Chapter No: 21
باب {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَى إِنَّهُ كَانَ مُخْلِصًا وَكَانَ رَسُولاً نَبِيًّا * وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا} كَلَّمَهُ ،يُقَالُ لِلْوَاحِدِ وَلِلاِثْنَيْنِ ،وَالْجَمِيعِ نَجِيٌّ:وَيُقَالُ {خَلَصُوا} اعْتَزَلُوا نَجِيًّا، وَالْجَمِيعُ أَنْجِيَةٌ، يَتَنَاجَونَ {تَلَقَّفُ}:تَلْقَمْ
"And mention in the Book (this Qur'an) Musa (Moses). Verily, he was chosen and he was a messenger and a prophet. And We called him from the right side of the Mount, and made him to draw near to us for a talk with him."(V.19:51,52)
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد : "اور اس کتاب میں موسیٰ کا قصہ بھی یاد کیجئے گا بلاشبہ وہ ایک منتخب چنا ہوا (بندہ) اور وہ رسول نبی تھے ۔ اور ہم نے انہیں کوہ طور کی دائیں جانب سے پکارا اور راز کی گفتگو کرنے کےلیے اسے قرب عطا کیا " کا بیان۔۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا ۔ واحد ، تثنیہ اور جمع سب کےلیے لفظ نجی بولا جاتا ہے ۔ چنانچہ سورہ یوسف میں ہے ۔ (خلصوا) یعنی اکیلے میں جاکر مشورہ کرنے لگے ۔ اور اس کی جمع انجیۃ ہے ۔ یتناجون بھی اسی سے نکلا ہے ۔ تلقف کے معنی تلقم ہیں یعنی وہ ان کو لقمہ بنانے لگا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، سَمِعْتُ عُرْوَةَ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ ـ رضى الله عنها فَرَجَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، وَكَانَ رَجُلاً تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ. فَقَالَ وَرَقَةُ مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى، وَإِنْ أَدْرَكَنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. النَّامُوسُ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي يُطْلِعُهُ بِمَا يَسْتُرُهُ عَنْ غَيْرِهِ.
Narrated By 'Aisha : The Prophet returned to Khadija while his heart was beating rapidly. She took him to Waraqa bin Naufal who was a Christian convert and used to read the Gospels in Arabic Waraqa asked (the Prophet), "What do you see?" When he told him, Waraqa said, "That is the same angel whom Allah sent to the Prophet) Moses. Should I live till you receive the Divine Message, I will support you strongly."
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعدنے کہا مجھ سے عقیل نے،انہوں نے ابن شہاب سے،انہوں نے کہا میں نے عروہ بن زبیر سے سنا،انہوں نے حضرت عائشہؓ سے،انہوں نے کہا(جب حضرت جبریلؑ غارِحرا میں نبیﷺ سے ملے)آپؐ وہاں سے حضرت خدیجہؓ کے پاس لوٹ آئے آپؐ کا دل دھڑک رہا تھا۔وہ آپؐ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، وُہ نصرانی ہوگئے تھے۔عربی زبان میں انجیل شریف پڑھا کرتے تھے۔انہوں نے آپﷺ سے پوچھا کہو تم کو کیا دکھائی دیتا ہے؟آپؐ نے بیان کیا ورقہ کہنے لگے یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ نے حضرت موسٰی پر اتارا،اور جو کہیں میں تمہاری( پیغمبری کے) زمانہ تک زندہ رہا تو تمہاری بہت اچھی مدد کروں گا۔نَامُوس کہتے ہیں محرمِ داز کو جس سے آدمی وہ بات کہتا ہے جو دوسروں سے چھپاتا ہے۔
Chapter No: 22
باب قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:
The Statement of Allah, "And has there come to you the story of Musa (Moses)? When he saw a fire ... in the sacred valley, Tuwa." (V.20:9-12)
با ب: اللہ تعالیٰ کا (سورت طٰہ میں ) فر مانا
{وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى * إِذْ رَأَى نَارًا} إِلَى قَوْلِهِ {بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى} {آنَسْتُ} أَبْصَرْتُ {نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ} الآيَةَ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمُقَدَّسُ الْمُبَارَكُ. طُوًى اسْمُ الْوَادِي {سِيرَتَهَا} حَالَتَهَا وَ{النُّهَى} التُّقَى {بِمَلْكِنَا} بِأَمْرِنَا. {هَوَى} شَقِيَ. {فَارِغًا} إِلاَّ مِنْ ذِكْرِ مُوسَى. {رِدْءًا } كَىْ يُصَدِّقَنِي. وَيُقَالُ مُغِيثًا أَوْ مُعِينًا. يَبْطُشُ وَيَبْطِشُ. {يَأْتَمِرُونَ} يَتَشَاوَرُونَ. وَالْجِذْوَةُ قِطْعَةٌ غَلِيظَةٌ مِنَ الْخَشَبِ لَيْسَ فِيهَا لَهَبٌ. {سَنَشُدُّ} سَنُعِينُكَ كُلَّمَا عَزَّزْتَ شَيْئًا فَقَدْ جَعَلْتَ لَهُ عَضُدًا. وَقَالَ غَيْرُهُ كُلَّمَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهْىَ عُقْدَةٌ {أَزْرِي} ظَهْرِي {فَيُسْحِتَكُمْ} فَيُهْلِكَكُمْ. {الْمُثْلَى} تَأْنِيثُ الأَمْثَلِ، يَقُولُ بِدِينِكُمْ، يُقَالُ خُذِ الْمُثْلَى، خُذِ الأَمْثَلَ. {ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا} يُقَالُ هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ. {فَأَوْجَسَ} أَضْمَرَ خَوْفًا، فَذَهَبَتِ الْوَاوُ مِنْ {خِيفَةً} لِكَسْرَةِ الْخَاءِ. {فِي جُذُوعِ النَّخْلِ} عَلَى جُذُوعِ {خَطْبُكَ} بَالُكَ. {مِسَاسَ} مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا {لَنَنْسِفَنَّهُ} لَنُذْرِيَنَّهُ. الضَّحَاءُ الْحَرُّ. {قُصِّيهِ} اتَّبِعِي أَثَرَهُ، وَقَدْ يَكُونُ أَنْ تَقُصَّ الْكَلاَمَ {نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ}. {عَنْ جُنُبٍ} عَنْ بُعْدٍ وَعَنْ جَنَابَةٍ وَعَنِ اجْتِنَابٍ وَاحِدٌ. قَالَ مُجَاهِدٌ {عَلَى قَدَرٍ} مَوْعِدٌ {لاَ تَنِيَا} {لاَ تَضْعُفَا} {يَبَسًا} يَابِسًا {مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ} الْحُلِيِّ الَّذِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ {فَقَذَفْتُهَا} أَلْقَيْتُهَا. {أَلْقَى} صَنَعَ. {فَنَسِيَ} مُوسَى هُمْ يَقُولُونَهُ أَخْطَأَ الرَّبَّ أَنْ لاَ يَرْجِعَ إِلَيْهِمْ قَوْلاً فِي الْعِجْلِ
اے پیغمبر تو نے مو سیٰؑ کا قصہ سنا ہے اخیر آیت بالواد المقدس طوی تک اٰ نست کا معنی میں نے آگ دیکھی (تم ٹھہرو ) میں اس میں سے ایک چنگاری تمھارے پاس لے آؤں ۔ ابن عباس نے کہا مقدس کا معنی مبا رک طوی اس وادی کا نام تھا ( جہا ں اللہ تعالیٰ نے حضرت مو سٰی سے باتیں کیں) سیرتھا یعنی پہلی حالت پر نھٰی یعنی پر ہیزگاری بملکنا یعنی اپنے اختیار سے ھو ی یعنی بد بخت ہو ا۔ فا ر غا یعنی موسٰی کے سوا اور کو ئی خیا ل دل میں نہ رہا ردًا یعنی فر یا د رس یا مددگا ر یبطش بضم طاء اور یبطش بکسر طاء دو نوں طرح قرات ہے یا تمرون یعنی مشورہ کرتے ہیں جذوۃ لکڑی کا ایک موٹا ٹکڑا جس میں آگ کا شعلہ نہ نکلے (صرف اس کے منہ پر آگ لگی ہو ) سنشد عضدک یعنی ہم تیر ی مدد کریں گے جب تو کسی چیز کو زور دے گویا تو نے اس کو عضد یعنی بازو دیا (یہ سب تفسیریں ابن عبا س سے منقول ہیں اوروں نے کہا عقدۃ کا معنی یہ ہے کہ زبان سے کوئی حرف یا تے یا فے نہ نکل سکے۔ا زری یعنی میری پیٹھ فیسحتکم یعنی تم کو ہلا ک کرے مثلیٰ ،امثل کی مونث ہے یعنی اچھی روش اچھا طریقہ سنبھال ثم ائتواصفا یعنی قطار باندھ کر آو (عر ب لو گ) کہتے ہیں آج تو صف میں گیا نہیں؟ یعنی نمازکے مقام میں۔ فاوجس یعنی مو سی کا دل دھڑکنے لگا ۔ خیفۃ کی اصل خو فۃ تھی واو بوجہ کسرہ ما قبل کے ی سے بد ل گئی فی جذوع النحل یعنی علیٰ جذوع النحل خطبک یعنی تیراحال مسا س مصدر ہے کہتے ہیں ماسہ لامساس (یعنی تجھ کو کوئی نہ چھوئے نہ تو کسی کو چھوئے ) لتسفنہ یعنی ہم اس کو راکھ کر کے پا نی میں اڑا دیں گے لا تضحیٰ اضحیٰ سے ہے یعنی گر می ۔ قصیہ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا کبھی قص کا معنی با ت کا بیان کر نا ۔ اسی سے ہے (سورت یو سف میں)نحن نقص علیک ۔ عن جنب اور عن جنا بۃ اور عن اجتناب سب کا معنی ایک ہے یعنی دور سے ۔ مجا ہد نے کہا علی قدر یعنی وعدے پر ۔ لا تنیایعنی سستی نہ کرو ۔ مکانا سوی ۔ میدان جو دو نو ں جماعتوں میں نصفاً نصف تقسیم ہو یبسا یابسایعنی خشک من زینۃ القوم یعنی زیور میں سے جو بنی اسرائیل نے فر عو ن وا لو ں سے ما نگ کر لئے تھے ۔ فقذ فتھایعنی میں نے اس کو ڈا ل دیا ۔ القی یعنی بنا یا فنسی اس کا مطلب یہ ہے کہ سا مر ی اور اس کے لو گ کہتے ہیں مو سیٰ نے غلطی کی جو اس بچھڑے کو خد انہ سمجھ کردو سر ی جگہ چل د یا ان لا یر جع الیھم قو لا یعنی وہ بچھڑا ان کی بات کا جوا ب نہیں دے سکتا تھا۔
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ. تَابَعَهُ ثَابِتٌ وَعَبَّادُ بْنُ أَبِي عَلِيٍّ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.
Narrated By Malik bin Sasaa : Allah's Apostle talked to his companions about his Night Journey to the Heavens. When he reached the fifth Heaven, he met Aaron. (Gabriel said to the Prophet), "This is Aaron." The Prophet said, "Gabriel greeted and so did I, and he returned the greeting saying, 'Welcome, O Pious Brother and Pious Prophet."
ہم سے ہدَبہ بن خالد نے بیان کیا کہا ہم سے ہمّام نے کہا ہم سے قتادہ نے،انہوں نے انسؓ بن مالک سے،انہوں نے مالک بن صعصعہ سے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں سے معراج کی رات کا حال بیان کیا،فرمایا پانچویں آسمان پر میں پہنچا۔وہاں ہارون پیغمبرؑ سے ملا۔جبرائیلؑ نے کہا یہ ہارونؑ ہیں ان کو سلام کردیں۔میں نے ان کو سلام کیا،انہوں نے جواب دیا کہنے لگے آؤ اچھے بھائی اچھے پیغمبر۔ اس حدیث کو قتادہ کےساتھ ثابت بنانی اور عبادہ بن علی نے بھی انسؓ سے انہوں نے نبیﷺ سے روایت کیا۔
Chapter No: 23
باب
"And a believing man of Firaun (Pharaoh) family, who hid his faith said ... a Musrif, a liar!" (V.40:28)
با ب :
{وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ } إِلَى قَوْلِهِ {مُسْرِفٌ كَذَّابٌ}
اور کہا ایک آدمی نے جو فر عو ن کے خاندان سے تھا اور جو (اب تک ) اپنے ایمان کو چھپا تا تھا اخیر آیت مُسرِف کذّاب تک ۔
Chapter No: 24
بابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالىَ: {وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى} {وَكَلَّمَ اللهُ مُوْسَى تَكْلِيْمًا}
The Statement of Allah, "Has there come to you the story of Musa(Moses)?" (V.79:15) And Allah's Statement, "... And to Moses Allah spoke directly." (V.4:164)
با ب : اللہ تعا لیٰ کا (سورت طہٰ میں ) فر ما نا
اے پیغمبر تو نے مو سی کا قصہ سنا ہے اور (سورت نساء میں ) اللہ تعا لیٰ نے مو سٰی سے بو ل کر باتیں کیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ " رَأَيْتُ مُوسَى وَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ رَجِلٌ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى، فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ، وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ صلى الله عليه وسلم بِهِ، ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ، فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ، وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ فَقَالَ اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ. فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ فَقِيلَ أَخَذْتَ الْفِطْرَةَ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ".
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "On the night of my Ascension to Heaven, I saw (the prophet) Moses who was a thin person with lank hair, looking like one of the men of the tribe of Shanua; and I saw Jesus who was of average height with red face as if he had just come out of a bathroom. And I resemble prophet Abraham more than any of his offspring does. Then I was given two cups, one containing milk and the other wine. Gabriel said, 'Drink whichever you like.' I took the milk and drank it. Gabriel said, 'You have accepted what is natural, (True Religion i.e. Islam) and if you had taken the wine, your followers would have gone astray.'"
ہم سے ابراہیم بن موسٰی نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہا ہم کو معمر نے،انہوں نے زہری سے انہوں نے سعید بن مسیّب سے،انہوں نے ابوہریرہؓ سے،انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے فرمایا جس رات کو مجھے معراج ہُوا میں نے موسٰیؑ کو دیکھا وہ ایک دُبلے پتلے سیدھے بال والے آدمی ہیں جیسے شنؤہ(قبیلہ) کے لوگ ہوتے ہیں اور عیسٰیؑ کو دیکھا وہ ایک میانہ قامت سُرخ رنگ کے آدمی ہیں(ایسے تروتازہ صاف پاک) جیسے ابھی حمام سے نکلے ہیں اور ابراہیمؑ سے ان کی سب اولاد میں،مَیں زیادہ مشابہ ہوں(جب پیغمبروں سے مل چکا)تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے۔ایک میں دودھ تھا ایک میں شراب اور (جبرائیل نے)مجھ سے کہا جو آپکا دل چاہے لیکر پیجئے میں نے دودھ کا پیالہ لیکر پی لیا اسوقت (فرشتوں نے)مجھ سے کہا تم نے فطرت پر عمل کیا(دودھ آدمی کی پیدائشی غذا ہے)اگر تم شراب کا پیالہ لیتے تو تمہاری امّت خراب ہو جاتی۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَمِّ، نَبِيِّكُمْ ـ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى ". وَنَسَبَهُ إِلَى أَبِيهِ.
Narrated By Ibn 'Abbas : The Prophet said, "One should not say that I am better than Jonah (i.e. Yunus) bin Matta." So, he mentioned his father Matta.
مجھ سے محمدبن بشار نے بیان کیا کہا ہم سےغندر نے کہا ہم سے شعبہ نے،انہوں نے قتادہ سے،انہوں نے کہا میں نے ابوالعالیہ سے سُنا وہ کہتے تھے ہم سے تمہارے پیغمبر کے چچا زاد بھائی یعنی عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا کسی آدمی کو یوں نہ کہنا چاہیئے میں یونس بن متّٰی پیغمبر سے بہتر ہوں ۔راوی نے یونسؑ کے والد کا نام متّٰی بیان کیا ۔
وَذَكَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ فَقَالَ " مُوسَى آدَمُ طُوَالٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ ". وَقَالَ " عِيسَى جَعْدٌ مَرْبُوعٌ ". وَذَكَرَ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ، وَذَكَرَ الدَّجَّالَ.
The Prophet mentioned the night of his Ascension and said, "The prophet Moses was brown, a tall person as if from the people of the tribe of Shanu'a. Jesus was a curly-haired man of moderate height." He also mentioned Malik, the gate-keeper of the (Hell) Fire, and Ad-Dajjal.
اور آپؐ نے معراج کی شب کا حال بیان کیا فرمایا موسیٰؑ تو گندمی رنگ دراز قامت(لمبے) تھے جیسے شنؤہ(قبیلہ)کے لوگ ہوتے ہیں اور عیسٰی گھونگریالے بال والے میانہ قامت آدمی تھے اور آپؐ نے مالک فرشتے کا ذکر کیا جو دوزخ کا دروغہ ہے اور دجّال کا ذکر کیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، عَنِ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَجَدَهُمْ يَصُومُونَ يَوْمًا، يَعْنِي عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، وَهْوَ يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ، فَصَامَ مُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ. فَقَالَ " أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ ". فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ.
Narrated By Ibn 'Abbas : When the Prophet came to Medina, he found (the Jews) fasting on the day of 'Ashura' (i.e. 10th of Muharram). They used to say: "This is a great day on which Allah saved Moses and drowned the folk of Pharaoh. Moses observed the fast on this day, as a sign of gratitude to Allah." The Prophet said, "I am closer to Moses than they." So, he observed the fast (on that day) and ordered the Muslims to fast on it.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا کہا ہم کو سفیان بن عُیینہ نےکہا ہم سے ایوب سختیانی نے،انہوں نے سعید بن جبیر سے،انہوں نے اپنے باپ سے،انہوں نے ابن عباسؓ سے کہ نبیﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے تو یہود لوگوں کو دیکھا وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور کہتے تھے یہ بڑادن ہے،اسی دن اللہ نے موسٰیؑ کو نجات دی اور فرعون کو ڈبو دیا تو موسٰیؑ نے شکریہ کے طور پر اس دن روزہ رکھا۔آپؐ نے یہ سن کر فرمایا میں ان سے زیادہ موسٰیؑ سے تعلق رکھتا ہوں پھر آپؐ نے اس دن روزہ رکھا،لوگوں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
Chapter No: 25
باب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً} إِلَى قَوْلِهِ :{وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ}
The Statement of Allah, "And We appointed for Musa (Moses) thirty nights ... And I am the first of the believers." (V.7:142,143)
با ب: اللہ تعا لیٰ کا (سورت اعراف میں ) فر ما نا ہم نے مو سی سے تیس رات کا ٹھہرا و کیا ۔ اخیر آیت و انا اول المومنین تک ۔
يُقَالُ دَكَّهُ زَلْزَلَهُ. {فَدُكَّتَا} فَدُكِكْنَ، جَعَلَ الْجِبَالَ كَالْوَاحِدَةِ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا} وَلَمْ يَقُلْ كُنَّ. رَتْقًا مُلْتَصِقَتَيْنِ {أُشْرِبُوا} ثَوْبٌ مُشَرَّبٌ مَصْبُوغٌ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ {انْبَجَسَتْ} انْفَجَرَتْ {وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ} رَفَعْنَا.
عر ب لوگ کہتے ہیں دکہ یعنی اس کو ہلا دیا اسی سے ہے (سورت حاقہ میں )فدکتا دکۃ واحدہ تثنیہ کا صیغہ اس طر ح درست ہو ا کہ پہاڑوں کو ایک چیز فرض کیا اور زمین کو ایک چیز ۔ قا عدے کے موافق یو ں ہو تا تھا فد ککن بصیغہ جمع اس کی مثال وہ ہے (سورت انبیاء میں ہے) ان السموت والارض کا نتا رتقا۔ اور یوں نہیں فر ما یا کن ر تقا بہ صیغہ جمع (حالا نکہ قیا س یہی چا ہتا تھا)رتقا کے معنی جڑے ہوئے ، ملے ہوئے اشر بوا ، ( جو سورت بقر ہ میں ہے ) اس شر ب سے نکلا ہے جو رنگنے کے معنوں میں آتا ہے جیسے
عر ب لوگ کہتے ہیں ثوب مشرب یعنی کپڑا رنگا ہوا ( سورہ اعراف میں ) نتقنا کا معنی ہم نے اٹھا یا ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " النَّاسُ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلاَ أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي، أَمْ جُوزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ ".
Narrated By Abu Said : The Prophet said, 'People will be struck unconscious on the Day of Resurrection and I will be the first to regain consciousness, and behold! There I will see Moses holding one of the pillars of Allah's Throne. I will wonder whether he has become conscious before me of he has been exempted, because of his unconsciousness at the Tur (mountain) which he received (on the earth)."
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ہم سے سفیان بن عُیینہ نے،انہوں نے عمرو بن یحیٰی سے انہوں نے ابوسعید خدریؓ سے انہوں نے نبیﷺ سے آپؐ نے فرمایا قیامت کے دن لوگ بے ہوش ہو جائیں گے سب سے پہلے مجھ کو ہوش آئے گا۔میں کیا دیکھوں گا موسٰیٰؑ عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں اب معلوم نہیں ان کو مجھ سےپہلے ہوش آجائے گا یا بے ہوش ہی نہ ہوں گے اس لئے کہ طُور پر بے ہوش ہوچکے تھے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " لَوْلاَ بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ، وَلَوْلاَ حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ ".
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "Were it not for Bani Israel, meat would not decay; and were it not for Eve, no woman would ever betray her husband."
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالرزاق نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی،انہوں نے ہمام سے انہوں نے ابوہریرہؓ سے،انہوں نے کہا نبیﷺ نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے(سلویٰ کا گوشت سینت کر نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا اور جو حوّا نہ ہوتیں(حضرت آدمؑ سے دغا نہ کرتیں)تو کوئی عورت کبھی اپنے خاوند کی چوری نہ کرتی۔
Chapter No: 26
باب طُوفَانٍ مِنَ السَّيْلِ
Torrential flood.
با ب: (سورت اعراف میں جو آیا ہے ) و ار سلنا علیھم الطو فا ن سے مراد پا نی کا بہیا ہے ۔
يُقَالُ لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ طُوفَانٌ. الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ. {حَقِيقٌ} حَقٌّ. {سُقِطَ} كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ
اور بہت مری پڑنے پر بھی طو فا ن کہتے ہیں ۔ قمل سے مراد چیچڑی ہے جو چھو ٹی جو ں کے مشابہ ہو تی ہے (گو چڑی ) حقیق کا معنی حق اور لا زم سقط فی ایدیہم یعنی شر مند ہ ہوئے عرب لو گ جو شرمندہ ہو تا ہے کہتے ہیں سقط فی یدہ ۔
Chapter No: 27
باب حَدِيثِ الْخَضِرِ مَعَ مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
The story of Khidr with Musa (Moses).
با ب: حضرت خضر اور مو سی کا قصہ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هُوَ خَضِرٌ، فَمَرَّ بِهِمَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ، فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالَ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي، هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَذْكُرُ شَأْنَهُ قَالَ نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ قَالَ لاَ. فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ. فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ، فَجُعِلَ لَهُ الْحُوتُ آيَةً، وَقِيلَ لَهُ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ، فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ. فَكَانَ يَتْبَعُ الْحُوتَ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لِمُوسَى فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ. فَقَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ. فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا، فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ ".
Narrated By Ibn Abbas : That he differed with Al-Hur bin Qais Al-Fazari regarding the companion of Moses. Ibn 'Abbas said that he was Al-Khadir. Meanwhile Ubai bin Ka'b passed by them and Ibn 'Abbas called him saying, "My friend and I have differed regarding Moses' companion whom Moses asked the way to meet. Have you heard Allah's Apostle mentioning something about him?" He said, "Yes, I heard Allah's Apostle saying, 'While Moses was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked (him), 'Do you know anyone who is more learned than you?' Moses replied, 'No.' So, Allah sent the Divine Inspiration to Moses: 'Yes, Our slave, Khadir (is more learned than you).' Moses asked how to meet him (i.e. Khadir). So, the fish, was made, as a sign for him, and he was told that when the fish was lost, he should return and there he would meet him. So, Moses went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant boy of Moses said to him, 'Do you know that when we were sitting by the side of the rock, I forgot the fish, and t was only Satan who made me forget to tell (you) about it.' Moses said, That was what we were seeking after,' and both of them returned, following their footmarks and found Khadir; and what happened further to them, is mentioned in Allah's Book."
ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے کہا مجھ سے میرے باپ نے،انہوں نے صالح بن کیسان سے،انہوں نے ابنِ شہاب سے،ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا انہوں نے کہا عبداللہ بن عباسؓ اور حُر بن قیس فزاری نے جھگڑا کیا اس باب میں کہ موسٰی کن کے پاس گئے تھے،(ان کا ساتھی جو کشتی میں سوار ہوا،ایک بچے کو مارا،ایک دیوار سیدھی کی)کون تھا۔ابنِ عباسؓ نے کہا وہ حضرت خضرؑ تھے،اتنے میں ابی بن کعبؓ ادھر سے گزرے ابن عباسؓ نے ان کو بلایا کہنے لگے میرے اور میرے دوست(حُر بن قیس) میں یہ جھگڑا ہے کہ موسٰیؑ کے وہ ساتھی کون تھے جن سے موسٰیؑ نے ملنا چاہا تھا کیا تم نے رسول اللہﷺ سے کچھ سنا ہے؟آپؐ اس کا کچھ ذکر کرتے تھے؟ابی ابن کعب نے کہا ہاں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپؐ فرماتے تھے ایک بار ایسا ہُوا موسٰیؑ بنی اسرائیل کے ایک گروہ میں بیٹھے ہوئے تھے،اتنے میں ایک شخص ان کے پاس آیا،پوچھنے لگا تم کسی ایسے شخص کو بھی جانتے ہو جو تم سے زیادہ عمل رکھتا ہو؟انہوں نے کہا نہیں۔اس وقت اللہ تعالٰی نے موسٰیؑ کو وحی بھیجی میرا بندہ خضر تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے موسٰیؑ نے ان تک پہنچنے کی دعا کی۔ایک مچھلی کو اللہ نے ان کے لئے نشان بنا دیا اور ان سے کہا گیا جب یہ مچھلی گم ہوجائے (دریا میں چل دے) وہیں سے لوٹ آ۔خضرؑ وہیں ملیں گے خیر موسٰیؑ برابر چلتے رہے اس مچلی کے انتظار میں تھے کہاں وہ سمندر میں غائب ہوجاتی ہے۔چلتے چلتے ان کے خادم(یوشع) نے ان سے کہا اجی دیکھو جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے (وہاں عجب معاملہ ہُوا مچھلی تڑپ کر دریا میں چلدی)میں تم سے مچھلی کا ذکر کرنا ہی بھول گیا موسٰیؑ نے یہ سن کر کہا واہ (من مانی مراد پائی) ہم تو اسی فکر میں تھے،پھر دونوں(موسٰیؑ اور یوشع) باتیں کرتے ہوئے اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے۔وہاں خضرؑ سے ملاقات ہوئی اور وہ معاملہ گزرا جو اللہ تعالٰی نے قرآن شریف میں بیان فرمایا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ قُلْتُ لاِبْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ. فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " أَنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَىُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا. فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ. فَقَالَ لَهُ بَلَى، لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ. قَالَ أَىْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ ـ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ أَىْ رَبِّ وَكَيْفَ لِي بِهِ ـ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا، فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ، حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهْوَ ثَمَّ ـ وَرُبَّمَا قَالَ فَهْوَ ثَمَّهْ ـ وَأَخَذَ حُوتًا، فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ، حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَى، وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ، فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ، فَقَالَ هَكَذَا مِثْلُ الطَّاقِ. فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا. وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ. قَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا. قَالَ لَهُ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ، فَسَلَّمَ مُوسَى، فَرَدَّ عَلَيْهِ. فَقَالَ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلاَمُ. قَالَ أَنَا مُوسَى. قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ، أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا. قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لاَ تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لاَ أَعْلَمُهُ. قَالَ هَلْ أَتَّبِعُكَ قَالَ {إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا * وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا} إِلَى قَوْلِهِ {إِمْرًا} فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ، كَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ، فَعَرَفُوا الْخَضِرَ، فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ جَاءَ عُصْفُورٌ، فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ، فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ، قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَى، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلاَّ مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ. إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا، قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِلاَّ وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ. فَقَالَ لَهُ مُوسَى مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا. قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا. قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا، فَكَانَتِ الأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا. فَلَمَّا خَرَجَا مِنَ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلاَمٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَكَذَا ـ وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ كَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا ـ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا. قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا. قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَىْءٍ بَعْدَهَا فَلاَ تُصَاحِبْنِي، قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا. فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ مَائِلاً ـ أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَى فَوْقُ، فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ مَائِلاً إِلاَّ مَرَّةً ـ قَالَ قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَى حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا. قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا". قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ، فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا ". قَالَ سُفْيَانُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى، لَوْ كَانَ صَبَرَ يُقَصُّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا ". وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ. ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ. قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو، أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ فَقَالَ مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ.
Narrated By Said bin Jubair : I said to Ibn Abbas, "Nauf Al-Bukah claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not Moses (the prophet) of the children of Israel, but some other Moses." Ibn 'Abbas said, "Allah's enemy (i.e. Nauf) has told a lie. Ubai bin Ka'b told us that the Prophet said, 'Once Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked who was the most learned man amongst the people. He said, 'I.' Allah admonished him as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So, Allah said to him, 'Yes, at the junction of the two seas there is a Slave of Mine who is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord! How can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a large basket and you will find him at the place where you will lose the fish.' Moses took a fish and put it in a basket and proceeded along with his (servant) boy, Yusha 'bin Nun, till they reached the rock where they laid their heads (i.e. lay down). Moses slept, and the fish, moving out of the basket, fell into the sea. It took its way into the sea (straight) as in a tunnel. Allah stopped the flow of water over the fish and it became like an arch (the Prophet pointed out this arch with his hands). They travelled the rest of the night, and the next day Moses said to his boy (servant), 'Give us our food, for indeed, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' Moses did not feel tired till he crossed that place which Allah had ordered him to seek after. His boy (servant) said to him, 'Do you know that when we were sitting near that rock, I forgot the fish, and none but Satan caused me to forget to tell (you) about it, and it took its course into the sea in an amazing way?.' So there was a path for the fish and that astonished them. Moses said, 'That was what we were seeking after.' So, both of them retraced their footsteps till they reached the rock. There they saw a man Lying covered with a garment. Moses greeted him and he replied saying, 'How do people greet each other in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man asked, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes, I have come to you so that you may teach me from those things which Allah has taught you.' He said, 'O Moses! I have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught me, and which you do not know, while you have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught you and which I do not know.' Moses asked, 'May I follow you?' He said, 'But you will not be able to remain patient with me for how can you be patient about things which you will not be able to understand?' (Moses said, 'You will find me, if Allah so will, truly patient, and I will not disobey you in aught.') So, both of them set out walking along the sea-shore, a boat passed by them and they asked the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and so they took them on board without fare. When they were on board the boat, a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice into the sea. Al-Khadir said to Moses, 'O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's Knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak.' Then suddenly Al-Khadir took an adze and plucked a plank, and Moses did not notice it till he had plucked a plank with the adze. Moses said to him, 'What have you done? They took us on board charging us nothing; yet you I have intentionally made a hole in their boat so as to drown its passengers. Verily, you have done a dreadful thing.' Al-Khadir replied, 'Did I not tell you that you would not be able to remain patient with me?' Moses replied, 'Do not blame me for what I have forgotten, and do not be hard upon me for my fault.' So the first excuse of Moses was that he had forgotten. When they had left the sea, they passed by a boy playing with other boys.
Al-Khadir took hold of the boys head and plucked it with his hand like this. (Sufyan, the sub narrator pointed with his fingertips as if he was plucking some fruit.) Moses said to him, "Have you killed an innocent person who has not killed any person? You have really done a horrible thing." Al-Khadir said, "Did I not tell you that you could not remain patient with me?' Moses said "If I ask you about anything after this, don't accompany me. You have received an excuse from me.' Then both of them went on till they came to some people of a village, and they asked its inhabitant for wood but they refused to entertain them as guests. Then they saw therein a wall which was just going to collapse (and Al Khadir repaired it just by touching it with his hands). (Sufyan, the sub-narrator, pointed with his hands, illustrating how Al-Khadir passed his hands over the wall upwards.) Moses said, "These are the people whom we have called on, but they neither gave us food, nor entertained us as guests, yet you have repaired their wall. If you had wished, you could have taken wages for it." Al-Khadir said, "This is the parting between you and me, and I shall tell you the explanation of those things on which you could not remain patient." The Prophet added, "We wished that Moses could have remained patient by virtue of which Allah might have told us more about their story. (Sufyan the sub-narrator said that the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on Moses! If he had remained patient, we would have been told further about their case.")
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیاکہا ہم سے سفیان بن عُیینہ نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے کہا مجھ سے سعید بن جبیر نے کہا میں نے ابنِ عباسؓ سے کہا نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ جو موسٰیؑ خضر سے ملے تھے وہ دوسرے موسٰی تھے بنی اسرائیل کے موسٰیؑ نہ تھے،انہوں نے کہا نوف جھوٹا ہے اللہ کا دشمن ہم سے ابی ابن کعب نے بیان کیا انہوں نے نبیﷺ سے کہ موسٰی پیغمبرؑبنی اسرائیل کو خطبہ سنانے کے لئے کھڑے ہوئے۔کسی نے اُن سے پُوچھا سب لوگوں میں کون زیادہ علم رکھتا ہے۔انہوں نے کہا میں(خدا کو ان کا یہ کہنا ناگوار ہوا)ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں نے اس کو علم اللہ پر نہیں رکھا(یوں نہیں کہا کہ اللہ جانتا ہے) اللہ نے فرمایا میرا ایک بندہ(خضر) وہاں ہے جہاں دو دریا (فارس اور روم کے)ملے ہیں،وہ تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔موسٰیؑ نے عرض کیا پروردگار مجھے اس تک کون پہنچائے گا؟اور کبھی سفیان بن عُیینہ نے یوں کہا،میں کیونکر اس تک پہنچوں؟ارشاد ہوا ایک مچھلی (مردہ نمک لگی ہوئی)لیکر اپنی پٹاری میں رکھ اور جہاں یہ گم ہوجائے تو وہیں ہوں گے۔موسٰی نے مچھلی لیکر پٹاری میں رکھی اور اپنے خادم یوشع بن نون کو ساتھ لے کر چلے۔جب صخرہ پر پہنچے تو دونوں نے اپنا سر ٹیکا(لیٹے) موسٰیؑ سو گئے(لیکن یوشع جاگتے رہے) مچھلی تڑپی اور تڑپ کر سمندر میں گری دریا میں چلتی ہوئی اللہ سبحانہٗ وتعالٰی نے پانی کی روانی اس پر سے روک دی۔پانی ایک طاق کی طرح اس پر بن گیا۔راوی نے طاق کی وضع بتلائی خیر موسٰیؑ اور یوشع پھر جتنا ایک دن رات میں سے باقی رہا تھا چلتے رہے۔جب دوسرا دن ہُوا تو موسٰیؑ نے یوشع سے کہا اجی ہمارا ناشتہ تو لاؤ ہم تو اس سفر سے تھک (کر چُور ہو)گئے۔آپؐ نے فرمایا موسٰیؑ کو تھکن اسی وقت معلوم ہوئی جب اس مقام سے آگے بڑھ گئے جہاں تک جانے کا حکم دیا تھا۔یوشع نے کہا(جنابِ والا)ملاحظہ فرمائیے جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے ہُوئے تھے تو میں مچھلی کا ذکر کرنا ہی بھول گیا۔شیطان ہی نے اس کا ذکر کرنا بُھلا دیا۔مچھلی نے عجیب طور سے دریا کی راہ لی(آپﷺ نے فرمایا) مچھلی کو تو سمندر میں راہ ملی اور موسٰیؑ اور یوشعؑ کو تعجّب ہُوا۔موسٰیؑ نے کہا اجی ہم تو اسی فکر میں تھے(کہ مچھلی کہاں نکل بھاگتی ہے)اور دونوں باتیں کرتے ہوئے اپنے قدموں کے نشان پر لوٹے۔جب پھر صخرہ پر پہنچے وہاں ایک شخص دیکھا کپڑے لپیٹے ہُوئے(وہی خضر تھے)موسٰی نے ان کو سلام کیا اس نے جواب دیا اور پُوچھا تیرے مُلک میں سلام کی رسم کہا ہے۔موسٰیؑ نے کہا میں مُوسٰی ہوں اس نےکہا بنی اسرائیل کے موسٰی؟انہوں نے کہا ہاں میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تم کو جو عمدہ(ہدایت کی)باتیں سکھائی گئی ہیں وہ مجھ کو بھی سکھلاؤ۔خضرؑ نے کہا اللہ نے ایک طرح کا علم مجھ کو سکھلایا ہے جس کو تم (اس طرح سے) نہیں جانتے اور تم کو دوسری طرح کا علم سکھلایا ہے جس کو میں (تمہارے برابر)نہیں جانتا۔خیر موسٰیؑ نے کہا(اب مطلب کی بات سنو) میں تمہارے ساتھ رہ سکتا ہوں؟خضرؑ نے کہا تم کو میرے ساتھ صبر نہ ہوسکے گا۔بات یہ ہے کہ جس چیز کی پوری حقیقت تم کو معلوم نہ ہو تم اس پر کیسے خاموش رہو گے(ضرور پوچھ بیٹھو گے)خیر آیت أمرًا تک۔آخر موسٰیؑ اور خضرؑ (دونوں) مل کر چلے۔سمندر کے کنارے کنارے جارہے تھے،ایک کشتی اُدھر سے گزری ۔انہوں نےکہا ہم کو سوار کرلو۔کشتی والوں نے خضر کو پہچان لیا اور بے کرایہ سوار کرلیا۔جب موسٰیؑ اور خضرؑ دونوں کشتی پر سوار ہُوئے تو ایک چڑیا کشتی کے ککر پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں ایک دوچونچیں ماریں۔خضرؑ نے کہا موسٰیؑ میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی لیا ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں سمندر میں سے لیا۔اس کے بعد خضر نے کیا کیا ایک کلہاڑی لی اور کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا۔تھوڑی دیر موسٰیؑ ٹھہرے تھے کہ خضرؑ نے ایک اور تختہ بسولے سے نکال ڈالا جب تو موسٰیؑ(سے رہا نہ گیا) کہنے لگے واہ ان لوگوں نے تو(ہم پر احسان کیا) بن کرایہ ہم کو سوار کرلیا۔تم نے ان کی کشتی ہی کو تاکا(جس رکابی میں کھائے اسی میں چھید)ان کو ڈبو دینے کی فکر کی کشتی پھاڑ ڈالی۔تم نے یہ بڑا (جان جوکھم) کام کیا۔خضرؑ نے کہا میں تو پہلے ہی تم سے کہہ چکا تھا تم سے میرے ساتھ صبر نہ ہوسکے گا۔موسٰیؑ نے( معذرت کی) کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کرو اور میرا کام مشکل نہ بناؤ اور تھا بھی سچ موسٰیؑ نے یہ سوال بھولے ہی سے کیا تھا(ان کو اپنی شرط کا خیال نہ رہا تھا) جب دونوں سمندر سے خشکی میں اترے تو راہ میں ایک لڑکا دیکھا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضرؑ نے اس کا سر تھاما اور اس طرح اکھاڑ ڈالا۔سفیان نے انگلیوں کی نوک سے اشارہ کیا جیسے کوئی چیز اُچک لیتے ہیں۔موسٰیؑ نے کہا واہ جی واہ تم نے ناحق ایک بے قصور جان کا خون کیا۔یہ تو بری حرکت کی۔خضرؑ نے کہا میں تو (پہلے ہی)کہہ چکا تھا تم سے میرے ساتھ صبر نہیں ہونے کا۔موسٰیؑ نے کہا اگر اب کے میں کوئی بات پوچھوں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا بیشک تمہارا عذر معقول ہے۔ خیر پھر دونوں چلے ایک بستی والوں پر پہنچے،ان سے کھانا مانگا(بھوکے تھے)انہوں نے کھانا نہ دیا(اتفّاق سے) اس بستی میں ایک دیوار دیکھی جو جُھک کر اب گرنے ہی کو تھی خضرؑ نے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا تو وہ دیوار سیدھی ہوگئ۔سفیان نے یہ اشارہ اس طرح بتلایا جیسے کوئی اوپر کی طرف ہاتھ پھرائے علی بن عبداللہ نے کہا میں نے جھک کر لفظ(اس حدیث میں)ایک ہی بار سنا ہے۔موسٰیؑ نے کہا کیا خوب ہم ان بستی والوں کے پاس(سفر کرتے ہوئے)آئے انہوں نے کھانا تک نہ دیا نہ مہمانی کی تم کو کیا پڑی تھی خواہ مخواہ ان کی دیوار درست کردی۔اجی مزدوری لے کر کام کرنا تھا۔خضرؑ نے کہا بس بس ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی آن پہنچی۔اب میں جن باتوں پر تم سے صبر نہ ہوسکا ان کی حقیقت تم سے کہے دیتا ہوں۔پھر انہوں نےوہی بیان کیا جو قرآن شریف میں ہے نبیﷺ نے فرمایا ہم کو آرزو رہ گئی کاش موسٰیؑ صبر کرتے تو اور بھی کیفیتیں ان کی ہم سے بیان کی جاتیں۔سفیان نے کہا نبیﷺ نے فرمایا اللہ موسٰیؑ پر رحم کرے اگر صبر کرتے تو اللہ ان کے اور اسرار بھی ہم پر بیان فرماتا۔ابنِ عباسؓ نے اس آیت کو یوں پڑھاہے وکان امامھم ملک یاخذکل سفینۃ صالحۃٍغصبا وہ لڑکا جس کو خضرؑ نے مار ڈالا کافر تھا اس کے ماں باپ ایماندار تھے۔علی بن مدینی نے کہا سفیان نے مجھ سے کہا میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دوبار سُنی اور یاد کر لی لوگوں نے سفیان سے پوچھا عمرو سے تم نے جو یہ حدیث سنی اس سے پیشتر بھی تم نے کسی اور سے سن کر یہ حدیث یاد کر لی تھی؟انہوں نے کہا میں اور کس اے سن کر یاد کرتااور میرے سوا اور کسی نے عمرو بن دینار سے یہ حدیث روایت نہیں کی۔میں نے ان سے یہ حدیث دو یاتین بار سنی اور یاد رکھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَصْبَهَانِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرُ أَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَإِذَا هِيَ تَهْتَزُّ مِنْ خَلْفِهِ خَضْرَاءَ ".
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "Al-Khadir was named so because he sat over a barren white land, it turned green with plantation after (his sitting over it."
ہم سے محمد بن سعید اصبہانی نے بیان کیا کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی،انہوں نے معمر سے،انہوں نے ہمّام بن منبّہ سے انہوں نے ابوہریرہؓ سے،انہوں نے نبیﷺ سے آپؐ نے فرمایا ان کا نام خضراس لئے ہُوا کہ وہ ایک سوکھی زمین پر بیٹھے(جہاں سبزی کانام نہ تھا)جب وہ وہاں سے چلے تو زمین سرسبز ہوکر لہلہانے لگی ۔حموی کہتے ہیں محمد بن یوسف بن مطرفربری نے کہا ہم سے علی بن خشرم نے سفیان سے یہ حدیث مفصل بیان کی ہے۔
Chapter No: 28
باب
Chapter
باب :
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ. فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، وَقَالُوا حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ ".
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "It was said to Bani Israel, Enter the gate (of the town) with humility (prostrating yourselves) and saying: "Repentance", but they changed the word and entered the town crawling on their buttocks and saying: "A wheat grain in the hair."
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہا ہم سے عبدالرزاق نے،انہوں نے معمر سے،انہوں نے ہمام بن منبہ سے انہوں نے ابوہریرہؓ سے سنا وہ کہتے تھے رسول اللہﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کو حکم ہُوا۔۔۔۔(بیت المقدس میں)سجدہ(رکوع) کرتے ہوئے گھسو اور کہتے جاؤحطۃ(گناہ معاف ہوں)انہوں نے بدل دیا(سجدے کے بدل) چوتڑوں پر گھسٹتے اور (حطۃ کے بدل)حبَّۃ فی شعرۃ کہتے ہوئے گُھسے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، وَخِلاَسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلاً حَيِيًّا سِتِّيرًا، لاَ يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَىْءٌ، اسْتِحْيَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالُوا مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلاَّ مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ، إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ. وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا لِمُوسَى فَخَلاَ يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ، فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الْحَجَرَ، فَجَعَلَ يَقُولُ ثَوْبِي حَجَرُ، ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا يَقُولُونَ، وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ، وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا}."
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "(The Prophet) Moses was a shy person and used to cover his body completely because of his extensive shyness. One of the children of Israel hurt him by saying, 'He covers his body in this way only because of some defect in his skin, either leprosy or scrotal hernia, or he has some other defect.' Allah wished to clear Moses of what they said about him, so one day while Moses was in seclusion, he took off his clothes and put them on a stone and started taking a bath. When he had finished the bath, he moved towards his clothes so as to take them, but the stone took his clothes and fled; Moses picked up his stick and ran after the stone saying, 'O stone! Give me my garment!' Till he reached a group of Bani Israel who saw him naked then, and found him the best of what Allah had created, and Allah cleared him of what they had accused him of. The stone stopped there and Moses took and put his garment on and started hitting the stone with his stick. By Allah, the stone still has some traces of the hitting, three, four or five marks. This was what Allah refers to in His Saying: "O you who believe! Be you not like those Who annoyed Moses, But Allah proved his innocence of that which they alleged, And he was honourable In Allah's Sight." (33.69)
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا کہا ہم سے روح بن عبادہ نے کہا ہم سے عوف بن ابی جمیلہ نے،انہوں نے امام حسن بصری اور محمد بن سیرین اور اخلاص بن عمرو سے،ان تینوں نے ابوہریرہؓ سے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا موسٰیؑ بڑے شرم والے ،بدن ڈھانکنے والے تھے۔ان کے بدن کا کوئی حصّہ شرم کی وجہ سے کوئی نہ دیکھ سکتا۔بنی اسرائیل کے بعضے لوگوں نے ان کو ستایا کہنے لگے،موسٰیؑ جو اس قدر اپنا بدن چھپاتے ہیں تو اس میں کوئی عیب ضرور ہے۔یا تو برص(کوڑھ) ہے یا فتق یا کوئی اور بیماری اور اللہ تعالٰی کو منظور ہُوا کہ موسٰیؑ کی بے عیبی کُھل جائے۔ایک روز ایسا اتفاق ہُوا،موسٰیؑ اکیلے تھے،انہوں نے اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ کر(ننگے)نہانا شروع کیا جب نہا چکے اور پتھر پر سے کپڑے لینے لگے تو پتھرّ(بقدرت الٰہی)ان کے کپڑے لے کر بھاگا۔موسٰیؑ نے عصا سنبھالی اور پتھر کے پیچھے چلے،کہتے جاتے تھے ارے پتھر میرے کپڑے دے،ارے پتھر میرے کپڑے دے وہ پتھرّ (تھما ہی نہیں )بنی اسرائیل کے لوگ جہاں تھے وہاں پہنچ کر تھما۔انہوں نے موسٰیؑ کو ننگا دیکھ لیا،اللہ کی مخلوق میں بہت اچھّے جو عیب وہ لگاتے تھے ان سے پاک صاف۔موسٰیؑ نے اپنے کپڑے لے کر پہنے اور پتھر کو عصا سے مارنا شروع کیا۔خدا کی قسم پتھر میں ان کی مار کے نشان موجود ہیں تین یا چار یا پانچ اس آیت کا جو(سورہ احزاب میں ہے)ایمان والو،ان لوگوں کی طرح مت ہو جہنوں نے موسٰیؑ کو ستایا(ان پر طوفان جوڑے) پھر اللہ نے ان کے طوفان سے موسٰیؑ کو پاک کر دیا اور موسٰیؑ تو اللہ کے نزدیک آبرودار تھے۔یہی مطلب ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَسَمَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَسْمًا، فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ. فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَأَخْبَرْتُهُ، فَغَضِبَ حَتَّى رَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ " يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ ".
Narrated By Abdullah : Once the Prophet distributed something (among his followers. A man said, "This distribution has not been done (with justice) seeking Allah's Countenance." I went to the Prophet and told him (of that). He became so angry that I saw the signs of anger oh his face. Then he said, "May Allah bestow His Mercy on Moses, for he was harmed more (in a worse manner) than this; yet he endured patiently."
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے،انہوں نے اعمش سے کہا میں نے ابو وائل سے سُنا وہ کہتے تھے میں نے عبداللہ بن مسعودؓ سے سُنا،انہوں نے کہا نبیﷺ نے(حنین کی جنگ میں)لوٹ کا مال بانٹا(عرب کے بعضے سرداروں کو زیادہ دیا) ایک شخص کہنے لگا اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی مقصود نہیں ہے۔میں نبیﷺ کے پاس آیا اور آپؐ سے بیان کر دیا۔آپؐ غصّے ہوئے اتنا کہ آپؐ کے چہرے پر میں نے غصّہ پایا پھر فرمایا اللہ موسٰیؑ پیغمبرؑ پر رحم کرے ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔
Chapter No: 29
باب {يَعْكِفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ}
Allah's Statement, "... And they came upon a people devoted to some of their idols (in worship) ..." (V.7:138)
با ب: اللہ تعالیٰ کا ( سورت اعراف میں ) فر ما نا وہ اپنے بتوں کی پو جا کر رہے تھے ،
{مُتَبَّرٌ} خُسْرَانٌ {وَلِيُتَبِّرُوا} يُدَمِّرُوا {مَا عَلَوْا} مَا غَلَبُوا.
( اسی سورت میں ) متبر کا معنی تبا ہی نقصان ( سورت بنی اسرائیل میں ) ولیتبر وا کا معنی خراب کریں ما علوا کا معنی جس جگہ حکو مت پا ئیں غا لب ہو ں ۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَجْنِي الْكَبَاثَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ مِنْهُ، فَإِنَّهُ أَطْيَبُهُ ". قَالُوا أَكُنْتَ تَرْعَى الْغَنَمَ قَالَ " وَهَلْ مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ وَقَدْ رَعَاهَا ".
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : We were with Allah's Apostle picking the fruits of the 'Arak trees, and Allah's Apostle said, "Pick the black fruit, for it is the best." The companions asked, "Were you a shepherd?" He replied, "There was no prophet who was not a shepherd."
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا ہم سے لیث نے انہوں نے یونس سے،انہوں نے ابنِ شہاب سے،انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے کہ جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ پیلو کے پھل چن رہے تھے۔آپؐ نے فرمایا کالے کالے دیکھ کر چنو وہ (پختہ)اور مزیدار ہوتا ہے۔لوگوں نے عرض کیا کیا آپؐ نے (جنگل میں)بکریاں چرائی ہیں؟(جب تو پیلو کے پھل کی ایسی شناخت آپؐ کو ہے جو سوا جنگل والوں کے اوروں کو نہیں ہوتی)۔آپؐ نے فرمایا بھلا کوئی پیغمبر ایسا بھی گزرا ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
Chapter No: 30
باب
"And (remember) when Musa (Moses) said to his people, 'Verily, Allah commands you that you slaughter a cow' ..." (V.2:67)
باب :اللہ کا ( سورت بقرہ میں ) فر مانا،
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً} الآيَةَ ،قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ الْعَوَانُ النَّصَفُ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالْهَرِمَةِ. {فَاقِعٌ} صَافٍ. {لاَ ذَلُولٌ} لَمْ يُذِلَّهَا الْعَمَلُ، {تُثِيرُ الأَرْضَ} لَيْسَتْ بِذَلُولٍ تُثِيرُ الأَرْضَ وَلاَ تَعْمَلُ فِي الْحَرْثِ {مُسَلَّمَةٌ} مِنَ الْعُيُوبِ. {لاَ شِيَةَ} بَيَاضٌ. {صَفْرَاءُ} إِنْ شِئْتَ سَوْدَاءُ، وَيُقَالُ صَفْرَاءُ، كَقَوْلِهِ {جِمَالاَتٌ صُفْرٌ}. {فَادَّارَأْتُمْ} اخْتَلَفْتُمْ
وہ وقت یا د کر و جب مو سیٰ نے اپنی قو م سے کہا اللہ تم کو ایک گائے کا ٹنے کا حکم دیتا ہے۔ اخیر آیت تک ۔ ابو العا لیہ نے کہا (اسی سورت میں) عوان کا معنی بچھیری اور بو ڑھی کے بیچ میں یعنی ادھیڑ۔ فا قع کا معنی صا ف لا ذلو ل کا معنی کام کاج سے ذلیل نہیں ہو ئی ۔ تثیر الارض کا مطلب وہ محنت والی گائے نہیں ہے جو زمین میں ہل چلا تی ہو یا کھیتی با ڑی کا کا م کرتی ہو مسلمۃ کا معنی عیبوں سے پاک شیۃ کا معنی سفید داغ صفراء کا معنی سیاہ کرے تو بھی ہو سکتا ہے ۔ اصل معنی تو زرد ہے ۔ جیسے (سورت المر سلا ت میں ) جما لا ت صفر ہے یعنی کا لے اونٹ فا درا تم کا معنی تم نے اختلا ف کیا۔