Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Baqarah (65.2)     سورة البقرة

12345Last ›

Chapter No: 21

باب قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{‏إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ}‏الآية

The Statement of Allah, "Verily! As-Safa and Al-Marwa (two mountains in Makkah) are of the Symbols of Allah ..." (V.2:158)

باب : اللہ کے اس قول أِنَّ الصَفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَائِرِاللہِ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ ۔ تفسیر

شَعَائِرُ عَلاَمَاتٌ، وَاحِدَتُهَا شَعِيرَةٌ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الصَّفْوَانُ الْحَجَرُ‏.‏ وَيُقَالُ الْحِجَارَةُ الْمُلْسُ الَّتِي لاَ تُنْبِتُ شَيْئًا، وَالْوَاحِدَةُ صَفْوَانَةٌ بِمَعْنَى الصَّفَا، وَالصَّفَا لِلْجَمِيعِ‏

شعائر شعیرۃ کی جمع ہے یعنی نشانیاں۔ ابن عباسؓ نے کہا صفوان کا لفظ جو اس سورت میں ہے اس معنی پتھر بعضوں نے کہا صفوان سپاٹ چکنے پتھر جن پر کچھ نہیں اگتا۔ اس کا مفرد صفوانہ ہے جیسے صفا یہ بھی جمع ہے (اس کا مفرد صفاۃ ہے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ‏{‏إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا‏}‏ فَمَا أُرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لاَ يَطَّوَّفَ بِهِمَا‏.‏ فَقَالَتْ عَائِشَةُ كَلاَّ لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ كَانَتْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَطَّوَّفَ بِهِمَا، إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي الأَنْصَارِ، كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا‏}‏

Narrated By Urwa : I said to 'Aisha, the wife of the Prophet, and I was at that time a young boy, "How do you interpret the Statement of Allah: "Verily, Safa and Marwa (i.e. two mountains at Mecca) are among the Symbols of Allah." So it is not harmful of those who perform the Hajj to the House of Allah) or perform the Umra, to ambulate (Tawaf) between them. In my opinion it is not sinful for one not to ambulate (Tawaf) between them." 'Aisha said, "Your interpretation is wrong for as you say, the Verse should have been: "So it is not harmful of those who perform the Hajj or Umra to the House, not to ambulate (Tawaf) between them.' This Verse was revealed in connection with the Ansar who (during the Pre-Islamic Period) used to visit Manat (i.e. an idol) after assuming their Ihram, and it was situated near Qudaid (i.e. a place at Mecca), and they used to regard it sinful to ambulate between Safa and Marwa after embracing Islam. When Islam came, they asked Allah's Apostle about it, whereupon Allah revealed: "Verily, Safa and Marwa (i.e. two mountains at Mecca) are among the Symbols of Allah. So it is not harmful of those who perform the Hajj of the House (of Allah) or perform the Umra, to ambulate (Tawaf) between them." (2.158)

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا:میں نے نبیﷺکی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا - اس حال میں کہ میں ابھی نوعمر تھا-کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہیے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہرگز نہیں جیسا کہ تمہارا خیال ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی (اسلام سے پہلے) انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہوا تھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ ﷺسے پوچھا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» بے شک صفا اور مروہ اللہ کی عظمت کی نشانیوں میں سے ہیں، سو جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ،‏.‏ فَقَالَ كُنَّا نَرَى أَنَّهُمَا مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الإِسْلاَمُ أَمْسَكْنَا عَنْهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا‏}‏‏.‏

Narrated By 'Asim bin Sulaiman : I asked Anas bin Malik about Safa and Marwa. Anas replied, "We used to consider (i.e. going around) them a custom of the Pre-Islamic period of Ignorance, so when Islam came, we gave up going around them. Then Allah revealed" "Verily, Safa and Marwa (i.e. two mountains at Mecca) are among the Symbols of Allah. So it is not harmful of those who perform the Hajj of the House (of Allah) or perform the Umra to ambulate (Tawaf) between them." (2.158)

عاصم بن سلیمان سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا اور مروہ (کی سعی )کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ہم جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الصفا والمروة۔۔۔۔» ‏ یعنی بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ پس ان کی سعی کرنے میں حج اور عمرہ کے دوران کوئی گناہ نہیں ہے۔

Chapter No: 22

باب قَوْلِهِ تَعَالَى ‏{وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ‏}‏

The Statement of Allah, "And of mankind are some who take others besides Allah as rivals. They love them as they love Allah ..." (V.2:165)

باب : اللہ کے اس قول وَمِنَ لنَّاسِ مَنۡ یَتَّخِذُ مَنۡ دُونِ اللہِ أنۡدَادًا یُحِبُّونَھُمۡ

يعنى أَضْدَادًا، وَاحِدُهَا نِدٌّ‏

Andad is a plural of Nidd and it means opponent or rival.

انداً۔ند کی جمع ہے۔ یعنی مقابل والا، ہمسر۔

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم كَلِمَةً وَقُلْتُ أُخْرَى قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مَنْ مَاتَ وَهْوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ ‏"‏‏.‏ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَاتَ وَهْوَ لاَ يَدْعُو لِلَّهِ نِدًّا دَخَلَ الْجَنَّةَ‏.‏

Narrated By 'Abdullah : The Prophet said one statement and I said another. The Prophet said "Whoever dies while still invoking anything other than Allah as a rival to Allah, will enter Hell (Fire)." And I said, "Whoever dies without invoking anything as a rival to Allah, will enter Paradise."

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرےکو اس کا شریک بنائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کہتا ہوں کہ جو شخص اس حالت میں مرجائے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے تو وہ جنت میں جائے گا۔

Chapter No: 23

باب ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ‏}الآية ‏

"O you who believe! Al-Qisas (the Law of Equality in punishment) is prescribed for you ..." (V.2:178)

باب : اللہ کے اس قول یَا أیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ القِصاصُ اخیر تک کی تفسیر۔ عفی کا معنی چھوڑ دیا جائے۔

‏{‏عُفِيَ‏}‏ تُرِكَ‏

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْقِصَاصُ، وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمُ الدِّيَةُ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِهَذِهِ الأُمَّةِ ‏{‏كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنْثَى بِالأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَىْءٌ‏}‏ فَالْعَفْوُ أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ ‏{‏فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ‏}‏ يَتَّبِعُ بِالْمَعْرُوفِ وَيُؤَدِّي بِإِحْسَانٍ، ‏{‏ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ‏}‏ وَرَحْمَةٌ مِمَّا كُتِبَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ‏.‏ ‏{‏فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ‏}‏ قَتَلَ بَعْدَ قَبُولِ الدِّيَةِ‏.‏

Narrated By Ibn Abbas : The law of Qisas (i.e. equality in punishment) was prescribed for the children of Israel, but the Diya (i.e. blood money was not ordained for them). So Allah said to this Nation (i.e. Muslims): "O you who believe! The law of Al-Qisas (i.e. equality in punishment) is prescribed for you in cases of murder: The free for the free, the slave for the slave, and the female for the female. But if the relatives (or one of them) of the killed (person) forgive their brother (i.e. the killers something of Qisas (i.e. not to kill the killer by accepting blood money in the case of intentional murder)... then the relatives (of the killed person) should demand blood-money in a reasonable manner and the killer must pay with handsome gratitude. This is an alleviation and a Mercy from your Lord, (in comparison to what was prescribed for the nations before you)." So after this, whoever transgresses the limits (i.e. to kill the killer after taking the blood-money) shall have a painful torment." (2.178)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں قصاص یعنی بدلہ تھا لیکن دیت نہیں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے کہا کہ تم پر مقتولوں کے بارے میں قصاص فرض کیا گیا، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام اور عورت کے بدلے میں عورت، ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقتول کی طرف سے کچھ معافی مل جائے۔ تو معافی سے مراد یہ ہے کہ وہ قتل عمد میں دیت لینا قبول کرلے تو دستور کے مطابق دیت کا مطالبہ ہو اور اچھے طریقے سےاس کی ادائیگی ہو۔یہ تمہارے ر ب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے ۔ یہ مہربانی ان لوگوں کی بنسبت ہے جو تم سے قبل گزرے ہیں۔ ان میں قطعا معافی نہ تھی۔ اس کے بعد اگر کوئی زیادتی کرے گا تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے ۔ زیادتی سے مراد یہ ہے کہ دیت بھی لے لیے اور قتل بھی کردے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، أَنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُمْ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ ‏"‏‏.‏

Narrated By Anas : The Prophet said, "The prescribed Law of Allah is the equality in punishment (i.e. Al-Qisas)." (In cases of murders, etc.)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے فرمایا : کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہے۔


حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ السَّهْمِيَّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ الرُّبَيِّعَ، عَمَّتَهُ كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا إِلَيْهَا الْعَفْوَ فَأَبَوْا، فَعَرَضُوا الأَرْشَ فَأَبَوْا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبَوْا إِلاَّ الْقِصَاصَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ ‏"‏‏.‏ فَرَضِيَ الْقَوْمُ فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ ‏"‏‏.‏

Narrated By Anas : That his aunt, Ar-Rubai' broke an incisor tooth of a girl. My aunt's family requested the girl's relatives for forgiveness but they refused; then they proposed a compensation, but they refused. Then they went to Allah's Apostle and refused everything except Al-Qisas (i.e. equality in punishment). So Allah's Apostle passed the judgment of Al-Qisas (i.e. equality of punishment). Anas bin Al-Nadr said, "O Allah's Apostle! Will the incisor tooth of Ar-Rubai be broken? No, by Him Who sent you with the Truth, her incisor tooth will not be broken." Allah's Apostle said, "O Anas! The prescribed law of Allah is equality in punishment (i.e. Al-Qisas.)" Thereupon those people became satisfied and forgave her. Then Allah's Apostle said, "Among Allah's Worshippers there are some who, if they took Allah's Oath (for something), Allah fulfil their oaths."

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے۔ پھر ربیع کے لوگوں نے کہا: اچھا دیت لے لو، وہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔ وہ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چنانچہ آپ ﷺنے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ربیع رضی اللہ عنہا کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ اےانس! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔ پھر لڑکی والے راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔

Chapter No: 24

باب ‏{‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ‏}‏

"O you who believe! As-Saum is prescribed for you as it was prescribed for those before you that you, may become Al-Muttaqun." (V.2:183)

باب : اللہ کے اس قول یا أیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ ۔اخیر آیت تک کی تفسیر

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَانَ عَاشُورَاءُ يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ ‏"‏ مَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ ‏"‏‏.‏

Narrated By Ibn 'Umar : Fasting was observed on the day of 'Ashura' (i.e. 10th of Muharram) by the people of the Pre-Islamic Period. But when (the order of compulsory fasting) in the month of Ramadan was revealed, the Prophet said, "It is up to one to fast on it (i.e. day of 'Ashura') or not."

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جاہلیت کے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزے نازل ہو گئے تو نبی ﷺنے فرمایا :کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔


حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ كَانَ عَاشُورَاءُ يُصَامُ قَبْلَ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ قَالَ ‏"‏ مَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ ‏"‏‏.‏

Narrated By 'Aisha : The people used to fast on the day of 'Ashura' before fasting in Ramadan was prescribed but when (the order of compulsory fasting in) Ramadan was revealed, it was up to one to fast on it (i.e. 'Ashura') or not.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا: عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے رکھا جاتا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔


حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ دَخَلَ عَلَيْهِ الأَشْعَثُ وَهْوَ يَطْعَمُ فَقَالَ الْيَوْمُ عَاشُورَاءُ‏.‏ فَقَالَ كَانَ يُصَامُ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ تُرِكَ، فَادْنُ فَكُلْ‏.‏

Narrated By 'Abdullah : That Al-Ash'ath entered upon him while he was eating. Al-Ash'ath said, "Today is 'Ashura." I said (to him), "Fasting had been observed (on such a day) before (the order of compulsory fasting in) Ramadan was revealed. But when (the order of fasting in) Ramadan was revealed, fasting (on 'Ashura') was given up, so come and eat."

علقمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کھانا کھارہے تھے تو اشعث داخل ہوا وہ کہنے لگا: آج تو عاشوراء کا دن ہے ۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رمضان کے روزے نازل ہونے سے قبل عاشوراءہ کا روزہ رکھا جاتا تھا۔لیکن جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو یہ روزہ چھوڑ دیا گیا۔ آؤ قریب آجاؤ اورتم بھی کھانا شروع کردو۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ الْفَرِيضَةَ، وَتُرِكَ عَاشُورَاءُ، فَكَانَ مَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ‏.‏

Narrated By 'Aisha : During the Pre-Islamic Period of ignorance the Quraish used to observe fasting on the day of 'Ashura', and the Prophet himself used to observe fasting on it too. But when he came to Medina, he fasted on that day and ordered the Muslims to fast on it. When (the order of compulsory fasting in) Ramadan was revealed, fasting in Ramadan became an obligation, and fasting on 'Ashura' was given up, and who ever wished to fast (on it) did so, and whoever did not wish to fast on it, did not fast.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزے رکھتے تھے اور نبی ﷺبھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے تو یہاں بھی آپ ﷺنے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کے رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کے روزے (کی فرضیت) باقی نہیں رہی۔ اب جس کا جی چاہے اس دن بھی روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

Chapter No: 25

باب قَوْلِهِ تَعَالَى:

The Statement of Allah Talah, "(Saum) for a fixed number of days but if anyone is ill, or on a journey, the same number (should be made up) from other days. And as for those who can fast with difficulty (an old man etc.) they can feed a poor person (for every day). But whoever does good of his own accord, it is better for him. And that you fast is better for you .if only you know." (V.2:184)

باب : اللہ کے اس قول أیَّامًامَعۡدُوداتٍ فَمَنۡ کانَ مِنۡکُمۡ مَرِیضًاأوۡ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنۡ أیَّامٍ اُخَرَ، وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا لَہُ وَأنۡ تَصُومُواخَیرٌ لَکُمۡ أِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمونَ ۔ کی تفسیر۔

‏{‏أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ‏}‏

Ata said, "One may stop fasting if one is suffering from any kind of disease, as Allah says concerning nursing or pregnant women." Al-Hasan and Ibrahim said, "If they are afraid of harming themselves or their babies, they can give up fasting for the time being and make up for the missed fasts later on. If an old man has no strength to observe fast (he can feed a poor person daily). When Anas bin Malik became old, he used to provide a poor person with bread and meat everyday while he gave up fasting during the last one or two years of his life."

عطاء بن ابی رباح نے کہا ہر بیماری میں افطار کرنا (یعنی روزہ نہ رکھنا) درست ہے جیسے اللہ نے فرمایا ہے (کسی بیماری کو خاص نہیں کیا)۔ امام حسنؒ اور ابراہیم نخعی نے کہا دودھ پیلانے والی یا پیٹ والی عورت کو اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا ڈر ہو تو وہ افطار کریں پھر قضا کر لیں۔ لیکن ایک بوڑھا ضعیف شخص جب روزہ نہ رکھ سکے (تو فدیہ دے) انس بن مالکؓ جب بہت بوڑھے ہو گئے تھے تو انہوں نے ایک سال یا دو سال (اپنی اخیر عمر میں) ہر دن ایک مسکین کو گوشت روٹی کھلایا۔ روزہ نہیں رکھا۔ اکثر لوگوں نے اس آیت میں یطیقونہ پڑھا ہے۔(اطاق یطیق سے)

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقْرَأُ ‏{‏وَعَلَى الَّذِينَ يُطَوَّقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ‏}‏‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ، هُوَ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِيرَةُ لاَ يَسْتَطِيعَانِ أَنْ يَصُومَا، فَلْيُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا‏.‏

Narrated By 'Ata : That he heard Ibn 'Abbas reciting the Divine Verse: "And for those who can fast they had a choice either fast, or feed a poor for every day.." (2.184) Ibn 'Abbas said, "This Verse is not abrogated, but it is meant for old men and old women who have no strength to fast, so they should feed one poor person for each day of fasting (instead of fasting)."

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ یوں قرآت کر رہے تھے«وعلى الذين يطوقونه فدية طَعام مسكين» «فدية طَعام مسكين» ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ اس سے مراد بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے۔ جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

Chapter No: 26

باب ‏{‏فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ‏}‏

"So whoever of you sights (the crescent on the first night of) the month (of Ramadan), he must observe Saum that month ..." (V.2:185)

باب : اللہ کے اس قول فَمَنۡ شَھِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ۔الآیہ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ قَرَأَ ‏{‏فِدْيَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ‏}‏ قَالَ هِيَ مَنْسُوخَةٌ‏.‏

Narrated By Nafi : Ibn 'Umar recited: "They had a choice, either fast or feed a poor for every day..." and added, "This Verse is abrogated."

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے" فدیہ طعام مساکین "کی قرأت کی اور فرمایا: یہ آیت منسوخ ہے ۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَزِيدَ، مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ‏{‏وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ‏}‏ كَانَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ حَتَّى نَزَلَتِ الآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا‏.‏ مَاتَ بُكَيْرٌ قَبْلَ يَزِيدَ‏.‏

Narrated By Salama : When the Divine Revelation: "For those who can fast, they had a choice either fast, or feed a poor for every day," (2.184) was revealed, it was permissible for one to give a ransom and give up fasting, till the Verse succeeding it was revealed and abrogated it.

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔«وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين‏» تو جس کا دل چاہتا تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ بکیر کا انتقال یزید سے پہلے ہو گیا تھا۔ بکیر جو یزید کے شاگرد تھے یزید سے پہلے 120 ھ میں وفات پاگئے تھے۔

Chapter No: 27

باب ‏{‏أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ} إلى قولِه:{وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ‏}‏

"It is made lawful for you to have sexual relation with your wives on the night of As-Saum ... and seek that which Allah has ordained for you (offspring) ..." (V.2:187)

باب : اللہ کے اس قول أُحَلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ أِلَی نِسائِکُمۡ۔ الی قولہ۔ وَابۡتَغُوا ما کَتَبَ اللہُ لَکُمۡ۔ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ‏.‏ لَمَّا نَزَلَ صَوْمُ رَمَضَانَ كَانُوا لاَ يَقْرَبُونَ النِّسَاءَ رَمَضَانَ كُلَّهُ، وَكَانَ رِجَالٌ يَخُونُونَ أَنْفُسَهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ‏}‏‏.‏

Narrated By Al-Bara : When the order of compulsory fasting of Ramadan was revealed, the people did not have sexual relations with their wives for the whole month of Ramadan, but some men cheated themselves (by violating that restriction). So Allah revealed: "Allah is aware that you were deceiving yourselves but He accepted your repentance and for gave you..." (3.187)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوا تو مسلمان پورے رمضان میں اپنی بیویوں کے قریب نہیں جاتے تھے البتہ کچھ لوگ خیانتوں کے مرتکب ہوجاتے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم‏» اللہ تعالیٰ کو تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا علم ہے مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا ، اور تم سے درگزر فرمایا۔

Chapter No: 28

باب قَوْلِهِ ‏{‏وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}‏الآية

"... And eat and drink until the white thread of (light) dawn appears to you distinct from the black thread (darkness) ..." (V.2:187)

باب : اللہ کے اس قول وَکُلُوا وَشۡرَبُوا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الخَیۡطُ الأبۡیَضُ مِنَ الخَیۡطِ الأَسۡوَدِ مِنَ الفَجۡرِ۔ الآیہۡ۔ کی تفسیر۔

الْعَاكِفُ الْمُقِيمُ

عَاکِفٌ کا معنی اقامت کرنے والا۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيٍّ، قَالَ أَخَذَ عَدِيٌّ عِقَالاً أَبْيَضَ وَعِقَالاً أَسْوَدَ حَتَّى كَانَ بَعْضُ اللَّيْلِ نَظَرَ فَلَمْ يَسْتَبِينَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَعَلْتُ تَحْتَ وِسَادَتِي‏.‏ قَالَ ‏"‏ إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ وَالأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ ‏"‏‏.‏

Narrated By Ash-Sha'bi : 'Adi took a white rope (or thread) and a black one, and when some part of the night had passed, he looked at them but he could not distinguish one from the other. The next morning he said, "O Allah's Apostle! I put (a white thread and a black thread) underneath my pillow." The Prophet said, "Then your pillow is too wide if the white thread (of dawn) and the black thread (of the night) are underneath your pillow!"

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے ایک سفید دھاگا اور ایک سیاہ دھاگا لیا (اور سوتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا)۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو انہوں نے دیکھا کہ ان میں کوئی تمیز نہیں ہوئی۔ جب صبح ہوئی تو عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں نے اپنے تکیے کے نیچے (سفید و سیاہ دھاگے رکھے تھے لیکن کچھ پتہ نہیں چلا تو نبی ﷺنے اس پر بطور مذاق کے فرمایا :کہ پھر تو تمہارا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہو گا کہ صبح کا سفیدخط اور رات کا سیاہ خط اس کے نیچے آ گیا ۔


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ أَهُمَا الْخَيْطَانِ قَالَ ‏"‏ إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْقَفَا إِنْ أَبْصَرْتَ الْخَيْطَيْنِ ‏"‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ ‏"‏ لاَ بَلْ هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ ‏"‏‏.

Narrated By 'Adi bin Hatim : I said, "O Allah's Apostle! What is the meaning of the white thread distinct from the black thread? Are these two threads?" He said, "You are not intelligent if you watch the two threads." He then added, "No, it is the darkness of the night and the whiteness of the day."

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (آیت میں) «الخيط الأبيض» اور «الخيط الأسود» سے کیا مراد ہے؟ کیا ان سے مراد حقیقی دو دھاگے ہیں؟ نبی ﷺنے فرمایا کہ تمہاری گدی پھر بہت لمبی چوڑی ہو گی، اگر تم نے رات کو دو دھاگے دیکھے ہیں۔ پھر فرمایا : ان سے مراد رات کی سیاہی اور صبح کی سفیدی ہے۔


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ وَأُنْزِلَتْ ‏{‏وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ‏}‏ وَلَمْ يُنْزَلْ ‏{‏مِنَ الْفَجْرِ‏}‏ وَكَانَ رِجَالٌ إِذَا أَرَادُوا الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الأَبْيَضَ وَالْخَيْطَ الأَسْوَدَ، وَلاَ يَزَالُ يَأْكُلُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رُؤْيَتُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُ ‏{‏مِنَ الْفَجْرِ‏}‏ فَعَلِمُوا أَنَّمَا يَعْنِي اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ‏.‏

Narrated By Sahl bin Sad : The Verse: "And eat and drink until the white thread appears to you distinct from the black thread." was revealed, but: '...of dawn' was not revealed (along with it) so some men, when intending to fast, used to tie their legs, one with white thread and the other with black thread and would keep on eating till they could distinguish one thread from the other. Then Allah revealed'... of dawn,' whereupon they understood that meant the night and the day.

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ «وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود‏» اور «من الفجر‏» کے الفاظ ابھی نازل نہیں ہوئے تھے تو کئی لوگ جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگا باندھ لیتے اور پھر جب تک وہ دونوں دھاگے صاف دکھائی دینے نہ لگ جاتے برابر کھاتے پیتے رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے «من الفجر‏» کے الفاظ اتارے تب ان کو معلوم ہوا کہ کالے دھاگے سے رات اور سفید دھاگے سے دن مراد ہے۔

Chapter No: 29

باب قَوْلِهِ ‏{‏وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى‏}الآية

"... It is not Al-Birr (Righteousness) that you enter the houses from the back, but Al-Birr is for who fears Allah." (V.2:189)

باب : اللہ کے اس قول وَلَیۡسَ البِرُّ بِأنۡ تَأ تُوا البُیُوتَ مِنۡ ظُہُورِھَا ۡ۔ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ كَانُوا إِذَا أَحْرَمُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَتَوُا الْبَيْتَ مِنْ ظَهْرِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا‏}‏

Narrated By Al-Bara : In the Pre-Islamic Period when the people assumed Ihram, they would enter their houses from the back. So Allah revealed: "And it is not righteousness that you enter houses from the back, but the righteous man is he who fears Allah, obeys His Orders and keeps away from what He has forbidden. So enter houses through their doors." (2.189)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب لوگ جاہلیت میں احرام باندھ لیتے تو گھروں میں پیچھے کی طرف سے چھت پر چڑھ کر داخل ہوتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «وليس البر بأن تأتوا البيوت من ظهورها ولكن البر من اتقى وأتوا البيوت من أبوابها‏» کہ اور یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پیچھے کی طرف سے آؤ، البتہ نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص تقویٰ اختیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔

Chapter No: 30

باب قَوْلِهِ: ‏{‏وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَى الظَّالِمِينَ‏}‏

His (Allah) Statement, "And fight them until there is no more Fitnah and Deen is for Allah (Alone). But if they cease, let there be one no transgression except against Wrong-doers." (V.2:193)

باب : اللہ کے اس قول وَقَاتِلُوھُمۡ حَتَّی لَا تَکُونَ فِتۡنَۃٌ وَ یَکُونَ الدِّیۡنُ لِلہِ فَاِنِ انۡتَھَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ أِلَّا عَلَی الظَّالِمِیۡنَ۔ کی تفسیر۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ أَتَاهُ رَجُلاَنِ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالاَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ ضُيِّعُوا، وَأَنْتَ ابْنُ عُمَرَ وَصَاحِبُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَخْرُجَ فَقَالَ يَمْنَعُنِي أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ دَمَ أَخِي‏.‏ فَقَالاَ أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ ‏{‏وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ ‏}‏ فَقَالَ قَاتَلْنَا حَتَّى لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ، وَكَانَ الدِّينُ لِلَّهِ، وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ، وَيَكُونَ الدِّينُ لِغَيْرِ اللَّهِ‏

Narrated By Nafi' : During the affliction of Ibn Az-Zubair, two men came to Ibn 'Umar and said, "The people are lost, and you are the son of 'Umar, and the companion of the Prophet, so what forbids you from coming out?" He said, "What forbids me is that Allah has prohibited the shedding of my brother's blood." They both said, "Didn't Allah say, 'And fight then until there is no more affliction?" He said "We fought until there was no more affliction and the worship is for Allah (Alone while you want to fight until there is affliction and until the worship become for other than Allah."

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ان کے پاس ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فتنے کے زمانہ میں (جب ان پر حجاج ظالم نے حملہ کیا اور مکہ کا محاصرہ کیا) دو آدمی (علاء بن عرار اور حبان سلمی) آئے اور کہا کہ لوگ آپس میں لڑ کر تباہ ہو رہے ہیں۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ ﷺکے صحابی ہیں پھر آپ کیوں خاموش ہیں؟ اس فساد کو رفع کیوں نہیں کرتے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میری خاموشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کسی بھی بھائی مسلمان کا خون مجھ پر حرام قرار دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ہے «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة» کہ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم (قرآن کے حکم کے مطابق) لڑے ہیں، یہاں تک کہ فتنہ یعنی شرک و کفر باقی نہیں رہا اور دین خالص اللہ کے لیے ہو گیا، لیکن تم لوگ چاہتے ہو کہ تم اس لیے لڑو کہ فتنہ اور فساد پیدا ہو اور دین اسلام ضعیف ہو، کافروں کو جیت ہو اور اللہ کے برخلاف دوسروں کا حکم سنا جائے۔


وَزَادَ عُثْمَانُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي فُلاَنٌ، وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَهُ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلاً، أَتَى ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ تَحُجَّ عَامًا وَتَعْتَمِرَ عَامًا، وَتَتْرُكَ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَدْ عَلِمْتَ مَا رَغَّبَ اللَّهُ فِيهِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ إِيمَانٍ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَالصَّلاَةِ الْخَمْسِ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ، وَأَدَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ‏.‏ قَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلاَ تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ ‏{‏وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا‏}‏ ‏{‏إِلَى أَمْرِ اللَّهِ‏}‏ ‏{‏قَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ‏}‏ قَالَ فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ الإِسْلاَمُ قَلِيلاً، فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا قَتَلُوهُ، وَإِمَّا يُعَذِّبُوهُ، حَتَّى كَثُرَ الإِسْلاَمُ فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ

Narrated Nafi (through another group of sub-narrators): A man came to Ibn 'Umar and said, "O Abu Abdur Rahman! What made you perform Hajj in one year and Umra in another year and leave the Jihad for Allah' Cause though you know how much Allah recommends it?" Ibn 'Umar replied, "O son of my brother! Islam is founded on five principles, i.e. believe in Allah and His Apostle, the five compulsory prayers, the fasting of the month of Ramadan, the payment of Zakat, and the Hajj to the House (of Allah)." The man said, "O Abu Abdur Rahman! Won't you listen to why Allah has mentioned in His Book: 'If two groups of believers fight each other, then make peace between them, but if one of then transgresses beyond bounds against the other, then you all fight against the one that transgresses. (49.9) and: "And fight them till there is no more affliction (i.e. no more worshiping of others along with Allah)." Ibn 'Umar said, "We did it, during the lifetime of Allah's Apostle when Islam had only a few followers. A man would be put to trial because of his religion; he would either be killed or tortured. But when the Muslims increased, there was no more afflictions or oppressions."

نافع سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : اے ابوعبدالرحمٰن! تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم ایک سال حج کرتے ہو اور ایک سال عمرہ اور اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد میں شریک نہیں ہوتے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی طرف کتنی رغبت دلائی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرے بھتیجے! اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پانچ وقت کی نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکٰوۃ دینا اور حج کرنا۔ انہوں نے کہا: اے ابا عبدالرحمٰن! کتاب اللہ میں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کیا آپ کو وہ معلوم نہیں ہے «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما‏» کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں اگر آپس میں جنگ کریں تو ان میں صلح کراؤ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إلى أمر الله‏» تک ۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ ﷺکے عہد میں ہم یہ فرض انجام دے چکے ہیں اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے، کافروں کا ہجوم تھا تو کافر لوگ مسلمانوں کا دین خراب کرتے تھے، کہیں مسلمانوں کو مار ڈالتے، کہیں تکلیف دیتے یہاں تک کہ مسلمان بہت ہو گئے فتنہ جاتا رہا۔


قَالَ فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ قَالَ أَمَّا عُثْمَانُ فَكَأَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ، وَأَمَّا أَنْتُمْ فَكَرِهْتُمْ أَنْ تَعْفُوا عَنْهُ، وَأَمَّا عَلِيٌّ فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَخَتَنُهُ‏.‏ وَأَشَارَ بِيَدِهِ فَقَالَ هَذَا بَيْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ‏

The man said, "What is your opinion about 'Uthman and 'Ali?" Ibn 'Umar said, "As for 'Uthman, it seems that Allah has forgiven him, but you people dislike that he should be forgiven. And as for 'Ali, he is the cousin of Allah's Apostle and his son-in-law." Then he pointed with his hand and said, "That is his house which you see."

پھر اس شخص نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے۔ انہوں نے کہا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصور اللہ نے معاف کر دیا لیکن تم اس معافی کو اچھا نہیں سمجھتے ہو۔ اب رہے حضرت علی رضی اللہ عنہ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد تھے اور ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ یہ دیکھو ان کا گھر نبی ﷺکے گھر سے ملا ہوا ہے۔

12345Last ›