِالَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ يَقُومُونَ، فَيَرْكَعُونَ لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً وَيَسْجُدُونَ سَجْدَتَيْنِ فِي مَكَانِهِمْ، ثُمَّ يَذْهَبُ هَؤُلاَءِ إِلَى مَقَامِ أُولَئِكَ فَيَرْكَعُ بِهِمْ رَكْعَةً، فَلَهُ ثِنْتَانِ، ثُمَّ يَرْكَعُونَ وَيَسْجُدُونَ سَجْدَتَيْنِ.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ يَحْيَى، سَمِعَ الْقَاسِمَ، أَخْبَرَنِي صَالِحُ بْنُ خَوَّاتٍ، عَنْ سَهْلٍ، حَدَّثَهُ قَوْلَهُ.
Narrated By Sahl bin Abi Hathma : (Describing the Fear prayer): The Imam stands up facing the Qibla and one batch of them (i.e. the army) (out of the two) prays along with him and the other batch faces the enemy. The Imam offers one Rak'a with the first batch they themselves stand up alone and offer one bowing and two prostrations while they are still in their place, and then go away to relieve the second batch, and the second batch comes (and takes the place of the first batch in the prayer behind the Imam) and he offers the second Rak'a with them. So he completes his two-Rak'at and then the second batch bows and prostrates two prostrations (i.e. complete their second Rak'a and thus all complete their prayer)
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (نماز خوف میں) امام قبلہ رو ہو کر کھڑا ہوگا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوگی۔ اس دوران مسلمانوں کی دوسری جماعت دشمن کے روبرو مقابلہ پر کھڑی ہوگی۔ امام اپنے ساتھ والی جماعت کو پہلے ایک رکعت نماز پڑھائے گا (ایک رکعت پڑھنے کے بعد پھر) یہ جماعت کھڑی ہوجائے گی اور خود (امام کے بغیر) اسی جگہ ایک رکوع اور دو سجدے کرکے دشمن کے مقابلہ پر جاکر کھڑی ہوجائے گی۔ جہاں دوسری جماعت پہلے سے موجود تھی۔ اس کے بعد امام دوسری جماعت کو ایک رکعت نماز پڑھائے گا۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں پوری ہوجائیں گی اور یہ دوسری جماعت ایک رکوع اور دو سجدے خود کرے گی۔
دوسری روایت میں اسی طرح حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺسے یہ روایت مرفوعا بیان کی ہے۔
ایک اور روایت میں حضرت صالح بن خوات نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے ان کا قول بیان کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قِبَلَ نَجْدٍ، فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ فَصَافَفْنَا لَهُمْ
Narrated By Ibn 'Umar : I took part in a Ghazwa towards Najd along with Allah's Apostle and we clashed with the enemy, and we lined up for them.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نجد کی طرف نبیﷺ کے ساتھ غزوۂ کےلیے گیا تھا۔ وہاں ہم دشمن کے آمنے سامنے ہوئے اور ان کے مقابلے میں صف بندی کی۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلَّى بِإِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، وَالطَّائِفَةُ الأُخْرَى مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، ثُمَّ انْصَرَفُوا، فَقَامُوا فِي مَقَامِ أَصْحَابِهِمْ، فَجَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَامَ هَؤُلاَءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ، وَقَامَ هَؤُلاَءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَهُمْ
Narrated By 'Abdullah bin 'Umar : Allah's Apostle led the Fear-prayer with one of the two batches of the army while the other (batch) faced the enemy. Then the first batch went away and took places of their companions (i.e. second batch) and the second batch came and he led his second Rak'a with them. Then he (i.e. the Prophet: finished his prayer with Taslim and then each of the two batches got up and completed their remaining one Rak'a.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺنے ایک جماعت کے ساتھ نماز (نماز خوف)پڑھی اور دوسری جماعت اس عرصہ میں دشمن کے مقابلے پر کھڑی تھی۔ پھر یہ جماعت جب اپنے دوسرے ساتھیوں کی جگہ (نماز پڑھ کر)چلی گئی تو دوسری جماعت آئی اور نبیﷺ نے انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائی۔ اس کے بعد آپﷺ نے اس جماعت کے ساتھ سلام پھیرا۔ آخر اس جماعت نے کھڑے ہوکر اپنی ایک رکعت پوری کی اور پہلی جماعت نے بھی کھڑے ہوکر اپنی ایک رکعت پوری کی۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي سِنَانٌ، وَأَبُو سَلَمَةَ أَنَّ جَابِرًا، أَخْبَرَ أَنَّهُ، غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قِبَلَ نَجْدٍ
Narrated By Sinan and Abu Salama : Jabir mentioned that he had participated in a Ghazwa towards Najd in the company of Allah's Apostle.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ نبیﷺ کے ساتھ اطراف نجد میں لڑائی کےلیے گئے تھے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ الْقَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الْعِضَاهِ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَحْتَ سَمُرَةٍ، فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، قَالَ جَابِرٌ فَنِمْنَا نَوْمَةً، ثُمَّ إِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَدْعُونَا، فَجِئْنَاهُ فَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ سَيْفِي، وَأَنَا نَائِمٌ فَاسْتَيْقَظْتُ، وَهْوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا، فَقَالَ لِي مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي قُلْتُ اللَّهُ. فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ ". ثُمَّ لَمْ يُعَاقِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : That he fought in a Ghazwa towards Najd along with Allah's Apostle and when Allah's Apostle returned, he too, returned along with him. The time of the afternoon nap overtook them when they were in a valley full of thorny trees. Allah's Apostle dismounted and the people dispersed amongst the thorny trees, seeking the shade of the trees. Allah's Apostle took shelter under a Samura tree and hung his sword on it. We slept for a while when Allah's Apostle suddenly called us, and we went to him, to find a bedouin sitting with him. Allah's Apostle said, "This (bedouin) took my sword out of its sheath while I was asleep. When I woke up, the naked sword was in his hand and he said to me, 'Who can save you from me?, I replied, 'Allah.' Now here he is sitting." Allah's Apostle did not punish him (for that).
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ نبیﷺکے ساتھ اطراف نجد میں غزوہ کےلیے گئے تھے۔ پھر جب نبیﷺ واپس ہوئے تو وہ بھی واپس ہوئے۔ قیلولہ کا وقت ایک وادی میں آیا ‘ جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ چنانچہ نبی ﷺ وہیں اتر گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم درختوں کے سائے کےلیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ آپ ﷺ نے بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکا دی۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر ہمیں سوئے ہوئے ہوئی تھی کہ نبیﷺنے ہمیں پکارا۔ ہم جب خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺکے پاس ایک بدو بیٹھا ہوا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار (مجھ ہی پر) کھینچ لی تھی ‘ میں اس وقت سویا ہوا تھا ‘ میری آنکھ کھلی تو میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھ سے کہا ‘ تمہیں میرے ہاتھ سے آج کون بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ! اب دیکھو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ نبیﷺ نے اسے پھر کوئی سزا نہیں دی۔
وَقَالَ أَبَانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِذَاتِ الرِّقَاعِ، فَإِذَا أَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَسَيْفُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مُعَلَّقٌ بِالشَّجَرَةِ فَاخْتَرَطَهُ فَقَالَ تَخَافُنِي قَالَ " لاَ ". قَالَ فَمَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي قَالَ " اللَّهُ ". فَتَهَدَّدَهُ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَصَلَّى بِطَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ تَأَخَّرُوا، وَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الأُخْرَى رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَرْبَعٌ وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَيْنِ. وَقَالَ مُسَدَّدٌ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ اسْمُ الرَّجُلِ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ، وَقَاتَلَ فِيهَا مُحَارِبَ خَصَفَةَ
Through another group of narrators, Jabir said, "We were in the company of the Prophet (during the battle of) Dhat-ur-Riqa', and we came across a shady tree and we left it for the Prophet (to take rest under its shade). A man from the pagans came while the Prophet's sword was hanging on the tree. He took it out of its sheath secretly and said (to the Prophet), 'Are you afraid of me?' The Prophet said, 'No.' He said, 'Who can save you from me?' The Prophet said, Allah.' The companions of the Prophet threatened him, then the Iqama for the prayer was announced and the Prophet offered a two Rakat Fear prayer with one of the two batches, and that batch went aside and he offered two Rak'a-t with the other batch. So the Prophet offered four Rakat but the people offered two Rakat only." (The sub-narrator) Abu Bishr added, "The man was Ghaurath bin Al-Harith and the battle was waged against Muharib Khasafa."
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی ﷺکے ساتھ ذات الرقاع میں تھے۔تو ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے۔ وہ درخت ہم نے نبیﷺ کے لیے مخصوص کر دیا کہ آپﷺ وہاں آرام فرمائیں۔ بعد میں مشرکین میں سے ایک شخص آیا ‘ آپﷺ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے وہ تلوار آپ ﷺپر کھینچ لی اور پوچھا ‘ تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ اس پر اس نے پوچھا آج میرے ہاتھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ! پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے ڈانٹا دھمکایا اور نماز کےلیے اقامت کہی گئی۔ تو آپﷺ نے پہلے ایک جماعت کو دو رکعت نماز خوف پڑھائی جب وہ جماعت (آپ ﷺ کے پیچھے سے) ہٹ گئی تو آپﷺ نے دوسری جماعت کو بھی دو رکعت نماز پڑھائی۔ اس طرح نبیﷺ کی چار رکعت نماز ہوئی۔ لیکن مقتدیوں کی صرف دو دو رکعت۔
راوی ابو بشرنے کہا: کہ اس شخص کا نام (جس نے آپ پر تلوار کھینچی تھی) غورث بن حارث تھا اور نبی ﷺنے اس غزوۂ میں قبیلہ محارب خصفہ سے جنگ کی تھی۔
وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ، كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِنَخْلٍ فَصَلَّى الْخَوْفَ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم غَزْوَةَ نَجْدٍ صَلاَةَ الْخَوْفِ. وَإِنَّمَا جَاءَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَيَّامَ خَيْبَرَ
Jabir added, "We were with the Prophet at Nakhl and he offered the Fear prayer." Abu Huraira said, "I offered the Fear prayer with the Prophet during the Ghazwa (i.e. the battle) of Najd." Abu Huraira came to the Prophet during the day of Khaibar.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم نبیﷺکے ساتھ مقام نخل میں تھے تو آپﷺ نے نماز خوف پڑھائی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبیﷺ کے ساتھ نماز خوف غزوۂ نجد میں پڑھی تھی۔ یہ یاد رہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ کی خدمت میں (سب سے پہلے) غزوۂ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے۔
Chapter No: 33
باب غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ مِنْ خُزَاعَةَ وَهْىَ غَزْوَةُ الْمُرَيْسِيعِ
The Ghazwa of Banu Al-Mustaliq which belongs to the tribe of Khuzaa. It is also called the Ghazwa of Al-Muraisi
باب: بنی مصطلق جو بنی خزاعہ کی ایک شاخ ہیں ان کی لڑائی کا قصہ اس کو غزوہ مریسیع بھی کہتے ہیں۔
قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ وَذَلِكَ سَنَةَ سِتٍّ. وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ سَنَةَ أَرْبَعٍ. وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ رَاشِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ كَانَ حَدِيثُ الإِفْكِ فِي غَزْوَةِ الْمُرَيْسِيعِ
Ibn Ishaq said, "It took place in the 6th year."
Musa bin Uqba said, "It was in the 4th year (of the forged statement against Aisha which was during) the Ghazwa of Al-Muraisi."
ابن اسحاق نے کہا یہ جنگ ۶ھ میں ہوئی اور موسٰی بن عقبہ نے کہا ۴ ھ ہجری میں اور نعمان بن راشد نے زہری سے روایت کی کہ تہمت کا واقع (جو حضرت عائشہ پر لگائی گئی) اسی جنگ میں ہوا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، أَنَّهُ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْعَزْلِ،، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ، فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْىِ الْعَرَبِ، فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ وَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ، وَأَحْبَبْنَا الْعَزْلَ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْزِلَ، وَقُلْنَا نَعْزِلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ " مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لاَ تَفْعَلُوا، مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلاَّ وَهْىَ كَائِنَةٌ "
Narrated By Ibn Muhairiz : I entered the Mosque and saw Abu Said Al-Khudri and sat beside him and asked him about Al-Azl (i.e. coitus interruptus). Abu Said said, "We went out with Allah's Apostle for the Ghazwa of Banu Al-Mustaliq and we received captives from among the Arab captives and we desired women and celibacy became hard on us and we loved to do coitus interruptus. So when we intended to do coitus interrupt us, we said, 'How can we do coitus interruptus before asking Allah's Apostle who is present among us?" We asked (him) about it and he said, 'It is better for you not to do so, for if any soul (till the Day of Resurrection) is predestined to exist, it will exist."
ابومحیریز نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو وہاں دیکھا، میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے عزل کے متعلق ان سے سوال کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوۂ بنی المصطلق کےلیے نکلے۔ اس غزوۂ میں ہمیں کچھ عرب کے قیدی ملے (جن میں عورتیں بھی تھیں) پھر اس سفر میں ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور بغیر عورت کے رہنا ہمارے لیے مشکل ہوگیا۔ دوسری طرف ہم عزل کرنا چاہتے تھے (اس خوف سے کہ بچہ نہ پیدا ہو) ہمارا ارادہ یہی تھا کہ عزل کرلیں لیکن پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہﷺ موجود ہیں۔ آپﷺ سے پوچھے بغیر عزل کرنا مناسب نہ ہوگا۔ چنانچہ ہم نے آپﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: کہ اگر تم عزل نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ قیامت تک جو جان پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہوکر رہے گی۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم غَزْوَةَ نَجْدٍ، فَلَمَّا أَدْرَكَتْهُ الْقَائِلَةُ وَهْوَ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ، فَنَزَلَ تَحْتَ شَجَرَةٍ وَاسْتَظَلَّ بِهَا وَعَلَّقَ سَيْفَهُ، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الشَّجَرِ يَسْتَظِلُّونَ، وَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ دَعَانَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَجِئْنَا، فَإِذَا أَعْرَابِيٌّ قَاعِدٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ " إِنَّ هَذَا أَتَانِي وَأَنَا نَائِمٌ، فَاخْتَرَطَ سَيْفِي فَاسْتَيْقَظْتُ، وَهْوَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِي، مُخْتَرِطٌ صَلْتًا، قَالَ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي قُلْتُ اللَّهُ. فَشَامَهُ، ثُمَّ قَعَدَ، فَهْوَ هَذَا ". قَالَ وَلَمْ يُعَاقِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : We took part in the Ghazwa of Najd along with Allah's Apostle and when the time for the afternoon rest approached while he was in a valley with plenty of thorny trees, he dismounted under a tree and rested in its shade and hung his sword (on it). The people dispersed amongst the trees in order to have shade. While we were in this state, Allah's Apostle called us and we came and found a bedouin sitting in front of him. The Prophet said, "This (Bedouin) came to me while I was asleep, and he took my sword stealthily. I woke up while he was standing by my head, holding my sword without its sheath. He said, 'Who will save you from me?' I replied, 'Allah.' So he sheathed it (i.e. the sword) and sat down, and here he is." But Allah's Apostle did not punish him.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نجد کی طرف غزوۂ کےلیے گئے۔ دوپہر کا وقت ہوا تو آپﷺ ایک جنگل میں پہنچے جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ آپﷺ نے گھنے درخت کے نیچے سایہ کےلیے قیام کیا اور درخت سے اپنی تلوار لٹکا دی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کےلیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ نبیﷺنے ہمیں پکارا۔ ہم حاضر ہوئے تو ایک بدوی آپﷺ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ یہ شخص میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اتنے میں اس نے میری تلوار کھینچ لی اور میں بھی بیدار ہوگیا۔ یہ میری ننگی تلوار کھینچے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا: آج مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! (وہ شخص صرف ایک لفظ سے اتنا مرعوب ہوا کہ) تلوار کو نیام میں رکھ کر بیٹھ گیا اور دیکھ لو۔ یہ بیٹھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔
Chapter No: 34
باب غَزْوَةُ أَنْمَارٍ
The Ghazwa of Anmar.
باب: بنی انمار کی لڑائی کا قصّہ جو ایک قبیلہ ہے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ أَنْمَارٍ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ، مُتَوَجِّهًا قِبَلَ الْمَشْرِقِ مُتَطَوِّعًا
Narrated By Jabir bin Abdullah Al-Ansari : I saw the Prophet offering his Nawafil prayer on his Mount facing the East during the Ghazwa of Anmar.
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو غزوۂ انمار میں دیکھا اس حال میں کہ آپﷺاپنی سواری پر مشرق کی طرف منہ کرکے نفل نماز پڑھ رہے تھے۔
Chapter No: 35
باب حَدِيثُ الإِفْكِ
The narration of Al-Ifk (i.e., slander, the story of the forged statement against Aisha)
باب: حضرت عائشہؓ پر جو افک (یعنی طوفان) لگایا گیا ، اس کا قصّہ،
وَالأَفَكِ بِمَنْزِلَةِ النَّجْسِ وَالنَّجَسِ. يُقَالُ إِفْكُهُمْ
افک کا لفظ نِجسُ نَجسُ کی طرح کہا جاتا ہے اِفکہُم۔(سورت احقاف میں جو آیا ہے )و ذالکم افکہم وہ بکسر ہمزہ ہے اور بفتح ہمزہ بسکون فا اور افکہم بہ فتح ہمزہ وفا بھی آیا ہے جس نے افکہم بہ فتح ہمزہ وفا وکاف پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہوگا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنانا جیسے (سورہ الذاریات میں یوفک عنہ من افک ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے (پھیرا جاتا ہے) جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے(پھیرا جا چکا ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَائِشَةَ، رضى الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ مَا قَالُوا، وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا، وَبَعْضُهُمْ كَانَ أَوْعَى لِحَدِيثِهَا مِنْ بَعْضٍ وَأَثْبَتَ لَهُ اقْتِصَاصًا، وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ عَائِشَةَ، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا، وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضٍ، قَالُوا قَالَتْ عَائِشَةُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ، فَأَيُّهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا، خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَعَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَكُنْتُ أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ وَقَفَلَ، دَنَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ قَافِلِينَ، آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى رَحْلِي، فَلَمَسْتُ صَدْرِي، فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي، فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ، قَالَتْ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يُرَحِّلُونِي فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ عَلَيْهِ، وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يَهْبُلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ، إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَفَعُوهُ وَحَمَلُوهُ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ فَسَارُوا، وَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا مِنْهُمْ دَاعٍ وَلاَ مُجِيبٌ، فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَىَّ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي فَنِمْتُ، وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وَكَانَ رَآنِي قَبْلَ الْحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي، فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي، وَاللَّهِ مَا تَكَلَّمْنَا بِكَلِمَةٍ وَلاَ سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ، وَهَوَى حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا، فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَرَكِبْتُهَا، فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، وَهُمْ نُزُولٌ ـ قَالَتْ ـ فَهَلَكَ {فِيَّ} مَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَ الإِفْكِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَىٍّ ابْنَ سَلُولَ. قَالَ عُرْوَةُ أُخْبِرْتُ أَنَّهُ كَانَ يُشَاعُ وَيُتَحَدَّثُ بِهِ عِنْدَهُ، فَيُقِرُّهُ وَيَسْتَمِعُهُ وَيَسْتَوْشِيهِ. وَقَالَ عُرْوَةُ أَيْضًا لَمْ يُسَمَّ مِنْ أَهْلِ الإِفْكِ أَيْضًا إِلاَّ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ، وَحَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ فِي نَاسٍ آخَرِينَ، لاَ عِلْمَ لِي بِهِمْ، غَيْرَ أَنَّهُمْ عُصْبَةٌ ـ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى ـ وَإِنَّ كُبْرَ ذَلِكَ يُقَالُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَىٍّ ابْنُ سَلُولَ. قَالَ عُرْوَةُ كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ، وَتَقُولُ إِنَّهُ الَّذِي قَالَ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْتُ شَهْرًا، وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَصْحَابِ الإِفْكِ، لاَ أَشْعُرُ بِشَىْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَهْوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لاَ أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي، إِنَّمَا يَدْخُلُ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ " كَيْفَ تِيكُمْ " ثُمَّ يَنْصَرِفُ، فَذَلِكَ يَرِيبُنِي وَلاَ أَشْعُرُ بِالشَّرِّ، حَتَّى خَرَجْتُ حِينَ نَقَهْتُ، فَخَرَجْتُ مَعَ أُمِّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ، وَكَانَ مُتَبَرَّزَنَا، وَكُنَّا لاَ نَخْرُجُ إِلاَّ لَيْلاً إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا. قَالَتْ وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الأُوَلِ فِي الْبَرِّيَّةِ قِبَلَ الْغَائِطِ، وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا، قَالَتْ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهْىَ ابْنَةُ أَبِي رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَأُمُّهَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ بَيْتِي، حِينَ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا، فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ. فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ، أَتَسُبِّينَ رَجُلاً شَهِدَ بَدْرًا فَقَالَتْ أَىْ هَنْتَاهْ وَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ قَالَتْ وَقُلْتُ مَا قَالَ فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الإِفْكِ ـ قَالَتْ ـ فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي دَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ " كَيْفَ تِيكُمْ ". فَقُلْتُ لَهُ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَىَّ قَالَتْ وَأُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، قَالَتْ فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَقُلْتُ لأُمِّي يَا أُمَّتَاهُ مَاذَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ قَالَتْ يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِي عَلَيْكِ، فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةً عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلاَّ كَثَّرْنَ عَلَيْهَا. قَالَتْ فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، حَتَّى أَصْبَحْتُ لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ، وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْكِي ـ قَالَتْ ـ وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْىُ يَسْأَلُهُمَا وَيَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ ـ قَالَتْ ـ فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ، وَبِالَّذِي يَعْلَمُ لَهُمْ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ أُسَامَةُ أَهْلَكَ وَلاَ نَعْلَمُ إِلاَّ خَيْرًا. وَأَمَّا عَلِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يُضَيِّقِ اللَّهُ عَلَيْكَ، وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَسَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ. قَالَتْ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَرِيرَةَ فَقَالَ " أَىْ بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَىْءٍ يَرِيبُكِ ". قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ، غَيْرَ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ ـ قَالَتْ ـ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ يَوْمِهِ، فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَىٍّ وَهْوَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ " يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي عَنْهُ أَذَاهُ فِي أَهْلِي، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلاً مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلاَّ خَيْرًا، وَمَا يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلاَّ مَعِي ". قَالَتْ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الأَشْهَلِ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْذِرُكَ، فَإِنْ كَانَ مِنَ الأَوْسِ ضَرَبْتُ عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنَ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ. قَالَتْ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بِنْتَ عَمِّهِ مِنْ فَخِذِهِ، وَهْوَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَهْوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ ـ قَالَتْ ـ وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلاً صَالِحًا، وَلَكِنِ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ لِسَعْدٍ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لاَ تَقْتُلُهُ، وَلاَ تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ، وَلَوْ كَانَ مِنْ رَهْطِكَ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ يُقْتَلَ. فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ ـ وَهْوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدٍ ـ فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ. قَالَتْ فَثَارَ الْحَيَّانِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ ـ قَالَتْ ـ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ ـ قَالَتْ ـ فَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ كُلَّهُ، لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ، وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ـ قَالَتْ ـ وَأَصْبَحَ أَبَوَاىَ عِنْدِي، وَقَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا، لاَ يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ، وَلاَ أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، حَتَّى إِنِّي لأَظُنُّ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي، فَبَيْنَا أَبَوَاىَ جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَىَّ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَذِنْتُ لَهَا، فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي ـ قَالَتْ ـ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ ـ قَالَتْ ـ وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لاَ يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَىْءٍ ـ قَالَتْ ـ فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ جَلَسَ ثُمَّ قَالَ " أَمَّا بَعْدُ، يَا عَائِشَةُ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً، فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ، فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ". قَالَتْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً، فَقُلْتُ لأَبِي أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِّي فِيمَا قَالَ. فَقَالَ أَبِي وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقُلْتُ لأُمِّي أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيمَا قَالَ. قَالَتْ أُمِّي وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لاَ أَقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ كَثِيرًا إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ، فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ لاَ تُصَدِّقُونِي، وَلَئِنِ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي، فَوَاللَّهِ لاَ أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلاً إِلاَّ أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} ثُمَّ تَحَوَّلْتُ وَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي حِينَئِذٍ بَرِيئَةٌ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ مُنْزِلٌ فِي شَأْنِي وَحْيًا يُتْلَى، لَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ، وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا، فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَجْلِسَهُ، وَلاَ خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ، حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِنَ الْعَرَقِ مِثْلُ الْجُمَانِ وَهْوَ فِي يَوْمٍ شَاتٍ، مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ ـ قَالَتْ ـ فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَضْحَكُ، فَكَانَتْ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ " يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَكِ ". قَالَتْ فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَيْهِ. فَقُلْتُ وَاللَّهِ لاَ أَقُومُ إِلَيْهِ، فَإِنِّي لاَ أَحْمَدُ إِلاَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ـ قَالَتْ ـ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى {إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ} الْعَشْرَ الآيَاتِ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي. قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ ـ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ ـ وَاللَّهِ لاَ أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ مَا قَالَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ { وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ} إِلَى قَوْلِهِ {غَفُورٌ رَحِيمٌ} قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي
فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ وَقَالَ وَاللَّهِ لاَ أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا. قَالَتْ عَائِشَةُ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي، فَقَالَ لِزَيْنَبَ " مَاذَا عَلِمْتِ أَوْ رَأَيْتِ ". فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي، وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلاَّ خَيْرًا. قَالَتْ عَائِشَةُ وَهْىَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم. فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ ـ قَالَتْ ـ وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ تُحَارِبُ لَهَا، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِ هَؤُلاَءِ الرَّهْطِ. ثُمَّ قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ وَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ ما قِيلَ لَيَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا كَشَفْتُ مِنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ. قَالَتْ ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
Narrated By 'Aisha : Whenever Allah's Apostle intended to go on a journey, he used to draw lots amongst his wives, and Allah's Apostle used to take with him the one on whom lot fell. He drew lots amongst us during one of the Ghazwat which he fought. The lot fell on me and so I proceeded with Allah's Apostle after Allah's order of veiling (the women) had been revealed. I was carried (on the back of a camel) in my howdah and carried down while still in it (when we came to a halt). So we went on till Allah's Apostle had finished from that Ghazwa of his and returned.
When we approached the city of Medina he announced at night that it was time for departure. So when they announced the news of departure, I got up and went away from the army camps, and after finishing from the call of nature, I came back to my riding animal. I touched my chest to find that my necklace which was made of Zifar beads (i.e. Yemenite beads partly black and partly white) was missing. So I returned to look for my necklace and my search for it detained me. (In the meanwhile) the people who used to carry me on my camel, came and took my howdah and put it on the back of my camel on which I used to ride, as they considered that I was in it. In those days women were light in weight for they did not get fat, and flesh did not cover their bodies in abundance as they used to eat only a little food. Those people therefore, disregarded the lightness of the howdah while lifting and carrying it; and at that time I was still a young girl. They made the camel rise and all of them left (along with it). I found my necklace after the army had gone.
Then I came to their camping place to find no call maker of them, nor one who would respond to the call. So I intended to go to the place where I used to stay, thinking that they would miss me and come back to me (in my search). While I was sitting in my resting place, I was overwhelmed by sleep and slept. Safwan bin Al-Muattal As-Sulami Adh-Dhakwani was behind the army. When he reached my place in the morning, he saw the figure of a sleeping person and he recognized me on seeing me as he had seen me before the order of compulsory veiling (was prescribed). So I woke up when he recited Istirja' (i.e. "Inna lillahi wa inna ilaihi raji'un") as soon as he recognized me. I veiled my face with my head cover at once, and by Allah, we did not speak a single word, and I did not hear him saying any word besides his Istirja'. He dismounted from his camel and made it kneel down, putting his leg on its front legs and then I got up and rode on it. Then he set out leading the camel that was carrying me till we overtook the army in the extreme heat of midday while they were at a halt (taking a rest). (Because of the event) some people brought destruction upon themselves and the one who spread the Ifk (i.e. slander) more, was 'Abdullah bin Ubai Ibn Salul."
(Urwa said, "The people propagated the slander and talked about it in his (i.e. 'Abdullah's) presence and he confirmed it and listened to it and asked about it to let it prevail." Urwa also added, "None was mentioned as members of the slanderous group besides ('Abdullah) except Hassan bin Thabit and Mistah bin Uthatha and Hamna bint Jahsh along with others about whom I have no knowledge, but they were a group as Allah said. It is said that the one who carried most of the slander was 'Abdullah bin Ubai bin Salul." Urwa added, "'Aisha disliked to have Hassan abused in her presence and she used to say, 'It was he who said: My father and his (i.e. my father's) father and my honour are all for the protection of Muhammad's honour from you.").
'Aisha added, "After we returned to Medina, I became ill for a month. The people were propagating the forged statements of the slanderers while I was unaware of anything of all that, but I felt that in my present ailment, I was not receiving the same kindness from Allah's Apostle as I used to receive when I got sick. (But now) Allah's Apostle would only come, greet me and say,' How is that (lady)?' and leave. That roused my doubts, but I did not discover the evil (i.e. slander) till I went out after my convalescence, I went out with Um Mistah to Al-Manasi' where we used to answer the call of nature and we used not to go out (to answer the call of nature) except at night, and that was before we had latrines near our houses. And this habit of our concerning evacuating the bowels, was similar to the habits of the old 'Arabs living in the deserts, for it would be troublesome for us to take latrines near our houses. So I and Um Mistah who was the daughter of Abu Ruhm bin Al-Muttalib bin Abd Manaf, whose mother was the daughter of Sakhr bin 'Amir and the aunt of Abu Bakr As-Siddiq and whose son was Mistah bin Uthatha bin 'Abbas bin Al-Muttalib, went out. I and Um Mistah returned to my house after we finished answering the call of nature. Um Mistah stumbled by getting her foot entangled in her covering sheet and on that she said, 'Let Mistah be ruined!' I said, 'What a hard word you have said. Do you abuse a man who took part in the battle of Badr?' On that she said, 'O you Hantah! Didn't you hear what he (i.e. Mistah) said? 'I said, 'What did he say?'
Then she told me the slander of the people of Ifk. So my ailment was aggravated, and when I reached my home, Allah's Apostle came to me, and after greeting me, said, 'How is that (lady)?' I said, 'Will you allow me to go to my parents?' as I wanted to be sure about the news through them. Allah's Apostle allowed me (and I went to my parents) and asked my mother, 'O mother! What are the people talking about?' She said, 'O my daughter! Don't worry, for scarcely is there a charming woman who is loved by her husband and whose husband has other wives besides herself that they (i.e. women) would find faults with her.' I said, 'Subhan-Allah! (I testify the uniqueness of Allah). Are the people really talking in this way?' I kept on weeping that night till dawn I could neither stop weeping nor sleep then in the morning again, I kept on weeping. When the Divine Inspiration was delayed.
Allah's Apostle called 'Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid to ask and consult them about divorcing me. Usama bin Zaid said what he knew of my innocence, and the respect he preserved in himself for me. Usama said, '(O Allah's Apostle!) She is your wife and we do not know anything except good about her.' 'Ali bin Abi Talib said, 'O Allah's Apostle! Allah does not put you in difficulty and there are plenty of women other than she, yet, ask the maid-servant who will tell you the truth.' On that Allah's Apostle called Barira (i.e. the maid-servant) and said, 'O Barira! Did you ever see anything which aroused your suspicion?' Barira said to him, 'By Him Who has sent you with the Truth. I have never seen anything in her (i.e. 'Aisha) which I would conceal, except that she is a young girl who sleeps leaving the dough of her family exposed so that the domestic goats come and eat it.'
So, on that day, Allah's Apostle got up on the pulpit and complained about 'Abdullah bin Ubai (bin Salul) before his companions, saying, 'O you Muslims! Who will relieve me from that man who has hurt me with his evil statement about my family? By Allah, I know nothing except good about my family and they have blamed a man about whom I know nothing except good and he used never to enter my home except with me.' Sad bin Mu'adh the brother of Banu 'Abd Al-Ashhal got up and said, 'O Allah's Apostle! I will relieve you from him; if he is from the tribe of Al-Aus, then I will chop his head off, and if he is from our brothers, i.e. Al-Khazraj, then order us, and we will fulfil your order.' On that, a man from Al-Khazraj got up. Um Hassan, his cousin, was from his branch tribe, and he was Sad bin Ubada, chief of Al-Khazraj. Before this incident, he was a pious man, but his love for his tribe goaded him into saying to Sad (bin Mu'adh). 'By Allah, you have told a lie; you shall not and cannot kill him. If he belonged to your people, you would not wish him to be killed.'
On that, Usaid bin Hudair who was the cousin of Sad (bin Mu'adh) got up and said to Sad bin 'Ubada, 'By Allah! You are a liar! We will surely kill him, and you are a hypocrite arguing on the behalf of hypocrites.' On this, the two tribes of Al-Aus and Al Khazraj got so much excited that they were about to fight while Allah's Apostle was standing on the pulpit. Allah's Apostle kept on quietening them till they became silent and so did he. All that day I kept on weeping with my tears never ceasing, and I could never sleep.
In the morning my parents were with me and I wept for two nights and a day with my tears never ceasing and I could never sleep till I thought that my liver would burst from weeping. So, while my parents were sitting with me and I was weeping, an Ansari woman asked me to grant her admittance. I allowed her to come in, and when she came in, she sat down and started weeping with me. While we were in this state, Allah's Apostle came, greeted us and sat down. He had never sat with me since that day of the slander. A month had elapsed and no Divine Inspiration came to him about my case. Allah's Apostle then recited Tashah-hud and then said, 'Amma Badu, O 'Aisha! I have been informed so-and-so about you; if you are innocent, then soon Allah will reveal your innocence, and if you have committed a sin, then repent to Allah and ask Him for forgiveness for when a slave confesses his sins and asks Allah for forgiveness, Allah accepts his repentance.'
When Allah's Apostle finished his speech, my tears ceased flowing completely that I no longer felt a single drop of tear flowing. I said to my father, 'Reply to Allah's Apostle on my behalf concerning what he has said.' My father said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle.' Then I said to my mother, 'Reply to Allah's Apostle on my behalf concerning what he has said.' She said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle.' In spite of the fact that I was a young girl and had a little knowledge of Qur'an, I said, 'By Allah, no doubt I know that you heard this (slanderous) speech so that it has been planted in your hearts (i.e. minds) and you have taken it as a truth. Now if I tell you that I am innocent, you will not believe me, and if confess to you about it, and Allah knows that I am innocent, you will surely believe me. By Allah, I find no similitude for me and you except that of Joseph's father when he said, '(For me) patience in the most fitting against that which you assert; it is Allah (Alone) Whose Help can be sought.' Then I turned to the other side and lay on my bed; and Allah knew then that I was innocent and hoped that Allah would reveal my innocence. But, by Allah, I never thought that Allah would reveal about my case, Divine Inspiration, that would be recited (forever) as I considered myself too unworthy to be talked of by Allah with something of my concern, but I hoped that Allah's Apostle might have a dream in which Allah would prove my innocence. But, by Allah, before Allah's Apostle left his seat and before any of the household left, the Divine inspiration came to Allah's Apostle.
So there overtook him the same hard condition which used to overtake him, (when he used to be inspired Divinely). The sweat was dropping from his body like pearls though it was a wintry day and that was because of the weighty statement which was being revealed to him. When that state of Allah's Apostle was over, he got up smiling, and the first word he said was, 'O 'Aisha! Allah has declared your innocence!' Then my Mother said to me, 'Get up and go to him (i.e. Allah's Apostle). I replied, 'By Allah, I will not go to him, and I praise none but Allah. So Allah revealed the ten Verses: "Verily! They who spread the slander Are a gang, among you..." (24.11-20)
Allah revealed those Qur'anic Verses to declare my innocence. Abu Bakr As-Siddiq who used to disburse money for Mistah bin Uthatha because of his relationship to him and his poverty, said, 'By Allah, I will never give to Mistah bin Uthatha anything after what he has said about 'Aisha.' Then Allah revealed:
"And let not those among you who are good and wealthy swear not to give (any sort of help) to their kinsmen, those in need, and those who have left their homes for Allah's cause, let them pardon and forgive. Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is oft-Forgiving Most Merciful." (24.22)
Abu Bakr As-Siddiq said, 'Yes, by Allah, I would like that Allah forgive me.' and went on giving Mistah the money he used to give him before. He also added, 'By Allah, I will never deprive him of it at all.'
'Aisha further said:." Allah's Apostle also asked Zainab bint Jahsh (i.e. his wife) about my case. He said to Zainab, 'What do you know and what did you see?" She replied, "O Allah's Apostle! I refrain from claiming falsely that I have heard or seen anything. By Allah, I know nothing except good (about 'Aisha).' From amongst the wives of the Prophet Zainab was my peer (in beauty and in the love she received from the Prophet) but Allah saved her from that evil because of her piety. Her sister Hamna, started struggling on her behalf and she was destroyed along with those who were destroyed. The man who was blamed said, 'Subhan-Allah! By Him in Whose Hand my soul is, I have never uncovered the cover (i.e. veil) of any female.' Later on the man was martyred in Allah's Cause."
ابن شہاب زہری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا: مجھ سے عروہ بن زبیر ‘ سعید بن مسیب ‘ علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب اہل افک (یعنی تہمت لگانے والوں) نے ان کے متعلق وہ سب کچھ کہا جو انہیں کہنا تھا (ابن شہاب نے بیان کیا کہ) تمام حضرات نے (جن چار حضرات کے نام انہوں نے روایت کے سلسلے میں لیے ہیں) مجھ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا۔ یہ بھی تھا کہ ان میں سے بعض کو یہ قصہ زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھا اور عمدگی سے یہ قصہ بیان کرتا تھا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کی روایت یاد رکھی جو اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یاد رکھی تھی۔ اگرچہ بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں روایت زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھی۔ پھر بھی ان میں باہم ایک کی روایت دوسرے کی روایت کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا کے درمیان قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جس کا نام آتا تو نبی ﷺ انہیں اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر جب آپﷺ نے قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا اور میں آپﷺ کے ساتھ سفر میں روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ چنانچہ مجھے ہودج سمیت اٹھا کر سوار کردیا جاتا اور اسی کے ساتھ اتارا جاتا۔ اس طرح ہم روانہ ہوئے۔ پھر جب نبی ﷺ اپنے اس غزوۂ سے فارغ ہوگئے تو واپس ہوئے۔ واپسی میں اب ہم مدینہ کے قریب تھے (اور ایک مقام پر پڑاؤ تھا) جہاں سے آپﷺ نے کوچ کا رات کے وقت اعلان کیا۔ کوچ کا اعلان ہوچکا تھا تو میں کھڑی ہوئی اور تھوڑی دور چل کر لشکر کے حدود سے آگے نکل گئی۔ پھر قضائے حاجت سے فارغ ہوکر میں اپنی سواری کے پاس پہنچی۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو ظفار(یمن کا ایک شہر) کے مہرہ کا بنا ہوا میرا ہار غائب تھا۔ اب میں پھر واپس ہوئی اور اپنا ہار تلاش کرنے لگی۔ اس تلاش میں دیر ہوگئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ جو لوگ مجھے سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور میرے ہودج کو اٹھاکر انہوں نے میرے اونٹ پر رکھ دیا۔ جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے سمجھا کہ میں ہودج کے اندر ہی موجود ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ ان کے جسم میں زیادہ گوشت نہیں ہوتا تھا کیونکہ بہت معمولی خوراک انہیں ملتی تھی۔ اس لیے اٹھانے والوں نے جب اٹھایا تو ہودج کے ہلکے پن میں انہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا۔ یوں بھی اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی۔ غرض اونٹ کو اٹھاکر وہ بھی روانہ ہوگئے۔ جب لشکر گزر گیا تو مجھے بھی اپنا ہار مل گیا۔ میں ڈیرے پر آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ نہ پکارنے والا نہ جواب دینے والا۔ اس لیے میں وہاں آئی جہاں میرا اصل ڈیرہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی میرے نہ ہونے کا انہیں علم ہوجائے گا اور مجھے لینے کے لیے وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی اور میں سوگئی۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ (تاکہ لشکر کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو تو وہ اٹھالیں) انہوں نے ایک سوئے انسان کا سایہ دیکھا اور جب (قریب آکر) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فوراً اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپالیا۔ اللہ کی قسم! میں نے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ سوا انا للہ کے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ سنا۔ وہ سواری سے اترگئے اور اسے انہوں نے بٹھا کر اس کی اگلی ٹانگ کو موڑ دیا (تاکہ بغیر کسی مدد کے ام المؤمنین اس پر سوار ہوسکیں) میں اٹھی اور اس پر سوار ہوگئی۔ اب وہ سواری کو آگے سے پکڑے ہوئے لے کر چلے۔ جب ہم لشکر کے قریب پہنچے تو ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ لشکر پڑاؤ کئے ہوئے تھا۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔ اصل میں تہمت کا بیڑا عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) نے اٹھا رکھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس تہمت کا چرچا کرتا اور اس کی مجلسوں میں اس کا تذکرہ ہوا کرتا۔ وہ اس کی تصدیق کرتا ‘ خوب غور اور توجہ سے سنتا اور پھیلانے کے لیے خوب کھود کرید کرتا۔ عروہ نے پہلی سند کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ حسان بن ثابت ‘ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے سوا تہمت لگانے میں شریک کسی کا بھی نام نہیں لیا کہ مجھے ان کا علم ہوتا۔ اگرچہ اس میں شریک ہونے والے بہت سے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (کہ جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ بہت سے ہیں) لیکن اس معاملہ میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ اس پر بڑی خفگی کا اظہار کرتی تھیں۔ اگر ان کے سامنے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جاتا ‘ آپ فرماتیں کہ یہ شعر حسان ہی نے کہا ہے کہ میرے والد اور میرے والد کے والد اور میری عزت ‘ محمد ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لیے تمہارے سامنے ڈھال بنی رہیں گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینہ پہنچ گئے اور وہاں پہنچتے ہی میں بیمار ہوگئی تو ایک مہینے تک بیمار ہی رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی افواہوں کا بڑا چرچا رہا لیکن میں ایک بات بھی نہیں سمجھ رہی تھی البتہ اپنے مرض کے دوران ایک چیز سے مجھے بڑا شبہ ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ کی وہ محبت و عنایت میں نہیں محسوس کرتی تھی جس کو پہلے جب بھی بیمار ہوتی میں دیکھ چکی تھی۔ آپ میرے پاس تشریف لاتے ‘ سلام کرتے اور دریافت فرماتے کیسی طبیعت ہے؟ صرف اتنا پوچھ کر واپس تشریف لے جاتے۔ آپ ﷺ کے اس طرز عمل سے مجھے شبہ ہوتا تھا۔ لیکن شر (جو پھیل چکا تھا) اس کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ مرض سے جب افاقہ ہوا تو میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی۔ مناصع (مدینہ کی آبادی سے باہر) ہمارے رفع حاجت کی جگہ تھی۔ ہم یہاں صرف رات کے وقت جاتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بن گئے تھے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ ابھی ہم عرب قدیم کے طریقے پر عمل کرتے اور میدان میں رفع حاجت کےلیے جایا کرتے تھے اور ہمیں اس سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بنائے جائیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ الغرض میں اور ام مسطح (رفع حاجت کے لیے) گئے۔ ام مسطح ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبد مناف کی بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی ہیں اور وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔ انہی کے بیٹے مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر میں اور ام مسطح حاجت سے فارغ ہوکر اپنے گھر کی طرف واپس آرہے تھے کہ ام مسطح اپنی چادر میں الجھ گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح ذلیل ہو۔ میں نے کہا: آپ نے بری بات زبان سے نکالی ‘ ایک ایسے شخص کو آپ برا کہہ رہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوچکا ہے۔ انہوں نے اس پر کہا: کیوں مسطح کی باتیں تم نے نہیں سنیں؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ بیان کیا ‘ پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں سنائیں۔ بیان کیا کہ ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور سلام کے بعد دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے آپﷺسے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اپنی والدہ سے (گھر جاکر) پوچھا کہ آخر لوگوں میں کس طرح کی افواہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ بیٹی! فکر نہ کر ‘ اللہ کی قسم! ایسا شاید ہی کہیں ہوا ہو کہ ایک خوبصورت عورت کسی ایسے شوہر کے ساتھ ہو جو اس سے محبت بھی رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر اس پر تہمتیں نہ لگائی گئی ہوں۔ اس کی عیب جوئی نہ کی گئی ہو۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے اس پر کہا کہ سبحان اللہ (میری سوکنوں سے اس کا کیا تعلق) اس کا تو عام لوگوں میں چرچا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ادھر پھر جو میں نے رونا شروع کیا تو رات بھر روتی رہی اسی طرح صبح ہوگئی اور میرے آنسو کسی طرح نہ تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی۔ بیان کیا کہ ادھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کےلیے بلایا کیونکہ اس سلسلے میں اب تک آپﷺ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ بیان کیا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو نبی کریم ﷺ کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جو وہ آپ ﷺ کی بیوی (مراد خود اپنی ذات سے ہے) کی پاکیزگی اور آپ ﷺ کی ان سے محبت کے متعلق جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ آپ کی بیوی میں مجھے خیر و بھلائی کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے اور عورتیں بھی ان کے علاوہ بہت ہیں۔ آپ ان کی باندی(بریرہ رضی اللہ عنہا) سے بھی دریافت فرما لیں وہ حقیقت حال بیان کر دے گی۔ بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تمہیں (عائشہ پر) شبہ ہوا ہو۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ میں نے ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو بری ہو۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ایک نوعمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں اور بکری آکر اسے کھا جاتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس دن رسول اللہﷺنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا اور منبر پر کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی (منافق) کا معاملہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے مسلمانوں کی جماعت! اس شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیتیں اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم کہ میں نے اپنی بیوی میں خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی اور نام بھی ان لوگوں نے ایک ایسے شخص (صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جو ام المؤمنین کو اپنے اونٹ پر لائے تھے) کا لیا ہے جس کے بارے میں بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر آئے تو میرے ساتھ ہی آئے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو اسہل کے ہم رشتہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا میں، یا رسول اللہﷺ! آپ کی مدد کروں گا۔ اگر وہ شخص قبیلہ اوس کا ہوا تو میں اس کی گردن مار دوں گا اور اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا آپ کا اس کے متعلق بھی جو حکم ہوگا ہم بجا لائیں گے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ اس پر قبیلہ خزرج کے ایک صحابی کھڑے ہوئے۔ حسان کی والدہ ان کی چچا زاد بہن تھیں یعنی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے بڑے صالح اور مخلصین میں تھے لیکن آج قبیلہ کی حمیت ان پر غالب آ گئی۔ انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم! تم جھوٹے ہو ‘ تم اسے قتل نہیں کر سکتے، اور نہ تمہارے اندر اتنی طاقت ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلہ کا ہوتا تو تم اس کے قتل کا نام نہ لیتے۔ اس کے بعد اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے چچیرے بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا: اللہ کی قسم! تم جھوٹے ہو ‘ ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ اب اس میں شبہ نہیں رہا کہ تم بھی منافق ہو ‘ تم منافقوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔ اتنے میں اوس و خزرج کے دونوں قبیلے بھڑک اٹھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپس ہی میں لڑ پڑیں گے۔ اس وقت تک رسول اللہﷺ منبر پر ہی تشریف فرما تھے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ سب کو خاموش کرانے لگے۔ سب حضرات چپ ہوگئے اور آپ ﷺبھی خاموش ہوگئے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس روز پورا دن روتی رہی۔ نہ میرا آنسو تھمتا تھا اور نہ آنکھ لگتی تھی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے۔ دو راتیں اور ایک دن میرا روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس پورے عرصہ میں نہ میرا آنسو رکا اور نہ نیند آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ابھی میرے والدین میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے انہیں اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ بیان کیا کہ ہم ابھی اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ بیان کیا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی ‘ آپ ﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اور میرے بارے میں آپ کو وحی کے ذریعہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد آپ ﷺ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا امابعد: اے عائشہ! مجھے تمہارے بارے میں اس اس طرح کی خبریں ملی ہیں ‘ اگر تم واقعی اس معاملہ میں پاک و صاف ہو تو اللہ تمہاری پاکی خود بیان کردے گا لیکن اگر تم نے کسی گناہ کا قصد کیا تھا تو اللہ کی مغفرت چاہو اور اس کے حضور میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب (اپنے گناہوں کا) اعتراف کرلیتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب آپ ﷺ اپنا کلام پورا کرچکے تو میرے آنسو اس طرح خشک ہوگئے کہ ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ ﷺ کو ان کے کلام کا جواب دیں۔ والد نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں کچھ نہیں جانتا کہ آپ ﷺ سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کا جواب دیں۔ والدہ نے بھی یہی کہا۔ اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آپ ﷺ سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ اس لیے میں نے خود ہی عرض کیا۔ حالانکہ میں بہت کم عمر لڑکی تھی اور قرآن مجید بھی میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا کہ اللہ کی قسم! مجھے بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں نے اس طرح کی افوہوں پر کان دھرا اور بات آپ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور آپ لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس تہمت سے بری ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اگر اور اس گناہ کا اقرار کرلوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کی تصدیق کرنے لگ جائیں گے۔ پس اللہ کی قسم! میری اور لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» (یوسف: 18) پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدد درکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کرلیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ میں اس معاملہ میں قطعاً بری تھی اور وہ خود میری برات ظاہر کرے گا۔ کیونکہ میں واقعی بری تھی لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی اتارے گا کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملہ میں خود کوئی کلام فرمائے ‘ مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ آپ ﷺ کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ میری برات کردے گا لیکن اللہ کی قسم! ابھی نبیﷺ مجلس سے اٹھے بھی نہیں تھے اور نہ اور کوئی گھر کا آدمی وہاں سے اٹھا تھا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کی شدت میں طاری ہوتی تھی۔ موتیوں کی طرح پسینے کے قطرے آپﷺ کے چہرے سے گرنے لگے۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا۔ یہ اس وحی کی وجہ سے تھا جو آپﷺ پر نازل ہو رہی تھی۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپﷺ تبسم فرما رہے تھے۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ نے تمہاری برات نازل کردی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میری والدہ نے کہا کہ نبی ﷺ کے سامنے کھڑی ہوجاؤ۔ میں نے کہا ‘ نہیں اللہ کی قسم! میں آپ ﷺکے سامنے نہیں کھڑی ہوں گی۔ میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد و ثنا نہیں کروں گی (کہ اسی نے میری برات نازل کی ہے) بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا «إن الذين جاءوا بالإفك» جو لوگ تہمت تراشی میں شریک ہوئے ہیں دس آیتیں اس سلسلہ میں نازل فرمائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور میں) یہ آیتیں میری برات کےلیے نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (جو مسطح بن اثاثہ کے اخراجات ‘ ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھاتے تھے) نے کہا: اللہ کی قسم! مسطح نے جب عائشہ کے متعلق اس طرح کی تہمت تراشی میں حصہ لیا تو میں اس پر اب کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم» یعنی اہل فضل اور اہل ہمت قسم نہ کھائیں سے «غفور رحيم» تک (کیونکہ مسطح رضی اللہ عنہ یا دوسرے مومنین کی اس میں شرکت محض غلط فہمی کی بنا پر تھی)۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کہنے پر معاف کردے اور مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ‘ اسے پھر دینے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم! اب اس وظیفہ کو میں کبھی بند نہیں کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے معاملے میں آپ ﷺ نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی مشورہ کیا تھا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق کیا معلومات ہیں تمہیں یا ان میں تم نے کیا چیز دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی آنکھوں اور کانوں کو محفوظ رکھتی ہوں (کہ ان کی طرف خلاف واقعہ نسبت کروں) اللہ کی قسم! میں ان کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ زینب ہی تمام ازواج مطہرات میں میرے مقابل کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے تقویٰ اور پاکبازی کی وجہ سے انہیں محفوظ رکھا۔ بیان کیا کہ البتہ ان کی بہن حمنہ نے غلط راستہ اختیار کیا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ یہی تھی وہ تفصیل اس حدیث کی جو ان اکابر کی طرف سے مجھ تک پہنچی تھی۔ پھر عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! جن صحابی کے ساتھ یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ (اپنے پر اس تہمت کو سن کر) کہتے ‘ سبحان اللہ ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ میں نے آج تک کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر اس واقعہ کے بعد وہ اللہ کے راستے میں شہید ہوگئے تھے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ أَمْلَى عَلَىَّ هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ مِنْ حِفْظِهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ قَالَ لِي الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبَلَغَكَ أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ فِيمَنْ قَذَفَ عَائِشَةَ قُلْتُ لاَ. وَلَكِنْ قَدْ أَخْبَرَنِي رَجُلاَنِ مِنْ قَوْمِكِ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ لَهُمَا كَانَ عَلِيٌّ مُسَلِّمًا فِي شَأْنِهَا ، فَرَاجَعُوه فلم يَرجِعْ.و قال:مسلِّمًا: بلا شَكٍّ فيه، وَ عَلَيه وَ كان فى أَصْلِ العَتِيقِ كذلك.
Narrated By Az-Zuhri : Al-Walid bin 'Abdul Malik said to me, "Have you heard that 'Ali' was one of those who slandered 'Aisha?" I replied, "No, but two men from your people (named) Abu Salama bin 'Abdur-Rahman and Abu Bakr bin Abdur-Rahman bin Al-Harith have informed me that 'Aisha told them that 'Ali remained silent about her case."
حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: مجھ سے ولید بن عبد الملک نے پوچھا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں سے تھے ؟ میں نے کہا: نہیں ، البتہ تمہاری قوم کے دو آدمیوں ، یعنی ابو سلمہ بن عبد الرحمن، اور ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث نے مجھے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے معاملے میں خاموش تھے ۔ انہوں نے زہری سے پھر پوچھا تو انہوں نے اس کے سوا کوئی اور جواب نہیں دیا۔پرانے نسخۂ کتاب میں بھی یہی لفظ تھا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مَسْرُوقُ بْنُ الأَجْدَعِ، قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ رُومَانَ ـ وَهْىَ أُمُّ عَائِشَةَ رضى الله عنها ـ قَالَتْ بَيْنَا أَنَا قَاعِدَةٌ أَنَا وَعَائِشَةُ إِذْ وَلَجَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَتْ فَعَلَ اللَّهُ بِفُلاَنٍ وَفَعَلَ. فَقَالَتْ أُمُّ رُومَانَ وَمَا ذَاكَ قَالَتْ ابْنِي فِيمَنْ حَدَّثَ الْحَدِيثَ. قَالَتْ وَمَا ذَاكَ قَالَتْ كَذَا وَكَذَا. قَالَتْ عَائِشَةُ سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ نَعَمْ. قَالَتْ وَأَبُو بَكْرٍ قَالَتْ نَعَمْ. فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا، فَمَا أَفَاقَتْ إِلاَّ وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ، فَطَرَحْتُ عَلَيْهَا ثِيَابَهَا فَغَطَّيْتُهَا. فَجَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " مَا شَأْنُ هَذِهِ ". قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَتْهَا الْحُمَّى بِنَافِضٍ. قَالَ " فَلَعَلَّ فِي حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ ". قَالَتْ نَعَمْ. فَقَعَدَتْ عَائِشَةُ فَقَالَتْ وَاللَّهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لاَ تُصَدِّقُونِي، وَلَئِنْ قُلْتُ لاَ تَعْذِرُونِي، مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَيَعْقُوبَ وَبَنِيهِ، وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ، قَالَتْ وَانْصَرَفَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عُذْرَهَا ـ قَالَتْ ـ بِحَمْدِ اللَّهِ لاَ بِحَمْدِ أَحَدٍ وَلاَ بِحَمْدِكَ
Narrated By Masruq bin Al-Ajda : Um Ruman, the mother of 'Aisha said that while 'Aisha and she were sitting, an Ansari woman came and said, "May Allah harm such and-such a person!" Um Ruman said to her, What is the matter?" She replied, "My son was amongst those who talked of the story (of the Slander)." Um Ruman said, "What is that?" She said, "So-and-so..." and narrated the whole story. On that 'Aisha said, "Did Allah's Apostle hear about that?" She replies, "yes." 'Aisha further said, "And Abu Bakr too?" She replied, "Yes." On that, 'Aisha fell down fainting, and when she came to her senses, she had got fever with rigors. I put her clothes over her and covered her. The Prophet came and asked, "What is wrong with this (lady)?" Um Ruman replied, "O Allah's Apostle! She (i.e. 'Aisha) has got temperature with rigors." He said, "Perhaps it is because of the story that has been talked about?" She said, "Yes." 'Aisha sat up and said, "By Allah, if I took an oath (that I am innocent), you would not believe me, and if I said (that I am not innocent), you would not excuse me. My and your example is like that of Jacob and his sons (as Jacob said): 'It is Allah (Alone) Whose Help can be sought against that you assert.' Um Ruman said, "The Prophet then went out saying nothing. Then Allah declared her innocence. On that, 'Aisha said (to the Prophet), "I thank Allah only; thank neither anybody else nor you."
مسروق بن اجدع سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے خبر دی۔ اور انہوں نے کہا: میں اور عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ اللہ فلاں، فلاں کو تباہ کرے۔ ام رومان نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہوگیا ہے۔ جنہوں نے اس طرح کی بات کی ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے؟ اس پر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں نقل کردیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ باتیں سنیں ہیں؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں۔ انہوں نے پوچھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے بھی۔ یہ سنتے ہی وہ غش کھاکر گر پڑیں پھر ان کو جب ہوش آیا تو ان کو کپکپی والا بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور انہیں ڈھانپ دیا۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺتشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کو کپکپی والا بخار چڑھ گیا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ غالباً ان باتوں کے باعث جو بیان کی جاتی ہیں۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جی ہاں۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیٹھ کر کہا کہ اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں کہ میں بےگناہ ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اور اگر کچھ کہوں تب بھی میرا عذر نہیں سنیں گے۔ میری اور آپ لوگوں کی یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی مثال ہے کہ انہوں نے کہا تھا «والله المستعان على ما تصفون» یعنی اللہ ان باتوں پر جو تم بناتے ہو مدد کرنے والا ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہا: نبیﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ تقریر سن کر لوٹ گئے ‘ کچھ جواب نہیں دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی تلافی نازل کی۔ وہ نبی ﷺ سے کہنے لگیں بس میں اللہ ہی کا شکر ادا کرتی ہوں نہ آپ کا، نہ کسی اور کا۔
حَدَّثَنِي يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ كَانَتْ تَقْرَأُ {إِذْ تَلِقُونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ} وَتَقُولُ الْوَلْقُ الْكَذِبُ. قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ وَكَانَتْ أَعْلَمَ مِنْ غَيْرِهَا بِذَلِكَ لأَنَّهُ نَزَلَ فِيهَا
Narrated By Ibn Abi Malaika : 'Aisha used to recite this Verse: 'Ida taliqunahu bi-alsinatikum' (24.15) "(As you tell lie with your tongues.)" and used to say "Al-Walaq" means "telling of a lie. "She knew this Verse more than anybody else as it was revealed about her.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ (سورۃ نور کی) اس آیت کو یوں پڑھتی تھیں اِذ تَلِقُونَہُ بالسنتکم بکسر لام یعنی جس وقت تم اپنی زبانوں سے جھوٹ بولتے تھے۔اور فرمایا: " تلقونہ" یہ ولق سے نکلا ہے ولق کے معنی جھوٹ۔ عبید اللہ ا بن ابی ملیکہ نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس قراءت کو دوسروں کی نسبت زیادہ جاننے والی تھیں کیونکہ یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ لاَ تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. وَقَالَتْ عَائِشَةُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي هِجَاءِ الْمُشْرِكِينَ قَالَ " كَيْفَ بِنَسَبِي ". قَالَ لأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنَ الْعَجِينِ.وَقَالَ مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ، سَمِعْتُ هِشَامًا، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَبَبْتُ حَسَّانَ، وَكَانَ مِمَّنْ كَثَّرَ عَلَيْهَا
Narrated By Hisham's father : I started abusing Hassan in front of 'Aisha. She said, "Do not abuse him as he used to defend Allah's Apostle (against the infidels). 'Aisha added, "Once Hassan took the permission from the Prophet to say poetic verses against the infidels. On that the Prophet said, 'How will you exclude my forefathers (from that)? Hassan replied, 'I will take you out of them as one takes a hair out of the dough." Hisham's father added, "I abused Hassan as he was one of those who spoke against 'Aisha."
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا:میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا تو انہوں نے کہا: انہیں برا بھلا نہ کہو ‘ کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺکا دفاع کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے مشرکین قریش کی ہجو کرنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میرے نسب کا کیا ہو گا؟ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں آپ کو ان سے ایسے نکال لوں گا جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ دوسری سند میں حضرت عروہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے حسان بن ثابت کو برا بھلا کہا کیونکہ وہ واقعہ افک میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بہت کچھ کہا کرتے تھے۔
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ وَعِنْدَهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ يُنْشِدُهَا شِعْرًا، يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ وَقَالَ حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ لَكِنَّكَ لَسْتَ كَذَلِكَ. قَالَ مَسْرُوقٌ فَقُلْتُ لَهَا لِمَ تَأْذَنِينَ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْكِ. وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ}. فَقَالَتْ وَأَىُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى. قَالَتْ لَهُ إِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ ـ أَوْ يُهَاجِي ـ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Masruq : We went to 'Aisha while Hassan bin Thabit was with her reciting poetry to her from some of his poetic verses, saying "A chaste wise lady about whom nobody can have suspicion. She gets up with an empty stomach because she never eats the flesh of indiscreet (ladies)." 'Aisha said to him, "But you are not like that." I said to her, "Why do you grant him admittance, though Allah said: "and as for him among them, who had the greater share therein, his will be a severe torment." (24.11)
On that, 'Aisha said, "And what punishment is more than blinding?" She, added, "Hassan used to defend or say poetry on behalf of Allah's Apostle (against the infidels)."
مسروق نے بیان کیا کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے پاس حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود تھے جوان کی شان میں مدحیہ اشعار پڑھ رہے تھے ، انہوں نے یہ شعر کہے: "پاک دامن ، باوقار خواتین جو کسی کی عیب جوئی سے متہم نہیں ہیں۔
وہ ہر صبح بھوکی ہوکر بھولی بھالی عورتوں کا گوشت نہیں کھاتی (یعنی غیبت نہیں کرتی)۔"
اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لیکن تم تو ایسے نہیں ثابت ہوئے۔ مسروق نے بیان کیا کہ پھر میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ‘ آپ انہیں اپنے یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرما چکا ہے «والذي تولى كبره منهم له عذاب عظيم» اور ان میں وہ شخص جو تہمت لگانے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہو گا۔ اس پر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نابینا ہو جانے سے سخت عذاب اور کیا ہو گا (حسان رضی اللہ عنہ کی بصارت آخر عمر میں چلی گئی تھی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا :حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مدافعت کرتےتھے یا رسول اللہ ﷺکی طرف سے (مشرکین کی )کی ہجو کرتے تھے۔
Chapter No: 36
باب غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ
The Ghazwa of Al-Hudaibiya.
باب: جنگ حدیبیہ کا قصّہ
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ }
And the Statement of Allah, "Indeed, Allah was pleased with the believers when they gave the pledge to you (O Muhammad (s.a.w)) under the tree ..." (V.48:18)
اور اللہ تعالٰی کا سورت فتح میں فرمانا اللہ ان مسلمانوں سے راضی ہو چکا جب وہ درخت کے تلے تُجھ سے بیعت کر رہے تھے۔
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، قَالَ حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَصَابَنَا مَطَرٌ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الصُّبْحَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ " أَتَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ". قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. فَقَالَ " قَالَ اللَّهُ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِي، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَبِرِزْقِ اللَّهِ وَبِفَضْلِ اللَّهِ. فَهْوَ مُؤْمِنٌ بِي، كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ. وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَجْمِ كَذَا. فَهْوَ مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ، كَافِرٌ بِي "
Narrated By Zaid bin Khalid : We went out with Allah's Apostle in the year of Al-Hudaibiya. One night it rained and Allah's Apostle led us in the Fajr prayer and (after finishing it), turned to us and said, " Do you know what your Lord has said?" We replied, "Allah and His Apostle know it better." He said, "Allah said: "(Some of) My slaves got up believing in Me, And (some of them) disbelieving in Me. The one who said: We have been given Rain through Allah's Mercy and Allah's Blessing and Allah's Bounty, Then he is a believer in Me, and is a Disbeliever in the star. And whoever said: We have been given rain because of such-and-such star, Then he is a believer in the star, and is a disbeliever in Me."
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حدیبیہ کے سال ہم رسول اللہﷺکے ساتھ نکلے تو ایک دن، رات کو بارش ہوئی۔ نبیﷺ نے صبح کی نماز پڑھانے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے ؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آج میرے کچھ بندوں نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ میرے ساتھ ایمان رکھتے ہیں،اور کچھ بندے کفر کرنے والے ہیں۔ تو جس نے کہا کہ ہم پر یہ بارش اللہ کے رزق ‘ اللہ کی رحمت اور اللہ کے فضل سے ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لانے والا ہے اور ستارے کا انکار کرنے والا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ بارش فلاں ستارے کی تاثیر سے ہوئی ہے تو وہ ستاروں پر ایمان لانے والا اور میرے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ أَخْبَرَهُ قَالَ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرْبَعَ عُمَرٍ كُلُّهُنَّ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، إِلاَّ الَّتِي كَانَتْ مَعَ حَجَّتِهِ. عُمْرَةً مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةً مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةً مِنَ الْجِعْرَانَةِ حَيْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةً مَعَ حَجَّتِهِ
Narrated By Anas : Allah's Apostle performed four 'Umras, all in the month of Dhul-Qa'da, except the one which he performed with his Hajj (i.e. in Dhul-Hijja). He performed one 'Umra from Al-Hudaibiya in Dhul-Qa'da, another 'Umra in the following year in Dhul Qa'da a third from Al-Jirana where he distributed the war booty of Hunain, in Dhul Qa'da, and the fourth 'Umra he performed was with his Hajj.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے چار عمرے کئے ، سب کے سب ذوالقعدہ مہینے میں ، ماسوائے ایک عمرہ کے ، جو آپ ﷺنے اپنے حج کے ساتھ ذو الحجہ مہینے میں کیا۔1۔حدیبیہ کا عمرہ آپﷺ نے ذو القعدہ میں کیا۔ 2۔دوسرے سال بھی آپﷺ نے ذوالقعدہ میں کیا ۔ 3۔ تیسرا عمرہ جعرانہ کا ہے جہاں آپ ﷺنے حنین کی غنیمتیں تقسیم کی تھیں یہ بھی ذو القعدہ میں کیا۔4۔ اور چوتھا عمرہ جو آپﷺنے اپنے حج کے ساتھ ذو الحجہ میں کیا ۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ قَالَ انْطَلَقْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ، وَلَمْ أُحْرِمْ
Narrated By Abu Qatada : We set out with the Prophet in the year of Al-Hudaibiya, and all his companions assumed the state of Ihram but I did not.
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺکے ساتھ صلح حدیبیہ کے سال روانہ ہوئے ‘ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے احرام باندھ لیا تھا لیکن میں نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ تَعُدُّونَ أَنْتُمُ الْفَتْحَ فَتْحَ مَكَّةَ، وَقَدْ كَانَ فَتْحُ مَكَّةَ فَتْحًا، وَنَحْنُ نَعُدُّ الْفَتْحَ بَيْعَةَ الرُّضْوَانِ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ. كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ فَنَزَحْنَاهَا، فَلَمْ نَتْرُكْ فِيهَا قَطْرَةً، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَتَاهَا، فَجَلَسَ عَلَى شَفِيرِهَا، ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ مَضْمَضَ وَدَعَا، ثُمَّ صَبَّهُ فِيهَا فَتَرَكْنَاهَا غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ إِنَّهَا أَصْدَرَتْنَا مَا شِئْنَا نَحْنُ وَرِكَابَنَا
Narrated By Al-Bara : Do you (people) consider the conquest of Mecca, the Victory (referred to in the Qur'an 48:1). Was the conquest of Mecca a victory? We really consider that the actual Victory was the Ar-Ridwan Pledge of allegiance which we gave on the day of Al-Hudaibiya (to the Prophet). On the day of Al-Hudaibiya we were fourteen hundred men along with the Prophet Al-Hudaibiya was a well, the water of which we used up leaving not a single drop of water in it. When the Prophet was informed of that, he came and sat on its edge. Then he asked for a utensil of water, performed ablution from it, rinsed (his mouth), invoked (Allah), and poured the remaining water into the well. We stayed there for a while and then the well brought forth what we required of water for ourselves and our riding animals.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا : تم لوگ فتح سے مراد مکہ کی فتح لیتے ہو۔ فتح مکہ تو بہرحال فتح ہی تھی لیکن ہم غزوۂ حدیبیہ کی بیعت رضوان کو حقیقی فتح سمجھتے ہیں۔ اس دن ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چودہ سو آدمی تھے۔ حدیبیہ نامی ایک کنواں وہاں پر تھا ‘ ہم نے اس میں سے اتنا پانی نکالا کہ اس کے اندر ایک قطرہ بھی پانی باقی نہ بچا۔ نبی ﷺ کو جب یہ خبر ہوئی تو آپ ﷺ کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ کر ایک برتن میں پانی طلب فرمایا۔ اس سے آپ ﷺ نے وضو کیا اور کلی کی اور دعا فرمائی۔ پھر سارا پانی اس کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم نے کنویں کو یوں ہی رہنے دیا اور اس کے بعد جتنا ہم نے چاہا اس میں سے پانی پیا اور اپنی سواریوں کو پلایا۔
حَدَّثَنِي فَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَعْيَنَ أَبُو عَلِيٍّ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ أَنْبَأَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَمِائَةٍ أَوْ أَكْثَرَ، فَنَزَلُوا عَلَى بِئْرٍ فَنَزَحُوهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَتَى الْبِئْرَ، وَقَعَدَ عَلَى شَفِيرِهَا ثُمَّ قَالَ " ائْتُونِي بِدَلْوٍ مِنْ مَائِهَا ". فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ فَدَعَا ثُمَّ قَالَ " دَعُوهَا سَاعَةً ". فَأَرْوَوْا أَنْفُسَهُمْ وَرِكَابَهُمْ حَتَّى ارْتَحَلُوا
Narrated By Al-Bara bin Azib : That they were in the company of Allah's Apostle on the day of Al-Hudaibiya and their number was 1400 or more. They camped at a well and drew its water till it was dried. When they informed Allah's Apostle of that, he came and sat over its edge and said, "Bring me a bucket of its water." When it was brought, he spat and invoked (Allah) and said, "Leave it for a while." Then they quenched their thirst and watered their riding animals (from that well) till they departed.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ صحابہ کرام غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺکے ساتھ ایک ہزار چار سو کی تعداد میں تھے یا اس سے بھی زیادہ۔ ایک کنویں پر پڑاؤ ہوا لشکر نے اس کا (سارا)پانی کھینچ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔نبیﷺ کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ ایک ڈول میں اسی کنویں کا پانی لاؤ۔ پانی لایا گیا تو آپﷺ نے اس میں لعاب دہن ڈالا، اور دعا فرمائی۔پھر فرمایا کہ کنویں کو یوں ہی تھوڑی دیر کےلیے رہنے دو۔ اس کے بعد سارا لشکر خود بھی سیراب ہوتا رہا اور اپنی سواریوں کو بھی خوب پلاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہاں سے انہوں نے کوچ کیا۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ النَّاسُ نَحْوَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَا لَكُمْ ". قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ بِهِ، وَلاَ نَشْرَبُ إِلاَّ مَا فِي رَكْوَتِكَ. قَالَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَدَهُ فِي الرَّكْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَفُورُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ كَأَمْثَالِ الْعُيُونِ، قَالَ فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا. فَقُلْتُ لِجَابِرٍ كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ قَالَ لَوْ كُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا، كُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً
Narrated By Salim : Jabir said "On the day of Al-Hudaibiya, the people felt thirsty and Allah's Apostle had a utensil containing water. He performer ablution from it and then the people came towards him. Allah's Apostle said, 'What is wrong with you?' The people said, 'O Allah's Apostle! We haven't got any water to perform ablution with or to drink, except what you have in your utensil.' So the Prophet put his hand in the utensil and the water started spouting out between his fingers like springs. So we drank and performed ablution." I said to Jabir, "What was your number on that day?" He replied, "Even if we had been one hundred thousand, that water would have been sufficient for us. Anyhow, we were 1500."
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی اور رسول اللہﷺکے سامنے ایک چھاگل(پانی کا برتن) تھا ، آپﷺنے اس کے پانی سے وضو فرمایا۔ پھر صحابہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ صحابہ بولے کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے پاس اب پانی نہیں رہا ، نہ وضو کرنے کےلیے اور نہ پینے کےلیے۔ ماسوائے اس پانی کے جو آپ کے برتن میں موجود ہے۔راوی نے بیان کیا کہ پھر نبیﷺنے اپنا ہاتھ اس برتن میں رکھا اور پانی آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے چشمے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر ابلنے لگا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم نے پانی پیا اور وضو بھی کیا۔(سالم کہتے ہیں کہ) میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ لوگ کتنی تعداد میں تھے؟ انہوں نے بتلایا کہ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو بھی وہ پانی کافی ہوجاتا۔ ویسے اس وقت ہماری تعداد پندرہ سو تھی۔
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ بَلَغَنِي أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، كَانَ يَقُولُ كَانُوا أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً. فَقَالَ لِي سَعِيدٌ حَدَّثَنِي جَابِرٌ كَانُوا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً الَّذِينَ بَايَعُوا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ. قَالَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا قُرَّةُ عَنْ قَتَادَةَ. تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ
Narrated By Qatada : I said to Sa'id bin Al-Musaiyab, "I have been informed that Jabir bin 'Abdullah said that the number (of Al-Hudaibiya Muslim warriors) was 1400." Sa'id said to me, "Jabir narrated to me that they were 1500 who gave the Pledge of allegiance to the Prophet on the day of Al-Hudaibiya."
حضرت قتادہ نے بیان کیا میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا ، کہ مجھے خبر پہنچی کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ (حدیبیہ کی صلح کے موقع پر) صحابہ کی تعداد چودہ سو تھی۔ اس پر سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ مجھ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا اس موقع پر پندرہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے جنہوں نے نبی ﷺسے حدیبیہ میں بیعت کی تھی۔ ابو داود نے کہا: ہمیں قرہ نے بیان کیا کہ وہ حضرت قتادہ سے روایت کرتے ہیں ۔ صلت بن محمد کی محمد بن بشار نے متابعت کی ہے ۔ ابو داود نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ " أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الأَرْضِ ". وَكُنَّا أَلْفًا وَأَرْبَعَمِائَةٍ، وَلَوْ كُنْتُ أُبْصِرُ الْيَوْمَ لأَرَيْتُكُمْ مَكَانَ الشَّجَرَةِ. تَابَعَهُ الأَعْمَشُ سَمِعَ سَالِمًا سَمِعَ جَابِرًا أَلْفًا وَأَرْبَعَمِائَةٍ.
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : On the day of Al-Hudaibiya, Allah's Apostle said to us' "You are the best people on the earth!" We were 1400 then. If I could see now, I would have shown you the place of the Tree (beneath which the Pledge of allegiance was given by us)," Salim said, "Our number was 1400."
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سےمروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہﷺنے غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر فرمایا تھا کہ تم لوگ تمام زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ ہماری تعداد اس موقع پر چودہ سوتھی۔ اگر آج میری آنکھوں میں بینائی ہوتی تو میں تمہیں اس درخت کا مقام دکھاتا۔ اس روایت کی متابعت اعمش نے کی، ان سے سالم نے سنا اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ چودہ سو صحابہ غزوۂ حدیبیہ میں تھے۔
وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ أَصْحَابُ الشَّجَرَةِ أَلْفًا وَثَلاَثَمِائَةٍ، وَكَانَتْ أَسْلَمُ ثُمْنَ الْمُهَاجِرِينَ. تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ.
'Abdullah bin Abi Aufa said, "The people (who gave the Pledge of allegiance) under the Tree numbered 1300 and the number of Bani Aslam was 1/8 of the Emigrants."
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ درخت والوں (بیعت رضوان کرنے والوں) کی تعداد تیرہ سو تھی۔ قبیلہ اسلم مہاجرین کا آٹھواں حصہ تھے۔ اس روایت کی متابعت محمد بن بشار نے کی ، ان سے ابوداؤد طیالسی نے بیان کیا اور ان سے شعبہ نے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ مِرْدَاسًا الأَسْلَمِيَّ، يَقُولُ ـ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ ـ يُقْبَضُ الصَّالِحُونَ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ، وَتَبْقَى حُفَالَةٌ كَحُفَالَةِ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ، لاَ يَعْبَأُ اللَّهُ بِهِمْ شَيْئًا
Narrated By Mirdas Al-Aslami : Who was among those (who had given the Pledge of allegiance) under the Tree: Pious people will die in succession, and there will remain the dregs of society who will be like the useless residues of dates and barley and Allah will pay no attention to them.
حضرت مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اصحاب شجرہ (حدیبیہ میں شریک ہونے والوں) میں سے تھے ۔ وہ بیان کرتے تھے کہ پہلے نیک لوگ ایک ایک کرکے اٹھالیے جائیں گے۔ پھر ردی کھجور کی طرح یا جَو کی بھوسی کی طرح بیکار لوگ رہ جائیں گے جن کی اللہ کے نزدیک کوئی قدر نہیں ہوگی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالاَ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْىَ وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ مِنْهَا. لاَ أُحْصِي كَمْ سَمِعْتُهُ مِنْ سُفْيَانَ حَتَّى سَمِعْتُهُ يَقُولُ لاَ أَحْفَظُ مِنَ الزُّهْرِيِّ الإِشْعَارَ وَالتَّقْلِيدَ، فَلاَ أَدْرِي ـ يَعْنِي ـ مَوْضِعَ الإِشْعَارِ وَالتَّقْلِيدِ، أَوِ الْحَدِيثَ كُلَّهُ.
Narrated By Marwan and Al-Miswar bin Makhrama : The Prophet went out in the company of 1300 to 1500 of his companions in the year of Al-Hudaibiya, and when they reached Dhul-Hulaifa, he garlanded and marked his Hadi and assumed the state of Ihram.
حضرت مسور بن مخرمہ نے بیان کیا کہ نبیﷺ صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب آپﷺ ذوالحلیفہ پہنچے تو آپﷺنے قربانی کے جانور کو ہار پہنایا اور ان پر نشان لگایا ، پھر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔
راوی حدیث علی بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں شمار کرسکتا کہ میں نے یہ حدیث سفیان بن یسار سے کتنی دفعہ سنی اور ایک مرتبہ یہ بھی سنا کہ وہ بیان کر رہے تھے کہ مجھے زہری سے نشان لگانے اور قلادہ پہنانے کے متعلق یاد نہیں رہا۔ اس لیے میں نہیں جانتا، اس سے ان کی مراد صرف نشان لگانے اور قلادہ پہنانے سے تھی یا پوری حدیث سے تھی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالاَ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْىَ وَأَشْعَرَ وَأَحْرَمَ مِنْهَا. لاَ أُحْصِي كَمْ سَمِعْتُهُ مِنْ سُفْيَانَ حَتَّى سَمِعْتُهُ يَقُولُ لاَ أَحْفَظُ مِنَ الزُّهْرِيِّ الإِشْعَارَ وَالتَّقْلِيدَ، فَلاَ أَدْرِي ـ يَعْنِي ـ مَوْضِعَ الإِشْعَارِ وَالتَّقْلِيدِ، أَوِ الْحَدِيثَ كُلَّهُ.
Narrated By Marwan and Al-Miswar bin Makhrama : The Prophet went out in the company of 1300 to 1500 of his companions in the year of Al-Hudaibiya, and when they reached Dhul-Hulaifa, he garlanded and marked his Hadi and assumed the state of Ihram.
حضرت مسور بن مخرمہ نے بیان کیا کہ نبیﷺ صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب آپﷺ ذوالحلیفہ پہنچے تو آپﷺنے قربانی کے جانور کو ہار پہنایا اور ان پر نشان لگایا ، پھر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔
راوی حدیث علی بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں شمار کرسکتا کہ میں نے یہ حدیث سفیان بن یسار سے کتنی دفعہ سنی اور ایک مرتبہ یہ بھی سنا کہ وہ بیان کر رہے تھے کہ مجھے زہری سے نشان لگانے اور قلادہ پہنانے کے متعلق یاد نہیں رہا۔ اس لیے میں نہیں جانتا، اس سے ان کی مراد صرف نشان لگانے اور قلادہ پہنانے سے تھی یا پوری حدیث سے تھی۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، وَرْقَاءَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَآهُ وَقَمْلُهُ يَسْقُطُ عَلَى وَجْهِهِ فَقَالَ " أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ ". قَالَ نَعَمْ. فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَحْلِقَ وَهْوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، لَمْ يُبَيِّنْ لَهُمْ أَنَّهُمْ يَحِلُّونَ بِهَا، وَهُمْ عَلَى طَمَعٍ أَنْ يَدْخُلُوا مَكَّةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْفِدْيَةَ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُطْعِمَ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ، أَوْ يُهْدِيَ شَاةً، أَوْ يَصُومَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ
Narrated By Kab bin Ujra : That Allah's Apostle saw him with the lice falling (from his head) on his face. Allah's Apostle said, "Are your lice troubling you? Ka'b said, "Yes." Allah's Apostle thus ordered him to shave his head while he was at Al-Hudaibiya. Up to then there was no indication that all of them would finish their state of Ihram and they hoped that they would enter Mecca. Then the order of Al-Fidya was revealed, so Allah's Apostle ordered Kab to feed six poor persons with one Faraq of food or slaughter a sheep or fast for three days.
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہﷺنے انہیں دیکھا کہ جوئیں ان کے چہرے پر گررہی ہیں تو آپﷺنے دریافت فرمایا کہ کیا اس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے؟ وہ بولے کہ جی ہاں، اس پر آپ ﷺ نے انہیں سر منڈوانے کا حکم دیا۔ آپﷺ اس وقت حدیبیہ میں تھے اور ان کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ وہ عمرہ سے روکے جائیں گےکہ حدیبیہ ہی میں ان کو احرام کھول دینا پڑے گا۔ بلکہ ان کی تو یہ آرزو تھی کہ مکہ میں کسی طرح داخل ہوا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم نازل فرمایا (یعنی احرام کی حالت میں) سر منڈوانے وغیرہ پر ۔ اس وقت آپﷺ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ایک فرق اناج چھ مسکینوں کو کھلادیں یا ایک بکری کی قربانی کریں یا تین دن روزے رکھیں۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ إِلَى السُّوقِ، فَلَحِقَتْ عُمَرَ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ فَقَالَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلَكَ زَوْجِي وَتَرَكَ صِبْيَةً صِغَارًا، وَاللَّهِ مَا يُنْضِجُونَ كُرَاعًا، وَلاَ لَهُمْ زَرْعٌ وَلاَ ضَرْعٌ، وَخَشِيتُ أَنْ تَأْكُلَهُمُ الضَّبُعُ، وَأَنَا بِنْتُ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ الْغِفَارِيِّ، وَقَدْ شَهِدَ أَبِي الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَوَقَفَ مَعَهَا عُمَرُ، وَلَمْ يَمْضِ، ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِنَسَبٍ قَرِيبٍ. ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَعِيرٍ ظَهِيرٍ كَانَ مَرْبُوطًا فِي الدَّارِ، فَحَمَلَ عَلَيْهِ غِرَارَتَيْنِ مَلأَهُمَا طَعَامًا، وَحَمَلَ بَيْنَهُمَا نَفَقَةً وَثِيَابًا، ثُمَّ نَاوَلَهَا بِخِطَامِهِ ثُمَّ قَالَ اقْتَادِيهِ فَلَنْ يَفْنَى حَتَّى يَأْتِيَكُمُ اللَّهُ بِخَيْرٍ. فَقَالَ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَكْثَرْتَ لَهَا. قَالَ عُمَرُ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ، وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَى أَبَا هَذِهِ وَأَخَاهَا قَدْ حَاصَرَا حِصْنًا زَمَانًا، فَافْتَتَحَاهُ، ثُمَّ أَصْبَحْنَا نَسْتَفِيءُ سُهْمَانَنَا فِيهِ
Narrated By Aslam : Once I went with 'Umar bin Al-Khattab to the market. A young woman followed 'Umar and said, "O chief of the believers! My husband has died, leaving little children. By Allah, they have not even a sheep's trotter to cook; they have no farms or animals. I am afraid that they may die because of hunger, and I am the daughter of Khufaf bin Ima Al-Ghafari, and my father witnessed the Pledge of allegiance) of Al-Hudaibiya with the Prophet.' Umar stopped and did not proceed, and said, "I welcome my near relative." Then he went towards a strong camel which was tied in the house, and carried on to it, two sacks he had loaded with food grains and put between them money and clothes and gave her its rope to hold and said, "Lead it, and this provision will not finish till Allah gives you a good supply." A man said, "O chief of the believers! You have given her too much." "Umar said disapprovingly. "May your mother be bereaved of you! By Allah, I have seen her father and brother besieging a fort for a long time and conquering it, and then we were discussing what their shares they would have from that war booty."
حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے وہ اپنے والد سے بیان کررہے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بازار گیا۔ تو وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی اور عرض کیا کہ امیرالمؤمنین! میرے شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور چند چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اللہ کی قسم! اب نہ ان کے پاس بکری کے پائے ہیں کہ ان کو پکا لیں، نہ کھیتی ہے ‘ نہ دودھ کے جانور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ فقر و فاقہ سے ہلاک نہ ہوجائیں۔ میں خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہوں۔ میرے والد نبی ﷺ کے ساتھ غزوۂ حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھوڑی دیر کےلیے کھڑے ہو ئے ‘ آگے نہیں بڑھے۔ پھر فرمایا: مرحبا! تمہارا خاندانی تعلق تو بہت قریبی ہے۔ پھر آپ ایک بہت قوی اونٹ کی طرف مڑے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بورے غلے سے بھرے ہوئے رکھ دیئے۔ ان دونوں بوروں کے درمیان کچھ رقم اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور کپڑے رکھ دیئے اور اس کی نکیل اس خاتون کے ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ اسے لے جاؤ ، اس کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ کوئی اور بندوبست کردے گا۔ ایک صاحب نے اس پر کہا ‘ اے امیرالمؤمنین! آپ نے اسے بہت دے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تیری ماں تجھے روئے ‘ اللہ کی قسم! اس عورت کے والد اور اس کے بھائی کو میں نے سے دیکھا ہے انہوں نے ایک مدت تک قلعہ کا محاصرہ کیا پھر آخر کار اس کو فتح کرلیا۔پھر صبح کے وقت ہم مال غنیمت سے حصہ وصول کررہے تھے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ إِلَى السُّوقِ، فَلَحِقَتْ عُمَرَ امْرَأَةٌ شَابَّةٌ فَقَالَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلَكَ زَوْجِي وَتَرَكَ صِبْيَةً صِغَارًا، وَاللَّهِ مَا يُنْضِجُونَ كُرَاعًا، وَلاَ لَهُمْ زَرْعٌ وَلاَ ضَرْعٌ، وَخَشِيتُ أَنْ تَأْكُلَهُمُ الضَّبُعُ، وَأَنَا بِنْتُ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ الْغِفَارِيِّ، وَقَدْ شَهِدَ أَبِي الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَوَقَفَ مَعَهَا عُمَرُ، وَلَمْ يَمْضِ، ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِنَسَبٍ قَرِيبٍ. ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَعِيرٍ ظَهِيرٍ كَانَ مَرْبُوطًا فِي الدَّارِ، فَحَمَلَ عَلَيْهِ غِرَارَتَيْنِ مَلأَهُمَا طَعَامًا، وَحَمَلَ بَيْنَهُمَا نَفَقَةً وَثِيَابًا، ثُمَّ نَاوَلَهَا بِخِطَامِهِ ثُمَّ قَالَ اقْتَادِيهِ فَلَنْ يَفْنَى حَتَّى يَأْتِيَكُمُ اللَّهُ بِخَيْرٍ. فَقَالَ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَكْثَرْتَ لَهَا. قَالَ عُمَرُ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ، وَاللَّهِ إِنِّي لأَرَى أَبَا هَذِهِ وَأَخَاهَا قَدْ حَاصَرَا حِصْنًا زَمَانًا، فَافْتَتَحَاهُ، ثُمَّ أَصْبَحْنَا نَسْتَفِيءُ سُهْمَانَنَا فِيهِ
Narrated By Aslam : Once I went with 'Umar bin Al-Khattab to the market. A young woman followed 'Umar and said, "O chief of the believers! My husband has died, leaving little children. By Allah, they have not even a sheep's trotter to cook; they have no farms or animals. I am afraid that they may die because of hunger, and I am the daughter of Khufaf bin Ima Al-Ghafari, and my father witnessed the Pledge of allegiance) of Al-Hudaibiya with the Prophet.' Umar stopped and did not proceed, and said, "I welcome my near relative." Then he went towards a strong camel which was tied in the house, and carried on to it, two sacks he had loaded with food grains and put between them money and clothes and gave her its rope to hold and said, "Lead it, and this provision will not finish till Allah gives you a good supply." A man said, "O chief of the believers! You have given her too much." "Umar said disapprovingly. "May your mother be bereaved of you! By Allah, I have seen her father and brother besieging a fort for a long time and conquering it, and then we were discussing what their shares they would have from that war booty."
حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے وہ اپنے والد سے بیان کررہے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بازار گیا۔ تو وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی اور عرض کیا کہ امیرالمؤمنین! میرے شوہر کی وفات ہوگئی ہے اور چند چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اللہ کی قسم! اب نہ ان کے پاس بکری کے پائے ہیں کہ ان کو پکا لیں، نہ کھیتی ہے ‘ نہ دودھ کے جانور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ فقر و فاقہ سے ہلاک نہ ہوجائیں۔ میں خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہوں۔ میرے والد نبی ﷺ کے ساتھ غزوۂ حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھوڑی دیر کےلیے کھڑے ہو ئے ‘ آگے نہیں بڑھے۔ پھر فرمایا: مرحبا! تمہارا خاندانی تعلق تو بہت قریبی ہے۔ پھر آپ ایک بہت قوی اونٹ کی طرف مڑے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بورے غلے سے بھرے ہوئے رکھ دیئے۔ ان دونوں بوروں کے درمیان کچھ رقم اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور کپڑے رکھ دیئے اور اس کی نکیل اس خاتون کے ہاتھ میں تھما کر فرمایا کہ اسے لے جاؤ ، اس کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ کوئی اور بندوبست کردے گا۔ ایک صاحب نے اس پر کہا ‘ اے امیرالمؤمنین! آپ نے اسے بہت دے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تیری ماں تجھے روئے ‘ اللہ کی قسم! اس عورت کے والد اور اس کے بھائی کو میں نے سے دیکھا ہے انہوں نے ایک مدت تک قلعہ کا محاصرہ کیا پھر آخر کار اس کو فتح کرلیا۔پھر صبح کے وقت ہم مال غنیمت سے حصہ وصول کررہے تھے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ أَبُو عَمْرٍو الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ الشَّجَرَةَ، ثُمَّ أَتَيْتُهَا بَعْدُ فَلَمْ أَعْرِفْهَا. قَالَ مَحْمُودٌ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا بَعْدُ
Narrated By Said bin Al-Musaiyab : That his father said, "I saw the Tree (of the Ar-Ridwan Pledge of allegiance and when I returned to it later, I was not able to recognize it. (The sub-narrator Mahmud said, Al-Musaiyab said, 'Then; forgot it (i.e., the Tree).)"
حضرت مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے وہ درخت دیکھا تھا(جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی) لیکن پھر بعد میں جب آیا تو میں اسے نہیں پہچان سکا۔ محمود نے بیان کیا کہ پھر بعد میں وہ درخت مجھے یاد نہیں رہا تھا۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ انْطَلَقْتُ حَاجًّا فَمَرَرْتُ بِقَوْمٍ يُصَلُّونَ قُلْتُ مَا هَذَا الْمَسْجِدُ قَالُوا هَذِهِ الشَّجَرَةُ، حَيْثُ بَايَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْعَةَ الرُّضْوَانِ. فَأَتَيْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ سَعِيدٌ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ كَانَ فِيمَنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَحْتَ الشَّجَرَةِ، قَالَ فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ نَسِينَاهَا، فَلَمْ نَقْدِرْ عَلَيْهَا. فَقَالَ سَعِيدٌ إِنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَعْلَمُوهَا وَعَلِمْتُمُوهَا أَنْتُمْ، فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ
Narrated By Tariq bin 'Abdur-Rahman : When I set out for Hajj, I passed by some people offering a prayer, I asked, "What is this mosque?" They said, "This is the Tree where Allah's Apostle took the Ar-Ridwan Pledge of allegiance. Then I went to Sa'id bin Musaiyab and informed him about it. Said said, "My father said that he was amongst those who had given the Pledge of allegiance to Allah's Apostle beneath the Tree. He (i.e. my father) said, "When we set out the following year, we forgot the Tree and were unable to recognize it. "Then Said said (perhaps ironically) "The companions of the Prophet could not recognize it; nevertheless, you do recognize it; therefore you have a better knowledge."
حضرت طارق بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ حج کے ارادے سے جاتے ہوئے میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جو نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی۔ پھر میں حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور میں نے انہیں اس کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد مسیب بن حزن نے بیان کیا ‘ وہ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ وہ فرماتےتھےکہ جب میں دوسرے سال وہاں گیا تو اس درخت کی جگہ بھول گیا۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے کہا :نبی ﷺ کے صحابہ تو اس درخت کو پہچان نہ سکے۔ تم لوگوں نے کیسے پہچان لیا (کہ اس کے نیچے مسجد بنا لی)؟ تم ان سے زیادہ علم والے ٹھہرے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا طَارِقٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ، فَرَجَعْنَا إِلَيْهَا الْعَامَ الْمُقْبِلَ فَعَمِيَتْ عَلَيْنَا
Narrated By Said bin Al-Musaiyab : That his father was amongst those who had given the Pledge of allegiance (to the Prophet) beneath the Tree, and the next year when they went towards the Tree, they were not able to recognize it.
حضرت مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ وہ فرماتے تھے: کہ جب ہم دوسرے سال ادھر گئے تو ہمیں پتہ نہیں چلا کہ وہ کون سا درخت تھا۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ طَارِقٍ، قَالَ ذُكِرَتْ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ الشَّجَرَةُ فَضَحِكَ فَقَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي وَكَانَ، شَهِدَهَا.
Narrated By Tariq : (The tree where the Ridwan Pledge of allegiance was taken by the Prophet) was mentioned before Said bin Al-Musaiyab. On that he smiled and said, "My father informed me (about it) and he had witnessed it (i.e. the Pledge)."
طارق بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں «الشجرة» کا ذکر ہوا تو وہ ہنس پڑے اور فرمایا: کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ بھی اس درخت کے نیچے بیعت میں شریک تھے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ـ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ ـ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَةٍ قَالَ " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ ". فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى ".
Narrated By Abdullah bin Abi Aufa : (Who was one of those who had given the Pledge of allegiance to the Prophet beneath the Tree) When the people brought Sadaqa (i.e. Rakat) to the Prophet he used to say, "O Allah! Bless them with your Mercy." Once my father came with his Sadaqa to him whereupon he (i.e. the Prophet) said. "O Allah! Bless the family of Abu Aufa."
حضرت عمرو بن مرہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب کوئی صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ دعا کرتے کہ اے اللہ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما۔ چنانچہ میرے والد بھی اپنا صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! آل ابی اوفی رضی اللہ عنہ پر اپنی رحمت نازل فرما۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحَرَّةِ وَالنَّاسُ يُبَايِعُونَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ فَقَالَ ابْنُ زَيْدٍ عَلَى مَا يُبَايِعُ ابْنُ حَنْظَلَةَ النَّاسَ قِيلَ لَهُ عَلَى الْمَوْتِ. قَالَ لاَ أُبَايِعُ عَلَى ذَلِكَ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. وَكَانَ شَهِدَ مَعَهُ الْحُدَيْبِيَةَ
Narrated By 'Abbad bin Tamim : When it was the day (of the battle) of Al-Harra the people were giving Pledge of allegiance to Abdullah bin Hanzala. Ibn Zaid said, "For what are the people giving Pledge of allegiance to Abdullah bin Hanzala?" It was said to him, "For death." Ibn Zaid said, "I will never give the Pledge of allegiance for that to anybody else after Allah's Apostle." Ibn Zaid was one of those who had witnessed the day of Al-Hudaibiya with the Prophet.
حضرت عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ جب حرہ کی لڑائی میں لوگ حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے۔ تو عبداللہ بن زید نے پوچھا کہ ابن حنظلہ سے کس بات پر بیعت کی جارہی ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ موت پر۔ ابن زید نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اب میں کسی سے بھی موت پر بیعت نہیں کروں گا۔ وہ آپ ﷺ کے ساتھ غزوۂ حدیبیہ میں شریک تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى الْمُحَارِبِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ حَدَّثَنِي ـ أَبِي وَكَانَ، مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ ـ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم الْجُمُعَةَ ثُمَّ نَنْصَرِفُ، وَلَيْسَ لِلْحِيطَانِ ظِلٌّ نَسْتَظِلُّ فِيهِ.
Narrated By Iyas bin Salama bin Al-Akwa : My father who was amongst those who had given the Pledge of allegiance to the Prophet beneath the Tree, said to me, "We used to offer the Jumua prayer with the Prophet and then depart at a time when the walls had no shade for us to take shelter in."
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اصحاب شجرہ میں سے تھے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو دیواروں کا سایہ ابھی اتنا نہیں ہوا تھا کہ ہم اس میں بیٹھ سکیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ عَلَى أَىِّ شَىْءٍ بَايَعْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ. قَالَ عَلَى الْمَوْتِ.
Narrated By Yazid bin Abi Ubaid : I said to Salama bin Al-Akwa, "For what did you give the Pledge of allegiance to Allah's Apostle on the day of Al-Hudaibiya?" He replied, "For death (in the Cause of Islam.)."
حضرت یزید بن ابی عبید سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺسے کس چیز پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْعَلاَءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ لَقِيتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ فَقُلْتُ طُوبَى لَكَ صَحِبْتَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم وَبَايَعْتَهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ. فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا أَحْدَثْنَا بَعْدَهُ.
Narrated By Al-Musaiyab : I met Al-Bara bin 'Azib and said (to him). "May you live prosperously! You enjoyed the company of the Prophet and gave him the Pledge of allegiance (of Al-Hudaibiya) under the Tree." On that, Al-Bara' said, "O my nephew! You do not know what we have done after him (i.e. his death)."
حضرت مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ‘ کہ آپ کو مبارک ہو! آپ نے نبیﷺ کی صحبت اختیار کی ہے، اور آپ کو درخت کے نیچے نبیﷺ سے بیعت رضوان کا موقع ملا ۔ انہوں نے فرمایا: ارے بھتیجے! تمہیں کیا معلوم کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے بعد کیا کیا نئے کام کئے ہیں۔(ان کا اشارہ آپس کی لڑائی اورفتنوں کی طرف تھا)
حَدَّثَنى إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ـ هُوَ ابْنُ سَلاَّمٍ ـ عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، أَنَّ ثَابِتَ بْنَ الضَّحَّاكِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، بَايَعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم تَحْتَ الشَّجَرَةِ.
Narrated By Abu Qilaba : That Thabit bin Ad-Dahhak had informed him that he was one of those who had given the Pledge of allegiance (of Al-Hudaibiya) beneath the Tree.
حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے نبیﷺ سے درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} قَالَ الْحُدَيْبِيَةُ. قَالَ أَصْحَابُهُ هَنِيئًا مَرِيئًا فَمَا لَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ {لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ} قَالَ شُعْبَةُ فَقَدِمْتُ الْكُوفَةَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا كُلِّهِ عَنْ قَتَادَةَ ثُمَّ رَجَعْتُ فَذَكَرْتُ لَهُ فَقَالَ أَمَّا {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ} فَعَنْ أَنَسٍ، وَأَمَّا هَنِيئًا مَرِيئًا فَعَنْ عِكْرِمَةَ
Narrated By Anas bin Malik : Regarding Allah's Statement: "Verily! We have granted you (O, Muhammad) Manifest victory." (48.1) It refers to the Al-Hudaibiya Pledge. And the companions of the Prophet said (to the Prophet), "Congratulations and happiness for you; but what reward shall we get?" So Allah revealed: "That He may admit the believing men and women to gardens beneath which rivers flow." (48.5)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے آیت «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: کہ فتح مبین سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔صحابہ نے عرض کیا : مبارک مبارک آپ کےلیے ، لیکن ہمارے لیے کیا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: کہ اللہ تعالیٰ مومن مرد وں اور مومن عورتوں کو ایسی جنت میں داخل کرے گا کہ جس کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔
شعبہ نے بیان کیا کہ پھر میں کوفہ آیا اور میں قتادہ سے پورا واقعہ بیان کیا ‘ پھر میں دوبارہ قتادہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے سامنے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ«إنا فتحنا لك» کی تفسیر تو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لیکن اس کے بعد «هنيئا مريئا» یہ تفسیر عکرمہ سے منقول ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَجْزَأَةَ بْنِ زَاهِرٍ الأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ـ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ الشَّجَرَةَ ـ قَالَ إِنِّي لأُوقِدُ تَحْتَ الْقِدْرِ بِلُحُومِ الْحُمُرِ إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْهَاكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ
Narrated By Zahir Al-Aslami : (Who was one of those who had witnessed (the Pledge of allegiance beneath) the Tree) While I was making fire beneath the cooking pots containing donkey's meat, the announcer of Allah's Apostle announced, "Allah's Apostle forbids you to eat donkey's meat."
حضرت زاہر بن اسود اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور وہ بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں ہانڈی میں گدھے کا گوشت ابال رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک منادی نے اعلان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمہیں گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے ۔
وَعَنْ مَجْزَأَةَ، عَنْ رَجُلٍ، مِنْهُمْ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ اسْمُهُ أُهْبَانُ بْنُ أَوْسٍ وَكَانَ اشْتَكَى رُكْبَتَهُ، وَكَانَ إِذَا سَجَدَ جَعَلَ تَحْتَ رُكْبَتِهِ وِسَادَةً.
The same narration was told by Majzaa from a man called Uhban bin Aus who was one of those who had witnessed (the Pledge of allegiance beneath) the Tree., and who had some trouble in his knee so that while doing prostrations, he used to put a pillow underneath his knee.
حضرت مجزأۃ اسلمی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے ہی قبیلہ کے ایک صحابی کے متعلق جو بیعت رضوان میں شریک تھے اور جن کا نام اہبان بن اوس رضی اللہ عنہ تھا ‘ نقل کیا کہ ان کے ایک گھٹنے میں تکلیف تھی ‘ اس لیے جب وہ سجدہ کرتے تو اس گھٹنے کے نیچے کوئی نرم تکیہ رکھ لیتے تھے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ النُّعْمَانِ ـ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ ـ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابُهُ أُتُوا بِسَوِيقٍ فَلاَكُوهُ. تَابَعَهُ مُعَاذٌ عَنْ شُعْبَةَ.
Narrated By Suwaid bin An-Numan : Who was one of those who witnessed (the Pledge of allegiance beneath) the Tree: Allah's Apostle and his companions were given Sawiq and they chewed it.
حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، وہ بیعت رضوان میں شریک تھے وہ فرماتے ہیں (کہ وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے ) جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے ستو لایا گیا، جسے ان حضرات نے پیا۔
اس روایت کی متابعت معاذ نے شعبہ سے کی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا شَاذَانُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ سَأَلْتُ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ هَلْ يُنْقَضُ الْوِتْرُ قَالَ إِذَا أَوْتَرْتَ مِنْ أَوَّلِهِ، فَلاَ تُوتِرْ مِنْ آخِرِهِ.
Narrated By Abu Jamra : I asked Aidh bin Amr, who was one of the companions of the Prophet one of those (who gave the allegiance to the Prophet the Tree: "Can the Witr prayer be repeated (in one night)?" He said, "If you have offered it in the first part of the night, you should not repeat it in the last part 'of the night."
حضرت ابوجمرہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ جو نبی ﷺکے صحابی تھے اور بیعت رضوان میں شریک تھے سے نقض وتر (ایک رکعت اور پڑھ کر وتر کو جفت کرنے) کے بارے میں سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اگر شروع رات میں تو نے وتر پڑھ لیا ہو تو آخر رات میں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلاً، فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَىْءٍ فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا عُمَرُ، نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ لاَ يُجِيبُكَ. قَالَ عُمَرُ فَحَرَّكْتُ بَعِيرِي ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ الْمُسْلِمِينَ، وَخَشِيتُ أَنْ يَنْزِلَ فِيَّ قُرْآنٌ، فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي ـ قَالَ ـ فَقُلْتُ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ. وَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ " لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَىَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَىَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَرَأَ {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا}."
Narrated By Zaid bin Aslam : My father said, "Allah's Apostle was proceeding at night on one of his journeys and 'Umar bin Al-Khattab was going along with him. 'Umar bin Al-Khattab asked him (about something) but Allah's Apostle did not answer him. 'Umar asked him again, but he did not answer him. He asked him again (for the third time) but he did not answer him. On that Umar bin Al-Khattab addressed himself saying, "May your mother be bereaved of you, O 'Umar, for you have asked Allah's Apostle thrice, yet he has not answered you." 'Umar said, "Then I made my camel run fast and took it in front of the other Muslims, and I was afraid that something might be revealed in my connection. I had hardly waited for a moment when I heard somebody calling me. I said, 'I was afraid that something might have been revealed about me.' Then I came to Allah's Apostle and greeted him. He (i.e. the Prophet) said, 'Tonight there has been revealed to me, a Sura which is dearer to me than (all the world) on which the sun rises,' and then he recited: 'Verily! We have granted you (O Muhammad) A manifest victory." (48.1)
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اپنے والد اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکسی سفر (سفر حدیبیہ) میں تھے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی آپﷺکے ہمراہ تھے ۔ رات کا وقت تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کچھ پوچھا لیکن آپﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپﷺ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپﷺ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دل میں) کہا: عمر! تیری ماں تجھ پر روئے ‘ رسول اللہ ﷺ سے تم نے تین مرتبہ سوال کیا ‘ آپﷺنے تمہیں ایک مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑ لگائی اور مسلمانوں سے آگے نکل گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہ نازل ہو جائے۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ میں نے سنا ‘ ایک شخص مجھے آواز دے رہا تھا۔ مجھے مزید خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نازل تو نہیں ہوا۔آخر کار میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺکو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور وہ مجھے اس تمام کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر آپ نے سورۃ «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے۔ کی تلاوت فرمائی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، حِينَ حَدَّثَ هَذَا الْحَدِيثَ،، حَفِظْتُ بَعْضَهُ، وَثَبَّتَنِي مَعْمَرٌ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ قَالاَ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْىَ، وَأَشْعَرَهُ، وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ، وَبَعَثَ عَيْنًا لَهُ مِنْ خُزَاعَةَ، وَسَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى كَانَ بِغَدِيرِ الأَشْطَاطِ، أَتَاهُ عَيْنُهُ قَالَ إِنَّ قُرَيْشًا جَمَعُوا لَكَ جُمُوعًا، وَقَدْ جَمَعُوا لَكَ الأَحَابِيشَ، وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ وَصَادُّوكَ عَنِ الْبَيْتِ وَمَانِعُوكَ. فَقَالَ " أَشِيرُوا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَىَّ، أَتَرَوْنَ أَنْ أَمِيلَ إِلَى عِيَالِهِمْ وَذَرَارِيِّ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَصُدُّونَا عَنِ الْبَيْتِ، فَإِنْ يَأْتُونَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَطَعَ عَيْنًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَإِلاَّ تَرَكْنَاهُمْ مَحْرُوبِينَ ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا الْبَيْتِ، لاَ تُرِيدُ قَتْلَ أَحَدٍ وَلاَ حَرْبَ أَحَدٍ، فَتَوَجَّهْ لَهُ، فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ. قَالَ " امْضُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ "
Narrated By Al-Miswar bin Makhrama and Marwan bin Al-Hakam : (One of them said more than his friend): The Prophet set out in the company of more than one-thousand of his companions in the year of Al-Hudaibiya, and when he reached Dhul-Hulaifa, he garlanded his Hadi (i.e. sacrificing animal), assumed the state of Ihram for 'Umra from that place and sent a spy of his from Khuzi'a (tribe). The Prophet proceeded on till he reached (a village called) Ghadir-al-Ashtat. There his spy came and said, "The Quraish (infidels) have collected a great number of people against you, and they have collected against you the Ethiopians, and they will fight with you, and will stop you from entering the Ka'ba and prevent you." The Prophet said, "O people! Give me your opinion. Do you recommend that I should destroy the families and offspring of those who want to stop us from the Ka'ba? If they should come to us (for peace) then Allah will destroy a spy from the pagans, or otherwise we will leave them in a miserable state." On that Abu Bakr said, "O Allah Apostle! You have come with the intention of visiting this House (i.e. Ka'ba) and you do not want to kill or fight anybody. So proceed to it, and whoever should stop us from it, we will fight him." On that the Prophet said, "Proceed on, in the Name of Allah !"
حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت مروان بن حکم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺصلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر جب آپﷺ ذو الحلیفہ پہنچے تو آپﷺ نے قربانی کے جانور کو ہار پہنایا اور اس کا شعار کیا (یعنی نشان لگایا) اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آپﷺ نے قبیلہ خزاعہ کے ایک صحابی کو جاسوسی کے لیے بھیجا اور خود بھی سفر جاری رکھا۔ جب آپ غدیر الاشطاط پر پہنچے تو آپﷺ کے جاسوس بھی خبریں لے کر آ گئے۔ جنہوں نے بتایا کہ قریش نے آپﷺ کے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور بہت سے قبائل کو بلایا ہے۔ وہ آپ سے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ اس پر نبیﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو کیا تمہارے خیال میں یہ مناسب ہو گا کہ میں ان کفار کی عورتوں اور بچوں پر حملہ کر دوں جو ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں؟ اگر انہوں نے ہمارا مقابلہ کیا تو اللہ عزوجل نے مشرکین سے ہمارے جاسوس کو محفوظ رکھا ہے اور اگر وہ ہمارے مقابلے پر نہیں آتے تو ہم انہیں ایک شکست خوردہ جماعت سمجھ کر چھوڑ دیں گے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ تو صرف بیت اللہ کے عمرہ کے لیے نکلے ہیں نہ آپ کا ارادہ کسی کو قتل کرنے کا ہے اور نہ کسی سے لڑائی کا۔ اس لیے آپ بیت اللہ تشریف لے چلیں۔ اگر ہمیں پھر بھی کوئی بیت اللہ تک جانے سے روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کا نام لے کر سفر جاری رکھو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، حِينَ حَدَّثَ هَذَا الْحَدِيثَ،، حَفِظْتُ بَعْضَهُ، وَثَبَّتَنِي مَعْمَرٌ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ قَالاَ خَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْىَ، وَأَشْعَرَهُ، وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ، وَبَعَثَ عَيْنًا لَهُ مِنْ خُزَاعَةَ، وَسَارَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى كَانَ بِغَدِيرِ الأَشْطَاطِ، أَتَاهُ عَيْنُهُ قَالَ إِنَّ قُرَيْشًا جَمَعُوا لَكَ جُمُوعًا، وَقَدْ جَمَعُوا لَكَ الأَحَابِيشَ، وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ وَصَادُّوكَ عَنِ الْبَيْتِ وَمَانِعُوكَ. فَقَالَ " أَشِيرُوا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَىَّ، أَتَرَوْنَ أَنْ أَمِيلَ إِلَى عِيَالِهِمْ وَذَرَارِيِّ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَصُدُّونَا عَنِ الْبَيْتِ، فَإِنْ يَأْتُونَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَطَعَ عَيْنًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَإِلاَّ تَرَكْنَاهُمْ مَحْرُوبِينَ ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا الْبَيْتِ، لاَ تُرِيدُ قَتْلَ أَحَدٍ وَلاَ حَرْبَ أَحَدٍ، فَتَوَجَّهْ لَهُ، فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ. قَالَ " امْضُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ "
Narrated By Al-Miswar bin Makhrama and Marwan bin Al-Hakam : (One of them said more than his friend): The Prophet set out in the company of more than one-thousand of his companions in the year of Al-Hudaibiya, and when he reached Dhul-Hulaifa, he garlanded his Hadi (i.e. sacrificing animal), assumed the state of Ihram for 'Umra from that place and sent a spy of his from Khuzi'a (tribe). The Prophet proceeded on till he reached (a village called) Ghadir-al-Ashtat. There his spy came and said, "The Quraish (infidels) have collected a great number of people against you, and they have collected against you the Ethiopians, and they will fight with you, and will stop you from entering the Ka'ba and prevent you." The Prophet said, "O people! Give me your opinion. Do you recommend that I should destroy the families and offspring of those who want to stop us from the Ka'ba? If they should come to us (for peace) then Allah will destroy a spy from the pagans, or otherwise we will leave them in a miserable state." On that Abu Bakr said, "O Allah Apostle! You have come with the intention of visiting this House (i.e. Ka'ba) and you do not want to kill or fight anybody. So proceed to it, and whoever should stop us from it, we will fight him." On that the Prophet said, "Proceed on, in the Name of Allah !"
حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت مروان بن حکم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺصلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر جب آپﷺ ذو الحلیفہ پہنچے تو آپﷺ نے قربانی کے جانور کو ہار پہنایا اور اس کا شعار کیا (یعنی نشان لگایا) اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آپﷺ نے قبیلہ خزاعہ کے ایک صحابی کو جاسوسی کے لیے بھیجا اور خود بھی سفر جاری رکھا۔ جب آپ غدیر الاشطاط پر پہنچے تو آپﷺ کے جاسوس بھی خبریں لے کر آ گئے۔ جنہوں نے بتایا کہ قریش نے آپﷺ کے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور بہت سے قبائل کو بلایا ہے۔ وہ آپ سے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ اس پر نبیﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو کیا تمہارے خیال میں یہ مناسب ہو گا کہ میں ان کفار کی عورتوں اور بچوں پر حملہ کر دوں جو ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں؟ اگر انہوں نے ہمارا مقابلہ کیا تو اللہ عزوجل نے مشرکین سے ہمارے جاسوس کو محفوظ رکھا ہے اور اگر وہ ہمارے مقابلے پر نہیں آتے تو ہم انہیں ایک شکست خوردہ جماعت سمجھ کر چھوڑ دیں گے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ تو صرف بیت اللہ کے عمرہ کے لیے نکلے ہیں نہ آپ کا ارادہ کسی کو قتل کرنے کا ہے اور نہ کسی سے لڑائی کا۔ اس لیے آپ بیت اللہ تشریف لے چلیں۔ اگر ہمیں پھر بھی کوئی بیت اللہ تک جانے سے روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ کا نام لے کر سفر جاری رکھو۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، يُخْبِرَانِ خَبَرًا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي عُمْرَةِ الْحُدَيْبِيَةِ فَكَانَ فِيمَا أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْهُمَا أَنَّهُ لَمَّا كَاتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو، يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ، وَكَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ قَالَ لاَ يَأْتِيكَ مِنَّا أَحَدٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ. وَأَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ عَلَى ذَلِكَ، فَكَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِكَ وَامَّعَضُوا، فَتَكَلَّمُوا فِيهِ، فَلَمَّا أَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ عَلَى ذَلِكَ، كَاتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَبَا جَنْدَلِ بْنَ سُهَيْلٍ يَوْمَئِذٍ إِلَى أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَمْ يَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلاَّ رَدَّهُ فِي تِلْكَ الْمُدَّةِ، وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا، وَجَاءَتِ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ، فَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْىَ عَاتِقٌ، فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْمُؤْمِنَاتِ مَا أَنْزَلَ.
Narrated By Urwa bin Az-Zubair : That he heard Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama relating one of the events that happened to Allah's Apostle in the 'Umra of Al-Hudaibiya. They said, "When Allah's Apostle concluded the truce with Suhail bin 'Amr on the day of Al-Hudaibiya, one of the conditions which Suhail bin 'Amr stipulated, was his saying (to the Prophet), "If anyone from us (i.e. infidels) ever comes to you, though he has embraced your religion, you should return him to us, and should not interfere between us and him." Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on this condition. The believers disliked this condition and got disgusted with it and argued about it. But when Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on that condition, Allah's Apostle concluded it. Accordingly, Allah's Apostle then returned Abu Jandal bin Suhail to his father, Suhail bin 'Amr, and returned every man coming to him from them during that period even if he was a Muslim. The believing women Emigrants came (to Medina) and Um Kulthum, the daughter of 'Uqba bin Abi Mu'ait was one of those who came to Allah's Apostle and she was an adult at that time. Her relatives came, asking Allah's Apostle to return her to them, and in this connection, Allah revealed the Verses dealing with the believing (women).
ابن شہاب زہری سے مروی ہے انہوں نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ دونوں رسول اللہﷺسے عمرہ حدیبیہ کا قصہ بیان کرتے ہیں ۔ ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ عروہ نے مجھے ان دونوں سے جو خبر دی اس میں سے یہ بھی تھا کہ جب نبیﷺ اور (قریش کا نمائندہ) سہیل بن عمرو حدیبیہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اور اس میں سہیل نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ ہمارا اگر کوئی آدمی آپ کے یہاں پناہ لے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو جائے تو آپ کو اسے ہمارے حوالے کرنا ہی ہو گا تاکہ ہم اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ سہیل اس شرط پر اڑ گیا اور کہنے لگا کہ نبیﷺ اس شرط کو قبول کر لیں اور مسلمان اس شرط پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ مجبوراً انہوں نے اس پر گفتگو کی (کہا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر کے سپرد کر دیں) سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہو سکتی۔ نبی ﷺ نے یہ شرط بھی تسلیم کر لی اور ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کر دیا (جو اسی وقت مکہ سے فرار ہو کر بیڑی کو گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے تھے) (شرط کے مطابق مدت صلح میں مکہ سے فرار ہو کر) جو بھی آتا نبی ﷺ اسے واپس کر دیتے ‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس مدت میں بعض مومن عورتیں بھی ہجرت کر کے مکہ سے آئیں۔ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بھی ان میں سے ہیں جو اس مدت میں نبیﷺ کے پاس آئی تھیں ‘ وہ اس وقت نوجوان تھیں ‘ ان کے گھر والے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کر دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے بارے میں وہ آیت نازل کی جو نازل کی۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، يُخْبِرَانِ خَبَرًا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي عُمْرَةِ الْحُدَيْبِيَةِ فَكَانَ فِيمَا أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْهُمَا أَنَّهُ لَمَّا كَاتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو، يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ، وَكَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ قَالَ لاَ يَأْتِيكَ مِنَّا أَحَدٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلاَّ رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ. وَأَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ عَلَى ذَلِكَ، فَكَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِكَ وَامَّعَضُوا، فَتَكَلَّمُوا فِيهِ، فَلَمَّا أَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ عَلَى ذَلِكَ، كَاتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَبَا جَنْدَلِ بْنَ سُهَيْلٍ يَوْمَئِذٍ إِلَى أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَمْ يَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلاَّ رَدَّهُ فِي تِلْكَ الْمُدَّةِ، وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا، وَجَاءَتِ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ، فَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْىَ عَاتِقٌ، فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْمُؤْمِنَاتِ مَا أَنْزَلَ.
Narrated By Urwa bin Az-Zubair : That he heard Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama relating one of the events that happened to Allah's Apostle in the 'Umra of Al-Hudaibiya. They said, "When Allah's Apostle concluded the truce with Suhail bin 'Amr on the day of Al-Hudaibiya, one of the conditions which Suhail bin 'Amr stipulated, was his saying (to the Prophet), "If anyone from us (i.e. infidels) ever comes to you, though he has embraced your religion, you should return him to us, and should not interfere between us and him." Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on this condition. The believers disliked this condition and got disgusted with it and argued about it. But when Suhail refused to conclude the truce with Allah's Apostle except on that condition, Allah's Apostle concluded it. Accordingly, Allah's Apostle then returned Abu Jandal bin Suhail to his father, Suhail bin 'Amr, and returned every man coming to him from them during that period even if he was a Muslim. The believing women Emigrants came (to Medina) and Um Kulthum, the daughter of 'Uqba bin Abi Mu'ait was one of those who came to Allah's Apostle and she was an adult at that time. Her relatives came, asking Allah's Apostle to return her to them, and in this connection, Allah revealed the Verses dealing with the believing (women).
ابن شہاب زہری سے مروی ہے انہوں نے کہا : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے سنا ، وہ دونوں رسول اللہﷺسے عمرہ حدیبیہ کا قصہ بیان کرتے ہیں ۔ ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ عروہ نے مجھے ان دونوں سے جو خبر دی اس میں سے یہ بھی تھا کہ جب نبیﷺ اور (قریش کا نمائندہ) سہیل بن عمرو حدیبیہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اور اس میں سہیل نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ ہمارا اگر کوئی آدمی آپ کے یہاں پناہ لے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو جائے تو آپ کو اسے ہمارے حوالے کرنا ہی ہو گا تاکہ ہم اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ سہیل اس شرط پر اڑ گیا اور کہنے لگا کہ نبیﷺ اس شرط کو قبول کر لیں اور مسلمان اس شرط پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ مجبوراً انہوں نے اس پر گفتگو کی (کہا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر کے سپرد کر دیں) سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہو سکتی۔ نبی ﷺ نے یہ شرط بھی تسلیم کر لی اور ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کر دیا (جو اسی وقت مکہ سے فرار ہو کر بیڑی کو گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے تھے) (شرط کے مطابق مدت صلح میں مکہ سے فرار ہو کر) جو بھی آتا نبی ﷺ اسے واپس کر دیتے ‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس مدت میں بعض مومن عورتیں بھی ہجرت کر کے مکہ سے آئیں۔ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بھی ان میں سے ہیں جو اس مدت میں نبیﷺ کے پاس آئی تھیں ‘ وہ اس وقت نوجوان تھیں ‘ ان کے گھر والے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کر دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے بارے میں وہ آیت نازل کی جو نازل کی۔
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الآيَةِ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ}. وَعَنْ عَمِّهِ قَالَ بَلَغَنَا حِينَ أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَرُدَّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَى مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ، وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرٍ. فَذَكَرَهُ بِطُولِهِ.
'Aisha said, "Allah's Apostle used to test all the believing women who migrated to him, with the following Verse: "O Prophet! When the believing Women come to you, to give the pledge of allegiance to you." (60.12)
'Urwa's uncle said, "We were informed when Allah ordered His Apostle to return to the pagans what they had given to their wives who lately migrated (to Medina) and we were informed that Abu Basir..." relating the whole narration.
ابن شہاب زہری سے مروی ہے انہوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ آیت «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات» کے نازل ہونے کے بعد نبی ﷺ ہجرت کرکے آنے والی عورتوں کو پہلے آزماتے تھے ۔
اور ان کے چچا (محمد بن مسلم زہری) سے روایت ہے کہ ہمیں وہ حدیث بھی معلوم ہے جب نبیﷺ نے حکم دیا تھا کہ جو مسلمان عورتیں ہجرت کر کے چلی آتی ہیں ان کے شوہروں کو وہ سب کچھ واپس کر دیا جائے جو اپنی ان بیویوں کو وہ دے چکے ہیں اور ہمیں ابو بصیر کے واقعے کی بھی خبر پہنچی ہے ۔پھر انہوں نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ خَرَجَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ فَقَالَ إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ، صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ
Narrated By Nafi : Abdullah bin Umar set out for Umra during the period of afflictions, and he said, "If I should be stopped from visiting the Kaba, I will do what we did when we were with Allah's Apostle." He assumed Ihram for 'Umra in the year of Al-Hudaibiya.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فتنہ کے زمانہ میں عمرہ کے ارادہ سے نکلے۔ پھر انہوں نے کہا کہ اگر بیت اللہ جانے سے مجھے روک دیا گیا تو میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ چنانچہ آپﷺ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا کیونکہ نبی ﷺ نے بھی صلح حدیبیہ کے موقع پر صرف عمرہ ہی کا احرام باندھا تھا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ أَهَلَّ وَقَالَ إِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَفَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حِينَ حَالَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ. وَتَلاَ {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ}
Narrated By Nafi : Ibn 'Umar assumed Ihram and said, "If something should intervene between me and the Ka'ba, then I will do what the Prophet did when the Quraish infidels intervened between him and (the Ka'ba). Then Ibn 'Umar recited: "You have indeed in Allah's Apostle A good example to follow." (33.21)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے احرام باندھا اور فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ جانے سے روکا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ جب آپﷺ کو کفار قریش نے بیت اللہ جانے سے روکا تو اس آیت کی تلاوت کی کہ «لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة» یقیناً تم لوگوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَاهُ أَنَّهُمَا، كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ.ح: وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ بَعْضَ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ لَهُ لَوْ أَقَمْتَ الْعَامَ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ لاَ تَصِلَ إِلَى الْبَيْتِ. قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم هَدَايَاهُ، وَحَلَقَ وَقَصَّرَ أَصْحَابُهُ، وَقَالَ " أُشْهِدُكُمْ أَنِّي أَوْجَبْتُ عُمْرَةً ". فَإِنْ خُلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ طُفْتُ، وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْبَيْتِ صَنَعْتُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَارَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ مَا أُرَى شَأْنَهُمَا إِلاَّ وَاحِدًا، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَتِي. فَطَافَ طَوَافًا وَاحِدًا وَسَعْيًا وَاحِدًا، حَتَّى حَلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا
Narrated By Nafi : One of 'Abdullah's sons said to 'Abdullah (bin Umar) "I wish you would stay this year (and not perform Hajj) as I am afraid that you will not be able to reach the Kaba." On that he (i.e. 'Abdullah bin Umar) said, "We went out with the Prophet (for 'Umra), and when the Quraish infidel intervened between us and the Ka'ba, the Prophet slaughtered his Hadi and shaved (his head), and his companions cut short their hair." Then 'Abdullah bin Umar said, "I make you witness that I have intended to perform 'Umra and if I am allowed to reach the Kaba, I will perform the Tawaf, and if something (i.e. obstacles) intervene between me and the Kaba, then I will do what Allah's Apostle did." Then after going for a while, he said, "I consider the ceremonies (of both 'Umra and Hajj as one and the same, so I would like you to witness that I have intended to perform Hajj along with my 'Umra." So he performed only one Tawaf and one Sai (between Safa and Marwa) and finished the Ihram of both Umra and Hajj).
حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کسی بیٹے نے ان سے کہا ‘ اگر اس سال آپ (عمرہ کرنے) نہ جاتے تو بہتر تھا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ بیت اللہ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تھے تو کفار قریش نے بیت اللہ پہنچنے سے روک دیا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی قربانی کے جانور وہیں (حدیبیہ میں) ذبح کر دیئے اور سر کے بال منڈوا دیئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی بال چھوٹے کروا لیے۔ آپ ﷺ نے اس کے بعد فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر ایک عمرہ واجب کر لیا ہے۔ اگر آج مجھے بیت اللہ تک جانے دیا گیا تو میں طواف کرلوں گا اور اگر مجھے روک دیا گیا تو میں بھی وہی کروں گا جو نبی کریم ﷺ نے کیا تھا۔ پھر تھوڑی دور چلے اور کہا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ کے ساتھ حج کو بھی ضروری قرار دیا ہے اور کہا :میری نظر میں تو حج اور عمرہ دونوں ایک ہی جیسے ہیں ‘ پھر انہوں نے ایک طواف کیا اور ایک سعی کی (جس دن مکہ پہنچے) اور دونوں ہی کو پورا کیا۔
حَدَّثَنِي شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، سَمِعَ النَّضْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ إِنَّ النَّاسَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَسْلَمَ قَبْلَ عُمَرَ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ، وَلَكِنْ عُمَرُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْسَلَ عَبْدَ اللَّهِ إِلَى فَرَسٍ لَهُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ يَأْتِي بِهِ لِيُقَاتِلَ عَلَيْهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُبَايِعُ عِنْدَ الشَّجَرَةِ، وَعُمَرُ لاَ يَدْرِي بِذَلِكَ، فَبَايَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ، ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى الْفَرَسِ، فَجَاءَ بِهِ إِلَى عُمَرَ، وَعُمَرُ يَسْتَلْئِمُ لِلْقِتَالِ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُبَايِعُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ـ قَالَ ـ فَانْطَلَقَ فَذَهَبَ مَعَهُ حَتَّى بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَهِيَ الَّتِي يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَسْلَمَ قَبْلَ عُمَرَ
Narrated By Nafi : The people used to say that Ibn 'Umar had embraced Islam before 'Umar. This is not true. What happened is that 'Umar sent 'Abdullah to bring his horse from an Ansari man so as to fight on it. At that time the people were giving the Pledge of allegiance to Allah's Apostle near the Tree, and 'Umar was not aware of that. So Abdullah (bin Umar) gave the Pledge of Allegiance (to the Prophet) and went to take the horse and brought it to 'Umar.While 'Umar was putting on the armour to get ready for fighting, 'Abdullah informed him that the people were giving the Pledge of allegiance to Allah's Apostle beneath the Tree. So 'Umar set out and 'Abdullah accompanied him till he gave the Pledge of allegiance to Allah's Apostle, and it was this event that made people say that Ibn 'Umar had embraced Islam before 'Umar.
حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے، حالانکہ یہ غلط ہے۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنا ایک گھوڑا لانے کے لیے بھیجا تھا ‘ جو ایک انصاری صحابی کے پاس تھا تاکہ اسی پر سوار ہو کر جنگ میں شریک ہوں۔ اسی دوران رسول اللہﷺ درخت کے نیچے بیٹھ کر بیعت لے رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابھی اس کی اطلاع نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پہلے بیعت کی پھر گھوڑا لینے گئے۔ جس وقت وہ اسے لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ جنگ کے لیے اپنی زرہ پہن رہے تھے۔ انہوں نے اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ نبی کریم ﷺدرخت کے نیچے بیعت لے رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ اپنے بیٹے کو ساتھ لے گئے اور بیعت کی۔اتنی سی بات تھی جس پر لوگ اب کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ابن عمر رضی اللہ عنہما اسلام لائے تھے۔
وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيُّ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ النَّاسَ، كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، تَفَرَّقُوا فِي ظِلاَلِ الشَّجَرِ، فَإِذَا النَّاسُ مُحْدِقُونَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ، انْظُرْ مَا شَأْنُ النَّاسِ قَدْ أَحْدَقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَوَجَدَهُمْ يُبَايِعُونَ، فَبَايَعَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عُمَرَ فَخَرَجَ فَبَايَعَ
"Abdullah bin 'Umar added, "The people were along with the Prophet on the day of Al-Hudaibiya spreading in the shade of the trees. Suddenly the people surrounded the Prophet and started looking at him." 'Umar said, "O 'Abdullah! Go and see why the people are encircling Allah's Apostle and looking at him." 'Abdullah bin Umar then saw the people giving the Pledge o allegiance to the Prophet. So he also gave the Pledge of allegiance and returned to 'Umar who went out in his turn and gave the Pledge of allegiance to the Prophet.'
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم جو نبی ﷺ کے ساتھ تھے ‘ مختلف درختوں کے سائے میں پھیل گئے تھے۔ پھر اچانک بہت سے صحابہ آپﷺ کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیٹا عبداللہ! دیکھو تو سہی لوگ نبی ﷺ کے پاس جمع کیوں ہو گئے ہیں؟ انہوں نے دیکھا تو صحابہ بیعت کر رہے تھے۔ چنانچہ پہلے انہوں نے خود بیعت کر لی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آ کر خبر دی پھر وہ بھی گئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حِينَ اعْتَمَرَ فَطَافَ فَطُفْنَا مَعَهُ، وَصَلَّى وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَكُنَّا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، لاَ يُصِيبُهُ أَحَدٌ بِشَىْءٍ
Narrated By 'Abdullah bin Abi Aufa : We were in the company of the Prophet when he performed the 'Umra. He performed the Tawaf and we did the same; he offered the prayer and we also offered the prayer with him. Then he performed the Sai between Safa and Marwa and we were guarding him against the people of Mecca so that nobody should harm him.
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: جب نبیﷺنے عمرہ (قضاء) کیا تو ہم بھی آپﷺ کے ساتھ تھے۔ آپﷺ نے طواف کیا تو ہم نے بھی آپ ﷺکے ساتھ طواف کیا۔آپﷺنے نماز پڑھی، تو ہم نے بھی آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپﷺ نے صفا و مروہ کی سعی بھی کی۔ ہم آپﷺ کی اہل مکہ سے حفاظت کرتے تھے تاکہ کوئی تکلیف کی بات آپ کو پیش نہ آجائے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حَصِينٍ، قَالَ قَالَ أَبُو وَائِلٍ لَمَّا قَدِمَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ مِنْ صِفِّينَ أَتَيْنَاهُ نَسْتَخْبِرُهُ فَقَالَ اتَّهِمُوا الرَّأْىَ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمْرَهُ لَرَدَدْتُ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، وَمَا وَضَعْنَا أَسْيَافَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا لأَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلاَّ أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ قَبْلَ هَذَا الأَمْرِ، مَا نَسُدُّ مِنْهَا خُصْمًا إِلاَّ انْفَجَرَ عَلَيْنَا خُصْمٌ مَا نَدْرِي كَيْفَ نَأْتِي لَهُ
Narrated By Abu Wail : When Sahl bin Hunaif returned from (the battle of) Siffin, we went to ask him (as to why he had come back). He replied, "(You should not consider me a coward) but blame your opinions. I saw myself on the day of Abu Jandal (inclined to fight), and if I had the power of refusing the order of Allah's Apostle then, I would have refused it (and fought the infidels bravely). Allah and His Apostle know (what is convenient) better. Whenever we put our swords on our shoulders for any matter that terrified us, our swords led us to an easy agreeable solution before the present situation (of disagreement and dispute between the Muslims). When we mend the breach in one side, it opened in another, and we do not know what to do about it."
حضرت ابووائل نے بیان کیا :سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ جب جنگ صفین سے واپس آئے تو ہم ان کی خدمت میں حالات معلوم کرنے کےلیے حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا: اس جنگ کے بارے میں تم لوگ اپنی رائے اور فکر پر نازاں مت ہو۔ میں یوم ابوجندل (صلح حدیبیہ) میں بھی موجود تھا۔ اگر میرے لیے رسول اللہﷺکے حکم کو ماننے سے انکار ممکن ہوتا تو میں اس دن ضرور حکم عدولی کرتا۔ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں کہ جب ہم نے کسی مشکل کام کے لیے اپنی تلواروں کو اپنے کاندھوں پر رکھا تو صورت حال آسان ہو گئی اور ہم نے مشکل حل کرلی۔ لیکن اس جنگ کا کچھ عجیب حال ہے ‘ اس میں ہم (فتنے کے) ایک کونے کو بند کرتے ہیں تو دوسرا کونا کھل جاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کو کیا تدبیر کرنی چاہئے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَتَى عَلَىَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي فَقَالَ {أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ}. قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ " فَاحْلِقْ، وَصُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، أَوِ انْسُكْ نَسِيكَةً ". قَالَ أَيُّوبُ لاَ أَدْرِي بِأَىِّ هَذَا بَدَأَ.
Narrated By Kab bin Ujra : The Prophet came to me at the time of Al-Hudaibiya Pledge while lice were falling on my face. He said, "Are the lice of your head troubling you?" I said, "Yes." He said, "Shave your head and fast for three days, or feed six poor persons, or slaughter a sheep as sacrifice." (The sub-narrator, Aiyub said, "I do not know with which of these three options he started.")
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ عمرہ حدیبیہ کے موقع پر نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جوئیں ان کے چہرے پر گررہی تھی۔ نبیﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ جوئیں جو تمہارے سر سے گررہی ہیں ، تکلیف دے رہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! نبیﷺنے فرمایا کہ پھر سر منڈوا لو اور تین دن روزہ رکھ لو یا چھ مسکینوں کا کھانا کھلادو یا پھر کوئی قربانی کر ڈالو۔ ایوب سختیانی نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ ان تینوں امور میں سے پہلے نبیﷺنے کون سی بات ارشاد فرمائی تھی۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِكُونَ ـ قَالَ ـ وَكَانَتْ لِي وَفْرَةٌ فَجَعَلَتِ الْهَوَامُّ تَسَّاقَطُ عَلَى وَجْهِي، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ " أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ ". قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ}
Narrated By Ka'b bin Ujra : We were in the company of Allah's Apostle at Al-Hudaibiya in the state of Ihram and the pagans did not allow us to proceed (to the Ka'ba). I had thick hair and lice started falling on my face. The Prophet passed by me and said, "Are the lice of your head troubling you?" I replied, Yes." (The sub-narrator added, "Then the following Divine Verse was revealed: "And if anyone of you is ill or has an ailment in his scalp, (necessitating shaving) must pay a ransom (Fida) of either fasting or feeding the poor, Or offering a sacrifice." (2.196)
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے۔ ادھر مشرکین ہمیں بیت اللہ تک جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میرے سر پر بال بڑے بڑے تھے جن سے جوئیں میرے چہرے پر گرنے لگیں۔ نبی ﷺ نے مجھے دیکھ کر دریافت فرمایا کہ کیا یہ جوئیں تکلیف دے رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك» پس اگر تم میں کوئی مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف دینے والی چیز ہو تو اسے(بال منڈوا لینے چاہئیں اور) تین دن کے روزے یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دینا چاہیے۔
Chapter No: 37
باب قِصَّةِ عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ
The story of (the tribes of) Ukl and Uraina.
باب: عکل اور عُرینہ والوں کا قصّہ۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ حَدَّثَهُمْ أَنَّ نَاسًا مِنْ عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَتَكَلَّمُوا بِالإِسْلاَمِ فَقَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَهْلَ ضَرْعٍ، وَلَمْ نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ. وَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِذَوْدٍ وَرَاعٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فِيهِ، فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا نَاحِيَةَ الْحَرَّةِ كَفَرُوا بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ، وَقَتَلُوا رَاعِيَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ فَأَمَرَ بِهِمْ فَسَمَرُوا أَعْيُنَهُمْ، وَقَطَعُوا أَيْدِيَهُمْ، وَتُرِكُوا فِي نَاحِيَةِ الْحَرَّةِ حَتَّى مَاتُوا عَلَى حَالِهِمْ. قَالَ قَتَادَةُ بَلَغَنَا أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ ذَلِكَ كَانَ يَحُثُّ عَلَى الصَّدَقَةِ، وَيَنْهَى عَنِ الْمُثْلَةِ. وَقَالَ شُعْبَةُ وَأَبَانُ وَحَمَّادٌ عَنْ قَتَادَةَ مِنْ عُرَيْنَةَ. وَقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ وَأَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ عَنْ أَنَسٍ قَدِمَ نَفَرٌ مِنْ عُكْلٍ
Narrated By Anas : Some people of the tribe of 'Ukl and 'Uraina arrived at Medina to meet the Prophet and embraced Islam and said, "O Allah's Prophet! We are the owners of milch livestock (i.e. bedouins) and not farmers (i.e. countrymen)." They found the climate of Medina unsuitable for them. So Allah's Apostle ordered that they should be provided with some milch camels and a shepherd and ordered them to go out of Medina and to drink the camels' milk and urine (as medicine) So they set out and when they reached Al-Harra, they reverted to Heathenism after embracing Islam, and killed the shepherd of the Prophet and drove away the camels. When this news reached the Prophet, he sent some people in pursuit of them. (So they were caught and brought back to the Prophet). The Prophet gave his orders in their concern. So their eyes were branded with pieces of iron and their hands and legs were cut off and they were left away in Harra till they died in that state of theirs.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ قبائل عکل و عرینہ کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں مدینہ آئے اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے ، کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے ‘ اور انہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو نبی ﷺ نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ کردیا اور فرمایا کہ انہیں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیو (تو تمہیں صحت حاصل ہو جائے گی) وہ لوگ (چراگاہ کی طرف) گئے۔ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھر گئے اور نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگنے لگے۔ اس کی خبر جب آپﷺ کو ملی تو آپ ﷺنے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا۔ (وہ پکڑ کر مدینہ لائے گئے۔) تو آپﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیردی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیئے گئے (کیونکہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا) اور انہیں گرم پتھریلی زمین میں ڈال دیا گیا۔آخر وہ اسی حالت میں مرگئے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ آپﷺ نے اس کے بعد صحابہ کو صدقہ کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے اور مثلہ کرنےسے منع فرمایا اور شعبہ ‘ ابان اور حماد نے قتادہ سے بیان کیا کہ (یہ لوگ) عرینہ کے قبیلے کے تھے (عکل کا نام نہیں لیا) اور یحییٰ بن ابی کثیر اور ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ آئے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَالْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ، مَوْلَى أَبِي قِلاَبَةَ وَكَانَ مَعَهُ بِالشَّأْمِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، اسْتَشَارَ النَّاسَ يَوْمًا قَالَ مَا تَقُولُونَ فِي هَذِهِ الْقَسَامَةِ فَقَالُوا حَقٌّ، قَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَقَضَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ، قَبْلَكَ. قَالَ وَأَبُو قِلاَبَةَ خَلْفَ سَرِيرِهِ فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ فَأَيْنَ حَدِيثُ أَنَسٍ فِي الْعُرَنِيِّينَ قَالَ أَبُو قِلاَبَةَ إِيَّاىَ حَدَّثَهُ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ. قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ مِنْ عُرَيْنَةَ. وَقَالَ أَبُو قِلاَبَةَ عَنْ أَنَسٍ مِنْ عُكْلٍ. ذَكَرَ الْقِصَّةَ
Narrated By Abu Raja : The freed slave of Abu Qilaba, who was with Abu Qilaba in Sham: 'Umar bin 'Abdul 'Aziz consulted the people saying, "What do you think of Qasama." They said, "'It is a right (judgment) which Allah's Apostle and the Caliphs before you acted on." Abu Qilaba was behind 'Umar's bed. 'Anbasa bin Said said, But what about the narration concerning the people of Uraina?" Abu Qilaba said, "Anas bin Malik narrated it to me," and then narrated the whole story.
حضرت عمربن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن لوگوں سے مشورہ لیا قسامت کے بارے میں تم کیا کہتے ہو انہوں نے کہا: قسامت حق ہے اور رسول اللہﷺاورآپ ﷺ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس کے مطابق فیصلہ کیا۔
ابورجاء نے بیان کیا کہ اس وقت ابوقلابہ ‘ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تخت کے پیچھے تھے۔ اتنے میں عنبسہ بن سعید نے کہا کہ پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہاں گئی؟ اس پر ابوقلابہ نے کہا : حضرت انس رضی اللہ عنہ نے خود مجھ سے یہ بیان کیا۔ عبدالعزیز بن صہیب نے(اپنی روایت میں) انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے صرف عرینہ کا نام لیا اور ابوقلابہ نے اپنی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صرف عکل کا نام لیا پھر یہی قصہ بیان کیا۔
Chapter No: 38
باب غَزْوَةُ ذَاتِ الْقَرَدِ وَهْىَ الْغَزْوَةُ الَّتِي أَغَارُوا عَلَى لِقَاحِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَبْلَ خَيْبَرَ بِثَلاَثٍ.
Ghazwa Dhat-Qarad in which the infidels attacked and took away the she-camel of the Prophet (s.a.w) three days before the battle of Khaibar.
باب: ذات القرود کی لڑائی کا قصّہ ، یہ وہ ہے غزوہ جس میں (غطفان قبیلے کے) لوگ نبیﷺ کی دوہیل (۲۰ بیس) اونٹنیاں بھگا لے گئے تھے یہ خیبر کی لڑائی سے تین رات پہلے کا واقعہ ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الأَكْوَعِ، يَقُولُ خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ، بِالأُولَى، وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَرْعَى بِذِي قَرَدٍ ـ قَالَ ـ فَلَقِيَنِي غُلاَمٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَقَالَ أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قُلْتُ مَنْ أَخَذَهَا قَالَ غَطَفَانُ. قَالَ فَصَرَخْتُ ثَلاَثَ صَرَخَاتٍ ـ يَا صَبَاحَاهْ ـ قَالَ فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لاَبَتَىِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ وَقَدْ أَخَذُوا يَسْتَقُونَ مِنَ الْمَاءِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي، وَكُنْتُ رَامِيًا، وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الأَكْوَعْ، الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ. وَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ، وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلاَثِينَ بُرْدَةً، قَالَ وَجَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَالنَّاسُ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ، فَابْعَثْ إِلَيْهِمُ السَّاعَةَ. فَقَالَ " يَا ابْنَ الأَكْوَعِ، مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ ". قَالَ ثُمَّ رَجَعْنَا وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ
Narrated By Salama bin Al-Akwa : Once I went (from Medina) towards (Al-Ghaba) before the first Adhan of the Fajr Prayer. The she-camels of Allah's Apostle used to graze at a place called Dhi-Qarad. A slave of 'Abdur-Rahman bin 'Auf met me (on the way) and said, "The she-camels of Allah's Apostle had been taken away by force." I asked, "Who had taken them?" He replied "(The people of) Ghatafan." I made three loud cries (to the people of Medina) saying, "O Sabahah!" I made the people between the two mountains of Medina hear me. Then I rushed onward and caught up with the robbers while they were watering the camels. I started throwing arrows at them as I was a good archer and I was saying, "I am the son of Al-Akwa', and today will perish the wicked people." I kept on saying like that till I restored the she-camels (of the Prophet), I also snatched thirty Burda (i.e. garments) from them. Then the Prophet and the other people came there, and I said, "O Allah's Prophet! I have stopped the people (of Ghatafan) from taking water and they are thirsty now. So send (some people) after them now." On that the Prophet said, "O the son of Al-Akwa'! You have over-powered them, so forgive them." Then we all came back and Allah's Apostle seated me behind him on his she-camel till we entered Medina.
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں فجر کی اذان سے پہلے گھر سے نکلا جبکہ رسول اللہﷺ کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چررہی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ملے ، اور اس نے کہا رسول اللہ ﷺ کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کس نے پکڑا ہے؟ انہوں نے بتایا : قبیلہ غطفان والوں نے۔میں نے دستور کے مطابق یا صباحاہ کی تین زور دار آوازیں لگائیں ، اور مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان اپنی آواز پہنچائی۔پھر سامنے کی طرف تیز دوڑا یہاں تک کہ میں نے ان کو ایک چشمے پر پانی پیتے ہوئے پالیا۔
میں نے ان پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔ میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا میں ابن الاکوع ہوں ، آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑا لیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آ گئیں۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد نبیﷺ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر آگئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی پینے نہیں دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اے ابن الاکوع! آپ اپنی چیزوں کے مالک بن گئے ہیں اب ان پر نرمی کریں ، اور انہیں معاف کریں ۔ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ پھر ہم واپس آ گئے اور آپ ﷺ مجھے اپنی اونٹنی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آ گئے۔
Chapter No: 39
باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ
Ghazwa of Khaibar.
باب: خیبر کی جنگ کا قصّہ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ سُوَيْدَ بْنَ النُّعْمَانِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَامَ خَيْبَرَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ ـ وَهْىَ مِنْ أَدْنَى خَيْبَرَ ـ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَعَا بِالأَزْوَادِ فَلَمْ يُؤْتَ إِلاَّ بِالسَّوِيقِ، فَأَمَرَ بِهِ فَثُرِّيَ، فَأَكَلَ وَأَكَلْنَا، ثُمَّ قَامَ إِلَى الْمَغْرِبِ، فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ
Narrated By Suwaid bin An-Numan : I went out in the company of the Prophet in the year of Khaibar, and when we reached As Sahba' which is the lower part of Khaibar, the Prophet offered the Asr prayer and then asked the people to collect the journey food. Nothing was brought but Sawiq which the Prophet ordered to be moistened with water, and then he ate it and we also ate it. Then he got up to offer the Maghrib prayer. He washed his mouth, and we too washed our mouths, and then he offered the prayer without repeating his abulution.
حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے خبر دی کہ غزوۂ خیبر کےلیے وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے تھے۔جب ہم مقام صہبا پہنچے جو خیبر کے نشیب میں واقع ہے تو نبیﷺ نے عصر کی نماز پڑھی پھر آپ نے توشہ سفر منگوایا۔ ستو کے سوا اور کوئی چیز آپ کی خدمت میں نہیں لائی گئی۔ وہ ستو آپ کے حکم سے بھگویا گیا اور وہی آپﷺ نے بھی کھایا اور ہم نے بھی کھایا۔ اس کے بعد مغرب کی نماز کےلیے آپ کھڑے ہوئے (چونکہ وضو پہلے سے موجود تھا) اس لیے نبیﷺ نے بھی صرف کلی کی اور ہم نے بھی ‘ پھر نماز پڑھی اور اس نماز کےلیے نئے سرے سے وضو نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى خَيْبَرَ فَسِرْنَا لَيْلاً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ يَا عَامِرُ أَلاَ تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ. وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلاً شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا أَبْقَيْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَبَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ هَذَا السَّائِقُ ". قَالُوا عَامِرُ بْنُ الأَكْوَعِ. قَالَ " يَرْحَمُهُ اللَّهُ ". قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَوْلاَ أَمْتَعْتَنَا بِهِ. فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ، فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَىِّ شَىْءٍ تُوقِدُونَ ". قَالُوا عَلَى لَحْمٍ. قَالَ " عَلَى أَىِّ لَحْمٍ ". قَالُوا لَحْمِ حُمُرِ الإِنْسِيَّةِ. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " أَهْرِيقُوهَا وَاكْسِرُوهَا ". فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا قَالَ " أَوْ ذَاكَ ". فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ قَصِيرًا فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ، وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ عَيْنَ رُكْبَةِ عَامِرٍ، فَمَاتَ مِنْهُ قَالَ فَلَمَّا قَفَلُوا، قَالَ سَلَمَةُ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ " مَا لَكَ ". قُلْتُ لَهُ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ. قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لأَجْرَيْنِ ـ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ ـ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ ". حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ قَالَ " نَشَأَ بِهَا "
Narrated By Salama bin Al-Akwa : We went out to Khaibar in the company of the Prophet. While we were proceeding at night, a man from the group said to 'Amir, "O 'Amir! Won't you let us hear your poetry?" 'Amir was a poet, so he got down and started reciting for the people poetry that kept pace with the camels' footsteps, saying: "O Allah! Without You we Would not have been guided On the right path Neither would be have given In charity, nor would We have prayed. So please forgive us, what we have committed (i.e. our defects); let all of us Be sacrificed for Your Cause And send Sakina (i.e. calmness) Upon us to make our feet firm When we meet our enemy, and If they will call us towards An unjust thing, We will refuse. The infidels have made a hue and Cry to ask others' help Against us." The Prophet on that, asked, "Who is that (camel) driver (reciting poetry)?" The people said, "He is 'Amir bin Al-Akwa'."
Then the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on him." A man amongst the people said, "O Allah's Prophet! has (martyrdom) been granted to him. Would that you let us enjoy his company longer." Then we reached and besieged Khaibar till we were afflicted with severe hunger. Then Allah helped the Muslims conquer it (i.e. Khaibar). In the evening of the day of the conquest of the city, the Muslims made huge fires. The Prophet said, "What are these fires? For cooking what, are you making the fire?" The people replied, "(For cooking) meat." He asked, "What kind of meat?" They (i.e. people) said, "The meat of donkeys." The Prophet said, "Throw away the meat and break the pots!" Some man said, "O Allah's Apostle! Shall we throw away the meat and wash the pots instead?" He said, "(Yes, you can do) that too." So when the army files were arranged in rows (for the clash), 'Amir's sword was short and he aimed at the leg of a Jew to strike it, but the sharp blade of the sword returned to him and injured his own knee, and that caused him to die. When they returned from the battle, Allah's Apostle saw me (in a sad mood). He took my hand and said, "What is bothering you?" I replied, "Let my father and mother be sacrificed for you! The people say that the deeds of 'Amir are lost." The Prophet said, "Whoever says so, is mistaken, for 'Amir has got a double reward." The Prophet raised two fingers and added, "He (i.e. Amir) was a persevering struggler in the Cause of Allah and there are few 'Arabs who achieved the like of (good deeds) 'Amir had done."
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ رات کے وقت ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک صاحب (اسید بن حضیر) نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: عامر! اپنے کچھ شعر سناؤ ‘ عامر شاعر تھے۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کرنے لگے۔ کہا اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا ‘ نہ ہم صدقہ کر سکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر، جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب (باطل کی طرف) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کر دیتے ہیں، آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کون شعر کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا ‘ کاش! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور قلعہ کا محاصرہ کیا ‘ اس دوران ہمیں سخت تکالیف اور فاقوں سے گزرنا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن قلعہ فتح ہونا تھا ‘ اس کی رات جب ہوئی تو لشکر میں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی۔ نبیﷺ نے پوچھا یہ آگ کیسی ہے ‘ کس چیز کے لیے اسے جگہ جگہ جلا رکھا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ گوشت پکانے کےلیے ‘ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کس جانور کا گوشت ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ پالتو گدھوں کا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام گوشت پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا نہ کر لیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں ہی کر لو پھر (دن میں جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ کے لیے) صف بندی کی تو چونکہ عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی ‘ اس لیے انہوں نے جب ایک یہودی کی پنڈلی پر (جھک کر) وار کرنا چاہا تو خود انہیں کی تلوار کی دھار سے ان کے گھٹنے کا اوپر کا حصہ زخمی ہو گیا اور ان کی شہادت اسی میں ہو گئی۔ بیان کیا کہ پھر جب لشکر واپس ہو رہا تھا تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے آپ ﷺ نے دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ‘ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا ‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا سارا عمل اکارت ہو گیا (کیونکہ خود اپنی ہی تلوار سے ان کی وفات ہوئی)۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے ‘ انہیں تو دوہرا اجر ملے گا پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا ‘ انہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا ‘ شاید ہی کوئی عربی ہو ‘ جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ ان سے حاتم نے (بجائے «مشى بها» کے) «نشأ بها» نقل کیا یعنی کوئی عرب مدینہ میں عامر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں ہوا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَتَى خَيْبَرَ لَيْلاً، وَكَانَ إِذَا أَتَى قَوْمًا بِلَيْلٍ لَمْ يُغِرْ بِهِمْ حَتَّى يُصْبِحَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ خَرَجَتِ الْيَهُودُ بِمَسَاحِيهِمْ وَمَكَاتِلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ، مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ "
Narrated By Anas : Allah's Apostle reached Khaibar at night and it was his habit that, whenever he reached the enemy at night, he will not attack them till it was morning. When it was morning, the Jews came out with their spades and baskets, and when they saw him(i.e. the Prophet), they said, "Muhammad! By Allah! Muhammad and his army!" The Prophet said, "Khaibar is destroyed, for whenever we approach a (hostile) nation (to fight), then evil will be the morning for those who have been warned."
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ رات کے وقت خیبر پہنچے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے رات کے وقت موقع پر پہنچتے تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے بلکہ صبح ہوجاتی تب حملہ کرتے۔ چنانچہ صبح کے وقت یہودی اپنی کدالیں اور ٹوکرے لے کر باہر نکلے۔ جب انہوں نے آپﷺکو دیکھا تو کہنے لگے: یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے ، اللہ کی قسم! یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے ۔ پھرنبیﷺ نے فرمایا :خیبر برباد ہوگیا‘ ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر جاتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری بہت ہو تی ہے۔
أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ صَبَّحْنَا خَيْبَرَ بُكْرَةً، فَخَرَجَ أَهْلُهَا بِالْمَسَاحِي، فَلَمَّا بَصُرُوا بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ، مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ". فَأَصَبْنَا مِنْ لُحُومِ الْحُمُرِ فَنَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، فَإِنَّهَا رِجْسٌ.
Narrated Anas bin Malik: We reached Khaibar early in the morning and the inhabitants of Khaibar came out carrying their spades, and when they saw the Prophet they said, "Muhammad! By Allah! Muhammad and his army!" The Prophet said, "Allahu-Akbar! Khaibar is destroyed, for whenever we approach a (hostile) nation (to fight) then evil will be the morning for those who have been warned." We then got the meat of donkeys (and intended to eat it), but an announcement was made by the announcer of the Prophet, "Allah and His Apostle forbid you to eat the meat of donkeys as it is an impure thing."
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم خیبر صبح کے وقت پہنچے ‘ یہودی اپنی کدالیں وغیرہ لے کر باہر آئے جب انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو چلانے لگے محمد، اللہ کی قسم! محمد اور اس کا لشکر ۔ نبیﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر، یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جائیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہو تی ہے۔ پھر ہمیں وہاں گدھوں کا گوشت ملا لیکن آپ ﷺ کی طرف سے اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تمہیں گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں کیونکہ یہ پلید اور نجس ہے ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَهُ جَاءٍ فَقَالَ أُكِلَتِ الْحُمُرُ. فَسَكَتَ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَقَالَ أُكِلَتِ الْحُمُرُ. فَسَكَتَ، ثُمَّ الثَّالِثَةَ فَقَالَ أُفْنِيَتِ الْحُمُرُ. فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى فِي النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ. فَأُكْفِئَتِ الْقُدُورُ، وَإِنَّهَا لَتَفُورُ بِاللَّحْمِ
Narrated By Anas bin Malik : Someone came to Allah's Apostles and said, "The donkeys have been eaten (by the Muslims)." The Prophet kept quiet. Then the man came again and said, "The donkeys have been eaten." The Prophet kept quiet. The man came to him the third time and said, "The donkeys have been consumed." On that the Prophet ordered an announcer to announce to the people, "Allah and His Apostle forbid you to eat the meat of donkeys." Then the cooking pots were upset while the meat was still boiling in them.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آنے والے نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ گدھے کا گوشت کھایا جا رہا ہے۔ اس پر آپﷺ نے خاموشی اختیار کی ۔پھر وہ شخص دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ گدھے کا گوشت کھایا جا رہا ہے۔ نبی ﷺ اس مرتبہ بھی خاموش رہے ‘ پھر تیسری مرتبہ آکر عرض کیا کہ گدھے ختم ہو گئے۔ اس کے بعد نبیﷺ نے ایک منادی سے اعلان کرایا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تمہیں پالتو گدھوں کےگوشت سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ تمام ہانڈیاں الٹ دی گئیں حالانکہ وہ گوشت کے ساتھ جوش مار رہی تھیں۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الصُّبْحَ قَرِيبًا مِنْ خَيْبَرَ بِغَلَسٍ ثُمَّ قَالَ " اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ، فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ". فَخَرَجُوا يَسْعَوْنَ فِي السِّكَكِ، فَقَتَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم الْمُقَاتِلَةَ، وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ، وَكَانَ فِي السَّبْىِ صَفِيَّةُ، فَصَارَتْ إِلَى دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم، فَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا. فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ لِثَابِتٍ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ آنْتَ قُلْتَ لأَنَسٍ مَا أَصْدَقَهَا فَحَرَّكَ ثَابِتٌ رَأْسَهُ تَصْدِيقًا لَهُ
Narrated By Anas : The Prophet offered the Fajr Prayer near Khaibar when it was still dark and then said, "Allahu-Akbar! Khaibar is destroyed, for whenever we approach a (hostile) nation (to fight), then evil will be the morning for those who have been warned." Then the inhabitants of Khaibar came out running on the roads. The Prophet had their warriors killed, their offspring and woman taken as captives. Safiya was amongst the captives, She first came in the share of Dahya Alkali but later on she belonged to the Prophet. The Prophet made her manumission as her 'Mahr'.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبیﷺ نے صبح کی نماز خیبر کے قریب پہنچ کر ادا کی ‘ ابھی اندھیرا تھا پھر فرمایا : اللہ اکبر اللہ ! خیبر برباد ہوا ‘ یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جاتے ہیں تو ڈرائے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ پھر یہودی گلیوں میں ڈرتے ہوئے نکلے۔آخر نبیﷺ نے ان کے جنگ کرنے والوں کو قتل کرادیا اور عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا۔ قیدیوں میں ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی تھیں۔ پھر وہ نبیﷺ کی خدمت میں آ گئیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ان سے نکاح کرلیا اور مہر میں انہیں آزاد کر دیا۔ عبدالعزیز بن صہیب نے ثابت سے پوچھا: ابومحمد! کیا تم نے یہ پوچھا تھا کہ نبی ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو مہر کیا دیا تھا؟ ثابت رضی اللہ عنہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ سَبَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم صَفِيَّةَ، فَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا. فَقَالَ ثَابِتٌ لأَنَسٍ مَا أَصْدَقَهَا قَالَ أَصْدَقَهَا نَفْسَهَا فَأَعْتَقَهَا
Narrated By 'Abdul 'Aziz bin Suhaib : Anas bin Malik said, "The Prophet took Safiya as a captive. He manumitted her and married her." Thabit asked Anas, "What did he give her as Mahr (i.e. marriage gift)?" Anas replied. "Her Mahr was herself, for he manumitted her."
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا: حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کے قیدیوں میں تھیں لیکن آپﷺ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا تھا۔ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا نبی ﷺ نے انہیں مہر کیا دیا تھا؟ انہوں نے کہا : خود انہیں کو ان کے مہر میں دیا تھا یعنی انہیں آزاد کردیا تھا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ ـ أَوْ قَالَ لَمَّا تَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ـ أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَى وَادٍ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّكْبِيرِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، إِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهْوَ مَعَكُمْ ". وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَسَمِعَنِي وَأَنَا أَقُولُ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ، فَقَالَ لِي " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ ". قُلْتُ لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ " أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ ". قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي. قَالَ " لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ "
Narrated By Abu Musa Al-Ashari : When Allah's Apostle fought the battle of Khaibar, or when Allah's Apostle went towards it, (whenever) the people, (passed over a high place overlooking a valley, they raised their voices saying, "Allahu-Akbar! Allahu-Akbar! None has the right to be worshipped except Allah." On that Allah's Apostle said (to them), "Lower your voices, for you are not calling a deaf or an absent one, but you are calling a Hearer Who is near and is with you." I was behind the riding animal of Allah's Apostle and he heard me saying. "There Is neither might, nor power but with Allah," On that he said to me, "O Abdullah bin Qais!" I said, "Labbaik. O Allah's Apostle!" He said, "Shall I tell you a sentence which is one of the treasures of Paradise" I said, "Yes, O Allah's Apostle! Let my father and mother be sacrificed for your sake." He said, "It is: There is neither might nor power but with Allah."
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ (خیبر کی طرف) روانہ ہوئے تو (راستے میں) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی جانوں پر رحم کرو ‘ تم کسی بہرے کو یا ایسے شخص کو نہیں پکار رہے ہو ‘ جو تم سے دور ہو ‘ جسے تم پکار رہے ہو وہ سب سے زیادہ سننے والا اور تمہارے بہت نزدیک ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے۔ میں آپ ﷺ کی سواری کے پیچھے تھا۔ میں نے جب «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا تو آپ ﷺ نے سن لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ بن قیس! میں نے کہا :لبیک یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیے، یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہی ہے «لا حول ولا قوة إلا بالله» یعنی گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا یہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کی مدد شامل ہو۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْتَقَى هُوَ وَالْمُشْرِكُونَ فَاقْتَتَلُوا، فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى عَسْكَرِهِ، وَمَالَ الآخَرُونَ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَجُلٌ لاَ يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً وَلاَ فَاذَّةً إِلاَّ اتَّبَعَهَا، يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ مَا أَجْزَأَ مِنَّا الْيَوْمَ أَحَدٌ كَمَا أَجْزَأَ فُلاَنٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ ". فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَنَا صَاحِبُهُ. قَالَ فَخَرَجَ مَعَهُ كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ ـ قَالَ ـ فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ سَيْفَهُ بِالأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَى سَيْفِهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ " وَمَا ذَاكَ ". قَالَ الرَّجُلُ الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ أَنَا لَكُمْ بِهِ. فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، ثُمَّ جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ فِي الأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ ذَلِكَ " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهْوَ مِنَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهْوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ "
Narrated By Sahl bin Sad As Saidi : Allah's Apostle (and his army) encountered the pagans and the two armies.,, fought and then Allah's Apostle returned to his army camps and the others (i.e. the enemy) returned to their army camps. Amongst the companions of the Prophet there was a man who could not help pursuing any single isolated pagan to strike him with his sword. Somebody said, "None has benefited the Muslims today more than so-and-so." On that Allah's Apostle said, "He is from the people of the Hell-Fire certainly." A man amongst the people (i.e. Muslims) said, "I will accompany him (to know the fact)." So he went along with him, and whenever he stopped he stopped with him, and whenever he hastened, he hastened with him. The (brave) man then got wounded severely, and seeking to die at once, he planted his sword into the ground and put its point against his chest in between his breasts, and then threw himself on it and committed suicide. On that the person (who was accompanying the deceased all the time) came to Allah's Apostle and said, "I testify that you are the Apostle of Allah." The Prophet said, "Why is that (what makes you say so)?" He said "It is concerning the man whom you have already mentioned as one of the dwellers of the Hell-Fire. The people were surprised by your statement, and I said to them, "I will try to find out the truth about him for you." So I went out after him and he was then inflicted with a severe wound and because of that, he hurried to bring death upon himself by planting the handle of his sword into the ground and directing its tip towards his chest between his breasts, and then he threw himself over it and committed suicide." Allah's Apostle then said, "A man may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of Paradise but he is from the dwellers of the Hell-Fire and another may do what seem to the people as the deeds of the dwellers of the Hell-Fire, but he is from the dwellers of Paradise."
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے (اپنے لشکر کے ساتھ) مشرکین (یعنی) یہود خیبر کا مقابلہ کیا۔ دونوں طرف سے لوگوں نے جنگ کی ‘ پھر جب آپﷺ اپنے خیمے کی طرف واپس ہوئے اور یہودی بھی اپنے خیموں میں واپس چلے گئے تو رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکر کیا کہ یہودیوں کا کوئی بھی آدمی اگر انہیں مل جائے تو وہ اس کا پیچھا کر کے اسے قتل کئے بغیر نہیں رہتے۔ کہا گیا کہ آج فلاں شخص ہماری طرف سے جتنی بہادری اور ہمت سے لڑا ہے شاید اتنی بہادری سے کوئی بھی نہیں لڑا ہو گا لیکن نبی ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا : وہ جہنمی ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر میں ان کے ساتھ ساتھ رہوں گا، بیان کیا کہ پھر وہ ان کے پیچھے ہو گئے ، جہاں وہ ٹھہرتے یہ بھی ٹھہر جاتے اور جہاں وہ دوڑ کر چلتے یہ بھی دوڑنے لگتے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صاحب زخمی ہو گئے ‘ انتہائی شدید طور پر اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے انہوں نے اپنی تلوار زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک سینہ کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے اور اس طرح خودکشی کر لی۔ اب دوسرے صحابی(جو ان کی جستجو میں لگے ہوئے تھے) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے؟ ان صحابی نے عرض کیا کہ جن کے متعلق ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہیں تو لوگوں پر آپ کا یہ فرمانا بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے لیے ان کے پیچھے پیچھے جاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ایک موقع پر جب وہ شدید زخمی ہو گئے تو اس خواہش میں کہ موت جلدی آ جائے اپنی تلوار انہوں نے زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک کو اپنے سینہ کے سامنے کر کے اس پر گر پڑ ے اور اس طرح انہوں نے خود سوزی کی۔ اسی موقع پر آپﷺ نے فرمایا: انسان زندگی بھر جنت والوں کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا شخص زندگی بھر اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ شَهِدْنَا خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِرَجُلٍ مِمَّنْ مَعَهُ يَدَّعِي الإِسْلاَمَ " هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ ". فَلَمَّا حَضَرَ الْقِتَالُ قَاتَلَ الرَّجُلُ أَشَدَّ الْقِتَالِ، حَتَّى كَثُرَتْ بِهِ الْجِرَاحَةُ، فَكَادَ بَعْضُ النَّاسِ يَرْتَابُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ أَلَمَ الْجِرَاحَةِ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى كِنَانَتِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهَا أَسْهُمًا، فَنَحَرَ بِهَا نَفْسَهُ، فَاشْتَدَّ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَدَّقَ اللَّهُ حَدِيثَكَ، انْتَحَرَ فُلاَنٌ فَقَتَلَ نَفْسَهُ. فَقَالَ " قُمْ يَا فُلاَنُ فَأَذِّنْ أَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، إِنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ ". تَابَعَهُ مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ
Narrated By Abu Huraira : We witnessed (the battle of) Khaibar. Allah's Apostle said about one of those who were with him and who claimed to be a Muslim. "This (man) is from the dwellers of the Hell-Fire." When the battle started, that fellow fought so violently and bravely that he received plenty of wounds. Some of the people were about to doubt (the Prophet's statement), but the man, feeling the pain of his wounds, put his hand into his quiver and took out of it, some arrows with which he slaughtered himself (i.e. committed suicide). Then some men amongst the Muslims came hurriedly and said, "O Allah's Apostle! Allah has made your statement true so-and-so has committed suicide. "The Prophet said, "O so-and-so! Get up and make an announcement that none but a believer will enter Paradise and that Allah may support the religion with an unchaste (evil) wicked man.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم خیبر کی جنگ میں شریک تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاحب کے متعلق جو آپﷺ کے ساتھ تھے اور خود کو مسلمان کہتے تھے فرمایا کہ یہ شخص دوزخی ہے ۔ پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ صاحب بڑی پامردی سے لڑے اور بہت زیادہ زخمی ہو گئے۔ ممکن تھا کہ کچھ لوگ شبہ میں پڑ جاتے لیکن ان صاحب کے لیے زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ترکش میں سے تیر نکالا اور اپنے سینہ میں چبھو دیا۔ یہ منظر دیکھ کر مسلمان دوڑتے ہوئے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کا فرمان سچ کر دکھایا۔ اس شخص نے خود اپنے سینے میں تیر چبھو کر خودکشی کر لی ہے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ اے فلاں! جا اور اعلان کر دے کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد فاجر شخص سے بھی لے لیتا ہے۔ اس روایت کی متابعت معمر نے زہری سے کی۔
وَقَالَ شَبِيبٌ عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ شَهِدْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حُنَيْنًا. وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم. تَابَعَهُ صَالِحٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ. وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ شَهِدَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ. قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَسَعِيدٌ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہﷺکے ساتھ غزوۂ خیبر میں موجود تھے اور ابن مبارک نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی ﷺ نے۔ اس روایت کی متابعت صالح نے زہری سے کی اور زبیدی نے بیان کیا ‘ انہیں زہری نے خبر دی ‘ انہیں عبدالرحمٰن بن کعب نے خبر دی اور انہیں عبیداللہ بن کعب نے خبر دی کہ مجھے ان صحابی نے خبر دی جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ خیبر میں موجود تھے۔ زہری نے بیان کیا اور مجھے عبیداللہ بن عبداللہ اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ نے خبر دی رسول اللہ ﷺسے۔
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ رَأَيْتُ أَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَةَ، فَقُلْتُ يَا أَبَا مُسْلِمٍ، مَا هَذِهِ الضَّرْبَةُ قَالَ هَذِهِ ضَرْبَةٌ أَصَابَتْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّاسُ أُصِيبَ سَلَمَةُ. فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَنَفَثَ فِيهِ ثَلاَثَ نَفَثَاتٍ، فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَةِ
Narrated By Yazid bin Abi Ubaid : I saw the trace of a wound in Salama's leg. I said to him, "O Abu Muslim! What is this wound?" He said, "This was inflicted on me on the day of Khaibar and the people said, 'Salama has been wounded.' Then I went to the Prophet and he puffed his saliva in it (i.e. the wound) thrice., and since then I have not had any pain in it till this hour."
یزید بن ابی عبید سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں ایک زخم کا نشان دیکھ کر ان سے پوچھا: اے ابومسلم! یہ زخم کا نشان کیسا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ غزوۂ خیبر میں مجھے یہ زخم لگا تھا ‘ لوگ کہنے لگے کہ سلمہ زخمی ہوگیا۔ چنانچہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ نے تین مرتبہ اس پر دم کیا ‘ اس کی برکت سے آج تک مجھے اس زخم سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ الْتَقَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَالْمُشْرِكُونَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَاقْتَتَلُوا، فَمَالَ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ لاَ يَدَعُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاذَّةً وَلاَ فَاذَّةً إِلاَّ اتَّبَعَهَا فَضَرَبَهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَجْزَأَ أَحَدُهُمْ مَا أَجْزَأَ فُلاَنٌ. فَقَالَ " إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ ". فَقَالُوا أَيُّنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنْ كَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لأَتَّبِعَنَّهُ، فَإِذَا أَسْرَعَ وَأَبْطَأَ كُنْتُ مَعَهُ. حَتَّى جُرِحَ فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نِصَابَ سَيْفِهِ بِالأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَجَاءَ الرَّجُلُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ " وَمَا ذَاكَ ". فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهْوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ "
Narrated By Sahl : During one of his Ghazawat, the Prophet encountered the pagans, and the two armies fought, and then each of them returned to their army camps. Amongst the (army of the) Muslims there was a man who would follow every pagan separated from the army and strike him with his sword. It was said, "O Allah's Apostle! None has fought so satisfactorily as so-and-so (namely, that brave Muslim). "The Prophet said, "He is from the dwellers of the Hell-Fire." The people said, "Who amongst us will be of the dwellers of Paradise if this (man) is from the dwellers of the Hell-Fire?" Then a man from amongst the people said, "I will follow him and accompany him in his fast and slow movements." The (brave) man got wounded, and wanting to die at once, he put the handle of his sword on the ground and its tip in between his breasts, and then threw himself over it, committing suicide. Then the man (who had watched the deceased) returned to the Prophet and said, "I testify that you are Apostle of Allah." The Prophet said, "What is this?" The man told him the whole story. The Prophet said, "A man may do what may seem to the people as the deeds of the dwellers of Paradise, but he is of the dwellers of the Hell-Fire and a man may do what may seem to the people as the deeds of the dwellers of the Hell-Fire, but he is from the dwellers of Paradise."
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک غزوۂ (خیبر) میں نبی ﷺ اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ،اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہو گا۔ نبی ﷺنے فرمایا کہ وہ دوزخی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہو سکتے ہیں؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چنانچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آ جائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کر کے اس پر گرپڑے۔ اس طرح سے اس نے خودکشی کر لی۔ اب وہ صحابی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں والاعمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ نَظَرَ أَنَسٌ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَرَأَى طَيَالِسَةً فَقَالَ كَأَنَّهُمُ السَّاعَةَ يَهُودُ خَيْبَرَ
Narrated By Abu Imran : Anas looked at the people wearing Tailsans (i.e. a special kind of head covering worn by Jews in old days). On that Anas said, "At this moment they (i.e. those people) look like the Jews of Khaibar."
ابو عمران سے مروی ہے انہوں نے کہا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے (بصرہ کی مسجد میں) جمعہ کے دن لوگوں پر زرد رنگ کی چادریں دیکھیں تو فرمایا: یہ لوگ اس وقت خیبر کے یہودیوں کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، رضى الله عنه قَالَ كَانَ عَلِيٌّ ـ رضى الله عنه ـ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي خَيْبَرَ، وَكَانَ رَمِدًا فَقَالَ أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَلَحِقَ، فَلَمَّا بِتْنَا اللَّيْلَةَ الَّتِي فُتِحَتْ قَالَ " لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا ـ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَدًا ـ رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، يُفْتَحُ عَلَيْهِ ". فَنَحْنُ نَرْجُوهَا فَقِيلَ هَذَا عَلِيٌّ، فَأَعْطَاهُ فَفُتِحَ عَلَيْهِ
Narrated By Salama : Ali remained behind the Prophet during the Ghazwa of Khaibar as he was suffering from eye trouble. He then said, "(How can) I remain behind the Prophet ," and followed him. So when he slept on the night of the conquest of Khaibar, the Prophet said, "I will give the flag tomorrow, or tomorrow the flag will be taken by a man who is loved by Allah and His Apostle , and (Khaibar) will be conquered through him, (with Allah's help)" While every one of us was hopeful to have the flag, it was said, "Here is 'Ali" and the Prophet gave him the flag and Khaibar was conquered through him (with Allah's Help).
حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ غزوۂ خیبر میں رسول اللہﷺکے ساتھ نہ جا سکے تھے کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔(جب آپﷺ جاچکے) تو انہوں نے کہا میں نبیﷺ کے ساتھ غزوہ سے پیچھے رہوں (ایسا نہیں ہوسکتا)؟ چنانچہ وہ بھی آ گئے۔ جس دن خیبر فتح ہونا تھا ‘ جب اس کی رات آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کل میں عَلم اس شخص کو دوں گا یا فرمایا کہ عَلم وہ شخص لے گا جسے اللہ اور اس کا رسول عزیز رکھتے ہیں اور جس کے ہاتھ پر فتح حاصل ہوگی۔ ہم سب ہی اس سعادت کے امیدوار تھے لیکن کہا گیا کہ یہ ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپﷺ نے انہیں کو جھنڈا دیا اور انہیں کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ " لأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلاً، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ". قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، كُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا فَقَالَ " أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ". فَقِيلَ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ. قَالَ " فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ ". فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ " انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ، فَوَاللَّهِ لأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلاً وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ "
Narrated By Sahl bin Sad : On the day of Khaibar, Allah's Apostle said, "Tomorrow I will give this flag to a man through whose hands Allah will give us victory. He loves Allah and His Apostle, and he is loved by Allah and His Apostle." The people remained that night, wondering as to who would be given it. In the morning the people went to Allah's Apostle and everyone of them was hopeful to receive it (i.e. the flag). The Prophet said, "Where is Ali bin Abi Talib?" It was said, "He is suffering from eye trouble O Allah's Apostle." He said, "Send for him." 'Ali was brought and Allah's Apostle spat in his eye and invoked good upon him. So 'Ali was cured as if he never had any trouble. Then the Prophet gave him the flag. 'Ali said "O Allah's Apostle! I will fight with them till they become like us." Allah's Apostle said, "Proceed and do not hurry. When you enter their territory, call them to embrace Islam and inform them of Allah's Rights which they should observe, for by Allah, even if a single man is led on the right path (of Islam) by Allah through you, then that will be better for you than the nice red camels.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانہوں نے فرمایا: غزوۂ خیبر میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اسے عزیز رکھتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ رات سب کی اس فکر میں گزر گئی کہ دیکھیں ‘ نبی ﷺ عَلم کس کو عطا فرماتے ہیں۔ صبح ہوئی تو سب خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور اس امید کے ساتھ کہ عَلم انہیں کو ملے لیکن نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ ۔ جب وہ لائے گئے تو آپﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کےلیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے ان کی آنکھیں اتنی اچھی ہو گئیں جیسے پہلے کوئی بیماری ہی نہیں تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عَلم سنبھال کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک وہ ہمارے ہی جیسے نہ ہوجائیں۔ آپﷺنے فرمایا کہ یوں ہی چلتے رہو ‘ ان کے میدان میں اتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ح وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَمْرٍو، مَوْلَى الْمُطَّلِبِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَدِمْنَا خَيْبَرَ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَىِّ بْنِ أَخْطَبَ، وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَكَانَتْ عَرُوسًا، فَاصْطَفَاهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِنَفْسِهِ، فَخَرَجَ بِهَا، حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ، فَبَنَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ، ثُمَّ قَالَ لِي " آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ ". فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَتَهُ عَلَى صَفِيَّةَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ، ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ، فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ، وَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ
Narrated By Anas bin Malik : We arrived at Khaibar, and when Allah helped His Apostle to open the fort, the beauty of Safiya bint Huyai bin Akhtaq whose husband had been killed while she was a bride, was mentioned to Allah's Apostle. The Prophet selected her for himself, and set out with her, and when we reached a place called Sidd-as-Sahba,' Safiya became clean from her menses then Allah's Apostle married her. Hais (i.e. an 'Arabian dish) was prepared on a small leather mat. Then the Prophet said to me, "I invite the people around you." So that was the marriage banquet of the Prophet and Safiya. Then we proceeded towards Medina, and I saw the Prophet, making for her a kind of cushion with his cloak behind him (on his camel). He then sat beside his camel and put his knee for Safiya to put her foot on, in order to ride (on the camel).
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم خیبر آئے پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو قلعے میں فتح نصیب فرمائی تو آپﷺ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے حسن وجمال کا ذکر کیا گیا ۔ اس کا شوہر قتل ہو چکا تھا اور یہ دلہن بنی ہوئی تھی اس لیے آپﷺنے انہیں اپنی ذات کےلیے منتخب فرمایا۔پھر انہیں ساتھ لے کر آپﷺ روانہ ہوئے۔ جب مقام سد الصہباء میں پہنچے تو ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہوئیں اور نبی ﷺ نے ان کے ساتھ خلوت فرمائی پھر آپ ﷺنے حیس بنایا۔ (یعنی ایسا حلوہ جس کو کھجور کے ساتھ گھی اور پنیر وغیرہ ملا کر بنایا جاتا ہے) اور اسے چھوٹے سے ایک دستر خوان پر رکھ کر مجھ کو حکم فرمایا کہ جو لوگ تمہارے قریب ہیں انہیں بلا لو۔ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا نبی ﷺ کی طرف سے نکاح کا یہی ولیمہ تھا۔ پھر ہم مدینہ روانہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے اپنے پیچھے چادر کو لپیٹا ۔ پھر آپﷺ اپنے اونٹ کے پاس بیٹھے اور اپنا گھٹنا ٹکا دیا ۔ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنا پاؤں آپﷺکے گھٹنے مبارک پر رکھا اور سوار ہوگئیں۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَقَامَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَىٍّ، بِطَرِيقِ خَيْبَرَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، حَتَّى أَعْرَسَ بِهَا، وَكَانَتْ فِيمَنْ ضُرِبَ عَلَيْهَا الْحِجَابُ
Narrated By Anas bin Malik : The Prophet stayed with Safiya bint Huyai for three days on the way of Khaibar where he consummated his marriage with her. Safiya was amongst those who were ordered to use a veil.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کےلیے خیبر کے راستہ میں تین دن تک قیام فرمایا حتی کہ ان کے ساتھ خلوت فرمائی ۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جن پر پردہ کیا گیا تھا(یعنی وہ امہات المؤمنین میں سے ہیں)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ أَقَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ خَيْبَرَ وَالْمَدِينَةِ ثَلاَثَ لَيَالٍ يُبْنَى عَلَيْهِ بِصَفِيَّةَ، فَدَعَوْتُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى وَلِيمَتِهِ، وَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ خُبْزٍ وَلاَ لَحْمٍ، وَمَا كَانَ فِيهَا إِلاَّ أَنْ أَمَرَ بِلاَلاً بِالأَنْطَاعِ فَبُسِطَتْ، فَأَلْقَى عَلَيْهَا التَّمْرَ وَالأَقِطَ وَالسَّمْنَ، فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُهُ قَالُوا إِنْ حَجَبَهَا فَهْىَ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهْىَ مِمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ. فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّأَ لَهَا خَلْفَهُ، وَمَدَّ الْحِجَابَ
Narrated By Anas : The Prophet stayed for three rights between Khaibar and Medina and was married to Safiya. I invited the Muslim to h s marriage banquet and there wa neither meat nor bread in that banquet but the Prophet ordered Bilal to spread the leather mats on which dates, dried yogurt and butter were put. The Muslims said amongst themselves, "Will she (i.e. Safiya) be one of the mothers of the believers, (i.e. one of the wives of the Prophet) or just (a lady captive) of what his right-hand possesses" Some of them said, "If the Prophet makes her observe the veil, then she will be one of the mothers of the believers (i.e. one of the Prophet's wives), and if he does not make her observe the veil, then she will be his lady slave." So when he departed, he made a place for her behind him (on his and made her observe the veil.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے مدینہ اور خیبر کے درمیان (مقام سد الصہباء میں)تین دن تک قیام فرمایا اور وہیں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے خلوت کی تھی پھر میں نے نبی ﷺ کی طرف سے مسلمانوں کو ولیمہ کی دعوت دی۔ آپﷺکے ولیمہ میں نہ روٹی تھی ‘ نہ گوشت تھا صرف اتنا ہوا کہ آپﷺنے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور وہ بچھا دیا گیا۔ پھر اس پر کھجور ‘ پنیر اور گھی (کا ملیدہ) رکھ دیا۔ مسلمانوں نے کہا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا امہات المؤمنین میں سے ہیں یا باندی ہیں؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر نبیﷺنے انہیں پردے میں رکھا تو وہ امہات المؤمنین میں سے ہوں گی اور اگر آپﷺنے انہیں پردے میں نہیں رکھا تو پھر یہ اس کی علامت ہوگی کہ وہ باندی ہیں۔آخر جب کوچ کا وقت ہوا تو نبی ﷺ نے ان کےلیے اپنی سواری پر پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ان کےلیے پردہ کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ.ح: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنَّا مُحَاصِرِي خَيْبَرَ فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ، فَنَزَوْتُ لآخُذَهُ، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، فَاسْتَحْيَيْتُ
Narrated By 'Abdullah bin Mughaffal : While we were besieging Khaibar, a person threw a leather container containing some fat and I ran to take it. Suddenly I looked behind, and behold! The Prophet was there. So I felt shy (to take it then).
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم خیبر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے چمڑے کا ایک تھیلا پھینکا جس میں چربی تھی ‘ میں اسے اٹھانے کے لیے دوڑا لیکن میں نے جب مڑکر دیکھا تو نبی ﷺ موجود تھے۔ میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، وَسَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَكْلِ الثَّوْمِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ. نَهَى عَنْ أَكْلِ الثَّوْمِ هُوَ عَنْ نَافِعٍ وَحْدَهُ. وَلُحُومُ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ عَنْ سَالِمٍ
Narrated By Ibn Umar : On the day of Khaiber, Allah's Apostle forbade the eating of garlic and the meat of donkeys.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی ﷺ نے لہسن اور پالتو گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا تھا۔ لہسن کھانے کی ممانعت کا ذکر صرف نافع سے منقول ہے اور پالتو گدھوں کے کھانے کی ممانعت صرف سالم سے منقول ہے۔
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَالْحَسَنِ، ابْنَىْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ أَكْلِ الْحُمُرِ الإِنْسِيَّةِ
Narrated By 'Ali bin Abi Talib : On the day of Khaibar, Allah's Apostle forbade the Mut'a (i.e. temporary marriage) and the eating of donkey-meat.
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کی ممانعت کی تھی اور پالتو گدھوں کے کھانے کی بھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ.
Narrated By Ibn Umar : On the day of Khaibar, Allah's Apostle forbade the eating of donkey meat.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر پالتو گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت کی تھی۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، وَسَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ
Narrated By Ibn Umar : Allah's Apostle forbade the eating of donkey-meat.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، وَرَخَّصَ فِي الْخَيْلِ
Narrated By Jabir bin Abdullah : On the day of Khaibar, Allah's Apostle forbade the eating of donkey meat and allowed the eating of horse meat.
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے خیبر کے دن گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ أَصَابَتْنَا مَجَاعَةٌ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَإِنَّ الْقُدُورَ لَتَغْلِي ـ قَالَ وَبَعْضُهَا نَضِجَتْ ـ فَجَاءَ مُنَادِي النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لاَ تَأْكُلُوا مِنْ لُحُومِ الْحُمُرِ شَيْئًا وَأَهْرِيقُوهَا. قَالَ ابْنُ أَبِي أَوْفَى فَتَحَدَّثْنَا أَنَّهُ إِنَّمَا نَهَى عَنْهَا لأَنَّهَا لَمْ تُخَمَّسْ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ نَهَى عَنْهَا الْبَتَّةَ، لأَنَّهَا كَانَتْ تَأْكُلُ الْعَذِرَةَ
Narrated By Ibn Abi Aufa : We where afflicted with severe hunger on the day of Khaibar. While the cooking pots were boiling and some of the food was well-cooked, the announcer of the Prophet came to say, "Do not eat anything the donkey-meat and upset the cooking pots." We then thought that the Prophet had prohibited such food because the Khumus had not been taken out of it. Some others said, "He prohibited the meat of donkeys from the point of view of principle, because donkeys used to eat dirty things."
حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا: خیبر کے دن ایک موقع پر ہم بہت بھوکے تھے ‘ ادھر ہانڈیوں میں ابال آ رہا تھا (گدھے کا گوشت پکایا جا رہا تھا) اور کچھ پک بھی گئیں تھیں کہ نبی ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ گدھے کے گوشت کا ایک ذرہ بھی نہ کھاؤ اور اسے پھینک دو۔ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر بعض لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس کی ممانعت اس لیے کی ہے کہ ابھی اس میں سے خمس نہیں نکالا گیا تھا اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آپ نے اس کی واقعی ممانعت (ہمیشہ کے لیے) کر دی ہے ‘ کیونکہ یہ گندگی کھاتا ہے۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، رضى الله عنهم أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَصَابُوا حُمُرًا فَطَبَخُوهَا، فَنَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَكْفِئُوا الْقُدُورَ
Narrated By Al-Bara and 'Abdullah bin Abl Aufa : That when they were in the company of the Prophet, they got some donkeys which they (slaughtered and) cooked. Then the announcer of the Prophet said, "Turn the cooking pots upside down (i.e. throw out the meat)."
حضرت براء اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ تھے ‘ پھر انہیں گدھے ملے تو انہوں نے ان کا گوشت پکایا لیکن نبی ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیاں انڈیل دو۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، رضى الله عنهم أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَصَابُوا حُمُرًا فَطَبَخُوهَا، فَنَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَكْفِئُوا الْقُدُورَ
Narrated By Al-Bara and 'Abdullah bin Abl Aufa : That when they were in the company of the Prophet, they got some donkeys which they (slaughtered and) cooked. Then the announcer of the Prophet said, "Turn the cooking pots upside down (i.e. throw out the meat)."
حضرت براء اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ وہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ تھے ‘ پھر انہیں گدھے ملے تو انہوں نے ان کا گوشت پکایا لیکن نبی ﷺ کے منادی نے اعلان کیا کہ ہانڈیاں انڈیل دو۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، وَابْنَ أَبِي أَوْفَى، يُحَدِّثَانِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ وَقَدْ نَصَبُوا الْقُدُورَ أَكْفِئُوا الْقُدُورَ
Narrated By Al-Bara' and Ibn Abi Aufa : On the day of Khaibar when the cooking pots were put on the fire, the Prophet said, "Turn the cooking pots upside down."
حضرت براء بن عازب اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے یہ دونوں حضرات بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺنے خیبر کے دن فرمایا تھا کہ ہانڈیوں کا گوشت پھینک دو ،اس وقت ہانڈیاں چولہے پر رکھی جا چکی تھیں۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، وَابْنَ أَبِي أَوْفَى، يُحَدِّثَانِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ وَقَدْ نَصَبُوا الْقُدُورَ أَكْفِئُوا الْقُدُورَ
Narrated By Al-Bara' and Ibn Abi Aufa : On the day of Khaibar when the cooking pots were put on the fire, the Prophet said, "Turn the cooking pots upside down."
حضرت براء بن عازب اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے یہ دونوں حضرات بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺنے خیبر کے دن فرمایا تھا کہ ہانڈیوں کا گوشت پھینک دو ، اس وقت ہانڈیاں چولہے پر رکھی جا چکی تھیں۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم نَحْوَهُ
Narrated By Al-Bara : We took part in a Ghazwa with the Prophet
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبیﷺکے ساتھ غزوۂ میں شریک تھے پھر پہلی حدیث کی طرح روایت نقل کی۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ أَمَرَنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ أَنْ نُلْقِيَ الْحُمُرَ الأَهْلِيَّةَ نِيئَةً وَنَضِيجَةً، ثُمَّ لَمْ يَأْمُرْنَا بِأَكْلِهِ بَعْدُ
Narrated By Al-Bara Bin Azib : During the Ghazwa of Khaibar, the Prophet ordered us to throw away the meat of the donkeys whether it was still raw or cooked. He did not allow us to eat it later on.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم پالتو گدھوں کا گوشت پھینک دیں ، خواہ کچا ہو یا پکاہو ۔ پھر ہمیں اس کے کھانے کا کبھی آپ ﷺ نے حکم نہیں دیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْحُسَيْنِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لاَ أَدْرِي أَنَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ كَانَ حَمُولَةَ النَّاسِ، فَكَرِهَ أَنْ تَذْهَبَ حَمُولَتُهُمْ، أَوْ حَرَّمَهُ فِي يَوْمِ خَيْبَرَ، لَحْمَ الْحُمُرِ
Narrated By Ibn Abbas : I do not know whether the Prophet forbade the eating of donkey-meat (temporarily) because they were the beasts of burden for the people, and he disliked that their means of transportation should be lost, or he forbade it on the day of Khaibar permanently.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺنے گدھے کا گوشت کھانے سے اس لیے منع فرمایا کہ وہ مال برداری کا کام آتا ہے ۔ اس لیے آپﷺنے یہ پسند نہیں فرمایا کہ لوگوں کے بار بردار(وہ جانور جس پر بوجھ لادا جائے) ختم ہوجائیں۔ یا پھر آپﷺنے خیبر کے دن گدھوں کا گوشت ہمیشہ کےلیے حرام کردیا دیا تھا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ خَيْبَرَ لِلْفَرَسِ سَهْمَيْنِ، وَلِلرَّاجِلِ سَهْمًا. قَالَ فَسَّرَهُ نَافِعٌ فَقَالَ إِذَا كَانَ مَعَ الرَّجُلِ فَرَسٌ فَلَهُ ثَلاَثَةُ أَسْهُمٍ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَسٌ فَلَهُ سَهْمٌ
Narrated By Ibn 'Umar : On the day of Khaibar, Allah's Apostle divided (the war booty of Khaibar) with the ratio of two shares for the horse and one-share for the foot soldier. (The sub-narrator, Nafi' explained this, saying, "If a man had a horse, he was given three shares and if he had no horse, then he was given one share.")
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺنے خیبر کے دن گھوڑے کےدو حصے اورپیادےکےلیے ایک حصہ تقسیم کیا۔اس کی تفسیر نافع نے اس طرح کی ہے اگر کسی شخص کے ساتھ گھوڑا ہوتا تو اسے تین حصے ملتے تھے اور اگر گھوڑا نہ ہوتا تو صرف ایک حصہ ملتا تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ، أَخْبَرَهُ قَالَ مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْنَا أَعْطَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ، وَتَرَكْتَنَا، وَنَحْنُ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ مِنْكَ. فَقَالَ " إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَىْءٌ وَاحِدٌ ". قَالَ جُبَيْرٌ وَلَمْ يَقْسِمِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَبَنِي نَوْفَلٍ شَيْئًا
Narrated By Jubair bin Mutim : Uthman bin 'Affan and I went to the Prophet and said, "You had given Banu Al-Muttalib from the Khumus of Khaibar's booty and left us in spite of the fact that we and Banu Al-Muttalib are similarly related to you." The Prophet said, "Banu Hashim and Banu Al-Muttalib only are one and the same." So the Prophet did not give anything to Banu Abd Shams and Banu Nawfal.
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ انہیں جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ میں اورحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے بنو مطلب کو تو خیبر کے خمس میں سے عنایت فرمایا ہے اور ہمیں نظر انداز کردیا ہے حالانکہ آپ سے قرابت میں ہم اور وہ برابر تھے۔آپ ﷺ نے فرمایا یقیناً بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ نے بیان کیا کہ آپﷺ نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو (خمس میں سے) کچھ نہیں دیا تھا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا، وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمْ، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ، وَالآخَرُ أَبُو رُهْمٍ ـ إِمَّا قَالَ بِضْعٌ وَإِمَّا قَالَ ـ فِي ثَلاَثَةٍ وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِي، فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، وَكَانَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا ـ يَعْنِي لأَهْلِ السَّفِينَةِ ـ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، وَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَهْىَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ مَنْ هَذِهِ قَالَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ. قَالَ عُمَرُ الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ قَالَتْ أَسْمَاءُ نَعَمْ. قَالَ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْكُمْ. فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ كَلاَّ وَاللَّهِ، كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ بِالْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم وَايْمُ اللَّهِ، لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا، وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَسْأَلُهُ، وَاللَّهِ لاَ أَكْذِبُ وَلاَ أَزِيغُ وَلاَ أَزِيدُ عَلَيْهِ
Narrated By Abu Musa : The news of the migration of the Prophet (from Mecca to Medina) reached us while we were in Yemen. So we set out as emigrants towards him. We were (three) I and my two brothers. I was the youngest of them, and one of the two was Abu Burda, and the other, Abu Ruhm, and our total number was either 53 or 52 men from my people. We got on board a boat and our boat took us to Negus in Ethiopia. There we met Ja'far bin Abi Talib and stayed with him. Then we all came (to Medina) and met the Prophet at the time of the conquest of Khaibar. Some of the people used to say to us, namely the people of the ship, "We have migrated before you." Asma' bint 'Umais who was one of those who had come with us, came as a visitor to Hafsa, the wife the Prophet. She had migrated along with those other Muslims who migrated to Negus. 'Umar came to Hafsa while Asma' bint 'Umais was with her. 'Umar, on seeing Asma,' said, "Who is this?" She said, "Asma' bint 'Umais," 'Umar said, "Is she the Ethiopian? Is she the sea-faring lady?" Asma' replied, "Yes." 'Umar said, "We have migrated before you (people of the boat), so we have got more right than you over Allah's Apostle " On that Asma' became angry and said, "No, by Allah, while you were with Allah's Apostle who was feeding the hungry ones amongst you, and advised the ignorant ones amongst you, we were in the far-off hated land of Ethiopia, and all that was for the sake of Allah's Apostle. By Allah, I will neither eat any food nor drink anything till I inform Allah's Apostle of all that you have said. There we were harmed and frightened. I will mention this to the Prophet and will not tell a lie or curtail your saying or add something to it.
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب ہمیں نبیﷺ کی ہجرت کے متعلق خبر ملی تو ہم یمن میں تھے۔ اس لیے ہم بھی نبیﷺ کی خدمت میں ہجرت کی نیت سے نکل پڑے۔ میں اور میرے دو بھائی ‘ میں دونوں سے چھوٹا تھا۔ میرے ایک بھائی کا نام ابوبردہ رضی اللہ عنہ تھا اور دوسرے کا ابو رُہم۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اوپر پچاس یا انہوں نے یوں بیان کیا کہ تریپن (53) یا باون (52) میری قوم کے لوگ ساتھ تھے۔ ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں لا ڈالا۔ وہاں ہماری ملاقات حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہو گئی ‘ جو پہلے ہی مکہ سے ہجرت کر کے وہاں پہنچ چکے تھے۔ ہم نے وہاں انہیں کے ساتھ قیام کیا ‘ پھر ہم سب مدینہ ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں نبی ﷺ کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب آپﷺ خیبر فتح کر چکے تھے۔ کچھ لوگ ہم کشتی والوں سے کہنے لگے کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جو ہمارے ساتھ مدینہ آئی تھیں ‘ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں ‘ جبکہ اسماء نے بھی نجاشی کی طرف مہاجرین کی جماعت کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے۔ اس وقت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا وہیں تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون ہیں؟ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ اسماء بنت عمیس۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اچھا وہی جو حبشہ سے بحری سفر کر کے آئی ہیں۔۔ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جی ہاں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ہم تم لوگوں سے ہجرت میں آگے ہیں اس لیے ہم رسول اللہ ﷺپر تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اس پر بہت غصہ ہو گئیں اور کہا ہرگز نہیں: اللہ کی قسم! تم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے ہو ‘ تم میں جو بھوکے ہوتے تھے اسے آپ ﷺ کھانا کھلاتے تھے اور جو ناواقف ہوتے اسے آپ ﷺ نصیحت و موعظت کیا کرتے تھے۔ لیکن ہم بہت دور حبشہ میں غیروں اور دشمنوں کے ملک میں رہتے تھے ‘ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے راستے ہی میں تو کیا اور اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تمہاری بات رسول اللہ ﷺ سے نہ کہہ لوں۔ ہمیں اذیت دی جاتی تھی ‘ دھمکایا ڈرایا جاتا تھا۔ میں نبی ﷺ سے اس کا ذکر کروں گی اور آپ سے اس کے متعلق پوچھوں گی۔ اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی ‘ نہ کج روی اختیار کروں گی اور نہ کسی (خلاف واقعہ بات کا) اضافہ کروں گی۔
فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَكَذَا. قَالَ " فَمَا قُلْتِ لَهُ ". قَالَتْ قُلْتُ لَهُ كَذَا وَكَذَا. قَالَ " لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ، وَلَهُ وَلأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ ". قَالَتْ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالاً، يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، مَا مِنَ الدُّنْيَا شَىْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلاَ أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي
" So when the Prophet came, she said, "O Allah's Prophet 'Umar has said so-and-so." He said (to Asma'), "What did you say to him?" Asma's aid, "I told him so-and-so." The Prophet said, "He (i.e. 'Umar) has not got more right than you people over me, as he and his companions have (the reward of) only one migration, and you, the people of the boat, have (the reward of) two migrations." Asma' later on said, "I saw Abu Musa and the other people of the boat coming to me in successive groups, asking me about this narration,, and to them nothing in the world was more cheerful and greater than what the Prophet had said about them."
Narrated Abu Burda: Asma' said, "I saw Abu Musa requesting me to repeat this narration again and again."
چنانچہ جب نبی ﷺ تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ نبیﷺ نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے انہیں کیا جواب دیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے انہیں یہ یہ جواب دیا تھا۔ نبیﷺ نے اس پر فرمایا کہ وہ تم سے زیادہ مجھ سے قریب نہیں ہیں۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو صرف ایک ہجرت حاصل ہوئی اور تم کشتی والوں نے دو ہجرتوں کا شرف حاصل کیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: اس واقعہ کے بعد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اور تمام کشتی والے میرے پاس گروہ در گروہ آنے لگے اور مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھنے لگے۔ ان کے لیے دنیا میں نبی ﷺ کے ان کے متعلق اس ارشاد سے زیادہ خوش کن اور باعث فخر اور کوئی چیز نہیں تھی۔
حضرت ابو بردہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بلاشبہ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ مجھ سے اس حدیث کو بار بار سنتے تھے۔
قَالَ أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " إِنِّي لأَعْرِفُ أَصْوَاتَ رُفْقَةِ الأَشْعَرِيِّينَ بِالْقُرْآنِ، حِينَ يَدْخُلُونَ بِاللَّيْلِ، وَأَعْرِفُ مَنَازِلَهُمْ مِنْ أَصْوَاتِهِمْ بِالْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ، وَإِنْ كُنْتُ لَمْ أَرَ مَنَازِلَهُمْ حِينَ نَزَلُوا بِالنَّهَارِ، وَمِنْهُمْ حَكِيمٌ، إِذَا لَقِيَ الْخَيْلَ ـ أَوْ قَالَ الْعَدُوَّ ـ قَالَ لَهُمْ إِنَّ أَصْحَابِي يَأْمُرُونَكُمْ أَنْ تَنْظُرُوهُمْ "
Narrated Abu Burda: Abu Musa said, "The Prophet said, "I recognize the voice of the group of Al-Ashariyun, when they recite the Qur'an, when they enter their homes at night, and I recognize their houses by (listening) to their voices when they are reciting the Qur'an at night although I have not seen their houses when they came to them during the day time. Amongst them is Hakim who, on meeting the cavalry or the enemy, used to say to them (i.e. the enemy). My companions order you to wait for them.'"
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا : میں اشعری احباب کے قرآن پڑھنے کی آواز پہچان لیتاہوں جبکہ وہ رات کے وقت آتے ہیں ، اگرچہ میں نے دن کے وقت ان کی اقامت گاہوں کو نہیں دیکھا ۔ تاہم ان کی آوازوں سے ان کی اقامت گاہوں کو پہچان لیتا ہوں۔ انہی اشعری احباب میں ایک حکیم بھی ہے کہ جب کہیں ان کی دشمنوں سے مڈبھیڑ ہو جاتی ہے تو ان سے کہتا ہے کہ میرے دوستوں نے کہا ہے کہ تم تھوڑی دیر کے لیے ان کا انتظار کر لو۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ حَفْصَ بْنَ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ أَنِ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَقَسَمَ لَنَا، وَلَمْ يَقْسِمْ لأَحَدٍ لَمْ يَشْهَدِ الْفَتْحَ غَيْرَنَا
Narrated By Abu Musa : We came upon the Prophet after he had conquered Khaibar. He then gave us a share (from the booty), but apart from us he did not give to anybody else who did not attend the Conquest.
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ خیبر کی فتح کے بعد ہم نبیﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ تو نبیﷺنے مال غنیمت سے ہمارے لیے حصہ مقررکیا۔اور ہمارے علاوہ جو غزوۂ خیبر میں شریک نہیں ہوا اسے حصہ نہیں دیا۔
حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرٌ، قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ، مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ افْتَتَحْنَا خَيْبَرَ، وَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلاَ فِضَّةً، إِنَّمَا غَنِمْنَا الْبَقَرَ وَالإِبِلَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى وَادِي الْقُرَى، وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ، أَهْدَاهُ لَهُ أَحَدُ بَنِي الضِّبَابِ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذْ جَاءَهُ سَهْمٌ عَائِرٌ حَتَّى أَصَابَ ذَلِكَ الْعَبْدَ، فَقَالَ النَّاسُ هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَصَابَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا ". فَجَاءَ رَجُلٌ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِشِرَاكٍ أَوْ بِشِرَاكَيْنِ، فَقَالَ هَذَا شَىْءٌ كُنْتُ أَصَبْتُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ "
Narrated By Abu Huraira : When we conquered Khaibar, we gained neither gold nor silver as booty, but we gained cows, camels, goods and gardens. Then we departed with Allah's Apostle to the valley of Al-Qira, and at that time Allah's Apostle had a slave called Mid'am who had been presented to him by one of Banu Ad-Dibbab. While the slave was dismounting the saddle of Allah's Apostle an arrow the thrower of which was unknown, came and hit him. The people said, "Congratulations to him for the martyrdom." Allah's Apostle said, "No, by Him in Whose Hand my soul is, the sheet (of cloth) which he had taken (illegally) on the day of Khaibar from the booty before the distribution of the booty, has become a flame of Fire burning him." On hearing that, a man brought one or two leather straps of shoes to the Prophet and said, "These are things I took (illegally)." On that Allah's Apostle said, "This is a strap, or these are two straps of Fire."
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے ‘ اونٹ ‘ سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبیﷺکے ساتھ ایک مِدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبیﷺ کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر اُن کو لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو: شہادت کی! لیکن آپﷺنے فرمایا: ہرگز نہیں ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْلاَ أَنْ أَتْرُكَ آخِرَ النَّاسِ بَبَّانًا لَيْسَ لَهُمْ شَىْءٌ، مَا فُتِحَتْ عَلَىَّ قَرْيَةٌ إِلاَّ قَسَمْتُهَا كَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ، وَلَكِنِّي أَتْرُكُهَا خِزَانَةً لَهُمْ يَقْتَسِمُونَهَا
Narrated By 'Umar bin Al-Khattab : By Him in Whose Hand my soul is, were I not afraid that the other Muslims might be left in poverty, I would divide (the land of) whatever village I may conquer (among the fighters), as the Prophet divided the land of Khaibar. But I prefer to leave it as a (source of) a common treasury for them to distribute it revenue amongst themselves.
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: ہاں اس ذات کی قسم !جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے آئندہ نسلوں کے مفلس ہونے کا خوف نہ ہوتا کہ ان کےلیے کچھ نہیں بچے گا تو میں جو علاقہ فتح کرتا اسے مجاہدین میں تقسیم کردیتا جس طرح نبی ﷺنے خیبر کی اراضی کو تقسیم کردیا تھا ۔لیکن میں ان اراضی کو آنے والے مسلمانوں کےلیے خزانے کے طور پر چھوڑ رہا ہوں تاکہ وہ آئندہ خود تقسیم کرتے رہیں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَوْلاَ آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ قَرْيَةٌ إِلاَّ قَسَمْتُهَا، كَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم خَيْبَرَ
Narrated By 'Umar : But for the other Muslims (i.e. coming generations) I would divide (the land of) whatever villages the Muslims might conquer (among the fighters), as the Prophet divided (the land of) Khaibar.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا :اگر بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی بھی میرے دور میں فتح ہوتی ‘ میں اسے اسی طرح تقسیم کر دیتا جس طرح نبی ﷺ نے خیبر کی تقسیم کر دی تھی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، وَسَأَلَهُ، إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَهُ، قَالَ لَهُ بَعْضُ بَنِي سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ لاَ تُعْطِهِ. فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ. فَقَالَ وَاعَجَبَاهْ لِوَبْرٍ تَدَلَّى مِنْ قَدُومِ الضَّأْنِ
Narrated By 'Anbasa bin Said : Abu Huraira came to the Prophet and asked him (for a share from the Khaibar booty). On that, one of the sons of Said bin Al-'As said to him, "O Allah's Apostle! Do not give him." Abu Huraira then said (to the Prophet) "This is the murderer of Ibn Qauqal." Sa'id's son said, "How strange! A guinea pig coming from Qadum Ad-Dan!"
حضرت عنبسہ بن سعید سے مروی ہے انہوں نے کہا: جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ سے (خیبر کی غنیمت میں سے) کچھ طلب کیا۔ حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے ایک لڑکے (ابان بن سعید رضی اللہ عنہ) نے کہا: یا رسول اللہﷺ! انہیں کچھ نہ دیں۔ اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ شخص تو ابن قوقل کا قاتل ہے۔ ابان رضی اللہ عنہ اس پر بولے حیرت ہے اس بلی جیسے انسان پر جو قدوم الضأن نامی پہاڑی سے اتر آیا ہے۔
وَيُذْكَرُ عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُخْبِرُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِي قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَبَانَ عَلَى سَرِيَّةٍ مِنَ الْمَدِينَةِ قِبَلَ نَجْدٍ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَدِمَ أَبَانُ وَأَصْحَابُهُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِخَيْبَرَ، بَعْدَ مَا افْتَتَحَهَا، وَإِنَّ حُزْمَ خَيْلِهِمْ لَلِيفٌ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لاَ تَقْسِمْ لَهُمْ. قَالَ أَبَانُ وَأَنْتَ بِهَذَا يَا وَبْرُ تَحَدَّرَ مِنْ رَأْسِ ضَأْنٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " يَا أَبَانُ اجْلِسْ " فَلَمْ يَقْسِمْ لَهُمْ.قال أبو عبدِاللهِ :الضَّالُ:السِّدْرُ
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent Aban from Medina to Najd as the commander of a Sariya. Aban and his companions came to the Prophet at Khaibar after the Prophet had conquered it, and the reins of their horses were made of the fire of date palm trees. I said, "O Allah's Apostle! Do not give them a share of the booty." on, that, Aban said (to me), "Strange! You suggest such a thing though you are what you are, O guinea pig coming down from the top of Ad-Dal (a lotus tree)! "On that the Prophet said, "O Aban, sit down ! " and did not give them any share.
حضرت عنبسہ بن سعید سے مروی ہے ، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سنا، وہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو بتارہے تھے کہ حضرت ابان رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺنے کسی مہم پر مدینہ سے نجد کی طرف بھیجا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ابان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت خیبر فتح ہو چکا تھا۔ ان لوگوں کے گھوڑوں کی پٹیاں چھال کی تھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! غنیمت میں ان کا حصہ نہ لگایئے۔ اس پر ابان رضی اللہ عنہ بولے اے وبر! تیری حیثیت تو صرف یہ کہ تو جنگلی بیری کی چوٹی سے اتر آیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ابان! بیٹھ جا! نبی ﷺ نے ان لوگوں کو مال غنیمت سے کچھ نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ضال سے مراد جنگلی بیری ہے ۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي جَدِّي، أَنَّ أَبَانَ بْنَ سَعِيدٍ، أَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ. وَقَالَ أَبَانُ لأَبِي هُرَيْرَةَ وَاعَجَبًا لَكَ وَبْرٌ تَدَأْدَأَ مِنْ قَدُومِ ضَأْنٍ. يَنْعَى عَلَىَّ امْرَأً أَكْرَمَهُ اللَّهُ بِيَدِي، وَمَنَعَهُ أَنْ يُهِينَنِي بِيَدِهِ
Narrated By Said : Aban bin Said came to the Prophet and greeted him. Abu Huraira said, "O Allah's Apostle! This (Aban) is the murderer of the Ibn Qauqal." (On hearing that), Aban said to Abu Huraira, "How strange your saying is! You, a guinea pig, descending from Qadum Dan, blaming me for (killing) a person whom Allah favoured (with martyrdom) with my hand, and whom He forbade to degrade me with his hand."
حضرت ابان بن سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہﷺ! یہ تو ابن قوقل کا قاتل ہے اور ابان رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا حیرت ہے اس «وبر» پر جو قدوم الضان سے ابھی اترا ہے اور مجھ پر عیب لگاتا ہے ایک ایسے شخص پر کہ جس کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں (ابن قوقل رضی اللہ عنہ کو) عزت دی اور ایسا نہ ہونے دیا کہ ان کے ہاتھ سے مجھے ذلیل کرتا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فِي هَذَا الْمَالِ ". وَإِنِّي وَاللَّهِ لاَ أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ، دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلاً، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ، فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا، وَلاَ يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ، كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ. فَقَالَ عُمَرُ لاَ وَاللَّهِ لاَ تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي، وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ. فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَكَ، وَمَا أَعْطَاكَ، اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ، وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالأَمْرِ، وَكُنَّا نَرَى لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَصِيبًا. حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحَبُّ إِلَىَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَمْوَالِ، فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْخَيْرِ، وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلاَّ صَنَعْتُهُ. فَقَالَ عَلِيٌّ لأَبِي بَكْرٍ مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ. فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ، وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ، وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ، وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ، وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَلاَ إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ، وَلَكِنَّا نَرَى لَنَا فِي هَذَا الأَمْرِ نَصِيبًا، فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا، فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا، فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا أَصَبْتَ. وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا، حِينَ رَاجَعَ الأَمْرَ الْمَعْرُوفَ
Narrated By 'Aisha : Fatima the daughter of the Prophet sent someone to Abu Bakr (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allah's Apostle had left of the property bestowed on him by Allah from the Fai (i.e. booty gained without fighting) in Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr said, "Allah's Apostle said, "Our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad can eat of this property.' By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allah's Apostle and will leave it as it was during the lifetime of Allah's Apostle, and will dispose of it as Allah's Apostle used to do." So Abu Bakr refused to give anything of that to Fatima. So she became angry with Abu Bakr and kept away from him, and did not task to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet. When she died, her husband 'Ali, buried her at night without informing Abu Bakr and he said the funeral prayer by himself. When Fatima was alive, the people used to respect 'Ali much, but after her death, 'Ali noticed a change in the people's attitude towards him. So Ali sought reconciliation with Abu Bakr and gave him an oath of allegiance. 'Ali had not given the oath of allegiance during those months (i.e. the period between the Prophet's death and Fatima's death). 'Ali sent someone to Abu Bakr saying, "Come to us, but let nobody come with you," as he disliked that 'Umar should come, 'Umar said (to Abu Bakr), "No, by Allah, you shall not enter upon them alone " Abu Bakr said, "What do you think they will do to me? By Allah, I will go to them' So Abu Bakr entered upon them, and then 'Ali uttered Tashah-hud and said (to Abu Bakr), "We know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allah's Apostle."
Thereupon Abu Bakr's eyes flowed with tears. And when Abu Bakr spoke, he said, "By Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allah's Apostle is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allah's Apostle following, in disposing of it, but I will follow." On that 'Ali said to Abu Bakr, "I promise to give you the oath of allegiance in this after noon." So when Abu Bakr had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and uttered the Tashah-hud and then mentioned the story of 'Ali and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered; Then 'Ali (got up) and praying (to Allah) for forgiveness, he uttered Tashah-hud, praised Abu Bakr's right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr or as a protest of that Allah had favoured him with. 'Ali added, "But we used to consider that we too had some right in this affair (of ruler-ship) and that he (i.e. Abu Bakr) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry." On that all the Muslims became happy and said, "You have done the right thing." The Muslims then became friendly with 'Ali as he returned to what the people had done (i.e. giving the oath of allegiance to Abu Bakr).
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریمﷺکے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریمﷺ نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمدﷺ اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی ﷺ چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپﷺ کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ آپ صرف اکیلے آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اس پر ہمیں کوئی حسد نہیں ، لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی(کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) باتیں سنتے سنتے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی ﷺ کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا پھر علی رضی اللہ عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا)ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہوگئے اور علی رضی اللہ عنہ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کر لی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ ـ عَلَيْهَا السَّلاَمُ ـ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ، وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فِي هَذَا الْمَالِ ". وَإِنِّي وَاللَّهِ لاَ أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ، دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلاً، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ، فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا، وَلاَ يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ، كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ. فَقَالَ عُمَرُ لاَ وَاللَّهِ لاَ تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي، وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ. فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَكَ، وَمَا أَعْطَاكَ، اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ، وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالأَمْرِ، وَكُنَّا نَرَى لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَصِيبًا. حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحَبُّ إِلَىَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَمْوَالِ، فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْخَيْرِ، وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلاَّ صَنَعْتُهُ. فَقَالَ عَلِيٌّ لأَبِي بَكْرٍ مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ. فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ، وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ، وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ، وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ، وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَلاَ إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ، وَلَكِنَّا نَرَى لَنَا فِي هَذَا الأَمْرِ نَصِيبًا، فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا، فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا، فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا أَصَبْتَ. وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا، حِينَ رَاجَعَ الأَمْرَ الْمَعْرُوفَ
Narrated By 'Aisha : Fatima the daughter of the Prophet sent someone to Abu Bakr (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allah's Apostle had left of the property bestowed on him by Allah from the Fai (i.e. booty gained without fighting) in Medina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr said, "Allah's Apostle said, "Our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad can eat of this property.' By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allah's Apostle and will leave it as it was during the lifetime of Allah's Apostle, and will dispose of it as Allah's Apostle used to do." So Abu Bakr refused to give anything of that to Fatima. So she became angry with Abu Bakr and kept away from him, and did not task to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet. When she died, her husband 'Ali, buried her at night without informing Abu Bakr and he said the funeral prayer by himself. When Fatima was alive, the people used to respect 'Ali much, but after her death, 'Ali noticed a change in the people's attitude towards him. So Ali sought reconciliation with Abu Bakr and gave him an oath of allegiance. 'Ali had not given the oath of allegiance during those months (i.e. the period between the Prophet's death and Fatima's death). 'Ali sent someone to Abu Bakr saying, "Come to us, but let nobody come with you," as he disliked that 'Umar should come, 'Umar said (to Abu Bakr), "No, by Allah, you shall not enter upon them alone " Abu Bakr said, "What do you think they will do to me? By Allah, I will go to them' So Abu Bakr entered upon them, and then 'Ali uttered Tashah-hud and said (to Abu Bakr), "We know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allah's Apostle."
Thereupon Abu Bakr's eyes flowed with tears. And when Abu Bakr spoke, he said, "By Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allah's Apostle is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allah's Apostle following, in disposing of it, but I will follow." On that 'Ali said to Abu Bakr, "I promise to give you the oath of allegiance in this after noon." So when Abu Bakr had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and uttered the Tashah-hud and then mentioned the story of 'Ali and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered; Then 'Ali (got up) and praying (to Allah) for forgiveness, he uttered Tashah-hud, praised Abu Bakr's right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr or as a protest of that Allah had favoured him with. 'Ali added, "But we used to consider that we too had some right in this affair (of ruler-ship) and that he (i.e. Abu Bakr) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry." On that all the Muslims became happy and said, "You have done the right thing." The Muslims then became friendly with 'Ali as he returned to what the people had done (i.e. giving the oath of allegiance to Abu Bakr).
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریمﷺکے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریمﷺ نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمدﷺ اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی ﷺ چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپﷺ کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ آپ صرف اکیلے آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اس پر ہمیں کوئی حسد نہیں ، لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی(کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) باتیں سنتے سنتے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی ﷺ کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر ابوبکر رضی اللہ عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی رضی اللہ عنہ نے پیش کیا تھا پھر علی رضی اللہ عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا)ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں یہ مناسب راستہ اختیار کر لیا تو مسلمان ان سے خوش ہو گئے اور علی رضی اللہ عنہ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کر لی ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا حَرَمِيٌّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَارَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ وَلَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ قُلْنَا الآنَ نَشْبَعُ مِنَ التَّمْرِ
Narrated By 'Aisha : When Khaibar was conquered, we said, "Now we will eat our fill of dates!"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا اب کھجوروں سے ہمارا جی بھر جائے گا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ مَا شَبِعْنَا حَتَّى فَتَحْنَا خَيْبَرَ
Narrated By Ibn Umar : We did not eat our fill except after we had conquered Khaibar.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب تک خیبر فتح نہیں ہوا تھا تب تک ہم نے سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا۔
Chapter No: 40
باب اسْتِعْمَالُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَلَى أَهْلِ خَيْبَرَ
The appointment of a ruler for Khaibar by the Prophet (s.a.w).
: خیبر کا حاکم ایک شخص کو مقرر کرنا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي، هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اسْتَعْمَلَ رَجُلاً عَلَى خَيْبَرَ، فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " كُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا ". فَقَالَ لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ {وَالصَّاعَيْنِ} بِالثَّلاَثَةِ. فَقَالَ " لاَ تَفْعَلْ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا "
Narrated By Abu Said Al-Khudri and Abu Huraira : Allah's Apostle appointed a man as the ruler of Khaibar who later brought some Janib (i.e. dates of good quality) to the Prophet. On that, Allah's Apostle said (to him). "Are all the dates of Khaibar like this?" He said, "No, by Allah, O Allah's Apostle! But we take one Sa of these (dates of good quality) for two or three Sa's of other dates (of inferior quality)." On that, Allah's Apostle said, "Do not do so, but first sell the inferior quality dates for money and then with that money, buy Janib."
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک صحابی (سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ) کو خیبر کا عامل مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو نبی ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ! ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور (اس سے خراب)دو یا تین صاع کھجور کے بدلے میں ان سے لے لیتے ہیں۔نبیﷺ نے فرمایا کہ اس طرح نہ کیا کرو ‘ بلکہ (اگر اچھی کھجور لانی ہو تو) ردی کھجور پہلے درہم کے بدلے بیچ ڈالا کرو ‘ پھر ان دراہم سے اچھی کھجور خرید لیا کرو۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَأَبِي، هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اسْتَعْمَلَ رَجُلاً عَلَى خَيْبَرَ، فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " كُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا ". فَقَالَ لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ {وَالصَّاعَيْنِ} بِالثَّلاَثَةِ. فَقَالَ " لاَ تَفْعَلْ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا "
Narrated By Abu Said Al-Khudri and Abu Huraira : Allah's Apostle appointed a man as the ruler of Khaibar who later brought some Janib (i.e. dates of good quality) to the Prophet. On that, Allah's Apostle said (to him). "Are all the dates of Khaibar like this?" He said, "No, by Allah, O Allah's Apostle! But we take one Sa of these (dates of good quality) for two or three Sa's of other dates (of inferior quality)." On that, Allah's Apostle said, "Do not do so, but first sell the inferior quality dates for money and then with that money, buy Janib."
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک صحابی (سواد بن غزیہ رضی اللہ عنہ) کو خیبر کا عامل مقرر کیا۔ وہ وہاں سے عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو نبی ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ! ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور (اس سے خراب)دو یا تین صاع کھجور کے بدلے میں ان سے لے لیتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح نہ کیا کرو ‘ بلکہ (اگر اچھی کھجور لانی ہو تو) ردی کھجور پہلے درہم کے بدلے بیچ ڈالا کرو ‘ پھر ان دراہم سے اچھی کھجور خرید لیا کرو۔
وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ، عَنْ سَعِيدٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ، وَأَبَا، هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى خَيْبَرَ فَأَمَّرَهُ عَلَيْهَا.وَعَن عَبْدَالمَجِيدِ، عَن صَالحٍ السَّمَّانِ،عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ،وَ أبى سَعِيدٍ:مِثْلَه
Abu Said and Abu Huraira said, "The Prophet made the brother of Bani Adi from the Ansar as the ruler of Khaibar.
حضرت ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیﷺنے انصار کے خاندان بنو عدی کے بھائی کو خیبر بھیجا اور انہیں وہاں کا عامل مقرر کیا ۔اور دوسری سند میں بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسی طرح نقل کیا ہے۔
وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ، عَنْ سَعِيدٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ، وَأَبَا، هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى خَيْبَرَ فَأَمَّرَهُ عَلَيْهَا.وَعَن عَبْدَالمَجِيدِ، عَن صَالحٍ السَّمَّانِ،عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ،وَ أبى سَعِيدٍ:مِثْلَه
Abu Said and Abu Huraira said, "The Prophet made the brother of Bani Adi from the Ansar as the ruler of Khaibar.
حضرت ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انصار کے خاندان بنو عدی کے بھائی کو خیبر بھیجا اور انہیں وہاں کا عامل مقرر کیا ۔اور دوسری سند میں بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسی طرح نقل کیا ہے۔