Chapter No: 141
باب الْجَاسُوسِ وَ التَّجَسُّسُ : التَّبَحُّثُ
The spy.
باب: جاسوسی کا بیان
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ}
Spying means secret investigations. The Statement of Allah, "Take not My enemy and your enemy as friends ..." (V.60:1)
اوراللہ تعالٰی نے (سورت ممتحنہ میں ) فرمایا مسلمانوں ؛ میرےدشمن اور اپنے دشمن کو دوست مت بناو جاسوس تجسس سے نکلا ہے یعنی کسی بات کو کھود کر نکا نا -
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطَرَّقَةُ ". قَالَ سُفْيَانُ وَزَادَ فِيهِ أَبُو الزِّنَادِ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رِوَايَةً " صِغَارَ الأَعْيُنِ، ذُلْفَ الأُنُوفِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ "
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "The Hour will not be established till you fight with people wearing shoes made of hair. And the Hour will not be established till you fight with people whose faces look like shields coated with leather. " (Abu Huraira added, "They will be) small-eyed, flat nosed, and their faces will look like shields coated with leather.")
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم ایک ایسی قوم سے لڑائی نہ کرلو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کرلوگے جن کے چہرے تہ شدہ ڈھالوں جیسے ہوں گے ۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ ان کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، ناک موٹی ، چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بتہ چمڑہ لگی ڈھال ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، سَمِعْتُهُ مِنْهُ، مَرَّتَيْنِ قَالَ أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ بْنَ الأَسْوَدِ قَالَ " انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً وَمَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا ". فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الرَّوْضَةِ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ فَقُلْنَا أَخْرِجِي الْكِتَابَ. فَقَالَتْ مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ. فَقُلْنَا لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ. فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " يَا حَاطِبُ، مَا هَذَا ". قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لاَ تَعْجَلْ عَلَىَّ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ بِمَكَّةَ، يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ كُفْرًا وَلاَ ارْتِدَادًا وَلاَ رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الإِسْلاَمِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " لَقَدْ صَدَقَكُمْ ". قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ. قَالَ " إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَكُونَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ ". قَالَ سُفْيَانُ وَأَىُّ إِسْنَادٍ هَذَا.
Narrated By 'Ubaidullah bin Abi Rafi : I heard 'Ali saying, "Allah's Apostle sent me, Az-Zubair and Al-Miqdad somewhere saying, 'Proceed till you reach Rawdat Khakh. There you will find a lady with a letter. Take the letter from her.' " So, we set out and our horses ran at full pace till we got at Ar-Rawda where we found the lady and said (to her). "Take out the letter." She replied, "I have no letter with me." We said, "Either you take out the letter or else we will take off your clothes." So, she took it out of her braid. We brought the letter to Allah's Apostle and it contained a statement from Hatib bin Abi Balta a to some of the Meccan pagans informing them of some of the intentions of Allah's Apostle. Then Allah's Apostle said, "O Hatib! What is this?" Hatib replied, "O Allah's Apostle! Don't hasten to give your judgment about me. I was a man closely connected with the Quraish, but I did not belong to this tribe, while the other emigrants with you, had their relatives in Mecca who would protect their dependents and property. So, I wanted to recompense for my lacking blood relation to them by doing them a favour so that they might protect my dependents. I did this neither because of disbelief not apostasy nor out of preferring Kufr (disbelief) to Islam." Allah's Apostle, said, "Hatib has told you the truth." Umar said, O Allah's Apostle! Allow me to chop off the head of this hypocrite." Allah's Apostle said, "Hatib participated in the battle of Badr, and who knows, perhaps Allah has already looked at the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, for I have forgiven you."
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے مٰیں نے ان سے یہ حدیث دوبار سنی کہا مجھ کو حسن بن محمد نے خبر دی کہا مجھ کو عبید اللہ بن ابی رافع نے کہا میں نے علیؓ سے سنا وہ کہتے تھے مجھ کو اور زبیر اور مقداد بن اسود کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا فر مایا روضئہ خاخ میں جاؤ (ایک مقام کا نام ہے مدینہ سے بارہ میل پر)وہاں تم کو ایک عورت (سارہ یا کنور )اونٹ پر سوار ملے گی۔اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے لو۔یہ سن کر ہم گھوڑوں کو دوڑاتے چلے،روضئہ خاخ میں پہنچے،دیکھا تو واقعی ایک عورت (اونٹ پر سوار )جارہی ہے۔ہم نے اس سے کہا چل خط نکال۔وہ کہنے لگی میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ہم نے کہا اب خط نکال کر دیتی ہے یا ہم تیرے کپڑے اتاریں جب اس نے (مجبور ہو کر)اپنے جوڑے سے ایک خط نکال کر دیا ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ والے چند مشرکوں کے نام اس میں رسول اللہ ﷺ کے بعضے ارادوں کا بیان تھا۔رسول اللہ ﷺ نے حاطب سے پوچھا حاطب یہ تو نے کیا کیا ؟ وہ کہنے لگا یا رسولؐ اللہ جلدی نہ فرمایئے (میرا حال اچھی طرح سن لیجئے )میں ایسا شخص ہوں جو قریش میں
آ کر مل گیا ،اصل قریش نہیں ہوں اور دوسرے مہاجرین جو آپؐ کے ساتھ ہیں ان سب کی مکہ والوں سے رشتہ داری ہے جس کی وجہ سے ان کا گھر بار مال اسباب بچا ہو اہے تو میں نے یہ چاہا کہ کوئی احسان ہی ان پر پیدا کروں کیونکہ رشتہ داری تو ہے نہیں جس کی وجہ سے میرے ناطے والے بچے رہیں۔میں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کہ میں (خدا نخواستہ)کافر ہوں یا مرتد ،نہ میں مسلمان ہو کر پھر کفر کو پسند کرتا ہوں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حاطب سچ کہتا ہے۔عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ! اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن ماروں آپؐ نے فرمایا وہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوچکا ہے اور تجھے معلوم نہیں شاید اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو دیکھا اور فرمایا ۔اب تم چاہو جیسے اعمال کرو،میں تم کو بخش چکا سفیان نے کہا اس حدیث کی سند بھی کیا عمدہ سند ہے۔
Chapter No: 142
باب الْكِسْوَةِ لِلأُسَارَى
Providing the prisoners of war with clothes.
باب: قیدیوں کو کپڑا پہنا نا -
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، وَسَأَلَهُ، رَجُلٌ أَكُنْتُمْ فَرَرْتُمْ يَا أَبَا عُمَارَةَ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لاَ، وَاللَّهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَلَكِنَّهُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ وَأَخِفَّاؤُهُمْ حُسَّرًا لَيْسَ بِسِلاَحٍ، فَأَتَوْا قَوْمًا رُمَاةً، جَمْعَ هَوَازِنَ وَبَنِي نَصْرٍ، مَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ، فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُونَ، فَأَقْبَلُوا هُنَالِكَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ، وَابْنُ عَمِّهِ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَقُودُ بِهِ، فَنَزَلَ وَاسْتَنْصَرَ ثُمَّ قَالَ أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ثُمَّ صَفَّ أَصْحَابَهُ
Narrated By Al-Bara : A man asked him, "O Abu 'Umara! Did you all flee on the day (of the battle) of Hunain?" He replied, "No, by Allah! Allah's Apostle did not flee, but his young unarmed companions passed by the archers of the tribe of Hawazin and Bani Nasr whose arrows hardly missed a target, and they threw arrows at them hardly missing a shot. So the Muslims retreated towards the Prophet while he was riding his white mule which was being led by his cousin Abu Sufyan bin Al-Harith bin 'Abdul Muttalib. The Prophet dismounted and invoked Allah for victory; then he said, 'I am the Prophet, without a lie; I am the son of 'Abdul Muttalib, and then he arranged his companions in rows."
ابو اسحاق نے بیان کیا کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ، ان سے ایک صاحب نے پوچھا تھا کہ ابو عمارہ! کیا آپ لوگوں نے حنین کی لڑائی میں فرار اختیار کیا تھا ؟ حضرت براء رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺنے پشت ہرگز نہیں پھیری تھی۔ البتہ آپﷺکے اصحاب میں جو نوجوان تھے بے سرو سامان جن کے پاس نہ زرہ تھی، نہ خود اور کوئی ہتھیار بھی نہیں لے گئے تھے ، انہوں نے ضر ور میدان چھوڑ دیا تھا کیونکہ مقابلہ میں ہوازن اور بنو نصر کے بہترین تیز انداز تھے کہ کم ہی ان کا کوئی تیر خطا جاتا۔ چنانچہ انہوں نے خوب تیر برسائے اور شاید ہی کوئی نشانہ ان کا خطا ہوا ہو(اس دوران میں مسلمان ) نبی ﷺکے پاس آکر جمع ہوگئے ۔ آپﷺاپنے سفید خچر پر سوار تھے اور آپﷺکے چچیرے بھائی ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب آپﷺکی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ آپﷺنے سواری سے اتر کر اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا مانگی ۔ پھر فرمایا: میں نبی ہوں اس میں غلط بیانی کا کوئی شائبہ نہیں ، میں عبد المطلب کی اولاد ہوں۔اس کے بعد آپﷺنے اپنے اصحاب کی صف بندی کی ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمَ بَدْرٍ أُتِيَ بِأُسَارَى، وَأُتِيَ بِالْعَبَّاسِ وَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ ثَوْبٌ، فَنَظَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لَهُ قَمِيصًا فَوَجَدُوا قَمِيصَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَىٍّ يَقْدُرُ عَلَيْهِ، فَكَسَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِيَّاهُ، فَلِذَلِكَ نَزَعَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَمِيصَهُ الَّذِي أَلْبَسَهُ. قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ يُكَافِئَهُ
Narrated By Jabir bin 'Abdullah : When it was the day (of the battle) of Badr, prisoners of war were brought including Al-Abbas who was undressed. The Prophet looked for a shirt for him. It was found that the shirt of 'Abdullah bin Ubai would do, so the Prophet let him wear it. That was the reason why the Prophet took off and gave his own shirt to 'Abdullah. (The narrator adds, "He had done the Prophet some favour for which the Prophet liked to reward him.")
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے،انہوں نے عمرو بن دینار سے،انہوں نے جابر بن عبداللہ سے سنا انہوں نے کہا جب بدر کا دن ہوا اور کافروں کے قیدی حاضر کئے گئے۔عباسؓ (آپؐ کےچچا کو)بھی لائے۔وہ ننگے تھے۔نبیﷺ نے ان کے بدن کے موافق کوئی کرتا تلاش کیا دیکھا تو عبداللہ بن ابی(منافق) کا کرتہ ان کے بدن پرٹھیک تھا۔آپؐ نے وہی کرتہ ان کو پہنا دیااور یہی سبب تھا جو نبیﷺ نے اپنا کرتہ اتار کر عبداللہ بن ابی کو (اس کے مرےبعد) پہنا دیا۔ابن عیینہ نے کہا عبداللہ بن ابی کا احسان نبیﷺ پر تھا آپؐ نے اس کے احسان کو بدلہ کر دینا چاہا(تاکہ منافق کا احسان نہ رہے)
Chapter No: 143
باب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ عَلَى يَدَيْهِ رَجُلٌ
The superiority of the one through whom a man embraces Islam.
باب: جس کے ہاتھ پر کوئی کافر مسلمان ہو اس کی فضلیت -
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الأَحْزَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَلأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، شَغَلُونَا عَنِ الصَّلاَةِ الْوُسْطَى حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ "
Narrated By 'Ali : When it was the day of the battle of Al-Ahzab (i.e. the clans), Allah's Apostle said, "O Allah! Fill their (i.e. the infidels') houses and graves with fire as they busied us so much that we did not perform the prayer (i.e. 'Asr) till the sun set."
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہﷺنے (مشرکین کو) یہ بد دعا دی کہ اے اللہ ! ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ انہوں نے ہم کو صلاۃ و سطی (عصر کی نماز) نہیں پڑھنے دی ۔(یہ آپﷺنے اس وقت فرمایا) جب سورج غروب ہوچکا تھا ، اور عصر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ ذَكْوَانَ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَدْعُو فِي الْقُنُوتِ " اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ "
Narrated By Abu Huraira : The Prophet used to recite the following invocations during Qunut: "O Allah! Save Salama bin Hisham. O Allah! Save Al-Walid bin Al-Walid. O Allah! Save 'Aiyash bin Rabi'a O Allah ! Save the weak Muslims. O Allah! Be very hard on Mudar tribe. O Allah! Afflict them with years (of famine) similar to the (famine) years of the time of Prophet Joseph."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ(صبح کی ) دعائے قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے: اے اللہ ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ ! ولید بن ولید کو نجات دے ، اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ ! تمام کمزور مسلمانوں کو نجات دے ۔ اے اللہ ! مضر پر اپنا سخت عذاب نازل کر ۔ اے اللہ ! ایسا قحط نازل کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الأَحْزَابِ عَلَى الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ " اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ، اللَّهُمَّ اهْزِمِ الأَحْزَابَ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ "
Narrated By 'Abdullah bin Abi Aufa : Allah's Apostle invoked evil upon the pagans on the ay (of the battle) of Al-Ahzab, saying, "O Allah! The Revealer of the Holy Book, the Swift-Taker of Accounts, O Allah, defeat Al-Ahzab (i.e. the clans), O Allah, defeat them and shake them."
حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺنے غزوۂ احزاب کے موقع پر دعا کی تھی : اے اللہ ! کتاب کے نازل کرنے والے (قیامت کے دن ) بڑی سرعت سے حساب لینے والے ، اے اللہ!مشرکوں اور کفار کی جماعتوں کو شکست دے۔ اےاللہ ! انہیں شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَنَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ، وَنُحِرَتْ جَزُورٌ بِنَاحِيَةِ مَكَّةَ، فَأَرْسَلُوا فَجَاءُوا مِنْ سَلاَهَا، وَطَرَحُوهُ عَلَيْهِ، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَلْقَتْهُ عَنْهُ، فَقَالَ " اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ". لأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُبَىِّ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ فِي قَلِيبِ بَدْرٍ قَتْلَى. قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ وَنَسِيتُ السَّابِعَ. وَقَالَ يُوسُفُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ. وَقَالَ شُعْبَةُ أُمَيَّةُ أَوْ أُبَىٌّ. وَالصَّحِيحُ أُمَيَّةُ
Narrated By Abdullah : Once the Prophet was offering the prayer in the shade of the Ka'ba. Abu Jahl and some Quraishi men sent somebody to bring the abdominal contents of a shecamel which had been slaughtered somewhere in Mecca, and when he brought them, they put them over the Prophet Then Fatima (i.e. the Prophet's daughter) came and threw them away from him, and he said, "O Allah! Destroy (the pagans of) Quraish; O Allah! Destroy Quraish; O Allah Destroy Quraish," naming especially Abu Jahl bin Hisham, 'Utba bin Rabi'a, Shaiba bin Rabi'a, Al Walid bin 'Utba, Ubai bin Khalaf and 'Uqba bin Abi Mitt. (The narrator, 'Abdullah added, "I saw them all killed and thrown in the Badr well).
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺکعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابو جہل اور قریش کے بعض دوسرے لوگوں نے کہا: اونٹ کی اوجھڑی لاکر کون ان پر ڈالے گا؟مکہ کے کنارے ایک اونٹ ذبح ہوا تھا (اور اسی کی اوجھڑی لانے کے واسطے) ان سبھوں نے اپنے آدمی بھیجے اور وہ اس اونٹ کی اوجھڑی اٹھالائے اور اسے نبیﷺکے اوپر ڈال دیا۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور انہوں نے آپﷺکے اوپر سے اس گندگی کو ہٹایا۔ آپﷺنے اس وقت یہ بد دعا کی کہ اے اللہ ! قریش کو پکڑ، اے اللہ! قریش کو پکڑ ، اے اللہ ! قریش کو پکڑ، ابو جہل بن ہشام ، عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سب کو پکڑ لے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: چنانچہ میں نے ان سب کو جنگ بدر میں بدر کے کنویں میں دیکھا کہ تمام کو قتل کرکے اس میں ڈال دیا گیا تھا ۔ ابو اسحاق نے کہا: میں ساتویں شخص کا نام بھول گیا اور یوسف بن ابی اسحاق نے کہا: ان سے ابو اسحاق نے (سفیان کی روایت میں ابی بن خلف کی بجائے ) امیہ بن خلف بیان کیا اور شعبہ نے کہا: امیہ یا ابی ، لیکن صحیح امیہ ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ أَنَّ الْيَهُودَ، دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا السَّامُ عَلَيْكَ. فَلَعَنْتُهُمْ. فَقَالَ " مَا لَكِ ". قُلْتُ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ " فَلَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ "
Narrated By 'Aisha : Once the Jews came to the Prophet and said, "Death be upon you." So I cursed them. The Prophet said, "What is the matter?" I said, "Have you not heard what they said?" The Prophet said, "Have you not heard what I replied (to them)? (I said), ('The same is upon you.')"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بعض یہودی نبیﷺکی خدمت میں تشریف لائے اور کہا: السام علیکم (تم پر موت آئے) میں نے ان پر لعنت بھیجی ۔ آپﷺنے فرمایا: کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا: کیا انہوں نے بھی جو کہا تھا آپﷺنے نہیں سنا ؟ آپﷺنے فرمایا: کیا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے اس کا کیا جواب دیا " وعلیکم " یعنی تم پر بھی وہی آئے (یعنی میں نے کوئی برا لفظ زبان سے نہیں نکالا صرف ان کی بات ان ہی پر لوٹادی)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَهْلٌ ـ رضى الله عنه يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ـ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ خَيْبَرَ " لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلاً يُفْتَحُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ". فَبَاتَ النَّاسُ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَى فَغَدَوْا كُلُّهُمْ يَرْجُوهُ فَقَالَ " أَيْنَ عَلِيٌّ ". فَقِيلَ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ فَقَالَ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا. فَقَالَ " انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ، فَوَاللَّهِ لأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلاً خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ "
Narrated By Sahl : On the day (of the battle) of Khaibar the Prophet said, "Tomorrow I will give the flag to somebody who will be given victory (by Allah) and who loves Allah and His Apostle and is loved by Allah and His Apostle." So, the people wondered all that night as to who would receive the flag and in the morning everyone hoped that he would be that person. Allah's Apostle asked, "Where is 'Ali?" He was told that 'Ali was suffering from eye-trouble, so he applied saliva to his eyes and invoked Allah to cure him. He at once got cured as if he had no ailment. The Prophet gave him the flag. 'Ali said, "Should I fight them till they become like us (i.e. Muslim)?" The Prophet said, "Go to them patiently and calmly till you enter the land. Then, invite them to Islam, and inform them what is enjoined upon them, for, by Allah, if Allah gives guidance to somebody through you, it is better for you than possessing red camels."
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن بن محمد بن عبداللہ بن عبد القاری نے انہوں نے ابو حازم (سلمہ بن دینار)سے انہوں نے کہامجھ کو سہل بن سعد انصاری صحابیؓ نے خبر دی ،انہوں نے کہا نبیﷺ نے جنگ خیبر کے دن فرمایا کل میں ایسے شخص کو
(سرداری کا )جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر کو فتح کرادے گا۔وہ اللہ اور رسولؐ سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسولؐ اس سے محبت رکھتے ہیں۔یہ سن کر لوگ رات بھر اس خیال میں رہے دیکھو کس کو جھنڈا ملتا ہے۔ہر شخص امیدوار تھا (صبح کو )آپؐ نے فرمایاعلیؓ کہاں ہیں؟لوگوں نے کہا ان کی آنکھیں دکھ رہی ہیں(خیر وہ آئے) آپؐ نے ان کی آنکھوں پر تھوک دیا اور ان کے لئے دعا فرمائی وہ بالکل اچھے ہوگئے جیسے کوئی عارضہ ہی نہ تھا۔پھر آپؐ نے جھنڈا ان کے حوالے کیا۔انہوں نے پوچھا کیا میں ان سے لڑوں جب تک وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجایئں۔آپؐ نے فرمایا چپکے چلا جا اور اُن کے مقام پر اتر پڑ پھر ان کو مسلمان ہونے کے لئے کہہ اور اسلام میں جو جو باتیں ضرور ہیں(ارکانِ اسلام)وہ ان کو بتلا دے قسم خدا کی اگر تیرے سبب سے اللہ ایک شخص کو راہ پر لائے (ایمان کی توفیق دے)وہ تیرے حق میں لال لال اونٹوں سے بڑھ کر ہے۔
Chapter No: 144
باب الأُسَارَى فِي السَّلاَسِلِ
The prisoner of war in chains.
باب: قیدیوں کو زنجیر میں باندھنا -
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ، وَقَالَ " فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ "
Narrated By 'Abdullah bin Abbas : Allah's Apostle wrote a letter to Caesar saying, "If you reject Islam, you will be responsible for the sins of the peasants (i.e. your people)."
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺنے (روم کے بادشاہ ) قیصر کو ( خط) لکھا جس میں آپﷺنے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تم نے (اسلام کی دعوت سے ) منہ موڑا تو (اپنے گناہ کے ساتھ ) ان کاشتکاروں کا بھی گناہ تم پر پڑے گا(جن پر تم حکمرانی کررہے ہو)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " عَجِبَ اللَّهُ مِنْ قَوْمٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ فِي السَّلاَسِلِ "
Narrated By Abu Huraira : The Prophet said, "Allah wonders at those people who will enter Paradise in chains."
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے غندر نے کہا ہم سے شعبہ نے،انہوں نے محمد بن زیاد سے انہوں نے ابو ہریرہؓ سے،انہوں نےنبیﷺ سے آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر تعجب کیا جو زنجیریں پہنے ہوئے بہشت میں داخل ہوتے ہیں(یعنی مسلمان ہوتے ہیں)
Chapter No: 145
باب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ
The superiority of the people of the scriptures who embrace Islam.
باب: یہود یا نصارہ مسلمان ہو جائیں توان کا ثواب-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه قَدِمَ طُفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ وَأَصْحَابُهُ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ دَوْسًا عَصَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهَا. فَقِيلَ هَلَكَتْ دَوْسٌ. قَالَ " اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِهِمْ "
Narrated By Abu Huraira : Tufail bin 'Amr Ad-Dausi and his companions came to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! The people of the tribe of Daus disobeyed and refused to follow you; so invoke Allah against them." The people said, "The tribe of Daus is ruined." The Prophet said, "O Allah! Give guidance to the people of Daus, and let them embrace Islam."
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ!قبیلہ دوس کے لوگ سرکشی پر اتر آئے ہیں اور اللہ کا کلام سننے سے انکار کرتے ہیں ۔ آپﷺان پر بددعا کیجئے ! بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اب دوس کے لوگ برباد ہوجائیں گے ۔ لیکن آپﷺنے فرمایا: اے اللہ ! دوس کے لوگوں کو ہدایت دے اور انہیں (دائرہ اسلام میں) کھینچ لا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَىٍّ أَبُو حَسَنٍ، قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، يَقُولُ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " ثَلاَثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ الرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الأَمَةُ فَيُعَلِّمُهَا فَيُحْسِنُ تَعْلِيمَهَا، وَيُؤَدِّبُهَا فَيُحْسِنُ أَدَبَهَا، ثُمَّ يُعْتِقُهَا فَيَتَزَوَّجُهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَمُؤْمِنُ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِي كَانَ مُؤْمِنًا، ثُمَّ آمَنَ بِالنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَلَهُ أَجْرَانِ، وَالْعَبْدُ الَّذِي يُؤَدِّي حَقَّ اللَّهِ وَيَنْصَحُ لِسَيِّدِهِ ". ثُمَّ قَالَ الشَّعْبِيُّ وَأَعْطَيْتُكَهَا بِغَيْرِ شَىْءٍ وَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يَرْحَلُ فِي أَهْوَنَ مِنْهَا إِلَى الْمَدِينَةِ
Narrated By Abu Burda's father : The Prophet said, "Three persons will get their reward twice. (One is) a person who has a slave girl and he educates her properly and teaches her good manners properly (without violence) and then manumits and marries her. Such a person will get a double reward. (Another is) a believer from the people of the scriptures who has been a true believer and then he believes in the Prophet (Muhammad). Such a person will get a double reward. (The third is) a slave who observes Allah's Rights and Obligations and is sincere to his master."
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا ہم سے صالح بن حی ابوحسن نے کہا میں نے عامر شعبی سے سنا وہ کہتے تھے مجھ سے ابو بردہ نے بیان کیا ،انہوں نے اپنے والد ابو موسی اشعری سے سنا،انہوں نے نبیﷺ سے آپؐ نے فرمایا تین آدمیوں کو دوہرا ثواب ملے گا ۔ایک تو اس کو جس کی ایک لونڈی ہو ۔وہ اس کی اچھی تعلیم اور تربیت کرے،ادب تمیز سکھلائے پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرے اس کو دوہرا ثواب ملے گا،دوسرے اس یہودی یا نصرانی کو جو اپنے پیغمبر پر ایمان رکھتا تھا پھر نبیﷺ پر بھی ایمان لائے مسلمان ہو جائے اس کو بھی دوہرا ثواب ملے گا تیسرے اس غلام کو جو اللہ اور اپنے سردار دونوں کا حق ادا کرے۔یہ حدیث بیان کرکے شعبی نے صالح سے کہا ہم نے یہ حدیث بن محنت تجھ کو سنا دی اور اس سے کم حدیث سننے کے لئے لوگ مدینہ منورہ تک سفر کیا کرتے۔
Chapter No: 146
باب أَهْلِ الدَّارِ يُبَيَّتُونَ فَيُصَابُ الْوِلْدَانُ وَالذَّرَارِيُّ
To attack the enemies with the probability of killing the babies and children (unintentionally)?
باب: اگر کافروں پر شبخون (چھا پہ ) ماریں اور ( بے قصد )عورتیں بچے بھی قتل کیے تو کچھ قباحت نہیں -
{بَيَاتًا} لَيْلاً
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الرُّومِ، قِيلَ لَهُ إِنَّهُمْ لاَ يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلاَّ أَنْ يَكُونَ مَخْتُومًا. فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ، وَنَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ
Narrated By Anas : When the Prophet intended to write a letter to the ruler of the Byzantines, he was told that those people did not read any letter unless it was stamped with a seal. So, the Prophet got a silver ring... as if I were just looking at its white glitter on his hand... and stamped on it the expression "Muhammad, Apostle of Allah".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب نبیﷺنے شاہ روم کو خط لکھنے کا ارادہ کیا تو آپﷺسے کہا گیا کہ وہ لوگ کوئی خط اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک کہ اس پر مہر نہ لگی ہو۔چنانچہ آپﷺنے ایک چاندی کی انگوٹھی بنوائی ۔ گویا دست مبارک پر اس کی سفیدی میری نظروں کے سامنے ہے ۔ اس انگوٹھی پر "محمد رسول اللہ" کھدا ہوا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَى كِسْرَى، فَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، يَدْفَعُهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، فَلَمَّا قَرَأَهُ كِسْرَى خَرَّقَهُ، فَحَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ قَالَ فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ.
Narrated By 'Abdullah bin 'Abbas : Allah's Apostle sent his letter to Khusrau and ordered his messenger to hand it over to the Governor of Bahrain who was to hand it over to Khusrau. So, when Khusrau read the letter he tore it. Said bin Al-Musaiyab said, "The Prophet then invoked Allah to disperse them with full dispersion, (destroy them (i.e. Khusrau and his followers) severely)".
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے اپنا خط کسریٰ کے پاس بھیجا ۔ آپﷺنے یہ فرمایا تھا کہ وہ آپﷺکے خط کو بحرین کے گورنر کو دے دیں ، بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا ۔ جب کسریٰ نے مکتوب مبارک پڑہا تو اسے اس نے پھاڑا ڈالا۔ مجھے یاد ہے کہ سعید بن مسیب نے بیان کیا تھا کہ پھر نبیﷺنے اس پر بد دعا کی تھی کہ وہ بھی پارہ پارہ ہوجائے ۔(چنانچہ ایسا ہی ہوا)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ ـ رضى الله عنهم ـ قَالَ مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِالأَبْوَاءِ ـ أَوْ بِوَدَّانَ ـ وَسُئِلَ عَنْ أَهْلِ الدَّارِ يُبَيَّتُونَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَيُصَابُ مِنْ نِسَائِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ قَالَ " هُمْ مِنْهُمْ ". وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ " لاَ حِمَى إِلاَّ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم "
Narrated By As-Sab bin Jaththama : The Prophet passed by me at a place called Al-Abwa or Waddan, and was asked whether it was permissible to attack the pagan warriors at night with the probability of exposing their women and children to danger. The Prophet replied, "They (i.e. women and children) are from them (i.e. pagans)." I also heard the Prophet saying, "The institution of Hima is invalid except for Allah and His Apostle."
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا ہم سے زہری نے انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عقبہ سے انہوں نے ابن عباس سے،انہوں نے صعب بن جثامہ سے انہوں نے کہا نبیﷺ ابواء یا ودان میں میرے رستے سے گزرے۔آپؐ سے پوچھا گیا کہ جن مشرکوں سے لڑائی ہے اگر شبخون میں ان کے عورتیں بچے مارے جایئں تو کیسا ہے آپؐ نے فرمایا عورتیں بچے بھی آخر انہی میں کے ہیں اور میں نے آپؐ سے سنا،فرماتے تھے محفوظ چراگاہ(رمنہ)اللہ اور اسکے رسولؐ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔
وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا الصَّعْبُ، فِي الذَّرَارِيِّ كَانَ عَمْرٌو يُحَدِّثُنَا عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَسَمِعْنَاهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الصَّعْبِ، قَالَ " هُمْ مِنْهُمْ " وَلَمْ يَقُلْ كَمَا قَالَ عَمْرٌو " هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ "
(As above H.3012)
اور سفیان بن عیینہ نے زہری سے روایت کی،انہوں نے عبید اللہ سے سنا،انہوں نے ابن عباسؓ سے کہا صعب بن جثامہ نے مشرکوں کی عورتوں اور بچوں کے باب میں ہم سے حدیث بیان کی سفیان نے کہا عمرو بن دینار نے ہم سے یہ حدیث ابن شہاب سے وہ نبیﷺ سے مرسلاً بیان کرتے تھے پھر ہم نے زہری سے اس حدیث کو یوں سنا انہوں نے کہا مجھ کو عبید اللہ نے خبر دی،انہوں نے ابن عباسؓ سے انہوں نے صعب بن جثامہ سے یعنی متصلاً بیان کیا۔اس روایت میں یوں ہے کہ آپؐ نے فرمایا آخر عورتیں بچے انہی میں کے ہیں اور عمر و بن دینار کی طرح یوں نہیں کہا کہ آخر عورتیں بچے بھی اپنے باپ دادا ہی کی اولاد ہیں۔
Chapter No: 147
باب قَتْلِ الصِّبْيَانِ فِي الْحَرْبِ
Killing the children in the war.
باب: لڑائی میں بچوں کا مارنا کیسا ہے -
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ يَدْعُوهُ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَبَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَيْهِ مَعَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، وَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى لِيَدْفَعَهُ إِلَى قَيْصَرَ، وَكَانَ قَيْصَرُ لَمَّا كَشَفَ اللَّهُ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِيلِيَاءَ، شُكْرًا لِمَا أَبْلاَهُ اللَّهُ، فَلَمَّا جَاءَ قَيْصَرَ كِتَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ حِينَ قَرَأَهُ الْتَمِسُوا لِي هَا هُنَا أَحَدًا مِنْ قَوْمِهِ لأَسْأَلَهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Abdullah bin Abbas : Allah's Apostle wrote to Caesar and invited him to Islam and sent him his letter with Dihya Al-Kalbi whom Allah's Apostle ordered to hand it over to the Governor of Busra who would forward it to Caesar. Caesar as a sign of gratitude to Allah, had walked from Hims to Ilya (i.e. Jerusalem) when Allah had granted Him victory over the Persian forces. So, when the letter of Allah's Apostle reached Caesar, he said after reading t, 'Seek for me any one of his people! (Arabs of Quraish tribe) if present here, in order to ask him about Allah's Apostle.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسو ل اللہﷺنے قیصر کو ایک خط لکھا جس میں آپﷺنے اسے اسلام کی دعوت دی تھی ۔ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو آپﷺنے مکتوب دے کر بھیجا اور انہیں حکم دیا تھا کہ مکتوب بصریٰ کے گورنر کے حوالہ کردیں وہ اسے قیصر تک پہنچادے گا ۔ جب فارس کی فوج شکست کھاکر پیچھے ہٹ گئی تھی (اور اس کے ملک کے مقبوضہ علاقے واپس مل گئے تھے) تو اس انعام کے شکرانہ کے طور پر جو اللہ تعالیٰ نے (اس کا ملک اسے واپس دے کر )اس پر کیا تھا ، ابھی قیصر حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) تک پیدل چل کر آیا تھا۔ جب اس کے پاس رسول اللہﷺکا نامہ مبارک پہنچا اور اس کے سامنے پڑھا گیا تو اس نے کہا کہ اگر ان کی (آپﷺکی ) قوم کا کوئی شخص یہاں ہو تو اسے تلاش کرکے لاؤ تاکہ میں اس رسول ﷺکے متعلق اس سے کچھ سوالا ت کروں۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ، أَنَّهُ كَانَ بِالشَّأْمِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قَدِمُوا تِجَارًا فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَبَيْنَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَيْصَرَ بِبَعْضِ الشَّأْمِ فَانْطَلَقَ بِي وَبِأَصْحَابِي حَتَّى قَدِمْنَا إِيلِيَاءَ، فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ وَعَلَيْهِ التَّاجُ، وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ فَقَالَ لِتُرْجُمَانِهِ سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ نَسَبًا. قَالَ مَا قَرَابَةُ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ فَقُلْتُ هُوَ ابْنُ عَمِّي، وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي. فَقَالَ قَيْصَرُ أَدْنُوهُ. وَأَمَرَ بِأَصْحَابِي فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي، ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ قُلْ لأَصْحَابِهِ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ. قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَاللَّهِ لَوْلاَ الْحَيَاءُ يَوْمَئِذٍ مِنْ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الْكَذِبَ لَكَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي عَنْهُ، وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ أَنْ يَأْثُرُوا الْكَذِبَ عَنِّي فَصَدَقْتُهُ، ثُمَّ قَالَ لِتُرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ. قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَبْلَهُ قُلْتُ لاَ. فَقَالَ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ عَلَى الْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ. قَالَ فَيَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ. قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لاَ. قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لاَ، وَنَحْنُ الآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ، نَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَغْدِرَ. قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَلَمْ يُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ لاَ أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّي غَيْرُهَا. قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَكُمْ قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ فَكَيْفَ كَانَتْ حَرْبُهُ وَحَرْبُكُمْ قُلْتُ كَانَتْ دُوَلاً وَسِجَالاً، يُدَالُ عَلَيْنَا الْمَرَّةَ وَنُدَالُ عَلَيْهِ الأُخْرَى. قَالَ فَمَاذَا يَأْمُرُكُمْ قَالَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لاَ نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالصَّدَقَةِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ. فَقَالَ لِتُرْجُمَانِهِ حِينَ قُلْتُ ذَلِكَ لَهُ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ ذُو نَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِيلَ قَبْلَهُ. وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ. وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، فَكَذَلِكَ الإِيمَانُ حِينَ تَخْلِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ لاَ يَسْخَطُهُ أَحَدٌ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ يَغْدِرُونَ. وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ، وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ تَكُونُ دُوَلاً، وَيُدَالُ عَلَيْكُمُ الْمَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الأُخْرَى، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى، وَتَكُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، قَالَ وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ، قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، وَإِنْ يَكُ مَا قُلْتَ حَقًّا، فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَىَّ هَاتَيْنِ، وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَيْهِ. قَالَ أَبُو سُفْيَانَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الأَرِيسِيِّينَ وَ{يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ}". قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا أَنْ قَضَى مَقَالَتَهُ، عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ، وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ، فَلاَ أَدْرِي مَاذَا قَالُوا، وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي وَخَلَوْتُ بِهِمْ قُلْتُ لَهُمْ لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، هَذَا مَلِكُ بَنِي الأَصْفَرِ يَخَافُهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلاً مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الإِسْلاَمَ وَأَنَا كَارِهٌ
At that time Abu Sufyan bin Harb was in Sham with some men frown Quraish who had come (to Sham) as merchants during the truce that had been concluded between Allah's Apostle; and the infidels of Quraish. Abu Sufyan said, Caesar's messenger found us somewhere in Sham so he took me and my companions to Ilya and we were admitted into Ceasar's court to find him sitting in his royal court wearing a crown and surrounded by the senior dignitaries of the Byzantine. He said to his translator. 'Ask them who amongst them is a close relation to the man who claims to be a prophet." Abu Sufyan added, "I replied, 'I am the nearest relative to him.' He asked, 'What degree of relationship do you have with him?' I replied, 'He is my cousin,' and there was none of Bani Abu Manaf in the caravan except myself. Caesar said, 'Let him come nearer.' He then ordered that my companions stand behind me near my shoulder and said to his translator, 'Tell his companions that I am going to ask this man about the man who claims to be a prophet. If he tells a lie, they should contradict him immediately." Abu Sufyan added, "By Allah ! Had it not been shameful that my companions label me a liar, I would not have spoken the truth about him when he asked me. But I considered it shameful to be called a liar by my companions. So I told the truth. He then said to his translator, 'Ask him what kind of family does he belong to.' I replied, 'He belongs to a noble family amongst us.' He said, 'Have anybody else amongst you ever claimed the same before him? 'I replied, 'No.' He said, 'Had you ever blamed him for telling lies before he claimed what he claimed? ' I replied, 'No.' He said, 'Was anybody amongst his ancestors a king?' I replied, 'No.' He said, "Do the noble or the poor follow him?' I replied, 'It is the poor who follow him.' He said, 'Are they increasing or decreasing (day by day)?' I replied,' They are increasing.' He said, 'Does anybody amongst those who embrace his (the Prophet's) Religion become displeased and then discard his Religion?'. I replied, 'No. ' He said, 'Does he break his promises? I replied, 'No, but we are now at truce with him and we are afraid that he may betray us." Abu Sufyan added, "Other than the last sentence, I could not say anything against him. Caesar then asked, 'Have you ever had a war with him?' I replied, 'Yes.' He said, 'What was the outcome of your battles with him?' I replied, 'The result was unstable; sometimes he was victorious and sometimes we.' He said, 'What does he order you to do?' I said, 'He tells us to worship Allah alone, and not to worship others along with Him, and to leave all that our fore-fathers used to worship. He orders us to pray, give in charity, be chaste, keep promises and return what is entrusted to us.' When I had said that, Caesar said to his translator, 'Say to him: I ask you about his lineage and your reply was that he belonged to a noble family. In fact, all the apostles came from the noblest lineage of their nations. Then I questioned you whether anybody else amongst you had claimed such a thing, and your reply was in the negative. If the answer had been in the affirmative, I would have thought that this man was following a claim that had been said before him. When I asked you whether he was ever blamed for telling lies, your reply was in the negative, so I took it for granted that a person who did not tell a lie about (others) the people could never tell a lie about Allah. Then I asked you whether any of his ancestors was a king. Your reply was in the negative, and if it had been in the affirmative, I would have thought that this man wanted to take back his ancestral kingdom. When I asked you whether the rich or the poor people followed him, you replied that it was the poor who followed him. In fact, such are the followers of the apostles. Then I asked you whether his followers were increasing or decreasing. You replied that they were increasing. In fact, this is the result of true faith till it is complete (in all respects). I asked you whether there was anybody who, after embracing his religion, became displeased and discarded his religion; your reply was in the negative. In fact, this is the sign of true faith, for when its cheerfulness enters and mixes in the hearts completely, nobody will be displeased with it. I asked you whether he had ever broken his promise. You replied in the negative. And such are the apostles; they never break their promises. When I asked you whether you fought with him and he fought with you, you replied that he did, and that sometimes he was victorious and sometimes you. Indeed, such are the apostles; they are put to trials and the final victory is always theirs. Then I asked you what he ordered you. You replied that he ordered you to worship Allah alone and not to worship others along with Him, to leave all that your fore-fathers used to worship, to offer prayers, to speak the truth, to be chaste, to keep promises, and to return what is entrusted to you. These are really the qualities of a prophet who, I knew (from the previous Scriptures) would appear, but I did not know that he would be from amongst you. If what you say should be true, he will very soon occupy the earth under my feet, and if I knew that I would reach him definitely, I would go immediately to meet Him; and were I with him, then I would certainly wash his feet.' " Abu Sufyan added, "Caesar then asked for the letter of Allah's Apostle and it was read. Its contents were:
"In the name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful (This letter is) from Muhammad, the slave of Allah, and His Apostle, to Heraculius, the Ruler of the Byzantine. Peace be upon the followers of guidance. Now then, I invite you to Islam (i.e. surrender to Allah), embrace Islam and you will be safe; embrace Islam and Allah will bestow on you a double reward. But if you reject this invitation of Islam, you shall be responsible for misguiding the peasants (i.e. your nation). O people of the Scriptures! Come to a word common to you and us and you, that we worship. None but Allah, and that we associate nothing in worship with Him; and that none of us shall take others as Lords besides Allah. Then if they turn away, say: Bear witness that we are (they who have surrendered (unto Him)... (3.64)
Abu Sufyan added, "When Heraclius had finished his speech, there was a great hue and cry caused by the Byzantine Royalties surrounding him, and there was so much noise that I did not understand what they said. So, we were turned out of the court. When I went out with my companions and we were alone, I said to them, 'Verily, Ibn Abi Kabsha's (i.e. the Prophet's) affair has gained power. This is the King of Bani Al-Asfar fearing him." Abu Sufyan added, "By Allah, I remained low and was sure that his religion would be victorious till Allah converted me to Islam, though I disliked it."
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ قریش کے ایک قافلے کے ساتھ وہ ان دنوں شام میں مقیم تھے ۔ یہ قافلہ اس دور میں یہاں تجارت کی غرض سے آیا تھا جس میں آپﷺاور کفار قریش میں باہم صلح ہوچکی تھی۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: قیصر کے آدمی کی ہم سے شام کے ایک مقام پر ملاقات ہوئی اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اپنے ساتھ (قیصر کے دربار میں بیت المقدس) لے کر چلا پھر جب ہم بیت المقدس پہنچے تو قیصر کے دربار میں ہماری باریابی ہوئی ۔ اس وقت قیصر دربار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے سر پر تاج تھا اور روم کے امراء اس کے ارد گرد تھے ، اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو کہ جنہوں نے ان کے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے نسب کے اعتبار سے ان سے قریب ان میں سے کون شخص ہے ؟ ابو سفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں نسب کے اعتبار سے ان کے زیادہ قریب ہوں ۔ قیصر نے پوچھا تمہاری اور ان کی قرابت کیا ہے ؟ میں نے کہا: وہ میرے چچا زاد بھائی ہیں۔ اتفاق تھا کہ اس مرتبہ قافلے میں میرے سوا بنو عبد مناف کا اور آدمی موجود نہیں تھا ۔ قیصر نے کہا کہ اس شخص (ابو سفیان کو) مجھ سے قریب کردو اور جو لوگ میرے ساتھ تھے اس کے حکم سے میرے پیچھے قریب میں کھڑے کردئیے گئے ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ اس سے میں ان صاحب کے بارے میں پوچھوں گا جو نبی ہونے کے مدعی ہیں ، اگر یہ ان کے بارے میں کوئی جھوٹ بات کہے تو تم فورا اس کی تکذیب کردو۔ ابو سفیان نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر اس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کر بیٹھیں تو میں ان سوالات کے جوابات میں ضرور جھوٹ بول لیتاجو اس نے آپﷺکے بارے میں کئے تھے ، لیکن مجھے تو اس کا خطرہ لگا رہا کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کردیں۔اس لئے میں نے سچائی سے کام لیا ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان سے کہا اس سے پوچھو کہ تم لوگوں میں ان صاحب کا نسب کیسا سمجھا جاتا ہے ؟میں نے بتایا کہ ہم میں ان کا نسب بہت عمدہ سمجھا جاتا ہے۔اس نے پوچھا اچھا یہ نبوت کا دعویٰ اس سے پہلے بھی تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا: نہیں ۔ اس نے پوچھا کیا اس دعویٰ سے پہلے ان پر کوئی جھوٹ کا الزام تھا ؟ میں نے کہا: نہیں ، اس نے پوچھا ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ میں نے کہا: نہیں ۔ اس نے پوچھا تو اب بڑے امیر لوگ ان کی اتباع کرتے ہیں یا کمزور اور کم حیثیت کے لوگ ؟ میں نے کہا: کمزور اور معمولی حیثیت کے لوگ ہی ان کے (زیادہ تر ماننے والے ہیں) اس نے پوچھا کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا گھٹتی جارہی ہے ؟ میں نے کہا: جی نہیں تعداد برابر بڑھتی جارہی ہے ۔ اس نے پوچھا کوئی ان کے دین سے بیزار ہوکر اسلام لانے کے بعد پھر بھی گیا ہے کیا ؟ میں نے کہا: نہیں ، اس نے پوچھا ، انہوں نے کبھی وعدہ خلافی بھی کی ہے ؟ میں نے کہا: نہیں ، لیکن آج کل ہمارا ان سے ایک معاہدہ ہورہا ہے اور ہمیں ان کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے ۔ ابو سفیان نے کہا: کہ پوری گفتگو میں سوائے اس کے اور کوئی ایسا موقعہ نہیں ملا جس میں میں کوئی ایسی بات ملاسکوں جس سے آپﷺکی توہین ہو۔ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے بھی جھٹلانے کا ڈر نہ ہو۔ اس نے پھر پوچھا کیا تم نے کبھی ان سے لڑائی کی ہے یا انہوں نے تم سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں ، اس نے پوچھا تمہاری لڑائی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟ میں نے کہا: لڑائی میں ہمیشہ کسی ایک گروہ نے فتح نہیں حاصل کی ۔ کبھی وہ ہمیں مغلوب کرلیتے ہیں اور کبھی ہم انہیں ، اس نے پوچھا وہ تمہیں کن کاموں کا حکم دیتے ہیں ؟ کہا: ہمیں وہ اس کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں، ہمیں ان بتوں کی عبادت سے وہ منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باب دادا عبادت کیا کرتے تھے ،نماز صدقہ ، پاک بازی و مروت ، وفاء عہد اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جب میں اسے یہ تمام باتیں بتاچکاتو اس نے اپنے ترجمان سے کہا، ان سے کہو میں نے تم سے ان کے نسب کے متعلق دریافت کیا تو تم نے بتایا کہ وہ تمہارے یہاں صاحب نسب اور شریف سمجھے جاتے ہیں اور انبیاء بھی یوں ہی اپنی قوم کے اعلیٰ نسب میں پیدا کئے جاتے ہیں ۔ میں نے تم سے یہ پوچھا تھا کہ کیا نبوت کا دعویٰ تمہارے یہاں اس سے پہلے بھی کسی نے کیا تھا تم نے بتایا کہ ہمارے ہاں ایسا دعویٰ پہلے کسی نے نہیں کیا تھا ، اس سے میں یہ سمجھا کہ اگر اس سے پہلے تمہارے یہاں کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ صاحب بھی اسی دعویٰ کی نقل کررہے ہیں جو اس سے پہلے کیا جاچکا ہے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان کی طرف جھوٹ منسوب کیا تھا ۔ تم نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ممکن نہیں کہ ایک شخص جو لوگوں کے متعلق کبھی جھوٹ نہ بول سکا ہو وہ اللہ کے متعلق جھوٹ بول دے ۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ تھا ، تم نے بتایا کہ نہیں۔ میں نے اس سے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ (نبوت کا دعویٰ کرکے) وہ اپنے باپ دادا کی سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، میں نے تم سے دریافت کیا کہ ان کی اتباع قوم کے بڑے لوگ کرتے ہیں یاکمزور اور بے حیثیت لوگ ، تم نے بتایا کہ کمزور غریب قسم کے لوگ ان کی تابعداری کرتے ہیں اور یہی گروہ انبیاء کی (ہر دور میں) اطاعت کرنے والا رہا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ ان تابعداروں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یہ گھٹتی بھی ہے ؟ تم نے بتایا کہ وہ لوگ برابر بڑھ ہی رہے ہیں ، ایمان کا بھی یہی حال ہے ، یہاں تک کہ وہ مکمل ہوجائے ، میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد کبھی اس سے پھر بھی گیا ہے ؟ تم نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، ایمان کا بھی یہی حال ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اترجائے تو پھر کوئی چیز اس سے مومن کو ہٹا نہیں سکتی۔میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے وعدہ خلافی بھی کی ہے ؟ تم نے اس کا بھی جواب دیا کہ نہیں ، انبیاء کی یہی شان ہے کہ وہ وعدہ خلافی کبھی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے کبھی ان سے یا انہوں نے تم سے جنگ بھی کی ہے ؟ تم نے بتایا کہ ایسا ہوا ہے اور تمہاری لڑائیوں کا نتیجہ ہمیشہ کسی ایک ہی کے حق میں نہیں گیا بلکہ کبھی تم مغلوب ہوئے ہو اور کبھی وہ ۔ انبیاء کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے وہ امتحان میں ڈالے جاتے ہیں لیکن انجام انہیں کا بہتر ہوتا ہے۔ میں نے تم سے دریافت کیا کہ وہ تم کو کن کاموں کا حکم دیتے ہیں ؟ تم نے بتایا کہ وہ ہمیں اس کا حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، اور تمہیں تمہارے ان معبودوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی تمہارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ۔ تمہیں وہ نماز ، صدقہ ، پاکبازی ، وعدہ وفائی اور اداء امانت کا حکم دیتے ہیں ، اس نے کہا کہ ایک نبی کی یہی صفت ہے میرے بھی علم میں یہ بات تھی کہ وہ نبی مبعوث ہونے والے ہیں ۔ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ تم میں سے وہ مبعوث ہوں گے ، جو باتیں تم نے بتائیں اگر وہ صحیح ہیں تو وہ دن بہت قریب ہے جب وہ اس چگہ پر حکمران ہوں گے جہاں اس قوت میرے دونوں قدم موجود ہیں ، اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کی توقع ہوتی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی پوری کوشش کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں موجود ہوتا تو ان کے پاؤں دھوتا۔ ابو سفیان نے بیان کیا کہ اس کے بعد قیصر نے رسول اللہﷺکا نامہ مبارک طلب کیا اور وہ اس کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا ہوا تھا (ترجمہ) شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو ہی بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔یہ خط ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کی طرف ، اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت قبول کرلے۔ اما بعد: میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔ اسلام قبول کرو، تمہیں بھی سلامتی و امن حاصل ہوگی اور اسلام قبول کرو اللہ تمہیں دہرا اجر دے گا (ایک تمہارے اپنے اسلام کا ، اور دوسرا تمہاری قوم کے اسلام کا جو تمہاری وجہ سے اسلام میں داخل ہوگی) لیکن اگر تم نے اس دعوت سے منہ موڑ لیا تو تمہاری رعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ اور اے اہل کتاب !ایک ایسے کلمہ پر آکر ہم سے مل جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کریں ، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو پروردگار بنائے اب بھی اگر تم منہ موڑتے ہو تو اس کا اقرار کرلو کہ فرمان بردار ہم ہی ہیں ۔ ابو سفیان نے بیان کیا کہ جب ہرقل اپنی بات پوری کرچکا تو روم کے سردار اس کے ارد گرد جمع تھے ، سب ایک ساتھ چیخنے لگے اور شور و غل بہت بڑھ گیا ۔ مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے تھے ۔پھر ہمیں حکم دیا گیا او رہم وہاں سے نکال دئیے گئے ۔ جب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلا آیا اور ان کے ساتھ تنہائی ہوئی تو میں نے کہا: کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہﷺ) کا معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے ، بنو اصفر (رومیوں) کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے ، ابو سفیان نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اسی دن سے اپنی ذلت کا یقین ہوگیا تھا اور برابر اس بات کا بھی یقین رہا کہ آپﷺضرور غالب ہوں گے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں بھی اسلام داخل کردیا ۔ حالانکہ (پہلے ) میں اسلام کو برا جانتا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْد ٍ ـ رضى الله عنه ـ سَمِعَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ " لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلاً يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ ". فَقَامُوا يَرْجُونَ لِذَلِكَ أَيُّهُمْ يُعْطَى، فَغَدَوْا وَكُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَى فَقَالَ " أَيْنَ عَلِيٌّ ". فَقِيلَ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، فَأَمَرَ فَدُعِيَ لَهُ، فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ، فَبَرَأَ مَكَانَهُ حَتَّى كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ شَىْءٌ فَقَالَ نُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا. فَقَالَ " عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ، فَوَاللَّهِ لأَنْ يُهْدَى بِكَ رَجُلٌ وَاحِدٌ خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ "
Narrated By Sahl bin Sad : That he heard the Prophet on the day (of the battle) of Khaibar saying, "I will give the flag to a person at whose hands Allah will grant victory." So, the companions of the Prophet got up, wishing eagerly to see to whom the flag will be given, and everyone of them wished to be given the flag. But the Prophet asked for 'Ali. Someone informed him that he was suffering from eye-trouble. So, he ordered them to bring 'Ali in front of him. Then the Prophet spat in his eyes and his eyes were cured immediately as if he had never any eye-trouble. 'Ali said, "We will fight with them (i.e. infidels) till they become like us (i.e. Muslims)." The Prophet said, "Be patient, till you face them and invite them to Islam and inform them of what Allah has enjoined upon them. By Allah! If a single person embraces Islam at your hands (i.e. through you), that will be better for you than the red camels."
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺسے سنا ، آپﷺنے خیبر کی لڑائی کے دن فرمایا تھا کہ اسلامی جھنڈا میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا ۔ اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھئے ! جھنڈا کسے ملتا ہے ، جب صبح ہوئی تو سب سرکردہ لوگ اسی امید میں رہے کہ کاش! انہیں کو مل جائے لیکن آپﷺنے دریافت فرمایا: علی کہاں ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں ، آخر آپﷺکے حکم سے انہیں بلایا گیا ۔ آپﷺنے اپنا لعاب دہن مبارک ان کی آنکھوں میں لگادیا اور فورا ہی وہ اچھے ہوگئے ۔ جیسے پہلے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم ان (یہودیوں سے ) اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک یہ ہمارے جیسے (مسلمان) نہ ہوجائیں ۔ لیکن آپﷺنے فرمایا: ابھی ٹھہرو پہلے ان کے میدان میں اتر کر انہیں تم اسلام کی دعوت دے لو اور ان کےلیے جو چیز ضروری ہیں ان کی خبر کردو ۔ اللہ کی قسم ! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا غَزَا قَوْمًا لَمْ يُغِرْ حَتَّى يُصْبِحَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ بَعْدَ مَا يُصْبِحُ، فَنَزَلْنَا خَيْبَرَ لَيْلاً
Narrated By Anas : Whenever Allah's Apostle attacked some people, he would never attack them till it was dawn. If he heard the Adhan (i.e. call for prayer) he would delay the fight, and if he did not hear the Adhan, he would attack them immediately after dawn. We reached Khaibar at night.
حمید سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺجب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک کوئی اقدام نہ فرماتے جب تک صبح نہ ہوجاتی ، جب صبح ہوجاتی اور اذان کی آواز سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان کی آواز سنائی نہ دیتی تو صبح ہونے کے بعد حملہ کرتے ۔چنانچہ خیبر میں بھی ہم رات میں پہنچے تھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا غَزَا بِنَا
Narrated By Anas(R.A.): whenever Allah's Messenger(s.a.w.) attacked ....
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺہمیں ساتھ لے کر ایک غزوہ کےلیے تشریف لے گئے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ فَجَاءَهَا لَيْلاً، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَيْلٍ لاَ يُغِيرُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يُصْبِحَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، خَرَجَتْ يَهُودُ بِمَسَاحِيهِمْ وَمَكَاتِلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ، مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ "
Narrated By Anas : The Prophet set out for Khaibar and reached it at night. He used not to attack if he reached the people at night, till the day broke. So, when the day dawned, the Jews came out with their bags and spades. When they saw the Prophet; they said, "Muhammad and his army!" The Prophet said, Allahu-Akbar! (Allah is Greater) and Khaibar is ruined, for whenever we approach a nation (i.e. enemy to fight) then it will be a miserable morning for those who have been warned."
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺرات میں خیبر تشریف لے گئے اور آپﷺکی عادت تھی کہ جب کسی قوم تک رات کے وقت پہنچتے تو صبح سے پہلے ان پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنے پھاؤڑے او رٹوکرے لے کر باہر نکلے جب انہوں نے اسلامی لشکر کو دیکھا تو چیخ پڑے محمد واللہ محمد لشکر سمیت آگئے ۔ اس پر نبی ﷺنے فرمایا: اللہ کی ذات سب سے بڑی ہے ۔ اب خیبر تو برباد ہوگیا کہ جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر آتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہوجاتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ. فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ، إِلاَّ بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ ". رَوَاهُ عُمَرُ وَابْنُ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
Narrated By Abu Huraira : Allah 's Apostle said, " I have been ordered to fight with the people till they say, 'None has the right to be worshipped but Allah,' and whoever says, 'None has the right to be worshipped but Allah,' his life and property will be saved by me except for Islamic law, and his accounts will be with Allah, (either to punish him or to forgive him.)"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسو ل اللہﷺنے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس کا اقرار کرلیں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں ، پس جس نے اقرار کرلیا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہیں تو اس کی جان اور مال ہم سے محفوظ ہے سوائے اس حق کے جس کی بناء پر قانونا اس کی جان و مال زد میں آئے اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ أَخْبَرَهُ أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم مَقْتُولَةً، فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَتْلَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ
Narrated By 'Abdullah : During some of the Ghazawat of the Prophet a woman was found killed. Allah's Apostle disapproved the killing of women and children.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا کہا ہم کو لیث نے خبر دی،انہوں نے نافع سے،انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ سے،انہوں نے کہا نبیﷺ کی ایک لڑائی (غزؤہ فتح) میں ایک عورت کو دیکھا گیا جو قتل کی گئی تھی۔آپؐ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔
Chapter No: 148
باب قَتْلِ النِّسَاءِ فِي الْحَرْبِ
Killing the women in war.
باب: لڑائیٰ میں عورتوں کا مارنا کیسا ہے -
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ ـ رضى الله عنه ـ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُرِيدُ غَزْوَةً إِلاَّ وَرَّى بِغَيْرِهَا
Narrated By Ka'b bin Malik : Whenever Allah's Apostle intended to lead a Ghazwa, he would use an equivocation from which one would understand that he was going to a different destination.
حضرت عبد اللہ بن کعب رضی اللہ نے بیان کیا اور وہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں میں سے (اپنے والد)کعب کو راستے کی رہنمائی کرتے تھے (جب وہ نابینا ہوگئے تھے) تو انہوں نے کہا: میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا جب وہ (غزوۂ تبوک ) میں رسو ل اللہﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ رسو ل اللہﷺجب کسی غزوۂ کا ارادہ کرتے تو (مصلحت کےلیے ) دوسرا مقام بیان کرتے ( تاکہ دشمن کو خبر نہ ہو)۔
حَدَّثَناَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَلَّمَا يُرِيدُ غَزْوَةً يَغْزُوهَا إِلاَّ وَرَّى بِغَيْرِهَا، حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ، فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي حَرٍّ شَدِيدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ غَزْوَ عَدُوٍّ كَثِيرٍ، فَجَلَّى لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ، لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ عَدُوِّهِمْ، وَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ
Narrated By Ka'b bin Malik : Whenever Allah's Apostle intended to carry out a Ghazwa, he would use an equivocation to conceal his real destination till it was the Ghazwa of Tabuk which Allah's Apostle carried out in very hot weather. As he was going to face a very long journey through a wasteland and was to meet and attack a large number of enemies. So, he made the situation clear to the Muslims so that they might prepare themselves accordingly and get ready to conquer their enemy. The Prophet informed them of the destination he was heading for
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایسا کم اتفاق ہوتا کہ آپﷺکسی جہاد کا قصد کریں اور وہی مقام بیان فرماکر اس کو نہ چھپائیں۔ جب آپﷺغزوہ تبوک کو جانے لگے تو چونکہ یہ غزوہ بڑی سخت گرمی میں ہونا تھا ، لمبا سفر تھا اور جنگلوں کو طے کرنا تھا اور مقابلہ بھی بہت بڑی فوج سے تھا ، اس لیے آپﷺنے مسلمانوں سے صاف صاف فرمادیا تھا تاکہ دشمن کے مقابلہ کےلیے پوری تیاری کرلیں چنانچہ (غزوہ کےلیے) جہاں آپﷺکو جانا تھا (یعنی تبوک) اس کا آپﷺنے صاف اعلان کردیا تھا۔
وَعَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ كَانَ يَقُولُ لَقَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَخْرُجُ إِذَا خَرَجَ فِي سَفَرٍ إِلاَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ
(Ka'b bin Malik used to say, "Scarcely did Allah's Apostle set out for a journey on a day other than Thursday.")
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ کم ایسا ہوتا کہ رسول اللہﷺکسی سفر میں جمعرات کے سوا اور کسی دن نکلیں۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ يَوْمَ الْخَمِيسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَكَانَ يُحِبُّ أَنْ يَخْرُجَ يَوْمَ الْخَمِيسِ
Narrated By Ka'b bin Malik : The Prophet set out on Thursday for the Ghazwa of Tabuk and he used to prefer to set out (i.e. travel) on Thursdays.
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ غزوہ تبوک کےلیے جمعرات کے دن نکلے تھے ۔ آپﷺجمعرات کے دن سفر کرنا پسند فرماتے تھے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ قُلْتُ لأَبِي أُسَامَةَ حَدَّثَكُمْ عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ
Narrated By Ibn 'Umar : During some of the Ghazawat of Allah's Apostle a woman was found killed, so Allah's Apostle forbade the killing of women and children.
ہم سے اسحق بن ابراہیم نے بیان کیا کہا میں نے ابواسامہ سے پوچھا کیا تم سے عبید اللہ نے،انہوں نے نافع سے،انہوں نے ابن عمرؓ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک جہاد میں ایک عورت کو دیکھا گیا وہ قتل کی گئی تھی تو آپؐ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا؟۔(ابو اسامہ نے کہا ہاں)
Chapter No: 149
باب لاَ يُعَذَّبُ بِعَذَابِ اللَّهِ
One should not punish with Allah's punishment.
باب: اللہ کے عذاب (انگار) سے کسی کو عذاب نہ کرنا -
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم صَلَّى بِالْمَدِينَةِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا، وَالْعَصْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ، وَسَمِعْتُهُمْ يَصْرُخُونَ بِهِمَا جَمِيعًا
Narrated By Anas : The Prophet offered a four-Rak'at Zuhr prayer at Medina and then offered a two Rak'at 'Asr prayer at Dhul-Hulaifa and I heard the companions of the Prophet reciting Talbiya aloud (for Hajj and 'Umra) altogether.
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبیﷺنے مدینہ میں ظہر چار رکعت پڑھی ، پھر عصر کی نماز ذو الحلیفہ میں دو رکعت پڑھی اور میں نے سنا کہ صحابہ حج اور عمرہ دونوں کا لبیک ایک ساتھ پکار رہے تھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْثٍ فَقَالَ " إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا فَأَحْرِقُوهُمَا بِالنَّارِ " ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ " إِنِّي أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحْرِقُوا فُلاَنًا وَفُلاَنًا، وَإِنَّ النَّارَ لاَ يُعَذِّبُ بِهَا إِلاَّ اللَّهُ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا فَاقْتُلُوهُمَا "
Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle sent us in a mission (i.e. am army-unit) and said, "If you find so-and-so and so-and-so, burn both of them with fire." When we intended to depart, Allah's Apostle said, "I have ordered you to burn so-and-so and so-and-so, and it is none but Allah Who punishes with fire, so, if you find them, kill them."
ہم سے قتیبہ بن سعد نے بیان کیاکہا ہم سے لیث بن سعد نے انہوں نے بکیر بن عبداللہ سے،انہوں نے سلیمان بن یسار سے،انہوں نے ابوہریرہؓ سے ،انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک لشکر میں بھیجا (اس کے سردار حمزہ بن عمرو اسلمی تھے)آپؐ نے (پہلے)یوں فرمایا اگر تم فلاں فلاں شخص کو پانا تو آ گ میں جلا ڈالنا مگر آ گ سے اللہ کے سوا اور کسی کو عذاب نہیں کرنا چاہیئے تو اگر تم ان کو پاؤ تو قتل کر ڈالو۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ حَرَّقَ قَوْمًا، فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحَرِّقْهُمْ، لأَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ ". وَلَقَتَلْتُهُمْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم " مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ "
Narrated By Ikrima : Ali burnt some people and this news reached Ibn 'Abbas, who said, "Had I been in his place I would not have burnt them, as the Prophet said, 'Don't punish (anybody) with Allah's Punishment.' No doubt, I would have killed them, for the Prophet said, 'If somebody (a Muslim) discards his religion, kill him.'"
ہم سے علی بن عبد الل مدینی نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے،انہوں نے ایوب سختیانی سے،انہوں نے عکرمہ سے کہ علیؓ نے کچھ لوگوں کو آگ سے جلوایا یہ خبر عبداللہ بن عباسؓ کو پہنچی انہوں نےکہا اگر میں علیؓ کی جگہ (خلیفہ) ہوتا تو کبھی ان کو نہ جلواتا کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ دو البتہ قتل کروا ڈالتا جیسے نبیﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے (اسلام سے پھر جائے)اس کو مار ڈالو۔
Chapter No: 150
باب
"... Thereafter (is the time) either for generosity or ransom ..." (V.47:4)
باب: اللہ تعالٰی کاسورۃ محمد میںیہ فرمانا قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر ۔
{فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً} فِيهِ حَدِيثُ ثُمَامَةَ، وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى} الآيَةَ
And the Statement of Allah, "It is not for a Prophet that he should have prisoners of war until he had made a great slaughter in the land. You desire the good of this world." (V.8:67)
اس باب میں ثمامہ کی حدیث ہے اور اللہ تعالٰی کا سورت انفال میں یہ فرمانا پیغمبر کو یہ سزا وار نہیں کہ قیدی اپنے پاس رکھے جب تک کافروں کا صیح ستیا ناس نہ کرے -
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ تَقُولُ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِخَمْسِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلاَ نُرَى إِلاَّ الْحَجَّ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْىٌ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ. قَالَتْ عَائِشَةُ فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ فَقُلْتُ مَا هَذَا فَقَالَ نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَزْوَاجِهِ. قَالَ يَحْيَى فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ فَقَالَ أَتَتْكَ وَاللَّهِ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ
Narrated By 'Aisha : We set out in the company of Allah's Apostle five days before the end of Dhul Qa'da intending to perform Hajj only. When we approached Mecca Allah's Apostle ordered those who did not have the Hadi (i.e. an animal for sacrifice) with them, to perform the Tawaf around the Ka'ba, and between Safa and Marwa and then finish their Ihram. Beef was brought to us on the day of (i.e. the days of slaughtering) and I asked, "What is this?" Somebody said, Allah's Apostle has slaughtered (a cow) on behalf of his wives."
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ سے ( حجۃ الوداع کےلیے) رسول اللہ ﷺکے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے ، ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسو ل اللہﷺنے حکم دیا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہوجائے تو احرام کھول دے ۔ (پھر حج کےلیے بعد میں احرام باندھے ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا :دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا ، میں نے پوچھا کہ گوشت کیساہے ؟ تو بتایا گیا کہ رسول اللہﷺنے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ میں نے اس کے بعد اس حدیث کا ذکر قاسم بن محمد سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ قسم اللہ کی ! عمرہ بنت عبدالرحمن نے تم سے یہ حدیث ٹھیک ٹھیک بیان کی ہے۔