Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Blood Money (87)    كتاب الديات

1234

Chapter No: 21

باب إِذَا أَصَابَ قَوْمٌ مِنْ رَجُلٍ هَلْ يُعَاقِبُ أَوْ يَقْتَصُّ مِنْهُمْ كُلِّهِمْ ؟

If a group of people have killed or injured one man, will all of them have to give the Diya or be punished with the law of Al-Qisas?

باب: اگر کئی آدمی مل کر ایک کو قتل کریں تو اس کے قصاص میں کیا سب قتل ہو سکتے ہیں؟

وَقَالَ مُطَرِّفٌ عَنِ الشَّعْبِيِّ فِي رَجُلَيْنِ شَهِدَا عَلَى رَجُلٍ أَنَّهُ سَرَقَ فَقَطَعَهُ عَلِيٌّ، ثُمَّ جَاءَا بِآخَرَ وَقَالاَ أَخْطَأْنَا‏.‏ فَأَبْطَلَ شَهَادَتَهُمَا وَأُخِذَا بِدِيَةِ الأَوَّلِ، وَقَالَ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا تَعَمَّدْتُمَا لَقَطَعْتُكُمَا‏.‏

Narrated by Mutarrif from Ash-Shabi, "Two men bore witness against a man whom they accused of theft. Ali cut off his hand. Then they brought another man and said (to Ali), 'We have committed a mistake (by accusing the first man).' Ali regarded their former witness as invalid and took from the Diya for being the cause of cutting off the hand of the first man, and said, 'If I were of the opinion that you have intentionally given a false witness, I would cut off your hands.'"

اور مطرف بن طریف نے شعبی سے روایت کیا ہے (اس کو امام شافعی نے وصل کیا ) کہ دو شخصوں نے ایک شخص پر گواہی دی کہ اس نے چوری کی حضرت علیؓ نے اس کا ہاتھ کٹوا ڈالا ، اب یہ گواہ ایک اور شخص کو لے کر آئے (کہنے لگے یہ چور ہے) ہم سے غلطی ہوئی جو پہلے شخص کو ہم نے چور بتلایا حضرت علیؓ نے ان کی گواہی لغو کر دی (یعنے دوسرے شخص کے خلاف) اور پہلے شخص کے ہاتھ کی دیت ان سے دلوائی اگر میں جانوں تم نے عمداً ایسا کیا (جُھوٹی گواہی دی) تو تمہارے ہاتھ کٹوا ڈالوں ۔

وَقَالَ لِي ابْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ غُلاَمًا، قُتِلَ غِيلَةً فَقَالَ عُمَرُ لَوِ اشْتَرَكَ فِيهَا أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ‏.‏ وَقَالَ مُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ إِنَّ أَرْبَعَةً قَتَلُوا صَبِيًّا فَقَالَ عُمَرُ مِثْلَهُ‏.‏ وَأَقَادَ أَبُو بَكْرٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَعَلِيٌّ وَسُوَيْدُ بْنُ مُقَرِّنٍ مِنْ لَطْمَةٍ‏.‏ وَأَقَادَ عُمَرُ مِنْ ضَرْبَةٍ بِالدِّرَّةِ‏.‏ وَأَقَادَ عَلِيٌّ مِنْ ثَلاَثَةِ أَسْوَاطٍ‏.‏ وَاقْتَصَّ شُرَيْحٌ مِنْ سَوْطٍ وَخُمُوشٍ‏.‏

Ibn Umar said: A boy was assassinated.Umar said, "If all the people of Sana took part in the assassination I would kill them all." Al-Mughira bin Hakim said that his father said, "Four persons killed a boy, and Umar said(as above)." Abu Bakr Az Zubair, Ali and Suwaid bin Muqarrin gave the judgement of Al-Qisas (equality in punishment) in cases of slapping. And Umar carried out Al-Qisas for a strike with a stick.And Ali carried out Al-Qisas for three lashes with a whip. And Shuraih carried out for one lash and for scratching.

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن عدی نے انہوں نے شعبہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے ابن عباس سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث جو اُوپر گزری۔ اور مغیرہ بن حکیم نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ چار آدمیوں نے مل کر ایک لڑکے کو قتل کیا پھر حضرت عمر کا یہی قول نقل کیا اور ابو بکر صدیقؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت علی اور سوید بن مقرن نے طمانچہ کا قصاص دلوایا ( یعنی طمانچہ کے بدل طمانچہ لگایا) اور حضرت عمر نے درے کی جو مار (ایک شخص کو) لگوائی تھی اس کا بدلہ لینے کے لئے فرمایا اور حضرت علی نے تین (زیادہ کوڑوں) کا قصاص دینے کا حکم دیا اور شریح ( کوفے کے قاضی) نے کوڑے کی مار اور کھال چھیلنے کا بدلہ دلایا ۔


حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ لَدَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي مَرَضِهِ، وَجَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا ‏"‏ لاَ تَلُدُّونِي ‏"‏‏.‏ قَالَ فَقُلْنَا كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ بِالدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ ‏"‏ أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي ‏"‏‏.‏ قَالَ قُلْنَا كَرَاهِيَةٌ لِلدَّوَاءِ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ يَبْقَى مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلاَّ لُدَّ ـ وَأَنَا أَنْظُرُ ـ إِلاَّ الْعَبَّاسَ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ ‏"‏‏.

Narrated By 'Aisha : We poured medicine into the mouth of Allah's Apostle during his illness, and he pointed out to us intending to say, "Don't pour medicine into my mouth." We thought that his refusal was out of the aversion a patient usually has for medicine. When he improved and felt a bit better he said (to us.) "Didn't I forbid you to pour medicine into my mouth?" We said, "We thought (you did so) because of the aversion, one usually have for medicine." Allah's Apostle said, "There is none of you but will be forced to drink medicine, and I will watch you, except Al-'Abbas, for he did not witness this act of yours."

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے انہوں نے سفیان ثوری سے کہا ہم سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا انہوں نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے انہوں نے کہا حضرت عائشہ نے کہا ہم نے مرض موت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلق میں دوا ڈالی آپ ( بیماری میں ) اشارہ سے فرما رہے تھے میرے حلق میں دوا نہ ڈالو ، لیکن ہم سمجھے کہ آپ کا فرمانا ( بطور حکم کے نہیں ہے ) اس طرح ہے کہ جیسے ہر بیمار کو دوا سے نفرت ہوتی ہے اس کے بعد جب آپ کو افاقہ ہوا ( بولنے کی طاقت ہوئی ) تو آپ نے فرمایا کیوں میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا کہ میرے حلق میں دوا مت ڈالو ہم نے عرض کیا بیشک مگر ہم یہ سمجھے کہ آپ ( معمولی طور سے ) فرماتے ہیں جیسے ہر بیمار کو دوا سے نفرت ہوا کرتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اب تم لوگوں کی سزا یہ ہے ) دیکھو جتنے لوگ ( اس گھر میں ) ہیں کوئی باقی نہ رہے سب کے حلق میں میری آنکھوں کے سامنے دوا ڈالی جائے ایک عباس کے حلق میں نہ ڈالنا کیونکہ وہ میرے حلق میں دوا ڈالتے وقت موجود نہ تھے ۔

Chapter No: 22

باب الْقَسَامَةِ

Al-Qasama (the oath taken by fifty people (of the defendant) regarding a murder case where no evidence is available)

باب: قسامت کا بیان۔

وَقَالَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ ‏"‏‏.‏ وَقَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ لَمْ يُقِدْ بِهَا مُعَاوِيَةُ، وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى عَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ ـ وَكَانَ أَمَّرَهُ عَلَى الْبَصْرَةِ ـ فِي قَتِيلٍ وُجِدَ عِنْدَ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ السَّمَّانِينَ إِنْ وَجَدَ أَصْحَابُهُ بَيِّنَةً، وَإِلاَّ فَلاَ تَظْلِمِ النَّاسَ، فَإِنَّ هَذَا لاَ يُقْضَى فِيهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ‏.‏

Al-Ashath bin Qais said, "The Prophet (s.a.w) said (to a plaintiff), 'You should bring two witnesses otherwise the defendant will be asked to take an oath (in case of denial).'" Ibn Abi Mulaika said, "Muawiya didn't carry out the penalty of Al-Qisas (equality in punishment) according to Al-Qasama." Umar bin Abdul-Aziz wrote to Adi bin Artah whom he had appointed governor of Al-Basrah, regarding a person who has been found (murdered) near one of the houses of the oil merchants, "If the relatives of the deceased proved their claim (by presenting witnesses), (then kill the killer), otherwise, do not oppress (wrong) the people, as this case may remain pending till the Day of Resurrection."

اور اشعث بن قیس نے کہا (یہ حدیث کتاب الشہادات میں موصولاً گزر چکی ہے) نبیﷺ نے فرمایا تیرا دعوٰی جب ثابت ہوگا جب دو گواہ لائے نہیں تو مدعی سے قسم لے اور عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا معاویہ بن ابی سفیان نے قسامت میں قصاص کا حکم نہیں دیا (صرف دیت دلائی) اور عمر بن عبدالعزیز خلیفہ نے عدی بن ارطاۃ کو جو ان کی طرف سے بصرے کے حاکم تھے ایک مقتول کے باب میں لکھا جوگھی والوں کے ایک گھر پر مرا پڑا تھا اگر اس کے وارث گواہ لائے تو فَبِھا ورنہ خلق خدا پر ظلم نہ کر کیونکہ ایسے معاملہ کا قیامت تک فیصلہ نہیں ہو سکتا (جس کا گواہ نہ ہو)

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، زَعَمَ أَنَّ رَجُلاً، مِنَ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، وَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلاً، وَقَالُوا لِلَّذِي وُجِدَ فِيهِمْ قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا‏.‏ قَالُوا مَا قَتَلْنَا وَلاَ عَلِمْنَا قَاتِلاً‏.‏ فَانْطَلَقُوا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلاً‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ الْكُبْرَ الْكُبْرَ ‏"‏‏.‏ فَقَالَ لَهُمْ ‏"‏ تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا مَا لَنَا بَيِّنَةٌ‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَيَحْلِفُونَ ‏"‏‏.‏ قَالُوا لاَ نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ‏.‏ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُبْطِلَ دَمَهُ، فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ‏.

Narrated By Sahl bin Abi Hathma : (A man from the Ansar) that a number of people from his tribe went to Khaibar and dispersed, and then they found one of them murdered. They said to the people with whom the corpse had been found, "You have killed our companion!" Those people said, "Neither have we killed him, nor do we know his killer." The bereaved group went to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! We went to Khaibar and found one of us murdered." The Prophet said, "Let the older among you come forward and speak." Then the Prophet said, to them, "Bring your proof against the killer." They said "We have no proof." The Prophet said, "Then they (the defendants) will take an oath." They said, "We do not accept the oaths of the Jews." Allah's Apostle did not like that the Blood-money of the killed one be lost without compensation, so he paid one-hundred camels out of the camels of Zakat (to the relatives of the deceased) as Diya (Blood-money).

ہم سے ابو نعیم (فضل بن دکین ) نے بیان کیا کہا ہم سے سعید بن عبید نے انہوں نے بشیر بن یسار سے ،انہوں نے کہا ایک انصاری مرد نے جس کو سہل بن ابی حشمہ کہتے تھے مجھ کو خبر دی وہ کہتے تھے ان کی قوم (انصار )کے چند لوگ خیبر کی طرف گئے وہاں پہنچ کر الگ الگ ہوگئے پھر ان میں سے ایک شخص (عبد اللہ ابن سہل ) کو دیکہا اس کو کسی نے قتل کر ڈالا ہے ( تین )آدمیوں نے ان خیبر والوں سے کہا جہاں عبداللہ بن سہل قتل کئے گئے تھے تم ہی لوگوں نے ہمارے یار کو مار ڈالا ہے وہ ( یعنے یہودی ) کہنے لگے ہم نے نہیں مارا نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ کس نے مارا آخر یہ تینوں ( عبد الرحمٰن اور حویصہ اور محیصہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ہم خیبر کی طرف گئے تھے وہاں ہم میں کا ایک شخص قتل کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑی عمر والے کو پہلے بات کرنے دے بڑی عمر والے کو بات کرنے دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارے پاس گواہ ہیں جنہوں نے قاتل کو قتل کرتے دیکھا ہو انہوں نے کہا نہیں گواہ کہاں سے آئے آپ نے فرمایا کہ پھر تو یہودی ( پچاس )قسمیں کھائیں گے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ( یہودی کافر ہیں ) ہم تو ان کی قسموں پر راضی نہیں ہونے کے ، آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو برا جانا کہ عبد اللہ بن سہل کا خون یوں ہی بیکار جائے آپ نے زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے اس کے وارثوں کو دیت کے سو اونٹ دلوائے ۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الأَسَدِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ، مِنْ آلِ أَبِي قِلاَبَةَ حَدَّثَنِي أَبُو قِلاَبَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَبْرَزَ سَرِيرَهُ يَوْمًا لِلنَّاسِ، ثُمَّ أَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي الْقَسَامَةِ قَالَ نَقُولُ الْقَسَامَةُ الْقَوَدُ بِهَا حَقٌّ، وَقَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ‏.‏ قَالَ لِي مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلاَبَةَ وَنَصَبَنِي لِلنَّاسِ‏.‏ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِنْدَكَ رُءُوسُ الأَجْنَادِ وَأَشْرَافُ الْعَرَبِ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ مُحْصَنٍ بِدِمَشْقَ أَنَّهُ قَدْ زَنَى، لَمْ يَرَوْهُ أَكُنْتَ تَرْجُمُهُ قَالَ لاَ‏.‏ قُلْتُ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ خَمْسِينَ مِنْهُمْ شَهِدُوا عَلَى رَجُلٍ بِحِمْصَ أَنَّهُ سَرَقَ أَكُنْتَ تَقْطَعُهُ وَلَمْ يَرَوْهُ قَالَ لاَ‏.‏ قُلْتُ فَوَاللَّهِ مَا قَتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَطُّ، إِلاَّ فِي إِحْدَى ثَلاَثِ خِصَالٍ رَجُلٌ قَتَلَ بِجَرِيرَةِ نَفْسِهِ فَقُتِلَ، أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ رَجُلٌ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلاَمِ‏.‏ فَقَالَ الْقَوْمُ أَوَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَطَعَ فِي السَّرَقِ وَسَمَرَ الأَعْيُنَ، ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ‏.‏ فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثَ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ أَنَّ نَفَرًا مِنْ عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَبَايَعُوهُ عَلَى الإِسْلاَمِ، فَاسْتَوْخَمُوا الأَرْضَ فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ أَفَلاَ تَخْرُجُونَ مَعَ رَاعِينَا فِي إِبِلِهِ، فَتُصِيبُونَ مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا ‏"‏‏.‏ قَالُوا بَلَى، فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَصَحُّوا، فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَطْرَدُوا النَّعَمَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَرْسَلَ فِي آثَارِهِمْ، فَأُدْرِكُوا فَجِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِهِمْ فَقُطِّعَتْ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ، ثُمَّ نَبَذَهُمْ فِي الشَّمْسِ حَتَّى مَاتُوا‏.‏ قُلْتُ وَأَىُّ شَىْءٍ أَشَدُّ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلاَءِ ارْتَدُّوا عَنِ الإِسْلاَمِ وَقَتَلُوا وَسَرَقُوا‏.‏ فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ كَالْيَوْمِ قَطُّ‏.‏ فَقُلْتُ أَتَرُدُّ عَلَىَّ حَدِيثِي يَا عَنْبَسَةُ قَالَ لاَ، وَلَكِنْ جِئْتَ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ، وَاللَّهِ لاَ يَزَالُ هَذَا الْجُنْدُ بِخَيْرٍ مَا عَاشَ هَذَا الشَّيْخُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ‏.‏ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ فِي هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ عَلَيْهِ نَفَرٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَتَحَدَّثُوا عِنْدَهُ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَقُتِلَ، فَخَرَجُوا بَعْدَهُ، فَإِذَا هُمْ بِصَاحِبِهِمْ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ، فَرَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَاحِبُنَا كَانَ تَحَدَّثَ مَعَنَا، فَخَرَجَ بَيْنَ أَيْدِينَا، فَإِذَا نَحْنُ بِهِ يَتَشَحَّطُ فِي الدَّمِ‏.‏ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ‏"‏ بِمَنْ تَظُنُّونَ أَوْ تَرَوْنَ قَتَلَهُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا نَرَى أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ‏.‏ فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِ فَدَعَاهُمْ‏.‏ فَقَالَ ‏"‏ آنْتُمْ قَتَلْتُمْ هَذَا ‏"‏‏.‏ قَالُوا لاَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَتَرْضَوْنَ نَفَلَ خَمْسِينَ مِنَ الْيَهُودِ مَا قَتَلُوهُ ‏"‏‏.‏ فَقَالُوا مَا يُبَالُونَ أَنْ يَقْتُلُونَا أَجْمَعِينَ ثُمَّ يَنْتَفِلُونَ‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَفَتَسْتَحِقُّونَ الدِّيَةَ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ ‏"‏‏.‏ قَالُوا مَا كُنَّا لِنَحْلِفَ، فَوَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ‏.‏ قُلْتُ وَقَدْ كَانَتْ هُذَيْلٌ خَلَعُوا خَلِيعًا لَهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَطَرَقَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْيَمَنِ بِالْبَطْحَاءِ فَانْتَبَهَ لَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَحَذَفَهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلَهُ، فَجَاءَتْ هُذَيْلٌ فَأَخَذُوا الْيَمَانِيَ فَرَفَعُوهُ إِلَى عُمَرَ بِالْمَوْسِمِ وَقَالُوا قَتَلَ صَاحِبَنَا‏.‏ فَقَالَ إِنَّهُمْ قَدْ خَلَعُوهُ‏.‏ فَقَالَ يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْ هُذَيْلٍ مَا خَلَعُوهُ‏.‏ قَالَ فَأَقْسَمَ مِنْهُمْ تِسْعَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلاً، وَقَدِمَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مِنَ الشَّأْمِ فَسَأَلُوهُ أَنْ يُقْسِمَ فَافْتَدَى يَمِينَهُ مِنْهُمْ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، فَأَدْخَلُوا مَكَانَهُ رَجُلاً آخَرَ، فَدَفَعَهُ إِلَى أَخِي الْمَقْتُولِ فَقُرِنَتْ يَدُهُ بِيَدِهِ، قَالُوا فَانْطَلَقَا وَالْخَمْسُونَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِنَخْلَةَ، أَخَذَتْهُمُ السَّمَاءُ فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي الْجَبَلِ، فَانْهَجَمَ الْغَارُ عَلَى الْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمَاتُوا جَمِيعًا، وَأَفْلَتَ الْقَرِينَانِ وَاتَّبَعَهُمَا حَجَرٌ فَكَسَرَ رِجْلَ أَخِي الْمَقْتُولِ، فَعَاشَ حَوْلاً ثُمَّ مَاتَ‏.‏ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ أَقَادَ رَجُلاً بِالْقَسَامَةِ ثُمَّ نَدِمَ بَعْدَ مَا صَنَعَ، فَأَمَرَ بِالْخَمْسِينَ الَّذِينَ أَقْسَمُوا فَمُحُوا مِنَ الدِّيوَانِ وَسَيَّرَهُمْ إِلَى الشَّأْمِ‏.‏

Narrated By Abu Qilaba : Once 'Umar bin 'Abdul 'Aziz sat on his throne in the courtyard of his house so that the people might gather before him. Then he admitted them and (when they came in), he said, "What do you think of Al-Qasama?" They said, "We say that it is lawful to depend on Al-Qasama in Qisas, as the previous Muslim Caliphs carried out Qisas depending on it." Then he said to me, "O Abu Qilaba! What do you say about it?" He let me appear before the people and I said, "O Chief of the Believers! You have the chiefs of the army staff and the nobles of the Arabs. If fifty of them testified that a married man had committed illegal sexual intercourse in Damascus but they had not seen him (doing so), would you stone him?" He said, "No." I said, "If fifty of them testified that a man had committed theft in Hums, would you cut off his hand though they did not see him?" He replied, "No." I said, "By Allah, Allah's Apostle never killed anyone except in one of the following three situations: (1) A person who killed somebody unjustly, was killed (in Qisas,) (2) a married person who committed illegal sexual intercourse and (3) a man who fought against Allah and His Apostle and deserted Islam and became an apostate." Then the people said, "Didn't Anas bin Malik narrate that Allah's Apostle cut off the hands of the thieves, branded their eyes and then, threw them in the sun?" I said, "I shall tell you the narration of Anas. Anas said: "Eight persons from the tribe of 'Ukl came to Allah's Apostle and gave the Pledge of allegiance for Islam (became Muslim). The climate of the place (Medina) did not suit them, so they became sick and complained about that to Allah's Apostle. He said (to them), "Won't you go out with the shepherd of our camels and drink of the camels' milk and urine (as medicine)?" They said, "Yes." So they went out and drank the camels' milk and urine, and after they became healthy, they killed the shepherd of Allah's Apostle and took away all the camels. This news reached Allah's Apostle , so he sent (men) to follow their traces and they were captured and brought (to the Prophet). He then ordered to cut their hands and feet, and their eyes were branded with heated pieces of iron, and then he threw them in the sun till they died." I said, "What can be worse than what those people did? They deserted Islam, committed murder and theft." Then 'Anbasa bin Said said, "By Allah, I never heard a narration like this of today." I said, "O 'Anbasa! You deny my narration?" 'Anbasa said, "No, but you have related the narration in the way it should be related. By Allah, these people are in welfare as long as this Sheikh (Abu Qilaba) is among them." I added, "Indeed in this event there has been a tradition set by Allah's Apostle. The narrator added: Some Ansari people came to the Prophet and discussed some matters with him, a man from amongst them went out and was murdered. Those people went out after him, and behold, their companion was swimming in blood. They returned to Allah's Apostle and said to him, "O Allah's Apostle, we have found our companion who had talked with us and gone out before us, swimming in blood (killed)." Allah's Apostle went out and asked them, "Whom do you suspect or whom do you think has killed him?" They said, "We think that the Jews have killed him." The Prophet sent for the Jews and asked them, "Did you kill this (person)?" They replied, "No." He asked the Al-Ansars, "Do you agree that I let fifty Jews take an oath that they have not killed him?" They said, "It matters little for the Jews to kill us all and then take false oaths." He said, "Then would you like to receive the Diya after fifty of you have taken an oath (that the Jews have killed your man)?" They said, "We will not take the oath." Then the Prophet himself paid them the Diya (Blood-money)." The narrator added, "The tribe of Hudhail repudiated one of their men (for his evil conduct) in the Pre-Islamic period of Ignorance. Then, at a place called Al-Batha' (near Mecca), the man attacked a Yemenite family at night to steal from them, but a. man from the family noticed him and struck him with his sword and killed him. The tribe of Hudhail came and captured the Yemenite and brought him to 'Umar during the Hajj season and said, "He has killed our companion." The Yemenite said, "But these people had repudiated him (i.e., their companion)." 'Umar said, "Let fifty persons of Hudhail swear that they had not repudiated him." So forty-nine of them took the oath and then a person belonging to them, came from Sham and they requested him to swear similarly, but he paid one-thousand Dirhams instead of taking the oath. They called another man instead of him and the new man shook hands with the brother of the deceased. Some people said, "We and those fifty men who had taken false oaths (Al-Qasama) set out, and when they reached a place called Nakhlah, it started raining so they entered a cave in the mountain, and the cave collapsed on those fifty men who took the false oath, and all of them died except the two persons who had shaken hands with each other. They escaped death but a stone fell on the leg of the brother of the deceased and broke it, whereupon he survived for one year and then died." I further said, "'Abdul Malik bin Marwan sentenced a man to death in Qisas (equality in punishment) for murder, basing his judgment on Al-Qasama, but later on he regretted that judgment and ordered that the names of the fifty persons who had taken the oath (Al-Qasama), be erased from the register, and he exiled them in Sham."

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے ابو بشر اسماعیل بن ابراہیم اسدی نے کہا ہم سے حجاج بن ابی عثمان نے کہا مجھ سے ابو رجاء سلمان نے جو ابو قلابہ کے خاندان کا غلام تھا اس نے کہا مجھ سے ابو قلابہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبد العزیز ( خلیفہ ) نے ایک روز دربار عام کیا اور ( عام خاص ) سب لوگوں کو بار یابی کی اجازت دی ان سے پوچھا قسامت کے باب میں تمھاری کیا رائے ہے بعضوں نے کہا قسامت میں قصاص کا حکم دینا صحیح ہے اور اگلے خلیفوں نے قسامت کی بنا پر قصاص کا حکم دیا ہے ابو قلابہ کہتے ہیں پھر عمر بن عبد العزیز میری طرف مخاطب ہوئے پوچھا ، ابو قلابہ تم اس باب میں کیا کہتے ہو انہوں نے کہا لوگوں سے بحث کرنے کے لیے مجھ کو آگے کر دیا میں نے کہا امیر المومنین ( اللہ کے فضل سے ) تمھارے پاس فوج کے سردار اور عرب کے رئیس لوگ موجود ہیں ، بھلا بتلائیے اگر ان میں سے پچاس آدمی ایک محصن شخص کی نسبت جو دمشق کے ملک میں ہو انہوں نے اس کو دیکھا نہ ہو یہ گواہی دیں کہ اس نے زناکی ہے تو کیا اس گواہی کی بنا پر آپ اس کو رجم کریں گے انہوں نے کہا نہیں ۔میں نے کہا بھلا بتلائیے اگر ان میں پچاس آدمی ایک شخص کی نسبت جو حمص میں ہو ( حمص شام کا ایک شہر ہے )اور انہوں نے اس کو نہ دیکھا ہو ، یوں گواہی دیں کہ اس نے چوری کی ہے تو کیا آپ ان کی گواہی کی بنا پر اس شخص کاہاتھ کٹوا ڈالیں گے انہوں نے کہا نہیں میں نے کہا تو پھر سن لیجیئے خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی شخص کے خون کرنے کا حکم کبھی نہیں دیا جب تک وہ ان تینوں باتوں میں سے کسی بات کا مرتکب نہ ہو یا تو ناحق خون کا مرتکب ہو اپنے جرم کی سزا میں وہ قتل کیا جائے یا محصن ہو کر زنا کرے یا اللہ اور اس کے رسول سے مقابلہ کرے اسلام سے پھر جائے ( مرتد بن جائے ) یہ سن کر لوگ بولے کیا انس بن مالکؓ نے یہ حدیث نہیں روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوروں کے ہاتھ پاؤں کٹوائے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں پھر ان کو دھوپ میں ڈلوا دیا (وہ تڑپ تڑپ کر مر گئے ) ابو قلابہ نے کہا سنو میں تم سے انسؓ کی یہ حدیث بیان کرتا ہوں مجھ سے خود انس نے بیان کیا عکل قبیلے کے آٹھ آد می رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام پر آپ سے بیعت کی ( مسلمان ہو گئے ) اس کے بعد ایسا ہوا مدینے کی آب و ہوا ان کو نا موافق آئی بیمار پڑ گئے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہیں کرتے ہمارے چرواہے کے ساتھ اونٹوں میں چلے جاؤ ( یعنے جہاں وہ چرا کرتے ہیں ) وہاں جا کر ان کا دودھ موت پیتے رہو انہوں نے کہا بہت خوب ہم ایسا ہی کرتے ہیں اور اونٹوں میں چل دیے ان کا دودھ موت پیتے رہے اور بھلے چنگے ہو کر کیاکیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا ، جانور بھی ہانک لے گئے یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی ، آپ نے ان کے تعاقب میں سواروں کو روانہ کیا خیر یہ لوگ گرفتار ہوئے جب ان کو لے کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان کے ہاتھ اور پاؤں ( الٹے سیدھے ) کاٹے گئے اور آنکھوں میں گرم سلائی چلائی گئی پھر آپ نے ان کو دھوپ میں ڈلوا دیا وہیں ( تڑپ تڑپ کر ) مر گئے،ابو قلابہ نے کہا بتلائیے ان لوگوں نے جو جو جرم کیے تھے ان سے بڑا جرم اور کیا ہو گا ( کمبخت ) اسلام سے پھر گئے چرواہے کو مار ڈالا ، جانور چرالے گئے ۔ یہ سن کر عنبسہ بن سعید نے کہا میں نے تو آج کی طرح کبھی یہ حدیث نہیں سنی ابو قلابہ نے کہا عنبسہ کیا تم میری حدیث پر اعتراض کرتے ہو انہوں نے کہا نہیں ( میں تو تعریف کرتا ہوں ) تم نے حدیث کو ٹھیک ٹھیک روایت کیا خدا کی قسم شام کے لوگ اس وقت تک چین سے بسر کریں گے جب تک ابو قلابہ کا سا عالم شخص ان میں موجود رہے گا ۔ابو قلابہ نے کہا اب اور سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی اس باب میں موجود ہے ہوا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کے چند لوگ آئے اور آپ سے باتیں کر کے ان میں کا ایک شخص خیبر کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں مارا گیا ۔ جب اس کے ساتھی خیبر کو گئے تو کیا دیکھتے ہیں ان کا یار خون میں لوٹ رہا ہے ( سخت زخمی ہو کر تڑپ رہا ہے ) آخر اس کے ساتھی لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے عرض کی یا رسول اللہ !ہمارا یار جس نے ہمارے ساتھ رہ کر آپ سے گفتگو کی تھی اور ہم سے آگے ہی خیبر کی طرف چل دیا تھا جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھتے ہیں وہ خون میں لوٹ رہا ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر میں سے یا مسجد میں سے)باہر آئے اور پوچھا تم کیا سمجھتے ہو اس کو کسی نے مارا ہے انہوں نے کہا ہمارا تو گمان یہی ہے کہ یہودیوں نے اس کو مار ڈالا ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلا بھیجا ان سے پوچھا کیا تم نے اس کو قتل کیا ہے انہوں نے کہا نہیں ( ہم نے نہیں قتل کیا ہے )آپ نے مدعیوں سے فرمایا اچھا تم اس پر راضی ہو کہ یہودیوں میں سے پچاس آدمی یوں قسم کھائیں کہ ہم نے اس کو نہیں مارا ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ یہودیوں کو ( جھوٹی قسم کھانے میں ) کیا باک وہ تو سب کو مار ڈالیں گے پھر قسم کھا لیں گے ( کہ ہم نہیں مارا ہم نہیں جانتے ) آپ نے فرمایا تم میں سے پچاس آدمی یوں قسم کھائیں ( کہ یہودیوں نے اس کو مارا ہے ) اس وقت تم دیت لینے کے مستحق ہو جاؤ گے انہوں نے کہا ہم تو ایسی قسمیں نہیں کھا سکتے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن سہل کی دیت اپنے پاس سے ( یعنے زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے ) ادا کی ۔ابو قلابہ نے کہا ایسا ہذیل قبیلے نے جاہلیت کے زمانے میں ایک شخص کو ذات باہر کر دیا تھا اس نے کیا کیا یمن کے ملک میں بطحاء میں ایک شخص کے مکان میں رات کو( چوری کرنے کے لیے) گھسا لیکن اتفاق سے گھر والوں میں سے ایک شخص جاگ اٹھا اور تلوار کا وار کر کے اس کوقتل کر ڈالا اب ہذیل قبیلے کے لوگ وہاں پہنچے انہوں نے اس قاتل کو گرفتار کر لیا یہ مقدمہ حج کے موسم میں حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہوا ہذیل کے لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم والے کا خون کیا ہے وہ کہتا تھا ( اول تو وہ چور تھا دوسرے ) ان لوگوں نے ذات باہر کر دیا تھا حضرت عمرؓ نے حکم دیا ہذیل قبیلے کے پچاس آدمی یوں قسم کھائیں کہ ہم نے اس کو ذات باہر نہیں کیا تھا آخر ان میں سے انچاس آدمیوں نے یہ ( جھوٹی ) قسم کھا لی ،ایک شخص ان کی قوم کا شام کے ملک سے آیا تھا اس سے بھی کہا تو بھی قسم کھا لے تا کہ پچاس کا عدد پورا ہو جائے ، لیکن اس نے کہا تم ہزار درہم مجھ سے لے لو اور قسم سے مجھ کو معاف کرو اور اس کے بدلے ہذیل کا ایک دوسرا شخص شریک کیا ( اس نے قسم کھائی ) پھر یہ قاتل مقتول کے بھائی کے ہاتھ میں دیا گیا اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا کہتے ہیں یہ پچاس آدمی ( جنہوں نے قسم کھا لی تھی ) مع قاتل اور مقتول کے بھائی کے وہاں سے چلے جب نخلہ میں پہنچے وہاں پانی برسنے لگا یہ لوگ ( بارش سے بچنے کے لیے ) پہاڑ کی کھوہ میں گھس گئے اسی وقت پہاڑ ان پر آرہا پچاسوں آدمی جنہوں نے قسم کھائی تھی سب کے سب مر گئے اور قاتل اور مقتول کا بھائی یہ دونوں وہاں سے بھاگ نکلے پھر ایسا ہوا مقتول کے بھائی پر بھی ایک پتھر لگا اس کا پاؤں ٹوٹ گیا ، وہ بھی ایک سال زندہ رہ کر مر گیا ابو قلابہ کہتے ہیں میں نے یہ بھی کہا عبد الملک بن مروان نے ( اپنی خلافت میں ) قسامت کرا کر ایک شخص سے قصاص لیا ، پھر اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور جن پچاس آدمیوں نے قسامت میں قسمیں کھائیں تھیں حکم دیا ان کا نام دفتر سے نکال ڈالا گیا اور ان کو شام کے ملک کی طرف جلا وطن کیا گیا ۔

Chapter No: 23

باب مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ فَفَقَئُوا عَيْنَهُ فَلاَ دِيَةَ لَهُ

If somebody peeps into the house of some people whereupon they poked his eye, he has no right to claim blood-money.

باب: اگر کسی شخص نے کسی کے گھر میں (بے اذن) جھانکا ، گھر والوں نے (کچھ مار کر) اس کی آنکھ پھوڑ دی تو اس کو دیت کا حق نہ ہو گا۔

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَجُلاً، اطَّلَعَ فِي بَعْضِ حُجَرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَامَ إِلَيْهِ بِمِشْقَصٍ أَوْ بِمَشَاقِصَ وَجَعَلَ يَخْتِلُهُ لِيَطْعُنَهُ‏.

Narrated By Anas : A man peeped into one of the dwelling places of the Prophet. The Prophet got up and aimed a sharp-edged arrow head (or wooden stick) at him to poke him stealthily.

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا کہا ہم سے حماد بن زید نے انہوں نے عبید اللہ بن ابی بکر بن انس سے ، انہوں نے اپنے دادا انسؓ سے ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں ایک سوراخ سے جھانکا آپ تیر لے کر اُٹھے ،اور چاہتے تھے کہ غفلت میں اُس کو ماریں ۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَجُلاً اطَّلَعَ فِي جُحْرٍ فِي باب رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَمَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِدْرًى يَحُكُّ بِهِ رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ لَوْ أَعْلَمُ أَنْ تَنْتَظِرَنِي لَطَعَنْتُ بِهِ فِي عَيْنَيْكَ ‏"‏‏.‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّمَا جُعِلَ الإِذْنُ مِنْ قِبَلِ الْبَصَرِ ‏"‏‏

Narrated By Sahl bin Sa'd As-Sa'idi : A man peeped through a hole in the door of Allah's Apostle's house, and at that time, Allah's Apostle had a Midri (an iron comb or bar) with which he was rubbing his head. So when Allah's Apostle saw him, he said (to him), "If I had been sure that you were looking at me (through the door), I would have poked your eye with this (sharp iron bar)." Allah's Apostle added, "The asking for permission to enter has been enjoined so that one may not look unlawfully (at what there is in the house without the permission of its people)."

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے ابن شہاب سے ان کو سہل بن سعد ساعدیؓ نے خبر دی انہوں نے کہا ایک مرد نے دروازے کے روزن میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جھانکا اس وقت آپ کے ہاتھ میں لوہے کی ایک نوک دارکنگھی تھی جس سے سرکھجلایاکرتے تھےجب آپ نے اس شخص کودیکھاتوفرمایا اگرمیں جانتاکہ تومجھ کو جھانک رہا ہے تویہ میں یہ کنگھی تیری آنکھ میں مار دیتا آپ نے فرمایا اذن لینےکاجوحکم دیاگیاہے ،وہ اسی لیے تو ہے کہ نظر نہ پڑے ۔


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَيْكَ بِغَيْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَهُ بِعَصَاةٍ، فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ، لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ جُنَاحٌ ‏"‏‏

Narrated By Abu Huraira : Abul Qasim said, "If any person peeps at you without your permission and you poke him with a stick and injure his eye, you will not be blamed."

ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا ہم سے ابو الزناد نے انہوں نے اعرج سے انہوں نے ابو ہریرہ سے انہوں نے کہا حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص بے تیری اجازت کے تیرے گھر میں جھانکے پھر تو ایک کنکر پھینک کر اس پر مارے اور اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تجھ پر کچھ گناہ نہ ہو گا ( نہ دیت لازم آئے گی نہ قصاص نسائی )

Chapter No: 24

باب الْعَاقِلَةِ

Al-Aqila (the relatives from the father's side) who pay the Diya (blood-money)

باب: عاقلہ کا بیان۔

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ، قَالَ سَأَلْتُ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ هَلْ عِنْدَكُمْ شَىْءٌ مَا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ وَقَالَ مَرَّةً مَا لَيْسَ عِنْدَ النَّاسِ فَقَالَ وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عِنْدَنَا إِلاَّ مَا فِي الْقُرْآنِ، إِلاَّ فَهْمًا يُعْطَى رَجُلٌ فِي كِتَابِهِ، وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ‏.‏ قُلْتُ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ قَالَ الْعَقْلُ، وَفِكَاكُ الأَسِيرِ، وَأَنْ لاَ يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ‏.

Narrated By Ash-Sha'bi : I heard Abu Juhaifa saying, "I asked 'Ali, 'Have you got any Divine literature apart from the Qur'an?' (Once he said... apart from what the people have?) 'Ali replied, 'By Him Who made the grain split (germinate) and created the soul, we have nothing except what is in the Qur'an and the ability (gift) of understanding Allah's Book which He may endow a man with and we have what is written in this paper.' I asked, 'What is written in this paper?' He replied, 'Al-'Aql (the regulation of Diya), about the ransom of captives, and the Judgment that a Muslim should not be killed in Qisas (equality in punishment) for killing a disbeliever.'"

ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی کہا ہم سے مطرف بن طریف نےبیان کیا کہا میں نے شعبی سے سنا کہا میں نے ابو جحیفہ ( وہب بن عبد اللہ سے ) سنا انہوں نے کہا میں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کیا آپ کے پاس ( اللہ کا کلام ) کچھ اور بھی ہے جو قرآن میں نہیں ہے یا دوسرے لوگوں کے پاس نہیں ہے انہوں نے کہا نہیں قسم اس پرورگار کی جس نے دانہ چیر کر اگایا اور جان کو بنایا ہمارے پاس قرآن کے سوا اور کوئی کتاب نہیں ہے ،البتہ اللہ تعالیٰ جو اپنے کسی بندے کو قرآن کی سمجھ عطا فرمائے یہ اور بات ہے ، اور ایک ورق اور ہے میں نے پوچھا اس ورق میں کیا لکھا ہے انہوں نے کہا دیت کے احکام اور قیدی کو چھڑانے کا بیان اور یہ مسئلہ کہ مسلمان کافر کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا ۔

Chapter No: 25

باب جَنِينِ الْمَرْأَةِ

The foetus (that is inside the uterus) of a (pregnant) woman

باب: پیٹ کے بچے کا بیان (جو ابھی پیدا نہ ہوا ہو)۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، وَحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ، مِنْ هُذَيْلٍ رَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، فَطَرَحَتْ جَنِينَهَا، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِيهَا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ‏.

Narrated By Abu Huraira : Two women from the tribe of Hudhail (fought with each other) and one of them threw (a stone at) the other, causing her to have a miscarriage and Allah's Apostle gave his verdict that the killer (of the fetus) should give a male or female slave (as a Diya).

ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ۔دوسری سند امام بخاری نے کہا اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیاکہا ہم سے امام مالک نے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف سے انہوں نے ابو ہریرہ سے انہوں نے کہا ایسا ہوا ہذیل قبیلے کی دو عورتیں( ام عفیف اور ملیکہ ) لڑیں ایک نے ( ام عفیف نے ) دوسری کو ( ملیکہ کو پتھر سے ) مارا اس کے پیٹ کا بچہ گر پڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ ایک بردہ غلام یا لونڈی دیت میں دیا جائے ۔


حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ عُمَرَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ اسْتَشَارَهُمْ فِي إِمْلاَصِ الْمَرْأَةِ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ قَضَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالْغُرَّةِ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ‏.

Narrated By Hisham's father : From Al-Mughira bin Shu'ba, 'Umar consulted the companions about the case of a woman's abortion (caused by somebody else). Al-Mughlra said: The Prophet gave the verdict that a male or female slave should be given (as a Diya).

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے وہیب بن خالد نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے مغیرہ بن شعبہ سےکہ حضرت عمرؓ نے صحابہ سے رائے لی اگر کوئی عورت کا بچہ گرا دے تو اس میں کیا دیت دینا ہو گی مغیرہ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک بردے کا حکم دیا غلام ہو یا لونڈی ۔


قَالَ ائْتِ مَنْ يَشْهَدُ مَعَكَ، فَشَهِدَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَضَى بِهِ‏.‏

Then Muhammad bin Maslama testified that he had witnessed the Prophet giving such a verdict.

( حضرت عمرؓ نے کہا جا اپنے ساتھ ایک اور گواہ لے کر آ جو اس بات کی گواہی دے )پھر محمد بن مسلمہ انصاری نے بھی گواہی دی کہ میں اس وقت موجود تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا ۔


حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنْ عُمَرَ، نَشَدَ النَّاسَ مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَضَى فِي السِّقْطِ وَقَالَ الْمُغِيرَةُ أَنَا سَمِعْتُهُ قَضَى فِيهِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ‏.‏

Narrated By Hisham's father : 'Umar asked the people, "Who heard the Prophet giving his verdict regarding abortions?" Al-Mughira said, "I heard him judging that a male or female slave should be given (as a Diya)."

ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا انہوں نے ہشام بن عروہ سے انہوں نے عروہ بن زبیر سے کہ حضرت عمرؓ نے لوگوں کو قسم دی کیا تم میں سے کسی نے کچے بچے کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے اس پر مغیرہ بن شعبہ کہنے لگےہاں میں نے اس باب میں سنا ہے آپ نے ایک بردہ دلایا غلام ہو یا لونڈی ۔


قَالَ ائْتِ مَنْ يَشْهَدُ مَعَكَ عَلَى هَذَا فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَا أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِمِثْلِ هَذَا‏. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ اسْتَشَارَهُمْ فِي إِمْلاَصِ الْمَرْأَةِ مِثْلَهُ‏.‏‏

'Umar said, "Present a witness to testify your statement." Muhammad bin Maslama said, "I testify that the Prophet gave such a judgment."

حضرت عمرؓ نے کہا ایک اور گواہ لاؤ جو تیرے ساتھ مل کر اس بات کی گواہی دے محمد بن مسلمہ نے کہا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس بات کا حکم دیا ۔ مجھ سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن سابق فارسی نے کہا ہم سے زائدہ بن ودامہ نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے مغیرہ بن شعبہ سے انہوں نے کہا عمرؓ نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ کچے بچے کا کیا حکم ہے (اگر کوئی اس کو گرا دے) پھر ایسی ہی حدیث نقل کی۔

Chapter No: 26

باب جَنِينِ الْمَرْأَةِ وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَى الْوَالِدِ وَعَصَبَةِ الْوَالِدِ لاَ عَلَى الْوَلَدِ

The foetus of a woman. The Diya for the killed one is to be collected from the father of the killer, and his near relatives from the father's side but not from the killer's children.

باب: پیٹ کے بچے کا بیان اور کوئی عورت خون کرے تو دیت اس کی ددھیال والوں پر لازم ہو گی نہ اس کی اولاد پر۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏.‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَضَى فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ‏.‏ ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَزَوْجِهَا، وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَى عَصَبَتِهَا‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle gave a verdict regarding an aborted fetus of a woman from Bani Lihyan that the killer (of the fetus) should give a male or female slave (as a Diya) but the woman who was required to give the slave, died, so Allah's Apostle gave the verdict that her inheritance be given to her children and her husband and the Diya be paid by her 'Asaba.

ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے سعید بن مسیب سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی لحیان کی ایک عورت کے باب میں جس کے پیٹ کا بچہ ( حمل ) گرا دیا گیا تھا یہ فیصلہ کیا کہ ایک بردہ غلام یا لونڈی دیت میں دیا جائے پھر جس عورت کو یہ بردہ دینے کا حکم ہوا تھا ( یعنی قاتلہ ) وہ مر گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا ترکہ اس کے خاوند اور اولاد کو ملے گا اور دیت اس کی ددھیال والوں کو دینا ہو گی ۔


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي، سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِحَجَرٍ قَتَلَتْهَا وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَضَى أَنَّ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ وَلِيدَةٌ، وَقَضَى دِيَةَ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا‏.

Narrated By Abu Huraira : Two women from Hudhail fought with each other and one of them hit the other with a stone that killed her and what was in her womb. The relatives of the killer and the relatives of the victim submitted their case to the Prophet who judged that the Diya for the fetus was a male or female slave, and the Diya for the killed woman was to be paid by the 'Asaba (near relatives) of the killer.

ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا کہا ہم سے عبد اللہ بن وہب نے کہا مجھ کو یونس نے خبر دی انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے سعید بن مسیب سے اور ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے کہ ابو ہریرہؓ نے کہا ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑیں ، ایک نے دوسری پر پتھر مارا وہ بھی مر گئی اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا اب دونوں طرف کے لوگوں نے یہ جھگڑا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا آپ نے فرمایا پیٹ کے بچے کی دیت ایک بردہ ہے غلام ہو یا لونڈی اور قاتلہ عورت کی دیت اس کی ددھیال والے ادا کریں ۔

Chapter No: 27

باب مَنِ اسْتَعَانَ عَبْدًا أَوْ صَبِيًّا

Whoever sought the help of a slave or a boy.

باب: اگر کوئی شخص غلام یا چھوکرا مانگ کر لے

وَيُذْكَرُ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ بَعَثَتْ إِلَى مُعَلِّمِ الْكُتَّابِ ابْعَثْ إِلَىَّ غِلْمَانًا يَنْفُشُونَ صُوفًا، وَلاَ تَبْعَثْ إِلَىَّ حُرًّا‏.‏

It is said that Umm Salama sent (a message) to the teacher of the school (saying), "Send me some boys to brush the wool, but do not send me a free boy."

اور روایت کیا ہے اس کو ثوری نے اپنی جامع میں اور عبدالرزاق نے مصنف میں وصل کیا ہے کہ ام سلیم (انسؓ کی والدہ) نے مدرسہ کے استاد کو کہلا بھیجا میرے پاس کچھ لڑکے ایسے بھیج دے جو اون دھتکیں لیکن آزاد لڑکوں کو نہ بھیجو (غلام کو بھیج)۔

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ أَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَنَسًا غُلاَمٌ كَيِّسٌ فَلْيَخْدُمْكَ‏.‏ قَالَ فَخَدَمْتُهُ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَوَاللَّهِ مَا قَالَ لِي لِشَىْءٍ صَنَعْتُهُ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا وَلاَ لِشَىْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا

Narrated By 'Abdul-'Aziz : Anas said, "When Allah's Apostle arrived at Medina, Abu Talha took hold of my hand and brought me to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Anas is an intelligent boy, so let him serve you." Anas added, "So I served the Prophet L at home and on journeys; by Allah, he never said to me for anything which I did: Why have you done this like this or, for anything which I did not do: 'Why have you not done this like this?"

مجھ سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا کہا ہم کو اسماعیل بن ابراہیم نے خبر دی انہوں نے عبد العزیز سے انہوں نے انس بن مالکؓ سے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( ہجرت کر کے )مدینہ میں تشریف لائے تو ابو طلحہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ !انس ایک عقلمند چھوکرا ہے وہ آپ کی خدمت میں رہے گا ۔انسؓ کہتے ہیں پھر میں حضر اور سفر دونوں میں آپ کی خدمت کرتا رہا خدا کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دس برس کی مدت میں اگر میں نے کوئی کام کیا تو خفگی سے ) یوں نہیں فرمایا تو نے اس کام کو اس طرح کیوں کیا اور جس کام کو میں نے نہیں کیا تو یوں نہیں فرمایا تو نے اس کام کو ایسے کیوں نہیں کیا ۔

Chapter No: 28

باب الْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ

No Diya (blood-money) is to be paid in cases of mines and wells.

باب: کان میں کام کرتے یا کنویں کا کام کرتے میں کوئی مر جائےتو اس کے خون کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي، سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ الْعَجْمَاءُ جُرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ ‏"‏‏.‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "There is no Diya for persons killed by animals or for the one who has been killed accidentally by falling into a well or for the one killed in a mine. And one-fifth of Rikaz (treasures buried before the Islamic era) is to be given to the state."

ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے کہا ہم سے ابن شہاب نے انہوں نے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریایا بے زبان جانور اگر کسی کو زخمی کرے تو اس کا کچھ بدلہ نہیں ملے گا اسی طرح جو کوئی کنوئیں کا کام کرتے میں مر جائے یا زخمی ہو جائے اسی طرح جو کوئی کان کا کام کرتے میں ہلاک یا زخمی ہو اور جو مال کافروں کا زمین میں گڑا ہوا ملے اس میں سے پانچواں حصہ سرکار کا ہے ۔

Chapter No: 29

باب الْعَجْمَاءُ جُبَارٌ

There is no Diya (blood-money) for the one killed by an animal unaccompanied by somebody to control it.

باب: بےزبان جانور اگر کچھ نقصان کرے تو اس کا تاوان نہیں۔

وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ كَانُوا لاَ يُضَمِّنُونَ مِنَ النَّفْحَةِ وَيُضَمِّنُونَ مِنْ رَدِّ الْعِنَانِ‏.‏ وَقَالَ حَمَّادٌ لاَ تُضْمَنُ النَّفْحَةُ إِلاَّ أَنْ يَنْخُسَ إِنْسَانٌ الدَّابَّةَ‏.‏ وَقَالَ شُرَيْحٌ لاَ تُضْمَنُ مَا عَاقَبَتْ أَنْ يَضْرِبَهَا فَتَضْرِبَ بِرِجْلِهَا‏.‏ وَقَالَ الْحَكَمُ وَحَمَّادٌ إِذَا سَاقَ الْمُكَارِي حِمَارًا عَلَيْهِ امْرَأَةٌ فَتَخِرُّ، لاَ شَىْءَ عَلَيْهِ‏.‏ وَقَالَ الشَّعْبِيُّ إِذَا سَاقَ دَابَّةً فَأَتْعَبَهَا فَهْوَ ضَامِنٌ لِمَا أَصَابَتْ، وَإِنْ كَانَ خَلْفَهَا مُتَرَسِّلاً لَمْ يَضْمَنْ‏

Ibn Sirin said, "They used not to guarantee any compensation for any damage caused by an animal's kick, but if the rider of the animal pulled the rein (causing the animal to turn and damage something with its feet), the rider is responsible." Hammad said, "There is no compensation for the damage caused by an animal's kick, unless somebody has kicked (and startled) the animal." Shuraih said, "There is no compensation for damage or injury inflicted by an animal on somebody who hits it whereupon it kicks him." And Al-Hakam and Hammad said, "If a hirer of mounts drives a donkey mounted by a woman, and the woman falls down, then he is not charged any compensation." And Ash-Shabi said, "If someone drives an animal and makes it tired by driving it fast, the he is responsible for any damage it might cause and if he drives it slowly, he is not responsible."

اور محمد بن سیرین (تابعی مشور) نے کہا جانور اگر کسی کو لات مارتا تو اس کا تاوان نہیں دلاتے تھے لیکن اگر کوئی اس پر سوار ہو اور باگ موڑتے وقت وہ پاؤں سے کسی کو نقصان پہنچائے تو تاوان دینا ہو گا اور حماد بن ابی سلیمان نے کہا اگر جانور لات مار دے تو اس کا تاوان نہیں ہے پر اگر کوئی اس کو چھیڑے اور وہ لات مارے تو چھیڑنے والے کو تاوان دینا ہو گا اور شریح قاضی نے کہا اگر کوئی جانور کو مارے اور وہ اس مارنے کے بدل دولتی جھاڑے تو مالک پر تاوان نہ ہو گا اور حکم بن عیتبہ اور حماد بن ابی سلیمان نے کہا اگر گدھے والا گدھے کو ہانکے اس پر ایک عورت سوار ہو کر وہ گر پڑے تو اس پر تاوان نہ ہو گا اور شعبی نے کہا اگر جانور کو بری طرح ہانکے اس پر سختی کرے اور وہ کچھ نقصان کر ڈالے تو ہانکنے والا ضامن ہو گا اور اگر جانور کے پیچھے رہ کر اس کو (معمولی طور سے) آہستگی سے ہانک رہا ہو تو ہانکنے والا ضامن نہ ہو گا۔

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ الْعَجْمَاءُ عَقْلُهَا جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ ‏"‏‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "There is no Diya for a person injured or killed by an animal (going about without somebody to control it) and similarly, there is no Diya for the one who falls and dies in a well, and also the one who dies in a mine. As regards the Ar-Rikaz (buried wealth), one-fifth thereof is for the state."

ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے انہوں نے محمد بن زیاد سے انہوں نے ابو ہریرہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا بے زبان جانور کسی کو زخمی کرے تو اس کی دیت کچھ نہیں ہے اسی طرح کنوئیں میں کام کرنے سے کوئی نقصان پہنچے اسی طرح کان میں کام کرنے سے اور جو کافروں کا گڑھا ہوا مال ملے اس میں سے پانچواں حصہ سرکار میں لیا جائے گا ۔

Chapter No: 30

باب إِثْمِ مَنْ قَتَلَ ذِمِّيًّا بِغَيْرِ جُرْمٍ

The sin of a person who killed an innocent Dhimi (a non-Muslim living under the protected of an Islamic State)

باب: اگر کوئی ذمی کافر کو بےگناہ مار ڈالے تو کتنا بڑا گناہ ہو گا۔

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا يُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا ‏"‏‏

Narrated By 'Abdullah bin 'Amr : The Prophet said, "Whoever killed a Mu'ahid (a person who is granted the pledge of protection by the Muslims) shall not smell the fragrance of Paradise though its fragrance can be smelt at a distance of forty years (of travelling)."

ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا کہا ہم سے عبد الواحد بن زیاد نے کہا ہم سے حسن بن عمروفقیمی نے کہا ہم سے مجاہد نے انہوں نے عبد اللہ بن عمرو سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا جو شخص ایسی جان کو مار ڈالے جس سے عہد کر چکا ہو ( اس کو امان دے چکا ہو جیسے ذمی کافر کو )تو وہ بہشت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا اور بہشت کی خوشبو چالیس برس کی راہ سے معلوم ہوتی ہے ۔

1234