Sayings of the Messenger احادیثِ رسول اللہ

 
Donation Request

Sahih Al-Bukhari

Book: Jihad (56)    كتاب الجهاد والسير

‹ First1516171819Last ›

Chapter No: 161

باب الرَّجَزِ فِي الْحَرْبِ وَرَفْعِ الصَّوْتِ فِي حَفْرِ الْخَنْدَقِ

The recitation poetic verses in the war and raising the voices while digging the trench.

باب: لڑائی میں شعر پڑھنا

فِيهِ سَهْلٌ وَأَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَفِيهِ يَزِيدُ عَنْ سَلَمَةَ‏

In this Chapter, Sahl and Anas narrated from the Prophet (s.a.w) and Yazid from Salama.

اور کھا ئی کھودتے وقت آواز بلند کرنا اس باب میں سھل اور انسؓ نے نبیﷺ سے روایت کی ہے اور یزید بن ابی عبید نے مسلمہ بن اکوع سے-

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ يَنْقُلُ التُّرَابَ حَتَّى وَارَى التُّرَابُ شَعَرَ صَدْرِهِ، وَكَانَ رَجُلاً كَثِيرَ الشَّعَرِ وَهْوَ يَرْتَجِزُ بِرَجَزِ عَبْدِ اللَّهِ اللَّهُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا إِنَّ الأَعْدَاءَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ‏

Narrated By Al-Bara : I saw Allah's Apostle on the day (of the battle) of the Trench carrying earth till the hair of his chest were covered with dust and he was a hairy man. He was reciting the following verses of 'Abdullah (bin Rawaha): "O Allah, were it not for You, We would not have been guided, Nor would we have given in charity, nor prayed. So, bestow on us calmness, and when we meet the enemy. Then make our feet firm, for indeed, Yet if they want to put us in affliction, (i.e. want to fight against us) we would not (flee but withstand them)." The Prophet used to raise his voice while reciting these verses.

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہا ہم سے ابو الاحوص بن سلام بن سلیم حنفی نے کہا ہم سے ابو اسحاق نے انہوں نے برائ بن عازب سے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو جنگ ِخندق میں دیکھا آپؐ خود( بنفس ِنفیس) مٹی اٹھا رہے تھے یہان تک کہ آپؐ کے سارے سینے کے بال گرد سے چھپ گئے تھے آپؐ کے جسم مبارک پر بال بہت تھے اور عبداللہ بن رواحہ کے یہ شعر پڑھتے جاتے تھے ؂ تو ہدایت گر نہ کرتا تو کہا ں ملتی نجات کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زکوۃ اب اتار ہم پر تسلی اے شہ عالی صفات! پاؤں جموا دے ہمارے لڑائی میں دے ثبات بے سبب ہم پر یہ دشمن ظلم سے چڑھ آئے ہیں جب وہ بہکایئں ہمیں سنتے نہیں ان کی بات آپؐ بلند آواز سے یہ شعر پڑھتے

Chapter No: 162

باب مَنْ لاَ يَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ

Whosoever is unable to sit firm on a horse.

باب: جو شخص گھوڑے پر اچھی طرح نہ جمتا ہو اس کے لیے دعا کرنا -

حَدَّثَنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلاَ رَآنِي إِلاَّ تَبَسَّمَ فِي وَجْهِهِ

Narrated By Jarir : Allah's Apostle did not screen himself from me since my embracing Islam, and whenever he saw me he would receive me with a smile.

مجھ سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا کہا ہم سے عبد اللہ بن ادریس نے،انہوں نے اسمعیل بن ابی خالد سے،انہوں نے قیس بن ابی حازم سے،انہوں نے جریر بن عبداللہ بجلی سے انہوں نے کہا نبیﷺ نے جب سے میں مسلمان ہوا مجھ کو گھر میں آنے سے نہیں روکا اور جب آپؐ نے مجھ کو دیکھا تو مسکرادیئے۔


وَلَقَدْ شَكَوْتُ إِلَيْهِ إِنِّي لاَ أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ‏.‏ فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ ‏"‏ اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا ‏"‏‏

Once I told him that I could not sit firm on horses. He stroke me on the chest with his hand and said, "O Allah! Make him firm and make him a guiding and a rightly-guided man."

اور میں نے آپؐ سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر نہیں جمتا۔آپؐ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور دعا کی کہ یا اللہ اس کو (گھوڑے پر)جمادے اور سیدھی راہ بتلانے والا اور راہ پانے والا کر دے۔

Chapter No: 163

باب دَوَاءِ الْجُرْحِ بِإِحْرَاقِ الْحَصِيرِوَغَسْلِ الْمَرْأَةِ عَنْ أَبِيهَا الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَحَمْلِ الْمَاءِ فِي التُّرْسِ‏

The treatment of a wound with the ashes of a mat, and the washing of blood by a lady off her father's face, and conveying water in a shield.

باب: چٹائی جلا کر زخم کیدوا کرنا اور عورت کو اپنے باپ کے منہ کا خون دھونا اور ڈھال میں پانی بھر کر لانا -

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ ـ رضى الله عنه ـ بِأَىِّ شَىْءٍ دُووِيَ جُرْحُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ مَا بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِالْمَاءِ فِي تُرْسِهِ، وَكَانَتْ ـ يَعْنِي فَاطِمَةَ ـ تَغْسِلُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَأُخِذَ حَصِيرٌ فَأُحْرِقَ، ثُمَّ حُشِيَ بِهِ جُرْحُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم‏

Narrated By Abu Hazim : The people asked Sahl bin Sad As-Sa'idi "With what thing (medicine) was the wound of Allah's Apostle treated?" He replied, "There is none left (living) amongst the people who knows it better than. 'Ali used to bring water in his shield and Fatima (i.e. the Prophet's daughter) used to wash the blood off his face. Then a mat (of palm leaves) was burnt and its ash was inserted in the wound of Allah's Apostle."

ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا ہم سے ابوحازم (سلمہ بن دینار) نے کہا لوگوں نے سہل بن ساعدیؓ سے پوچھا نبیﷺ کو (جنگِ احد میں) زخم لگا تھا اس کی کیا دوا کی گئی تھی؟سہل نے کہا اب لوگوں میں اس کا جاننے والا مجھ سے زیادہ کوئی نہ رہا (کیونکہ دوسرے صحابہ سب گزر گئے تھے)علیؓ اپنی ڈھال میں پانی لارہے تھے اور فاطمہؓ آپؐ کےمنہ سے خون دھو رہی تھیں اور ایک چٹائی لے کر اس کو جلایا اور پھر آپؐ کے زخم میں بھر دیا۔

Chapter No: 164

باب مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالاِخْتِلاَفِ فِي الْحَرْبِ وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ

What quarrels and mutual differences are hated in the war, and the punishment of the one who disobeys his Imam.

باب: جنگ میں جھگڑا کرنا مکروہ ہے،

وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى ‏{‏وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ‏}‏‏.‏ قَالَ قَتَادَةُ الرِّيحُ الْحَرْبُ‏

And Allah said, "... And do not dispute lest you lose courage and your strength departs ..." (V.8:46)

اور جو کوئی افسر (سرادار) کی نافر مانی کرے اس کی سزا اور اللہ تعا لٰی نے (سورت انفال میں ) فرمایا آپس میں پھوٹ نہ کرو ورنہ بودے ہو جا و گے اور تمھاری ہوا بگڑ جائے گی ریح سے مراد لڑائی ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بَعَثَ مُعَاذًا وَأَبَا مُوسَى إِلَى الْيَمَنِ قَالَ ‏"‏ يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا ‏"‏‏

Narrated By Abu Burda : That his father said, "The Prophet sent Mu'adh and Abu Musa to Yemen telling them. 'Treat the people with ease and don't be hard on them; give them glad tidings and don't fill them with aversion; and love each other, and don't differ."

ہم سے یحیی بن جعفر نے بیان کیا کہا ہم سے وکیع نے انہوں نے شعبہ سے انہوں نے سعید بن ابی بردہ سے،انہوں نے اپنے باپ ابو بردہ سے،انہوں نے سعید کے دادا ابو موسی اشعریؓ سے کہ نبیﷺ نے معاذؓ اور ابو موسیؓ کو یمن کی طرف (حاکم بنا کر)بھیجا فرمایا لو گوں پر سختی نہ کر ،ان کو خوش رکھنا اور نفرت نہ دلانا۔اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا۔


حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ـ رضى الله عنهما ـ يُحَدِّثُ قَالَ جَعَلَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ ـ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلاً ـ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ فَقَالَ ‏"‏ إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ، فَلاَ تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلاَ تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ ‏"‏ فَهَزَمُوهُمْ‏.‏ قَالَ فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلاَخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ ـ أَىْ قَوْمِ ـ الْغَنِيمَةَ، ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا قَالَ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالُوا وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ‏.‏ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ، فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم غَيْرُ اثْنَىْ عَشَرَ رَجُلاً، فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلاً، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُجِيبُوهُ ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَّا هَؤُلاَءِ فَقَدْ قُتِلُوا‏.‏ فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ، وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوؤُكَ‏.‏ قَالَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، وَالْحَرْبُ سِجَالٌ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ أُعْلُ هُبَلْ، أُعْلُ هُبَلْ‏.‏ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ ‏"‏‏.‏ قَالَ إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلاَ عُزَّى لَكُمْ‏.‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَلاَ تُجِيبُوا لَهُ ‏"‏‏.‏ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَقُولُ قَالَ ‏"‏ قُولُوا اللَّهُ مَوْلاَنَا وَلاَ مَوْلَى لَكُمْ ‏"‏‏

Narrated By Al-Bara bin Azib : The Prophet appointed 'Abdullah bin Jubair as the commander of the infantry men (archers) who were fifty on the day (of the battle) of Uhud. He instructed them, "Stick to your place, and don't leave it even if you see birds snatching us, till I send for you; and if you see that we have defeated the infidels and made them flee, even then you should not leave your place till I send for you." Then the infidels were defeated. By Allah, I saw the women fleeing lifting up their clothes revealing their leg-bangles and their legs. So, the companions of 'Abdullah bin Jubair said, "The booty! O people, the booty ! Your companions have become victorious, what are you waiting for now?" 'Abdullah bin Jubair said, "Have you forgotten what Allah's Apostle said to you?" They replied, "By Allah! We will go to the people (i.e. the enemy) and collect our share from the war booty." But when they went to them, they were forced to turn back defeated. At that time Allah's Apostle in their rear was calling them back. Only twelve men remained with the Prophet and the infidels martyred seventy men from us. On the day (of the battle) of Badr, the Prophet and his companions had caused the 'Pagans to lose 140 men, seventy of whom were captured and seventy were killed. Then Abu Sufyan asked thrice, "Is Muhammad present amongst these people?" The Prophet ordered his companions not to answer him. Then he asked thrice, "Is the son of Abu Quhafa present amongst these people?" He asked again thrice, "Is the son of Al-Khattab present amongst these people?" He then returned to his companions and said, "As for these (men), they have been killed." 'Umar could not control himself and said (to Abu Sufyan), "You told a lie, by Allah! O enemy of Allah! All those you have mentioned are alive, and the thing which will make you unhappy is still there." Abu Sufyan said, "Our victory today is a counterbalance to yours in the battle of Badr, and in war (the victory) is always undecided and is shared in turns by the belligerents, and you will find some of your (killed) men mutilated, but I did not urge my men to do so, yet I do not feel sorry for their deed" After that he started reciting cheerfully, "O Hubal, be high! (1) On that the Prophet said (to his companions), "Why don't you answer him back?" They said, "O Allah's Apostle What shall we say?" He said, "Say, Allah is Higher and more Sublime." (Then) Abu Sufyan said, "We have the (idol) Al Uzza, and you have no Uzza." The Prophet said (to his companions), "Why don't you answer him back?" They asked, "O Allah's Apostle! What shall we say?" He said, "Says Allah is our Helper and you have no helper."

ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ہم سے زہیر نے کہا ہم سے ابو اسحاق نے کہا میں نے براء بن عازبؓ سے سنا،وہ کہتے تھے نبیﷺ نے اُحد کے دن پچاس پیدل آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر کو مقرر کیا اور تاکید فرمادی کہ تم اپنی جگہ سے نہ سرکنا گو تم دیکھو چڑیاں ہم کو اچک لے جارہی ہیں جب تک میں تم سے کہلا نہ بھیجوں ۔خیر (جنگ شروع ہوئی )مسلمانوں نے کافروں (مار کر)بھگا دیا۔براء کہتے ہیں میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا وہ اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے،پازیبیں پنڈلیاں کھولے بھاگی جارہی تھیں (کافروں کی شکست کا) یہ حال دیکھ کر عبداللہؓ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا یار و اب لوٹ کا مال اڑاؤ ،تمہارے لوگ تو غالب آگئے (اب ڈر کیا ہے)کس بات کے منتظر ہو؟عبداللہ بن جبیر نے کہا تم کیا رسول اللہ ﷺ کا فرمانا بھول گئے(کہ یہاں سے ہرگز مت سرکنا)انہوں نے کہا اجی ہم تو واللہ لوگوں کے پاس جا کر لوٹ مال اڑ ایئں گے جب لوگوں کے پاس آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے اور شکست کھا کھا کر بھاگتے ہوئے آئے (سورہ آل عمران میں جو ہے)پیغمبر تم کو پیچھے کھڑا بلا رہا تھا،اس سے یہی مراد ہے غرض نبیﷺ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی نہ رہا اور کافروں نے ہمارے ستر آدمی شہید کئے اور نبیﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ نے بدر کے دن ایک سو چالیس کافروں کا نقصان کیا تھا،ستر کو قید کیا تھا اور ستر کو قتل (جب یہ کیفیت گزری)تو ابو سفیان نے تین بار یہ آواز دی کیا محمدﷺ لوگوں میں (زندہ) ہیں؟نبیﷺ نے منع فرما کر دیا کہ کوئی جواب نہ دے۔پھر اس نے تین بار پکارا کیا لوگوں میں (ابوبکرؓ)ابو قحافہ کے بیٹے (زندہ)ہیں؟پھر تین بار یوں پکارا کیا (عمرؓ)خطاب کے بیٹے لوگوں میں (زندہ)ہیں؟ پھر اپنے لوگوں کی طرف لوٹا اور کہنے لگا یہ تو سب قتل ہوچکے ۔اس وقت عمرؓ کو تاب نہ رہی اور (بے اختیار) کہہ اٹھے ،ارے خدا کے دشمن!یہ سب جن کا تو نے نام لیا زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والاہے،اس وقت ابوسفیان بولااچھا بدر کے دن کا بدلہ آج ہوا اور لڑائی تو ڈولوں کی طرح ہے(کبھی ادھر کبھی اُدھر) دیکھو تمہارے مردوں کے ناک کان کاٹے گئے ہیں۔میں نے اس کا حکم نہیں دیا لیکن میں نے اس کو برا بھی نہیں سمجھا پھر لگا (فخریہ) یہ مصرع پڑھنے ع اونچا ہو جا اے ہبل ! تو اونچا ہوجا اے ہبل* تو نبیﷺ نے صحابہ فرمایا تم اس کو جواب نہیں دیتے؟انہوں نے کہا یا رسولؐ اللہ ہم کیا جواب دیں؟آپؐ نے فرمایا یوں کہو:سب سے اونچا ہے وہ خدا اور سب سے رہے گا وہ اجل پھر ابو سفیان نے یہ مصرع پڑھاع اپنا عزٰی ہے،تمہارے پاس عزٰی کہاں*نبیﷺ نے فرمایا اس کو جواب نہیں دیتے؟صحابہؓ نے عرض کیا ،کیا جواب دیں؟آپؐ نے فرمایا تم یوں کہو:اپنا مولیٰ ہے خدا تمہارے پاس ہے مولےٰ کہاں۔

Chapter No: 165

باب إِذَا فَزِعُوا بِاللَّيْلِ

If the people get frightened at night.

باب: اگر رات کو دشمن کا ڈر پیدا ہو (تو حاکم خبر لیوے )

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، قَالَ وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَى فَرَسٍ لأَبِي طَلْحَةَ عُرْىٍ، وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ فَقَالَ ‏"‏ لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا ‏"‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وَجَدْتُهُ بَحْرًا ‏"‏‏.‏ يَعْنِي الْفَرَسَ‏.‏

Narrated By Anas : Allah's Apostle was the (most handsome), most generous and the bravest of all the people. Once the people of Medina got frightened having heard an uproar at night. So, the Prophet met the people while he was riding an unsaddled horse belonging to Abu Talha and carrying his sword (slung over his shoulder). He said (to them), "Don't get scared, don't get scared." Then he added, "I found it (i.e the horse) very fast."

ہم سےقتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے حماد بن زیدؓ نے،انہوں نے ثابت بنانی سے،انہوں نے انسؓ سے،انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ حسن وجمال میں سب لوگوں میں زیادہ تھے،اسی طرح سخاوت میں،اسی طرح شجاعت (بہادری)میں۔ایک بار ایسا ہوا کہ مدینہ والے رات کو ایک آواز سن کر ڈر گئے (لوگ خبر لینے کو نکلے)دیکھا تو سامنے سے نبیﷺ ابو طلحہ کے گھوڑے پر ننگی پیٹھ پر سوار تلوار لٹکائے ہوئے چلے آرہے ہیں ۔آپؐ نے فرمایا کچھ ڈر نہیں کچھ ڈر نہیں ۔پھر فرمایا اس گھوڑے کو تو میں نے دیکھا دریا ہے دریا۔

Chapter No: 166

باب مَنْ رَأَى الْعَدُوَّ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا صَبَاحَاهْ،حَتَّى يُسْمِعَ النَّاسَ‏

Shouting, "Ya Sabahah!" as loudly as possible on seeing the enemy to let the people hear it.

باب: دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے یا صبا حاہ پکارنا تا کہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں -

حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ خَرَجْتُ مِنَ الْمَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الْغَابَةِ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِثَنِيَّةِ الْغَابَةِ لَقِيَنِي غُلاَمٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قُلْتُ وَيْحَكَ، مَا بِكَ قَالَ أُخِذَتْ لِقَاحُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ قُلْتُ مَنْ أَخَذَهَا قَالَ غَطَفَانُ وَفَزَارَةُ‏.‏ فَصَرَخْتُ ثَلاَثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لاَبَتَيْهَا يَا صَبَاحَاهْ، يَا صَبَاحَاهْ‏.‏ ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ وَقَدْ أَخَذُوهَا، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ، وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا، فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ، وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا سِقْيَهُمْ، فَابْعَثْ فِي إِثْرِهِمْ، فَقَالَ ‏"‏ يَا ابْنَ الأَكْوَعِ، مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ‏.‏ إِنَّ الْقَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ ‏"‏‏

Narrated By Salama : I went out of Medina towards Al-Ghaba. When I reached the mountain path of Al-Ghaba, a slave of 'Abdur-Rahman bin 'Auf met me. I said to him, "Woe to you! What brought you here?" He replied, "The she-camels of the Prophet have been taken away." I said, "Who took them?" He said, "Ghatafan and Fazara." So, I sent three cries, "O Sabaha-h ! O Sabahah !" so loudly that made the people in between its (i.e. Medina's) two mountains hear me. Then I rushed till I met them after they had taken the camels away. I started throwing arrows at them saying, "I am the son of Al-Akwa"; and today perish the mean people!" So, I saved the she-camels from them before they (i.e. the robbers) could drink water. When I returned driving the camels, the Prophet met me, I said, "O Allah's Apostle Those people are thirsty and I have prevented them from drinking water, so send some people to chase them." The Prophet said, "O son of Al-Akwa', you have gained power (over your enemy), so forgive (them). (Besides) those people are now being entertained by their folk."

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا کہا ہم کو یزید بن ابی عبید نے خبر دی،انہوں نے سلمہ بن اکوع سے انہوں نے کہا میں مدینہ سے غابہ کی طرف جارہا تھا۔جب میں غابہ کی پہاڑی پر پہنچا تو مجھے عبدالرحمن بن عوف کا غلام (رباح)ملا۔میں نے کہا ارے تو یہاں کیسے؟اس نے کہا نبیﷺ کی دودھیل اونٹیناں پکڑے لے گئے ،میں نے پوچھا کون لے گیا؟اس نے کہا غطفان اور فزارہ کے لوگ۔یہ سن کر میں نے تین چیخیں ماریں یا صباحاہ،صباحاہ اور مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جتنے لوگ تھے ان کو آواز سنا دی۔پھر میں دوڑتا چلا ،ڈاکوؤں کو جاملا۔وہ اونٹنیاں پکڑے ہوئے تھے۔میں انکو تیر مارتا جاتا اور یہ کہتا جاتا:میں ہوں سلمہ بن اکوع جان لو*آج پاجی سب مریں گے جان لو۔خیر میں نے وہ اونٹنیاں ان سے چھین لیں اور ہنکاتا ہوا لارہا تھا کہ نبیﷺ (سواروں کے ساتھ)مجھ کو ملے۔میں نے عرض کیا ڈاکو پیاسے ہیں۔میں نے (مارے تیروں کے)پانی بھی نہیں پینے دیا جلدی ان کے پیچھے فوج روانہ کیجئے آپؐ نے فرمایا اکوعؓ !تو ان پر غالب آچکا۔اب جانے دے (درگزر کر)وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے وہاں ان کی مہمانی ہورہی ہے۔

Chapter No: 167

باب مَنْ قَالَ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ فُلاَنٍ

Saying, "Take it! I am the son of so and so."

باب: وار کرتے وقت یوں کہنا اچھا لے میں فلاں کا بیٹا ہوں

وَقَالَ سَلَمَةُ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ

And Salama said, "Take it! I am the son of Al-Akwa."

اور سلمہ بن اکوع نے ڈاکو کو تیر لگایا اور کھا لے میں اکوع کا بیٹا ہوں -

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ ـ رضى الله عنه ـ فَقَالَ يَا أَبَا عُمَارَةَ، أَوَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ الْبَرَاءُ وَأَنَا أَسْمَعُ أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمْ يُوَلِّ يَوْمَئِذٍ، كَانَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذًا بِعِنَانِ بَغْلَتِهِ، فَلَمَّا غَشِيَهُ الْمُشْرِكُونَ نَزَلَ، فَجَعَلَ يَقُولُ أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ فَمَا رُئِيَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ أَشَدُّ مِنْهُ‏

Narrated By Al-Bara : A man asked him, "O Abu 'Umara! Did you flee on the day (of the battle) of Hunain?" Al-Bara replied while I was listening, "As for Allah's Apostle he did not flee on that day. Abu Sufyan bin Al-Harith was holding the reins of his mule and when the pagans attacked him, he dismounted and started saying, 'I am the Prophet, and there is no lie about it; I am the son of 'Abdul Muttalib.' On that day nobody was seen braver than the Prophet.'"

ہم سے عبید اللہ بن موسی نے بیان کیا انہوں نے ابو اسحاق سے،انہوں نے کہا ایک شخص نے (جو قیس قبیلے کاتھا نام نامعلوم)برائؓ بن عازب سے پوچھا کہنے لگا ابا عمارہ تم حنین کے دن بھاگ گئے تھے ابو اسحاق نے کہا میں سن رہا تھا براء نے یہ جواب دیا لیکن رسول اللہ ﷺتو نہیں بھاگے ۔ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپؐ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے جب مشرکوں نے آپؐ کو گھیر لیا تو آپؐ فرمانے لگے۔میں ہوں نبی بلاشک وخطر اور عبدالمطلب کا ہوں پسر*اس دن آپؐ سے دشمن کے مقابلہ میں زیادہ سخت کوئی نہ تھا*

Chapter No: 168

باب إِذَا نَزَلَ الْعَدُوُّ عَلَى حُكْمِ رَجُلٍ

If the enemy is ready to accept the judgment of a Muslim.

باب: کافر لوگ ایک مسلمان کے فیصلے پر راضی ہو کر اپنے قلعے سے اتر آئیں -

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ـ هُوَ ابْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ـ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ ـ هُوَ ابْنُ مُعَاذٍ ـ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَكَانَ قَرِيبًا مِنْهُ، فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ، فَلَمَّا دَنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ ‏"‏‏.‏ فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهُ ‏"‏ إِنَّ هَؤُلاَءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ ‏"‏‏.‏ قَالَ فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ‏.‏ قَالَ ‏"‏ لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ الْمَلِكِ ‏"‏‏

Narrated By Abu Sa'id Al-Khudri : When the tribe of Bani Quraiza was ready to accept Sad's judgment, Allah's Apostle sent for Sad who was near to him. Sad came, riding a donkey and when he came near, Allah's Apostle said (to the Ansar), "Stand up for your leader." Then Sad came and sat beside Allah's Apostle who said to him. "These people are ready to accept your judgment." Sad said, "I give the judgment that their warriors should be killed and their children and women should be taken as prisoners." The Prophet then remarked, "O Sad! You have judged amongst them with (or similar to) the judgment of the King Allah."

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہؓ نے ،انہوں نے سعد بن ابراہیم سے انہوں نے ابو امامہ سہل بن حنیف سے،انہوں نے ابوسعید خدریؓ سے انہوں نے کہا جب بنی قریظہ یہودی (جو مدینہ میں ایک قلعہ میں تھے)سعدؓ بن معاذ کے حکم پر (اور ان کے فیصلے پر)رضا مند ہو کر(اپنے قلعہ سے)اُتر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو (سعد کو)بلا بھیجا۔وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے۔جب رسول اللہﷺ کے قریب پہنچے تو آپؐ نے (انصاری لوگوں سے )فرمایا اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو (ان کو سواری سے اتارو)خیر وہ آئے اور آپؐ کے پاس آن کر بیٹھے۔آپؐ نے فرمایا یہ بنی قریظہ کے لوگ تمہارے فیصلے پر راضی ہو کر قلعہ سے اترے ہیں سعد نے کہا میں فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے (جوان)لوگ ہیں وہ تو قتل کئے جایئں اور عورتیں بچے قیدی بنیں۔آپؐ نے فرمایا تو نے وہ فیصلہ کیا جو اللہ کا حکم ہے۔

Chapter No: 169

باب قَتْلِ الأَسِيرِ وَقَتْلِ الصَّبْرِ

The killing of a captive and the killing of somebody who is in confinement.

باب: قیدی کا قتل اور کسی کو کھڑا کر کے نشانہ بنانا -

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ ‏"‏ اقْتُلُوهُ ‏"

Narrated Anas bin Malik(R.A.) : Allah's Messenger (s.a.w.) entered(Makkah) in the year of the Conquest (of Makkah) wearing a helmet over his head.After he took it off, a man came and said,"Ibn Khatal is clinging to the curtains of the kabah."The Prophet(s.a.w.) said,"Kill him."

ہم سے اسمعیل بن ابی اویس نے بیان کیا کہا مجھ سے امام مالک نے ،انہوں نے ابن شہاب سے،انہوں نے انسؓ بن مالک سے کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ ﷺ سر پر خود لگائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔جب خود اتارا تو ایک شخص (ابو برزہ اسلمی ) آیا ۔اس نے کہا (عبد اللہ یا عبدالعزٰی)بن خطل کعبے کے پردے پکڑے لٹک رہا ہے۔آپؐ نے فرمایا اسکو وہیں مار ڈالو۔

Chapter No: 170

باب هَلْ يَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ يَسْتَأْسِرْ ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ

Can a man present himself to captivity, and whosoever refuses to surrender captivity? And the performance of a two Raka Salat before being put to death.

باب: اپنے تئیں قید کرا دینا اور جو شخص قید نہ کراےاسکا حکم اور قتل کے وقت دوگانہ پڑھنا -

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ ـ وَهْوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِيَّةً عَيْنًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَأَةِ وَهْوَ بَيْنَ عُسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَىٍّ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لِحْيَانَ، فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِيبًا مِنْ مِائَتَىْ رَجُلٍ، كُلُّهُمْ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنَ الْمَدِينَةِ فَقَالُوا هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ‏.‏ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ، فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ، وَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ فَقَالُوا لَهُمُ انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَيْدِيكُمْ، وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ، وَلاَ نَقْتُلُ مِنْكُمْ أَحَدًا‏.‏ قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِيرُ السَّرِيَّةِ أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ لاَ أَنْزِلُ الْيَوْمَ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ‏.‏ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ، فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةٍ، فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ بِالْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ، مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الأَنْصَارِيُّ وَابْنُ دَثِنَةَ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ، وَاللَّهِ لاَ أَصْحَبُكُمْ، إِنَّ فِي هَؤُلاَءِ لأُسْوَةً‏.‏ يُرِيدُ الْقَتْلَى، فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَأَبَى فَقَتَلُوهُ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وَابْنِ دَثِنَةَ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ، فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا، فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ أَنَّ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ، فَأَخَذَ ابْنًا لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ قَالَتْ فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ، فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي وَجْهِي فَقَالَ تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لأَفْعَلَ ذَلِكَ‏.‏ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ، وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرٍ وَكَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنَ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ، قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ ذَرُونِي أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ‏.‏ فَتَرَكُوهُ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ لَوْلاَ أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا‏.‏ وَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَىِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الْحَارِثِ، فَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ لِكُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا، فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ يَوْمَ أُصِيبَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ وَمَا أُصِيبُوا، وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ كُفَّارِ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ لِيُؤْتَوْا بِشَىْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ، وَكَانَ قَدْ قَتَلَ رَجُلاً مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَبُعِثَ عَلَى عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ، فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى أَنْ يَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئًا‏.

Narrated By Abu Huraira : Allah's Apostle sent a Sariya of ten men as spies under the leadership of 'Asim bin Thabit al-Ansari, the grandfather of 'Asim bin Umar Al-Khattab. They proceeded till they reached Hadaa, a place between 'Usfan, and Mecca, and their news reached a branch of the tribe of Hudhail called Bani Lihyan. About two-hundred men, who were all archers, hurried to follow their tracks till they found the place where they had eaten dates they had brought with them from Medina. They said, "These are the dates of Yathrib (i.e. Medina), "and continued following their tracks When 'Asim and his companions saw their pursuers, they went up a high place and the infidels circled them. The infidels said to them, "Come down and surrender, and we promise and guarantee you that we will not kill any one of you" 'Asim bin Thabit; the leader of the Sariya said, "By Allah! I will not come down to be under the protection of infidels. O Allah! Convey our news to Your Prophet. Then the infidels threw arrows at them till they martyred 'Asim along with six other men, and three men came down accepting their promise and convention, and they were Khubaib-al-Ansari and Ibn Dathina and another man So, when the infidels captured them, they undid the strings of their bows and tied them. Then the third (of the captives) said, "This is the first betrayal. By Allah! I will not go with you. No doubt these, namely the martyred, have set a good example to us." So, they dragged him and tried to compel him to accompany them, but as he refused, they killed him. They took Khubaid and Ibn Dathina with them and sold them (as slaves) in Mecca (and all that took place) after the battle of Badr. Khubaib was bought by the sons of Al-Harith bin 'Amir bin Naufal bin 'Abd Manaf. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amir on the day (of the battle of) Badr. So, Khubaib remained a prisoner with those people. Narrated Az-Zuhri: 'Ubaidullah bin 'Iyyad said that the daughter of Al-Harith had told him, "When those people gathered (to kill Khubaib) he borrowed a razor from me to shave his pubes and I gave it to him. Then he took a son of mine while I was unaware when he came upon him. I saw him placing my son on his thigh and the razor was in his hand. I got scared so much that Khubaib noticed the agitation on my face and said, 'Are you afraid that I will kill him? No, I will never do so.' By Allah, I never saw a prisoner better than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating of a bunch of grapes in his hand while he was chained in irons, and there was no fruit at that time in Mecca." The daughter of Al-Harith used to say, "It was a boon Allah bestowed upon Khubaib." When they took him out of the Sanctuary (of Mecca) to kill him outside its boundaries, Khubaib requested them to let him offer two Rakat (prayer). They allowed him and he offered Two Rakat and then said, "Hadn't I been afraid that you would think that I was afraid (of being killed), I would have prolonged the prayer. O Allah, kill them all with no exception." (He then recited the poetic verse): "I being martyred as a Muslim, Do not mind how I am killed in Allah's Cause, For my killing is for Allah's Sake, And if Allah wishes, He will bless the amputated parts of a torn body" Then the son of Al Harith killed him. So, it was Khubaib who set the tradition for any Muslim sentenced to death in captivity, to offer a two-Rak'at prayer (before being killed). Allah fulfilled the invocation of Asim bin Thabit on that very day on which he was martyred. The Prophet informed his companions of their news and what had happened to them. Later on when some infidels from Quraish were informed that Asim had been killed, they sent some people to fetch a part of his body (i.e. his head) by which he would be recognized. (That was because) 'Asim had killed one of their chiefs on the day (of the battle) of Badr. So, a swarm of wasps, resembling a shady cloud, were sent to hover over Asim and protect him from their messenger and thus they could not cut off anything from his flesh.

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہا ہم کو شعیب نے خبر دی،انہوں نے زہری سے کہا مجھ کو عمرو بن ابی سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہؓ کے یار،انہوں نے کہا ابوہریرہؓ کہتے تھے رسول اللہﷺ نے دس آدمیوں کو بطور جاسوسی ٹکڑی کے (یا چھ آدمیوں کو )خبر لینے کے لئے روانہ کیا۔ان کا سردار عاصم بن ثابت انصاری کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے یہ لوگ گئے ،جب ہداۃ کے مقام میں پہنچے جو عسفان اور مکہ کے بیچ میں ہے،تو کسی نے بنی لحیان کو خبر کر دی،جو ہذیل قبیلے کی ایک شاخ ہے۔انہوں نے دوسو تیر انداز ان کے تعاقب میں بھیجے۔یہ لوگ ان کا نشان ڈھونڈتے چلے۔ایک جگہ انہوں نے کھجوریں کھائی تھیں جو مدینے سے ساتھ لی تھیں۔انہوں نے وہاں (کھجوریں یا گٹھلیاں دیکھ کر)پہچان لیا کہ یہ مدینے کی کھجوریں ہیں اور عاصم اور ان کے ہمراہیوں کے پیچھے ہوئے۔جب عاصم نے ان کو دیکھا تو ایک ٹیکری پرپناہ لی۔کافروں نے (جو دو سو تھے)ان کو گھیر لیا اور کہنے لگے تم (ٹیکری پر سے)اتر آؤ اور اپنے تیئں ہمارے سپرد کر دو(قید ہو جاؤ)ہم اقرار کرتے ہیں،پکا اقرار،تم کو ماریں گے نہیں ۔یہ سن کر عاصم بن ثابت نے جو ٹکڑی کے سردار تھے یہ کہا میں تو خدا کی قسم کافر کی امان پر نہیں اترنے کا۔یا اللہ ہماری خبر ہمارے نبیؐ صاحب کو پہنچا دے۔آخر ان کافروں نے تیروں کی بارش شروع کر دی اور عاصم سمیت سات کو (یا تین کو) شہید کیا۔تین جو بچ رہے وہ کافروں کے اقرار پر بھروسا کرکے اُتر آئے۔انہی میں خبیب اور زید بن دثنہ اور ایک شخص اور تھے،(عبد اللہ بن طارق)جب کافروں کےاختیار میں آگئے تو انہوں نے دغا کی اور کمانوں کے چلے(تانت) کھول کر ان کی مشکیں کسیں۔تیسرا شخص (عبداللہ بن طارق)کہنے لگا(بسم اللہ ہی غلط)یہ پہلی دغا ہے۔میں تو تمہارے ساتھ نہیں جانے کا۔میں ان کی پیروی چاہتا ہوں جو شہید ہوئےکافروں نے ان کو کھنیچا ساتھ لے جانے کی کوشش کی مگر اس نے کسی طرح نہ مانا۔آخر انہوں نے اس کو مار ڈالا اور خبیب اور زید بن دثنہ کو پکڑلے گئے۔ان دونوں کو (غلام بنا کر) مکہ میں(مشرکوں کے ہاتھ )بیچ ڈالا۔خبیب کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا بدر کے دن خبیب نے ان کے باپ حارث کو قتل کیا تھا۔خیر خبیب چند دنوں تک ان کے پاس قید رہے۔ ابن شہاب کہتے مجھ سے عبید اللہ بن عیاض نے بیان کیا ،ان سے حارث کی بیٹی (زینب) کہتی تھی جب حارث کی اولاد خبیب کو قتل کرنے لگی تو خبیب نے زینب سے ایک اُسترا مانگا پاکی کرنے کو۔زینب نے دے دیا۔اس وقت (اتفاق سے)میرا ایک بچہ ،مجھے خبر نہ تھی،خبیب کے پاس آ گیا ۔میں نے دیکھا تو وہ بچہ (ابو الحسین)کم سن ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے اور اُسترہ ان کے ہاتھ میں ہے۔یہ حال دیکھ کر میں گھبرا گئی۔خبیب نےچہرہ دیکھ کر پہچان لیا کہ میں گھبرا رہی ہوں اور پوچھا کیا تو یہ سمجھتی ہے میں اس بچہ کو مار ڈالوں گا ؟یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔زینب کہتی ہے میں نے خبیب کی طرح کوئی نیک بخت قیدی نہیں دیکھا ۔خدا کی قسم میں نے ایک روز دیکھا وہ لوہے میں جکڑے ہوئے ہوئے انگور کا خوشہ جو ان کے ہاتھ میں تھا کھا رہے تھے۔ان دونوں مکہ میں میوہ بالکل نہ تھا(تو قیدی کو کون دیتا)زینب کہتی تھی یہ اللہ کی روزی تھی جو خبیب کو اس نے عنایت فرمائی (دنیا میں بہشت کا میوہ کھانے کو بھیجا)خیر جب خبیب کو قتل کرنے کے لئے حرم کے باہر لے گئےتو انہوں نے (اخیر) درخواست یہ کی کہ ذرا دو رکعت نماز مجھ کو پڑھ لینے دو۔انہوں نے اجازت دی۔خبیب نے دوگانہ ادا کیا پھر(اپنے قاتلوں سے)کہنے لگے اگر تم یہ خیال نہ کرتے کہ میں مارے جانے سے ڈرتا تو میں اپنا دوگانہ لمبا کرتا (قرأت کو طول دیتا) یا اللہ ان کا فروں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر پھر یہ اشعار پڑھے ؂ جب مسلماں رہ کے دنیا سے چلوں *مجھ کو کیا ڈر ہے کسی کروٹ گروں میرا مرنا ہے خدا کی ذات میں*وہ گر چاہے نہ ہوں گا میں زبوں تن جو ٹکڑے ٹکڑے ان ہو جائے گا*اس کے جوڑوں پر وہ برکت دے فزوں۔ خیر حارث کے بیٹے(عقبہ نے مار ڈالا اور خبیبؓ نے یہ طریقہ نکالا جو مسلمان اس طرح اسیر ہو کر مارا جائے وہ ایک دوگانہ ادا کرے۔اللہ تعالیٰ نے عاصم جس دن قتل ہوئے ،ان کی دعاقبول کرلی۔نبیﷺ نے اسی روز اپنے اصحابؓ کو خبر دی،ان کی مصبیت بیان کردی۔ان کے مارے جانے کے بعد قریش کے چند کافروں نے کسی کو عاصم کی لاش پر بھیجا کہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر لائے جس کو وہ پہچانیں۔ہوا یہ تھا کہ عاصم نے بدر کے دن قریش کے ایک ریئس(عقبہ بن ابی معیط)کو مار ڈالا تھا(اس لئے قریش کے کافر جلے ہوئے تھے)اللہ تعالیٰ نے عاصم کی لاش پر بھڑوں کا ایک چھتہ قائم کردیا تھا،انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کو بچا لیا۔وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا کاٹ نہ سکے۔

‹ First1516171819Last ›