Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Al-Maghazi (Military Expeditions) (64)    كتاب المغازي

‹ First45678Last ›

Chapter No: 51

باب مَنْزِلُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْفَتْحِ

The encamping place of the Prophet (s.a.w) on the day of the Conquest (of Makkah).

باب: فتح مکہ میں آپؐ کہاں ٹھہرے تھے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، مَا أَخْبَرَنَا أَحَدٌ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرَ أُمِّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا ذَكَرَتْ أَنَّهُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ اغْتَسَلَ فِي بَيْتِهَا ثُمَّ صَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، قَالَتْ لَمْ أَرَهُ صَلَّى صَلاَةً أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ‏.‏

Narrated By Ibn Laila : None informed us that he saw the Prophet offering the Duha (i.e. forenoon) prayer, except Um Ham who mentioned that the Prophet took a bath in her house on the day of the Conquest (of Mecca) and then offered an eight Rakat prayer. She added, "I never saw the Prophet offering a lighter prayer than that prayer, but he was performing perfect bowing and prostrations."

ابن ابی لیلیٰ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا ہمیں کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ نبیﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی ۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ان کے گھر غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو میں نے اتنی ہلکی نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر بھی اس میں آپ ﷺ رکوع اور سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔

Chapter No: 52

باب

Chapter

باب:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ ‏"‏ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ، رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ‏"‏‏.‏

Narrated Aishah(RA): The Prophet(s.a.w) used to say in his bowings and prostrations , "Subhanaka Allahumma Rabbana wa bihamdika , Allahumma ighfirli (Glorified be You, O Allah, Our Lord! All the praises are for you. O Allah, forgive me)! "

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺ اپنے رکوع اور سجدہ میں یہ پڑھتے تھے «سبحانك اللهم،‏‏‏‏ ربنا وبحمدك،‏‏‏‏ اللهم اغفر لي» ۔


حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ عُمَرُ يُدْخِلُنِي مَعَ أَشْيَاخِ بَدْرٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِمَ تُدْخِلُ هَذَا الْفَتَى مَعَنَا، وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُهُ فَقَالَ إِنَّهُ مِمَّنْ قَدْ عَلِمْتُمْ‏.‏ قَالَ فَدَعَاهُمْ ذَاتَ يَوْمٍ، وَدَعَانِي مَعَهُمْ قَالَ وَمَا رُئِيتُهُ دَعَانِي يَوْمَئِذٍ إِلاَّ لِيُرِيَهُمْ مِنِّي فَقَالَ مَا تَقُولُونَ ‏{‏إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ * وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ‏}‏ حَتَّى خَتَمَ السُّورَةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ أُمِرْنَا أَنْ نَحْمَدَ اللَّهَ وَنَسْتَغْفِرَهُ، إِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَيْنَا‏.‏ وَقَالَ بَعْضُهُمْ لاَ نَدْرِي‏.‏ أَوْ لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ شَيْئًا‏.‏ فَقَالَ لِي يَا ابْنَ عَبَّاسٍ أَكَذَاكَ تَقُولُ قُلْتُ لاَ‏.‏ قَالَ فَمَا تَقُولُ قُلْتُ هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ ‏{‏إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ‏}‏ فَتْحُ مَكَّةَ، فَذَاكَ عَلاَمَةُ أَجَلِكَ ‏{‏فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا‏}‏ قَالَ عُمَرُ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلاَّ مَا تَعْلَمُ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : 'Umar used to admit me (into his house) along with the old men who had fought in the Badr battle. Some of them said (to 'Umar), "Why do you allow this young man to enter with us, while we have sons of his own age? " 'Umar said, "You know what person he is." One day 'Umar called them and called me along with them, I had thought he called me on that day to show them something about me (i.e. my knowledge). 'Umar asked them, "What do you say about (the Sura): "When comes the help of Allah and the Conquest (of Mecca) And you see mankind entering the Religion of Allah (i.e. Islam) in crowds. 'So celebrate the Praises Of your Lord and ask for His forgiveness, Truly, He is the One Who accepts repentance and forgives." (110.1-3) Some of them replied, "We are ordered to praise Allah and repent to Him if we are helped and granted victory." Some said, "We do not know." Others kept quiet. 'Umar then said to me, "Do you say similarly?" I said, "No." 'Umar said "What do you say then?" I said, "This Verse indicates the approaching of the death of Allah's Apostle of which Allah informed him. When comes the help of Allah and the Conquest, i.e. the Conquest of Mecca, that will be the sign of your Prophet's) approaching death, so testify the uniqueness of your Lord (i.e. Allah) and praise Him and repent to Him as He is ready to forgive." On that, 'Umar said, "I do not know about it anything other than what you know."

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے اپنی مجلس میں اس وقت بھی بلا لیتے جب وہاں جنگ بدر میں شریک ہونے والے بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوتے۔ اس پر بعض لوگ کہنے لگے اس جوان کو آپ ہماری مجلس میں کیوں بلاتے ہیں؟ اس کے جیسے تو ہمارے بچے بھی ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا وہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کا علم و فضل تم جانتے ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ان بزرگ صحابیوں کو ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور مجھے بھی بلایا۔ بیان کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ مجھے اس دن آپ نے اس لیے بلایا تھا تاکہ آپ میرا علم بتا سکیں۔ پھر آپ نے دریافت کیا «إذا جاء نصر الله والفتح * ورأيت الناس يدخلون‏» ‘ ختم سورت تک ‘ کے متعلق تم لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کسی نے کہا کہ ہمیں اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی حمد بیان کریں اور اس سے استغفار کریں کہ اس نے ہماری مدد کی اور ہمیں فتح عنایت فرمائی۔ بعض نے کہا کہ ہمیں اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے اور بعض نے کوئی جواب نہیں دیا پھر انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: ابن عباس! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں ‘ پوچھا ‘ پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح حاصل ہو گئی۔ یعنی فتح مکہ تو یہ آپ ﷺ کی وفات کی نشانی ہے۔ اس لیے آپ اپنے رب کی حمد اور تسبیح اور اس کی مغفرت طلب کریں کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا وہی میں بھی سمجھتا ہوں۔


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهْوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلاً قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْغَدَ يَوْمَ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَاىَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَاىَ، حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، لاَ يَحِلُّ لاِمْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلاَ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيهَا فَقُولُوا لَهُ إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ‏.‏ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ‏"‏‏.‏ فَقِيلَ لأَبِي شُرَيْحٍ مَاذَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو قَالَ قَالَ أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لاَ يُعِيذُ عَاصِيًا، وَلاَ فَارًّا بِدَمٍ، وَلاَ فَارًّا بِخَرْبَةٍ‏.‏

Narrated By Abu Shuraih : Al-Adawi that he said to 'Amr bin Said while the latter was sending troops in batches to Mecca, "O chief! Allow me to tell you a statement which Allah's Apostle said on the second day of the Conquest of Mecca. My two ears heard it and my heart remembered it and my two eyes saw him when he said it. He (i.e. the Prophet) praised Allah and then said, 'Mecca has been made a sanctuary by Allah and not by the people, so it is not lawful for a person, who believes in Allah and the Last Day to shed blood in it, or to cut its trees and if someone asks the permission to fight in Mecca because Allah's Apostle was allowed to fight in it, say to him; Allah permitted His Apostle and did not allow you, and even he (i.e. the Apostle) was allowed for a short period of the day, and today its (Mecca's sanctity has become the same as it was before (of old) so those who are present should inform those who are absent (this Hadith)." Then Abu Shuraih, was asked, "What did 'Amr say to you? Abu Shuraih said, "He said, "I knew that better than you, O Abu Shuraih! The Haram (i.e. Mecca) does not give refuge to a sinner or a fleeing murderer or a person running away after causing destruction."

ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے(مدینہ کے امیر) عمرو بن سعید سے کہا جب کہ عمرو بن سعید (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف) مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے کہ اے امیر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کو نبی ﷺ ارشاد فرما رہے تھے تو گویا میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا ‘ بلاشبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا شہر قرار دیا ہے کسی انسان نے اسے اپنے طرف سے حرمت والا قرار نہیں دیا۔ اس لیے کسی شخص کے لیے بھی جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ‘ جائز نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے اور کوئی اس سر زمیں کا کوئی درخت کاٹے اور اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے (فتح مکہ کے موقع پر) جنگ سے اپنے لیے بھی رخصت نکالے تو تم اس سے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو (تھوڑی دیر کے لیے) اس کی اجازت دی تھی۔ ہمارے لیے بالکل اجازت نہیں ہے اور مجھے بھی اس کی اجازت دن کے تھوڑے سے حصے کے لیے ملی تھی اور آج پھر اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی ہے جس طرح کل یہ شہر حرمت والا تھا۔ پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ (ان کو میرا پیغام) پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ابوشریح سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید نے آپ کو پھر جواب کیا دیا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس نے کہا کہ میں یہ مسائل تم سے زیادہ جانتا ہوں ‘ حرم کسی گنہگار کو پناہ نہیں دیتا ‘ نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے‘ نہ کسی فسادی کو جو فساد برپا کرکے بھاگ آیا ہو ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: لفظ" خربہ " کے معنی ہیں خرابی کرنے والا ، یعنی مجرم۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ وَهْوَ بِمَكَّةَ ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Jabir bin 'Abdullah : That he heard Allah's Apostle saying in the year of the Conquest (of Mecca) while he was in Mecca, "Allah and His Apostle have made the selling of wine (i.e. alcoholic drinks) unlawful."

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے نبی ﷺکو فتح مکہ کے موقع پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے۔

Chapter No: 53

باب مَقَامُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمَكَّةَ زَمَنَ الْفَتْحِ

The stay of the Prophet (s.a.w) in Makkah during the period of the Conquest (of Makkah).

باب: جب مکہ فتح ہوا تو آپﷺ کا وہاں ٹھہرنا(اقامت کرنا)

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏.‏ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ أَقَمْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَشْرًا نَقْصُرُ الصَّلاَةَ‏.‏

Narrated By Anas : We stayed (in Mecca) for ten days along with the Prophet and used to offer shortened prayers (i.e. journey prayers).

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ (مکہ میں) دس دن ٹھہرے رہے اور اس دوران ہم نماز قصر کرتے رہے۔


حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رضى الله عنهما قَالَ أَقَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِمَكَّةَ تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : The Prophet stayed in Mecca for 19 days during which he prayed 2 Rakat in each prayer.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے مکہ میں انیس دن قیام فرمایا تھا اور اس دوران نماز دو رکعتیں(قصر) پڑھتے تھے۔


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَقَمْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي سَفَرٍ تِسْعَ عَشْرَةَ نَقْصُرُ الصَّلاَةَ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَنَحْنُ نَقْصُرُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ، فَإِذَا زِدْنَا أَتْمَمْنَا‏.‏

Narrated By 'Ikrima : Ibn 'Abbas said, "We stayed for 19 days with Prophet on a journey during which we used to offer shortened prayers." Ibn 'Abbas added, "We offer the Qasr prayer (i.e. shortened prayer) If we stay up to 19 days as travellers, But if we stay longer, we offer complete prayers."

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺکے ساتھ سفر میں (فتح مکہ کے بعد) انیس دن تک نماز قصر پڑھتے تھے، لیکن جب اس سے زیادہ مدت گزر جاتی تو پھر پوری نماز پڑھتے تھے۔

Chapter No: 54

باب

Chapter

باب:

وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَعْلَبَةَ بْنِ صُعَيْرٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ، صلى الله عليه وسلم قَدْ مَسَحَ وَجْهَهُ عَامَ الْفَتْحِ‏.‏

Narrated 'Abdullah bin Thalaba bin Suair whos face was rubbed bythe Prophet(s.a.w) during the year of the conquest(of Makkah).

حضرت عبداللہ بن ثعلبی بن صعیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے خبردی کہ نبیﷺنے فتح مکہ کے دن ان کے چہرے پر (شفقت سے) ہاتھ پھیرا تھا۔


حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُنَيْنٍ أَبِي جَمِيلَةَ، قَالَ أَخْبَرَنَا وَنَحْنُ، مَعَ ابْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ وَزَعَمَ أَبُو جَمِيلَةَ أَنَّهُ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم، وَخَرَجَ مَعَهُ عَامَ الْفَتْحِ‏.‏

Narrated By Az-Zuhri : While we were in the company of the Ibn Al-Musaiyab, Sunain Abi Jamila informed us (a Hadith), Abu Jamila said that he lived during the lifetime of the Prophet and that he had accompanied him (to Mecca) during the year of the Conquest (of Mecca).

حضرت ابو جمیلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے نبی ﷺکی صحبت پائی۔ اور وہ آپﷺکے ساتھ غزوۂ فتح مکہ کےلیے نکلے تھے۔


حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلِمَةَ، قَالَ قَالَ لِي أَبُو قِلاَبَةَ أَلاَ تَلْقَاهُ فَتَسْأَلَهُ، قَالَ فَلَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ كُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ فَنَسْأَلُهُمْ مَا لِلنَّاسِ مَا لِلنَّاسِ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُونَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ أَوْحَى إِلَيْهِ، أَوْ أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا‏.‏ فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الْكَلاَمَ، وَكَأَنَّمَا يُغْرَى فِي صَدْرِي، وَكَانَتِ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلاَمِهِمِ الْفَتْحَ، فَيَقُولُونَ اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهْوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ‏.‏ فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلاَمِهِمْ، وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلاَمِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَقًّا فَقَالَ ‏"‏ صَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا ‏"‏‏.‏ فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ، سِنِينَ وَكَانَتْ عَلَىَّ بُرْدَةٌ، كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْحَىِّ أَلاَ تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ‏.‏ فَاشْتَرَوْا فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا، فَمَا فَرِحْتُ بِشَىْءٍ فَرَحِي بِذَلِكَ الْقَمِيصِ‏.

Narrated By 'Amr bin Salama : We were at a place which was a thoroughfare for the people, and the caravans used to pass by us and we would ask them, "What is wrong with the people? What is wrong with the people? Who is that man?. They would say, "That man claims that Allah has sent him (as an Apostle), that he has been divinely inspired, that Allah has revealed to him such-and-such." I used to memorize that (Divine) Talk, and feel as if it was inculcated in my chest (i.e. mind) And the 'Arabs (other than Quraish) delayed their conversion to Islam till the Conquest (of Mecca). They used to say." "Leave him (i.e. Muhammad) and his people Quraish: if he overpowers them then he is a true Prophet. So, when Mecca was conquered, then every tribe rushed to embrace Islam, and my father hurried to embrace Islam before (the other members of) my tribe. When my father returned (from the Prophet) to his tribe, he said, "By Allah, I have come to you from the Prophet for sure!" The Prophet afterwards said to them, 'Offer such-and-such prayer at such-and-such time, and when the time for the prayer becomes due, then one of you should pronounce the Adhan (for the prayer), and let the one amongst you who knows Qur'an most should, lead the prayer." So they looked for such a person and found none who knew more Qur'an than I because of the Qur'anic material which I used to learn from the caravans. They therefore made me their Imam ((to lead the prayer) and at that time I was a boy of six or seven years, wearing a Burda (i.e. a black square garment) proved to be very short for me (and my body became partly naked). A lady from the tribe said, "Won't you cover the anus of your reciter for us?" So they bought (a piece of cloth) and made a shirt for me. I had never been so happy with anything before as I was with that shirt.

ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا ‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں لوگوں کا عام گزرگاہ تھا۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ (یہ اشارہ نبیﷺ کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ گویا کوئی اسے میرے سینے میں جما دیتا۔اور اہل عرب مسلمان ہونے کےلیے فتح مکہ کے منتظر تھے ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہوگیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں اللہ کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا انہیں نہیں ملا۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا تو سکڑجاتی (اور پیچھے کی جگہ) کھل جاتی۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا سرین ہم نے کیوں نہیں چھپاتے؟آخر انہوں نے کپڑا خرید کر میرے لیے ایک کرتا بنایا، میں جتنا خوش اس کرتےسے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔


حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدٍ أَنْ يَقْبِضَ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، وَقَالَ عُتْبَةُ إِنَّهُ ابْنِي‏.‏ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَكَّةَ فِي الْفَتْحِ أَخَذَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَأَقْبَلَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَأَقْبَلَ مَعَهُ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ هَذَا ابْنُ أَخِي، عَهِدَ إِلَىَّ أَنَّهُ ابْنُهُ‏.‏ قَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَخِي، هَذَا ابْنُ زَمْعَةَ، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ‏.‏ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى ابْنِ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَإِذَا أَشْبَهُ النَّاسِ بِعُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هُوَ لَكَ، هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ ‏"‏‏.‏ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ احْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ ‏"‏‏.‏ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ‏.‏ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ‏"‏‏.‏ وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَصِيحُ بِذَلِكَ‏.

Narrated By 'Aisha : Utba bin Abi Waqqas authorized his brother Sad to take the son of the slave-girl of Zam'a into his custody. 'Utba said (to him). "He is my son." When Allah's Apostle arrived in Mecca during the Conquest (of Mecca), Sad bin Abi Waqqas took the son of the slave-girl of Zam'a and took him to the Prophet 'Abd bin Zam'a too came along with him. Sad said. "This is the son of my brother and the latter has informed me that he is his son." 'Abd bin Zam'a said, "O Allah's Apostle! This is my brother who is the son of the slave-girl of Zam'a and was born on his (i.e. Zam'as) bed.' Allah's Apostle looked at the son of the slave-girl of Zam'a and noticed that he, of all the people had the greatest resemblance to 'Utba bin Abi Waqqas. Allah's Apostle then said (to 'Abd), " He is yours; he is your brother, O 'Abd bin Zam'a, he was born on the bed (of your father)." (At the same time) Allah's Apostle said (to his wife Sauda), "Veil yourself before him (i.e. the son of the slave-girl) O Sauda," because of the resemblance he noticed between him and Utba bin Abi Waqqas. Allah's Apostle added, "The boy is for the bed (i.e. for the owner of the bed where he was born), and stone is for the adulterer." (Ibn Shihab said, "Abu Huraira used to say that (i.e. the last statement of the Prophet in the above Hadith, publicly.")

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے(مرتے وقت زمانہ جاہلیت میں) اپنے بھائی (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ بن لیثی کی باندی سے پیدا ہونے والے بچے کو اپنے قبضے میں لے لیں۔ عتبہ نے کہا تھا کہ وہ میرا لڑکا ہو گا۔ چنانچہ جب فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس بچے کو لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے تو یہ کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے۔ لیکن عبد بن زمعہ نے کہا: یا رسول اللہ! یہ میرا بھائی ہے (میرے والد) زمعہ کا بیٹا ہے کیونکہ انہیں کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھا تو وہ واقعی (سعد کے بھائی) عتبہ بن ابی وقاص کی شکل پر تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے (قانون شریعت کے مطابق) فیصلے میں یہ کہا کہ اے عبد بن زمعہ! تم اس بچے کو رکھو، یہ تمہارا بھائی ہے، کیونکہ یہ تمہارے والد کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ لیکن دوسری طرف ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا سے جو زمعہ کی بیٹی تھیں فرمایا سودہ! اس لڑکے سے پردا کیا کرنا کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی شباہت پائی تھی۔ ابن شہاب نے کہا ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ لڑکا اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو ، اور زنا کرنے والے کے حصے میں پتھر ہیں۔۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو پکار پکار کر بیان کیا کرتے تھے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ امْرَأَةً، سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ، فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ، قَالَ عُرْوَةُ فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِيهَا تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ‏"‏‏.‏ قَالَ أُسَامَةُ اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَطِيبًا، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّمَا أَهْلَكَ النَّاسَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ‏"‏‏.‏ ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَقُطِعَتْ يَدُهَا، فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ وَتَزَوَّجَتْ‏.‏ قَالَتْ عَائِشَةُ فَكَانَتْ تَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏

Narrated By 'Urwa bin Az-Zubair : A lady committed theft during the lifetime of Allah's Apostle in the Ghazwa of Al-Fath, ((i.e. Conquest of Mecca). Her folk went to Usama bin Zaid to intercede for her (with the Prophet). When Usama interceded for her with Allah's Apostle, the colour of the face of Allah's Apostle changed and he said, "Do you intercede with me in a matter involving one of the legal punishments prescribed by Allah?" Usama said, "O Allah's Apostle! Ask Allah's Forgiveness for me." So in the afternoon, Allah's Apostle got up and addressed the people. He praised Allah as He deserved and then said, "Amma ba'du ! The nations prior to you were destroyed because if a noble amongst them stole, they used to excuse him, and if a poor person amongst them stole, they would apply (Allah's) Legal Punishment to him. By Him in Whose Hand Muhammad's soul is, if Fatima, the daughter of Muhammad stole, I would cut her hand." Then Allah's Apostle gave his order in the case of that woman and her hand was cut off. Afterwards her repentance proved sincere and she got married. 'Aisha said, "That lady used to visit me and I used to convey her demands to Allah's Apostle."

حضرت عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے نبی کریم ﷺ کےزمانے میں چوری کر لی تھی۔ اس عورت کی قوم گھبرائی ہوئی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس آئی تاکہ وہ نبی ﷺ سے اس کی سفارش کر دیں (کہ اس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نہ کاٹا جائے)۔ عروہ نے بیان کیا کہ جب اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے گفتگو کی تو آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا! تم مجھ سے اللہ کی قائم کی ہوئی ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے لیے دعا مغفرت کیجئے، یا رسول اللہ! پھر دوپہر بعد نبی کریم ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوگئے کہ اگر ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کوئی کمزور چوری کر لیتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کر لے تو میں اس کا ہاتھ کاٹوں گا۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اس عورت کے لیے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اس عورت نے صدق دل سے توبہ کرلی اور شادی بھی کر لی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بعد میں وہ میرے یہاں آتی تھیں۔ ان کو اور کوئی ضرورت ہوتی تو میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کردیتی۔


حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي مُجَاشِعٌ، قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بِأَخِي بَعْدَ الْفَتْحِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ بِأَخِي لِتُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ ذَهَبَ أَهْلُ الْهِجْرَةِ بِمَا فِيهَا ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ عَلَى أَىِّ شَىْءٍ تُبَايِعُهُ قَالَ ‏"‏ أُبَايِعُهُ عَلَى الإِسْلاَمِ وَالإِيمَانِ وَالْجِهَادِ ‏"‏‏.‏ فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ بَعْدُ وَكَانَ أَكْبَرَهُمَا فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ صَدَقَ مُجَاشِعٌ‏.‏

Narrated By Majashi : I took my brother to the Prophet after the Conquest (of Mecca) and said, "O Allah's Apostle! I have come to you with my brother so that you may take a pledge of allegiance from him for migration." The Prophet said, The people of migration (i.e. those who migrated to Medina before the Conquest) enjoyed the privileges of migration (i.e. there is no need for migration anymore)." I said to the Prophet, "For what will you take his pledge of allegiance?" The Prophet said, "I will take his pledge of allegiance for Islam, Belief, and for Jihad (i.e. fighting in Allah's Cause)"

حضرت مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے بعد میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں اپنے بھائی (مجالد) کو لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اسے اس لیے لے کر حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ ہجرت پر اس سے بیعت لے لیں۔ نبیﷺنے فرمایا کہ ہجرت کرنے والے اس کی فضیلت و ثواب کو حاصل کر چکے (یعنی اب ہجرت کرنے کا زمانہ تو گزر چکا)۔ میں نے عرض کیا: پھر آپ اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ نبیﷺ نے فرمایا کہ ایمان، اسلام اور جہاد پر۔ ابو عثمان نہدی نے کہا کہ پھر میں (مجاشع کے بھائی) ابومعبد مجالد سے ملا وہ دونوں بھائیوں سے بڑے تھے، میں نے ان سے بھی اس حدیث کےمتعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : مجاشع نے حدیث ٹھیک طرح بیان کی ہے۔


حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنِي مُجَاشِعٌ، قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بِأَخِي بَعْدَ الْفَتْحِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ بِأَخِي لِتُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ‏.‏ قَالَ ‏"‏ ذَهَبَ أَهْلُ الْهِجْرَةِ بِمَا فِيهَا ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ عَلَى أَىِّ شَىْءٍ تُبَايِعُهُ قَالَ ‏"‏ أُبَايِعُهُ عَلَى الإِسْلاَمِ وَالإِيمَانِ وَالْجِهَادِ ‏"‏‏.‏ فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ بَعْدُ وَكَانَ أَكْبَرَهُمَا فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ صَدَقَ مُجَاشِعٌ‏.‏

Narrated By Majashi : I took my brother to the Prophet after the Conquest (of Mecca) and said, "O Allah's Apostle! I have come to you with my brother so that you may take a pledge of allegiance from him for migration." The Prophet said, The people of migration (i.e. those who migrated to Medina before the Conquest) enjoyed the privileges of migration (i.e. there is no need for migration anymore)." I said to the Prophet, "For what will you take his pledge of allegiance?" The Prophet said, "I will take his pledge of allegiance for Islam, Belief, and for Jihad (i.e. fighting in Allah's Cause)"

حضرت مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے بھائی (مجالد) کو لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اسے اس لیے لے کر حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ ہجرت پر اس سے بیعت لے لیں۔ نبیﷺنے فرمایا کہ ہجرت کرنے والے اس کی فضیلت و ثواب کو حاصل کر چکے (یعنی اب ہجرت کرنے کا زمانہ تو گزر چکا)۔ میں نے عرض کیا: پھر آپ اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایمان، اسلام اور جہاد پر۔ ابو عثمان نہدی نے کہا کہ پھر میں (مجاشع کے بھائی) ابومعبد مجالد سے ملا وہ دونوں بھائیوں سے بڑے تھے، میں نے ان سے بھی اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : مجاشع نے حدیث ٹھیک طرح بیان کی ہے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ، انْطَلَقْتُ بِأَبِي مَعْبَدٍ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لِيُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ ‏"‏ مَضَتِ الْهِجْرَةُ لأَهْلِهَا، أُبَايِعُهُ عَلَى الإِسْلاَمِ وَالْجِهَادِ ‏"‏‏.‏ فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ صَدَقَ مُجَاشِعٌ‏.‏ وَقَالَ خَالِدٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ مُجَاشِعٍ أَنَّهُ جَاءَ بِأَخِيهِ مُجَالِدٍ‏.‏

Narrated By Mujashi bin Masud : I took Abu Mabad to the Prophet in order that he might give him the pledge of allegiance for migration. The Prophet said, "Migration has gone to its people, but I take the pledge from him (i.e. Abu Mabad) for Islam and Jihad."

حضرت مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں (اپنے بھائی) ابومعبد رضی اللہ عنہ کو نبیﷺ کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کےلیے لے گیا۔ نبیﷺنے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہوچکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابوعثمان نہدی نے کہا: پھر میں نے ابومعبد رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع رضی اللہ عنہ نے ٹھیک بیان کیا اور خالد حذاء نے بھی ابوعثمان سے بیان کیا، ان سے مجاشع رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اپنے بھائی مجالد رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے تھے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ، انْطَلَقْتُ بِأَبِي مَعْبَدٍ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم لِيُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ ‏"‏ مَضَتِ الْهِجْرَةُ لأَهْلِهَا، أُبَايِعُهُ عَلَى الإِسْلاَمِ وَالْجِهَادِ ‏"‏‏.‏ فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ صَدَقَ مُجَاشِعٌ‏.‏ وَقَالَ خَالِدٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ مُجَاشِعٍ أَنَّهُ جَاءَ بِأَخِيهِ مُجَالِدٍ‏.‏

Narrated By Mujashi bin Masud : I took Abu Mabad to the Prophet in order that he might give him the pledge of allegiance for migration. The Prophet said, "Migration has gone to its people, but I take the pledge from him (i.e. Abu Mabad) for Islam and Jihad."

حضرت مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں (اپنے بھائی) ابومعبد رضی اللہ عنہ کو نبیﷺ کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کےلیے لے گیا۔ نبیﷺنے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہوچکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابوعثمان نہدی نے کہا: پھر میں نے ابومعبد رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع رضی اللہ عنہ نے ٹھیک بیان کیا اور خالد حذاء نے بھی ابوعثمان سے بیان کیا، ان سے مجاشع رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اپنے بھائی مجالد رضی اللہ عنہ کو لے کر آئے تھے۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قُلْتُ لاِبْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُهَاجِرَ إِلَى الشَّأْمِ‏.‏ قَالَ لاَ هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ، فَانْطَلِقْ فَاعْرِضْ نَفْسَكَ، فَإِنْ وَجَدْتَ شَيْئًا وَإِلاَّ رَجَعْتَ‏

Narrated By Mujahid : I said to Ibn 'Umar, "I want to migrate to Sham." He said, "There is no migration, but Jihad (for Allah's Cause). Go and offer yourself for Jihad, and if you find an opportunity for Jihad (stay there) otherwise, come back."

حضرت مجاہد سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں ملک شام کو ہجرت کرجاؤں، فرمایا: اب ہجرت باقی نہیں رہی، جہاد ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس لیے جاؤ اور خود کو پیش کرو۔اگرتم نے کچھ پا لیا تو بہتر ورنہ واپس آجانا۔


وَقَالَ النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، قُلْتُ لاِبْنِ عُمَرَ فَقَالَ لاَ هِجْرَةَ الْيَوْمَ، أَوْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ‏.‏

(In an other narration) Ibn 'Umar said, "There is no migration today or after Allah's Apostle." (and completed his statement as above.)

حضرت مجاہد سے رویت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ اب ہجرت باقی نہیں رہی یا (فرمایا کہ) رسول اللہﷺ کے بعد پھر ہجرت کہاں رہی۔


حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَمْرٍو الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ يَقُولُ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ‏.‏

Narrated By Mujahid bin Jabr : 'Abdullah bin 'Umar used to say, "There is no migration after the Conquest (of Mecca)."

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہا کرتے تھے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی۔


حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ زُرْتُ عَائِشَةَ مَعَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ فَسَأَلَهَا عَنِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَتْ لاَ هِجْرَةَ الْيَوْمَ، كَانَ الْمُؤْمِنُ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَقَدْ أَظْهَرَ اللَّهُ الإِسْلاَمَ، فَالْمُؤْمِنُ يَعْبُدُ رَبَّهُ حَيْثُ شَاءَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ‏.‏

Narrated By 'Ata' bin Abi Rabah : 'Ubaid bin 'Umar and I visited 'Aisha, and he asked her about the migration. She said, "There is no migration today. A believer used to flee with his religion to Allah and His Prophet for fear that he might be put to trial as regards his religion. Today Allah has rendered Islam victorious; therefore a believing one can worship one's Lord wherever one wishes. But there is Jihad (for Allah's Cause) and intentions."

حضرت عطا بن ابی رباح سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں عبید بن عمیر کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عبید نے ان سے ہجرت کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا: اب ہجرت باقی نہیں رہی۔ پہلے مسلمان اپنا دین بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پناہ لینے کے لیے آتے تھے، اس خوف سے کہ کہیں دین کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ اس لیے اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا تو مسلمان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے۔ اب تو صرف جہاد اور جہاد کی نیت کا ثواب باقی ہے۔


حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَامَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَقَالَ ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، فَهْىَ حَرَامٌ بِحَرَامِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِي، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِي، وَلَمْ تَحْلِلْ لِي إِلاَّ سَاعَةً مِنَ الدَّهْرِ، لاَ يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلاَ يُعْضَدُ شَوْكُهَا، وَلاَ يُخْتَلَى خَلاَهَا وَلاَ تَحِلُّ لُقَطَتُهَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلاَّ الإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لاَ بُدَّ مِنْهُ لِلْقَيْنِ وَالْبُيُوتِ، فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ إِلاَّ الإِذْخِرَ فَإِنَّهُ حَلاَلٌ ‏"‏‏.‏ وَعَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمِثْلِ هَذَا أَوْ نَحْوِ هَذَا‏.‏ رَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

Narrated By Mujahid : Allah's Apostle got up on the day of the Conquest of Mecca and said, "Allah has made Mecca a sanctuary since the day He created the Heavens and the Earth, and it will remain a sanctuary by virtue of the sanctity Allah has bestowed on it till the Day of Resurrection. It (i.e. fighting in it) was not made lawful to anyone before me!, nor will it be made lawful to anyone after me, and it was not made lawful for me except for a short period of time. Its game should not be chased, nor should its trees be cut, nor its vegetation or grass uprooted, not its Luqata (i.e. Most things) picked up except by one who makes a public announcement about it." Al-Abbas bin 'Abdul Muttalib said, "Except the Idhkhir, O Allah's Apostle, as it is indispensable for blacksmiths and houses." On that, the Prophet kept quiet and then said, "Except the Idhkhir as it is lawful to cut."

حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا، اسی دن اس نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دے دیا تھا۔ پس یہ شہر اللہ کے حکم کے مطابق قیامت تک کے لیے حرمت والا رہے گا۔ جو مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کےلیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی صرف ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل جانور نہ چھیڑے جائیں۔ یہاں کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے اور یہاں پر گری پڑی چیز اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور کسی کےلیے اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! اذخر (گھاس) کی اجازت دے دیجئے کیونکہ سناروں کے لیے اور مکانات (کی تعمیر وغیرہ) کےلیے یہ ضروری ہے۔ آپﷺ خاموش ہو گئے پھر فرمایا اذخر اس حکم سے الگ ہے اس کا(کاٹنا) حلال ہے۔ دوسری روایت ابن جریج سے (اسی سند سے) ایسی ہی ہے انہوں نے عبدالکریم بن مالک سے، انہوں نے ابن عباس سے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم ﷺ سے ایسے ہی روایت کی ہے۔

Chapter No: 55

باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ }‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏غَفُورٌ رَحِيمٌ‏}‏‏

The Statement of Allah, "(Truly, Allah has given you victory on many battlefields), and on the day of Hunain (battle) when you rejoiced at your great number ... Oft-Forgiving, Most Merciful." (V.9:25-27)

باب: جنگ حنین کا بیان۔اللہ تعالٰی کا (سورت توبہ میں) فرمانا اور خاص کر حنین کے دن کہ جب تم اپنی تعداد بہت ہونے پر اترا گئے تھے۔پھر یہ بہت ہونا کچھ تمہارے کام نہ آیا (بھگ کھڑے ہوئے) اور زمین اس قدر کشادہ ہونے پر تمہارے لئے تنگ ہو گئی۔پھر تم پیٹھ موڑ کر بھاگ نکلے۔پھر اللہ تعالٰی نے اپنی تسلی اتاری۔آخیر آیت غفور رحیم تک۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، رَأَيْتُ بِيَدِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى ضَرْبَةً، قَالَ ضُرِبْتُهَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ حُنَيْنٍ‏.‏ قُلْتُ شَهِدْتَ حُنَيْنًا قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ‏

Narrated By Ismail : I saw (a healed scar of) blow over the hand of Ibn Abi Aufa who said, "I received that blow in the battle of Hunain in the company of the Prophet." I said, "Did you take part in the battle of Hunain?" He replied, "Yes (and in other battles) before it."

اسماعیل بن ابی خالد سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں زخم کا نشان دیکھا پھر انہوں نے بتلایا کہ یہ زخم اس وقت آیا تھا جب میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوۂ حنین میں شریک تھا۔ میں نے کہا، آپ حنین میں شریک تھے؟ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی میں کئی غزوات میں شریک ہوچکا ہوں۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، رضى الله عنه وَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا عُمَارَةَ أَتَوَلَّيْتَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَالَ أَمَّا أَنَا فَأَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ لَمْ يُوَلِّ، وَلَكِنْ عَجِلَ سَرَعَانُ الْقَوْمِ، فَرَشَقَتْهُمْ هَوَازِنُ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِرَأْسِ بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ يَقُولُ ‏{‏أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ‏}‏‏.‏

Narrated By Al-Bara' : When a man came and said to him, "O Abu 'Umara! Did you flee on the day (of the battle) of Hunain?" Al-Bara' replied, "I testify that the Prophet did not flee, but the hasty people hurried away and the people of Hawazin threw arrows at them. At that time, Abu Sufyan bin Al-Harith was holding the white mule of the Prophet by the head, and the Prophet was saying, "I am the Prophet undoubtedly: I am the son of 'Abdul-Muttalib."

ابواسحاق سے مروی ہے انہوں نے کہا میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے سنا، ان کے یہاں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ اے ابو عمارہ! کیا تم نے حنین کی لڑائی میں پیٹھ پھیر لی تھی؟ انہوں نے کہا، میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ نبی ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ البتہ جو لوگ قوم میں جلد باز تھے، انہوں نے اپنی جلد بازی کا ثبوت دیا تھا، پس قبیلہ ہوازن والوں نے ان پر تیر برسائے۔ ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نبیﷺکے سفید خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے اور نبی ﷺ فرما رہے تھے «أنا النبي لا كذب،‏‏‏‏ أنا ابن عبد المطلب‏» میں نبی ہوں اس میں بالکل جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔


حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قِيلَ لِلْبَرَاءِ وَأَنَا أَسْمَعُ، أَوَلَّيْتُمْ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَالَ أَمَّا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَلاَ، كَانُوا رُمَاةً فَقَالَ ‏"‏ أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ‏"‏‏.

Narrated By Al-Bara' : He was asked while Abu Ishaq was listening, "Did you flee (before the enemy) along with the Prophet on the day of (the battle of) Hunain?" He replied, "As for the Prophet, he did not (flee). The enemy were good archers and the Prophet was saying, "I am the Prophet undoubtedly; I am the son of 'Abdul Muttalib."

ابواسحاق سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ تم لوگوں نے نبیﷺکے ساتھ غزوۂ حنین میں پیٹھ پھیرلی تھی؟ انہوں نے کہا جہاں تک نبیﷺ کا تعلق ہے تو آپﷺنے پیٹھ نہیں پھیری تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ہوازن والے بڑے تیرانداز تھے، نبیﷺ نے اس موقع پر فرمایا تھا «أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب» میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعَ الْبَرَاءَ ـ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ ـ أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَالَ لَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَفِرَّ، كَانَتْ هَوَازِنُ رُمَاةً، وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمِ انْكَشَفُوا، فَأَكْبَبْنَا عَلَى الْغَنَائِمِ، فَاسْتُقْبِلْنَا بِالسِّهَامِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ آخِذٌ بِزِمَامِهَا وَهْوَ يَقُولُ ‏{‏أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ‏}‏‏.‏ قَالَ إِسْرَائِيلُ وَزُهَيْرٌ نَزَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَنْ بَغْلَتِهِ‏.‏

Narrated By Al-Bara : When a man from Qais (tribe) asked him "Did you flee leaving Allah's Apostle on the day (of the battle) of Hunain?" Al-Bara' replied, "But Allah's Apostle did not flee. The people of Hawazin were good archers, and when we attacked them, they fled. But rushing towards the booty, we were confronted by the arrows (of the enemy). I saw the Prophet riding his white mule while Abu Sufyan was holding its reins, and the Prophet was saying "I am the Prophet undoubtedly." (Israil and Zuhair said, "The Prophet dismounted from his Mule.")

ابواسحاق سے مروی ہے انہوں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے سنا اور ان سے قبیلہ قیس کے ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا تم لوگ نبی ﷺ کو غزوہ حنین میں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے؟ انہوں نے کہا: لیکن نبی ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہٹے تھے۔ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیرانداز تھے، جب ان پر ہم نے حملہ کیا تو وہ پسپا ہو گئے پھر ہم لوگ مال غنیمت میں لگ گئے۔ آخر ہمیں ان کے تیروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ نبی ﷺ اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ اس کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپﷺ فرما رہے تھے «أنا النبي لا كذب‏» میں نبی ہوں، اس میں جھوٹ نہیں۔ اسرائیل اور زہیر نے بیان کیا کہ بعد میں آپﷺاپنے خچر سے اتر گئے۔


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي لَيْثٌ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏.‏ وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ،، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَىَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْىَ، وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِكُمْ ‏"‏‏.‏ وَكَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلاَّ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا‏.‏ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْمُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ، حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا، فَلْيَفْعَلْ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ ‏"‏‏.‏ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا‏.‏ هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْىِ هَوَازِنَ‏.‏

Narrated By Marwan and Al-Miswar bin Makhrama : When the delegate of Hawazin came to Allah's Apostle declaring their conversion to Islam and asked him to return their properties and captives, Allah's Apostle got up and said to them, "There Is involved in this matter, the people whom you see with me, and the most beloved talk to me, is the true one. So choose one of two alternatives: Either the captives or the properties. I have been waiting for you (i.e. have not distributed the booty)." Allah's Apostle had delayed the distribution of their booty over ten nights after his return from Ta'if. So when they came to know that Allah's Apostle was not going to return to them but one of the two, they said, "We prefer to have our captives." So Allah's Apostle got up amongst the Muslims, and praising Allah as He deserved, said, "To proceed! Your brothers have come to you with repentance and I see (it logical) to return their captives. So, whoever of you likes to do that as a favour then he can do it. And whoever of you likes to stick to his share till we give him from the very first booty which Allah will give us, then he can do so." The people said, "We do that (i.e. return the captives) willingly as a favour, 'O Allah's Apostle!" Allah's Apostle said, "We do not know which of you have agreed to it and which have not; so go back and let your chiefs forward us your decision." They went back and their chief's spoke to them, and they (i.e. the chiefs) returned to Allah's Apostle and informed him that all of them had agreed (to give up their captives) with pleasure, and had given their permission (i.e. that the captives be returned to their people). (The sub-narrator said, "That is what has reached me about the captives of Hawazin tribe.")

مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوںنے خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ رخصت دینے کھڑے ہوئے، انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے (قبیلے کے قیدی) انہیں واپس دئیے جائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جیسا کہ تم لوگ دیکھ رہے ہو، میرے ساتھ کتنے اور لوگ بھی ہیں اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس لیے تم لوگ ایک ہی چیز پسند کر لو یا تو اپنے قیدی لے لو یا مال لے لو۔ میں نے تم ہی لوگوں کے خیال سے (قیدیوں کی تقسیم میں)تاخیر کی تھی۔ نبی ﷺ نے طائف سے واپس ہو کر تقریباً دس دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر واضح ہو گیا کہ نبی ﷺ انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم اپنے (قبیلے کے) قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تمہارے بھائی (قبیلہ ہوازن کے لوگ) توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں، مسلمان ہو کر اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں۔ اس لیے جو شخص (بلا کسی دنیاوی صلہ کے) انہیں اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے یہ بہتر ہے اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں، ان کا حق قائم رہے گا۔ وہ یوں کر لیں کہ اس کے بعد جو سب سے پہلے غنیمت اللہ تعالیٰ ہمیں عنایت فرمائے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلہ دے دیں گے تو وہ ان کے قیدی واپس کر دیں۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: یا رسول اللہ! ہم خوشی سے (بلا کسی بدلہ کے) واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح ہمیں اس کا علم نہیں ہو گا کہ کس نے اپنی خوشی سے واپس کیا ہے اور کس نے نہیں، اس لیے سب لوگ جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب واپس آ گئے اور ان کے چودھریوں نے ان سے گفتگو کی پھر وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سب نے خوشی اور فراخ دلی کے ساتھ اجازت دے دی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا یہی ہے وہ حدیث جو مجھے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق پہنچی ہے۔


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي لَيْثٌ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،‏.‏ وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ،، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ مَرْوَانَ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَىَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْىَ، وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِكُمْ ‏"‏‏.‏ وَكَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلاَّ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا‏.‏ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي الْمُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ، حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا، فَلْيَفْعَلْ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ ‏"‏‏.‏ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا‏.‏ هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْىِ هَوَازِنَ‏.‏

Narrated By Marwan and Al-Miswar bin Makhrama : When the delegate of Hawazin came to Allah's Apostle declaring their conversion to Islam and asked him to return their properties and captives, Allah's Apostle got up and said to them, "There Is involved in this matter, the people whom you see with me, and the most beloved talk to me, is the true one. So choose one of two alternatives: Either the captives or the properties. I have been waiting for you (i.e. have not distributed the booty)." Allah's Apostle had delayed the distribution of their booty over ten nights after his return from Ta'if. So when they came to know that Allah's Apostle was not going to return to them but one of the two, they said, "We prefer to have our captives." So Allah's Apostle got up amongst the Muslims, and praising Allah as He deserved, said, "To proceed! Your brothers have come to you with repentance and I see (it logical) to return their captives. So, whoever of you likes to do that as a favour then he can do it. And whoever of you likes to stick to his share till we give him from the very first booty which Allah will give us, then he can do so." The people said, "We do that (i.e. return the captives) willingly as a favour, 'O Allah's Apostle!" Allah's Apostle said, "We do not know which of you have agreed to it and which have not; so go back and let your chiefs forward us your decision." They went back and their chief's spoke to them, and they (i.e. the chiefs) returned to Allah's Apostle and informed him that all of them had agreed (to give up their captives) with pleasure, and had given their permission (i.e. that the captives be returned to their people). (The sub-narrator said, "That is what has reached me about the captives of Hawazin tribe.")

مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوںنے خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو رسول اللہ ﷺ رخصت دینے کھڑے ہوئے، انہوں نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کا مال اور ان کے (قبیلے کے قیدی) انہیں واپس دئیے جائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جیسا کہ تم لوگ دیکھ رہے ہو، میرے ساتھ کتنے اور لوگ بھی ہیں اور دیکھو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس لیے تم لوگ ایک ہی چیز پسند کر لو یا تو اپنے قیدی لے لو یا مال لے لو۔ میں نے تم ہی لوگوں کے خیال سے (قیدیوں کی تقسیم میں)تاخیر کی تھی۔ نبی ﷺ نے طائف سے واپس ہو کر تقریباً دس دن ان کا انتظار کیا تھا۔ آخر جب ان پر واضح ہو گیا کہ نبی ﷺ انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم اپنے (قبیلے کے) قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب کیا، اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق ثنا کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! تمہارے بھائی (قبیلہ ہوازن کے لوگ) توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں، مسلمان ہو کر اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں۔ اس لیے جو شخص (بلا کسی دنیاوی صلہ کے) انہیں اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے یہ بہتر ہے اور جو لوگ اپنا حصہ نہ چھوڑنا چاہتے ہوں، ان کا حق قائم رہے گا۔ وہ یوں کر لیں کہ اس کے بعد جو سب سے پہلے غنیمت اللہ تعالیٰ ہمیں عنایت فرمائے گا اس میں سے ہم انہیں اس کے بدلہ دے دیں گے تو وہ ان کے قیدی واپس کر دیں۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: یا رسول اللہ! ہم خوشی سے (بلا کسی بدلہ کے) واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح ہمیں اس کا علم نہیں ہو گا کہ کس نے اپنی خوشی سے واپس کیا ہے اور کس نے نہیں، اس لیے سب لوگ جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب واپس آ گئے اور ان کے چودھریوں نے ان سے گفتگو کی پھر وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سب نے خوشی اور فراخ دلی کے ساتھ اجازت دے دی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا یہی ہے وہ حدیث جو مجھے قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق پہنچی ہے۔


حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ‏.‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا قَفَلْنَا مِنْ حُنَيْنٍ سَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَنْ نَذْرٍ كَانَ نَذَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ اعْتِكَافٍ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِوَفَائِهِ‏.‏ وَقَالَ بَعْضُهُمْ حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ‏.‏ وَرَوَاهُ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : When we returned from (the battle of) Hunain, 'Umar asked the Prophet about a vow which he had made during the Pre-Islamic period of Ignorance that he would perform Itikaf. The Prophet ordered him to fulfil his vow.

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم غزوہ حنین سے واپس ہو رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے اپنی ایک نذر کے متعلق پوچھا جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں اعتکاف کی مانی تھی اور نبی ﷺ نے انہیں اسے پوری کرنے کا حکم دیا۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی دو اور سندیں بیان کی ہیں ۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، فَرَأَيْتُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ، قَدْ عَلاَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَضَرَبْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ بِالسَّيْفِ، فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ، وَأَقْبَلَ عَلَىَّ فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ فَقُلْتُ مَا بَالُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ‏.‏ ثُمَّ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ مَنْ قَتَلَ قَتِيلاً لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ ـ قَالَ ـ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ فَقُمْتُ فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي ثُمَّ جَلَسْتُ قَالَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِثْلَهُ، فَقُمْتُ فَقَالَ ‏"‏ مَالَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ ‏"‏‏.‏ فَأَخْبَرْتُهُ‏.‏ فَقَالَ رَجُلٌ صَدَقَ وَسَلَبُهُ عِنْدِي، فَأَرْضِهِ مِنِّي‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لاَهَا اللَّهِ، إِذًا لاَ يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم فَيُعْطِيَكَ سَلَبَهُ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صَدَقَ فَأَعْطِهِ ‏"‏‏.‏ فَأَعْطَانِيهِ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الإِسْلاَمِ‏.‏

Narrated By Abu Qatada : We set out along with the Prophet during the year of (the battle of) Hunain, and when we faced the enemy, the Muslims (with the exception of the Prophet and some of his companions) retreated (before the enemy). I saw one of the pagans over-powering one of the Muslims, so I struck the pagan from behind his neck causing his armour to be cut off. The pagan headed towards me and pressed me so forcibly that I felt as if I was dying. Then death took him over and he released me. Afterwards I followed 'Umar and said to him, "What is wrong with the people?" He said, "It is the Order of Allah." Then the Muslims returned (to the battle after the flight) and (after overcoming the enemy) the Prophet sat and said, "Whoever had killed an Infidel and has an evidence to this issue, will have the Salb (i.e. the belonging of the deceased e.g. clothes, arms, horse, etc)." I (stood up) and said, "Who will be my witness?" and then sat down. Then the Prophet repeated his question. Then the Prophet said the same (for the third time). I got up and said, "Who will be my witness?" and then sat down. The Prophet asked his former question again. So I got up. The Prophet said, What is the matter, O Abu Qatada?" So I narrated the whole story; A man said, "Abu Qatada has spoken the truth, and the Salb of the deceased is with me, so please compensate Abu Qatada on my behalf." Abu Bakr said, "No! By Allah, it will never happen that the Prophet will leave a Lion of Allah who fights for the Sake of Allah and His Apostle and give his spoils to you." The Prophet said, "Abu Bakr has spoken the truth. Give it (the spoils) back to him (O man)!" So he gave it to me and I bought a garden in (the land of) Banu Salama with it (i.e. the spoils) and that was the first property I got after embracing Islam.

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے لیے ہم نبی کریم ﷺکے ساتھ نکلے۔ جب جنگ ہوئی تو مسلمان ذرا ڈگمگا گئے (یعنی آگے پیچھے ہو گئے)۔ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان کے اوپر غالب ہو رہا ہے، میں نے پیچھے سے اس کی گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ ڈالی۔ اب وہ مجھ پر پلٹ پڑا اور مجھے اتنی زور سے دبایا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی، آخر وہ مر گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر میری ملاقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، یہی اللہ عزوجل کا حکم ہے۔ پھر مسلمان پلٹے اور (جنگ ختم ہونے کے بعد) نبی کریم ﷺ تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہی بھی ہو تو اس کا تمام سامان اسی کو ملے گا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ بیان کیا کہ پھر آپﷺ نے دوبارہ یہی فرمایا۔ اس مرتبہ پھر میں نے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ اور پھر بیٹھ گیا۔ آپﷺ نے پھر اپنا فرمان دہرایا تو میں اس مرتبہ کھڑا ہو گیا۔ آپﷺ نے اس مرتبہ فرمایا کیا بات ہے، اے ابوقتادہ! میں نے آپﷺ کو بتایا تو ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی) نے کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور ان کے مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں (کہ سامان مجھ سے نہ لیں) اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے لڑتا ہے پھر نبیﷺ اس کا حق تمہیں ہرگز نہیں دے سکتے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، تم سامان ابوقتادہ کو دے دو۔ انہوں نے سامان مجھے دے دیا۔ میں نے اس سامان سے قبیلہ سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اسلام لانے کے بعد یہ میرا پہلا مال تھا، جسے میں نے حاصل کیا تھا۔


وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ، مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ نَظَرْتُ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُ رَجُلاً مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَآخَرُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَخْتِلُهُ مِنْ وَرَائِهِ لِيَقْتُلَهُ، فَأَسْرَعْتُ إِلَى الَّذِي يَخْتِلُهُ فَرَفَعَ يَدَهُ لِيَضْرِبَنِي، وَأَضْرِبُ يَدَهُ، فَقَطَعْتُهَا، ثُمَّ أَخَذَنِي، فَضَمَّنِي ضَمًّا شَدِيدًا حَتَّى تَخَوَّفْتُ، ثُمَّ تَرَكَ فَتَحَلَّلَ، وَدَفَعْتُهُ ثُمَّ قَتَلْتُهُ، وَانْهَزَمَ الْمُسْلِمُونَ، وَانْهَزَمْتُ مَعَهُمْ، فَإِذَا بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ لَهُ مَا شَأْنُ النَّاسِ قَالَ أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ تَرَاجَعَ النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ أَقَامَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ ‏"‏‏.‏ فَقُمْتُ لأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي فَجَلَسْتُ، ثُمَّ بَدَا لِي، فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ سِلاَحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ‏.‏ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ كَلاَّ لاَ يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَدَّاهُ إِلَىَّ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الإِسْلاَمِ‏.‏

Narrated By Abu Qatada : When it was the day of (the battle of) Hunain, I saw a Muslim man fighting with one of the pagans and another pagan was hiding himself behind the Muslim in order to kill him. So I hurried towards the pagan who was hiding behind the Muslim to kill him, and he raised his hand to hit me but I hit his hand and cut it off. That man got hold of me and pressed me so hard that I was afraid (that I would die), then he knelt down and his grip became loose and I pushed him and killed him. The Muslims (excepting the Prophet and some of his companions) started fleeing and I too, fled with them. Suddenly I met 'Umar bin Al-Khattab amongst the people and I asked him, "What is wrong with the people?" He said, "It is the order of Allah" Then the people returned to Allah's Apostle (after defeating the enemy). Allah's Apostle said, "Whoever produces a proof that he has killed an infidel, will have the spoils of the killed man." So I got up to look for an evidence to prove that I had killed an infidel, but I could not find anyone to bear witness for me, so I sat down. Then it came to my mind (that I should speak of it) and I mentioned the case to Allah's Apostle. A man from the persons who were sitting with him (i.e. the Prophet), said, "The arms of the deceased one whom he (i.e. Abu Qatada) has mentioned, are with me, so please compensate him for it (i.e. the spoils)," Abu Bakr said, "No, Allah's Apostle will not give it (i.e. the spoils) to a weak humble person from Quraish and leave one of Allah's Lions who fights on behalf of Allah and His Apostle." Allah's Apostle then got up and gave that (spoils) to me, and I bought with it, a garden which was the first property I got after embracing Islam.

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے دبایا کہ میں ڈر گیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ لوگوں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، پھر لوگ نبی ﷺ کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ لے آئے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی ﷺ کو دی۔ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے، آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ ﷺ نہیں دے سکتے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا۔

Chapter No: 56

باب غَزَاةِ أَوْطَاسٍ

The Ghazwa of Autas.

باب: غزوۂ اوطاس کا بیان۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ، فَقُتِلَ دُرَيْدٌ وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ‏.‏ قَالَ أَبُو مُوسَى وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ، رَمَاهُ جُشَمِيٌّ بِسَهْمٍ فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا عَمِّ مَنْ رَمَاكَ فَأَشَارَ إِلَى أَبِي مُوسَى فَقَالَ ذَاكَ قَاتِلِي الَّذِي رَمَانِي‏.‏ فَقَصَدْتُ لَهُ فَلَحِقْتُهُ فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلاَ تَسْتَحِي، أَلاَ تَثْبُتُ‏.‏ فَكَفَّ فَاخْتَلَفْنَا ضَرْبَتَيْنِ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ ثُمَّ قُلْتُ لأَبِي عَامِرٍ قَتَلَ اللَّهُ صَاحِبَكَ‏.‏ قَالَ فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ‏.‏ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَقْرِئِ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم السَّلاَمَ، وَقُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي‏.‏ وَاسْتَخْلَفَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، فَمَكَثَ يَسِيرًا ثُمَّ مَاتَ، فَرَجَعْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي بَيْتِهِ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ قَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِهِ وَجَنْبَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ، وَقَالَ قُلْ لَهُ اسْتَغْفِرْ لِي، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ ‏"‏‏.‏ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنَ النَّاسِ ‏"‏‏.‏ فَقُلْتُ وَلِي فَاسْتَغْفِرْ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلاً كَرِيمًا ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو بُرْدَةَ إِحْدَاهُمَا لأَبِي عَامِرٍ وَالأُخْرَى لأَبِي مُوسَى‏.

Narrated By Abu Musa : When the Prophet had finished from the battle of Hunain, he sent Abu Amir at the head of an army to Autas He (i.e. Abu Amir) met Duraid bin As Summa and Duraid was killed and Allah defeated his companions. The Prophet sent me with Abu 'Amir. Abu Amir was shot at his knee with an arrow which a man from Jushm had shot and fixed into his knee. I went to him and said, "O Uncle! Who shot you?" He pointed me out (his killer) saying, "That is my killer who shot me (with an arrow)." So I headed towards him and overtook him, and when he saw me, he fled, and I followed him and started saying to him, "Won't you be ashamed? Won't you stop?" So that person stopped, and we exchanged two hits with the swords and I killed him. Then I said to Abu 'Amir. "Allah has killed your killer." He said, "Take out this arrow" So I removed it, and water oozed out of the wound. He then said, "O son of my brother! Convey my compliments to the Prophet and request him to ask Allah's Forgiveness for me." Abu Amir made me his successor in commanding the people (i.e. troops). He survived for a short while and then died. (Later) I returned and entered upon the Prophet at his house, and found him lying in a bed made of stalks of date-palm leaves knitted with ropes, and on it there was bedding. The strings of the bed had their traces over his back and sides. Then I told the Prophet about our and Abu Amir's news and how he had said "Tell him to ask for Allah's Forgiveness for me." The Prophet asked for water, performed ablution and then raised hands, saying, "O Allah's Forgive 'Ubaid, Abu Amir." At that time I saw the whiteness of the Prophet's armpits. The Prophet then said, "O Allah, make him (i.e. Abu Amir) on the Day of Resurrection, superior to many of Your human creatures." I said, "Will you ask Allah's Forgiveness for me?" (On that) the Prophet said, "O Allah, forgive the sins of 'Abdullah bin Qais and admit him to a nice entrance (i.e. paradise) on the Day of Resurrection." Abu Burda said, "One of the prayers was for Abu 'Amir and the other was for Abu Musa (i.e. 'Abdullah bin Qais)."

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوۂ حنین سے فارغ ہو گئے تو آپﷺ نے ایک دستے کے ساتھ ابوعامر رضی اللہ عنہ کو وادی اوطاس کی طرف بھیجا۔ اس معرکہ میں درید بن الصمہ سے مقابلہ ہوا۔ درید قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو شکست دے دی۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی ﷺ نے مجھے بھی بھیجا تھا۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے میں تیر آ کر لگا۔ بنی جعشم کے ایک شخص نے ان پر تیر مارا تھا اور ان کے گھٹنے میں اتار دیا تھا۔ میں ان کے پاس پہنچا اور کہا:چچا! یہ تیر آپ پر کس نے پھینکا؟ انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو اشارے سے بتایا کہ وہ جعشمی میرا قاتل ہے جس نے مجھے نشانہ بنایا ہے۔ میں اس کی طرف لپکا اور اس کے قریب پہنچ گیا لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ بھاگ پڑا میں نے اس کا پیچھا کیا اور میں یہ کہتا جاتا تھا، تجھے شرم نہیں آتی، تجھ سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ آخر وہ رک گیا اور ہم نے ایک دوسرے پر تلوار سے وار کیا۔ میں نے اسے قتل کر دیا اور ابوعامر رضی اللہ عنہ سے جا کر کہا کہ اللہ نے آپ کے قاتل کو قتل کروا دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے (گھٹنے میں سے) تیر نکال لے، میں نے نکال دیا تو اس سے پانی جاری ہو گیا پھر انہوں نے فرمایا: بھتیجے! نبی کریم ﷺ کو میرا سلام پہنچانا اور عرض کرنا کہ میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے لوگوں پر مجھے اپنا نائب بنا دیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر اور زندہ رہے اور شہادت پائی۔ میں واپس ہوا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا۔ آپ اپنے گھر میں بانوں کی ایک چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ اس پر کوئی بستر بچھا ہوا نہیں تھا اور بانوں کے نشانات آپ کی پیٹھ اور پہلو پر پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ سے اپنے اور ابوعامر رضی اللہ عنہ کے واقعات بیان کئے اور یہ کہ انہوں نے دعا مغفرت کے لیے درخواست کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پانی طلب فرمایا اور وضو کیا پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی، اے اللہ! عبید ابوعامر کی مغفرت فرما۔ میں نے آپ ﷺ کی بغل میں سفیدی (جب آپ دعا کر رہے تھے) دیکھی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے دعا کی، اے اللہ! قیامت کے دن ابوعامر کو اپنی بہت سی مخلوق سے بلند تر درجہ عطا فرمانا۔ میں نے عرض کیا اور میرے لیے بھی اللہ سے مغفرت کی دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے دعا کی اے اللہ! عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ کے گناہوں کو بھی معاف فرما اور قیامت کے دن اچھا مقام عطا فرمانا۔ ابوبردہ نے بیان کیا کہ ایک دعا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے لیے تھی اور دوسری ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے لیے۔

Chapter No: 57

باب غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ

The Ghazwa of At-Taif was in the month of Shawwal, during the 8th year

باب: غزوۂ طائف کا بیان جو شوال ؁۸ ھ میں ہوا۔

قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقَبْةَ‏

Musa bin Uqba said so.

یہ موسٰی بن عقبہ نے (اپنے مغازی میں) بیان کیا۔

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، سَمِعَ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ ـ رضى الله عنها ـ دَخَلَ عَلَىَّ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَعِنْدِي مُخَنَّثٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ الطَّائِفَ غَدًا فَعَلَيْكَ بِابْنَةِ غَيْلاَنَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ‏.‏ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ يَدْخُلَنَّ هَؤُلاَءِ عَلَيْكُنَّ ‏"‏‏.‏ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ الْمُخَنَّثُ هِيتٌ‏.‏ حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا، وَزَادَ وَهْوَ مُحَاصِرٌ الطَّائِفَ يَوْمَئِذٍ‏.

Narrated By Um Salama : The Prophet came to me while there was an effeminate man sitting with me, and I heard him (i.e. the effeminate man) saying to 'Abdullah bin Abi Umaiya, "O 'Abdullah! See if Allah should make you conquer Ta'if tomorrow, then take the daughter of Ghailan (in marriage) as (she is so beautiful and fat that) she shows four folds of flesh when facing you, and eight when she turns her back." The Prophet then said, "These (effeminate men) should never enter upon you (O women!)." Ibn Juraij said, "That effeminate man was called Hit." Narrated By Hisham : The above narration and added extra, that at that time, the Prophet, was besieging Taif.

حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ میرے یہاں تشریف لائے تو میرے پاس ایک مخنث ( ہیجڑا ) بیٹھا ہوا تھا وہ عبداللہ بن امیہ سے کہہ رہا تھا کہ اے عبداللہ! دیکھو اگر کل اللہ تعالیٰ نے طائف کی فتح تمہیں عطا فرمائی تو غیلان بن سلمہ کی بیٹی (بادیہ نامی) کو لے لینا وہ جب سامنے آتی ہے تو پیٹ پر چار بل اور پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو آٹھ بل دکھائی دیتے ہیں (یعنی بہت موٹی تازہ عورت ہے) تو نبی ﷺ نے فرمایا :یہ لوگ (یعنی ہیجڑے)اب تمہارے گھر میں نہ آیا کریں۔ ابن عیینہ نے بیان کیا کہ ابن جریج نے کہا، اس مخنث کا نام ہیت تھا۔ ہم سے محمود نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے اسی طرح بیان کیا اور یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی ﷺاس وقت طائف کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الشَّاعِرِ الأَعْمَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ لَمَّا حَاصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الطَّائِفَ فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا قَالَ ‏"‏ إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ‏"‏‏.‏ فَثَقُلَ عَلَيْهِمْ وَقَالُوا نَذْهَبُ وَلاَ نَفْتَحُهُ ـ وَقَالَ مَرَّةً نَقْفُلُ ـ فَقَالَ ‏"‏ اغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ ‏"‏‏.‏ فَغَدَوْا فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ فَقَالَ ‏"‏ إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ ‏"‏‏.‏ فَأَعْجَبَهُمْ فَضَحِكَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً فَتَبَسَّمَ‏.‏ قَالَ قَالَ الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْخَبَرَ كُلَّهُ‏

Narrated By 'Abdullah bin Amr : When Allah's Apostle besieged Taif and could not conquer its people, he said, "We will return (to Medina) If Allah wills." That distressed the Companions (of the Prophet and they said, "Shall we go away without conquering it (i.e. the Fort of Taif)?" Once the Prophet said, "Let us return." Then the Prophet said (to them), "Fight tomorrow." They fought and (many of them) got wounded, whereupon the Prophet said, "We will return (to Medina) tomorrow if Allah wills." That delighted them, whereupon the Prophet smiled. The sub-narrator, Sufyan said once, "(The Prophet) smiled."

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہﷺنے طائف کا محاصرہ کیا تو دشمن کا کچھ بھی نقصان نہیں کیا۔ آخر آپﷺ نے فرمایا کہ اب ان شاءاللہ ہم واپس ہو جائیں گے۔ مسلمانوں کے لیے ناکام لوٹنا بڑا شاق گزرا۔ انہوں نے کہا کہ واہ بغیر فتح کے ہم واپس چلے جائیں (راوی نے) ایک مرتبہ «نذهب» کے بجائے «نقفل» کا لفظ استعمال کیا یعنی ہم۔۔۔ لوٹ جائیں اور طائف کو فتح نہ کریں (یہ کیونکر ہو سکتا ہے) اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر صبح سویرے میدان میں جنگ کےلیے آجاؤ۔ پس وہ صحابہ سویرے ہی آ گئے لیکن ان کی بڑی تعداد زخمی ہو گئی۔ اب پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ ان شاءاللہ ہم کل واپس چلیں گے۔ صحابہ نے اسے بہت پسند کیا۔ آپ ﷺ اس پر ہنس پڑے۔ اور سفیان نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ نبی ﷺ مسکرا دئیے۔ حمیدی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے یہ پوری خبر بیان کی۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، قَالَ سَمِعْتُ سَعْدًا ـ وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ـ وَأَبَا بَكْرَةَ ـ وَكَانَ تَسَوَّرَ حِصْنَ الطَّائِفِ فِي أُنَاسٍ ـ فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالاَ سَمِعْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهْوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ‏"‏‏.‏ وَقَالَ هِشَامٌ وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، أَوْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدًا، وَأَبَا، بَكْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ عَاصِمٌ قُلْتُ لَقَدْ شَهِدَ عِنْدَكَ رَجُلاَنِ حَسْبُكَ بِهِمَا‏.‏ قَالَ أَجَلْ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَأَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَنَزَلَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثَالِثَ ثَلاَثَةٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الطَّائِفِ‏.‏

Narrated By Abu Uthman : I heard from Sad, the first man who has thrown an arrow in Allah's Cause, and from Abu Bakra who jumped over the wall of the Ta'if Fort along with a few persons and came to the Prophet. They both said, "We heard the Prophet saying, " If somebody claims to be the son of somebody other than his father knowingly, he will be denied Paradise (i.e. he will not enter Paradise).'" Narrated Ma'mar from 'Asim from Abu Al'Aliya or Abu Uthman An-Nahdi who said. "I heard Sad and Abu Bakra narrating from the Prophet." 'Asim said, "I said (to him), 'Very trustworthy persons have narrated to you.' He said, 'Yes, one of them was the first to throw an arrow in Allah's Cause and the other came to the Prophet in a group of thirty-three persons from Ta'if.'

ابوعثمان نہدی سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تھا اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے جو طائف کے قلعے پر چند مسلمانوں کے ساتھ چڑھے تھے اور اس طرح نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان دونوں اصحاب نے بیان کیا کہ ہم نے نبیﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے تو اس پر جنت حرام ہے۔ راوی ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی نے کہا : میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا، عاصم نے بیان کیا کہ میں نے (ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ) سے کہا آپ سے یہ روایت ایسے دو اصحاب (سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما) نے بیان کی ہے کہ یقین کے لیے ان کے نام کافی ہیں۔ انہوں نے کہا یقیناً ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا تھا اور دوسرے (ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) وہ ہیں جو تئیسویں آدمی تھے ان لوگوں میں جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبی ﷺ کے پاس آئے تھے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، قَالَ سَمِعْتُ سَعْدًا ـ وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ـ وَأَبَا بَكْرَةَ ـ وَكَانَ تَسَوَّرَ حِصْنَ الطَّائِفِ فِي أُنَاسٍ ـ فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالاَ سَمِعْنَا النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ ‏"‏ مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهْوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ‏"‏‏.‏ وَقَالَ هِشَامٌ وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، أَوْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدًا، وَأَبَا، بَكْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قَالَ عَاصِمٌ قُلْتُ لَقَدْ شَهِدَ عِنْدَكَ رَجُلاَنِ حَسْبُكَ بِهِمَا‏.‏ قَالَ أَجَلْ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَأَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَنَزَلَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثَالِثَ ثَلاَثَةٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الطَّائِفِ‏.‏

Narrated By Abu Uthman : I heard from Sad, the first man who has thrown an arrow in Allah's Cause, and from Abu Bakra who jumped over the wall of the Ta'if Fort along with a few persons and came to the Prophet. They both said, "We heard the Prophet saying, " If somebody claims to be the son of somebody other than his father knowingly, he will be denied Paradise (i.e. he will not enter Paradise).'" Narrated Ma'mar from 'Asim from Abu Al'Aliya or Abu Uthman An-Nahdi who said. "I heard Sad and Abu Bakra narrating from the Prophet." 'Asim said, "I said (to him), 'Very trustworthy persons have narrated to you.' He said, 'Yes, one of them was the first to throw an arrow in Allah's Cause and the other came to the Prophet in a group of thirty-three persons from Ta'if.'

ابوعثمان نہدی سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے راستے میں تیر چلایا تھا اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے جو طائف کے قلعے پر چند مسلمانوں کے ساتھ چڑھے تھے اور اس طرح نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان دونوں اصحاب نے بیان کیا کہ ہم نے نبیﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے تو اس پر جنت حرام ہے۔ راوی ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی نے کہا : میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا، عاصم نے بیان کیا کہ میں نے (ابوالعالیہ یا ابوعثمان نہدی رضی اللہ عنہ) سے کہا آپ سے یہ روایت ایسے دو اصحاب (سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما) نے بیان کی ہے کہ یقین کے لیے ان کے نام کافی ہیں۔ انہوں نے کہا یقیناً ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے تیر چلایا تھا اور دوسرے (ابوبکرہ رضی اللہ عنہ) وہ ہیں جو تئیسویں آدمی تھے ان لوگوں میں جو طائف کے قلعہ سے اتر کر نبی ﷺ کے پاس آئے تھے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلاَلٌ، فَأَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ أَلاَ تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي‏.‏ فَقَالَ لَهُ ‏"‏ أَبْشِرْ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ قَدْ أَكْثَرْتَ عَلَىَّ مِنْ أَبْشِرْ‏.‏ فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي مُوسَى وَبِلاَلٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ ‏"‏ رَدَّ الْبُشْرَى فَاقْبَلاَ أَنْتُمَا ‏"‏‏.‏ قَالاَ قَبِلْنَا‏.‏ ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ، وَمَجَّ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ ‏"‏ اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا، وَأَبْشِرَا ‏"‏‏.‏ فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلاَ، فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلاَ لأُمِّكُمَا‏.‏ فَأَفْضَلاَ لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً‏.‏

Narrated By Abu Burda : Abu Musa said, "I was with the Prophet when he was encamping at Al-Jarana (a place) between Mecca and Medina and Bilal was with him. A bedouin came to the Prophet and said, "Won't you fulfil what you have promised me?" The Prophet said, 'Rejoice (at what I will do for you).' The bedouin said, "(You have said to me) rejoice too often." Then the Prophet turned to me (i.e. Abu Musa) and Bilal in an angry mood and said, 'The bedouin has refused the good tidings, so you both accept them.' Bilal and I said, 'We accept them.' Then the Prophet asked for a drinking bowl containing water and washed his hands and face in it, and then took a mouthful of water and threw it therein saying (to us), "Drink (some of) it and pour (some) over your faces and chests and be happy at the good tidings." So they both took the drinking bowl and did as instructed. Um Salama called from behind a screen, "Keep something (of the water for your mother." So they left some of it for her.

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نبیﷺ کے قریب ہی تھا جب آپ جعرانہ سے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک مقام ہے اتر رہے تھے۔ آپﷺکے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ اسی دوران میں نبی ﷺکے پاس ایک بدوی آیا اور کہنے لگا کہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا کیوں نہیں کرتے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو۔ اس پر وہ بدوی بولا بشارت تو آپ مجھے بہت دے چکے۔ پھر آپ ﷺ نے چہرہ مبارک ابوموسیٰ اور بلال کی طرف پھیرا، آپ بہت غصے میں معلوم ہو رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا اس نے بشارت واپس کر دی اب تم دونوں اسے قبول کر لو۔ ان دونوں حضرات نے عرض کیا کہ ہم نے قبول کیا۔ پھر آپﷺ) نے پانی کا ایک پیالہ طلب فرمایا اور اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو اس میں دھویا اور اسی میں کلی کی اور (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ ہر دو سے) فرمایا کہ اس کا پانی پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر اسے ڈال لو اور بشارت حاصل کرو۔ ان دونوں نے پیالہ لے لیا اور ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ پردہ کے پیچھے سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہا اپنی ماں کے لیے بھی کچھ چھوڑ دینا۔ چنانچہ ان دونوں نے ان کے لیے ایک حصہ چھوڑ دیا۔


حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، أَخْبَرَ أَنَّ يَعْلَى كَانَ يَقُولُ لَيْتَنِي أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ‏.‏ قَالَ فَبَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالْجِعْرَانَةِ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ قَدْ أُظِلَّ بِهِ، مَعَهُ فِيهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ فِي جُبَّةٍ بَعْدَ مَا تَضَمَّخَ بِالطِّيبِ فَأَشَارَ عُمَرُ إِلَى يَعْلَى بِيَدِهِ أَنْ تَعَالَ‏.‏ فَجَاءَ يَعْلَى فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ، فَإِذَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مُحْمَرُّ الْوَجْهِ، يَغِطُّ كَذَلِكَ سَاعَةً، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَقَالَ ‏"‏ أَيْنَ الَّذِي يَسْأَلُنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنَفًا ‏"‏‏.‏ فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ فَأُتِيَ بِهِ فَقَالَ ‏"‏ أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ ‏"‏‏.‏

Narrated By Safwan bin Ya'la bin Umaiya : Ya'la used to say, "I wish I could see Allah's Apostle at the time when he is being inspired divinely." Ya'la added "While the Prophet was at Al-Ja'rana, shaded with a cloth sheet (in the form of a tent) and there were staying with him, some of his companions under it, suddenly there came to him a bedouin wearing a cloak and perfumed extravagantly. He said, "O Allah's Apostle ! What is your opinion regarding a man who assumes the state of Ihram for 'Umra wearing a cloak after applying perfume to his body?" 'Umar signalled with his hand to Ya'la to come (near). Ya'la came and put his head (underneath that cloth sheet) and saw the Prophet red-faced and when that state (of the Prophet) was over, he said, "Where is he who as already asked me about the 'Umra?" The man was looked for and brought to the Prophet The Prophet said (to him), "As for the perfume you have applied to your body, wash it off your body) thrice, and take off your cloak, and then do in your 'Umra the rites you do in your Hajj."

حضرت صفوان بن یعلیٰ بن امیہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: (ان کے والد )حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: کاش میں رسول اللہﷺ کو اس وقت دیکھ سکتا جب آپ ﷺپر وحی نازل ہوتی ہو۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ نبی ﷺ جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ کے لیے ایک کپڑے سے سایہ کر دیا گیا تھا اور اس میں چند صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ موجود تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آیا وہ ایک جبہ پہنے ہوئے ، خوشبو میں بسا ہوا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ایک ایسے شخص کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے جو اپنے جبہ میں خوشبو لگانے کے بعد احرام باندھے؟ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ کو آنے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ یعلیٰ رضی اللہ عنہ حاضر ہو گئے اور اپنا سر (نبی ﷺ کو دیکھنے کے لیے) اندر کیا (نزول وحی کی کیفیت سے) نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور زور زور سے سانس چل رہی تھی۔ تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی پھر ختم ہو گئی تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ابھی عمرہ کے متعلق جس نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ انہیں تلاش کر کے لایا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو خوشبو تم نے لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو لو اور جبہ اتار دو اور پھر عمرہ میں وہی کام کرو جو حج میں کرتے ہو۔


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ حُنَيْنٍ قَسَمَ فِي النَّاسِ فِي الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ، وَلَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ شَيْئًا، فَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ يُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ فَخَطَبَهُمْ فَقَالَ ‏"‏ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلاَّلاً فَهَدَاكُمُ اللَّهُ بِي، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ فَأَلَّفَكُمُ اللَّهُ بِي وَعَالَةً، فَأَغْنَاكُمُ اللَّهُ بِي ‏"‏‏.‏ كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ‏.‏ قَالَ ‏"‏ مَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تُجِيبُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏‏.‏ قَالَ كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ‏.‏ قَالَ ‏"‏ لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا‏.‏ أَتَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ، وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى رِحَالِكُمْ، لَوْلاَ الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ وَشِعْبَهَا، الأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ، إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ

Narrated By 'Abdullah bin Zaid bin Asim : When Allah gave to His Apostle the war booty on the day of Hunain, he distributed that booty amongst those whose hearts have been (recently) reconciled (to Islam), but did not give anything to the Ansar. So they seemed to have felt angry and sad as they did not get the same as other people had got. The Prophet then delivered a sermon before them, saying, "O, the assembly of Ansar! Didn't I find you astray, and then Allah guided you on the Right Path through me? You were divided into groups, and Allah brought you together through me; you were poor and Allah made you rich through me." Whatever the Prophet said, they (i.e. the Ansar) said, "Allah and his Apostle have more favours to do." The Prophet said, "What stops you from answering the Apostle of Allah?" But whatever he said to them, they replied, "Allah and His Apostle have more favours to do." The Prophet then said, "If you wish you could say: 'You came to us in such-and-such state (at Medina).' Wouldn't you be willing to see the people go away with sheep and camels while you go with the Prophet to your homes? But for the migration, I would have been one of the Ansar, and if the people took their way through a valley or mountain pass, I would select the valley or mountain pass of the Ansar. The Ansar are Shiar (i.e. those clothes which are in direct contact with the body and worn inside the other garments), and the people are Dithar (i.e. those clothes which are not in direct contact with the body and are worn over other garments). No doubt, you will see other people favoured over you, so you should be patient till you meet me at the Tank (of Kauthar)."

حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں (جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو نبیﷺ نے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا۔ آپ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا: اے انصاریو! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی۔ تم آپس میں جدا جدا تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں اتحاد و اتفاق پیدا فرمایا۔تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کون سی چیز روک رہی ہے ؟ بیان کیا کہ آپﷺ کے ہر اشارہ پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو مجھ سے اس طرح بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے پاس ان ان حالات میں تشریف لائے ۔کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جا رہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے جاؤ؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔ اگر لوگ کسی گھاٹی یا وادی میں چلیں گے تو میں انصار کی گھاٹی او ر وادی میں چلوں گا۔انصار استر کی طرح ہیں جو جسم سے ہمیشہ لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے یعنی ابرہ کی طرح ہیں۔ (اے انصار!) تم دیکھو گے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو۔


حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ نَاسٌ مِنَ الأَنْصَارِ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم مَا أَفَاءَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُعْطِي رِجَالاً الْمِائَةَ مِنَ الإِبِلِ فَقَالُوا يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ‏.‏ قَالَ أَنَسٌ فَحُدِّثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِمَقَالَتِهِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَى الأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ وَلَمْ يَدْعُ مَعَهُمْ غَيْرَهُمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا قَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ فُقَهَاءُ الأَنْصَارِ أَمَّا رُؤَسَاؤُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، وَأَمَّا نَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ فَقَالُوا يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فَإِنِّي أُعْطِي رِجَالاً حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ، أَتَأَلَّفُهُمْ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالأَمْوَالِ وَتَذْهَبُونَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى رِحَالِكُمْ، فَوَاللَّهِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ ‏"‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا‏.‏ فَقَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سَتَجِدُونَ أُثْرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوُا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم فَإِنِّي عَلَى الْحَوْضِ ‏"‏‏.‏ قَالَ أَنَسٌ فَلَمْ يَصْبِرُوا‏.‏

Narrated By Anas Bin Malik : When Allah gave Allah's Apostle what he gave of the properties of the Hawazin tribe as a war booty, the Prophet started giving some men 100 camels each. The Ansar (then) said, "May Allah forgive Allah's Apostles as he gives to Quraish and leaves us although our swords are still dribbling with the blood of Quraish." Allah's Apostle was informed of their statement, so he sent for the Ansar and gathered them in a leather tent, and did not call anybody else along with them. When they all gathered, the Prophet got up and said, "What is this talk being informed to me about you?" The learned men amongst the Ansar said, "O Allah's Apostle! Our chiefs did not say anything, but some people amongst us who are younger in age said, 'May Allah forgive Allah's Apostle as he gives (of the booty) to Quraish and leaves us though our swords are still dribbling with their blood.' " The Prophet said, "I give to these men who have newly deserted heathenism (and embraced Islam) so as to attract their hearts. Won't you be happy that the people take the wealth while you take the Prophet with you to your homes? By Allah, what you are taking is better than whatever they are taking." They (i.e. the Ansar) said, "O Allah's Apostle! We are satisfied." The Prophet then said to them. "You will find others favoured over you greatly, so be patient till you meet Allah and His Apostle and I will be at the Tank then." Anas added: But they did not remain patient.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺکو قبیلہ ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ آپﷺ نے کچھ لوگوں کو سو سو اونٹ دینا شروع کردیے ۔ کچھ لوگوں نے کہا : اللہ اپنے رسول کی مغفرت فرمائے ، قریش کو تو آپ ﷺعنایت فرما رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کردیا ہے حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار کی یہ باتیں نبی ﷺ تک پہنچائی گئیں تو آپ نے انہیں بلا بھیجا اور چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا، آپ ﷺنے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہیں بلایا۔جب سب لوگ جمع ہوگئے تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ البتہ ہمارے کچھ لوگ جو ابھی نوعمر ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اللہ، رسول اللہ ﷺ کی مغفرت کرے، قریش کو آپ دے رہے ہیں اور ہمیں آپ نے چھوڑ دیا ہے حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اس پر فرمایا کہ میں ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جو ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، اس طرح میں ان کی دلجوئی کرتا ہوں۔ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ تو مال و دولت لے کر جائیں اور تم نبی کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤ۔ اللہ کی قسم! جو چیز تم اپنے ساتھ لے جاؤ گے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے جا رہے ہیں۔ انصار نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اس پر راضی ہیں۔ اس کے بعد نبیﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ اس وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول سے ملاقات کرو۔ میں حوض کوثر پر ملوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا :لیکن انصار نے صبرنہیں کیا۔


حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم غَنَائِمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ‏.‏ فَغَضِبَتِ الأَنْصَارُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏‏.‏ قَالُوا بَلَى‏.‏ قَالَ ‏"‏ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ ‏"‏‏.

Narrated By Anas : When it was the day of the Conquest (of Mecca) Allah's Apostle distributed the war booty amongst the people of Quraish which caused the Ansar to become angry. So the Prophet said, "Won't you be pleased that the people take the worldly things and you take Allah's Apostle with you? "They said, "Yes." The Prophet said, "If the people took their way through a valley or mountain pass, I would take my way through the Ansar's valley or mountain pass."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے وقت نبی ﷺ نے قریش میں اموال غنیمت تقسیم کی۔ انصار رضی اللہ عنہم اس سے غضبناک ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو لے جاؤ۔ انصار نے عرض کیا کہ ہم اس پر خوش ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ الْتَقَى هَوَازِنُ وَمَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَشَرَةُ آلاَفٍ وَالطُّلَقَاءُ فَأَدْبَرُوا قَالَ ‏"‏ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، لَبَّيْكَ نَحْنُ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ‏"‏‏.‏ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَأَعْطَى الطُّلَقَاءَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَلَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ شَيْئًا فَقَالُوا، فَدَعَاهُمْ فَأَدْخَلَهُمْ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ ‏"‏ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ، وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتِ الأَنْصَارُ شِعْبًا لاَخْتَرْتُ شِعْبَ الأَنْصَارِ ‏"‏

Narrated By Anas : When it was the day of (the battle of) Hunain, the Prophet confronted the tribe of Hawazin while there were ten-thousand (men) besides the Tulaqa' (i.e. those who had embraced Islam on the day of the Conquest of Mecca) with the Prophet. When they (i.e. Muslims) fled, the Prophet said, "O the group of Ansari" They replied, "Labbaik, O Allah's Apostle and Sadaik! We are under your command." Then the Prophet got down (from his mule) and said, "I am Allah's Slave and His Apostle." Then the pagans were defeated. The Prophet distributed the war booty amongst the Tulaqa and Muhajirin (i.e. Emigrants) and did not give anything to the Ansar. So the Ansar spoke (i.e. were dissatisfied) and he called them and made them enter a leather tent and said, Won't you be pleased that the people take the sheep and camels, and you take Allah's Apostle along with you?" The Prophet added, "If the people took their way through a valley and the Ansar took their way through a mountain pass, then I would choose a mountain pass of the Ansar"

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوۂ حنین میں جب قبیلہ ہوازن سے جنگ شروع ہوئی تو نبی ﷺ کے ساتھ دس ہزار نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ۔ آپ ﷺ نے آواز دی : اے انصار کی جماعت! انہوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہﷺ! آپ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے ہم حاضر ہیں۔ ہم آپ کے سامنے ہیں۔ پھر آپ ﷺ اپنی سواری سے اتر گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر مشرکین کی ہار ہو گئی۔ تو آپﷺنے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ بھی نہیں دیا۔اس پر انصار رضی اللہ عنہم نے اپنے غم کا اظہار کیا تو آپ نے انہیں بلایا اور ایک خیمہ میں جمع کیا پھر فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ بکری اور اونٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی کو اختیار کروں گا۔ (طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں فتح مکہ کے موقع پر عام معافی دی گئی ، نہ انہیں قتل کیا گیا اور نہ ہی انہیں قیدی بنایا گیا ، بلکہ احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا گیا)


حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ جَمَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم نَاسًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ ‏"‏ إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَمُصِيبَةٍ، وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَهُمْ وَأَتَأَلَّفَهُمْ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى بُيُوتِكُمْ ‏"‏‏.‏ قَالُوا بَلَى‏.‏ قَالَ ‏"‏ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتِ الأَنْصَارُ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَ الأَنْصَارِ ‏"‏‏.‏

Narrated By Anas : The Prophet gathered some people of Ansar and said, "The People of Quraish are still close to their Pre-Islamic period of ignorance and have suffered a lot, and I want to help them and attract their hearts (by giving them the war booty). Won't you be pleased that the people take the worldly things) and you take Allah's Apostle with you to your homes?" They said, "Yes, (i.e. we are pleased with this distribution)." The Prophet said, "'If the people took their way through a valley and the Ansar took their way through a mountain pass, then I would take the Ansar's valley or the Ansar's mountain pass."

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے انصار کے کچھ لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ قریش کے لوگ ابھی ابھی جاہلیت اور مصیبت سے نکلے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان کی دلجوئی اور تالیف قلبی کروں ۔کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ اپنے ساتھ دنیا لے کرجائیں اور تم اللہ کے رسولﷺ کو اپنے گھر لے جاؤ؟ سب انصاری بولے، کیوں نہیں(ہم اسی پر خوش ہیں) نبی ﷺ نے فرمایا کہ اگر دوسرے لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔


حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ لَمَّا قَسَمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قِسْمَةَ حُنَيْنٍ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ مَا أَرَادَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ‏.‏ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْتُهُ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى، لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ ‏"

Narrated By 'Abdullah : When the Prophet distribute the war booty of Hunain, a man from the Ansar said, "He (i.e. the Prophet), did not intend to please Allah in this distribution." So I came to the Prophet and informed him of that (statement) whereupon the colour of his face changed and he said, "May Allah bestow His Mercy on Moses, for he was troubled with more than this, but he remained patient."

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ حنین سے ملنے والی مال غنیمت کی تقسیم کر رہے تھے تو انصار کے ایک شخص نے کہا : اس تقسیم میں اللہ کی خوشنودی کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی اطلاع دی تو آپﷺکے چہرہ مبارک متغیر ہو گیا پھر آپﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچایا گیا، لیکن انہوں نے صبرکام لیا ۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ آثَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم نَاسًا، أَعْطَى الأَقْرَعَ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى نَاسًا، فَقَالَ رَجُلٌ مَا أُرِيدَ بِهَذِهِ الْقِسْمَةِ وَجْهُ اللَّهِ‏.‏ فَقُلْتُ لأُخْبِرَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ رَحِمَ اللَّهُ مُوسَى‏.‏ قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ ‏"‏‏.‏

Narrated By 'Abdullah : When it was the day of Hunain, Prophet favoured some people over some others (in the distribution of the booty). He gave Al-Aqra' one-hundred camels and gave Uyaina the same, and also gave other people (of Quraish). A man said, "Allah's Pleasure was not the aim, in this distribution." I said, "I will inform the Prophet (about your statement)." The Prophet said, "May Allah bestow Mercy on Moses, for he was troubled more this but he remained patient."

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ غزوۂ حنین کے موقع پر رسول اللہﷺ نے چند لوگوں کو بہت زیادہ جانور عطا فرمائے۔ چنانچہ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے۔ عیینہ بن حصن فزاری کو بھی اتنے ہی دیے اور اسی طرح دوسرے اشراف عرب کو بھی آپ نے اسی حساب سے دیا۔ اس پر ایک شخص نے کہا :اس تقسیم میں اللہ کی رضا کا کوئی خیال نہیں کیا گیا۔ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) میں نے کہا: میں اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو ضرور دوں گا۔ (جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ملی ) تو فرمایا کہ اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ پہنچائے گئے لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِنَعَمِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ، وَمَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَشَرَةُ آلاَفٍ وَمِنَ الطُّلَقَاءِ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا، الْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ ‏"‏ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ‏.‏ ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ ‏"‏ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ‏.‏ وَهْوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ، فَنَزَلَ فَقَالَ ‏"‏ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ‏"‏، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ وَلَمْ يُعْطِ الأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتِ الأَنْصَارُ إِذَا كَانَتْ شَدِيدَةٌ فَنَحْنُ نُدْعَى، وَيُعْطَى الْغَنِيمَةَ غَيْرُنَا‏.‏ فَبَلَغَهُ ذَلِكَ، فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ ‏"‏ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ ‏"‏‏.‏ فَسَكَتُوا فَقَالَ ‏"‏ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ أَلاَ تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ ‏"‏‏.‏ قَالُوا بَلَى‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَتِ الأَنْصَارُ شِعْبًا لأَخَذْتُ شِعْبَ الأَنْصَارِ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ هِشَامٌ يَا أَبَا حَمْزَةَ، وَأَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ قَالَ وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ

Narrated By Anas Bin Malik : When it was the day (of the battle) of Hunain, the tributes of Hawazin and Ghatafan and others, along with their animals and offspring (and wives) came to fight against the Prophet The Prophet had with him, ten thousand men and some of the Tulaqa. The companions fled, leaving the Prophet alone. The Prophet then made two calls which were clearly distinguished from each other. He turned right and said, "O the group of Ansar!" They said, "Labbaik, O Allah's Apostle! Rejoice, for we are with you!" Then he turned left and said, "O the group of Ansar!" They said, "Labbaik! O Allah's Apostle! Rejoice, for we are with you!" The Prophet at that time, was riding on a white mule; then he dismounted and said, "I am Allah's Slave and His Apostle." The infidels then were defeated, and on that day the Prophet gained a large amount of booty which he distributed amongst the Muhajirin and the Tulaqa and did not give anything to the Ansar. The Ansar said, "When there is a difficulty, we are called, but the booty is given to other than us." The news reached the Prophet and he gathered them in a leather tent and said, "What is this news reaching me from you, O the group of Ansar?" They kept silent, He added," O the group of Ansar! Won't you be happy that the people take the worldly things and you take Allah's Apostle to your homes reserving him for yourself?" They said, "Yes." Then the Prophet said, "If the people took their way through a valley, and the Ansar took their way through a mountain pass, surely, I would take the Ansar's mountain pass." Hisham said, "O Abu Hamza (i.e. Anas)! Did you witness that? " He replied, "And how could I be absent from him?"

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب حنین کا دن ہوا تو قبیلہ ہوازن اور غطفان اپنے مویشی اور بال بچوں کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلے۔ اس وقت نبی ﷺ کے ساتھ دس ہزار نفری اور طلقاء تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تونبی ﷺ تنہا رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو مرتبہ آواز دی ، دونوں آوازیں ایک دوسرے سے الگ الگ تھیں، آپ ﷺ نے دائیں طرف متوجہ ہو کر پکارا: اے انصار کی جماعت! انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں: یا رسول اللہ! آپ کو بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں، لڑنے کو تیار ہیں۔ پھر آپ بائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی، اے انصار کی جماعت! انہوں نے ادھر سے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہ! بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپﷺ اس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے پھر آپ اتر گئے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ انجام کار کافروں کو ہار ہوئی اور اس لڑائی میں بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی۔ آپ ﷺ نے اسے مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا انصار کو ان میں سے کچھ نہیں عطا فرمایا۔ انصار (کے بعض نوجوانوں) نے کہا کہ جب سخت وقت آتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت دوسروں کو تقسیم کر دی جاتی ہے۔ یہ بات نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ نے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور فرمایا اے انصار کی جماعت! کیا وہ بات صحیح ہے جو تمہارے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہﷺ کو اپنے گھر لے جاؤ۔ انصاریوں نے عرض کیا ہم اسی پر خوش ہیں۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار ہی کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا۔ اس پر ہشام نے (اپنے دادا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے)پوچھا: اے ابوحمزہ! کیا آپ وہاں موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپﷺ سے غائب ہی کب ہوتا تھا۔ (طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں فتح مکہ کے موقع پر عام معافی دی گئی ، نہ انہیں قتل کیا گیا اور نہ ہی انہیں قیدی بنایا گیا ، بلکہ احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا گیا)

Chapter No: 58

باب السَّرِيَّةِ الَّتِي قِبَلَ نَجْدٍ

The Sariya which was sent towards Najd.

باب: نجد کی طرف جو لشکرنبیﷺنے روانہ کیا۔اس کا بیان۔

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَكُنْتُ فِيهَا، فَبَلَغَتْ سِهَامُنَا اثْنَىْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلْنَا بَعِيرًا بَعِيرًا، فَرَجَعْنَا بِثَلاَثَةَ عَشَرَ بَعِيرًا‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : The Prophet sent a Sariya towards Najd and I was in it, and our share from the booty amounted to twelve camels each, and we were given an additional camel each. So we returned with thirteen camels each.

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺنے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تھا، میں بھی اس میں شریک تھا۔ اس میں ہمارا حصہ (مال غنیمت میں) بارہ بارہ اونٹ پڑے اور ایک ایک اونٹ ہمیں اور فالتو دیا گیا۔ اس طرح ہم تیرہ تیرہ اونٹ ساتھ لے کر واپس آئے۔

Chapter No: 59

باب بَعْثِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ

The Prophet (s.a.w) sent Khalid bin Al-Walid (to fight) with Banu Jadhima.

باب: نبیﷺ کا خالد بن ولید کو بنی جذیمہ قبیلہ کی طَرف بھیجنا۔

حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، وَحَدَّثَنِي نُعَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ، فَدَعَاهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا أَسْلَمْنَا‏.‏ فَجَعَلُوا يَقُولُونَ صَبَأْنَا، صَبَأْنَا‏.‏ فَجَعَلَ خَالِدٌ يَقْتُلُ مِنْهُمْ وَيَأْسِرُ، وَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمٌ أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ يَقْتُلَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لاَ أَقْتُلُ أَسِيرِي، وَلاَ يَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي أَسِيرَهُ، حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرْنَاهُ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَدَهُ فَقَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ ‏"‏‏.‏ مَرَّتَيْنِ‏.‏

Narrated By Salim's father : The Prophet sent Khalid bin Al-Walid to the tribe of Jadhima and Khalid invited them to Islam but they could not express themselves by saying, "Aslamna (i.e. we have embraced Islam)," but they started saying "Saba'na! Saba'na (i.e. we have come out of one religion to another)." Khalid kept on killing (some of) them and taking (some of) them as captives and gave every one of us his Captive. When there came the day then Khalid ordered that each man (i.e. Muslim soldier) should kill his captive, I said, "By Allah, I will not kill my captive, and none of my companions will kill his captive." When we reached the Prophet, we mentioned to him the whole story. On that, the Prophet raised both his hands and said twice, "O Allah! I am free from what Khalid has done."

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں «أسلمنا‏.‏» ہم اسلام لائے کہنا نہیں آتا تھا، اس کے بجائے وہ «صبأنا‏.‏، صبأنا‏.‏» ہم بےدین ہوگئے، یعنی اپنے آبائی دین سے ہٹ گئے کہنے لگے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنا اور قید کرنا شروع کر دیا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی اس کی حفاظت کے لیے دے دیا پھر جب ایک دن خالد رضی اللہ عنہ نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو قتل کردیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا آخر جب ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور آپ سے صورت حال بیان کیا تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اے اللہ! میں اس فعل سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں، جو خالد نے کیا۔ دو مرتبہ آپ ﷺ نے یہی فرمایا۔

Chapter No: 60

باب سَرِيَّةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَعَلْقَمَةَ بْنِ مُجَزِّزٍ الْمُدْلِجِيِّ وَيُقَالُ إِنَّهَا سَرِيَّةُ الأَنْصَارِى

The Sariya of Abdullah bin Hudhafa As-Sahmi and Alqama bin Majazziz Al-Mudliji, and it is said that it was called the Sariya of the Ansar.

باب: عبداللہ بن حذافہ سہمی اور علقمہ بن مجزرمدلجی کے ساتھ جو لشکر بھیجا گیا اس کا بیان۔اس کو سریہ انصاری بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سَرِيَّةً فَاسْتَعْمَلَ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ، فَغَضِبَ فَقَالَ أَلَيْسَ أَمَرَكُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ تُطِيعُونِي‏.‏ قَالُوا بَلَى‏.‏ قَالَ فَاجْمَعُوا لِي حَطَبًا‏.‏ فَجَمَعُوا، فَقَالَ أَوْقِدُوا نَارًا‏.‏ فَأَوْقَدُوهَا، فَقَالَ ادْخُلُوهَا‏.‏ فَهَمُّوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يُمْسِكُ بَعْضًا، وَيَقُولُونَ فَرَرْنَا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مِنَ النَّارِ‏.‏ فَمَا زَالُوا حَتَّى خَمَدَتِ النَّارُ، فَسَكَنَ غَضَبُهُ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ ‏"‏‏.‏

Narrated By 'Ali : The Prophet sent a Sariya under the command of a man from the Ansar and ordered the soldiers to obey him. He (i.e. the commander) became angry and said "Didn't the Prophet order you to obey me!" They replied, "Yes." He said, "Collect fire-wood for me." So they collected it. He said, "Make a fire." When they made it, he said, "Enter it (i.e. the fire)." So they intended to do that and started holding each other and saying, "We run towards (i.e. take refuge with) the Prophet from the fire." They kept on saying that till the fire was extinguished and the anger of the commander abated. When that news reached the Prophet he said, "If they had entered it (i.e. the fire), they would not have come out of it till the Day of Resurrection. Obedience (to somebody) is required when he enjoins what is good."

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری صحابی (عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ) کو بنایا اور لشکریوں کو حکم دیا کہ سب اپنے امیر کی اطاعت کریں پھر امیر کسی وجہ سے غصہ ہو گئے اور اپنے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا ہے؟ سب نے کہا کہ ہاں فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تم سب لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں تو امیر نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگاؤ اور انہوں نے آگ لگا دی۔ اب انہوں نے حکم دیا کہ سب اس میں کود جاؤ۔ فوجی کود جانا ہی چاہتے تھے کہ انہیں میں سے بعض نے بعض کو روکا اور کہا کہ ہم تو اس آگ ہی کے خوف سے رسول اللہ ﷺ کی طرف آئے ہیں! ان باتوں میں وقت گزر گیا اور آگ بھی بجھ گئی۔ اس کے بعد امیر کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ جب اس کی خبر رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو پھر قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کےلیے ہے۔

‹ First45678Last ›