Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Surah Al-Baqarah (65.2)     سورة البقرة

‹ First3456

Chapter No: 41

باب ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا‏}‏ إِلَى ‏{‏بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‏}‏

"And those of you who die and leave wives behind them, they (the wives) shall wait (as regards their marriage) for four months and ten days. Then when they have fulfilled their term, there is no sin on you if they (the wives) dispose of themselves in a just and honourable manner (i.e, they can marry). And Allah is Well-Acquainted with what you do." (V.2:234)

باب : اللہ کے اس قول وَ الَّذِینَ یُتَوَفَّونَ مِنکُم وَیَذَرُونَ اَزوَاجًا یَتَرَبَّصنَ بِاَنفُسِھِنَّ اَربَعَۃَ أشھُرٍ وَ عَشرًا ۔ کی تفسیر

يَعْفُونَ يَهَبْنَ‏

حَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا‏}‏ قَالَ قَدْ نَسَخَتْهَا الآيَةُ الأُخْرَى فَلِمَ تَكْتُبُهَا أَوْ تَدَعُهَا قَالَ يَا ابْنَ أَخِي، لاَ أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ‏

Narrated By Ibn Az-Zubair : I said to 'Uthman bin 'Affan (while he was collecting the Qur'an) regarding the Verse: "Those of you who die and leave wives..." (2.240) "This Verse was abrogated by an other Verse. So why should you write it? (Or leave it in the Qur'an)?" 'Uthman said. "O son of my brother! I will not shift anything of it from its place."

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا‏» یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس لیے آپ اسے (مصحف میں) نہ لکھیں یا (یہ کہا کہ) نہ رہنے دیں۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے! میں (قرآن کا)کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔


حَدَّثَنِى إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا‏}‏ قَالَ كَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ‏}‏ قَالَ جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَصِيَّةً، إِنْ شَاءَتْ سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ‏}‏ فَالْعِدَّةُ كَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا‏.‏ زَعَمَ ذَلِكَ عَنْ مُجَاهِدٍ‏.‏ وَقَالَ عَطَاءٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَسَخَتْ هَذِهِ الآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏غَيْرَ إِخْرَاجٍ‏}‏‏.‏ قَالَ عَطَاءٌ إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ‏{‏فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ‏}‏‏.‏ قَالَ عَطَاءٌ ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَلاَ سُكْنَى لَهَا‏.‏ وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ بِهَذَا‏.‏ وَعَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَسَخَتْ هَذِهِ الآيَةُ عِدَّتَهَا فِي أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ ‏{‏غَيْرَ إِخْرَاجٍ‏}‏ نَحْوَهُ‏.‏

Narrated By Mujahi : (Regarding the Verse): "Those of you who die and leave wives behind. They (their wives)... shall wait (as regards their marriage) for four months and ten days)." (2.234) The widow, according to this Verse, was to spend this period of waiting with her husband's family, so Allah revealed: "Those of you who die and leave wives (i.e. widows) should bequeath for their wives, a year's maintenance and residences without turning them out, but if they leave (their residence), there is no blame on you for what they do with themselves provided it is honourable.' (i.e. lawful marriage) (2.240). So Allah entitled the widow to be bequeathed extra maintenance for seven months and twenty nights, and that is the completion of one year. If she wished she could stay (in her husband's home) according to the will, and she could leave it if she wished, as Allah says: "...without turning them out, but if they leave (the residence), there is no blame on you." So the 'Idda (i.e. four months and ten days as it) is obligatory for her. 'Ata said: Ibn 'Abbas said, "This Verse, i.e. the Statement of Allah: "...without turning them out.." cancelled the obligation of staying for the waiting period in her dead husband's house, and she can complete this period wherever she likes." 'Ata's aid: If she wished, she could complete her 'Idda by staying in her dead husband's residence according to the will or leave it according to Allah's Statement: "There is no blame on you for what they do with themselves." 'Ata' added: Later the regulations of inheritance came and abrogated the order of the dwelling of the widow (in her dead husband's house), so she could complete the 'Idda wherever she likes. And it was no longer necessary to provide her with a residence. Ibn 'Abbas said, "This Verse abrogated her (i.e. widow's) dwelling in her dead husband's house and she could complete the 'Idda (i.e. four months and ten days) wherever she liked, as Allah's Statement says: "...without turning them out..."

حضرت مجاہد سے مروی ہے انہوں نے اس آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا‏» اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں کے بارے میں فرمایا: کہ یہ عدت (یعنی چار ماہ دس دن ) جو عورت گزارتی تھی یہ اپنے شوہر کے گھر والوں کے پاس گزارنا ضروری تھی۔پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں او ربیویاں چھوڑ جائیں وہ اپنی بیویوں کے حق میں ایک سال تک فائدہ اٹھانے اور گھر سے نہ نکالنے کی وصیت کرجائیں، البتہ اگر وہ خود نکلنا چاہیں تو ان کے اپنے بارے میں دشتور کے مطابق کوئی کام کرنے کی بنا پر تمہیں کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔ مجاہد فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ایسی عورت کےلیے باقی سال یعنی سات ماہ بیس دن وصیت کے قرار دیے ہیں۔ اگر وہ چاہیے تو اپنے لیے کی گئی وصیت کےمطابق شوہر کے گھر میں رہے اور اگر چاہیے تو کسی اور جگہ چلی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: انہیں نہ نکالا جائے ، ہاں اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں کے یہی معنی ہیں چنانچہ ایام عدت (چار ماہ دس دن) تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر واجب ہے ۔ شبل نے کہا: ابن ابو نجیح نے حضرت مجاہد سے یوں ہی بیان کیا ہے۔ حضرت عطاء نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آیت نے عورت کےلیے اپنے خاوند کے گھر عدت گزارنے کو منسوخ کردیا ہے ، اب وہ جہاں چاہیے ایام عدت گزارسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان " غیر اخراج" سے یہی مراد ہے ۔ حضرت عطاء نے کہا: اگر وہ عورت چاہیے تو اپنے خاوند کے اہل خانہ کے ہاں عدت گزار ے اور اپنے حق میں کی گئی وصیت کے مطابق اسی گھر میں رہے اور اگر چاہیے تو کہیں اور چلی جائے ، اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ "تم پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ بیویاں (اپنے بارے میں ) جو کریں۔ عطاء مزید کہتے ہیں کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جس نے عورت کےلیے رہائش کے حق کو منسوخ کردیا ۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزارے اور اس کے لیے رہائش کا بندوبست کرنا ضروری نہیں ۔ ایک روایت میں یہی قول مجاہد سے بھی مروی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں عورت کےلیے شوہر کے گھر میں عدت گزارنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے ۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزارسکتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ "غیر اخراج " سے یہی ثابت ہوتا ہے۔


حَدَّثَنِى حِبَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ جَلَسْتُ إِلَى مَجْلِسٍ فِيهِ عُظْمٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَفِيهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، فَذَكَرْتُ حَدِيثَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ فِي شَأْنِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَلَكِنَّ عَمَّهُ كَانَ لاَ يَقُولُ ذَلِكَ‏.‏ فَقُلْتُ إِنِّي لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى رَجُلٍ فِي جَانِبِ الْكُوفَةِ‏.‏ وَرَفَعَ صَوْتَهُ، قَالَ ثُمَّ خَرَجْتُ فَلَقِيتُ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ أَوْ مَالِكَ بْنَ عَوْفٍ قُلْتُ كَيْفَ كَانَ قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ فِي الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا وَهْىَ حَامِلٌ فَقَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ، وَلاَ تَجْعَلُونَ لَهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى‏.‏ وَقَالَ أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدٍ لَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ‏.‏

Narrated By Muhammad bin Sirin : I sat in a gathering in which the chiefs of the Ansar were present, and Abdur-Rahman bin Abu Laila was amongst them. I mentioned the narration of 'Abdullah bin 'Utba regarding the question of Subai'a bint Al-Harith. Abdur-Rahman said, "But 'Abdullah's uncle used not to say so." I said, "I am too brave if I tell a lie concerning a person who is now in Al-Kufa," and I raised my voice. Then I went out and met Malik bin 'Amir or Malik bin 'Auf, and said, "What was the verdict of Ibn Mas'ud about the pregnant widow whose husband had died?" He replied, "Ibn Mas'ud said, 'Why do you impose on her the hard order and don't let her make use of the leave? The shorter Sura of women (i.e. Surat-at-Talaq) was revealed after the longer Sura (i.e. Surat-al-Baqara)." (i.e. Her 'Idda is up till she delivers.)

حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا: میں ایک مجلس میں بیٹھا تھا جس میں انصار کے بڑے بڑے لوگ تھے ۔ ان میں عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ بھی تھے ۔ وہاں میں نے سبیعہ بنت حارث کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عتبہ کی حدیث بیان کی تو عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہا: کہ ان کے چچا تو اس کے قائل نہیں ہیں۔ میں نے بلند آواز میں (عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے) کہا: اگر میں نے جھوٹ بولا ہے تو میں نے اس شخص پر افترا باندھا ہے جو کوفہ میں موجود ہے ۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ پھر میں وہاں سے نکلا اور مالک بن عامر یا مالک بن عوف سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے جبکہ وہ حاملہ ہو اس کے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تم ایسی عورت پر سختی تو کرتے ہو لیکن اسے رخصت نہیں دیتے ۔ سورہ نساء قصری ، سورہ نساء طولیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ نوٹ: (سورہ نساء قصری (سورہ طلاق ) جس میں عدت وضع حمل ہے سورہ نساء طولیٰ (سورہ بقرہ ) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ گویا سورہ طلاق کی آیت نے سورہ بقرہ کی آیت میں تخصیص کردی کہ حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہی ہے ۔وہ طلاق کی وجہ سے ہو ، یا وفات کی وجہ سے ۔)

Chapter No: 42

باب ‏{‏حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى‏}‏

"Guard strictly As-Salawat especially the middle Salat (Asr) ..." (V.2:238)

باب : اللہ کے اس قول حَافِظُوا عَلَی الصَّلَواتِ وَ الصَّلَاۃِ الوُسطَی ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ هِشَامٌ حَدَّثَنَا قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ ‏"‏ حَبَسُونَا عَنْ صَلاَةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ مَلأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ أَوْ أَجْوَافَهُمْ نَارًا ‏"شَكَّ يَحْيَى.

Narrated By 'Ali : On the day of Al-Khandaq (the battle of the Trench). the Prophet said "They (i.e. pagans) prevented us from offering the middle (the Best) Prayer till the sun had set. May Allah fill their graves, their houses (or their bodies) with fire."

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺنے غزوۂ خندق کے موقع پر فرمایا تھا، ان کفار نے ہمیں درمیانی نماز پڑھنے سے روکا ، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، اللہ ان کی قبروں اور گھروں یا ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔

Chapter No: 43

باب ‏{‏وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ‏}‏

"... And stand before Allah with obedience." (V.2:238)

باب : اللہ کے اس قول وَ قُومُوا لِلہِ قانِتِینَ ۔ کی تفسیر

أى مُطِيعِينَ

قانِتِینَ کی معنی تابعداری کرنے والے۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلاَةِ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا أَخَاهُ فِي حَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ‏{‏حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ‏}‏ فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ‏.‏

Narrated By Zaid bin Arqam : We used to speak while in prayer. One of us used to speak to his brother (while in prayer) about his need, till the Verse was revealed: "Guard strictly the (five obligatory) prayers, especially the middle (the Best) (Asr) Prayer and stand before Allah with obedience (and not to speak to others during the prayers)." Then we were ordered not to speak in the prayers.

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کر لیتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين‏» سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر درمیانی نماز کی اور اللہ کے سامنے خاموشی سے کھڑے ہوا کرو۔ چنانچہ ہمیں اس آیت کے ذریعہ نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔

Chapter No: 44

باب قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ ‏{‏فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ ‏}‏الآية

His (Allah) Statement, "If you fear (an enemy), perform Salat on foot or riding. And when you are in safety ..." (V.2:239)

باب : اللہ کے اس قول فَاِن خِفتُم فَرِجَالًا أو رُکبَانًا فَاِذَا أمِنتُم ۔ کی تفسیر

وَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ ‏{‏كُرْسِيُّهُ‏}‏ عِلْمُهُ يُقَالُ ‏{‏بَسْطَةً‏}‏ زِيَادَةً وَفَضْلاً ‏{‏أَفْرِغْ‏}‏ أَنْزِلْ ‏{‏وَلاَ يَئُودُهُ ‏}‏ لاَ يُثْقِلُهُ‏.‏ آدَنِي أَثْقَلَنِي‏.‏ وَالآدُ وَالأَيْدُ الْقُوَّةُ، السِّنَةُ نُعَاسٌ‏.‏ ‏{‏يَتَسَنَّهْ‏}‏ يَتَغَيَّرْ‏.‏ ‏{‏فَبُهِتَ ‏}‏ ذَهَبَتْ حُجَّتُهُ‏.‏ ‏{‏خَاوِيَةٌ‏}‏ لاَ أَنِيسَ فِيهَا‏.‏ عُرُوشُهَا أَبْنِيَتُهَا‏.‏ نُنْشِرُهَا نُخْرِجُهَا ‏{‏إِعْصَارٌ‏}‏ رِيحٌ عَاصِفٌ تَهُبُّ مِنَ الأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ كَعَمُودٍ فِيهِ نَارٌ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ‏{‏صَلْدًا‏}‏ لَيْسَ عَلَيْهِ شَىْءٌ‏.‏ وَقَالَ عِكْرِمَةُ ‏{‏وَابِلٌ‏}‏ مَطَرٌ شَدِيدٌ‏.‏ الطَّلُّ النَّدَى، وَهَذَا مَثَلُ عَمَلِ الْمُؤْمِنِ‏.‏ ‏{‏يَتَسَنَّهْ‏}‏ يَتَغَيَّرْ‏

اور سعید بن جبیر نے کہا وسع کرسیُّہ میں کرسی سے مراد پروردگار کا علم ہے۔ بسطۃ سے مراد زادتی اور فضیلت ہے۔ افرغ اتارا۔ ولایؤدہ یعنی اس پر بار نہیں ہے۔ اسی سے ہے آدَنِی یعنی مجھ کو بوجھل کر دیا اور آد اور اید قوت کو کہتے ہیں۔ سنۃً کا معنی اونگھ لم یتسنۃ کا معنی نہیں بگڑا، فبھت یعنی دلیل میں ہار گیا۔ خاویہ یعنی خالی جہاں کوئے ہمدم اور رقیق نہ ہو۔ عروشہا اس کی عمارتیں، ننشزھا ہم نکالتے ہیں۔ اعصار تند ہوا۔ جو زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف ایک ستون کی طرف جاتی ہے۔ اس میں انگار ہوتی ہے یعنی (آتشی بگولا) ابن عباسؓ نے کہا صلدًا یعنی چکنا صاف جس پر کچھ نہ رہے اور عکرمہؓ نے کہا وابلٌ زور کا مینہ طلّ کا معنی شبنم (اوس) یہ مؤمن کے نیک عمل کی مثال ہے (کہ وہ ضائع نہیں جاتا) یتسنہ کے معنی بدل جائے بگڑ جائے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلاَةِ الْخَوْفِ قَالَ يَتَقَدَّمُ الإِمَامُ وَطَائِفَةٌ مِنَ النَّاسِ فَيُصَلِّي بِهِمِ الإِمَامُ رَكْعَةً، وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ لَمْ يُصَلُّوا، فَإِذَا صَلَّوُا الَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً اسْتَأْخَرُوا مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا وَلاَ يُسَلِّمُونَ، وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الإِمَامُ وَقَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَيَقُومُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ فَيُصَلُّونَ لأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً بَعْدَ أَنْ يَنْصَرِفَ الإِمَامُ، فَيَكُونُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ قَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالاً، قِيَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ، أَوْ رُكْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَا‏.‏ قَالَ مَالِكٌ قَالَ نَافِعٌ لاَ أُرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ذَكَرَ ذَلِكَ إِلاَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏.‏

Narrated By Nafi' : Whenever 'Abdullah bin 'Umar was asked about Salat-al-Khauf (i.e. prayer of fear) he said, "The Imam comes forward with a group of people and leads them in a one Rak'a prayer while another group from them who has not prayed yet, stay between the praying group and the enemy. When those who are with the Imam have finished their one Rak'a, they retreat and take the positions of those who have not prayed but they will not finish their prayers with Taslim. Those who have not prayed, come forward to offer a Rak'a with the Imam (while the first group covers them from the enemy). Then the Imam, having offered two Rakat, finishes his prayer. Then each member of the two groups offer the second Rak'a alone after the Imam has finished his prayer. Thus each one of the two groups will have offered two Rakat. But if the fear is too great, they can pray standing on their feet or riding on their mounts, facing the Qibla or not." Nafi added: I do not think that 'Abdullah bin 'Umar narrated this except from Allah's Apostle

نافع سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے۔ یہ لوگ نماز میں ابھی شریک نہ ہوں، پھر جب امام ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھا چکے جو پہلے اس کے ساتھ تھے تو اب یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں اور ان کی جگہ لے لیں، جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن یہ لوگ سلام نہ پھیریں۔ اب وہ لوگ آگے بڑھیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے اور امام انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائے، اب امام دو رکعت پڑھ چکنے کے بعد نماز سے فارغ ہو چکا۔ پھر دونوں جماعتیں (جنہوں نے الگ الگ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی تھی) اپنی باقی ایک ایک رکعت ادا کر لیں۔ جبکہ امام اپنی نماز سے فارغ ہو چکا ہے۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی دو دو رکعت پوری ہو جائیں گی۔ لیکن اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہے تو ہر شخص تنہا نماز پڑھ لے، پیدل ہو یا سوار، قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک نے بیان کیا کہ نافع نے کہا: مجھے یقین ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں رسول اللہ ﷺسے سن کر ہی بیان کی ہیں۔

Chapter No: 45

باب ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا‏}‏

"And those of you who die and leave behind wives ..." (V.2:240)

باب : اللہ کے اس قول وَ الَّذِینَ یُتَوَفَّونَ مِنکُم وَیَذَرُونَ اَزوَاجًا ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ، وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالاَ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ قُلْتُ لِعُثْمَانَ هَذِهِ الآيَةُ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ ‏{‏وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏غَيْرَ إِخْرَاجٍ‏}‏ قَدْ نَسَخَتْهَا الأُخْرَى، فَلِمَ تَكْتُبُهَا قَالَ تَدَعُهَا‏.‏ يَا ابْنَ أَخِي لاَ أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ‏.‏ قَالَ حُمَيْدٌ أَوْ نَحْوَ هَذَا‏.‏

Narrated By Ibn Az-Zubair : I said to 'Uthman, "This Verse which is in Surat-al-Baqara: "Those of you who die and leave widows behind... without turning them out." has been abrogated by another Verse. Why then do you write it (in the Qur'an)?" 'Uthman said. "Leave it (where it is), O the son of my brother, for I will not shift anything of it (i.e. the Qur'an) from its original position."

حضرت عبد بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ سورۃ البقرہ کی آیت«والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا‏» یعنی جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «غير إخراج‏» تک کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اب آپ اسے کیوں لکھتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: میرے بھتیجے! اس موضوع کو چھوڑ دیں ، میں کسی آیت کو اس کی جگہ سے بدلنے والا نہیں۔ راوی حمید نے کہا: یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس طرح کا کوئی اور جواب دیا۔

Chapter No: 46

باب ‏{‏وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى‏}‏

"And (remember) when Ibrahim (Abraham) said, 'My Lord! Show me how You give life to the dead' ..." (V.2:260)

باب : اللہ کے اس قول وَ اِذ قَالَ اِبرَاہِیمُ رَبِّ أرِنِی کَیفَ تُحیِ المَوتَی ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ ‏{‏رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي‏}‏‏"‏

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle said, "We have more right to be in doubt than Abraham when he said, 'My Lord! Show me how You give life to the dead.' He said, 'Do you not believe?' He said, 'Yes (I believe) but to be stronger in Faith.'" (2.260)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :شک کرنے کا ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ حق ہے، جب انہوں نے عرض کیا تھا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا، اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا، کیا تجھ کو یقین نہیں ہے؟ عرض کی یقین ضرور ہے، لیکن میں نے یہ درخواست اس لیے کی ہے کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو جائے۔

Chapter No: 47

باب قَوْلِهِ ‏{‏أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ‏}‏ إِلَى قَوْلِهِ ‏{‏تَتَفَكَّرُونَ‏}‏

His (Allah) Statement, "Would any of you wish to have a garden with date-palms and vines ... that you may give thought." (V.2:266)

باب : اللہ کے اس قول اَ یَوَدُّ اَحَدُکُم أن تَکُونَ لَہُ جَنَّۃٌ ۔ کی تفسیر

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏.‏ قَالَ وَسَمِعْتُ أَخَاهُ أَبَا بَكْرِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ قَالَ عُمَرُ ـ رضى الله عنه ـ يَوْمًا لأَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِيمَ تَرَوْنَ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ ‏{‏أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ‏}‏ قَالُوا اللَّهُ أَعْلَمُ‏.‏ فَغَضِبَ عُمَرُ فَقَالَ قُولُوا نَعْلَمُ أَوْ لاَ نَعْلَمُ‏.‏ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي نَفْسِي مِنْهَا شَىْءٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ‏.‏ قَالَ عُمَرُ يَا ابْنَ أَخِي قُلْ وَلاَ تَحْقِرْ نَفْسَكَ‏.‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ضُرِبَتْ مَثَلاً لِعَمَلٍ‏.‏ قَالَ عُمَرُ أَىُّ عَمَلٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِعَمَلٍ‏.‏ قَالَ عُمَرُ لِرَجُلٍ غَنِيٍّ يَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ بَعَثَ اللَّهُ لَهُ الشَّيْطَانَ فَعَمِلَ بِالْمَعَاصِي حَتَّى أَغْرَقَ أَعْمَالَهُ‏.‏ ‏{‏فَصُرْهُنَّ‏}‏ قَطِّعْهُنَّ‏.‏

Narrated By Ubaid bin Umair : Once 'Umar (bin Al-Khattab) said to the companions of the Prophet "What do you think about this Verse: "Does any of you wish that he should have a garden?" They replied, "Allah knows best." 'Umar became angry and said, "Either say that you know or say that you do not know!" On that Ibn Abbas said, "O chief of the believers! I have something in my mind to say about it." Umar said, "O son of my brother! Say, and do not under estimate yourself." Ibn Abbas said, "This Verse has been set up as an example for deeds." Umar said, "What kind of deeds?" Ibn Abbas said, "For deeds." Umar said, "This is an example for a rich man who does goods out of obedience of Allah and then Allah sends him Satan whereupon he commits sins till all his good deeds are lost."

عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اصحاب النبی (صحابہ کرام) سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے؟ «أيود أحدكم أن تكون له جنة‏» کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: امیرالمؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹے! کہہ دو اور اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کس عمل کی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں۔ "فصرہن " کا معنی ہے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردے۔

Chapter No: 48

باب ‏{‏لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا‏}‏

"... They do not beg of people at all ..." (V.2:273)

باب : اللہ کے اس قول لَا یَسئَلُونَ النَّاسَ أِلحَافًا ۔ کی تفسیر ۔

يُقَالُ أَلْحَفَ عَلَىَّ وَأَلَحَّ عَلَىَّ، وَأَحْفَانِي بِالْمَسْأَلَةِ، ‏{‏فَيُحْفِكُمْ‏}‏ يُجْهِدْكُمْ‏

عرب لوگ الحف اور الح اور احفاء بالمسئلہ جب کہتے ہیں جب کوئی گڑگڑا کر پیچھے لگ کر سوال کرے۔ (لیچڑپنے سے)

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي عَمْرَةَ الأَنْصَارِيَّ، قَالاَ سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَلاَ اللُّقْمَةُ وَلاَ اللُّقْمَتَانِ‏.‏ إِنَّمَا الْمِسْكِينُ الَّذِي يَتَعَفَّفُ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ يَعْنِي قَوْلَهُ ‏{‏لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا‏}‏‏"‏

Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "The poor person is not the one for whom a date or two or a morsel or two (of food is sufficient but the poor person is he who does not (beg or) ask the people (for something) or show his poverty at all. Recite if you wish, (Allah's Statement): "They do not beg of people at all." (2.273)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا :مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجوریں،اور ایک یا دو لقمے در بدر پھرنے پر مجبور کردیں۔بلکہ مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے اور کسی سے سوال نہ کرے۔اگر تم دلیل چاہو تو (قرآن سے) اس آیت کو پڑھ لو «لا يسألون الناس إلحافا‏» کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔

Chapter No: 49

باب ‏{‏وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‏}‏

"... Whereas Allah has permitted trading and forbidden Riba (Usury)." (V.2:275)

باب : اللہ کے اس قول وَ أحَلَّ اللہُ البَیعُ وَ حَرَّمَ الرِّبَا ۔ کی تفسیر۔

الْمَسُّ الْجُنُونُ‏

مس کے معنی دیوانگی (جنون)

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتِ الآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا قَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ‏.‏

Narrated By 'Aisha : When the Verses of Surat-al-Baqara regarding usury (i.e. Riba) were revealed, Allah's Apostle recited them before the people and then he prohibited the trade of alcoholic liquors.

حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سود کے سلسلے میں سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺنے انہیں پڑھ کر لوگوں کو سنایا اور اس کے بعد شراب کی تجارت بھی حرام قرار پائی۔

Chapter No: 50

باب ‏{‏يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا‏}‏ يُذْهِبُهُ

"Allah will destroy Riba (Usury)." (V.2:276)

باب : اللہ کے اس قول یَمحَقُ اللہُ الرِّبَا ۔ دور کر دیتا ہے

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، سَمِعْتُ أَبَا الضُّحَى، يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ لَمَّا أُنْزِلَتِ الآيَاتُ الأَوَاخِرُ مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَتَلاَهُنَّ فِي الْمَسْجِدِ، فَحَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ‏.‏

Narrated By 'Aisha : When the last Verses of Surat-al-Baqara were revealed. Allah's Apostle went out and recited them in the Mosque and prohibited the trade of alcoholic liquors.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺباہر تشریف لائے اور مسجد میں انہیں پڑھ کر سنایا اس کے بعد شراب کی تجارت حرام ہو گئی۔

‹ First3456